:سُوال نمبر66
۔کیا آج بھی ایسے مسلمان اِس سیّارئہ زمین پر کہِیں موجُود ہیں جو کنوار پن کی زِندگی کو انسان کا گراں بہا وصف سمجھتے ہوں یا تاریخِ اسلام میں کبھی ایسی بھی تحارِیک اُٹھیں جو تجرّد کی قدرشناسی میں پیش پیش رہی ہوں؟
جواب:۔قرآن پاک شادی کے حق میں ہے۔
''تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں اُن کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غُلام لونڈیوں کا بھی۔ اگر وُہ مُفلِس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اُنھیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کُشادگی والا اور علم والا ہے''۔
(القرآن۔۔۔۔۔۔24:32ویں آیت)
(اَیِّم'' ایسی عورت کو کہا جاتا ہے جس کا خاوند نہ ہو، جس میں کنواری، بیوہ اور مطلقہ تینوں آجاتی ہیں اور ایسے مرد کو بھی اَیِّم'' کہتے ہیں)۔
قرآن میں راہبوں کے بارے میں اچھّے کلمات ہی آئے ہیں لیکن اُن کے کنوار پنے کی منّت پر تحفُّظات بھی ہیں۔
''اُن کے بعد پِھر بھی ہم اپنے رسولوں کو پے در پے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ بِن مریم کو بھیجا اور اُنھیں انجیل عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دِلوں میں شفقت اور رحم پیدا کر دیا۔ ہاں رُہبانیت (ترکِ دُنیا)تو ان لوگوں نے از خُود ایجاد کر لی تھی ہم نے اُن پر اسے واجب نہ کِیا تھا سواے اللہ کی رضاجُوئی کے۔ سو اُنھوں نے اس کی پُوری رعایت نہ کی (اتّباع کا راستہ اختیار نہ کِیا) پِھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان لائے تھے اُنھیں ان کا اجر دیا اور ان میں زیادہ تر لوگ نافرمان ہیں''۔
(القرآن۔۔۔۔۔۔57:27)
اسلامی عقائد کے ذیل میںآتا ہے، اسلام میں راہبانہ زِندگی (خانقاہی زِندگی )کا کوئی تصوُّر نہیں۔یہ بھی کہ اسلام میںتجرّد اختیار کرنے کی پذیرائی نہیں کی گئی ۔ابو داؤد نے جو احادیث جمع کیںان میںسے ایک حدیث یُوں روایت کی گئی ہے کہ ایک مسلمان جو شادی نہیں کرنا چاہتا تھا،نہ ہی اس کے پاس اپنی اس خواہش کا کوئی معقول جواز ہی موجودتھا ۔حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اُس سے فرمایاکہ گویا تم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تمھارا شمار شیطان کے بھائیوںمیں ہو ! اگرتو تم کوئی مسیحی راہب بننا چاہتے ہو ،تو کُھلّم کُھلّا ان میں شامل ہو جاو ۔اور اگر تم میرے اُمتی ہو (ہم میں سے ہو )تو پِھر ہمارا راستہ اختیار کرو ،ہمارا راستہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شادی ہے۔
اتنی وضاحتوں صراحتوں کے باوجودبھی بعض تارک الدنیابزرگ اور صوفیہ ہو گذرے ہیںجوشادی سے یُوں دُوربھاگتے رہے جیسے مچھردُھویں سے، عمر بھر تیاگی بنے رہے،دنیااور علائقِ دنیادونوں ہی انھوںنے ٹھُکرا دیے ۔سب سے الگ تھلگ ہو گئے ۔جو شادی شدہ تھے بھی تو وہ اس کو جنجال کے علاوہ توکچھ سمجھتے ہی نہ تھے ۔بیوی ہتھ کڑی،بچے پاؤں کی بیڑیاںقراردیتے تھے اور گھرگرھستی جہنم ۔کنوارپنے کی موجاںگِنواتے نہ تھکتے تھے ۔کنوارا مصیبت کا مارا نہیں،کنوارا راج دُلاراسمجھتے تھے۔راے زنی یہ کی جاتی تھی کہ شادی وادی ،آل اولاد ،خاندانی زِندگی راحتِ قلب و جاں کی جڑ ماردینے والے عوامل ہیں۔ان کو اپنانے پرجو مجبور وہی بندہ خُدا سے اُتنا ہی دُور۔ مجرد ہی یکسوئی کے ساتھ اپنے خالق رازق مالک کی بارگاہ میں حاضر رہ کر اس کے دیدار سے مشرف ہو سکتا ہے، ورنہ تو نُون تیل مرچ کے جھمیلے ہی اسے کِسی قابل نہ چھوڑیں گے۔ایسی ہی وُجُوہ کے ستائے بعض صوفی ایسی ہتھکڑیاںبیڑیاںتُڑوا تُڑواکرجنگلوں، پہاڑوں، غاروں، بیابانوں میں جا جا چِھپتے رہے ۔مردم بیزاری ان کا وصف اور ان کا اعزاز کہلانے لگی ۔کِسی بھی دِین، مذہب، فرقہ، عقیدہ، بھرم، مت، آئیڈیالوجی کے لیے بے ضرر ہوگئے،یہ لوگ ۔ بیوی بچے، گھرگھرانا، عزیز، رشتے دار ،اقُربا یعنی خاندان اور قرابتیںجب تک ان کے نزدیک بے معنی ہوکر نہ رہ جاتیںتب تک انتہائی خلوص کے ساتھ خاص طور سے اپنی پُر جوش عقیدت کے لیے یہی تصوُّر یقین بنتا چلا گیا کہ وُہ صوفی، وُہ مرتاض اپنے آپ کووقف کرہی نہیں سکتا،نہ خشوع اُس کا ساتھ دے گا اور نہ خضوع۔اکثر تو نہیں ،کبھی کبھارمگر کئی مسلمانوںبل کہ مومنوںنے خاندانی ریشہ دوانیوںسے دُورمجرّدہونے میں ہی عافیت پائی ہے ۔اور کچھ عرصہ واقعی وہ سب سے کٹ کٹا کرخُدا کا قُرب تلاش کرنے کے لیے دُوردراز علاقوں کی خاک چھانتے رہے ۔
تقرّب باللہ والے بزُرگ بھُول گئے ، دلاں وچ رب وسدا ۔
مندرجہ ذیل حوالہء آیات سے بصیرت حاصل کیجیے:
''اور تم تین جماعتوں میں ہو جاؤ گے۔پس داہنے ہاتھ والے، کیسے اچھّے ہیں داہنے ہاتھ والے۔اوربائیں ہاتھ والے، کیا حال ہے بائیںہاتھ والوںکا ۔اورجو آگے والے ہیں وہ تو آگے والے ہی ہیں۔وہ بالکل نزدیکی حاصل کیے ہُوئے ہیں''۔(
القرآن۔۔۔۔۔۔ 56۔۔۔۔۔۔88تا 94)
مزید۔۔۔۔۔۔
''پس جو کوئی بارگاہِ الٰہی سے قریب کِیا ہُوا ہو گا۔اُسے تو راحت ہے اور غذائیں ہیں اور آرام والی جنّت ہے ۔ اور جو شخص داہنے (ہاتھ )والوں میں سے ہے، تو بھی سلامتی ہے تیرے لیے کہ تُو داہنے والوں میں سے ہے۔ لیکن اگر کوئی جھُٹلانے والوں گمراہوں میں سے ہے۔ تو کھولتے ہُوئے گرم پانی کی مہمانی ہے۔ اور وُہ دوزخ میں جاتا ہے''۔
(القرآن۔۔۔۔۔۔ 56:88تا94)
اور۔۔۔۔۔۔
''جب فرشتوں نے کہا، اے مریم! اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ایک کلمے کی خُوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہے جو دُنیا اور آخرت میں ذِی عِزّت ہے اور وُہ میرے مقرّبین میں سے ہے''۔
(القرآن۔۔۔۔۔۔3:45)
(حضرت عیسیٰ کو کلمہ یعنی کلمۃ اللہ اِس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ اُن کی پیدایش اعجازی شان کی مظہر اور عام انسانی اُصُول کے برعکس، باپ کے بغیر، اللہ کی خاص قُدرت اور اُس کے کلمہ کُن کی تخلیق ہے)۔
اِس آیت سے اِس بات کی تصدیق سامنے آئی ہے کہ خُداوندِ یسُّوع مسیح اقدس قریب ترین لوگوں میں سے ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہ عصرِ حاضر کی تحریک تبلیغی جماعۃ یعنی تبلیغ کرنے والوں، دِین کی دعوت دینے والوں کی جماعت جو کہ ایک اہم ہمعصر تبلیغِ اسلام کی تحریک ہے جو دُنیا بھر میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرنے کا درس دیتی ہے، یہ جماعت بھی اپنے مخلص و متحرک تبلیغی بھائیوں کو گھر بار خاندان چھوڑ کر ہر برس اوسطاً ایک ماہ کے لیے دُنیاوی آسایشوں اور تفکّّرات سے دُور رہتے ہُوئے تبلیغِ دِین کی خاطر نِکل کھڑے ہونے کی بھرپُور حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ کیوں کہ اب اور کِسی نبی نے نہیں آنا، اور نبیوں والے فرض کو اب اِس اُمّت نے نِبھانا ہے۔
بعض صُوفیوں کے نزدیک دُنیا سے مُنہ موڑ لینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسانی آبادیوں سے دُور چلا جانا چاہیے۔ دُنیادی اوس نُکرے جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے۔ مجلسی زِندگی تیاگ کر دُور کہِیں دریا کنارے یا پہاڑوں کی کھوہ یا گھنے جنگلوں میں جا کُٹیا بنانا اُن کا مرغُوب عمل ہوتا ہے۔
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زُباں کوئی نہ ہو
ایسی جگہوں پہ پہنچ کے وہ اپنی امن، سُکُون کی، (سُکھ کی تو بات ہی چھوڑئیے) البتّہ چین کی انہماک سے تلاش جاری رکھتے ہیں جو اُن پر عشقِ الٰہی تک رسائی کی منزلیں آسان کر دیتی ہے۔ اُنھیں اِس بات کا عرفان ہوتا ہے کہ لوگوں سے، عامیوں سے میل جول اُنھیں خارجی سرگرمیوں میں اُلجھا کر اُن کی منزل کھوٹی کر دے گا۔ ڈر رہے گا! وُہ گُنہگاروں، عاصیوں کی صُحبت میں گُھل مِل جائیں گے۔ ہر صُوفی، ہر تارکِ دُنیا و مافیہا یہ سمجھنے میں اپنے آپ کو حق بجانب ٹھہراتا ہے کہ اُسے تجرّد کی ایسی زِندگی گُزارنی چاہیے جس میں کِسی دُوسرے کا عمل دخل ہر گز نہ ہو۔ کامل یکسُوئی نصیب ہو اور استغراق کے عالم میں وُہ ہواور اُس کا خُدا۔ محویت کی یہ حالت ہو خبر ہی نہ ہو کہ دُنیا میں کوئی اور بھی ذِی رُوح یہاں بستے ہیں۔ تنہائی اور یکسُوئی کی یہ دُنیا جو محبوب اور محب کے علاوہ کُچھ نہیں، بس خلا ہے، یہ صُوفیہ کے خیالات ہیں، رُہبانیت کا بھی یہِیں کہِیں پڑاو ہے، وُہ خانقاہ اور کلیسیا سے باہر نہیں آتے۔ عبادت، ریاضت، معرفتِ حق کی پہچان میں مستغرق یہ صُوفیہ جو نظریات اور رویّے لیے پھرتے ہیں ان کے اثرات صدیوں کا سفر طے کر کے اِن تک پہنچے ہیں۔ یہ قبل از اسلام سے چلے آ رہے ہیں اور ایسے غیر اسلامی مکتبہء فکر سے تعلُّق ہے ان کا جو دُنیا سے بَیر رکھنے والا ہے اور فنا فی اللہ ہو جانے پر اس کا ایمان ہے۔ مزید جاننے اور حوالہ کے لیے مُلاحظہ فرمائیے تورآندرائی کی کتاب ''اسلامِیشے مِیسٹِیک'' دُوسرا ایڈیشن، شٹُٹ گارٹ: کول ہَمّیر، 1980ع، صفحات 56تا58۔
(مطلوبہ اس جواب کے لیے ث۔ا۔ خوری خُورِیوال/ ہاگے مَنّ / ہائینے، اسلام۔ لیکسیکون آئی، صفحہ85اور آگے استفادہ کی گئی ان کی تخلیق ''اسٹیکس'' سے جسے ملخص کر کے پیش کِیا گیا)۔
خُداوند پاک یسُّوع مسیح کی کنواری ماں مُقدّسہ مریم کی دوشیزگی کے بارے میں مسلمانوں کی مذہبی کتاب میں جو کُچھ بیان کِیا گیا ہے اُس کی روشنی میں تو اُنھیں مسیحیوں کے تصوُّرِ غیر متاہل زِندگی کی جانکاری بہتر طور پر ہو جانا چاہیے۔ قرآنی تعلیمات تو یُوں ہے کہ عِفّت مآب پاک کنواری ماں مریم پاکدامن و پاک اندام تھی۔ اس کی تو درخشندہ مثال تھی اور وُہ ایمان رکھنے والوں کے لیے زِندہ نمُونہ تھی۔ مزید جاننے کے لیے توجُّہ مرکُوز کیجیے:
''اور اللہ نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی جب کہ اُس نے دُعا کی کہ اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنّت میں مکان بنا اور مجھے فرعون سے اور اُس کے عمل سے بچا اور مجھے ظالم لوگوں سے خُلاصی دے۔
اور (مثال بیان فرمائی) مریم بنتِ عمران کی جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی، پِھر ہم نے اپنی طرف سے اُس میں جان (رُوح) پھُونک دی اور اُس (مریم) نے اپنے رب کی باتوں اور اُس کی کتابوں کی تصدیق کی اور عبادت گزاروں میں سے تھی''۔
(القرآن۔۔۔۔۔۔66:11، 12)
اِسی طرح مسلم عقیدے کے مُطابِق یسُّوع پاک نبی تھا۔ مسلمان اُسے رُوحُ اللہ اور کلمۃُ اللہ مانتے ہیں۔ بی بی پاک مریم کے بارے میں قرآن گواہی دیتا ہے کہ وُہ نیک، دِین دار اور خُداترس تھی، پرہیزگار تھی اور پاک دامن تھی۔ بہ الفاظِ دیگر وہ قانتین میں سے تھی، عقیدت و احترام کے ساتھ خُدا کی بندگی کرنے والی۔
حوالہ ۔۔۔۔۔۔چھیاسٹھویں سورۃ، آیت نمبر12
مُقدّسہ باکرہ ماں مریم کی تعریف میں قرآن نے کہہ دیا ہے کہ بطور صِدِّیقہ وُہ ایسی خاتون تھی جو خُدا کے کلام اور پیغام پر مُکمَّل یقین اور بھروسا رکھتی تھی۔
''مسیح ابنِ مریم سِوا پیغمہر ہونے کے اور کُچھ بھی نہیں، اس سے پہلے بھی بہُت سے پیغمبر ہو چکے ہیں، اُن کی والدہ ایک راست باز عورت تھیں۔ دونوں ماں بیٹے کھانا کھایا کرتے تھے، آپ دیکھیے کہ کِس طرح ہم اُن کے سامنے دلیلیں رکھتے ہیں، پِھر غور کیجیے کہ کِس طرح وُہ پھرے جاتے ہیں''۔
(القرآن۔۔۔۔۔۔5:75)
قرآن پاک کنواری ماں کے بارے میں بتاتا ہے کہ یہ وہ خاتون تھی جو معمُول کی مصرُوف زِندگی سے دست کُش ہو کر دُور ایک مقام پر چلی گئی جہاں ہمہ تن متوجِّہ ہو کر خُدا کی یاد میں مشغُول رہ سکتی تھی:
''اس کتاب میں مریم کا بھی واقعہ بیان کر۔ جب کہ وُہ اپنے گھر کے لوگوں سے علیحدہ ہو کر مشرقی جانب آئیں۔
اور اُن لوگوں کی طرف سے پردہ کر لیا، پِھر ہم نے اُس کے پاس اپنی رُوح(جبرائیل ؑ) کو بھیجا، پس وُہ اُس کے سامنے پُورا آدمی بن کر ظاہر ہُوا''۔
(القرآن۔۔۔۔۔۔19:16،17)
(مشرقی جانب سے مُراد بیت المقدس کی مشرقی جانب ہے۔ اور یہ علیحدگی اور حجاب یعنی پردہ خُداوندِ قُدُّوس کی عبادت کی غرض سے تھا تا کہ اُنھیں کوئی نہ دیکھے اور یکسوئی حاصل رہے یا طہارتِ حیض کے لیے)۔
اِس حوالہ کی جیّد عالِم، محدّث الترمذی (۔۔۔۔۔۔وفات892ع) نے تفسیر یُوں بیان کی ہے کہ حضرت مریم سے کہا گیا کہ تزکیہء نفس کے لیے ریاضت میں عُمر بسر کریں یا گیان دھیان اور دِل کے شوق سے ذِکرِ خُداوندی میں محو رہیں۔ خُدا جلّ شانہ' بھی اُن کا دِل اپنی محبّت سے معمور کر دے گا اور اُن کی رُوح پر بھی اس غالب، حکمت والے کا ہی غلبہ رہے گا تا کہ خُدا جلال والا اُنھیں ہمیشہ اپنی طاقت و قُدرت کے حصار میں محفوظ و مامُون رکھے اور تا کہ یُوں بی بی پاک کی معدوم ہوتی یا مایوسی کی پریشانی سے منتشر ہوتی (بکھرتی) نیک تمنّاؤں کو ایسا ہونے سے پہلے ہی روک دیا جائے۔
مُقدّسہ کنواری ماں مریم سے توقّع کی گئی تھی کہ وُہ خلوت میں عبادتِ الٰہی کرتی رہے تا کہ اس کے سُکُون میں کوئی مخل نہ ہو اور خُدا کے جلال ظاہر کرنے کی کیفیّت اُس کے مُشاہدے میں آ سکے۔ یہ منزل نصیب ہی تب ہوتی ہے جب لوہا بھٹّی میں تپ تپ کر اس کی آگ میں خُود بھی آگ ہو جاتا ہے یا پِھر اُسے آگ میں سُرخ آگ کر لیا جاتا ہے۔ یہ خُدا کا خاص انعام، خاص فضل اور اُس کی خاص برکت ہے۔
قرآنِ پاک کی رُو سے خُدا نے تمام ایمان لانے والوں کے لیے مُقدّس کنواری ماں کی حیاتِ طبیہ کو انسانیت کے لیے ایک ماڈل، ایک نمُونے کی حیثیّت دے دی۔ مسیحیّت میں جب کوئی اس کی مثال کنوار پن و پاکدامنی اختیار کرے تو اُسے خُدا کی لگن، اس کے کلام سے لگاو اور اس کی بندگی میں خُود سِپُردگی کے سُلُوک والی راہیں پاک ماں کی طرح ہی طے کرجانا ہوتی ہیں۔ خُود کو تکلیف میں ڈال کر روحانی بھلائی کے لیے مجاہدے کرنا پڑتے ہیں۔ پاک ماں مریم کی قلبی، ذِہنی، رُوحی عبادات و مناجات کی جو تشریح کی گئی ہے وہ ایسا بیان بالصراحت ہے جو عین منطبق ہوتا ہے مذہبی خدمت میں شِدّت سے متمنّی بُلند پروازی کی رسیا مسیحی شخصیتوں کے استغراقی جماعت (گیانی جماعت) میں شمولیت کی منّت پر، اور وُہ کیا ہے؟ وُہ یہی تو ہے کہ مُقدّسہ مریم کے نقشِ قدم پر چلنا جسے کہا جائے۔ دُوسرے مسیحی مذہبی گھرانے، اعلیٰ درجات کی آرزُو میں گیانیوں دھیانیوں کی عملی تصویر بننے کے لیے دلجمعی سے محنت و کوشِش کرتے ہیں۔ ان کے سامنے معیارِ کمال و فضیلت کا حامل آدرش ہوتا ہے اور وُہ منزلِ مقصُود ہوتی ہے نگاہوں میں جو مُقدّسہ عذرا مریم کی آنکھوں میں بسی تھی۔ علّامہ ترمذی نے اُن کے مطمحِ نظر کو یُوں ادا کِیا ہے کہ خُدا کا جلال ظاہر کر کے یعنی اُسے گلوری دے کر اور اُس کی مسلسل ستایش و حمد و ثنا کرتے ہُوئے محنت و پُختہ لگن کے ذریعے اس نصب العین کی تکمیل کے لیے جِدّو جُہد کو کامیاب بنانا ہوتا ہے۔ یہی انسان کی معراج ہے۔
پس، ہم برملا کہہ سکتے ہیں، مذہبی بنیادوں پر جو مرد و خواتین مجرّد رہتے اور دوشیزگی کی زِندگی اختیار کرتے ہیں اور سماجی اُصولوں سے تجاوز کرنے کی جُرأت بھی حال آں کہ ان اُصُولوں، قوانین اور شریعت کی حدُود میں رہنے اور پابندی کرنے کی ان سے زیادہ توقّع تھی۔ مگر تجرّد کی زِندگی اُنھوں نے سُوچے سمجھے ارادے، شوق، محنت، خُلُوصِ لگن کے ساتھ اختیار کی تا کہ خُدا کی بے پناہ محبّت وُہ زیادہ سے زیادہ سمیٹ سکیں۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں قرآن گویا ہے کہ یہ لوگ خُدا کے مقبُول ترین بندوں میں شُمار ہوتے ہیں۔ بہُت عزیز اور بہُت قریب بندے۔ مِنَ الْمُقَرِّبِیْن! کہا گیا انھیں۔ چناں چہ ہم بجا طور پر یہ کہتے ہیں کہ کنوارہ رہنے کی روایت اسلامی دُنیا کے لیے ذرا بھی اجنبی نہیں۔ شادی کے بندھنوں سے آزاد زِندگی کو ترجیح دینے کی تلقین تو صُوفیہ کرام اپنے مریدین اور شاگردوں کو ایک زمانے سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ چھڑوں، چھڑے چھانڈوں، یعنی کنواروں کی طرزِ حیات کو تو بعض صُوفیہ نے، اولیا نے، ازدواجی زِندگی پر یُوں بھی فوقیت دی ہے بشرطے کہ اس کنوار پنے کے پیچھے جو نیّت کارفرما ہو وُہ سو فی صد اپنی عُمر خُدا کے لیے وقف کر دینے پر محمول ہو۔ جینا مرنا سب سانس سانس خُدا کریم کے نام تا کہ بندہ جم کے، ٹِکا کے اللہ کے دِین، اسلام کی خدمت اور اس معبُودِ واحدکے لیے پل پل زُہد و ریاضت اور اس کی پُر خُلُوص اور بے ریا پرستش میں گُزار سکے۔ اپنی ہستی خُداکے حُضُور نذر گُزار دے، صِرف اُس کے حُضُور۔ الغزالی (وفات 1111ع) نے اپنی معرکۃ الآرا تصنیف ''احیاءُ العُلُومُ الدِّین'' میں صُوفیہ میں سے ایک صوفی الدارانی کی بات نقل کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ اُلفتِ محبوب میں جو حلاوت ہے وہ غیر شادی شُدہ بندے سے زیادہ بھلا کِسے معلُوم۔ اور وہ جب تنہائی میں، یکسوئی سے اُوپر والے کے ساتھ تار بندھا ہوتا ہے، ان لمحوں میں ذرا سا بھی کِسی کا دخل در معقُولات جان و دِل پر جو آرے چلا جاتا ہے اس کے کرب سے بھی خُدا کے لیے اس کی محبّت اور زبردست عقیدت میں ڈولے ہُوئے تنِ تنہا، فنا فی اللہ انسان کے اور کون واقف ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے شادی کے جکڑ بند میں پھنسے اور بعد کی ذِمّہ داریوں میں گِھرے بندے کو کب ہوش اور کہاں اِتنی فرصت کہ وُہ ایسی وارداتِ قلبی کا چُٹکی بھر مزہ بھی کبھی چکھ سکے۔ (تھامس میشیل کے آرٹیکل سے مزید استفادہ کیجیے جو ''دی واؤز آف ریلیجیئس لائف اِن این اسلامک کانٹیکسٹ'' کے عنوان سے روم کے مجلہ انکاؤنٹر میں چھپا۔ یہ فروری 1987ع کا شمارہ نمبر132تھا)۔
نام ور مصلح جمال الدین افغانی (1897۔1838ع) کا ذِکر یہاں بے جا نہ ہو گا۔ آپ اُستاد تھے عبدہ' محمد (1905۔1849ع) کے، اُنھوں نے بھی ساری زِندگی اکلاپے میں ہی گُزار دی۔ اپنے دِینی مشن میں ایسے کُھبے کہ ہوش ہی نہ رہا۔کبھی گھر بسانے کا سوچتے۔ اپنی فعال اور انتہائی توانا و محرّک زِندگی کے دوران جو زیادہ تر دُور و نزدِیک اسلامی ممالک کے اسفار کرتے گُذری۔ بار ہا اُن کے مدّاحوں نے، شاگردانِ رشید اور سیّد جمال الدین افغانی کے معترف اسلامی دُنیا کے رہنماؤں، دِینی رہبروں، پیرانِ طریقت اور علماے شریعت نے چاہا کہ آپ کو اپنا داماد بنا لینے کا اعزاز اور اس کی سعادت حاصل کر لیں مگر سیّد صاحب اپنے مقصد میں بہُت سنجیدہ تھے، نہیں چاہتے تھے کہ اُن کی منزل کھوٹی ہو، اِس لیے اپنے نصب العین کی فکر کے علاوہ اُنھوں نے اور کوئی فکر نہ پالی، 59سال تجرّد میں بِتا دیے۔ آپ اپنے مشن کی تکمیل پر زور دیتے ہُوئے کہتے کہ اسلام کی نشاۃ الثّانیہ میری دُلھن ہے۔ پان اسلامزم سے میرا عقد ہو چُکا۔ ذرا غور فرمائیے، موازنہ کیجیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ افغانی کا دِینی خدمت کا جذبہ، اُن کی لگن، کنوار پن کے لیے اُن کے جواز اور ان پر اُن کی مستقل مزاجی کنوارے رہنے کے مسیحی عہد کے لیے اہم دلائل اور تحریک و ترغیب سے کِس قدر مِلتے جُلتے ہیں۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ کنوارا یا سدا کنواری رہنے کی مَنَّت پُوری کرنے کا عزمِ صمیم، اپنے آپ کو بس مسیحی برادری کی دِینی خدمت کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وقف کر دینے کی پکّی اور سچّی سوگند یا کلیسیا سے مُکمَّل وفاداری، اطاعت شعاری کا حلف اور اس پر ہر پل پابند رہنے کی صادق نیّت۔ اس پر خُداوند یسُّوع مسیح پر ایمان لانے والے کا یہ عقیدہ کہ کلیسیا خُداوندِ خُدا کا اسراری بند ہے، مصلُوب اور مُردوں میں سے زِندہ۔
یاد رہے کہ جنسی عمل کی پابندیاں بھی بعض فرض قسم کی اسلامی، عبادات کا جُزوِ لاینفک ہیں۔ ماہِ رمضان کے روزہ کے دوران نہ صِرف کھانے پینے سے ہاتھ روک لینے کا حُکم ہے، کِسی قسم کے سیکسی شغل اشغال کی بھی ممانعت ہے۔ حُرمت کے مہینوں میں کم و بیش اور حجِ بیت اللہ کے ایّام میں جنسی عمل سے مُکمَّل پرہیز کی ہدایات ثابت ہیں۔ یہ فرامین، ہدایات، پابندیاں اِس لیے نہیں کہ اسلام میں جائز جنسی عمل کوئی فعلِ قبیح ہے۔ یہ کوئی بُرائی نہیں۔ وظیفہء زوجیت تو ثواب کے زُمرہ میں آتا ہے۔ یہ کبھی کبھار کی ممانعت، موقع محل کے مُطابِق، یُوں روا رکھی گئی ہے کہ ایسی باتوں سے پرہیز بندے کی توجُّہ اپنے معبُود کی طرف ہی مُرتکز رکھ سکنے کے لیے روا رکّھا گیا ہے۔ دھیان اِدھر اُدھر انتشار کا شکار نہ ہو خالص خُداوند جلال والے کی طرف لگا رہے، دِل و دماغ اور حسیات پُر کشش عوامل کی طرف نہ بھٹکیں، گیان اسی کی طرف مبذُول رہے جس کی خاطر اِتنا کشٹ کاٹا جا رہا ہے۔
جائز کو ناجائز نہیں قرار دیا گیا، فقط عارضی طور پر روکا گیا ہے۔
مختصر مختصر یُوں کہا جا سکتا ہے کہ بے شک اسلام خاندانی اور گھریلو زِندگی کی اچھّائیوں، فائدوں اور ان کی اہمیت و قدر افزائی پر زور دیتا ہے لیکن مذہبِ اسلام اور اسلامی طرزِ بُود و باش کے اجزاے لازم ایسے ہیں جو مسلمانوں کو کنوار پنے کی زِندگی جو خالص خُدا کے لیے ریزرو ہو، دُنیا کی تمام آسایشوں اور آلایشوں سے مُنہ موڑ کر زِندگی خُدا کی رضا، اُس کی خُوشنُودی اور اُس کے احکام کی بجا آوری کے لیے وقف کر دی گئی ہو اور اس پر مسیحی مومن اور مومنائیں پُورے پُورے قائم رہ کر، ایفاے عہد کرتے ہُوئے، پاکدامنی سے گُذر بسر کر رہے ہوں اور اپنی منّت دِل و جان سے نبھاتے ہوں تو اِس طرزِ عمل کو سمجھ سکنے میں وُہ عناصر جنھیں ہم نے اجزاے لازم بولا ہے، مسلمانوں کے لیے بہُت مُمِد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ا یسا عملی طور پر کر دِکھانے والے مسیحی خواتین و حضرات مُبارک کے مستحق ہیں، خُداوند پاک کی برکتیں ہمیشہ ان پر سایہ فگن رہیں۔ آمین۔
یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ انفرادی طور پر مِین میکھ نکالنے والے بعض مسلمان برادران بحث و تمحیص اور دلیل و حُجّت پر اُتر آنا پسند کر سکتے ہیں کیوں کہ مسیحیوں کا اپنے لیے اس طرز کی زِندگی کا انتخاب غیر فطری لگتا ہے اور الہامِ الٰہی سے مُطابقت رکھتا نظر نہیں آتا جب کہ بعض بل کہ بہُت سے دیگر مسلمانان ان کے فہم سے برعکس، بس متجسّس سے دِکھائی پڑیں گے اور شاید اُنھیں یہ کنوار پن کی مسیحی مَنَّت عجیب عجیب سی بھی لگتی ہو گی۔ وُہ ضرُور جاننا چاہیں گے کہ مجرّد زِندگی یا دوشیزگی یعنی باکرہ رہنے کی حیات کے پیچھے اصلیّت کیا ہے، وُہ اِس حقیقت سے آگاہی ضرُوری خیال کریں گے کہ آخِر اِتنی بڑی سماج کی ضد اقدام کے لیے آخِر کیا تحریک ہے کہ بعض مسیحی کنوار پنے میں بسر کرنے والی زِندگی بہ رضاو رغبت خُود ہی اختیار کرنے کو سعادت اور برکت سمجھتے ہیں۔ ویسے بھی مسلمانوں میں ایک نرم گوشہ ہمیشہ سے موجُود رہا ہے کیوں کہ وُہ ایک فطری میلان سا بھی محسوس کرتے ہیں ان لوگوں کے ضمن میں کہ جو اپنا سب کُچھ ذاتِ باری کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ اُن کی حیات و ممات سب خُدا کی نذر گُزار دی جاتی ہے۔ ایسی ہستیوں کے مسلمان بڑے قدردان ہیں۔ کیوں کہ:
وفاداری بشرطِ اُستواری اصل ایماں ہے
مرے بُت خانہ میں تو کعبہ میں گاڑ و برہمن کو
مسلمانوں کے اعتراض نُما ایسے سُوالات کے جوابات فکری و نظری سطح پر دینے کے بجاے عملی صُورتِ حالات اُن کے سامنے رکھنے کی ضرُورت ہے۔ اصل زِندگی سے ایسی مثالیں اور گواہی کشید کی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں ایسے نیکو کاروں، پرہیز گاروں،عبادت گزاروں اور دِینی خدمت گاروں کی رہتی دُنیا تک کبھی کمی نہیں واقع ہوسکتی کہ
جو اپنی زِندگی کا لمحہ لمحہ پاک خُداوند خُدا کے لیے مخصوص کرتے چلے آئے ہیں۔ وُہی بات کہ
چنگی آں کہ مندی آں
سائیاں تیری بندی ہاں
انجیلِ مُقدّس کے مُطابِق اپنی زِندگیاں خاص خُدا شان و جلال والے کی بارگاہ میں پُورے خُلُوص و استحکام سے وقف کر دینے والوں اور متبرّک ہستیوں کے نزدِیک تنگدستی میں بھی فلاح چِھپی ہے، پاکدامنی اور سادگی میں بھلائی کی نعمت مستُور ہے، خُدا اور کلیسیا کی اطاعت گُزاری کا ثمر مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کا فضل ہے۔ یہ محض لفّاظی نہیں، الفاظ کی عملی شکل ہے جو کلیسیا کے خادموں کا وصفِ معتبر ہے۔