:سُوال نمبر16
میں لکھا Muslims Ask, Christians Answer۔ جناب کرسچین ڈبلیو ٹرال کی کتابہے کہ مُختلف مذاہب کے پیروکاروں کے لیے اچھّا ہو گا کہ وُہ قابلِ توثیق ایشوز کے بارے میں جانکاری حاصل کریں۔ بین المذاہب ایشوز وُہی ہونا چاہییں جن کے بارے میں ایک جیسی آرا اور ثقہ شہادتیں اور قُبُولیت میسر ہو۔ خلوصِ نِیّت کے ساتھ رضاے الٰہی کے لیے عاجزانہ اطاعت شعاری اور منکسرانہ تابع فرمانی سے کام لیتے ہوئے سب مِل کر اتفاق و یگانگت کی کھری جُستجُو میں نکل پڑیں (آپ بھی ملاحظہ فرمائیے تھِیم گیارہReligious Pluralismسیکشن4 جزو1۔ اس پیراگراف کی آخِری چند سطور صفحہ128)اِس تمہید کے بعد اب جنابِ مصنف سے میرا سُوال یہ ہے کہ اپنے مذہب، خُدا یا (معاذ اللہ) اپنے خُداﺅں کے بارے میں، بالکل مُختلف قسم کی بل کہ کہنا چاہیے، متضاد دِینی تعلیم و تربیت سے اکتساب کرنے والے لوگ، ایسی صُورتِ حال میں، واحدت بین المذاہب کے لیے کیوں ہاتھ پیر ماریں گے اور کیوں کر اتفاق و اتحاد پیدا کر سکیں گے؟ چلیے، لمحہ بھر کے لیے سہی، ہم اس سے صَرفِ نظر کیے لیتے ہیں، مگر اس کا جواب تو پِھر بھی مطلوب ہے کہ باہم اتفاق و قُبُولیت جنھیں چھو کر نہ گُذرے ایسے عقائد و اصول، ایسی دِینی تدریس پر کوئی کیسے ایمان لے آئے؟ ایک کے مذہب میں جو مومن ہے، دُوسرے کے مذہب میں وُہ کافر قرار پاتا ہے۔ اس کا تو مطلب یہ ہُوا کہ یہ اتحادِ بین المذاہب تو بذاتِ خُود ایک متناقض ایشو ہُوا، ایسا اتحاد، ایسی وحدت تو شاید ڈُھونڈے سے بھی نہ ملے، ہے نا یہ بات؟
جواب:۔کیتھو لک تعلیمات کے مُطابِق تمام اِنسانوں کی ایک ہی برادری ہے،پیدایش
سبھی ایک ہیں۔ سیّارئہ زمین پر بُود و باش اختیا رکرنے کے لحاظ سے سب آدمی خالق خُدا کی مخلُوق ہیں،جو کُچھ پیدا ہُوا سب اُسی کے حُکم سے پیدا ہُوا۔ اسی لیے نوعِ اِنسانی کی منزلِ مقصود بھی ایک ہی ہے اور خُدا بھی ایک ہے عظیم ترین، اعلیٰ ترین صفات کا مالک خُدا.... حاجت روائی، رزاقی اور کارسازی اسی پر بس ہے۔ اس کے لطف و کرم کا ظہور، نجات کے بارے میں اس کا رحیمانہ اقدام جو خُداوند یسُّوع مسیح کے صدقے تمام اِنسانوں کا مقدرہے، اس کی رحمت و برکت اور حُکمت ہے جو سب پر چھائی ہے۔ ذرا غور فرمائیے
"وہ ایک سرے سے دُوسرے سرے تک پوری طاقت کے ساتھ پہنچتی ہے اور ملائمت سے ہر ایک چیز کا بندوبست کرتی ہے۔" حُکمت....1:8
"اور وہاں بھی بشارت دیتے رہے۔رسولوں کے اعمال."....7:14
"وہ ہر ایک کو اس کے کاموںکے اعمال کے موافق بدلہ دے گا۔ جو نیکوکاری پر قائم رہ کر جلال اور عزت اور بقا کے طالب ہوتے ہیں اُن کو دائمی حیات دے گا۔رومیوں کے نام."....6:2 اور 7
"وہ چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچّائی کی پہچان تک پہنچیں"۔1۔تیموتاﺅس کے نام4:2
حتّٰی کہ وُہ گھڑی آن پہنچے گی جب مُقدّس شہر(نئے یروشلم) میں خُدا کے برگزیدہ بندے جمع ہوں گے۔ یہ مُقدّس شہر وُہی شہر تو ہے جو خُدا کے نور سے منور و تاباں ہے۔ اور خُدا کے جلال کی تجلی میں ادھر اقوامِ عالم گامزن ہوں گی۔ حوالہ رسُولوں کے اعمال.... تھِیم21، آیت 23 اور اس سے آگے
دیکھیے
(Declaration on the Relations of the Church to Non-Christian Religions: Nostra Aeteate of the Second Vatican Council, # 1)
(دیگر مذاہب کے ساتھ کلیسیا کے تعلُّقات)
جہاں تک خُداے واحد پر ایمان کا تعلُّق ہے، ویٹی کن کونسل کے اعلان نمبر3 کے مُطابِق یہ ہے کہ کلیسیا مسلمانوں کو عزت و تکریم کی نِگاہ سے دیکھتی ہے۔وہ خُداے احد کی بندگی کرتے ہیں، اس خُدا کی جسے وُہ مانتے ہیں کہ زندہ ہے، قائم ہے، اسے بقا ہے فنا نہِیں۔ رحم و رحمت والا ہے، تقدیروں کا مالک ہے، خالقِ کائنات ہے، زمین و آسمان کا مالک ہے اور وُہ خُدا وُہ ہے جو اپنے بندوں سے بھی ہمکلام ہُوا۔
تاہم، اس کا مطلب یہ بھی قطعاً نہِیں کہ خُدا کے بارے میں اسلام اور مسیحیت کے خیالات و عقائد ایک جیسے ہیں۔ نہِیں نہِیں، بڑے ٹھوس، بڑے محُکم، اہم اور بڑے بڑے اختلافات موجُود ہیں۔ مسیحی ایمان کی رُو سے مسیحیوں کا پاک خُدا وُہ ہے جس کی تعلیم اور پہچان بائبل نے کروائی اور وہ، وُہ خُدا ہے جس سے پاک خُداوند یسُّوع مسیح کا ظہور ہُوا۔ یہ ہے تثلیث میں توحید یعنی تین بھی ایک ہی ہیں اور یہی کلیسیائی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔
اس کے باوُجُود مسلم اور مسیحی رضاے ربانی کی تعمیل پر ایک خُدا ہونے پر ایک ہیں، متفق ہیں، رضامند ہیں۔دلوں کے بھید تو خُدا ہی جانتا ہے۔ ہم مسیحیوں کا کوئی دعویٰ نہِیں کہ اس بارے میں ہمیں کوئی خاص ملکہ حاصل ہے نہ ہی ہم پر فرض ڈالا گیا ہے کہ ہم تیقُّن کے ساتھ کہتے پِھریں یہ بات کہ اگر کبھی کِسی شخص نے پورے ہوش و حواس کے ساتھ واقعی خُدا کے اپنے آپ کو لوگوں پر ظاہر کرنے کے عمل کو بچشمِ خُود دیکھا ہو اور پِھر جان بوجھ کے بِلا سوچے سمجھے اور تقصیر و گُناہ و سزا سے بے نیاز ہو کر وُہ تکفیر اور مکر جانے کا مرتکب ہو گیا ہو، تو یہ خُدا کی خُدا ہی جانے!
کیتھولک کلیسیا جانکاری دیتی ہے کہ عظمت و جلال والا خُدا تو چاہتا ہے کہ کفارئہ مسیح کے بدلے ہر کِسی کی مکتی ہو، البتہ مکتی اس کے لیے نہِیں جو بقائمی ہوش و حواس اور بِلا جبر و اکراہ خُداوند یسُّوع مسیح کی مَحَبّت سے منہ پھیر لے جب کہ خُداوند یسُّوع مسیح ہی کی متبرک ہستی ہے جس سے نجات راہ پاتی ہے۔ تاہم، گُناہوں سے مکتی کا وعدہ پُورا تو ہوتا ہے مگر اختیاراتِ کلیسیا اور پاک بپتسمہ سے بالا بالا۔ وُہ لوگ جو سچے سُچّے لوگ ہیں، عادل ہیں اور رضاے ربی اور منشاے الٰہی پر راضی بہ رضا ہیں وُہی دائمی نجات پانے والے ہیں۔ بھلے انھیں اس کا پتا ہی نہ ہو۔ پاک مسیح کا قانونِ نجات تو موجُود ہے، وُہی ان لوگوں کے گُناہوں سے چھٹکارا کے لیے کافی ہے۔ گیان دھیان کے لیے مستفیض ہوں
مُقدّس متی....31:25 اور اس سے آگے
(روزِ قیامت پر آخِری عدالت)
مستندلوگ، مستحقِ نجات بندے، غریب غربا، مسکینوں اور اسیروں میں بکثرت پائے جاتے ہیں جن کا سامناپاک خُداوند سے ہوتا ہے، وُہ دیکھتے ہیں مگر پہچان نہِیں پاتے۔ یہی مخلصی پانے والے لوگ ہیں۔ ویٹی کن کونسل کے آئین کا مسودہ بھی مفیدِ مطلب ہو گا جو کلیسیا کے بارے میں ہے۔
ایسے لوگ کہ اس کی ذِمّہ داری ان پر تو نہِیں، بس کِسی بھی وجہ سے پاک Lumen Gentium no 16
خُداوند کی انجیلِ مُقدّس یا کلیسیا تک ان کی رسائی نہ ہو پائی ہو، وُہ بھی مخلصی پا سکتے ہیں۔ اس لیے کہ خُدا کی مَحَبّت و حمایت جس کا اِنسان حقدار تو نہِیں یعنی حق تو نہِیں جتا سکتا، مگر خُدا کی دین ہے، اس کا تحفہ ہے جس کو عطا ہو جائے ہو جائے، اسی کرم سے شہ پا کربے حد خلوص اور کوشِش سے یہ لوگ ایسے عمل کرتے ہیں کہ خُدا کی رضا و خُوشنودی حاصل ہو جائے اور اس کی آگہی کے لیے ان کا ضمیر کچوکے پر کچوکا دے رہا ہوتا ہے خُداوند کی بخشی ہُوئی مکتی، جان کے کفارے میں، ان کا بھی مقدر بن جاتی ہے۔ ایک مرتبہ اور مگر اس دفعہ بہ نظرِ غائر گیارھویں تھِیم کے سیکشن3
صفحہ123 کے جزو4، 5 اور6 کا مطالعہ کیجیے۔ شکریہ Christian Perspective