German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر126

۔کِسی بھی پیغمبرخدا کی شان میں گستاخی، کارٹون کے ذریعے ان کی بے ادبی کا ارتکاب ہونے پر آپ کیا فرمائیے گا؟

 

جواب:۔مندرجہ ذیل سطور میں ہم ایک پریس ریلیز کا حوالہ پیش کریں گے جو 3فروری 2006عیسوی کو کارل کارڈینل لیمان، کلیسیائی مجلس کے عمومی مشاورتی اجتماع کے سربراہ کی جانب سے جاری کی گئی جس میں اس متنازع فیہ مسئلہ پر مسیحی ردِّ عمل کا اظہار کِیا گیا تھا جو حضرت محمد (P.B.U.H)کے خاکے بنائے جانے سے تعلق رکھتا تھا۔ ظاہر ہے ہم سب مسیحی اس ردِّ عمل پر متفق الرائے تھے اور ہیں۔ مَیں خصوصی طور پر ہمخیال ہوں۔

مل جل کر رہنے جینے کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ ترجیح اس اصول کو حاصل ہے جو اپنے علاوہ دوسروں کے بھی مذہبی عقائد کا احترام و لحاظ کرنے والا اصول ہے۔ تمام مذاہبِ عالم پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ کسی کی عیوب پر مبنی تصویر بنا کے اس کی حرمت و عزت پر حرف لانا اور اس کی ذاتِ اقدس پر طنز و تشنیع اور بد نیتی سے ذاتی حملے کرنا، چاہے جمہوری معاشرے میں اپنی اپنی راے رکھنے کی فرد کو مُکمَّل آزادی ہوتی ہے، مگر کِسی کو ذہنی کرب میں مبتلا کرنے، اس کے مذہبی جذبات و احساسات کو کچلنے، دلی صدمہ پہنچانے، دوسرے کا آرام سکون چھین لینے، انھیں مشتعل کرنے اور ایسا عمل کرنے کہ جس سے فرد فرد کا، قوم قوم کی، ملک ملک کا اور ایک مذہب کے پیروکار دوسرے مذہب کے دشمن ہو جائیں، اس کی کوئی معاشرت، کوئی سماج، اخلاقیات، آئین و قوانین اجازت نہیں دیتے۔ دل پر ہاتھ پڑتا ہے جب بھی کبھی، کہِیں، کِسی بھی مذہب کے بنیادی عقائد پر کوئی ہاتھ ڈالتا ہے۔ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ مسلمان اس ایشو پر کوئی دو راے نہیں رکھتے سب کے سب متفقہ طور پر سمجھتے ہیں کہ اُن کے داعیِ دین کی بے حرمتی کرنے کی جسارتِ قبیحہ کی گئی ہے۔ ان کے مذہب کی کارٹون کے ذریعے توہین کی گئی، ان کے دین کا مذاق اُڑایا گیا، ان کے عقائد پر اوچھی چوٹ ماری گئی اور ڈنمارک کی حکومت کی آنکھوں کے سامنے وہ خاکے شایع کیے گئے جن پر کِسی کو کوئی ندامت نہ تھی، حال آں کہ ہوش و خرد کے قحط پر ملال ایک قدرتی امر ہے۔ تاہم، اس پر بھی غور کِیا جائے، یہ برائی کا بدلہ بڑی برائی سے دینے والا عمل ہے کہ احتجاج کے حق کو غلط انداز میں استعمال کِیا جائے۔ پُرتشدد احتجاج اور حملے، لڑائی جھگڑے، جنگ کی دھمکیاں اور بائیکاٹ کے ڈراوے!

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی

غلط بات غلط ہے، جہاں بھی ہے جس نے بھی کی ہے، یہ گھیراؤ جلاؤ، مار دھاڑ، مذہبی انتہا پسندوں کی دہشت گردیاں، بس اب ختم ہونا چاہییں، ان کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ اگر ہم اکیسویں صدی میں آ ہی گئے ہیں تو اس صدی میں زندہ رہنے کے آداب بھی ہمیں سیکھنا ہوں گے۔ ان تکلیف دہ سانحات اور ان کی علت وہ واقعات جن میں ایک مذہب کے لوگ کِسی نہ کِسی ڈھنگ سے دوسرے مذہب کے لوگوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ واقعی ہمیں باہمی تعامل و تفاعل کے معاملات کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?