حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور دینِ مسیحیت
۔مُسلمان سوال کرتے ہیں کہ 1
اللہ کے بھیجے ہوئے تمام رسولوں پر اِیمان اِسلام کا خاصہ ہے۔ بعضوں کی بعض پر فضیلت کا بھی قائل ہے لیکن یہ بھی مانتا ہے کہ سب کا ایک ہی پیغام تھا۔ یعنی سچائی جِس کے تمام نبی اور رسول حامل اور امین تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام بھی ایک سچّے پیغمبر تھے۔
تو کیا تمام مسیحی بھی عین مُسلمانوں کی طرح سمیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام نبیوں کو مانتے ہیں؟
مُسلِم نقطہءنظر.... تقابلی جائزہ -2
اجمالاً
یکے بعد دیگرے، بہت سے پیغمبروں کا ذِکر قرآنِ پاک میں آتا ہے جنھیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے تاریخی طور پر ایک تسلسل کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ حضرت عیسیٰ بُلند ترین مقام والے پیغمبروں میں سے ہیں:
”اے مُسلمانو!کہہ دو کہ اﷲ پر، جو ہم پر کلام اُترا اُس پر، ابراہیم پر ، اسمٰعیل پر ، اسحٰق پر ، یعقُوب اور اُن کی اولاد پر جو کلام اُترا اُس پر ، جو موسیٰ اور عیسیٰ کو باتیں عطا ہوئیں، اُن پر اور دیگر نبیوں کو اُن کے رب کی طرف سے جو کلام دِیا گیا اُس سب پر ، ہم ایمان لائے! اور ہم اِن میں سے کسی میں بھی کُچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اِسی ایک اﷲ کے فرماں بردار ہیں “۔
(القرآن،سورةالبقرة:136)
یہ رسول ہیں جِن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، اِن میں سے بعض وہ ہیں جِن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجے بُلند کیے ہیں، اور ہم نے عیسیٰ بِن مریم کو معجزات عطا فرمائے اور روح القدس سے اُن کی تائید کی۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اُن کے بعد والے اپنے پاس دلیلیں آ جانے کے بعد ہرگز آپس میں لڑائی بھڑائی نہ کرتے، لیکن ان لوگوں نے اِختلاف کِیا، ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اور بعض کافر، اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ آپس میں نہ لڑتے، لیکن اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
(القرآن،سورةالبقرة:253)
اے رسُول! کہو کہ ہم اﷲ پر ایمان لائے اور اِس کلام پر ایمان لائے جو ہم پر نازل ہُوا اور جو ابراہیم،اسمٰعیل ،اسحٰق، یعقُوب اور اُن کے بیٹوں پر نازل ہُوا ،اور اُس کلام پر جو موسیٰ ، عیسٰی اور دوسرے نبیوں کو، اُن کے رب کی طرف سے، وقتاً فوقتاً، دِیا گیا اور ہم اُن سب کو مساوی سمجھتے ہیں اور خُود کو اپنے رب کے سِپُرد کیے ہوئے ہیں۔
(القرآن ،آلِ عمران:84)
تاہم، انبیاءکرام علیہم السلام کی لڑی آ کے حضرت محمد پہ تکمیل واختتام کو پہنچتی ہے۔ آپ کو خاتم النبییّن کہا گیا ہے:
(لوگو!) تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد نہِیں لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا (بخوبی) جاننے والا ہے۔
(القرآن، الاحزاب: 40)
پس دِینِ اسلام سچائی کی کسوٹی قرآنی زاویہ نظر کو ہی قرار دیتا ہے اور اسی کی مدد سے دین کے بارے میں اُٹھنے والی ہر کُرید، ہر سوال کا واضح جواب مہیّا کر سکتا ہے۔
مُسلمان کبیدہ خاطر ہو جاتے ہیں جب اُن کے سامنے یہ بات آتی ہے کہ مسیحی دوست حضرت محمد کے مقامِ نبوّت کے سراسر اِنکاری ہیں۔ مزید برآں یہ کہ حضرت محمد کی نبوّت سے اِنکار کوئی معمولی بات نہِیں، کیوںکہ اُنھیں تو خُود خُداوند کریم نے چُنا،قرآن مجید فرقان حمید اُن پر اُتارا اور اُنھیں تمام اِنسانوں کے لیے نبوّت دی، قرآن مجیدعطا فرمایا۔
تفصیلاً
شروع سے ہی قرآن پاک کے ذریعے اس موحدّانہ پیغامِ الٰہی کی تبلیغ وترویج جاری رہی جِس پیغامِ توحید کو تمام پہلے کے نبی بھی لوگوں تک پہنچاتے رہے تھے اور اب اُسی کو فصیح و بلیغ عربی زُبان میں اُتارا جا رہا تھا۔قرآن مجید میں بہت سے انبیاءکا ذِکر نام لے کر کِیا گیا ہے۔ اکثر نام مسیحیوں کے لیے نئے نہِیں کیوںکہ بائبل مُقدّس میں موجود ہیں۔ مثلاً حضرت آدم، اُن کے بعد حضرت ادریس کا ذِکر آتا ہے، پھر حضرت نوح، پھر حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت اِسماعیل، حضرت لوط، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت شعیب،حضرت موسیٰ، حضرت الیسع، حضرت یونس، حضرت ایوب، حضرت داﺅد، حضرت سلیمان، حضرت الیاس، حضرت ذِکریا اور اُن کے بیٹے حضرت یحییٰ (یوحنّا اصطباغی) اور پھِر حضرت عیسیٰ جو بی بی پاک مریم کے بیٹے تھے۔ (قرآن شریف مریم مُقدّسہ کو پیغمبر نہِیں بتاتا، اِس لیے مُسلمان اُنھیں نبیوں میں شُمار نہِیں کرتے لیکن عزت واحترام و عقیدت کے لحاظ سے اُنھیں بہت بُلند مقام پر فائز مانتے ہیں اور اُنھیں یہ شرف بھی حاصل ہے کہ وہ واحد خاتون ہیں کہ نام لے کر جِن کا ذِکر قرآن مجیدمیں آیا ہے۔) ماسواے حضرت الیاس، الیسع، یونس علیہم السلام اور بعض مواقع پر حضرت موسیٰ کے باقی انبیاءکے اللہ تعالیٰ کے فرستادہ ہونے کے بارے میں بائبل مُقدّس خاموش ہے۔ اُن کا ذِکر بطور نبی کے نہِیں آیا بل کہ جِن چار مرکزی پیغمبروں اور بارہ رسولوں کو بائبل مُقدّس نے انبیاءکا درجہ دیا ہے اُن کا قرآن مجیدمیں کوئی حوالہ نہِیں آیا سواے حضرت یونس علیہ السلام کے اور اُن کا ذِکر بھی اُس حکایت کے ذیل میں آیا ہے جِس میں وہیل مچھلی اُنھیں ثابت ہی نِگل لیتی ہے۔ نبی دوالکفیل کا ذِکر بھی یونہی سرِراہے کہِیں قرآن شریف میں آ گیا ہے اور وہ بھی حضرت حزقیال کے نام کے ساتھ مِکس اَپ ہو ہو کر۔ اسی طرح قرآن شریف میں ایسے پیغمبروں کا بھی ذِکر ہے جِن کے ناموں سے بائبل مُقدّس واقف نہِیں۔ جیسے قبیلہ عاد کے پیغمبر حضرت ہود اور قوم ثمود کی طرف خُدا کے بھیجے پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام۔
تین پیغمبر ہیں جِن کا ذِکر قرآن شریف میں بار بار آیا ہے۔ اکثر قرآنی بیانیوں میں اِن پیغمبروں کو مرکزی حیثیت میں مذکور کِیا گیا ہے، اُن کی ایسی بعض تفاصیل بائبل مُقدّس میں بھی ہیں اور بعض کا بائبل مُقدّس میں کہِیں حوالہ موجود نہِیں، یا پھر اُن کی تفصیل بالکل ہی مختلف ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حُکم کی بجاآوری میں اپنے بیٹے کو قربان کر دینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ اِس فرزند کا نام قرآن پاک میں کہِیں مذکور نہِیں۔ لیکن مُسلمانوں کا اِس پر اِیمان ہے کہ وہ فرزند حضرت اِسماعیل علیہ السلام ہی تھے نہ کہ حضرت اسحاق علیہ السلام جِن کا تذکرہ بائبل مُقدّس میں آیا ہے۔ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتوں کو حضرت ابراہیم خُوش آمدید کہتے ہیں اور اُن کی پذیرائی کرتے ہیں۔ آپ مُسَلَّم اور نُمایاں نمونہ ہیں توحید پرستی کا۔ مکّہ کے لوگ جو بہت سے خُداﺅں کے آگے سجدہ ریز ہوتے تھے اُن کی عبادات میں تطہیر اور ایک خُدا کے سامنے جھکنے کے لیے حضرت ابراہیم اپنے بیٹے کے ساتھ مِل کر خانہ کعبہ کی بُنیاد رکھتے ہیں۔ عبادات کا طریق طے کرنے اور فریضہ حج کی روح کی آبیاری کے لیے (قرآن مجید میں بھی جسے فرض عبادات میں شامل کِیا گیا ہے) تمام پیغمبروں میں حضرت ابراہیم کی یہ کارکردگی مِثالی ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام دریاے نیل کے پانیوں سے محفوظ فرعون کے محلات میں پہنچ جاتے ہیں اور وہیں اُنھیں پالا پوسا جاتا ہے۔ بعد میں وہ اجازت طلب کرتے ہیں کہ اپنے بھائی حضرت ہارون کی مدد سے اپنے لوگوں کو لے کر مصر سے رُخصت ہو جائیں۔ بحیرہ احمر میں راستہ پانے کے بعد خُشک زمین پر اُسے عبور کر کے طورِ سینا پہنچتے ہیں جہاں خُداوند کریم اُن سے ہمکلام ہوتا ہے۔ (یہی سبب ہے کہ اُنھیں موسیٰ کلیم اللہ کہتے ہیں) یہیں اللہ تعالیٰ اُن پر توریت نازل فرماتے ہیں (یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کیے گیے صحائفِ خمسہ جو وہ کوہِ طور سے اپنے ہمراہ لائے)۔
(صحرا میں کھجور کے درخت تلے) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کنواری بی بی پاک مریم کے ہاں معجزانہ طور پر جنم لیتے ہیں۔ اُن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب انجیلِ مُقدّس نازل ہوئی ہے۔ وہ بھی آلِ اسرائیل کو توحید پرستی کی دعوت دیتے ہیں۔ اُنھیں بہُت سے معجزوں سے نوازا گیا ہے مثلاً مٹّی سے بنائے گئے ایک پرندے کو زِندگی عطا کرنا، چھپے بھیدوں کی افشائی، نابیناﺅں اور کوڑھیوں کو بینائی اور شفا دینا، مُردوں کو زِندہ کرنا آپ کو یہودی خصومتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہودی ہی ہیں جِن کا دعویٰ ہے اُنھوں نے حضرت عیسیٰ کو سولی چڑھا دیا تھا۔ حال آںکہ یہ محض ایک فریبِ نظر تھا، کیوںکہ اِس سے پیشتر کہ یہودی اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوتے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو اوپر آسمانوں میں اپنے پاس اُٹھا لیا۔ وہ زِندہ ہیں اور دوبارہ دُنیا میں آئیں گے روزِ قیامت کے نقیب بن کر، اور اعلان کریں گے کہ اِسلام ہی سچّا مذہب ہے۔ اپنی حیاتِ مبارکہ میں بھی آپ اپنے بعد کے ایک آخری نبی کی آمد کی پیشگوئی کرتے رہے، اُن کا نام حضرت عیسیٰ نے احمد بتایا:
اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا، اے (میری قوم) بنی اسرائیل! مَیں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہُوں۔ مجھ سے پہلے کی کِتاب توریت کی مَیں تصدیق کرنے والا ہُوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی مَیں تمھیں خوشخبری سنانے والا ہُوں، جِن کا نام احمد ہے۔ پھِر جب وہ اُن کے پاس کھُلی دلیلیں لائے تو یہ کہنے لگے، یہ تو کھُلا جادو ہے۔
(القرآن، الصف: 6)
(احمد نام مترادف ہے محمد کا)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کلمة اللہ ہیں، آپ روح اللہ بھی ہیں مگر نہ خُدا کے بیٹے ہیں اور نہ خُود خُدا۔ پیغمبروں میں عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور آپ خاتم النبییّن ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہِیں آنا۔ نبوّت آپ پر ختم ہوئی۔ حضرت عیسیٰ کے 570سال بعد آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ کامیاب سوداگر تھے اور جب 40برس کی عمر کو پہنچے تو آپ پر پہلی وحی اُتری اور پیغمبر مبعوث ہوئے اور حُکم ہُوا، جائیے! اعلاے کلمة الحق کا آغاز کیجیے۔ جو آپ نے کہا وہ وہی تھا جو لوحِ محفوظ میں درج تھا۔ اور وہ عین وہی کُچھ ہے جو قرآن مجیدمیں محفوظ ہے۔ سال 622ع عیسوی مکّہ والوں کے ظلم وستم سے تنگ آ کر آپ نے ہجرت کے لیے یثرب (مدینہ منورہ) جانے کے لیے رختِ سفر باندھا۔ مدینہ میں آپ مذہبی رہنما ہی نہِیں سیاسی قائد بھی تھے۔ ایک خُدا پر اِیمان لانے والوں کو آپ نے متحد کِیا اور اُنھیں ایک اُمّہ کا درجہ عطا فرمایا۔ خُداے واحد پر اِیمان لانے والے تمام مُسلمان بھائی بھائی ہو گئے۔ حضرت محمد کی کاوشوں نے پارہ پارہ اقلیتوں کو متحد کر دیا، قبیلوں میں بٹے لوگ ایک ہو گئے اور بعض رکاوٹوں کے باوجود یہ اِتحاد بہت بڑی طاقت کا پیش خیمہ بنا۔ آپ کو بڑی آس تھی کہ یہود اور نصاریٰ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغامِ حق پر صاد کر دیں گے کیوںکہ جِس دِین کو قبول کرنے کی پیغمبرِ اِسلام دعوت دے رہے تھے وہ کوئی نیا دِین نہِیں تھا نہ ہی پہلے کے تبلیغ کیے گئے دِین کا نعم البدل، یہ دینِ اسلام تو تکمیل تھی اُن کے دِین کی جو اُن تک پہنچا تھا۔ مگر آپ کی آشا پورے طور نراشا نہ ہوئی۔ معاملات ناقابلِ برداشت ہوئے تو حضرت محمد نے اپنے سجدوں کا رُخ یروشلم سے موڑ کر مکّہ میں خانہ کعبہ کی طرف کر لیا۔ سال 630ع میں آپ نے بُتوں کو پاش پاش کر دیا، تصویروںاور دوسری بے دینی علامتوں سے کعبة اللہ کو پاک کر دیا۔ اور سنہ 632عیسوی میں یہی مکّہ حجِ اکبر کے لیے منزل قرار پایا۔ خطبہ حج آپ نے ادا فرمایا اور پھِر ہر سال حجاج کرام فریضہءحج کی ادائی کے لیے باقاعدگی سے آنے لگے اور آتے رہیں گے۔ اِسلام کا پانچواں رُکن حج ہے۔ 632ع آپ کے وصال کا سال تھا۔ مُسلمانوں کی زِندگی میں قرآن پاک، سُنتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور احادیثِ مبارکہ سے قرینہ راہ پاتا ہے۔ حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفاتِ حسرت آیات کے بعد بہت سی مبارک ہستیاں آپ کی ازواجِ مطہرات بنیں، سب کے ساتھ آپ نے اِنصاف برتا اور کِسی کو کِسی سے کوئی گِلہ نہ ہونے دیا۔
قابلِ غور بات ہے کہ قرآن شریف میں اکثر پیغمبروں کے بارے میں جو حکایات بیان ہوئی ہیں سب ایک جیسی ہیں
٭اللہ تعالیٰ کِسی کو اپنا پیغمبر منتخب کرتا ہے اور یہ پیغمبر اسی کی ہی قوم میں سے ایک خاص بندہ ہوتا ہے جو اللہ کا دِین پھیلائے۔
٭پیغمبر اپنے ہی لوگوں کی زُبان میں بات کرتا ہے۔
٭وہ دعوت دیتا ہے کہ خُدا واحدہ، لاشریک ہے، (سبھی رسول یہی پیغام لاتے ہیں)۔
٭اس نبی کو اپنے ہی لوگوں کے معاندانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ اسے قتل کر دیے جانے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔
٭اپنے بھیجے ہوئے پیغمبر کو پایانِ کار خُدا خُود بچا لیتا ہے اور منکرین کو عقوبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مندرجہ بالا کے عین مماثل ہے سرورِ کائنات کی زِندگی جو عین مطابقت رکھتی ہے اُن سے پہلے مبعوث کیے گئے نبیوں کی زِندگی اور ان کے تجربات سے، اور اُن کی تصدیق قرآنی آیات سے ہوتی ہے۔ قرآن پاک کی رُو سے دیکھا جائے تو حضرت عیسیٰ بھی حضور پاک کی طرح خُدا کی وحدانیت کی ہی تبلیغ کرتے رہے۔ اور پوری استقامت سے اُن خیالات و مفروضات کی نفی کرتے رہے جِن پر اُن کا اِتفاق نہِیں تھا کہ وہ اور اُن کی والدہ محترمہ حضرت مریم بھی خُدا ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ، اُس کے شریک۔
قرآن مجید فرقانِ حمید میں باری تعالیٰ اِرشاد فرماتا ہے:
اور وہ وقت بھی قابلِ ذِکر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابنِ مریم! کیا تم نے اُن لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو؟ عیسیٰ عرض کریں گے کہ مَیں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہُوں، مجھے کسی طور زیبا نہ تھا کہ مَیں ایسی بات کہتا جِس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہِیں، اگر مَیں نے کہا ہو گا تو تجھ کو اُس کا عِلم ہو گا۔ تُو تو میرے دِل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور مَیں تیرے نفس میں جو کُچھ ہے اُس کو نہِیں جانتا۔ تمام غیبوں کا جاننے والا تُو ہی ہے۔
مَیں نے تو اُن سے اور کُچھ نہِیں کہا مگر صِرف وہی جو تُو نے مجھ سے کہنے کو فرمایا تھا کہ تم اللہ کی بندگی اِختیار کرو جو میرا بھی رَب ہے اور تمھارا بھی رَب ہے۔ مَیں اُن پر گواہ رہا جب تک اُن میں رہا، پھر جب تُو نے مجھ کو اُٹھا لیا تو تُو ہی اُن پر مطلع رہا۔ اور تُو ہر چیز کی پوری خبر رَکھتا ہے۔
(القرآن،المائدہ: 116-117)
ہجرت کے بعد مدینہ میں آںحضرت محمد کو مقامی یہودی قبائل کی طرف سے اور کسی حد تک مسیحیوں کی طرف سے بھی مخالفتوں کا سامنا رہا۔ گو کہ اُن کا پیغام، اُن کی دعوتِ دین، روایاتِ بائبل مُقدّس سے ہی مُطابقت رکھتی تھی مگر ایک تضاد بھی موجود تھا کہ بعض دینی مسائل پر مسیحیت میں بہت زور دیا جاتا تھا اور بعض کی اِسلام میں بہت اہمیت تھی۔ اُن کی اُمّت اور خُود پیغمبرِ اسلام نے جان لیا کہ بس وہی دیندار ہیں جو سُنّتِ ابراہیمی پر عمل پیرا ہیں اور دینِ ابراہیمی کے سَچّے اور سُچّے مقلد ہیں۔ چناںچہ اُنھوں نے یہود ونصاریٰ کے دعووں کی نفی کر دی کہ وہ بھی دینِ ابراہیمی کے ماننے والے ہیں جب کہ حضرت ابراہیم نہ تو یہودی ہی تھے اور نہ مسیحی۔ توحید پرستی کے ہی علمبردار اور پرچارک تھے اور یہی فلسفہ توحید تھا جسے حضرت محمد کونئے سِرے سے اُجاگر کرنا پڑ رہا تھا۔
کلام اللہ ہے کہ:
یہ کہتے ہیں کہ یہود ونصاریٰ بن جاﺅ تو ہدایت پاﺅ گے۔ تم کہو بل کہ صحیح راہ پر ملتِ ابراہیمی والے ہیں، اور ابراہیم (علیہم السلام) خالص اللہ کے پرستار تھے اور مُشرک نہ تھے۔
(القرآن،البقرة: 135)
کیا تم کہتے کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) اور اُن کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے؟ کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو؟ یااللہ تعالیٰ؟ اللہ کے ہاں شہادت چھپانے والے سے زیادہ ظالم اور کون ہے؟ اور اللہ تمھارے کاموں سے غافل نہِیں۔
(القرآن،البقرة: 140)
مزید یہ کہ حضرت محمد نے اپنے آپ کو پیغمبرانہ روایات کا جائز وارث و امین پایا اور بطور خاتم النبیّین۔
(لوگو!) تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نہِیں لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیّوں کے ختم کرنے والے (یعنی آپ پر نبوّت و رسالت کا خاتمہ کر دیا گیا) اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا (بخوبی) جاننے والا ہے۔
(القرآن،الاحزاب: 40)
....خاتم النبیّین کے طور پر دین کا عروج اور تکمیل اُنھی پر ہوئی۔ چناںچہ اُن کے ذمہ لگانے والا حق.... قرآن وہ کسوٹی بن گئی جِس پر تمام پہلے کی کتابوں اور صحیفوں کی پرکھ ہو سکتی ہو مثلاً متبرک توریت، زبور، مقدّس انجیل۔
۳۔مسیحی نقطہءنظر۔ تقابلی جائزہ
نئے عہد نامہ اور پُرانے عہد نامہ دونوں میں مُقدّس بائبل سے منسوب روایات کے مطابق پیشگوئی کے عطیہ خُداوندی کو اہم ترین عُنصُر کا درجہ حاصل ہے۔ ویرنر ایچ شمٹ اور گیر ہارڈ ڈیلنگ نے بھی لِکھا ہے کہ نبی آنے والے واقعات و حالات سے ہی اپنے عمل کا آغاز کرتے ہیں، وہ مستقبل کی بات کرتے ہیں، نامعلوم مستقبل تک پہنچنے کے لیے وہ حال کو سیڑھی نہِیں بناتے وہ تو آنے والے وقتوں میں اِنصاف اور نِجات کی خُوشخبری دیتے ہیں۔ حضرت یسوع مسیح کی زِندگی کا تو یہی نقطہءعروج ہے۔ حضرت یسوع اِنسانی شکل میں خُود خُدا کا کلام ہیں، انجیل مُقدّس ہیں اور نبی ہیںاتّم درجہ پر فائز، اعلیٰ ترین امتیازات کے ساتھ۔ حضرت یسوع مسیح تو پہل کار ہیں اور مذہب کو اُن سے پختگی حاصل ہوئی:
اور حضرت یسوع کو تکتے رہیں جو ایمان کا بانی اور کامِل کرنے والا ہے جس نے اُس خوشی کے لیے جو اُس کے سامنے تھی، رُسوائی کو ناچیز جان کر صلیب کو برداشت کِیا اور خُدا کے تخت کی دہنی طرف جا بیٹھا ہے۔
(عبرانیوں 2:12)
نبوّت کا تسلسل کلیسا سے قائم ہے اور وقت کے تھم جانے تک یہ نبوی ہی رہتی ہے فقط اِن تعلیمات کے زور پر ہی نہِیں بل کہ اس کا دارومدار خُدا کے خاص بندوں پر بھی ہے جو روح القدس کے فیض کے صدقے اس صفت سے متصف ہیں۔
تاہم نبوّت کی روح، کلیسیا کی دیدنی حدود جِن سے سبھی شناسا ہیں اُن کی حدود بھی پار کر جاتی ہے۔ جیسا کہ ہمیں پُرانے عہد نامہ کے توسط سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی بھی مُقدّس ہستیاں گذری ہیں جو نبوّت کے اتھاہ سمندر کی شناور تھیں۔ مثلاً ملکی صادق، ایوب نبی اور ملکہ سبا اور جسٹن شہید دوم صدی، بہت سے فلسفیوں اور کاہنوں کے پیروکار نبوّت کرنے والے غیر یہودیوں سے جو فال نِکال کر پیشگوئیاں کرتے تھے، سے کہِیں بڑھ کر ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔ نتیجہ یہ کہ دیے سے دیا آج بھی جل رہا ہے۔
زمانہ حال کے بعض دینی علماءتو اِس سے بھی آگے کی بات کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ دوسری مُسلِم۔ کرسچین کانفرنس منعقدہ تیونس 1979ع کے دوران پروفیسر کلاﺅڈی جیفرے جو کیتھولک انسٹیٹیوٹ آف پیرس میں پڑھاتے تھے، اُنھوں نے اِظہارِ عام کِیا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مُسلمانوں کے نبی پر جو وحی اُترتی تھی وہ خُدا کا ہی کلام ہوتا تھا جب کہ حضرت یسوع مسیح جو نبی بھی تھے اور دراصل نبی سے بڑھ کر بھی تھے یعنی اپنی ذات میں وہ خُود کلامِ خُدا تھے۔ بہ ہرکیف 1977ع سے قائم شدہ ”اِسلام و مسیحیت تحقیقاتی گروپ“ کے اراکین دینی علماءنے تسلیم کِیا کہ قرآن میں کلامِ خُدا کے الفاظ کی موجودگی ثابت ہے لیکن اس سے مختلف ہے جو کلمة الحق کی ترکیب حضرت یسوع مسیح کے لیے اِختیار کی گئی۔ اِن اِختلافات بل کہ تضادات کے ضمن میں (مثلاً حضرت یسوع میسح کی تجسیم بطور اِنسان جو مسیحیوں کا اٹوٹ عقیدہ ہے قرآن شریف اُسے ماننے سے اِنکاری ہے، نہ ہی مُسلمان تثلیث کو مانتے ہیں۔ قرآن شریف کی نظر میں تو یہ شرک ہے) انسانوں کو چاہیے مصالحانہ رویوں کو اپناتے ہوئے ایسے مُتضاد و مختلف دینی مسائل سے ہٹ کر خُدا کے کلام کے لازمی اِبلاغ کی راہیں کھُلی رکھنے پر توجُّہ دیں۔
بعض دوسری مسیحی روایات کے علماءمیں ہمیں ایک نمُو، بتدریج فروغ سے واسطہ پڑنا کوئی دُور کی بات نہِیں۔ برطانوی بشپ عزت مآب کینیتھ کریگ جو کہ مذہب اِسلام کے ممتاز صاحبِ عِلم و دانش بھی ہیں اپنی کتاب ”محمد اینڈ دی کرسچین“ میں مسیحیوں کو کھُلے عام یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ محمد کو تسلیم کریں کہ خُدا کے سچّے پیغمبر تھے اور اِس میں بھی شک کی کوئی گُنجایش نہِیں کہ حضرت یسوع مسیح کا پیغمبروں سے بڑھ کر ایک الگ مقام بھی ہے، بہت بُلند۔
دوسری ویٹی کن کونسل میں اِس امر کا جامع اور حتمی اقرار تو نہِیں کِیا گیا لیکن پھِر بھی پیغمبرِ اِسلام کا نام لیے بغیر کھُلے دِل اور کھُلے ذہنوں سے اِسلام کے سلسلہ میں ایک مثبت عملی تغیّر کے پیدا کیے جانے کی کلیسا کی طرف سے حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ یہ اعلان ہُوا کہ کلیسا مُسلمانوں کی توقیر کا حامی ہے۔ (لامحالہ یہ ایک نئی پیش رفت تھی)
اور بُنیادی اِختلافات سے قطع نظر اِسلامی عقائد ورسومات کو بھی قابلِ احترام نِگاہوں سے دیکھا جائے۔
مُسلمانوں کو راسخ العقیدہ (مومن)، توحید پرست، خُداے واحد کی عبادت کرنے والے تسلیم کرتے ہوئے کاتھولک کلیسا نے مسیحیوں کو چیلنج دیا کہ وہ مُسلمانوں کی اِن اقدار کا احترام کریں۔ چناںچہ ویٹی کن کونسل نے موموثِّرو نمایاں طور پر ماضی کی اُن نزاعی چپقلشوں اور بدگمانیوں کو جو مُسلمانوں کے نبی کے بارے میں پائی جاتی تھیں، سب کو تیاگ دیا کیوںکہ اُن کے نبی حضرت محمد نے مُسلِم اُمّہ کو تشکیل دیا، مُتحد کِیا، خُوب صورت طرزِ زِندگی اپنانے کے لائق بنایا، حُسنِ سلیقہ عطا کِیا، اُن میں کِردار کی بُلندی پیدا کی تھی۔ قرآن شریف میں آتا ہے کہ:
یقینا تمھارے لیے رسول اللہ میں عُمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دِن کی توقع رَکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے۔
(القرآن ،الاحزاب:21)
مُسلمانوں کے ساتھ ہونے والی میٹنگز میں عزت مآب پوپ پال ششم (1978ع۔ 1897ع) اور عزت مآب جناب پوپ جان پال دوم (2005ع ۔ 1920ع ) نے ایک خُدا پر اِیمان ہونے کے باعث مُسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان پائی جانے والی بھائی چارے کی روح کو مزید تقویت پہنچائی ہے اور خصوصی طور پر عزت مآب پوپ جان پال دوم کے خُطبات میں جو اُنھوں نے تُرکی کے مسیحیوں سے خطاب کے دوران (انقرہ، نومبر 1979ع ) اور مراکش کے کاسابلانکا سٹیڈیم میں مُسلِم نوجوانوں سے خطاب کے دوران (17اگست 1985ع ) مُسلمانوں اور مسیحیوں کے مابین مُصدقہ روحانی بھائی چارے کی بھرپور انداز میں حوصلہ افزائی فرمائی۔
بشپ صاحبان کی علاقائی کانفرنسوں اور دینی علماءکے سیمینار اور مجلسوں میں بھائی چارے کے اِنھی میلانات کو عام کِیا گیا۔ مثال کے طور پر،1971ع کی انٹرنیشنل تھیولوجیکل کانفرنس منعقدہ ناگپور (بھارت) میں دعویٰ کِیا گیا کہ تمام اِدیان ومذاہب کی کتابوں، صحیفوں، پوتھیوں، گرنتھوں اور اُن کی دِینی رسومات وتقریبات کو اپنے اپنے حساب میں مکاشفہءالٰہی یعنی اِظہارِ ربانی کے حاصل ہونے کا شرف حاصل ہے اور یہ خصوصیت بھی کہ پیروکاروں کو نِجات کی راہ دِکھاتی ہیں۔ قرطبہ (سپین)میں دوسری مُسلِم مسیحی کانفرنس جو ماہ مارچ 1977ع کو اِنعقاد پذیر ہوئی اُس کانفرنس کے خطبہ استقبالیہ میں جناب کارڈینل ترنکون نے جو اُس وقت آرچ بشپ آف میڈرڈ اور کانفرنس آف ہسپانوی بشپس کے چیئرمین بھی تھے، اُنھوں نے تمام مسیحیوں کو اس طرف مائل کِیا کہ وہ محمد عربی کا نبوّت کے مقام پر فائز ہونا تسلیم کر لیں۔ خاص طور پر اس لیے کہ خُداے واحد پر اُن کا ایمان بہُت مضبوط ہے۔ شِرک کے خلاف اُن کی جدوجہد اور راست بازی، صداقت، پارسائی کو حرزِ جان بنا لینا۔ شروع شروع میں، آٹھویں صدی عیسوی کے زمانے کی بات ہے کہ بغداد میں خلیفہ المہدی سے مکالمہ کے دوران نسطوری آبا ٹِموتھی نے بھی کہا تھا کہ محمد نبیوں اور رسولوں کی راہ کے راہی تھے۔
آغازِ اسلام سے اب تک مُسلمانوں کی مذہبی و اِخلاقی اِقدار کی پذیرائی کے سلسلہ میں مسیحیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے مگر اِس شرط کے ساتھ کہ ایسا کرتے ہوئے مسیحی لوگ اپنے مذہب کی کسی ایک بھی شِق کو کوئی معمولی سا بھی گزند نہ پہنچا بیٹھیں۔ چناںچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف کو خُدا کا کلام ماننے کے لیے مسیحیوں کے سامنے کوئی رُکاوٹ نہِیں اور وہ راستہ بھی صاف ہے جِس پر چلتے چلتے قرآن شریف کو خُدا کا کلام دیکھتے سمجھتے ہوئے محمدی مِشنمیں بھی اُنھیں پیغمبرانہ اوصاف نظر آنے لگیں۔
۴۔مسیحی جواب
۱۔ہم تو قائل ہیں اِس بات کے کہ صحیح مکالمہ تبھی شروع کِیا جا سکتا ہے، جب گفتگو کرنے والے فریقین کا لیول بھی صحیح رفاقت و شراکت داروں والا ہو۔ ایک دوسرے کے مذہب کا دونوں فریق احترام کرتے ہوں کیوںکہ احترام ولحاظِ خاطر ڈائیلاگ کا سب سے اہم عُنصُروجزو ِخاص ہوتا ہے۔ بس، یہ اسی طرح ہے کہ کوئی مسیحی مخلصانہ مکالمہ کے لیے شرطِ اوّل یہ نہِیں عائد کر سکتا کہ مُسلمان کو بھی یہ مطالبہ زیب نہِیں دیتا کہ وہ کہے، نہِیں جی، پہلے آپ مانیں کہ محمد آخری نبی ہیں اور قرآن شریف آخری اور مکمل کِتاب اللہ یعنی دوسری مذہبی کتابوں کی پرکھ کے لیے، اُنھیں جانچنے والی کسوٹی۔ اگر ایسا مان لیا جائے تو پھِر تو مسئلہ ہی ختم۔ کیوںکہ اس کا تو مطلب ہو گا کہ بین المذاہب ہم آہنگی کا مکالمہ شروع ہونے سے پہلے ہی مسیحی مُسلمان ہو گئے یا پھِر اُس کے الٹ کہ مسلمانوں نے حضرت یسوع مسیح کو خُدا کا بیٹا مان لیا اور وہ مسیحی ہو گئے۔ ایسا ہو جائے تو پھِر مکالمہ کیسا؟
۲۔قرآن شریف میں جِن رسولوں کا ذِکر آتا ہے اُن میں سے اکثر مسیحیوں کے ہاں بھی معتبر ومحترم مانے جاتے ہیں، لیکن بائبل مُقدّس میں اور بھی بہت سے نبیوں کا ذِکر موجود ہے جیسا کہ اشعیا نبی، ارمیا نبی اور حزقیال نبی لامحالہ بُلند مرتبت نبی ہو گذرے ہیں۔ علاوہ ازیں بعض پیغمبر جِن کا قرآن شریف میں ذِکر آیا ہے اُن کا تعلق بس عرب ثقافت وروایت سے ہی تھا۔ بائبل مُقدّس میں اُن کا کوئی تذکرہ موجود نہِیں۔ البتہ اِس سے قطع نظر کہ کتنے نبی بھیجے گئے، اُن کے کیا نام تھے اور وہ کِس پیغامِ خُدا کے پرچارک تھے، کُچھ بھی ہو ایکنقطہءنظر ضرور ایسا ہے جِس پر مُسلِم مسیحی ایک ہیں اور وہ نقطہ ہے ان کا ٹھوس عقیدہ کہ خُدا ایک ہی ہے جو عبادت کے لائق ہے وہ واحد ومالک جِس پر مُسلِم ہو یا مسیحی اِیمان لے آیا وہی ہے جِس نے اپنے بندوں، خاص بندوں سے کلام بھی کِیا۔ دوسری ویٹی کن کونسل میں یہ بات پایہ تصدیق کو پہنچی تھی۔ خُداوند کریم کو پا لینے کے لیے کرسچین کمیونٹی ہو یا مُسلِم اُمّہ دونوں مذہب کی بُنیاد نہ صرف فلسفیانہ اندازِ نظر پر اُستوار کرتے ہیں بل کہ خُدا کے حُکم، کلامِ الٰہی پر زیادہ پُختہ اِیمان رَکھتے ہیں جو خُدا کے بھیجے پیغمبروں کے ذریعے اُن تک پہنچا۔ یعنی.... خُدا کی باتیں خُدا ہی کی طرف سے.... چناںچہ اُنھوں نے اپنے آپ کو تعمیلِ حُکم کے لیے خُدا کو سونپ دیا۔ اِطاعت شعاری اپنا اِیمان بنا لی۔ (یہ تسلیم ورضا ہی اِسلام کے ٹھیک ٹھیک معانی ہیں اور مُسلِم کا مطلب بھی یہی ہے، خُدا کا اطاعت شعار بندہ)۔
۳۔اِسلام اور مسیحیت میں اِختلاف کی دراڑ جو ناقابلِ نظراندازی ہے وہ کُچھ یُوں ہے کہ مُسلمان جسے پیغمبرانہ کشف و اِظہار کی معراج سمجھتے ہیں وہ اُن کے نبی محمد پر ختم ہے۔ نبیوں پر مُہر ہیں اُن کے نبی۔ نبوّت اُن پر آ کر ختم ہو گئی۔ جب کہ مسیحیوں کے ہاں الہام اور اِظہارِ خُداوندی کی انتہا حضرت یسوع مسیح کی ذاتِ اقدس ہے۔ خُدا کے کلام نے اِنسان کا رُوپ دھار لیا۔ صلیب پر جان دے دینا اور مُردوں سے جی اُٹھنا خُداوند کے طور پر مکمل ومعموری نزول۔ ہم خُداوند حضرت یسوع مسیح کو آخری نبی نہِیں کہہ سکتے، نہ ہمیں کہنا ہی چاہیے کیوںکہ یہ لقب تو عین اِسلامی ہے۔ اگر ہم نے اپنے نبی کو نبیوں کا خاتم کہا تو بین المذاہب مکالمہ کی روح کو نقصان پہنچانے والی بات ہو گی۔ بات آگے نہِیں بڑھے گی، رکاوٹ پڑ جائے گی۔
۴۔بہ ہرحال یہ حقیقت اَٹل ہے کہ دُنیا میں اِظہارِ خُداوندی حضرت یسوع مسیح کی صورت ہُوا۔ مسیحیوں پر یہ عقیدہ کوئی قدغن نہِیں لگاتا کہ وہ یہ قبول کر لیں کہ نسلِ انسانی میں خُدا نے اپنے آپ کو کہِیں اور بھی ظاہر کِیا ہو گا، حضرت یسوع مسیح سے پہلے بھی اور ہو سکتا ہے کہ بعد میں بھی۔ وہ جو چاہے کر سکتا ہے، قادرِ مُطلق ہے اور جہاں تک قرآن شریف اور حضرت محمد کا معاملہ ہے یہ اعتراف کر لینے میں قطعاً کوئی حرج نہِیں کہ قرآن شریف ہے ہی اللہ کا کلام جو یہ نہِیں کہ فقط مُسلمانوں کے لیے ہی وحی ہُوا، وہ تو خُود خُدا کا کلام ہے اور سارے عالم کے لیے ہے، اور ذاتی طور پر مَیں سمجھتا ہُوں کہ بے شک میرے لیے بھی۔ یہ بات بِلا مُبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ قرآن شریف کے زبردست دعوے میں خُدا کے بارے میں واضح طور یہ اِرشاد موجود ہے کہ وہ اکیلا ہے اور ماوراے ادراک ہے۔ مُجھے تسلیم کہ یہی اہم عُنصُر ہے حضرت یسوع مسیح کے دعوتِ دین دینے میں بھی اور یہ بھی کہ ایک پُختہ عہد پر مَیں راسخ رہوں، اُس عہد پر جِس کی حضرت یسوع مسیح نے بھرپور دعوت دی۔ کِسی بھی دِین دار مسیحی کو اِس پیغامِ الوہیّت کو کہ جِس کی قرآن شریف میں بھی دعوت موجود ہے۔ سمجھنے، غور وفکر کرنے پر آمادہ کروں پھِر تو اِس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ مَیں مان لوں کہ حضرت محمد کو خُود خُدا نے نبوّت عطا کی تاکہ وہ اَبدی سچّائی کی اُس اہم شِق کو خلقت کے سامنے لے آئیں جسے توحید کہتے ہیں اور وہ اعلان بھی جو ادراک میں خُدا کی رفعت وماورائیت پر منتج ہے۔ یہی اِس سچ کا انتہائی وقیع اور مہتمم بالشان پہلو ہے جو اِس ماڈرن دُنیا کی خُدا سے دوریوں کے باوجود اپنی چمک دمک ماند نہِیں پڑنے دیتا۔
۵۔اِس بُنیادی صداقت کی گواہی مسیحی بھی دیتے ہیں اور مُسلمان بھی خُدا کی تعلیمات اور اُس کے فرمودات کے سامنے دونوں کا ہی سرِ تسلیم خم ہے۔ احکامِ الٰہی کا اِبلاغ ہمارے اپنے اپنے کشف کا مرہونِ منّت ہے۔ مُسلمان ہوں یا مسیحی، مالک کی منشاءورضا یعنی تقدیر پر دونوں کا اِیمان مُسَلّم ہے، اِسی لیے اُن کی گواہی بھی معتبر ہے بلکہ معتبر ترین ہے کیوںکہ لوہا اِس قدر گرم ہو چُکا ہے کہ اب خُود آگ ہے۔
تتمہءتوضیحی
فادر جیک جو میئر او۔پی جو ایک اہم مسیحی عالمِ دِین اور اِسلام کے بھی پایہ کے عالم و محقق ہیں، حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت کے حوالے سے اپنے خیالات پیش کرتے ہیں۔ اُن کے دور میں مسیحیت میں اِصلاحات کی ضرورت اظہر من الشمس تھی۔ حضرت یسوع مسیح کی تعلیمات و تبلیغ کے عین مطابق احیاے مسیحیت کی احتیاج واضح تھی۔ جو میئر مسیحی تناظر میں جب حضرت محمد کی بات کرتے ہیں تو اُن کی ترجیح و صلاح ہوتی ہے کہ اُن کا ذِکر بطور مصلح کے کریں وہ اُنھیں جِس خوبی سے متصف کرتے ہیں وہ ہے ایک اِصلاح کرنے والے، بہتری لانے والے راہ نما کی اور اِس صفت میں اُنھیں یدِطولیٰ حاصل تھا۔ تاہم کرسچین دُنیا کو یہ بات اُدھیڑ بُن میں ڈال سکتی ہے۔ (مسیحی تہذیب و الٰہیات کے حوالے سے بھی اور اِس معیار کے مطابق بھی جِس پر مسیحیت اِسلام کو پرکھتی ہے)۔
۱۔صاف بات ہے جہاں تک نبوّت کے تصور کا تعلق ہے وہ تو کُچھ یوں ہے کہ نبی کے مُنہ سے جو بات نِکلتی ہے وہ خُدا ہی کی بات ہوتی ہے اور نبی خُدا ہی کے لیے اُس کے بندوں سے مُخاطب ہوتا ہے اور چوںکہ نبی کے کہے کو کائناتی اِیجاب وقبول حاصل ہوتا ہے، اِس کی وَجہ ،بھی وہی ہوتی ہے کہ فرمانِ خُداوندی ہی اُس نے لوگوں تک پہنچائے ہوتے ہیں جو اپنی جگہ مصدقہ، قدرتی اور اَٹل ہیں۔ جب یہ بات سمجھ آ گئی تو اگلا مرحلہ اِس سے بھی آسان ہے سمجھنے میں۔ مسیحی لوگ اِسلام کی بُنیاد رَکھنے والی شخصیت کو پیغمبر نہِیں مان سکتے نہ ہی وہ بے چون وچرا اُن کی اطاعت کر سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کر لیں پھر تو وہ مسیحی کہاں رہے سیدھے سیدھے مُسلمان ہی ہو گئے۔ قطعی طور یہ بات ناممکنات میں سے ہے کہ مسیحی لوگ حضرت محمد کو بھی نبی مان لیں۔ نہ وہ اُن پر اِیمان لا سکتے ہیں، نہ فرماں برداری اِختیار کر سکتے ہیں۔ البتہ بعض حد بندیوں کے ساتھ، محدود صورت میں اُن کے نبی ہونے کے دعوے کو پذیرائی مِل بھی سکتی ہے۔ یعنی وہ ان کی بات مان لینے سے تو رہے۔ یہ البتہ ہو سکتا ہے کہ اُن کی بعض باتوں کو درست مان لیا جائے اور بعض سے اِنکار کر دیا جائے۔ ظاہرہے مُسلمانوں کے لیے تو یہ صُورتِ حال بالکل ہی ناقابلِ قبول ہو گی کہ جِس ہستی کو وہ خُدا کا سچّا پیغمبر مانتے ہوں اُن کے فرمائے کو کانٹ چھانٹ اور انتخاب و استرداد کے حوالے کر دیا جائے۔ وہ اپنے نبی کو سَچّے اور سُچّے نبیوں میں سے آخری نبی مانتے ہیں اور اُن کے کہے کو بھی حرفِ آخر جانتے ہیں۔
۲۔بائبل مُقدّس میں بیان کردہ تاریخی حوالوں میں سے ایک حوالہ یہ بھی ہے جسے مسیحیت میں قبولِ عام حاصل ہے کہ عبرانی پیغمبروں کو ایک نادر مقام حاصل ہے۔ اِس وجہ سے کہ اُنھوں نے حضرت یسوع مسیح کے ورود کی راہیں ہموار کیں، پیشگوئیاں دیں، لوگوں کو اِنتظار کی کیفیت میں ڈالا۔ چھوٹے انبیاءجیسے صفن یاہ نبی بھی اس مرتبے کے بے مثال نبیوں کے شریک تھے۔ چاہے عبرانی روایت کی زنجیر میں نبی ہونے کی ایک ننھی سی کڑی تھے وہ الہامی پیغامات و احکامات کے متن جو اُنھی کے ساتھ ختم ہو گئے اِتنا ضرور کر گئے کہ کلیسا پر اعتقاد ویقین کے دعوے مضبوط ہو گئے۔ پھِر تو ضروری ہو گیا کہ ایک الگ ہی نقطہءنظر مسیحی دُنیا سامنے رَکھے، اِسلام کے پیغام میں جہاں جہاں سچائیاں نظر آئیں اُن کا اعتراف کر لے، مُسلمان جِن روحانی راستوں کے راہرو ہیں اُنھیں تسلیم کر لیا جائے اُن کو توقیر دی جائے اور مان لیا جائے کہ حضرت محمد مذہبی اور سیاسی نابغہ روزگار تھے۔ ہمارا اعتراف کر لینا بنتا ہے کہ مہربان خُداوند کی مہربانی سے جو دِین اِسلام کے فروغ میں شامل حال رہی ہے اور قرآنی ہدایات وہدایت کے علاوہ اسوہ_¿ حضرت محمد کی مثال سامنے رَکھ کر بے شمار لوگ صراطِ مستقیم پر چلتے ہوئے خُدا کا خالص قُرب حاصل کرنے والے بن گئے اور اپنی زِندگیاں سنوار لیں۔ اِتنا مان لینے میں کوئی حرج نہِیں۔
۳۔قصہ کوتاہ، اِسلام کی صراحت ممکنہ طور پر یوں کی جا سکتی ہے کہ مذاہبِ عالم کی تاریخ میں یہودیّت اور مسیحیّت کی مکمل ترین اِصلاح کے ضمن میں یہ اِسلام ہی ہے جِس نے جواز مہیّا کِیا، اِتنا بُنیادی اور اہم کہ دونوں کی تہذیبوں اور روایات میں تبدیلیاں آ گئیں، اِنتہائی اہم جزئیات میں بھی تبدیلی کی شکنیں نمودار ہونے لگیں۔ ایک عام اندازے کے موجب، ضروری و انقلابی تبدیلیوں کے بعد بھی ہم اِسلام (اور اُس کے نبی حضرت محمد) کا دیگر بڑی بڑی اِصلاحی تحریکوں سے موازنہ کر سکتے ہیں جنھوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں جنم لیا اور اب بھی پھَل پھُول رہی ہیں۔ ایسا ہی ایک دور تھا جِس میں اِسلام نے سربُلندکِیا جب کہ یہودیت اور مسیحیت کا دُور دُور ڈنکا بج رہا تھا اور یہ مسیحیت ہی تھی جِس کی صفوں میں توڑ پھوڑ بھی راہ پا رہی تھی اور عقائد و دین کے فلسفہ کے سلسلے میں بحث مباحثے زوروں پر تھے۔ تبھی ایک نئی اور آزاد و خُودمختار تحریک نمودار ہوئی جو مرہونِ منّت تھی ان اصلاحِ ادیان کے محرکات کی جو حضرت محمد کی وجہ سے ضروری ہو گئے تھے کہ راہ پائیں یہودیت میں اور مسیحیت میں بھی۔ چناںچہ یہی تحریک تھی جو اِصلاحِ دِین کے بعض اِن پہلوﺅں پر اثرانداز ہوئی جو مسیحیوں اور یہودیوں اور خُدا کی حاکمیتِ اعلیٰ، مخلوقِ خُدا کی نِجات کے لیے صداے عام، لیکن یہ بھی ہُوا کہ اِس نئی تحریک نے اِن مذاہب کے بعض بڑے اہم عناصر کو بھی رَد کر دیا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں، کیا ایسا نہِیں ہُوا ہو گا کہ اُس وقت، اُس خاص موقعِ محل کی مُناسبت سے اِسلام کو یہ ذمہ داری تفویض کی گئی ہو کہ اِصلاحِ کلیسا کے لیے محرّک ومہمیز ثابت ہو؟ ایسا ہی ہُوا ہو گا، اگر ہم اِس پر متفق ہیں، دو راے نہِیں رَکھتے تو بہ ہرحال اِس کا یہ مطلب ہرگز نہِیں ہو سکتا کہ ہم ان صداقتوں کا اقرار نہ کریں۔