German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر141

۔روزِ آخر(روزِ حشر)کیا ہے؟ کیسا ہو گا؟

جواب:۔وہ اصلی عنصر جسے مسیحیت لازمی جزوِ ایمان سمجھتی ہے وہ ہے روزِ آخر، اور اس پر ویسے تو سوال نمبر125(کتاب کے صفحہ14) کے جواب میں سیر حاصل تبصرہ کِیا جا چکا ہے، پھر بھی آپ کی تشفیِ مزید کے لیے مندرجہ ذیل سطور پیشِ خدمت ہیں:

جو مر چکے وہ دوبارہ کیسے اُٹھ کھڑے ہوں گے؟

 

ہماری زبان، ہمارے الفاظ ہمارے اِس جہانِ فانی اور اِس کی حقیقت پر تو روشنی ڈال سکتے ہیں پر ہمیں اُس زبان، اُن الفاظ پر عبور حاصل نہیں جو جہانِ آسمان کا احاطہ کر سکیں جہاں ربِّ کائنات کی بادشاہی قائم ہے اور دائم ہے۔ اسی طرح معرفتِ ربّی کے لیے بھی ہماری مقدور بھر کوششیں ادُھوری کی اُدھوری رہ جاتی ہیں کیوں کہ ہمیں اعتراف ہے ہمارا شمار ''عاماں'' میں ہے ''خاصاں'' میں نہیں جب کہ یہ سودا ہی خواص کا ہے، خُدا کی چنیدہ ہستیوں کا۔ ہم عامیوں کا کہاں۔ یہ تو ایک طویل مسافت ہے اور ہم شروع کے چند ہی سنگِ میل پار کرتے کرتے ''ہَفّے'' (ہانپے) کھڑے ہیں، منتظر ہیں اُکھڑے سانس قائم ہو لیں تو آگے بڑھیں۔ خُدا، جہانِ خُدا، یہ تو بجھارتیں ہیں جنھیں بوجھنے کے لیے بڑے فہم و ادراک کی ضرورت ہے جس کے حصول کے لیے روح القدس میں مقدس خُداوند یسوع مسیح کی برکت و مددکی تمنّا ہے۔ اِسی کرید، اِسی تجربے سے ہمارے اسلاف گذر چکے ہیں۔اُنھوںنے بڑا سر مارا اور پوچھتے رہے کہ مُردے کیوں کر دوبارہ جی اُٹھیں گے؟۔۔۔۔۔۔ قبروں میں جو رزقِ خاک ہو گئے وہ کیوں کر پوری تجسیم کے ساتھ پھر گوشت پوست کے مُکمَّل انسان بن جائیں گے؟۔۔۔۔۔۔ زندگی میں جو ہاتھ پاؤں سے معذور تھے، گونگے بہرے اندھے تھے، وہ جب اُٹھائے جائیں گے تو کِس ہیئت میں اُٹھیں گے؟۔۔۔۔۔۔ معصوم بچہ جو مر گیا، جب آسمانِ بہشت میں داخل ہو گا وہ کیا تب بھی بچہ ہی ہو گا یا بڑا ہو کے جنت پہنچے گا؟۔۔۔۔۔۔ قدیم پیشینگوئیوں کے آسرے خُدا کو پانے کی آس اُمید لیے اور خُداوند یسوع پر ایمان لانے کے متمتنی جو لوگ تھے، اپنی نیک خواہشات پوری ہونے کے انتظار میں ہی رہے اور قضا نے اُنھیں آ لیا، نہ خُدا ہی ملا نہ یسوع پاک سے اُن کی مُلاقات ہوئی ایسے مرحومین کے ساتھ بہ روزِ حشر کیا سلوک ہو گا؟

ان تمام، بل کہ مزید بھی کئی، سوالات ہیں جن کے مناسب جوابات کا ہمیں یارا نہیں، اس لیے توجہ بار بار خُداوند یسوع پاک کی جانب ہی منعطف ہوتی ہے۔ وہ جو مُردوں میں سے زندہ اُٹھا۔ ویسے تو خُدا عظیم و برتر کے جلال میں اس کی ہیئت ہی بدل گئی لیکن یہ بھی ہے کہ اپنی ارفع ترین عمیق محبت کے باوصف تمام انسانوں کی مکتی کے لیے اس نے ان پر اپنی جان قربان کر دی، باوجودے کہ اس کو پہنچائی گئی صعوبتوں اور اذیتوں کے زخم اس کے جسدِ مبارک پر تازہ رہے، مند مل نہ ہو پائے اور اس کے والہانہ پیار کی نشانی بن گئے۔ خالی قبر، ٹھونکی گئی میخوں کے نشان، نئی اور پُراَسرار جی اُٹھنے والے خُداوند مسیح کی عیدِ ظہور۔ یہ نشانیاں تقاضا کناں ہیں کہ ہم برملا کہیں کہ جو مر چکے، اپنے پورے جسموں کے ساتھ اُٹھائے جائیں گے، ان کی شکل و صورت، جسم کی کیفیت میں واپس وہی تبدیلی نمایاں ہو گی جو جلال دیے جانے سے پہلے تھی۔ یہ قلبِ ماہیئت بالکل ویسی ہے جیسی اس دانہء گندم کی جو کھیت میں جا کر بیج بنتا ہے، موت میں اس کی ٹرانسفرمیشن ہوتی ہے، یہی موت اس کی زندگی میں بدلتی ہے، کونپل پھوٹتی ہے، پودا بنتی ہے اور پھر کھیت کا کھیت خوشہ ہاے گندم بن کر لہلہاتی فصل کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہی امرِ ربی کی نمُو ہے جو ہمیں دوبارہ کی زندگی کے بارے میں شک کے اندھیروں سے نکال کر حقیقت کی چکا چوند میں لے آتی ہے۔۔۔۔۔۔

مَیں تم سے سچ کہتا ہوں

جب تک گیہوں کا دانہ زمین میں گر کر مر نہیں جاتا، اکیلا رہتا ہے۔

لیکن جب مر جاتا ہے تو بہت سا پھل لاتا ہے۔

مقدس یوحنا۔۔۔۔۔۔24:12

یہ زندہ ہو جانا، اُٹھ بیٹھنا، پیدایش پھر پیدایش کے بعد مرنا اور مرنے کے بعد پھر جی اُٹھنا، یازندہ کِیا جانا، کیا عملِ خُداوندی ہے؟ جب روح کو جسم سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے تو موت واقع ہو جاتی ہے، وہ جسم جس پر انسان عمر بھر نازاں رہا اس کے مرنے کے بعد خراب ہونا، زائل ہونا شروع کر دیتا ہے۔ روح تو اس میں سے نکل کر خُدا کی بارگاہ میں باریاب ہونے جا پہنچی، پیچھے میت حشرات الارض کی خوراک بن گئی، عطر پھُلیلوں میں رچایا بسایا جانے والا جسم سڑاند مارنے لگ جاتا ہے، اُدھر روح اپنے جسم سے دوبارہ ملاپ کے لیے انتظار کی گھڑیاں گِن رہی ہوتی ہے اور جسم۔۔۔۔۔۔ جسم تب تک اپنی بے رُوحی کے ادراک سے خالی مٹی میں مٹی ہوا رہتا ہے او رجب تنویرِ الٰہی اسے حاصل ہو جاتی ہے تو روح واپس اس سے آ ملتی ہے۔خدا ذوالجلال اپنی قدرتِ کاملہ کے ساتھ، حتمی طور پر اسے اس زندگی سے ہمکنار کر دیتا ہے جس زندگی کو فنا نہیں، ہمیشہ ہمیشہ کی بقا حاصل ہے۔ روح و جسم کا مرکب زیستِ لافانی میں ڈھل جاتا ہے اور اس کے لیے وسیلہ پاک خُداوند یسوع المسیح کی وہ قدرت و طاقت ہے جس سے وہ مُردوں میں سے زندہ ہوا۔

(حوالہ کے لیے دیکھیےCCC.997)

خدا قادرِ مطلق کی طاقت و شانِ کبریائی میں سمائی الوہی محبت اور حیاتِ انسان کی پُراَسراریت کو پیشِ نگاہ رکھتے ہوئے مقدس رسول پولوس نے قُرنتس میں ان لوگوں سے خطاب کرتے ہو ئے کہا جو خُداوند یسوع مسیح میں پاک ہوئے اور خُدا کا فضل یسوع پاک میں جنھیں بخشا گیا:

۔۔۔۔۔۔ جو کچھ نہ آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کان نے سنا ہے او رنہ آدمی کے باطن میں سُوجھا ہے، اُسے خُدا نے اپنے پیار کرنے والوں کے لیے تیار کِیا ہے۔

1۔ قرنتیوں۔۔۔۔۔۔9:2

جب ہم مقدس عشاے ربانی میں شرکت کرتے ہیں اور متبرک اجزا روٹی اور مَے تناول و نوشِ جاں کرتے ہیں تو گویا ہم مقدس خُداوند یسوع مسیح کا جسم اپنی جانوں کی غذا بناتے ہیں۔ وہ ہمارے تن بدن میں سما جاتا ہے اور پھر

من تو شدم، تو من شدی، من تن شدم، تو جاں شدی
تا کس نہ گوید بعد زاں ، من دیگرم تو دیگری

پاک یوخرست میں ہماری سعادتِ شمولیت ایک طرح سے مزہ چکھنا ہے ہیئتِ جسم بدلنے کا۔ پاک خُداوند جس طرح بدلی ہیئت میں ہمارے اندر بس رس گیا۔(CCC-1000)

۔۔۔۔۔۔ مگر یسوع نے اُن سے کہا کہ مَیں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تم ابنِ انسان کا گوشت نہ کھاؤ اور اُس کا خون نہ پیو تو تم میں زندگی نہیں ہو گی۔

مقدس یوحنا۔۔۔۔۔۔54:6

مومن مسیحیوں کے جسم و روح کو تو محشر بپا ہونے سے پیشگی ہی مقدس خُداوند یسوع سے تعلق ہونے سے مشرف ہونے کا رتبہ ایک حد تک پہلے ہی مل چکا ہوتا ہے۔ اپنے اجسام کی آپ توقیر بل کہ دوسروں کے بھی بدن کا احترام اور خصوصاً اذیتوں سے گذرے مصائب زدہ و آلام گرفتہ لوگوں کے جسموں کی تعظیم کے احکامات اسی لیے دیے گئے تھے۔ اور اس بارے میں تلقین اب بھی کی جاتی ہے۔ (حوالہ:CCC-1004)۔ تن بدن، اس کا مسام مسام، ہے ہی پاک خُداوندِ خُدا کی ملکیت اور وہ خود ہمارا دِل، ہماری جاں، ہمارا سب کچھ ہے۔ ہم اس کے اور وہ ہمارا۔ امرِ ربّی سے خُداوند یسوع مسیح جی اُٹھا اور وہ اپنی قوت و قدرت سے ہمیں دوبارہ زندہ کر دے گا۔ کیا آپ کے علم میں نہیں کہ آپ کے بدن مقدس مسیح کے بدن کا حصہ ہیں؟ کیا یہ بھی بھول گئے کہ جسم روح القدس کی ہیکل ہے، معبد ہے آپ کے اندر؟۔۔۔۔۔۔ ہمارا ہم میں ہے کیا، جو ہے سب اُسی کا ہے۔۔۔۔۔۔ اس لیے اپنے اپنے بدن میں ستایش کرو اُس کی، جلال دو خُدا کو۔۔۔۔۔۔

کھانے پیٹ کے لیے ہیں اور پیٹ کھانوں کے لیے مگر خُدا اس کو اور ان کو نیست کرے گا۔ مگر بدن حرامکاری کے لیے نہیں۔بل کہ خُداوند کے لیے ہے اور خُداوند بدن کے لیے۔ اور خُدا نے خُداوند کو بھی زندہ کیا ہے اور ہم کو بھی اپنی قدرت سے زندہ کرے گا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ تمھارے بدن مسیح کے اعضا ہیں؟ پس ، کیا مَیں مسیح کے اعضا لے کر فاحشہ کے اعضا بناؤں؟۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں۔

1۔ قرنتیوں۔۔۔۔۔۔13:6تا15

کیا تم نہیں جانتے کہ تمھارا بدن روح القدس کی ہیکل ہے جو تم میں ساکن ہے اور جس کو تم نے خُدا کی طرف سے پایا ہے؟ اور کہ تم اپنے نہیں ہو، اس لیے کہ تم قیمت سے خریدے گئے ہو۔ پس اپنے بدن سے خُدا کا جلال ظاہر کرو۔

1۔ قرنتیوں۔۔۔۔۔۔19:6،20

موت اور مسیحیت

موت سے لوگ ڈرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ وہ بھی جن کا خُدا پر پختہ ایمان ہوتا ہے، کامل بھروسا مُکمَّل یقین ہوتا ہے وہ بھی۔۔۔۔۔۔ جی ہاں، وہ بھی موت کو سمجھتے ہیں کہ مفارقت ہے، وداع ہے، جدائی ہے، علیحدگی ہے۔ وہ ترکہ جات، مِلک اَملاک، مال و متاعِ دنیا، آل اولاد، عزیز، اقربا، دوست اور رشتے ناتے جن سے زیست خوشگوار معلوم ہوتی تھی، دنیا کا سب کچھ پیچھے دنیا میں رہ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔

سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا

اپنی آئی پر سب نے مرنا ہے، خالی ہاتھ عازمِ مُلکِ عدم ہونا ہے۔ ایک دنیا فتح کرنے والا الیگزینڈر دی گریٹ، اس کے ساتھ کیا ہُوا؟ سب اسباب ملکی و مالی اِدھر ہی چھوڑ گیا

سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے

مصرکے فراعنہ نے کوشش سی کی تھی اپنے مال خزانے ہمراہ لے جائیں، پر کہاں، اب دنیا لُوٹ رہی ہے ان کو۔

قریب المرگ انسان کو دمِ آخر موت کے خوف کی خفّت پریشان نہ کرے۔ خُدا باپ کو صلیب پر خُداوند یسوع نے بھی پکارا تھا۔ اپنے آخری، وداعی لمحات میں ہر مرنے والا پاک خُداوند یسوع کو پکارلے، یہی اس کے کام آئے گا۔ وہ سب کی سنتا ہے۔ مقدس خُداوند یسوع مسیح کے پاس والے پاپی انسان نے بھی تو صلیب پر اُسے پکار دی تھی۔ سب کا اس منجی پر اعتقاد ہونا چاہیے۔ وہ سب کا مکتی داتا ہے، وہ ضرور نصرت کو پہنچتا ہے۔ کِسی کو تنہا نہیں چھوڑتا۔ وہ تو مائل بہ کرم ہے، کوئی سائل بھی تو ہو۔

اور یسوع نے اُس سے کہا: مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ آج ہی تُو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا۔

مقدس لوقا۔۔۔۔۔۔43:23

ہر مرنے والا جو پاک خُداوند کے ساتھ ہے اور پاک خُداونداس پر مہربان ہے، اسے یقین، ایمان کی حد تک یقین ہونا چاہیے کہ خُدا رحمن و رحیم کیفیت ہی بدل دے گا، خوف خوشی میں ڈھل جائے گا اور اس کی مرادوں کی جھولی بھر دے گا۔ اُس کریم کی بارگاہ سے کون تہی دست، بے نیلِ مرام لوٹا۔ خُدا ذوالجلال کا فضل، توفیق، اس کی محبت اور حمایت تو ان پر بھی نچھاور ہوتی ہے جو اس کے بھلے حقدار بھی نہ ہوں، یہ تو اس کا تحفہ ہے جو مؤثر فضل ہے،جسے چاہے ودیعت کردے۔ مقدس خُداوند یسوع المسیح کی نعمتِ بے استحقاق، نجات بخش فضل کے چھتر تلے آ کر جس نے موت کو گلے لگایا وہ خُداوند اقدس کی موت میں اس کا شریک و ساتھی بن گیا اور دوبارہ کی زندگی میں ا س کا شریکِ حیات ہونے کا اعزاز بھی پا گیا۔(CCC-1006)

وہ آنکھیں جو ہم نے موت کی نیند میں موندلی تھیں، کھل جائیں گی۔ ہم مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد خُدا کی دید وا دِید کی نعمت سے ہم مالا مال ہوں گے۔ زہے نصیب! ہم خُداوند کریم کی بارگاہ میں حاضر و ناظر ہوں گے۔ ہر بندہ اپنے دفترِ عمل کے ساتھ، اپنی محبت کا روزنامچہ آپ پکڑے، نہ جانتے ہوئے اور جانتے ہوئے جو گناہ کیے ان کی پوٹلی اپنے سر پر تھامے ہم سب خُدا کے سامنے اِستادہ ہوں گے۔ نیکی بدی کی کتاب سامنے کھلی ہو گی، ورق ورق پھڑپھڑا پھڑپھڑا کے توجہ اپنی طرف کھینچ رہا ہو گا۔ ہمساےے سے اُلفت، مہر، بہترین سلوک کی بڑی تلقین کی گئی تھی، ہمارے عمل، ہمارے رویوں کی خرابی خوبی نمایاں صورت سامنے دِکھائی جا رہی ہو گی،سب کِیا دھرا سامنے ہو گا۔ ہماری زندگی کا نامہء اعمال اس ابدی حیات سے ہمیں دوچار کرے گا جس کے ہم مستحق ہوں گے۔ ہمارا استحقاق، خُدا سے یہ ملاقات طے کرے گی۔

بنی اسرائیل کے انبیاء کرام اور خود مقدس خُداوند یسوع مسیح نے اس سارے عمل کو عدل سے منسوب کِیا ہے۔ یہی روزِ عدالت ہے۔ اسی کا سب کو سامنا ہے۔ اُمّتِ مسیح خُدا کو دیکھ رہی ہو گی، رحم و کرم کی متلاشی و متمنّی ہو گی، روح القدس میں پاک خُداوند کی شفاعت کی منتظر ہو گی، بخشنے کے ہزار رستے، قادرِ مطلق ان پر نگاہ کیے ہو گا، اس سے کیا چھپا، سب ملمعے اُتر چکے ہوں گے۔ ظاہر باطن ایک ہو چکے ہوں گے، یہی قیامت کی گھڑی کہلاتی ہے۔ وہ جو لا منتہا حق، سچ، انصاف ہے، جانتا ہے ہم کتنے لاچار، بے بس اور کمزور ہیں، اس کا بھی تو اسے ضرور پاس ہو گا۔ وہ رحم کرنے والا رحمت ہی رحمت ہے۔ لاچاروں کا ماویٰ ہے، بے بسوں کا ہمدرد اور کمزوروں بے بضاعتوں پر ترس کھانے والا ہے۔ یہی اس کے پسیجنے کے لیے کافی ہے اگر انسان انکساری و عاجزی سے اپنی خطاؤں، لغزشوں، کمزوریوں کا اس کے سامنے شرمندگی کے ساتھ اقبال کر لے اور ہم اس کے رحم و کرم، مہربانیوں اور احسان پر اپنے آپ کو چھوڑ دیں اور امید رکھیں رحمتِ خُداوندی جوش میں آئے گی، ہمارا مکتی داتا ہمیں مکتی دلا دے گا، ہمارے ہی بخشوانے کو تو اس نے اپنی جان کفارے میں دے دی تھی۔ روزِ حشر جزا کا دِن ہے، اجرکا دِن ہے، صلے کا دِن ہے، اس کی رحمتوں، برکتوں اور انعام کا دِن ہے اور روزِ عذابِ جہنم بھی ہے اور پھولوں بھری آغوشِ ابراہیم نبی بھی، کبھی نہ ٹھنڈی پڑنے والی آگ کے شعلے بھی اسی روز سب کو دِکھائی دے رہے ہوں گے اور گل و گلزارِ جنت بھی، نغمہء مسرت و شکر اور مناجات کے سُر بھی اسی دِن بلند ہو سکتے ہیں اور دانتوں کے بجنے کی تال پر ہیبت زدوں کی خوفناک چیخیں اور رونے کی کرلاہٹیں بھی روزِ آخر اپنی باری کے منتظر انسانوں کے دل دہلا سکتی ہیں۔۔۔۔۔۔

مگر بادشاہی کے فرزند باہر کے اندھیرے میں ڈالے جائیں گے۔ وہاں رونا اور دانتوں کا بجنا ہو گا''۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔12:8

بند دروازوں پر ناکام دستک یا ضیافتِ شادی و شادیانے۔۔۔۔۔۔ دس کنواریوں کی تمثیل سے یہ مبارک حوالہ ملاحظہ ہو۔۔۔۔۔۔مقامِ عبرت ہے!

تب آسمانوں کی بادشاہی اُن دس کنواریوں کے مانند ہو گی جو اپنی مشعلیں لے کر دُولھا کے استقبال کونکلیں۔ ان میں پانچ بے عقل اور پانچ عقلمند تھیں۔ جو بے عقل تھیں، اُنھوں نے مشعلیں تو لے لیں پر تیل اپنے ساتھ نہ لیا۔ مگر عقلمندوں نے اپنی مشعلوں کے ساتھ اپنی کُپیوں میں تیل بھی لے لیا۔ جب دُولھا نے دیر لگائی تو سب اُونگھنے لگیں اور سو گئیں۔

آدھی رات کو دُھوم مچی کہ دیکھو! دُولھا آتا ہے، اس کے استقبال کو نکلو! اس پر سب کنواریاں اُٹھ کر اپنی مشعلیں درست کرنے لگیں اور بے عقلوں نے عقلمندوں سے کہا: اپنے تیل میں سے ہمیں بھی دو، کیوں کہ ہماری مشعلیں بجھی جاتی ہیں۔ عقلمندوں نے جواب میں کہا شاید ہمارے تمھارے دونوں کے لیے کافی نہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ بیچنے والوں کے پاس جاؤ اور اپنے واسطے خرید لو۔ جب وہ خریدنے گئیں تو دُولھا آ پہنچا اور وہ جو تیار تھیں ا س کے ساتھ شادی میں چلی گئیں۔۔۔۔۔۔ اور دروازہ بند ہوگیا۔
پھر وہ دوسری کنواریاں بھی آئیں اور کہنے لگیں: اے خُداوند! اے خُداوند!! ہمارے لیے دروازہ کھول دے۔ پر اُس نے جواب میں کہا: مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ مَیں تم کو نہیں جانتا۔

اس لیے جاگتے رہو۔ کیوں کہ تم نہ اُس دِن کو جانتے ہو، نہ اُس گھڑی کو۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔1:25تا13

ایسی ہی مثالیں ذہن کے تار جھنجھنا دیتی ہیں۔ ان سے یہی سبق ملتا ہے کہ بہت سے مسیحی راہیِ ملکِ بقا تو ہیں، ایمان کی مشعلیں بھی انھوں نے اُٹھا رکھی ہیں مگر اچھے اعمال کا تیل ساتھ لانا بھول گئے ہیں۔ ڈُلّھے بیراں دا حالی وی کجھ نئیں وگڑیا، چک کے چھابے وچ پان دا ویلامُک نئیں گیا۔ دروازہ ابھی کھلا ہے، مقدس خُداوند یسوع مسیح سے عقیدت و محبت بیڑا پار لگانے کے لیے ابھی بھی کام آ سکتی ہے۔ دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت کی کامیابیاں اور خوشیاں بھی میسر ہو سکتی ہیں۔ مسیحیت پر ایمان پختہ رکھیں، یسوع کے فرمان پر عمل کریں، یسوع ناصری کو آسرا، سہارا اور حامی و ناصر سمجھیں، اس کی محبت پر تکیہ کریں اور اس سے محبت یقینی بنائیں، ہمسایوں سے اُلفت بل کہ اس کے تمام بندوں سے پیار کریں، یہی راہِ نجات ہے۔ خُداوند آپ کا نگہبان ہو!

مرحوم یا مرحومین کے لیے اقدس قربانی/ عبادت کی تمہید سے اقتباس

تمھارے مومن مسیحیوں کی زندگی چھنتی نہیں وہ مر نہیں جاتے، بس ان کی زندگی کا انتقال واقع ہوتا ہے۔

اور جب ہمار الحمِ بدن زندوں سے دُور کر دیا جاتا ہے، ہم اپنوں سے وداع ہوجاتے ہیں تو عالمِ قدس میں ہمارے دائمی مسکن کو سجایا جا چکا ہوتا ہے، وہی ہماری آخری آرام گاہ ہے۔

(عالمِ بالا پر خُدا کی تمجید ہو!)

موت:

ارضی حیات کا خاتمہ اور ہمیشہ کی زندگی کا نقطہء آغاز ہے موت۔ موت دائمی زندگی کا پیامِ ابدی ہے۔ فنا پذیر جسم سے روح آسمانوں کی طرف انتقال کر جاتی ہے۔ اس کا اپنا ایک ٹھکانا ہے جہاں منتقل ہو جاتی ہے۔ روزِ عدالت تک کے لیے خُدا کے پاس اس کی اردل میں جا باریابی حاصل کرتی ہے۔ روزِ آخر جب خُداوند یسوع پاک پوری شانِ ربوبیت کے ساتھ دوبارہ وارد ہو گا، تمام مردے اُٹھا دیے جائیں گے، دوبارہ زندگی پائیں گے، روح ان میں واپس سما چکی ہو گی، اس جسم میں جس کی ہیئت میں تبدیلی آگئی خُدا کے جلال میں وہ بھی جلیل و جمیل ہو چکا ہو گا۔ افسوس اُن سیہ کاروں پر کہ ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان پر حُزن و ملال طاری ہو گا اور ان کے جسم درد میں مُبتلا ہوں گے اور پگ پگ اذیتیں انھیں تڑپانے بلبلانے کو ملیں گی۔

انصاف

فرد کے لیے انصافِ خاص، اور روزِ عدالت کے مخصوص آخری انصاف یعنی حتمی عدل میں بڑا فرق ہے۔ ہر فوت ہونے والے کو، فرداً فرداً، موت کے فوری بعد انصافِ خاص کا سامنا ہو گا۔ جنت میں داخلے کا پروانہ ملے گا یا فوری اور سدا کا عذاب اسے سہنا ہو گا، یہیں اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔ اس جزا یا سزا کا انحصار اس کے اعمال پر ہوگا۔ دیکھا جائے گا کہ اپنے دنیاوی عرصہء حیات میں وہ کِس حد تک مرضیِ مولا پر چلا، خُدا کو راضی رکھنے کے لیے اُس نے اُس کے کتنے فرمان پورے کیے۔ خُدا کے دِین کے فرائض اور اس کے بندوں کے حقوق پورے کرتا رہا یا نہیں، کرتا رہا تو کِس درجہ پر، کس قدر۔ خُدا کی رضا اس نے مطمحِ نظر بنائے رکھی یا نہیں اور فیصلہ کن جانچ تو یہ ہو گی کہ مقدس خُداوند یسوع المسیح پر اس کا ایمان کِس حد تک غیر متزلزل تھا۔ جو بھی فیصلہ سنایا گیا، حتمی فیصلہ ہو گا، الٰہی فیصلہ ، اٹل فیصلہ۔

روز ِ آخرآخری انصاف میں قوموں کا احتساب و عدل سامنے آئے گا۔ انسانیت روزِ عدالت والے کٹہرے میں کھڑی ہوگی۔ خُداوند یسوع پاک کی دوبارہ آمد آمد ہو چکی ہو گی اور خُدا کی بادشاہی کا اس میں ظہور ہو چکا ہو گا۔ وہ کل کائنات۔۔۔۔۔۔ پہلی، موجودہ، آیندہ کی۔۔۔۔۔۔ سب کا تاج مقدس خُداوند یسوع مسیح کے سر پر ہو گا۔ یہی وہ دِن ہو گا جب سب مُردے زندہ کیے جا چکے ہوں گے۔ اقوامِ عالم، اکٹھی اس کے حضور پیش کی جائیں گی، ہر ایک شخص کے ساتھ انصاف برتا جائے گا۔ ان کے جسم و روح اس پر گواہ ہوں گے اور عدل کے سبھی تقاضے پورے کیے جائیں گے، انصاف ہوتا سب کو نظر آئے گا۔۔۔۔۔۔۔

اور تمام قومیں اُس کے حضور جمع کی جائیں گی اور وہ ایک کو دوسرے سے جُدا کرے گا جس طرح چوپان بھیڑوں کو بکریوں سے جُدا کرتا ہے۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔32:25

عقوبت

کِسی بھی شخص کی حیاتِ دُنیوی میں اسے بخشی گئی مرضی اور اختیار کی آزادی کے تناظر میں اس کے ساتھ جزا و سزا کا معاملہ برتا جائے گا۔ نہ خُدا خوفی نہ لحاظِ خُداوند، دیدہ دانستہ جس خاتون یا مرد نے خُدا سے منہ موڑے رکھا، خُدا کے پیاروں میں اس کا شمار ہو، ناممکن۔ ایسے لوگ لعنت کا طوق پہنے سیدھے جہنم میں جائیں گے۔ نارِ جہنم جو شیطان اور اس کے چیلوں کے لیے بھڑکائی گئی ہے وہی ان جہنمیوں کا ٹھکاناہو گا۔ دائم وہ، ان کا گورُو شیطان اور اس کے بھٹکائے ورغلائے انسان و ملائک جلتے، زندگی پاتے اور پھر جلتے، زندگی پاتے، جلتے رہیں گے۔ ہر دفعہ ان کی کھالیں بدل دی جائیں گی۔ یہی ان کی سزا ہے، دردناک عذابِ دوزخ۔

تب وہ ان سے بھی جو اس کے بائیں ہوں گے کہے گا: اے ملعونو! میرے سامنے سے اُس دائمی آگ میں چلے جاؤ جو شیطان اور اُس کے فرشتوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔41:25

وہ لوگ جنھوں نے خُداکو واحد، لاشریک، قادر کریم مانا، اس کی ضرورت محسوس کی اور اس کے بیٹے خُداوند یسوع مسیح پر بھی ایمان تو لائے مگر وہ جب بسترِ مرگ پر تھے، عبودیت کا پیمانہ ان کا آدھا بھرا نہیں، آدھا خالی ہی تھا، ایمان میں ناپختگی باقی تھی، اس قابل نہ پائے گئے کہ خُداوند قدوس سے ملاقات ہو سکتی ان کی، اس قرب کے، اس نعمت ربّی کے لائق نہ تھے، اُنھیں کچھ عرصہ تطہیر کے عمل سے گزارا جائے گا۔تا کہ ان کے اذہان و دل پاک صاف ہوجائیں، ایمان کی پختگی اور بلوغتِ ادراکِ معرفت سے منزہ ہو کر مومن مسیحی بن جائیں اور انتظار کی کیفیت سے گذر کے اپنی سروس ٹیوننگ کرا لیں تو ان پر نجات کے در وا ہو جائیں۔ یہی اعراف کی منزل ہے جہاں انھیں عارضی طور رکنا ہی رکنا ہے۔ یہیں ان کی روحیں صیقل ہوں گی۔ یہ مقامِ کفارہ ہے، پاک کرنے والا مقام۔ یہیں ان کے گناہ دُھل جائیں گے وہ اسی امید پر وہاں انتظار کی گھڑیاں بِتائیں گے کہ جلد ان کا گہرا تعلق خُدا سے جُڑ جائے گا اور وہ خُدا کے پیاروں کی جماعت کی فیلو شپ پا لیں گے۔ خُداوند یسوع کے وفاداروں، ایمان داروں کی دعائیں عبادتیں ان کی نصرت کریں گی اور وہ مبارک لوگ اس مقام سے کامیاب و بامراد نکلیں گے۔ خُدا کے محبوب و چنیدہ لوگ جن کی زندگیوں کے پیالے محبتِ مسیح سے بھرے بھرے رہے، پاک خُداوند کی محبت ان کی نس نس میں سما گئی اور جب وہ دنیا میں تھے تو خُداوند یسوع مسیح پاک کی محبت میں سرشار رہے، اس کی محبت نے اُنھیں کبھی بھٹکنے نہ دیا اور ان کی کایا ہی پلٹ گئی، یسوع ان کا اور وہ یسوع کے ہو گئے۔ ان کے بارے میں مقدس خُداوند یسوع مسیح کا فرمانا ہے:

تب بادشاہ اُن سے جو اُس کے دائیں ہوں گے کہے گا: آؤ، میرے باپ کے مبارک لوگو! جو بادشاہی بِناے عالم سے تمھارے لیے تیار کی گئی ہے اُسے میراث میں لو۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔34:25

خدا ارفع عظیم و جلیل و جمیل ان کی آنکھوں کے سامنے ہو گا، اس کی ہستی میں، اس کے وجود میں وہ اپنا سراپا دیکھ رہے ہوں گے، وہی جمال، وہی جلال، وہی عظمت اور وہی رفعت۔ خُدا نے انسان کو اپنے ہی امیج میں تخلیق کِیا تھا نا۔

اے پیارو! اب ہم خُدا کے فرزند ہیں اور یہ تو اب تک ظاہر نہیں ہوا کہ ہم کیا کچھ ہوں گے۔

پر ہم یہ جانتے ہیں کہ جب وہ ظاہر ہو گا تو ہم بھی اس کے مانند ہوں گے کیوں کہ اسے ویسا ہی دیکھیں گے جیسا وہ ہے۔

1۔ یوحنا۔۔۔۔۔۔2:3

وہ ہمیشہ خُداوند خُدا اقدس کے ساتھ اس کے پیاروں میں شامل رہیں گے، جنت ان کا مستقل گھر ہو گا۔

متن کی جزوی تبدیلیوں کے ساتھ یہ مضمونIch glaube. Kleiner Katholischer Katechismus (Königstein im Taunus: Aid to the Church in Need, 2004), p. 107-110.سے مستعارلیا گیا۔


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?