German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر56

تو کیا واقعی نو بیاہتا جوڑا خُوشی خُوشی بندھ گیا شادی کے دائمی بندھن میں؟ اور موت اِس بندھن کو کاٹ کے رکھ دینے والی تلوار نہیں؟ اُن کے اِس رِشتے کو ہمیشگی مِل گئی کیا!!! حیات ما بعد میں بھی اُن کی ''جوڑیاں سلامت'' رہیں گی کیا؟ اور، یہ تو بتائیں کہ ہم نے صحیح ہی سُن رکّھا ہے نا کہ آخرت کے بعد کی حیات میں ہمیں نئی تجسیم سے نوازا جائے گا؟

 

جواب:۔ مرنے کے بعد مُجھ پر کیا بیتے گی؟ انسانیت، کم و بیش امکانی حد تک، حیات بعد الممات کی آرزُو لیے مچل رہی ہوتی ہے۔ فلسفیوں،نکتہ وَروں کی تان یہِیں آ کر ٹُوٹی ہے کہ انسان میں جو دم ہے (الٰہی سانس جو اُس میں پھُونکا گیا، چُوںکہ اس کا رُوح سے تعلُّق ہے بل کہ یہ ہے ہی رُوحانی کوئی چیز، اِس لیے سچ مچ تو یہ مرنے سے رہی۔ یہ سُوچ بھی معقُول ہی ہے کہ تکمیل پذیری اور عدل و صداقت کی ہماری خواہش دم توڑ جائے گی، رایگاں جائے گی اگر ہر شَے کا اخیر فنا ہے۔ موت آئی اور سب کُچھ کا خاتمہ ہو گیا۔ خُدا لافانی ہے۔ ہم میں پھُونکا گیا دم بھی تو اُسی کا ہے، اُسی کا ہے تو وُہ غیر فانی کیوں نہیں۔ چُناں چہ سپرٹ اور سول دونوں کو فنا نہیں۔

بائبل مُقدّس ہمیں دعوت دیتی ہے تجربے سے گذرنے کی، سامنا کرنے کی کہ کِس طرح صدیوں پر صدیوں کا سفر کرتے کرتے ہمارے وُجُود، ہماری ہستی کے بُنیادی سُوال کا اصلی جواب قطعی یا مرئی شکل اختیار کر گیا۔ لیکن کلامِ اقدس نے نہ تو ہماری تمنّاؤں کو اور نہ ہی ہماری ذات کو اپنے نِکات کی بُنیاد بنایا، اُس نے اپنا نُقطہء نظر خُدا پر ہی موقُوف رکھا۔ ابتدائی تصوُّر کہ یہ جو مایُوس کُن مبہم وُجُودی جو ہے مخفی دُنیا میں ہماری منتظر ہے، یہ ایسا تصوُّر تھا جسے مذہبی خیالات و اعتقادات کا آدمی اپنے سُوچ کے بھی نزدیک نہیں لا سکتا۔ بہ ہرحال اِس حقیقت سے انکار نامُمکن ہے کہ خُدا حیات کا منبع ہے، سرچشمہء حیات ہے، وُہ فرض براری میں اٹل ہستی ہے، وُہ ہمیں قعرِ مذلّت میں کبھی نہ گِرنے دے گا۔ پس جسے حق کی شناخت ہو گئی، وُہ حق کا قائل ہو گیا، وُہی ہے جو اپنے عقیدے میں پُختہ سے پُختہ تر ہوتا چلا گیا۔ اگر ہم بھی ایسے ہی پکّے مومن ہوں تو خُدا کی مَحَبّت سے موت بھی ہمیں محرُوم رکھ سکنے پر قادر نہ ہو گی۔ اُس کی بارگاہ میں حُضُوری کا انعام ہمیں حاصل رہے گا اور اُس کی بارانِ رحمت و مَحَبّت سدا ہمارے اُوپر برستی رہے گی۔ وُہ بڑا دیالُو ہے، مہربان ہے، اپنے فضل سے ہمیں سرشار کرنے والا، ہمارا خُدا ہے۔ وُہ ہم سے اور ہم اُس سے اور اُس کے بندوں سے پیار کرتے ہیں، یہی خُداوندِ خُدا مُقدّس یسُّوع کا ہمارے اُوپر احسانِ عظیم ہے۔ بائبل مُقدّس ، نئے عہد نامہ نے ہماری تمام اٹکلیں، اُلجھنیں سُلجھادی ہیں۔ ارشاد ہے:

یسُّوع پاک ہی ہماری زِندگی ہے۔ ہم زندہ جاوید ہیں کیوں کہ ہماری زِندگی اسی لافانی ہستی کی مرہُونِ مِنّت ہے اور اسی کی طرف ہم نے لوٹ جانا ہے۔

بُلھّیا ، اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور

موت ہمیں یاد دلاتی ہے، ہم عِزّت، عظمت، ہیبت، قُدرت اور مَحَبّت مَحَبّت، مَحَبّت ہی مَحَبّت والے خُدا عظیم و برتر کی بارگاہ میں اپنے اصلی چہروں کے ساتھ اِستادہ ہیں۔ وُہ ہمارا خُدا ہے، ابدی سچّائی۔ اُس کے حُضُور ہمارے ماسک یک بہ یک گِر جاتے ہیں، نقاب اُتر جاتے ہیں۔ ہماری تمام خُود فریبیاں نقش بر آب ثابت ہوتی ہیں، ہمارے گھمنڈ سراب میں ڈھل جاتے ہیں، پِھر۔۔۔۔۔۔ پِھر اچانک واقعیّت کا رنگ نکھار لیتا ہے۔ ہمارے اندر ایک تفکُّر کسمسانے لگتا ہے، تو کیا ہمارے جیون نے ہمیں ہمارے خُدا تک پہنچا دیا، ہمارا جینا واقعی اکارت نہیں گیا؟ ہم پہ نُورانی سَحَر طُلُوع ہو گئی یا۔۔۔۔۔۔ ہماری چیخ نِکل جاتی ہے، ہم ڈر جاتے ہیں، خوف میں سوچتے ہیں کہِیں ایسا۔۔۔۔۔۔ ایسا تو نہیں، تمام عُمر ہم اندھیاروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے، زِندگی ہمیں مہیب تاریکیوں میں لے آئی اور ہم، افسوس! دُنیا کی ظاہری خُوب صُورتیوں میں اُلجھ کر، خُدا سے دُور ہو گئے، بہُت دُور۔۔۔۔۔۔ جیسے پاتال میں جاگِرے ہوں!! صد افسوس! موت کے ترازُو پر ہماری زِندگیاں تُل گئیں۔ دُنیا کی رنگینیوں کا تو ایک ہی رنگ تھا۔۔۔۔۔۔ اب پتا چلا۔۔۔۔۔۔ وُہ رنگ موت تھا، جس نے عزّت، دولت، حشمت کے تمام ظاہری ر نگ فنا کر دیے۔ المختصر یہ کہ موت میں ہی ہمارے جسموں کی فنا ہماری ذات کا بطن البطون ہے، بس وہی باقی۔۔۔۔۔۔ باقی سب فنا۔ خُداوندِ یسُّوع پاک کی کلیسیا نے ہمیں بتا رکّھا ہے کہ مُقدّس لوگ، خُدا کے ولی، خُداوند کے رسُول سب سیدھے سیدھے بہشت میں جائیں گے۔ خُداوندِ خُدا کا فردوس اُن کے انتظار میں ہے۔ لیکن وُہ لوگ جو کُچھ نہ کُچھ ابھی بھی اپنی جان پر لادے پھرتے ہیں۔ گُناہوں کی تلچھٹ سے جان نہیں چھڑا پائے وُہ ''سیدھے سیدھے'' بہشت میں نہیں جا پہنچے۔ خُدا سے مُلاقات کی اُنھیں اگلی تاریخ مِل گئی، اگلی پیشی تک اُن کے بقیہ گُناہ جو ہیں اُن کی دُھلائی صفائی ہو گی، وہاں جہاں موت کے بعد ارواح اپنے گُناہوں سے پاک کی جاتی ہیں۔ گُناہوں کی سزا، اُن گُناہوں کی سزا جن کی تلافی نہیں ہوسکی، جو قابلِ عفْو تھے ہی نہیں، اُن کی سزا تو بہ ہرحال بھُگتنا ہو گی۔ ا س کے ڈُسکیاں لیتے، اتھرُو پونچھتے، وُہ بھی بہشت کے دروازے سے سر اندر کر کے آ کہیں گے، ہائے ۔۔۔۔۔۔ میں بھی آگیا۔ چُوں کہ ہمارے اجسام دُوسرے درجے کے جُزو نہیں ہیں، وُہ تو ہماری ہستی کا اہم حصّہ ہیں اِس لیے ہمیں بھی بڑی پکی آس دِلائی گئی ہے جب دوبارہ حیاتِ موجُودہ ملے گی، تو آخرت میں پُورے جسم کے ساتھ ملے گی۔ پہلی والی مینوفیکچرنگ فالٹس اس میں نہ ہوں گی۔ جو ہوں گے سبھی حسِین ہوں گے، مُکمَّل۔ پاک خُداوندِ یسُّوع مسیح مُکتی داتا نے ہمیں رُوح، کلبُوت ۔۔۔۔۔۔ دونوں سمیت بچا لیا۔ پاک خُداوند کی بھی صُورت بدلی۔ توقّع ہے اِسی طرح ہمارے بھی اجسام اور ہماری رُوحیں جیسا کہ کلیسیا۔ مُقدّس کنواری ماں کہ خُداوند خُدا کی ماں ہے، اُس کے بارے میں ہم تک علم پہنچاتی رہی ہے، اسی مُقدّسہ کی طرح ہم بھی اپنے جسم اور اپنی رُوح کے ساتھ پِھر تروتازہ اور نئے کے نئے، زیرو میٹر، ہوجائیں گے۔ رسول مُقدّس متی نے 17ویں باب کی پہلی اور دُوسری آیت مُبارکہ میں ابلاغ سے نوازاہے: 

''۔۔۔۔۔۔اور چھے دِن کے بعد یسُّوع پطرس اور یعقُوب اور اُس کے بھائی یوحنّا کو ساتھ لے کر اُنھیں ایک اُونچے پہاڑ پر الگ لے گیا۔ اور اُن کے سامنے اُس کی صُورت بدل گئی اور اُس کا چہرہ سُورج کے مانند چمکا اور اُس کی پوشاک نُور کے مانند سُفید ہو گئی''۔ 

حشر کے روز جی اُٹھنے کی کیفیت پر اِظہارِ خیال کرنا کُچھ ایسی اہم بات نہیں۔ دیکھیے نا، اِس میں کیا معنی خیزی بتائی جائے، جیسے یہ سُوال کہ آیا اُس وقت ہمارے جسم کے اجزاے ترکیبی وُہی ہوں گے جن سے اِس دُنیا میں ہمارا جسم بنا تھا۔ یہ بحث ان نِکات پر مشتمل ہے جو یُوں کہہ لیں کہ ہمارے اِدراک، ہماری فہم سے بالا بالا سے ہیں جب کہ جو چیز اہم ہے وُہ ہے منشاے خُداوندی، بس۔۔۔۔۔۔ کیا ہے اُس کی منشا؟ وُہ ہے ہماری ذاتی، فطری تکمیل۔ اُس کی رضا اِسی میں ہے کہ ہمیں وُہ تمام مواقع اور آسانیاں حاصل ہو جائیں جو ہمیں کاملیّت کے اوج تک پہنچا دیں۔ یہ تو ایک سچ مُچ کی نہایت عُمدہ دعوت ہے! اِس کا ہم سے وعدہ بھی کِیا گیا تھا کہ ہم خُدا میں ایک ہو جائیں گے، آپس میں بھی۔ پس، ہمیں ہمیشگی کی زِندگی کی جو آس دلائی گئی ہے وُہ کوئی خالی پِیلی اشک شوئی نہیں۔ تسلّی ہے، تشفّی ہے، وُہ آس ہے جو بندھائی گئی ہے۔ یُوں ہمیں موقع فراہم کِیا گیا ہے کہ ہم اپنے مقام کو سمجھیں، اپنی منزلت، اپنے مرتبے کو پہچانیں۔ وُہ بُلند ہستی جس کی بُلند نِگاہی میں بنی نوعِ انسان کی اِتنی زیادہ قدر و منزلت ہے اُسی کو ہی تو پُکارا جاتا ہے، خُداوندا! انسان کو عِزّت و وقار و عظمت دلا۔ آزادی و خُود مختاری سے سرفرازکر اور اِس دُنیا میں حُقُوقُ العِباد کی پایمالی کا جہاں تک ارتکاب ہو رہا ہو، اپنی طاقت و قُدرت سے اُسے روک دے۔ ہم اور ہمارے ساتھ ساتھ، اُس خالقِ حقیقی کی تمام مخلُوق نے اُس کے جلال، اُس کی بزُرگی و عظمت کا جُزوِ لاینفک بننا ہی بننا ہے۔ کیا لطیف خیال ہے! یکدم مسحُور کر دینے والا!! ایک گُونہ بے خُودی طاری کر دینے والا!!! یہ ہمیں بے راہ نہیں ہونے دیتا، تمام مخلُوق کو، حتّٰی کہ وُہ بُرائی جو خلقت میں پھیل چُکی ہے اُسے بھی بریکیں لگ جاتی ہیں۔ ہوتا ہے نا ایسے ہی؟ خیر و شر کے نظریے ہی کو لیجیے۔ دُنیا میں نیکی بھی ہے، بدی بھی۔ پاپ ہے تو پُن بھی ہے۔ اِن اَضداد کا خاتمہ ہونا چاہیے، اِس ثنویت نے بڑے بِگاڑ پیدا کیے ہیں۔ اِس کی اب کوئی گُنجایش نہیں۔ رہے نام اللہ کا۔ بس خُدا کی بادشاہت کو باقی رہنا ہے، وُہ چھا جائے، اُسی کو دوام ہے۔ بُرائی اور گُناہ کا تو سایہ تک اِس دُنیا سے غائب ہو جائے۔ کیوں؟ ٹھیک ہے نا!نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری۔ جی ہاں، کلیسیا بھی یہی چاہتی ہے۔ اِسی لیے، ہاں اِسی لیے آنے والے یومِ عدالت کے بارے میں خبرداری کا درس دیتی رہتی ہے۔ ہر طرف نیکی ہو، سب نیک بن جاؤ۔

وقت نکال کے ضرور دیکھیے گا وِنفریڈ ہینٹزے، ''گلاؤبین اِست شوئن'' کیتھولک گھرانوں کے لیے مسیحی تعلیم کی کتاب۔ 

ہارزُم 2001۔ صفحہ173اور آگے

ISBN 3-7698-0887-8

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?