German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر132

۔بائبل مقدس۔۔۔۔۔۔ عہد نامہء قدیم میں کہاں تو اتنی بے رحمی کہ خُدا اپنے بندوں کو جدال و قتال کے احکامات صادر فرماتا ہے اور پھر اچانک نئے عہد نامہ میں اتنی رحمدلی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے وہ اپنے ماننے والوں کو حکم دینے پر اُتر آیا کہ دشمن سے صلہء رحمی کرو، اس سے پیار محبت کے ساتھ پیش آؤ۔ یک بہ یک اتنی بڑی تبدیلی! وہ مالک ہے جو مرضی کرے، مگر کوئی سبب بھی تو ہو گا؟

 

جواب:۔وقت جامد نہیں، اپنے ارتقاء کا سفر جاری رکھتا ہے۔ بتدریج، یکے بعد دیگرے، واقعات کے ظہور کے ساتھ ساتھ، نشوونما پاتے نظریات کا استنباط بھی وقت کے تابع ہے۔ بائبلی کہانیاں جب روایت کی جاتی ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بھی ارتقائی منازل ساتھ ساتھ طے کر رہی ہوتی ہیں جیسے یہ سوال کہ آیا اصولی طور پر یہ جائز عمل ہے کہ اپنے ہمساےے کو بے رحمی سے ہلاک کر دیا جائے، یا بائبل مقدس کے وہ بیانات جن میں فوج بندی یعنی تشکیلِ عساکر اور جنگ آزمائی سے متعلق احکامات کا حوالہ موجود ہے۔ ان کی مذہبی اہمیت اور جنگ کا اخلاقی جواز کیا سب کا دُرُست تسلیم کر لیا جانا ضروری ہے؟ یہی وہ مقام ہے جہاں خُداوند قدوس کی طرف سے بندوں کو یہ توفیق ودیعت کی گئی ہے کہ وہ واضح اور درجہ بہ درجہ بڑھتا ہوا شعور حاصل کریں اور اسے کام میں لائیں اور یہ جاننے کے لیے کوشش کریں کہ منشاے خُداوندی کا مقصود و مطلوب ہے کیا۔ خُدا کی مرضی اپنی ہیئت و حدود کے اظہار کی کامل صورت پاک خُداوند یسوع مسیح کی حیاتِ بابرکات میں اور اس کی تعلیمات میں کُوٹ کُوٹ کر بھری دِکھائی دیتی ہے۔

زیرِ تبصرہ ارتقا کے دو اہم جزو ہیں جنھیں آپ کی آسانی کے لیے یوں ترتیب دیا گیا ہے، ملاحظہ فرمائیے:

1:۔ پانچویں حکم میں کِسی کی جان لینے اور سفّاکانہ قتل کی ممانعت

 اور خُداوند یسوع کا فرمانِ صلہء رحمی، محبت اور حسنِ سلوک


انسانی زندگی کی قدر و قیمت او رانسانی وقار و عظمت کے بارے میں کلامِ مقدّس کے عہدِ عتیق کے ذیل میں دس احکاماتِ الٰہی کے پانچویں حکم میں جامع طور پر اس کے متعلق ربی اصول و ضوابط طے کر دیے گئے ہیں: کِسی کی جان لینے کا تمھیں کوئی اختیار نہیں۔۔۔۔۔۔

تُو خُون مت کر۔

خُرُوج۔۔۔۔۔۔13:20ویں آیت

تُو خُون مت کر۔

تثنیہء شرع۔۔۔۔۔۔17:5

بائبل مقدس سفّاکانہ قتل کے بجاے جان لینے یا ہلاک کرنے کی اصطلاح استعمال کرتی ہے، کیوں کہ عبرانی زبان میں جو متعلقہ اصطلاح مستعمل ہوئی ہے اس میں مار ڈالنے یا ہلاک کر دینے سے سفّاکانہ قتل یا بے رحمانہ خون خرابہ مراد نہیںلیا گیا بلکہ غیر قانونی قتل کے معانی میں ذِکر کِیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر اس کا ترجمہ وہی ہے، جان لینا، ہلاک کرنا، مار ڈالنا، یہ الگ بات کہ قتل تو قتل ہے، سفاکیت تو اس میں شامل نظر آتی ہی ہے۔

شریعتِ موسوی کا پانچواں حکم بنی اسرائیل میں اُس قائل کرنے والے عمل کی عکّاسی کرتا ہے کہ زندگی مقدس اور عزیز ترین تحفہء خُداوندی ہے۔۔۔۔۔۔

زندگی ایک بار ملتی ہے
دوستو ! زندگی سے پیار کرو

اس کا اطلاق حیاتِ انسانی پرہوتا ہے کیوں کہ انسان میں خُدا نظر آتا ہے اور انسانی شرف و اوصاف و احترام کا منبع، سرچشمہ بھی وہی مقدس ذاتِ اُلُوہی ہے۔ کِسی کو یہ شخصی اختیار حاصل نہیں کہ وہ بزعمِ خود اتنا ظالم بن جائے کہ دوسرے کو زندگی سے ہی محروم کر دے۔ جو انسان دوسرے انسان کی زندگی سے کھیلنے کا مرتکب ہوا، اُس نے سنگین خلاف ورزی کی، وہ مطلق العنان امپائر کی نگاہوں میں مستوجبِ سزاے سنگین ہی ہو گا۔ جو شخص کِسی انسان کو خون میں لت پت کرتا ہے، اس کو بھی کوئی انسان ہی خون میں نہلا دے، یہی حکمِ ربی ہے۔ کیوں کہ رب نے ہی انسان کو ہو بہ ہو اپنی مثال پیدا کِیا، کوئی اگر کِسی انسان کو قانون اور شریعت ہاتھ میں لیتے ہوئے ختم کر دینا چاہتا ہے تو ایسا کرنے سے پہلے دس لاکھ مرتبہ سوچے، غور کرے، یومِ عدالت مکافاتِ عمل اپنے انتظار میں پائے گا۔۔۔۔۔۔

جو انسان کا خون بہائے انسان ہی سے اس کا خون بہایا جائے گا، کیوں کہ خُدا کی صورت پر انسان بنایا گیا ہے۔

تکوین۔۔۔۔۔۔باب9:آیت6

کِسی بشر کی حیات کی ڈوری کاٹ دینا، قتلِ عمد یعنی ارادتاً کِسی کو ہلاکت و فنا سے دوچا کر دینا، یہ تو بہت بھیانک گناہ ہے۔ اسے تو زمین سے، خُداوند یسوع مسیح اقدس کے حضر، انصاف، دادرسی کے لیے فریاد کرنے کی پکار سے تعبیر کِیا جائے گا۔۔۔۔۔۔

پھر اُس نے اُس سے کہا: تُو نے کیا کِیا ہے! تیرے بھائی کے خون کی آواز زمین سے مجھے پکارتی ہے۔

تکوین۔۔۔۔۔۔10:4

جس نے قتل کِیا اس کے لیے موت کی سزا ہے اور قاتل کو عقوبت سے رہائی کی التجا کا بھی حق نہیں۔ مگر سہواً قتل سرزد ہو گیا تو پناہ کے شہر میں اسے امان حاصل رہے گی:۔

اور جماعت قاتل کو مقتول کے ولی کے ہاتھ سے چھڑائے اور اُس کو پناہ کے شہر میں جہاں اس نے پناہ لی تھی پھر بھیج دے جب تک کہ سردار کاہن جو مقدس تیل سے مسح کِیا گیا ہے وفات نہ پائے۔

عدد۔۔۔۔۔۔25:35

درحقیقت، انسانی برادری کی طرف سے زبردست اخلاقی دباو یا مقاطعہ ظاہر کرتا ہے کہ جمیعتِ انسانیت کِس قدر حیات بخش خُدا کا احترام و تکریم کرتی ہے۔۔۔۔۔۔

پانچویں حکم کے مقصد کا مثبت پہلو ہی وہ اثبات ہے جو نسلِ انسانی اپنے ساتھی انسانوں کے لیے محفوظ رکھتی ہے جس کی نینہہ (اساس) خُداے لم یزل پر مُکمَّل ایمان و یقین پر قائم ہے اور اُس اعتماد پر مبنی ہے جو خُدا شان والے کو اپنے بندوں پر ہے۔

بمطابق مقدس عہد نامہء قدیم، یہواہ کی بارگاہ میں سرِ تسلیم خم کرنا تب مُکمَّل طور پر صحیح و جائز اقبال کہلاتا ہے جب خُدا کی بندگی اور اس کے بندوں سے پیار اور ان کی خیر خواہی کے لیے کوشاں رہنے کی نیت پختہ تر ہو۔ دونوں سے وفاداری وہ اساس ہے جسے مقدس بائبل میں محبت کہا گیا ہے، خُدا سے عقیدت و محبت اور انسانیت کا احترام اور اس سے محبت۔ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ دس مقدس قوانین اور قضاؤں کا اگر آپ بغور مطالعہ کریں اور تثنیہء شرع کے پانچویں باب سے اکتسابِ فیض کریں گے تو آپ پر روشن ہو گا کہ تثنیہء شرع بنیاد فراہم کرتی ہے اطاعتِ خُداوندی میں مُکمَّل سرشاری کے مطالبہ کی، یوں کہ۔۔۔۔۔۔

سُن اے اسرائیل! خُداوند ہمارا خُدا وہی اکیلا خُداوند ہے۔ پس تُو خُداوند اپنے خُدا کو اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے پیار کر۔

تثنیہء شرع۔۔۔۔۔۔4:6اور5

خدا سے محبت کے بارے میں جو شریعت کا حکم ہے اس کے ذیل میں ہمساےے سے محبت کی بھی اہم ترین تلقین ہے جس کا واضح تاثر یہ سامنے آتا ہے۔۔۔۔۔۔

تُو اپنی قوم کے فرزندوں سے بدلہ نہ لے اور نہ اُن سے کینہ رکھ۔ تُو اپنے ہمساےے کو اپنے مانند پیا کر۔۔۔۔۔۔

احبار۔۔۔۔۔۔18:19

گویا پڑوسی کی محبت خُدا کی محبت کے مانند لازم ٹھہری۔ ہمساےے سے فقط ہم وطن ہی نہیں تمام آدم زاد مراد ہیں بل کہ دشمنوں کو بھی خُداوند یسوع پاک نے شامل قرار دیا ہے، اجنبیوں کو بھی۔

اگر کوئی اجنبی تمھاری سرزمین میں تمھارے ساتھ رہے، تُم اُس پر ظلم نہ کرو۔۔۔۔۔۔

احبار۔۔۔۔۔۔33:19اور آگے


ہمارے خُداوند خُدا نے اسے بھی اپنے آپ کی طرح پیار کرنے کا ارشاد فرمایا۔

مشیّتِ ربّانی کے اظہار کے عمل کا لُبِّ لُباب مِیکا نبی نے یوں بیان کِیا:

اے انسان!

تجھے دِکھایا گیا ہے کہ نیکی کِس بات میں ہے اور کہ خُداوند تجھ سے کیا طلب کرتا ہے، یعنی یہ کہ تو عدل کو عمل میں لائے اور رحمدلی کو عزیز جانے اور اپنے خُدا کے حضور فروتنی سے چلے۔

میکا۔۔۔۔۔۔8:6

خدا سے محبت اور پڑوسی سے بھی محبت کرنے کا جو حکم بائبل مقدس کے عہدِ عتیق کے فرامین میں وارد ہوا ہے جس کا حوالہ تثنیہء شرع4:6اور احبارباب19: آیت 18سے اوپر دیا جا چکا ہے، وہ رضاے ربّانی کا اظہارِ خاص ہے اور اپنے ٹھوس سماجی بہتری اور اُمّت کے لیے اصلاح و فلاح کے کاموں کے ذریعے انبیا کرام اسے ہی اپنا حوالہ بناتے رہے ہیں، وہی کامل اتفاق، مُکمَّل توثیق اور مؤثر تصدیق کے ساتھ پورے استحکام یافتہ اعمال کے ذریعے فائق طور پر مقدس خُداوند یسوع المسیح اور اس کے مبارک پیغامِ الٰہی میں نمایاں طور شامل رہا ہے۔ خُداوند یسوع پاک نے اپنے اُسوئہ حسنہ میں اسی دہری محبت کو اپنا معمول بنائے رکھا تھا۔ وہ بذات ِخود عدلِ خُداوندی ہے اور وہی خُدا کے انصافِ عظیم کا سندیس لایا جو مشفقانہ رحم و کرم کا متقاضی اور اسی پر محکم و مختتم ہے۔ ہوشیع نبی نے خُداوند کا فرمان بتایا:

کیوں کہ مَیں قربانی نہیںبل کہ دین داری پسند کرتا ہوں اور سوختنی قربانیوں کو نہیں بل کہ خُداشناسی کو زیادہ چاہتا ہوں۔

ہوشیع۔۔۔۔۔۔6:6

لیکن تم جا کر اس کے معانی دریافت کرو کہ ''مَیں قربانی نہیں بل کہ رحم پسند کرتا ہوں'' کیوں کہ مَیں راست بازوں کو نہیں بل کہ گنہگاروں کو بُلانے آیا ہوں۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔13:9

لیکن اگر تُم اس کے معنے جانتے کہ ''مَیں قربانی نہیں بل کہ رحم پسند کرتا ہوں'' تو تم بے قُصُوروں کو قُصُووار نہ ٹھہراتے۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔7:12

قتلِ انسان قتلِ انسانیت قرار دیتے ہوئے اس کی روک تھام کی شریعت کے معانی میں وسعت خُداوند یسوع پاک نے عطا کی۔ صرف بہیمانہ قتل کی ممانعت نہ کی گئی بل کہ طیش و غضب، دُشنام طرازی و تہمت لگانے کو بھی قتل سے کم جرم نہ قرار دیا گیا: گئے وقتوں کے لوگوں سے کبھی کہا گیا تھا:

تم سُن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ تُو خون مت کر۔ اور جو کوئی خون کرے عدالت میں سزا کے لائق ہو گا۔ لیکن مَیں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنے بھائی پر غصّے ہو، عدالت میں سزا کے لائق ہو گا۔۔۔۔۔۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔21:5، 22

قتل کا ارتکاب کرنے سے منع کرنے اور غیظ و غضب کو کنٹرول میں رکھنے کی اور نفرت و حقارت سے باز رہنے کی جو حتمی وجہ بتائی گئی وہ یہ تھی کہ دیکھا جائے تو محبت کے پھیلاو کی تلقین و فہمایش ہی سب قوانین کی ماں ہے۔

(عالمِ فقہء فریسی نے اُس سے پوچھا: اے اُستاد! شریعت میں بڑا حُکم کون سا ہے؟)

اُس نے اُس سے کہا کہ تُو خُداوند اپنے خُدا کو اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے پیار کر۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے اور دوسرا جو اِس کے مانند ہے یہ ہے کہ تُو اپنے ہمساےے کو اپنے مانند پیار کر۔ ان ہی دو حکموں پر تمام تورات اور صحائفِ انبیا کا مدار ہے۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔37:22تا40

پیار کی اس فراوانی کے فرمان و پیمان کو مقدس خُداوند یسوع مسیح نے اس قدر تعبیر کی وسعت دے دی کہ اُس نے اسے تمام انسانیت کے لیے لازمی قرار دے دیا۔ اس پیار میں سب کو شامل کر لیا۔ حتّٰی کہ ایمانداروں، گنہگاروں، ماننے والوں، نہ ماننے والوں، دوستوں، عزیزوں، رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ اجنبیوں، پردیسیوں، مخالفوں اور دشمنوں کو بھی پیار کا سائبان عطا کر دیا۔۔۔۔۔۔

لیکن۔۔۔۔۔۔ مَیں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دُشمنوں کو پیار کرو اور اپنے ستانے والوں کے لیے دُعا گو رہو۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔44:5

پاک خُداوند یسوع نے فرمان نافذ کِیا جو نہ صرف خیر اندیشی، بہی خواہی اور کریمُ النّفسی کے قلبی رجحان، داخلی برتاو اوراختیار کے لیے مہمیز کا کردار ادا کرتا تھا بل کہ نیکی، احسان اور خدمت و محبت کے لیے عملی اقدامات کی تحسین بھی کرتا تھا۔ مقدس خُداوند تو خود خُدا تھا ہمسایوں کی محبت میں جس کا دائرہ وسیع ہو کر غریب و ناداروںکو، کمزور و ناتواں، بے کسوں کو، ناموافق حالات کا شکار، بے بسوں اور لاغر و بیمار لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ بصیرتِ مسیحی کے تحت (حوالہ کے لیے دیکھیے: مقدس متی۔۔۔۔۔۔1:25تا46)اقوام و مللکی نجاتِ کُل پر اُس کا فیصلہ ہو یا پاداش و ہلاکت پر، اس کا انحصار اِس پر موقوف تھا کہ آیا ہم نے الٰہی محبت میں خیرات و فلاح کے اعمال پوری عقیدت، جذبے اور تن دہی سے جاری بھی رکھے یا نہیں۔ مقدس خُداوند یسوع مسیح نے تو فرما دیا تھا کہ دوسروں سے برتی جانے والی فیاضی اور سخاوت و محبت ایسے ہے جیسے خود اس کی ذاتِ بابرکات کے لیے کی جانے والی سخاوت اور فیاضی و محبت ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔بادشاہ جواب میں اُن سے کہے گا، مَیں تم سے سچ کہتا ہوں، چوں کہ تم نے میرے اِن سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے کِسی ایک کے ساتھ ایسا کِیا تو میرے ہی ساتھ کِیا۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔40:25

۔۔۔۔۔۔تب وہ اُن کے جواب میں کہے گا، مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ چوں کہ تم نے ان چھوٹوں میں سے کِسی ایک کے ساتھ نہ کِیا، تو میرے ساتھ بھی نہ کِیا۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔45:25

''تم قتال پر نہیں اُتر آؤ گے''۔۔۔۔۔۔ اس فرمان کو، اس حکمِ ربی کو جسے تمام لوگوں نے تسلیم کِیا اُس میں جو واضح تبدیلی نظر آتی ہے اور اس نے یہ شکل اختیار کی، وہ اعلانِ مسیحیت کے بعد ظہور پذیر ہوئی جس سے اُسے جدید اور واضح سمت میسر آئی اور اس سے انسانیت کماحقہ' فائدہ اُٹھانے کی پوزیشن میں آگئی۔ حیاتِ انسانی کو تحفظ مِلا۔ یہ جو مثبت نتائج کا حامل تعینِ رُخ تھا اس بدلتی دنیا میں بستے لوگوں پر بہت اچھا اثر مرتب ہوا اور عصرِ حاضر کو اس نئی ہیئت کی ضرورت بھی تھی جب کہ اس ضرورت کے افادیت والے پہلوؤں کا ہمارے باپ، دادا، پردادا ادراک ہی نہ کر پائے۔ وقتی ضرورت ان کے پیشِ نگاہ رہی، طویل المدتی فوائد سے بے خبر رہے۔

سائینسی، تکنیکی، اقتصادی، معاشرتی و سیاسی تقاضوں، مواقع اور سہولتوں نے پہلے سے کہیں زیادہ نہ صرف شاندارانسانی زندگی کو مزید شاندار بنا دیا ہے بل کہ انسانی حیات کی حدود و قیود اور خطرات سے بھی وقت سے پہلے خبردار کر رکھا ہے۔ ایسا بھی کبھی ممکن ہو گا؟ ایسے سوچ کے خواب بھی گذشتہ زمانوں میں دیکھ سکنا بعید از خیال تھا، محال تھا۔ زندگی کے بارے میں انسان کے ذمہ دارانہ رویے اس کی اپنی حیات کے تمام زاویوں کو بہتر فارم عطا کرتے ہیں اور وہ دوسروں کی زندگی اجیرن کرنے سے حتی المقدور باز رہتا ہے بل کہ دوسروں کا جیون سنوارنے میں حسبِ استطاعت مُمِد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ معاشرے میں جیو اور جینے دو کا اصول مقبولِ عام ہے۔ قوموں اور ملتوں میں باہمی امن اور بھائی چارہ قائم رہتا ہے۔ لوگ سکون بھری زندگی کے بُلھّے لُوٹتے ہیں، زندگی سُکھ چین کے ساتھ گزارتے ہیں، بشرطے کہ صاحبانِ اقتدارو مسند نشینانِ ریاست ایسے نہ ہوں جن کو لوڈ شیڈنگ پر اس مشورے سے کِسی نے نوازا تھا۔۔۔۔۔۔

شہر اگر طلب کریں تم سے علاجِ تیرگی
صاحبِ اقتدار ہو آگ لگا دیا کرو

الغرض، یہ بات تو طے ہے کہ شریعتِ موسوی کے دس احکاماتِ الٰہی میں سے پانچواں حکمِ ربی ایک ہی وقت میں انفرادی بھی اور اجتماعی بھی ایسا معاشرتی حکم تھا، جو وقت کا تقاضا تھا۔

Abbreviated and slightly modified from: Leben aus dem Glauben, Catholic Adult Catechism, Vol. 2, pp. 270-75

نمبر2: محبت کا حکمِ یسوع اور جنگ کا موضوعِ بائبل

حال آں کہ جدید دور کی تحقیق پرانے عہد نامہ کے اس باب میں پس و پیش سے کام لیتی ہے کہ زمانہء قدیم کے یہودی مذہبی جنگوں سے روشناسی رکھتے تھے، یوں کہ شہریوں میں مشترک مفادات اور باہمی اتحاد کے زور پر وہ بہت سی جنگیں ڈیلفی کے معبد کی حمایت اور تحفظ کی خاطر لڑ چکے تھے کیوں کہ اُن وقتوں کی قوم بنی اسرائیل مدتوں اس عقیدہ پر قائم رہی کہ جنگ کا دیوتا ہی اسرائیلیوں کا معبود ہے، وہ رب الافواج ہے، اسرائیلی لشکروں کا خُداوند ہے۔

تب داؤد نے فلسطینی سے کہا: تُو تلوار اور نیزہ اور ڈھال لے کر میرے پاس آتا ہے اور مَیں تیرے پاس رب الافواج اسرائیل کے لشکروں کے خُدا کے نام سے، جس کو تُو نے ذلیل کِیا ہے، آتا ہوں۔

1۔ سموئیل۔۔۔۔۔۔45:17

ابتدائی تاریخِ اسرائیل آج بھی یوں ہی سمجھی جاتی ہے کہ مقدس یہواہ کی نصرت سے اپنے متعلق فیصلہ خودمختاری سے کرنے کا حق رکھنے والی سپاہ کی تاریخ ہے۔ یہواہ اور اسرائیلیوں کے ارادوں میں بڑی مطابقت ہے، اس لیے اسرائیلیوں کی لڑائیاں، یہواہ کی لڑائیاں رہی ہیں۔ دشمن کا ستیاناس ہی مار دینا، اس کی تباہی وبربادی سب گویا یہواہ کی ہی کارروائی و کارنامہ ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔

اور (ہارون کی بہن نبیّہ) مریم نے ان کے لیے دُہراو گایا۔۔۔۔۔۔ مَیں نغمہ گاؤں گا خُداوند کا جل جلالہ'۔

دونوں گھوڑے اور گاڑی کو سمندر میں پھینک دیا۔

(Miriam sang for them: Sign to the Loard, because He has won a golorious victory; He has thrown the horses and their riders into the sea)
خروج۔۔۔۔۔۔21:15

تاہم، سلطنتِ داؤدی کے محفوظ و مضبوط، استحکام کے ساتھ ہی اسرائیل عسکری خودمختاری اور شناختِ مشیّتِ باری تعالیٰ پر چیں بہ جبیں نظر آیا اور رعیت پر فوج کے غلبہ پر کئی سوال ذہنوں میں کُلبُلاتے رہے۔اسرائیلیوں کو رفعت و عظمتِ سلطنت فوج کی مرہونِ منّت دِکھائی دے رہی تھی۔ سیاسی اقتدار اور ملٹری اختلافات کے بکھیڑوں میں اکثر اسرائیل کو گھسیٹ لیا جاتا رہا اور اس رسّاکشی کے سبب وہی ہو جس کا ڈر تھا!بابل میں اسیری کے دنوں میں اسرائیلیوں پر بہت ہی بُرا وقت گذرا۔ جنگ کے عین بیچوں بیچ دلیرانہ غلغلہ برپا کرنے کے لیے ان کے نبی کی پکار خاص اہمیت اختیار کر گئی۔۔۔۔۔۔

اور اُس سے کہہ کہ خبردار رہ! حوصلہ رکھ اور نہ ڈر اور اُن جلتی ہوئی اور دُھواں دیتی ہوئی دو لکڑیوں کی دُموں سے نہ گھبرا۔

اشعیا۔۔۔۔۔۔4:7

اور ایسا ہی اِفرائم کا سرسامرہ ہے اور سامرہ کا سر رِمل یاہ کا بیٹا ہے۔ اور اگر تم یقین نہ لاؤ گے تو تم قائم نہ رہو گے۔

اشعیا۔۔۔۔۔۔9:7

کیوںکہ مالک خُداوند اِسرائیل کا قدوس یوں فرماتا ہے کہ توبہ کر کے اور چین سے رہ کر تم بچ جاؤ گے اور خاموشی اور توکّل میں تمھاری قوت ہو گی، لیکن تم نے نہ چاہا۔

اشعیا۔۔۔۔۔۔15:30

نبی نے اعلان کِیا کہ یہواہ خود ہی ان کے ہتھیار بے کار و تباہ کر دے گا۔۔۔۔۔۔

اور اُس روز مَیں یزرئیل کی وادی میں اسرائیل کی کمان توڑ دُوں گا۔

ہوشیع۔۔۔۔۔۔5:1

اور وہ عین آخری لمحاتِ مقررہ میں امن سے ہمکنار کردے گا تب لوگ شمشیروں کو ہل کے پھلوں میں ڈھال دیں گے۔

وہ بہت سی قوموں کے درمیان عدالت کرے گا اور بہت سی قوموں کا انفصال کرے گا تو وہ اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں اور اپنے نیزوں کو درانتیاں بنائیں گی۔ پھر قوم پر قوم تلوار اونچی نہ اُٹھائے گی اور وہ پھر کبھی جنگ کی مشق نہ کریں گی۔

اشعیا۔۔۔۔۔۔4:2

اور وہ بہت سی اُمتوں کے درمیان عدالت کرے گا اور دُور کی طاقت ور قوموں کا انفصال کرے گا تو وہ اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں اور نیزوں کو درانتیاں بنائیں گی۔ پھر قوم پر قوم تلوار نہ اُٹھائے گی اور وہ پھر کبھی جنگ کرنا نہ سیکھیں گے۔

میکا۔۔۔۔۔۔3:4

ہائے وہ روز!! بڑی توقعات بندھی ہیں کہ یہواہ کی طرف سے آخر آخر وقتوں میں ایک فوجی آپریشن عمل میں لایا جائے گا جو مصر کی طرح دنیاوی اقتدار کا خاتمہ کر دے گا، ہر ہائپر پاور اپنے انجام کو پہنچتی رہی ہے اور قیامت کے نزدیک جو چھائی ہو گی وہ بھی فنا ہو جائے گی۔ حوالہ کے لیے حزقیال باب30(مُکمَّل) سے استفادہ کیجیے۔

مکابین کے دور میں بھی اسرائیلی فوج کی ترتیب و ترکیب اور حکمتِ عملی کا ہر طرف غلغلہ و غلبہ تھا، جب کہ قومِ یہود کے حبر (ربی) امن کی فضیلت، اہمیت و فوقیت پر بطورِ خاص زور دے رہے تھے کیوں کہ امن میں ہی خُدا کی رضا ہے اور اُسی کی ذات سے امن موسوم ہے۔ تاہم، فی زمانہ، اب جب اسرائیلی ریاست کا وجود دنیا کے نقشے پر اُبھارا ہی جا چکا ہے، صلح جوئی اور امن پر اسرائیل شاذ و نادر ہی آمادہ دِکھائی دیتا ہے۔ مصالحت اس نے طاقت والے انگوٹھے کے نیچے دبا رکھی ہے اور دنیا پر اس کی اقتصادی و معاشی اجارہ داری ہے، جو اسے کسی سمجھوتے پر مائل ہونے سے روکنے کی خاطر سدِّ سکندری ثابت ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔

مسیحیت کے آغاز کا دور بھی عجیب ہی دور تھا، ہر طرف بڑی بڑی آویزشوں، بھیانک تضادات اور شورشوں کا دور دورہ تھا۔ قابض رومیوں کے ساتھ کوئی دِن نہ گذرتا تھا کہ تصادم نہ ہوتا ہو، رومی حکمرانوں کے خلاف کھلی بغاوت کا سماں تھا اور آزادی کی جنگ اپنے عروج پر تھی لیکن مقدس خُداوند یسوع مسیح نے اپنی ذات سے منسوب سیاسی سیناریو سے اپنے آپ کو ایک فاصلے پر ہی رکھا۔۔۔۔۔۔

تب یسوع نے اُسے کہا: اے شیطان! دُور ہو۔ کیوں کہ لکھا ہے:

تُو خُداوند اپنے خُدا کو سجدہ کر۔

اور صرف اُسی کی عبادت کر۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔10:4

تب یسوع نے اُس سے کہا: اپنی تلوار کو اُس کی جگہ میں رکھ کیوں کہ وہ سب جو تلوار کھینچتے ہیں، تلوار ہی سے ہلاک ہوں گے۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔52:26

تب یسوع نے اُنھیں پاس بُلا کر اُن سے کہا، تم جانتے ہو کہ وہ جو غیر قوموں کے سردار سمجھتے جاتے ہیں، اُن پر حکم چلاتے ہیں اور اُن کے اُمرا اُن پر اختیار جتاتے ہیں۔۔۔۔۔۔

مقدس مرقس۔۔۔۔۔۔42:10اور اس سے آگے بھی

یسوع نے جواب دیا کہ میری بادشاہی اِس دُنیا کی نہیں۔ اگر میری بادشاہی اِس دُنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑائی کرتے تا کہ مَیں یہودیوں کے حوالے نہ کِیا جاتا۔ مگر میری بادشاہی یہاں کی نہیں۔

مقدس یوحنّا۔۔۔۔۔۔36:18

شروع شروع کی امتِ مسیحی نے جب ایک طرف خُداوند یسوع پاک کے مُنہ سے اپنے آپ کو ابنِ بشر ابنِ آدم کہتے سنا اور ساتھ ہی اس خطاب کو بھی اپنے لیے پسند کِیا کہ اسے مردِ غمناک اور غمناک خادمِ خُدا بھی کہا جائے تو اس جوڑ کی ہیئت کذائی اور تاثر جو اس سے پیدا ہوتا تھا وہ مسیحیوں کو مرغوب نہ ٹھہرا۔ انھوں نے خُداوند کو سیاسی مسیحا ماننے سے گریز شروع کر دیا۔ خُداوند یسوع پاک نے ہمساےے سے اُنس و محبت کی ہدایت کے ساتھ تشدد و زورآوری کی نفی اور اس سے دُور رہنے کی تلقینِ مزید بھی کی۔ اس نے اپنے پہاڑی وعظ میں کہا۔۔۔۔۔۔

تم سُن چکے ہو کہ کہا گیاتھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ مگر مَیں تم سے کہتا ہوں کہ برائی کا مقابلہ نہ کرنا بل کہ جو تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے۔ اور اگر کوئی عدالت میں تجھ پرنالش کر کے تیرا کُرتا لینا چاہے تُو چُغا بھی اُسے لے لینے دے۔ اگر کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے، اُس کے ساتھ دو کوس چلا جا۔ جو کوئی تجھ سے کچھ مانگے، اُسے دے اور جو تجھ سے قرضہ چاہے اُس سے مُنہ نہ موڑ۔۔۔۔۔۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔38:5تا42

تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا، اپنے ہمساےے کو پیار کر اور اپنے دُشمن سے کینہ رکھ۔ لیکن مَیں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دُشمنوں کو پیار کرو اور اپنے ستانے والوں کے لیے دُعا مانگو او رجو تمھیں ستائیں اور بدنام کریں اُن کے لیے دعا مانگو۔ تا کہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے، فرزند ٹھہرو۔ کیوں کہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں پر طلوع کرتا ہے۔ اور راست بازوں اور ناراستوں پر مینہ برساتا ہے۔ کیوں کہ اگر تم اُنہی کو پیار کرو جو تمھیں پیار کرتے ہیں تو تمھارے لیے کیا اجرہے۔ کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے؟

اگر تم فقط اپنے بھائی ہی کو سلام کرو تو تم کیا فیاضی کرتے ہو؟ کیا غیر قوموں کے لوگ بھی ایسا نہیں کرتے؟ اس واسطے تم کامل ہو جیسا تمھارا آسمانی باپ کامل ہے۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔43:5تا48

ان مثالوں سےViolence(سخت تباہ کن قوت کے استعمال ) کی پہچان کرائی گئی ہے کہ اس کے ذیل میں کیا کیا صورتیں اور اعمال سامنے آتے ہیں۔ ان کی چند مثالیں یہ ہیں: نقصان دِہ برتاو، قوت یا طاقت کا ناجائز استعمال۔۔۔۔۔۔ بیان و جذبات کی غیر معیاری شدت، سیاسی تشدُّد، بعض ریاستی اداروں کی سختی، دہشت گردی اور مذہبی شدت پسندی۔ پاک خُداوند نے یہ انتباہ بھی کِیا:

ہر ایک شخص اعلیٰ حاکموں کے تابع رہے کیوں کہ ایسی کوئی حکومت نہیں جو خُدا کی طرف سے نہ ہو۔ اور جتنے موجود ہیں وہ خُدا کی طرف سے مقرر ہیں۔

رومیوں۔۔۔۔۔۔1:13اور اس سے بھی آگے

آپس کی محبت کے سوا کِسی کے قرضدار نہ رہوکیوں کہ جو ہمساےے سے محبت رکھتا ہے اُس نے شریعت کو پورا کِیا۔اِس واسطے یہ کہ ''تُو زِنا مت کر، خون مت کر، چوری مت کر، لالچ مت کر''۔ اور اِن کے علاوہ جتنے حکم ہوں ان کا خلاصہ اس ایک ہی بات میں ہے کہ ''تُو اپنے ہمساےے کو اپنے مانند پیار کر''۔ محبت ہمساےے سے بدی نہیں کرتی اس واسطے محبت شریعت کی تعمیل ہے۔

رومیوں۔۔۔۔۔۔8:13تا10اور آگے بھی

یہ کشاکش، یہ ہیجان مسیحیت کے اس تعلُّقِ خاص کی تصویر کشی کرتا ہے جو جنگ اور امن کے ساتھ اب تک منسوب چلا آرہا ہے۔۔۔۔۔۔

یہ جو دِن، وقت، زمانہ ہے کہ جس میں ہم جی رہے ہیں اس میں زرعی یا صنعتی میدان میں جو ایجاد و پیداوار ہو رہی ہے اس سے ہٹ کے اگر آپ دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ایک دوسری طرح کی ایجاد و پیداوار کی بھرمار نے سب کا بگل بجا دیا ہے۔ زمین پر ظاہر اور چھپی ہوئی ایسی ہزاروں سہولیات ہیں جو ہولناک قسم کا اسلحہ، گولہ بارود، جوہری ہتھیار وغیرہ یوں بنا رہے ہیں جیسے آخری آخری عالمی جنگِ عظیم کی تیاریاں کر رہے ہوں جس میں نہ مفتوح بچیں گے نہ کوئی فاتح رہے گا۔ قدرت کی طرف سے بڑے انتباہ، بڑی نشانیاں سامنے آتی ہیں مگر کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ اوجڑی کیمپ راولپنڈی کا اشارہ سنبھل جانے کے لیے ننھی ترین مثال تھی۔ کلیسیا نے تو اپنا فرض ادا کر دیا، بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیاروں کے استعمال کے اخلاقی جواز سے وہ دست کش ہو چکی ہے۔ حتّٰی کہ یہ بھی نہیں شاید باور کِیا کرایا جا سکتا کہ کسی بھی برحق، مبنی بر انصاف بل کہ واجب جنگ کی جو روایت چلی آ رہی تھی اس نے بھی راست امن کے مثالی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اپنے اوپر اسے فوقیت دے دی ہے۔ کلیسیا کی مجلس کی طرف سے پیش کردہ طریق براے انصاف و داد رسی، امن و سکون اور تحفظ واستحکام براے موجودات و مخلوقات نے ضروری نشاندہی کر دی ہے تا کہ صحیح سمت اختیار کر لی جائے۔

(from Wolfgang Lienemann, art. Krieg in: Evangelisches Kirchenlexikon [Gröttingen, 1989], Vol. 2, pp 1477-1481).


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?