German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر62

کِسی کی مرگ پر آخری رسومات وغیرہ کِس ترتیب سے ادا کی جاتی ہیں؟

 

جواب:۔ کلیسیا نے نہ تو کوئی واضح طور پر مرتّب کر کے دیا، نہ ہی کلیسیائی قانون کے مُطابِق قانونی و شرعی جوازات کے تحت کوئی تفصیل ہی مہیّا کی کہ یہ تعیُّن کِیا جا سکے کہ کِسی مرض الموت میں مُبتلا شخص یا کِسی مسیحی کی میّت (مُردہ) کے ساتھ کیا مُعاملہ کِیا جائے اور کیسے کِیا جائے، مطلب یہ کہ اس کی تجہیز و تکفین کے لیے کیا کیا مذہبی رسوم ہیں جو ادا کی جائیں اور اُن کی ترتیب کیا ہو گی۔ اِس سلسلہ میں یہ بھی ہے کہ مُلک مُلک میں وہاں کی مُعاشرت کے لحاظ سے مسیحیوں کے اپنے اپنے بعض دستور اور روایات ہیں جن کو صدیوں سے اُن میں رواج حاصل ہے۔ تاہم دِینی واخلاقی اقدار کے اعتبار سے کہ جن سے سابقہ پڑتا ہے جب انسان قریب المرگ ہو یا مرنے اور مر چکنے کے فوری بعد، اس دم کلیسیا کی طرف سے خُصُوصاً ہماری اس عصرِ حاضر کی مُعاشرت میں باضابطہ اور جامع تعلیم سے استفادہ کِیا جا سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں مسیحی تعلیم کی کتاب موجُود ہے جو مُعاون و رہبر ہے۔ ایسی مذہبی رسوم کلیسیا کی منظور شدہ کتاب میں موجُود ہیں جو چوپانی صُورتِ حالات و توقعات کا احترام کرتے ہُوئے، لطوریائی آداب کے ساتھ اور صحائفِ مُقدّسہ کی برکتِ تلاوت سے انجام پاتی ہیں۔ ایسی عبادت اور اس وقت کی دُعائیں یہ حیثیت طے کرتی ہیں کہ مرنے والے کی مدد رفیق مسیحی لوگ کیوں کر ادا کرتے ہیں اور کون کون سی رسوم اس افسردگی کے موقع پر با حسرت و یاس ادا کی جانی چاہییں تا کہ پسِ مرگ متوفّی کو اس کا فائدہ بھی پہنچے۔ کلیسیا ہی کی طرف سے مُردے کی آخری مذہبی رسوم کا تعیُّن کِیا جاتا ہے تا کہ حدود قائم کی جائیں جن کی پابندی لازمی ہو۔

ہم ان تعلیمات و رسومات کے ضمن میں چند حوالہ جات پیش کرتے ہیں جن کا انتخاب ''کاتھولیشر ایرواخزینن کاتی چسموس'' جِلد دوم۔ ''لیبین آؤس دیم گلاؤبین'' فرائی بورگ،1995ع۔صفحات302تا316اور دُوسری کتاب ''کلائینیس ریتوآلے فیور دی ڈی اؤیٹزے سین دیس ڈو آئیٹچھین شپراخ بے رائیخس'' فرائی بورگ 1980ع سے اخذ کِیا گیا ہے:

انتقال کرنے والا۔۔۔۔۔۔ اُس کا احترام، اُس کی نیکیاں۔۔۔۔۔۔ 

داغِ مفارقت دینے والے کا شرف

بیماریاں اور موت ہم زندہ لوگوں کے لیے محض یاددہانی ہی نہیں ہوتیں کہ موت سب کو آنی ہے، ہم نے بھی ایک روز اِس جہانِ فانی سے کُوچ کر جانا ہے، اس لیے ہمیں مسیحی نظریات و عقائد پر ہر آن پابند رہنا چاہیے۔ یہ بھی دُرُست مگر کُچھ اور بھی اِس جینے مرنے سے منسلک ہے، وہ ہیں ہماری مُعاشرتی اُلجھنیں، اخلاقی مسائل جن کا ہمیں سامنا رہتا ہے، مرتے دم تک۔ بل کہ اس کے نتائج اور آثار تو مرنے کے بعد بھی تا دیر قائم رہتے ہیں۔ تمام مسیحی مومنین جانتے ہیں کہ زِندگی کی حفاظت کرنا اُن پر ذِمّہ داری ہے اور یہ بھی کہ صِحّت و تن دُرُستی کی طرف سے بھی غفلت کبھی نہیں برتنی، علاج معالجہ، صِحّتیابی، بیماریوں سے خود بھی نجات حاصل کرنا اور دُوسروں کو بھی اچھّا ہونے میں مد ددینا، تیمار داری کرنا، حوصلہ دینا اور بیمار پُرسی کرنا بھی ہماری ذِمّہ داریوں میں شامل ہے۔ ہم مسیحیوں سے یہ بھی توقّع کی جاتی ہے کہ مرنے والے کے سفرِ آخرت میں بھی چار قدم ساتھ چلنا، آخری رسوم تک ساتھ نِبھانا، خدمت، ڈھارس بندھانا، آس اُمِّید زندہ رکھنا، حیات بعد از مرگ کا اطمینان دِلانا، پاک خُداوند یسُّوع مسیح سے دِیدار ِ دید کی نوید دینا، مختصر یہ کہ ہر طرح کا تعاون اور مدد جانے والوں کے لیے مختص کیے رکھنا بے شک ایک وفادار مسیحی پیروکار کی اعلیٰ پہچان ہے۔ جانا تو ٹھہرا۔ سب نے جانا ہے، سبھی کو یاد رکھنا چاہیے۔ اِسی لیے کہتے ہیں کر بھلا کہ ہو بھلا۔

کتنی اچھّی بات ہے، سب ڈاکٹر اور تیماردار، مریضوں کی دیکھ بھال پر مامور سٹاف مریضوں کی بہتری اور خیر و عافیت کو نہ کہ پیسے کو اپنا مقصدِ حیات بنائے ہُوئے ہیں۔ خدمتِ انسانیت سے جڑے رہنا ان کا پیشہ ہے۔ یہ خُدا ترسی ہے جو ان کے اندر موجُود ہے، ہمدردی و محبت کا جذبہ ہے جس کے تحت تمام مسیحی خواتین و حضرات بیماروں کی پوری تندہی سے دیکھ بھال اور خدمت کرتے اور مرنے والوں کے آخری سانس، آخری ہچکی تک اُن کی زِندگیاں بچانے کی ہرمُمکن تگ و دو میں جُتے رہتے ہیں، صِرف اِس لیے نہیں کہ یہ اُن کی پیشہ ورانہ ذِمّہ داری ہے، بل کہ اِس لیے بھی کہ وہ اِسے انسانی، اخلاقی اور خاص طور پر مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ پہلا اُصُول ہی یہی ہے کہ انسانی زِندگی کو مُقدّس امانت سمجھا جائے، اِس لیے واجب التعظیم بھی۔ اور بشری ہمدردی، انسانی دردمندی کی موت ہر آدمی کا حق ہے۔ انجامِ کار، طے ہے کہ بیماروں کی دیکھ بھال، اُن کی خدمت، اُن کی مدد اور اُن بیچاروں کہ جن کے بچنے کی اُمِّید کم کم ہی نظر آتی ہو، زِندگی کی ڈور لپیٹی جا رہی ہو، موت دروازے پر دستک دے رہی ہو، اُن کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بس اُنھیں مرنے دیا جائے۔ جان بچانا فرض ہے، کوشِش تو جاری رہے، آگے زِندگی موت تو اُوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔ جب مرنا ہی ہو تو خُدا سب کو آسان موت عطا فرمائے۔ موت میں آسانی دینے کی مثال یُوں ہے کہ مرنے والے کو آخری لمحوں میں بہُت پیاس لگی ہوتی ہے، وہ ایڑیاں رگڑ رہا ہوتا ہے، ایسے میں آپ اُس کے مُنہ میں چند قطرے پانی کے ٹپکاتے ہیں، مُقدّس پانی نصیب ہو تو واہ واہ، یہی فعل آسانی دینا ہے۔ موت کا تو ایک دِن مُعیّن ہے، ہم خود اپنے ہاتھوں سے کِسی کو ختم کرنے کی کوشِش کیوں کریں۔ خُدا مارے تو مارے، ہم یہ گُناہ اپنے سر کیوں لیں۔ مرنے والے کو اپنی موت مرنے دیجیے۔

کِسی کے مرنے کے وقت بھی ہمیں چاہیے جو سانس اُس کے باقی ہیں، اُس کی جو زِندگی باقی ہو، اُسے جینے میں مدد دیں۔ یہی ہوتا ہے زِندگی میں تعاون براے موت۔ کیوں کوئی مارا جائے، یہ اختیار نہ مرنے والے کو حاصل ہے، نہ کوئی اور اس فعلِ قبیح کا مجاز ہے۔ ساتھ سہاروں، ہمسایوں عزیزوں، دوستوں رِشتے داروں، جان پہچان والے دُوسرے انسانوں کی موجُودگی بڑی نعمت ہے۔ مرتے دم سب نگاہوں کے سامنے ہوںتو اور کیا چاہیے۔ آخری لمحات میں نراس نہ کرنے والے آس پاس ہوں، مرنا آسان ہو جائے۔ وداع ہوتے سمے کی آخری خُوشی ہی یہی ہے۔ دل شکستگی کو قریب نہ آنے دینے والے تعاون سے بھرپور زِندگی میسّر ہو تو موت کو آرام سے گلے لگایا جا سکتا ہے۔ موت سے مفر نہیں۔ مگر انتہائی نگہداشت اس کا حق ہے تا کہ بندہ احترام اور شرف کی موت مرے۔

موت اور تجہیز و تکفین، جنازے، میموریل سروس حصّہ ہیں اُس وقتِ مقرر کا جو دُنیا میں، جیسا بھی، ہم نے گزارا۔ دھرتی یاترا کی یہ اختتامی حد ہے، سرحد۔ آغازِ مسیحیّت کے زمانہ سے ہی یہ جو عقیدہ پختہ تر ہوتا چلا آرہا ہے کہ حشر میں مُردوں کو جی اُٹھایا جائے گا، اس کے زیرِ اثر کلیسیا میں تسلسُل کے ساتھ بڑھتی ہُوئی آگہی نے قدم جما لیے کہ فوت ہو جانے والے لوگوں کو بعد میں بھی یادوں کے سہارے زندہ رکھا جائے، اُنھیں نہ بھُولنے کے لیے ریفرنس منعقد کیے جاتے ہیں نا! مُردہ جسم کی توقیر لازم ہے تو اس جسم کو جس انسان نے پہن رکھا ہے، اُس کی اچھّائیوں کو ذِہن کی سلیٹ سے کیوں محوہونے دیا جائے؟ سعادتمندی کے اس مسیحی پہلُو کا مقصد نتیجہ یہ تھا کہ مسیحی کفن دفن اجتماعی زِندگی میں، سماج میں، مسیحی مُعاشرت میں ایک مثال و معیار کی قدر پا گیا۔ یہی ہوتا تھا کہ لوگ گھروں میں ہی آنجہانی ہو جاتے تھے۔ کفن دفن کی دُعائیہ تقاریبِ تقدیس گھروں میں ہی ادا ہو تی تھیں، اس کے بعدگورستان کی طرف سفرِ آخرت شروع ہوتا تھا۔ اس طرح غمگساروں کو مزید کچھ وقت میسّر آجاتا تھا کہ میّت کے آس پاس بل کہ بہُت قریب قریب رہ پائیں اور الوداع کہہ سکیں، آخری آخری خُدا حافظ! اور یہ بوقتِ دائمی رُخصت کا الوداعی پیغام کِسی کے ہونٹوں سے ادا ہوتا ، تو کِسی کے لب بس کپکپا کے رہ جاتے، کِسی کی چیخیں او ردھاڑیں کلیجہ ہِلا کے رکھ دیتیں اور کوئی آہوں اور ہچکیوں کے تار پر چند لفظ منمنا رہا ہوتا، بہُت سے تھے کہ اُن کہ آنسُو لُڑھک لُڑھک کر مرحُوم کو آخری سلام کہہ رہے ہوتے تھے اور چند لوگ سوگواروں کو تسلّیاں دِلاسے دیتے رہتے تھے۔ واہ! اِتنی قدر!! اِتنا پیار!!! جُدائی کا اِتنا قلق!!! اور ایسے بھی تھے جو پھٹی پھٹی آنکھوں سے بس دیکھتے ہی رہ جاتے تھے۔ ہر ماتم گسار کی بھڑاس گھر میں ہی نِکل جاتی تھی، جُدا ہو جانے والے اپنے پیارے کے سامنے۔

اِن وقتوں میں جن کا ہمیں سامنا ہے بہُت کم لوگ ہی ہیں جن کو موت اپنے اپنے گھروں میں نصیب ہوتی ہو۔ نرسنگ ہوم ہوں یا ہسپتال اکثر و بیشتر وَہِیں داخل ہوتے ہیں اور جب بے چارے کِسی مریض پر طبّی سہُولیات و خدمات اثر انداز ہونا ہی چھوڑ دیتی ہیں اور اُن کے سانس اُکھڑ جاتے ہیں تو، آکسیجن ماسک بے کار اور دِل دھڑکانے والی مشینیں بے اثر ہو کر شرمندہ و خاموش ہو جاتے ہیں، بیمار کی رُوح قفسِ عنصری سے پرواز کر کے اُوپر فضاؤں میں کہِیں دُور، بہُت دُور جا چُکی ہوتی ہے۔ ارد گرد سٹاف کے علاوہ کوئی اور شخص موجُود نہیں ہوتا۔ مرنے کے عمل اور موت کو ہماری مذہب بیزار سیکولر سوسائٹی سے مجہُول قرار دے کر دیس نکالا دیا جا رہا ہے۔ اُنھیں بھی ایک نہ ایک دِن گُمنامی کی موت آ لے گی۔

1964ع تک تو رومن کیتھولک قانون کے تحت پابندی عائد تھی جس کی رُو سے نعش کو جَلا کر راکھ کرنے کا عمل ممنُوع تھا۔ ایسی ممانعت نے کوئی اعتقادی لحاظ سے جنم نہیں لیا تھا، یہ تو ردِّ عمل کے طور پر لاگُو کی گئی کیوں کہ بعض حلقے ایسے موجُود تھے جو مُردے کو راکھ کر دینے کے عمل کے پرچارک تھے کیوں کہ وہ سمجھتے تھے ایسا کرنا اس عقیدے سے منکر ہونے کے برابر ہے جس کے مُطابِق مُردوں کو پِھر جِلایا جائے گا۔

فی زمانہ، کیتھولک مسیحیوں کو بوجوہ سپردِ آتش کِیا جا سکتا ہے بشرطے کہ یہ عمل مذہبِ مسیحیت کے صاف صاف انکار کا بہانہ نہ بننا شروع ہو جائے۔

مسیحی برادری اپنے مرحُومین پیاروں کی قبروں کو بڑا سجاتی سنوارتی ہے اور یہ عمل اُن کے دِلوں میں بسی اپنے پیاروں کی انمٹ یاد اور پایدار محبت کی نشانی بھی ہے اور زندہ ثُبُوت بھی۔ یکم نومبر مُقدّسین کی عید کے دِن اور دونومبر ہر سال یومِ کُل ارواح پر قبروں کو برکت یافتہ کرتے ہُوئے ایک نمایاں انداز میں تمام پیرشیں مُردوں کے ساتھ اپنی گہری نسبت کا اظہار کرتی ہیں۔ موت اور سوگ کو خُداوند یسُّوع مسیح کے مُردوں میں جی اُٹھنے کے اعلانِ مُبارک کی روشنی سے تعبیر کِیا جا سکتا ہے۔ اِسی میں تمام مسیحیوں کا اعتقاد ہے اور اِسی میں اُن کی تمام تر اُمِّیدیں مستُور ہیں۔

مرنے والوں کے لیے مسیحی دُعائیں

یہ فرمان کہ پڑوسیوں سے پیار کرو، مسیحیوں کو اِدھر اُدھر نہیں ہونے دیتا۔ وہ اپنے تعلُّقِ خاطر اور عزیزداری کے اِظہار کے لیے ہر مرنے والے بھائی بہن کے لیے اُن کے ساتھ دُعائیں کرتے ہیں اور مِل کر پاک خُداوندِ خُدا کی برکتیں اور فضل مانگتے ہیں اور اس پر غیر متزلزل اعتماد اور مستحکم یقین کا اِظہار کرتے ہیں۔ کلیسیا کی، گرجا گھر کی مذہبی رسوم میں عبادات، لطانیہ (مناجات)، پارسا زاہد و عابد خُداپرستوں کی باتیں اور دعوتِ دین، مزامیر (زبورپاک) اور موت کے ہنگام میں بائبل مُقدّس کی تلاوت شامل ہیں۔ اِن دُعاؤں، اِلتجاؤں، مناجات و عبادات کا ایک واضح مقصد ہے۔ وہ ہے کہ قریب المرگ انسان، اگر ذرا بھی اس کے ہوش و حواس ان لمحوں میں قائم ہیں، اپنے ایمان کے زور پر موت کے خوف کو، جو ایک قدرتی امر ہے، اپنے حوا س پر حاوی نہ ہونے دے۔

اُسے اس ادراک کے لیے مدد دی جانی چاہیے کہ خُود خُداوندِ مُقدّس یسُّوع مسیح نے کتنے دُکھ اُٹھائے، اَذِیّتیں سہیں، کیا کُچھ نہ برداشت کِیا اور صلیب پر اپنی جان تک دے دی، جب یہ سب کُچھ اُس کے ذِہن میں تازہ ہو جائے گا تو موت کا خوف بھی ہلکا پڑنے لگے گا۔ خُداوندِ پاک یسُّوع مسیح کے نام پر اس میں ہِمّت پیدا ہو گی، بہشت میں عُمدہ زِندگی کی آس میں اُس کی ہِمّت مزید تقویت پکڑے گی اور مُردوں میں زِندہ جی اُٹھنے والی بات کہ مُقدّس خُداوندِ یسُّوع مسیح نے موت میں حیات پائی، اپنی جان پاک دے کر ہمیں زِندگی عطا کی۔ ہماری موت پروُہ غالب آیا، پِھر ہمیں موت کا کیسا خوف اور کیسا ڈر! 

 

اگر پاک مسیح خُداوند کے ماننے والے نے کِسی مرنے والے کی خدمت اور مدد کرنی ہے، بھلے وُہ موت و حیات کی کشمکش میں گرفتار شخص اپنے اوسان بھی قدرے کھو چُکا ہو، اُس کی اسی میں دِلجمعی ہو گی کہ کوئی اُس کے پاس ہے، اُسے سُکُون ملے گا، کوئی اُس کے لیے دُعا گو ہے اور راحت ملے گی ان دُعاؤں سے جن کے طُفیل عیدِ قیامتِ مسیح کی پہچان کرتے ہُوئے اُسے موتِ مسیحی کا مطلب و مقصد سمجھ آئے گا۔ نمایاں علامات کے ذریعے اِس سب کُچھ کا اظہار بہُت جلد کام آ سکتا ہے اور جاں کنی کے عالَم میں اس کا ابلاغ بھی آسان ہے۔ مثلاً قریب المرگ خاتون یا شخص کی پیشانی پر مُقدّس صلیب کا نشان بنانا۔ اُس کی یادداشت میں اُبھرے گا وُہ منظر جب پہلی پہلی مرتبہ اُسے بپتسمہ دیا گیا تھا!

اسے بہ ہرحال مُمکن بنایا جائے کہ فضیلت مآب کاہن (قسیس) اور شماس ایسے مُقدّس خادمین کو آخری رسمِ تجہیز و تکفین کے پُورا ہونے تک متوفّی کے خاندان کے لوگوں کے ساتھ رہنے کی کوشِش کرنی چاہیے تا کہ تمام مقررہ دُعاؤں کو کرانے میں اُن کی برکت سب کے شاملِ حال ہو۔ اُن کی موجُودگی اِس بات کی بیّن علامت ہو گی کہ مسیحیوں کی موت بھی واقع ہوتی ہے تو کلیسیائی برادری کے بیچ۔ اور ہاں، اگر خادمینِ کلیسیا اپنی دیگر چوپانی (پاسبانی) مصرُوفیات اور ان کی کِسی مذہبی اہمیّت کے پیشِ نظر اپنی شمُولیت سے معذُور ہوں تو مناسب یہ سمجھا جائے کہ اپنی نمایندگی کے لیے مسیحی پیروکاروں کو تاکید سے شرکت کے لیے روانہ کریں تا کہ زیادہ سے زیادہ مسیحی دوست جنازے اور دُعاؤں کی برکات میں شامل ہوں۔

قیامُ الّیل، مُتَوَفّی کے گھر میں عبادت، جنازہ

مقامی رِیت روایات کے مُطابِق شب بیداری کی عبادت مرگ اور جنازے کے درمیانی عرصہ میں ادا کی جاتی ہے۔ یا تو یہ عبادت مرنے والے کے اپنے گھر پر کی جاتی ہے، یا پِھر گرجا گھر میں۔ عُمُوماً عامۃ المومنین میں سے کوئی مومن مسیحی اِس عبادت میں رہنمائی کا فریضہ ادا کرتا ہے۔

جہاں دستُورِ مُعاشرت اجازت دے، مُردے کے انتقال براے دفن سے پہلے رتجگے کی عبادت کا انعقاد کِیا جاتا ہے۔ تجہیز و تکفین کے لیے پسند یا انتخاب کے لیے اختیارات موجُود ہیں۔ ایک آپشن جس پر عُمُومی طور پر عمل کِیا جاتا ہے، اُس کے لیے دو مقام ہیں۔ پہلا مقام ہے مرکزی گرجا سے دُور دراز علاقوں کے مسیحی مومنین کی سہُولت کے لیے چھوٹا گرجا گھر (چیپل)، یہ قبرستان کے نزدِیک تر ہوتا ہے۔ دُور ہو تو پِھر ماتم کدہ میں با سہُولت پہنچا جا سکتا ہے۔ دُوسرا مقام پِھر یہ ہے کہ براہِ راست وہ جگہ جہاں قبر کھودی جا چُکی ہے۔ انفرادی رسُوم، مُقدّس صحائف کی تلاوت اور مناجات کے بارے میں قواعد کی تفصیل رسُوم نامہ (مذہبی رسُوم کی کتاب) میں درج ہے۔

 

 

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?