German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر123

۔دوزخ کیا ہے؟ بہشت کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔ مسیحیت ان کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟ مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ حیات بعد از ممات کیسی ہو گی؟

 

جواب:۔بائبل مقدس میں جہاں کہیں لفظHeavenکا استعمال آیا ہے، ظاہر ہے کلیسیا کی تعلیمات میں بھی ویسے ہی معانی میں اسے استعمال کِیا گیا ہے اور دونوں ہی افلاک پر کِسی ایسے مقام یا حالت کے معانی میں اس لفظ کو استعمال نہیں کرتے کہ جہاں بادلوں سے بھی اوپر کہِیں فرشتوں کا مسکن ہو۔ استعاروں کنایوں میں جب بادشاہت کا ذکر آیا ہے بائبل مقدس نے یہی مراد لی ہے کہ یہ ایک طرح کی شراکت ہے نسلِ انسانی کی، خُدا کی رفاقت میں۔یہ مقدس شراکت نصیب ہوتے ہی خُدا کی رفاقت میں انسان اپنی آنکھوں سے خُدا سے ملاقات میں اسے دیکھے گا۔ اور خُدا میں اسے کائنات بھر کی خوشیاں مل جائیں گی۔ ہم جو ذی انسان ہیں ہمارے دل محبت سے معمور ہو جائیں گے، اطمینان، انبساط اور امن سے ہمارا رُواں رُواں شاداں و فرحاں ہو گا اور ہماری نیک تمنائیں ہر بشر کا فرشِ راہ ہوں گی۔ وہاں پہنچ کے ہم لوگ سب کے سب بہت اچھے انسان بن جائیں گے۔ خُدا باپ ہمیں اپنے درخشاں ''جلووں'' کے ہالے میں سمو لینے کی مشیّت رکھتا ہے ا س کی مرضی ہے تاریخِ انسانی ناخالص نہ رہے، اس میں شفافیت آجائے، وہ اپنے آپ کو درست کر لے اور اس کا سر اپا اتنا بدلے، اتنا بدلے کہ نیا نویلا پن اس کا حُسن دوبالا کر دے۔ ہم نے دارِ فانی میں جتنے بھی اچھے کام کیے ہوں گے، ایک ایک کا بدلہ، انعام ہمارے انتظار میں ہو گا، حال آں کہ ہم نے کیا کِیا؟ ہم میں اتنا زورِ بازو کہاں کہ اپنے چاہے سے کچھ کر دِکھاتے، یہ توفیق تو اس نے بخشی جس کی شہہ پر ہم سے بھی کچھ اچھا ہو گیا اور ہماری مکتی کا سامان بن گیا۔ اگلی دوامی بہتر زندگی سب اُس اوپر والے کے فضل و کرم کا ثمر ہو گی۔ ہاں مبارک حالی کے، بابرکت ہونے کے، اپنے اپنے اعمال مطابق درجے مختلف ہوں گے، جیسا ظرف ویسی مقدار۔ وہ جو آفاقی دنیا ہے وہاں کے تمام موسم خوشیوں اور شادمانیوں کی انتہا کے موسم ہیں، ہمارے خوابوں کی حقیقتوں کے سہانے موسم!

رہا دوزخ۔۔۔۔۔۔ تو اس کے بارے میں مسیحی عقائد کیا ہیں؟ وہ بتانے سے پہلے ہم دریافت کرنا چاہیں گے کہ خُدا کو مہربانی، بڑا مہربان،ا نتہائی رحم کرنے والا، رحمتوں کی بارشیں برسانے والا ماننے والے کیوںکر یقین کر لیتے ہیں کہ اس نے ایک جہنم کو بھی بھڑکا رکھا ہے؟ رحمت کی بارشوں کے سامنے آگ کی کیا بساط۔ اس میں شک نہیں کہ خُداوند یسوع المسیح اقدس عہد نامہء قدیم کی آیت آیت کی تصدیق کرتا ہے: گمبھیر قسم کے گناہوں کا ذِکر ہے جو برائیوں کی پاتال میںذخیرہ ہیں، ایسے گناہ جن کا خمیازہ اس کے سوا اور بھلا کیا ہو سکتا ہے کہ حتمی طور پر ان کے مرتکبین کو خُدا کی رفاقت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہونا پڑے۔ یہ انتخاب تو بندوں کو سوچ سمجھ کے کرنا ہو گا کہ کیا چاہیے، زندگی یا موت۔ زندگی عارضی ہے،موت ملاقات ہے اور اس کے لیے ڈھنگ سے تیاری کی ہو تو موت ہی میں ابدی زندگی چھپی ہے۔ پاک خُداوند کے جلو میں گذرنے والی غیر فانی زندگی! یہ حقِّ آزادی خُدا کی طرف سے ہی ودیعت ہوا ہے اور اس کے ثمرات میں آخری ثمرہ تک کی وہ قدر کرتا ہے۔

جہنم کے بارے میں کلیسیا کا مُعَلَّن اصولِ ایمان ہے جس کی رُو سے وہ اسے ممکنات میں تصور کرتی ہے۔ اور ایسا اس لیے ہے تا کہ ہر کوئی اپنے اعمال و کردار کی اہمیت کے بارے میں محتاط رہے، مذہبی، اخلاقی، معاشرتی اقدار کا خیال رکھے، دوسروں کے کام آئے، ہمسایوں سے اچھا سلوک کرے، اپنے، دوسرے مسیحی بھائی بہنوں بل کہ پوری انسانیت کی فلاح کے لیے دعا گو رہے، خلوت کی عبادت اور جلوت کی ریاضت میں خُداوندِ خُدا کے سامنے انکساری کرے، چرچ کی حاضری میں باقاعدگی لائے اور خُداوندِ خُدا کی خوشنودی حاصل کرنے کو زندگی کا مقصد بنائے تا کہ وہ نجاتِ اخروی کا پکّا پکّا امیدوار بن جائے ورنہ دوزخ تو ہے ہی۔ اور دوزخ کیا ہے، عذاب ہے عذاب۔ کیا روزِ عدالت کوئی ایسا انسان بھی بچ رہے گا جس کی مکتی نہ ہوئی ہو؟ اس پر لعنت ملامت کرتے ہوئے مکتی سے اسے محروم کر دیا گیا ہو، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے؟ کلامِ مقدس اس بارے میں عمداً خاموش ہے۔ نوکمنٹ، پر دھیان میں رہے،ا س کی سزا ہے۔ وہ سزا ہے جو خُدا سے ہمیشہ ہمیشہ کی دُوری کی پھٹکار۔ خُداکے قرب سے دائم محرومی۔ جب کہ اس کے قرب کی آرزو ہمارا نصب العین ہے اور اس قرب کو پالینا، اصل زندگی۔ اس کی بارگاہ سے دھتکارا جانا، عذابِ جاں ہے۔ جہنم کا عذاب۔ نہ جان کبھی ختم ہو گی نہ عذاب!!!

زہے نصیب! بس یہی ایک بھاری بوجھ ہے، غضب کا بھاری بوجھ، جس سے اپنے آپ کو بچائے رکھیں تو خُدا سے علیحدگی نہیں۔ ذمہ دارانہ رویہ اپنائیں، محتاط رہیں تو خُدا کی محبت، اس کا قرب ہر طرح کے عذاب کو ہم سے دُور کر دے گا۔ اور وہ صورتِ حالات سامنے آجائے گی کہ

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

جب اُس کا بالکل آخری آخری بلاوا آجائے گا تو۔۔۔۔۔۔ یہ بات ذہن میں رہے، اسے ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ ایسا ہی ہونا ہے جب ہم اس کی بارگاہ میں نگاہیں جھکائے، نادم و لرزاں 

جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

کی مثال ٹھوڑیاں سینوں سے لگائے اِستادہ ہوں گے، برائیوں، نافرمانیوں، کوتاہیوں میں لتھڑے، ناخالص و ناصاف اور گناہوں، تقصیروں، خطاؤں کی آلایشوں میں ڈُوبے، تو کیا وہ ہمیں یوں قبول کر لے گا؟ یا یہ کہ بھلا ہمیں چاہیے کہ اس کے حضور ہم یوں پیش ہوں؟

جناب! اسی لیے، محض اِسی لیے بہترین مواقع ہمارے سامنے لائے جاتے رہے کہ ان تمام آلایشوں، گندگیوں سے کہ جن کا اوپر ذکر آچکا ہم اپنے آپ کو پاک کر لیں، طہارت و تطہیر کے موقع سے فائدہ اُٹھائیں، تزکیہ و تہذیبِ نفس برُوے کار لائیں۔ ان سنہری مواقع کی فراہمی بھی خُدا مہربان کے رحم و کرم اورخاص رحمت کے نتیجہ میں تھی۔ اپنے بندوں پر ترس کھانا اور ان سے محبت کرنا میرے خُداے بلند و برتر کی خاص صفات ہیں۔ ہم کتنے کم عقل انسان ہیں، کمزور اور بے بس، سمجھتے اپنے آپ کو بہت کچھ ہیں، مگر اصل ہماری یہ ہے کہ اپنی نجات کے لیے ہم اپنے آپ تو اپنا کچھ بھی نہیں کر سکتے، افعالِ نجات کے لیے بھی ہم مکتی داتا ہی کے محتاج ہیں۔

اِیں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خُداے بخشندہ

ہماری کیا بساط، کیا اوقات، نیک اعمال کرنے اور بُرے افعال سے بچنے کی طاقت اس طاقت بخشش خُدا کے ہی بخشنے پر موقوف ہے۔ اور آتشِ محبتِ خُداوندی سے ہم متردّد ہو جاتے ہیں جب ہماری نظر اپنے کیے گناہوں پر پڑتی ہے۔ انگریزی کی ایک اصطلاح ہے Purgatory۔ جس کا مطلب ہے مقامِ کفارہ، اعراف، وہ جگہ جہاں روحیں پاک ہوتی ہیں۔ پرگیٹوری کا مصدر ہے پرگیٹوریم، یعنی مقامِ تطہیر اعراف، جہاں روحوں کا تزکیہ ہوتا ہے۔ ابھی ابھی یہ جو ہم نے ایک لفظ استعمال کِیا تھا۔۔۔۔۔۔ تردُّد۔۔۔۔۔۔ وہ اس لیے لکھا کہ یہ جو آتشِ محبتِ خُداوندی ہے اعراف میں ہی انسانوں کوکم یا زیادہ درد و تکلیف کا مزہ چکھا دے گی کہ دنیا میں گناہوں کا ''لطف'' اُٹھایا تھا اب پاداش میں''مزہ'' بھی چکھو۔ مقصد وہی ہے۔۔۔۔۔۔ مکتی۔۔۔۔۔۔ دائمی مکتی اور اس کے نتیجے میں نعمتوں سے مالا مال دائمی حیات۔ یہی ہماری خوش قسمتی ہے۔ دولتِ مسرت و انبساط، کہ خُدا کے لیے، اس کے حضور حاضری بھرنے کے لیے، اس کی بارگاہ میں اس کی رحمتوں کا سوالی بن کر کھڑا ہونے کے قابل بناتی ہے یہ۔ اس کے کرم سے ہم پاک صاف ہو چکے ہوتے ہیں اور ہمیں وہ مقام حاصل ہوتا ہے کہ ہم مقدسین کی رفاقت پاسکیں، پاک شراکت سے مستفید ہو سکیں۔ کلیسیا میں مرحومین کے لیے کی جانے والی دعاؤں کے محتاج ہم نے بھی ہونا ہے، ہمیں بھی چاہیے ہم بھی فوت شدہ لوگوں کے لیے دُعاے مغفرت کرتے رہیں اور اپنی بھی مکتی کے مقدس خُداوند مکتی داتا یسوع المسیح سے طالب رہیں۔ یہ بات اب تک سمجھ آ جانی چاہیے کہ سب کی نجات میں اپنی بھی نجات ہے، سب کے بھلے میں اپنا بھی بھلا ہے۔ اس لیے سب کے لیے کر بھلا کہ ہو بھلا، سب بھلے کا انت بھلا

فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دُعا کر چلے

قصہ مختصر، (بہشت)۔۔۔۔۔۔ عالمِ قدوسیت۔ ربِّ کائنات کے مترادفات میں سے ہے جو حقیقی، آخری خوش قسمتی ہے، کامرانی ہے۔ انسان کے لیے نعمتِ عظمیٰ ہے بعض صورتوں میں مترقبہ، بعض کیفیتوں میں غیر مترقبہ، ہیون اعلیٰ و ارفع حالت کا نام ہے عالمِ بالا میں، لامکاں میں اس کا وجود ہے جیسے خوشبُو،اسے پھوکی شاعری نہ سمجھیے، اسے شاعرانہ حقیقت ہی قرار دے دیجیے کہ ہیون خوب صورت و مقدس فضا ہے۔ المختصر یہ کہ یہ جو ہیون ہے یہی تمام صفات و قدرت و مشیّتِ الٰہی کا مجموعہ ہے۔ یہی خُدا ہے، بالکل ویسا جیسا ہم نے اس کے بارے میں تصور باندھ رکھا ہے۔ ہمارے مصائب، ہمارے دُکھ درد میں وہی ہے جو کام آتا ہے، رنج و کُلفت کا مداوا کرتا ہے۔ وہی ہمیں پاک کرتا ہے اور ہم نامبارکوں کو مبارک بناتا ہے۔ اُسی کے ہی ہمارے اوپر سب احسان ہیں اِسی لیے اسی کی ہم شکرگزاری دیتے ہیں جو جتنی بھی دیں کم ہے۔

سب کچھ کی فنا کے بعد ربِّ دو عالم نئی دنیا کے افلاک اور نئے ارض و سما تخلیق کر کے بقا میں لے آئے گا۔ بائبل مقدس میں پاک آسمانی یوخرست کا ذکر آیا ہے۔۔۔۔۔۔ پاک ضیافت۔۔۔۔۔۔ اور ارضِ پاک، شہرِ مقدس یروشلیم کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ بالآخر انسانوں میں رہایش پذیر ہونے کے لیے یہیں اس اقدس سرزمین میں خُدا آ بسے گا۔ تمام تر تخلیقاتِ الٰہی کی تجدید کی جا چکی ہو گی۔ دنیا پُر نکھار اور مخلوقات پرجمال و خوشحال ہوں گی۔ ایک سحرِ جمیل ہو گا جو ہماری راہ تک رہا ہو گا۔ حقیقی زندگی، آخری امید، مقدس خُدا باپ، خُدا بیٹے اور روح الحق میں ہماری منتظر ہو گی اور وہ سب کچھ ہمارے ہر نوع کے تصور سے ماورا ہو گا۔

(اقتباسات جناب ونفریڈ ہینز کی تخلیق ''گلاؤبین اِست شوئن''۔۔۔۔۔۔ آئین کاتھولشر فامیلیئن۔ کاٹچسمُس ہارسوم: کوئیلر، 2001عیسوی، صفحات178تا180سے اخذ کیے گئے)


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?