German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

دِین اور دُنیا

 

۱۔مُسلم سوالات

٭مسیحیت قطعی یک رُخہ طور رُوحانی مُعاملات کی دُھن میں مست نظر آتی ہے۔ آخرت میں لوگوں کی رُوحوں کی نجات کے بارے میں خصوصی توجُّہ اِس کا مرکزی نقطہ فِکر ہے۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ اِس دُنیاوی زِندگی کے بارے میں اِس کا مطمحِ نظر کیا ہے، اِس کے سماجی اور سیاسی مُعاملات پر اِس کا نقطہ نِگاہ کیا ہے۔ 

٭ریاست کو مذہب سے الگ رکھ کر دیکھنے والا تصوُّر، اسلام کے لیے قطعاً اجنبی ہے، یہ تو مغربی اور مسیحی سوچ ہے، اسلامی نہِیں۔ 

٭مسیحیت خُدا اور بادشاہ کے مُعاملات میں تمیز روا رکھتی ہے۔ مگر اس کے باوجود مسیحیت استعماریت اور صلیبی جنگوں ایسی مہمات میں کُود کُود پڑتی رہی، وہ بھی مذہب کے نام پر، سمجھ سے بالاتر ہے۔ آخر کیوں؟ کیوں ہُوا ایسا؟ 

۲۔مسلم زاویہ نگاہ 

سرسری جائزہ 

اسلام کا دعویٰ ہے کہ وہ انسانیت پر نازل کِیا گیا آخری دِینِ الٰہی ہے جس نے تمام پہلے کے ادیان کی تائید وتکمیل اور پیش گوئیوں کو پورا کرتے ہوئے اُن کی جگہ قائم ہونے والے دِین کی حیثیت اختیار کر لی۔ یہودیت یکطرفہ طور پر اِسی دُنیا کی ہو رہی۔ مسیحیت کی توجُّہ پوری کی پوری عالمِ ارواح پر مرکوز ہو گئی۔ اسلام اِن کے برعکس ایسا مذہب ثابت ہُوا جس نے بین بین رہ کر احساسات وعمل میں ربط قائم رکھا، دُنیا وآخرت کی بھلائی پر زور دِیا

تم پر مرا ہُوا جانور اور (بہتا) لہو اور سُور کا گوشت اور جس چیز پر خُدا کے سِوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھُٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گِر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے، یہ سب حرام ہیں، اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کر لو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کِیا جائے اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔ یہ سب گُناہ (کے کام) ہیں۔ 

آج کافر تمھارے دین سے نااُمِّید ہو گئے ہیں تو اُن سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمھارے لیے تمھارا دِین مُکمّل کر دِیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمھارے لیے اِسلام کو دِین پسند کِیا۔ ہاں جو شخص بھُوک سے ناچار ہو جائے (بشرطے کہ) گُناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خُدا بخشنے والا مہربان ہے۔ 

(القرآن،المائدہ: 3)   

اور ”دِینِ وَسَطُ“‘ کے حوالے سے جس کے لغوی معنی درمیان کے ہیں، لیکن بہتر اور افضل کے معانی بھی ہیں، اِس کا ترجمہ عادل بھی ہے، معتدل بھی: ۔

اور اِسی طرح ہم نے تمھیں اُمّتِ معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخر الزماں) تم پر گواہ بنیں۔ اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے اُس کو ہم نے اِس لیے مقرر کِیا تھا کہ معلوم کریں کہ کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے اور کون اُلٹے پاﺅں پھر جاتا ہے۔ اور یہ بات (یعنی تحویلِ قبلہ) لوگوں کو گراں معلوم ہوئی مگر جن کو خُدا نے ہدایت بخشی ہے (وہ اسے گراں نہِیں سمجھتے) اور خُدا ایسا نہِیں کہ تمھارے ایمان کو یونہی کھو دے۔ خُدا تو لوگوں پر بڑا مہربان اور صاحبِ رحمت ہے۔ 

(القرآن،البقرة: 143)

اور اس کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ اسلام ایک صلح جُوئیانہ مذہب ہے۔ 

اسلام کا تعلُّق جسم اور روح سے ہے، اسلام معاشرتی، سیاسی اور مذہبی زِندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ دُنیا میں خوشحالی اور آخرت میں سرخروئی ہی اِس کا مقصودِ نظر ہے۔ مگر مسیحیت جسم کو روح پر قربان کر دینے کا نام ہے، دِین ہی اس کا سب کچھ ہے، سیاست وریاست سے احتراز ہی برتتی ہے۔ اِس دُنیا کی عارضی خوشحالی پر آخرت میں بہشت کے حصول کو فوقیت دیتی ہے۔ 

کم وبیش ایسے ہی خیالات میں اسلامی دُنیا محصور ہے۔ یہ امرِ مسلّمہ ہے کہ اِس مجموعی تاثُّر کے نُمایاں خدوخال کو جن کی مسیحیت نے اُنیسویں صدی میں خُوب ترویج کی، اِسی سے اِس عالم پر بسیط نظریے کو تقویت مِلتی چلی گئی۔ اِس سلسلہ میں ایسی ترکیبیں اور جملے مدِّنظر ہیں، جیسے ”ارواح کی مکتی“ ،”اس دارالمحن میں“ اِسی طرح تجسیم کے بارے میں عام پایا جانے والا منفی رویّہ وہ بھی خاص طور پر جنسی حوالوں کے تحت کہ اُسے بعض اوقات گناہوں کے گڑھ سے بھی موسوم کِیا جاتا رہا، اور یہ بھی کہ مسیحی نظریات وعقائد کو تو مذہب سے مُتعلّق ذاتی معاملہ قرار دِیا گیا، مگر سیاسیات کو سرے سے ”مکروہ کاروبار“ کہہ دِیا گیا۔ 

رُہبانیت اور مذہب کے نام پر کنوار پن کی مَنَّت کو مسلمان خاص مسیحی مظاہر گردانتے ہوئے اِن کی چھاپ پوری مسیحیت پر ثبت دیکھتے ہیں۔ وہ اِنھیں کاروبارِ زِندگی سے فرار پر محمول کرتے ہیں۔ اسلام کا صحت مندانہ نقطہءنظر اِس کی تردیدِ شدید کرتا ہے۔ 

بہرحال، یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مسلمانوں کے اِس روایتی تصوُّر میں جو کہ مسیحیت کے بارے میں پختہ تر ہوتا چلا جا رہا تھا، عرصہ حاضر میں اِس میں خاصی تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ مسلمانوں نے اکثر اِس معاملے میں دِلچسپی کا اظہار کِیا ہے کہ جس طرح مسیحی کلیسیا کوشاں نظر آنے لگی ہیں کہ دُنیاے سیاست میں اُن کا عمل دخل شروع ہو جائے، بھلے غریب وناچار لوگوں کی خاطر امن وانصاف کی چارہ جُوئی کی حد تک ہی سہی۔ مسلم مفکرین بھی مذہبی رواداری پر بطورِ خاص اصرار کرتے ہیں کیوںکہ یہ سیاسی جبر اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف جِدّوجُہد پر اُبھارتی ہے۔

مسلم زاویہءنگاہ کاعمیق جائزہ 

توحیدِ الٰہی کے بارے میںقرآن مجید کا پیغام اٹل ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ قرآن شریف میں جو حکم وارد ہُوا اُس کے عین مطابق، بِلارُورعایت، معاشرتی انصاف عام کرنا بھی فرض ہو گیا۔ اِس فرمانِ الٰہی پر عمل اوائلِ مکّی زِندگی سے ہی جاری ہے۔ غریبوں کی حمایت، یتیموں سے ہمدردی، بے سہاروں، کمزوروں کی استعانت، مظلوموں پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم کے سامنے ڈھال بن کر امیروں کے جبروت کو للکارنا مسلمانوں کا شیوہ رہا ہے۔ آغازِ اِسلام سے ہی مُردوں کے دوبارہ جی اُٹھنے کے پیغام اور قیامت پر ایمان جس کی دعوت نبی آخرالزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے دی، اِسی مقصد ومنتہیٰ کے تحت کہ دولت کے گھمنڈی خبردار ہو جائیں اُس عقوبت کا سامنا کرنے سے جو اُن کے انتظار میں ہے۔ چُناںچہ روزِ محشر بپا ہونے سے پہلے پہلے اپنی اصلاح کر لیں، توبہ تائب ہو جائیں، تاکہ سزا سے بچ سکیں اور جزا کے مستوجب ہوں۔ یہ اعلان، یہ تنبیہ، جو پورے مکّی دور پر محیط ہے اِس نے جاری وساری اُس طبقاتی نظام کی بیخ وبُن اُڑا کے رکھ دی جو فقط اعلیٰ طبقات یعنی صاحبانِ ثروت کے مفادات کا امین تھا۔ نتیجہ.... نتیجہ یہ نکلا کہ طاغوتی طاقتیں حق پرست مسلمانوں پر پل پڑیں۔ مسلمانوں کی ننھی سی جماعت جو اُس وقت مکّہ میں مکین تھی ایذارسانی کا پسندیدہ ہدف بن گئی۔ 

سنہ 622عیسوی میں ہجرتِ مدینہ کے فوری بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مساعی سے مدینہ میں ایک مضبوط ومستحکم اسلامی معاشرت نے جنم لیا۔ وہ قوی تر ہوتی گئی اور بہُت جلد مکّہ بل کہ پورا جزیرہ نماے عرب اُس کا خراج گُزار بن گیا۔ مدنی زِندگی کے دس سالوں (622ع تا 632ع) کے دوران حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر جو کلامِ اللہ نازل ہُوا وہ فقط روحانی اطوار کا آئینہ دار نہِیں تھا جیسے نماز، روزے، نیکی، بدی وغیرہ بل کہ معاشرتی زِندگی کے بارے میں بھی وحی پر وحی کا نزُول ہوتا رہا، اور اُس میں فرد کی زِندگی، اُس کی بُود وباش میں نظم وضبط کی راہیں سُجھائی گئیں، خاندان اور مُعاشرے کی اقدار کو اُجالا گیا جیسے معاہدے، عہد وپیمان، ازدواجی زِندگی، وراثت وغیرہ۔ سیاست وسیادت کے اسرار ورُمُوز سے واقف کِیا گیا۔ جنگ وامن کے قوانین وضوابط، مالِ غنیمت کی تقسیم کے لیے قواعد، اُمُورِ فرماںروائی کے آداب، رہنُمائی ورہبری کے قرینے، شُوریٰ کی ضرورت اور اُس کے مشوروں پر عمل کرنے کی ہدایات بھی مومنین تک پہنچائی گئیں۔ حتیٰ کہ روز مرہ زِندگی میں شریعت سے واقفیت اور قوانینِ شریعت کی پابندی کے ساتھ ساتھ ذِمیوں سے سُلُوک پر سیرحاصل تلقین سے مشرف کِیا گیا۔

یُوں اِس تاریخی ارتقا میں اسلامی روایات کو جِلا مِلی۔ قرآن پاک کے مضامین نے بھی اپنا ایک تائیدی وتاکیدی کِردار نبھایا جس سے اِس اسلامک تھیوری کو تقویت پہنچی کہ اسلام ایک طرزِ زِندگی ہے جو ہر زمان ومکان سے مطابقت رکھتا ہے، جو تمام انسانی ضروریات اور تقاضوں پر پورا اُترتا ہے چاہے اُن کا تعلُّق روح سے ہویا کلبوت سے، بھلے وہ فرد کی احتیاجات ہوں، سوسائٹی کے مطالبات ہوں یا سیاسیات کی اقدار ورُمُوز۔ ریاست اور مذہبِ اسلام میں الگ الگ ادارے نہِیں، دِین وسیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ 

جُدا ہو دِیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اسلام دِینِ فطرت ہے، انسان کے اعمال جن کا تعلُّق دُنیا سے ہے یا آیندہ کی زِندگی سے وہ دونوں پر نگران ہے۔ ایک حدیث پاک میں کچھ اس طرح سے فرمایا گیا ہے کہ مومن وہ نہِیں جو اِتنا حال مست ہو جائے کہ اُسے مستقبل (یومِ حساب) کا ہوش ہی نہ رہے، اور وہ بھی نہِیں جو حیاتِ اُخروی (کے انعامات) کے لیے اِس دُنیا کے لوازمات سے مُنہ موڑ لے۔ اچھا مُسلمان تو وہ ہے جو دُنیا وآخرت دونوں سے بہتر طور عہدہ برآ ہو۔ 

روحانی ودُنیوی معاملات کی الگ الگ خانوں میں تقسیم کی اسلام سراسر نفی کرتا ہے لیکن دونوں میں جو ایک فرق موجود ہے اُس سے بھی انکاری نہِیں۔ مستند دینی کُتُب میں اِس تفاوت کو نُمایاں طور پر پیش کِیا گیا ہے جو کہ عبادت کے اعمال میں ہے جن کے بارے میں طے ہے کہ اُن میں کبھی کوئی تبدیلی نہِیں آ سکتی، نسبتاً اُن سماجی معمولات ومعاملات کے کہ جن میں تغیر قدرتی عمل ہے۔ ایک حدیثِ مُبارک کچھ یُوں ہے کہ کسی صحابیؓ نے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کِیا کہ دُنیا میں کیا رویّہ اختیار کِیا جائے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کاروبارِ دُنیاوی (دُنیوی طور طریق) سے تم خُود مجھ سے زیادہ واقف ہو۔ چُناںچہقرآن مجید فرقانِ حمید کی 43ویں سورة کی آیت نمبر 63کی تفسیر کرتے ہوئے البیداوی نے لکھا ہے کہ ”یہی وجہ ہے کہ رسُولوں کو دُنیاوی معاملات کی تشریح کے لیے نہِیں بھیجا گیا تھا، اُن سے تو دِینی معاملات کی تبلیغ کا کام لیا گیا۔

حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے دوران، جب ابھی قرآن پاک کا نزول جاری تھا، اسلام میں ایک نُمایاں پیش رفت سامنے آئی، مروج دستورِ حیات اور معاشرتی سوجھ بوجھ کی تحریک پر ’سرکار کے مذہب‘ کا رُجحان پیدا ہُوا اور پھر اسلامی ریاست کی بُنیاد مضبوط ہوتی چلی گئی۔ تب فوری بعد کے واقعات، فتوحات اور عملداری معاملات کے تحت اسلامی تاریخ میں خلفا جو کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین تھے وہ زمین پر ظلِ الٰہی بنتے چلے گئے، امیر المومنین کہلانے لگے، خلیفہ یعنی امیر المومنین اور اس کے نُمایندگان (گورنرز) کے فرائض میں رموزِ خلافت وریاست کی احسن ادائی کو ترجیح حاصل رہی اور روحانی ومذہبی اقتدار کے درمیان وقت کے ساتھ ساتھ خلیج حائل ہوتی گئی، کیوںکہ اسلام میں ایسی کوئی گنجایش ہی نہِیں کہ مذہبی پیشواﺅں کی حکومت ایسے اداروں کی حوصلہ افزائی کی جا سکے جہاں الگ سے مذہبی طبقہ پیدا کِیا جانا مقصود ہو۔ تاہم یہ ضرور ہُوا کہ خلفاءکی مذہبی ذِمّہ داری رہی کہ وہ نیکی کا حکم دیں اور بدی کا تدارک کریں۔ لوئیس میکسیگن (1962-1883ع) کے مطابق ”مسلمانوں کی حکومت مساوات کا حکم دینے والے مذہب اسلام کی تابع ہوتی ہے اور پھر جیسے جیسے مسلمانوں کی جدید حکومتیں صفحہ ہستی پر نمودار ہوتی گئیں اسلام بطور مذہب اور ریاست کے مجموعہ کے طور پر مستحکم ہوتا چلا گیا اور بعض مضبوط دِینی ریاستیں وُجُود میں آ گئیں۔ ملک شام اور یمن کی حکومتوں کو استثناءحاصل رہا، اور یہ بھی ہُوا کہ عرب دُنیا سے باہر مسلم اکثریت والے بہُت سے ممالک نے اپنی سیکولر حیثیت سے اپنی پہچان بنائی اور اسی پر ترکی، سینیگال، مالی اور نائیجر کی طرح قائم بھی رہے۔ 

بیسویں صدی کے آغاز سے ہی بعض مسلم مفکرین ریاستی مذہب ایسے نظام کی خامیوں کے بارے میں چوکنّے ہو گئے۔ اس قبیل کے سیاسی نظام میں مذہب ریاست کی کارکردگی پر اثرانداز ہوتا ہے اور امورِ مملکت کی ادائی میں حائل رہتا ہے اور یُوں ریاست کا کِردار محدود ہو کر رہ جاتا ہے اور ریاست مخصوص مذہبی عقائد ونظریات کی آلہ کار ہو کے رہ جاتی ہے۔ حال آںکہ ایسے انصرام کا پہلا شکار بھی خود مذہب ہی ہوتا ہے۔ وہ یُوں کہ مقتدر پارٹی مذہب کو اپنے حق میں بطور ہتھیار استعمال کرنے لگتی ہے۔ مساجد میں وعظ اور جمعہ کا خطبہ سرکار کے احکام سے جاری ہوتا ہے اور سرکاری یعنی حکومتی فرمان کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔ چُناںچہ چند دہائیوں سے دُنیاے اسلام میں مطالبات نے سر اُٹھانا شروع کر دِیا ہے کہ دین اور سیاست کی الگ الگ اقلیم تسلیم کر لی جانی چاہیے اور ریاستوں کو سیکولر آئیڈیالوجی کے تحت چلنا چاہیے۔ دِینی ریاستوں کے مقابلے میں سیکولر ریاستوں سے ہرگز یہ مُراد نہِیں ہوتی کہ وہ بے دِین ریاستیں یا ملحدانہ ریاستیں بن جاتی ہیں۔ 

مغرب میں، مصر اور شام میں اِس نظریہ کی بہُت پذیرائی ہوئی ہے۔ سوشلسٹ اور مارکسی دانشور جو اسلامی دُنیا میں موجود ہیں سب سیکولرزم پر متفق ہیں اور ان میں پاکستان کے بھی کئی دانشور شامل ہیں جو ریاست کو سیکولر دیکھنے کے متمنی ہیں۔ البتہ قدامت پسند حلقوں میں ان نظریات کی جی کھول کر مخالفت بھی جاری ہے، کیوںکہ وہ لوگ سیکولر سٹیٹ کے آئیڈیا کومغربی اقوام اور مسیحیوں کی پھیلائی ہوئی بدعت سے تعبیر کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ جدید مسلم مملکتیں ان کی نگاہ میں موردِ الزام ہیں کہ وہ قرآن کی حکم عدولی کرتے ہوئے احکامِ الٰہی کی نافرمان حکومتیں ہیں اور ویسے بھی اَن گنت مسلمان ایسے ہیں جو اِن دو انتہاﺅں کے بیچ میں گِھرے گاہے اِدھر گاہے اُدھر تکتے ڈانواںڈول کیفیت کا شکار ہیں اور کسی حد تک وہ مذہبی ریاست کے قیام میں چند فوائد کے بھی اسیر نظر آتے ہیں،مثلاً تعلیمی درسگاہوں میں مذہب کے بارے میں نصاب کی شمولیت، اور اسی طرح دِین پر عمل کرنے کی راہ میں جو بہکاوے پھسلاوے ہیں اُن پر دینی ریاست ہی قدغن لگا سکتی ہے۔ ایسے لوگوں کے سامنے سکّے کا دوسرا رُخ بھی آ جاتا ہے اور وہ اِس بات کے بھی قائل ہو جاتے ہیں کہ وہ مذہب جس پر ریاست کی اجارہ داری ہو سَچّا اور سُچا، بے لاگ، صاف مُصفّا، اپنی اصل حالت میں موجود، ذِمّہ دار اور مصدقہ جسے اپنے ایما پر اور اپنی پسند سے اختیار کِیا جا سکے، ایسا مذہب حکومتیں کبھی لاگو کر ہی نہِیں سکتیں، وہ تو اپنے مفادات اور اپنی ترجیحات کے مطابق اُس میں گنجایش نکال نکال کے اُس کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ 

۳۔مسیحی زاویہ ہاے نگاہ 

۱۔عِلمِ بشریت 

مُقدّس بائبل (عہدِ عتیق وجدید) میں کہِیں بھی ایسا کوئی تصوُّر موجود نہِیں جس نے جسم وروح کے لیے علیحدہ علیحدہ حیثیت کا تعین کِیا ہو۔ مسیحیت کے نزدیک تو یہ فعل انسانی بدن اور بشری تقاضوں کی تذلیل کے مترادف ہے۔ کلامِ مُقدّس کے مطابق تو انسانوں کو ایک جسم عطا ہُوا ہے جو روح اور زِندگی سے مرکب ہے۔ عہدنامہءقدیم میں کہا گیا ہے کہ انسان مرنے کے بعد اپنے اُس ٹھکانے پر پہنچا دِیا جاتا ہے جسے عالمِ برزخ (شیﺅل) کہتے ہیں۔ بائبل مُقدّس میں قیامت یعنی مُردوں کے دوبارہ جی اُٹھنے کے عمل کے تذکرے نے ایک طویل عرصہ گذرجانے کے بعد ہی کہِیں راہ پائی: ۔

اور جو خاک میں سو رہے ہیں 

اُن میں سے بہُت جاگ اُٹھیں گے 

بعض حیاتِ ابدی کے لیے 

اور بعض رسوائی اور ابدی ذِلّت کے لیے 

 

دانشور نورِ فلک کے مانند چمکیں گے 

اور جن کی کوشش سے بہتیرے صادق ہو گئے 

وہ ستاروں کے مانند 

ابدالآباد تک روشن رہیں گے 

(دانیال 2:12،3)  

نیکوکاروں کے دوبارہ زِندہ کیے جانے کا ذِکر پُرانے عہد نامہ میں آیا تو ہے مگر آخر کی آیات میں اور کُتُبِ دانش اسفارِ حکمت میں قیامت تواتر کے ساتھ مذکور ہے۔ اِسی طرح نئے عہدنامہ میں خُداوند حضرت یسوع مسیح کے مُردوں میں زِندہ جی اُٹھنے کا ذِکر ہے۔ اور مُقدّس حضرت یسوع کے ماننے والوںمیں اِس کا یہی اُلُوہی پیغام مرکزی نکتہ ہے۔ اب تمام انسان قیامت میں جسمانی طور پر اُٹھ بیٹھنے کے منتظر رہیں گے۔ 

اب جسم اپنی روحانی تجسیم میں اپنے نقطہ آخر یعنی اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے اِس تبدیلی سے گذرے گا: ۔

نفسانی جسم بویا جاتا ہے 

روحانی جسم جی اُٹھتا ہے 

اگر نفسانی جسم ہے تو رُوحانی بھی ہے 

(44:15۔قرنتیوں-1)

جب مُقدّس پولوس نے کہا کہ خُدا کی بادشاہی انسانوں کا ورثہ نہِیں، خُدا کی بادشاہی گوشت پوست کے انسانوں کا مُقدّر نہِیں ہو سکتی: ۔

اے بھائیو! میرا مطلب یہ ہے کہ جسد اور خُون خُدا کی بادشاہی کے وارث ہو نہِیں سکتے اور نہ فنا بقا کی وارث ہو سکتی ہے۔ 

(50:15۔قرنتیوں-1)

اور مسیحیوں کو چاہیے کہ وہ جسد کے غلام ہو کر نہ رہ جائیں: ۔

تاکہ شریعت کی صداقت ہم میں پوری ہو جو بشریت کے طور پر نہِیں بل کہ روح کے طور پر چلتے ہیں کیوںکہ جو بشریت کی باتیں چاہتے ہیں مگر جو رُوح کے طور پر ہوتے ہیں، وہ رُوح کی باتیں چاہتے ہیں۔ کیوںکہ بشریت کی نیت موت ہے مگر رُوح کی نیت زِندگی اور سلامتی ہے۔ اِس لیے کہ بشریت کی نیت خُدا کی دُشمن ہے، اِس لیے کہ نہ خُدا کی شریعت کے تابع ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ 

اور جو بشری ہیں وہ خُدا کو پسند نہِیں آ سکتے۔ مگر تم بشری نہِیں بل کہ رُوحانی ہو بشرطے کہ رُوحِ خُدا تم میں بسی ہُوئی ہو۔ مگر جس میں رُوحِ مسیح نہِیں وہ اُس کا نہِیں۔ 

(رومیوں 4:8تا 9)  

اور یہ انسانی زِندگی کی جسمانی استعداد اور جسدِ انسانی کی ناقدری پر ہرگز محمول نہِیں۔ جسم جو یونانی زُبان میں ”ساریکس“ (گوشت پوست) کہلاتا ہے وہ اِس سے قطعاً مختلف ہے جو یونانی زُبان میں ”سوما“ ہے یعنی بدن، اور جو دلالت کرتا ہے انسانوں کی معصیت کی اور خُدا کی نافرمانی پر اُتر آنے کی لت کی۔ تو گویا طے پایا کہ نفسانی خواہشات کے پیچھے بھاگنے کے بجاے، رُوح القدس کا آسرا تلاش کرنا چاہیے: ۔

اے بھائیو! تم آزادی کے لیے بُلائے گئے ہو مگر اُس آزادی کو جسم کے لیے موقع نہ سمجھو، محبت سے ایک دوسرے کی خدمت کرو۔ اِس لیے کہ ساری شریعت اِسی ایک بات میں پوری ہوتی ہے کہ ”تُو اپنے ہمسایے کو اپنے مانند پیار کر۔لیکن اگر تم ایک دوسرے کو کاٹتے اور نگل جاتے ہو، تو خبردار! ایسا نہ ہو کہ ایک دوسرے کو ہضم کر دو۔ 

مگر مَیں کہتا ہُوں کہ تم رُوح کے موافق چلو تو تم جسم کی خواہشوں کو پورا نہ کرو گے کیوںکہ جسم کی خواہش رُوح کی مخالف ہے اور رُوح کی خواہش جسم کی مخالف اور یہ ایک دوسرے کے خلاف ہیں، یہاں تک کہ جو تم چاہتے ہووہ نہِیں کرتے۔ اگر تم روح کی ہدایت سے چلتے ہو تو شریعت کے ماتحت نہِیں رہے۔ اور جسم کے کام تو ظاہر ہیں، یعنی حرام کاری، ناپاکی، بدپرہیزگاری، بُت پرستی، جادوگری، دُشمنی، جھگڑا، حسد، غضب، تفرقے، جُدائیاں، بدعتیں، رشک، نشہ بازی، اوباشی اور اِن کے مانند۔ 

اِن کی بابت جیسا پیشتر کہا ہے اب بھی کہتا ہُوں کہ ایسے کام کرنے والے خُدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہوں گے۔ 

مگر رُوح کا پھل محبت، خوشی، سلامتی، صبر، مہربانی، نیکی، ایمانداری، حِلم، پرہیزگاری ہے، ایسے کاموں کی کوئی شریعت مخالف نہِیں۔ 

اور جو مسیح حضرت یسوع کے ہیں اُنھوں نے جسم کو اِس کی رغبتوں اور خواہشوں سمیت مصلُوب کر دِیا ہے، اگر ہم رُوح کے سبب سے زِندہ ہیں تو رُوح کی تقلید کرنا چاہیے۔ ہم باطل فخر کے خواہشمند نہ ہوں۔ ہم نہ ایک دوسرے کو چِڑائیں اور نہ ایک دوسرے کا حسد کریں۔ 

(غلاطیوں 13:5تا 26)  

رُوح القدس کی وجہ سے انسانی جسم مفتوح نہِیں ہوتا بل کہ امر ہو جاتا ہے: ۔

پھر اگر حضرت یسوع مسیح کو مُردوں میں سے زِندہ کرنے والے کی رُوح تم میں بسی ہوئی ہے توحضرت یسوع مسیح کو مُردوں میں سے زِندہ کرنے والا تمھارے فانی بدنوں کو بھی اُس رُوح کے ذریعے سے زِندہ کرے گا جو تم میں بس ہوئی ہے۔

 (رومیوں 11:8)

افلاطون (347تا427قبل از مسیح) اور پلوطینوس (205تا 270عیسوی) کے یونانی فلسفہ کے زیرِاثر شروع شروع کی مسیحی صدیوں میں مسیحی خیالات اور کسی حد تک عقائد میں ایک تبدیلی کسمسائی اور جسدِ انسانی کے مقابلے میں روحِ انسانی زیادہ توجُّہ کا مرکز بن گئی۔ مسیحی غناسطیت کہ کُل کائنات الوہیّت کے جلووں یا قُدرت وقُوّت کے مظاہر کی تخلیق ہونے کا نظریہ ہے اور دوسری صدی عیسوی میں جسے بڑی پذیرائی ملی، جسم سے خُصُومَت اُس کا طغراے امتیاز تھا، یہی نہِیں بل کہ زمانے اور تاریخ سے بھی اُس کا عناد منظرِ عام پر رہا۔ ظاہر ہے پھر تو مسیحیت کو اُس کے نتائج سے بچنے بچانے کی گنجایش تلاش کرنا جُوے شیر لانے کے مترادف ہو گیا۔ پھر جو منطقی نتائج مُرتّب ہونا تھے، سو سامنے آئے۔ غناسطیت سے اختلاف برتتے ہوئے چرچ نے اپنے آپ کو اُس سے دُور ہی رکھا۔ یہ امر باقاعدہ ایمان وایقان کا حصہ ہے کہ یہ صِرف انسان کی روح ہی نہِیں ہو گی جس کی تکمیل روا رکھی جائے گی بل کہ جسم بھی درجہ کمال کو پہنچایا جائے گا اور یہ وہ حقیقت ہے جس کے فہم کے بعد ضروری ہو جاتا ہے کہ روحانی معمولات کے اِن نظریات کی نفی کر دی جائے۔ انسان خُدا کی تخلیق ہیں جنھیں جسم اور روح کی اکائی میں پیدا کِیا گیا۔ مُکمّل انسانیت کو ہر لحاظ سے، بشمول جِنسی تَلَذُّذ گُناہ کی مقناطیسیت کے مدار سے دُور رکھا جانا مقصودِ ایزدی رہا ہے۔ موت کی طاقت کو بھی حضرتِ انسان کے سامنے بے بس کر دِیا گیا۔ انسانوں کو آزادی اور شان کی اُس انتہا تک پہنچا دِیا گیا جہاں وہ اطفالِ خُداوند کہلانے کی شوکت سے مُتّصف ہوئے۔ یعنی فرزندانِ خُدا: ۔

(اِس اُمِّید پر) کہ خلقت بھی فنا کی گرفت سے چھُوٹ کر خُدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں شرکت حاصل کرے گی۔ 

(رومیوں 21:8)  

۲۔مذہب اور مملکت، دِین اور سیاست 

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ مسیحیت اور اسلام کی آبیاری اور اُن کی نشوونُما ایک ہی طرح سے عمل میں آئی۔ ابتداً دونوں نے ہی سماجی استنباط کے ساتھ جُڑے ہوئے روحانی پیغام ہونے کا دعویٰ کِیا۔ اِس روحانیت پر مبنی دعوتِ دِین نے سب سے پہلے غیر منصفانہ سیاسی اور غیر متوازن سماجی ڈھانچے پر وار کِیا۔ دونوں صُورتوں میں، دینی پیغام کی بیّن کامیابی ومقبولیت نے معاشرے میں جس طرح مسیحیت کی توقیر بڑھائی، اُسی طرح اسلام کو بھی پذیرائی مِلی۔ نتیجہ یہ کہ مسیحیت اور اسلام ایک وقت آیا ریاست کا مذہب قرار پائے۔ 

مسیحیت کو سب سے پہلا موقع چوتھی صدی عیسوی میں مِلا جب اُسے مملکت کا مذہب قرار دِیا گیا۔ یہ زمانہ تھا شہنشاہ کانسٹینٹائن (306 سے337ع) کا اور بادشاہ تھیوڈو سیئیس اوّل کا جس نے 379ع سے 395ع تک حُکُومت کی۔ لیکن عہد نامہءعتیق میں ایسی کوئی اساس نہِیں مِلتی کہ جس سے ثابت کِیا جا سکے کہ کبھی مسیحی ریاست کے قیام کی طرف اشارہ بھی کِیا گیا ہو۔ خُداوند حضرت یسوع مسیح نے بھی کِسی ریاست کی بُنیاد نہِیں ڈالی نہ ہی مسیحی سماج کی پرداخت کی ہی سعی کر دیکھی جو معاصر سیاسی معاشرتوں کو چیلنج کر سکتا۔ کوئی بھی مسیحی ایک شہری ہے بالکل اُسی طرح جس طرح دوسرے شہری ہیں۔ اُن کے بھی حُقُوقِ شہریت ویسے ہی ہیں جیسے دوسرے شہریوں کے، اور وہی فرائض اُن پر بھی عائد ہوتے ہیں جو دوسرے باسیوں پر لاگو ہیں، چاہے حکمران اشرافیہ خُود مشرکوں کی صف کی سرخیل ہو۔ 

مسیحیت کے اِس تصوُّر کے بارے میں عہد نامہءعتیق اور خُداوند حضرت یسوع مسیح کا جو موقف ہے مختصراً اِن دو مسترد کی گئی حالتوں کے ذِکر سے واضح کِیا جا سکتا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں: 

الف)حکومتِ الٰہی کے سامنے دُنیاوی عزت ووقار، رُعب ودبدبہ، شوکت وجلال سب ہیچ ہیں۔ ”اِس فانی دُنیا سے میری دائمی حُکُومت کا کوئی تعلُّق نہِیں۔

حضرت یسوع نے جواب دِیا کہ میری بادشاہی اِس دُنیا کی نہِیں، اگر میری بادشاہی اِس دُنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑائی کرتے تاکہ مَیں یہودیوں کے حوالے نہ کِیا جاتا مگر میری بادشاہی یہاں کی نہِیں۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 36:18)  

شاہوں کے بارے فرائض کی ادائی شاہوں کے حُقُوق کے مطابق روا رکھنے کی ضرورت ہے اور خُدا پاک مہربان کے حضور وہ سب کچھ نچھاور کر دِیا جائے جو حقِ خُداوندی ہے۔ بادشاہوں کی باتیں بادشاہوں کے ساتھ اور خُدا کی باتیں خُدا کے ساتھ: 

تب اُس نے اُن سے کہا، یہ صُورت اور تحریر کِس کی ہے؟ اُنھوں نے کہا قیصر کی۔ تب اُس نے اُن سے کہا، پس جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خُدا کا ہے خُدا کو ادا کرو۔ 

(مُقدّس متّی 21:22) 

لیکن تاکہ اُنھیں ٹھوکر نہ کھلائیں۔ تُو جا کر جھیل میں بنسی ڈال اور جو مچھلی پہلے نِکلے اُسے لے اور جب تُو اُس کا مُنہ کھولے گا تو اس میں چہار درہم پائے گا، وہ لے کر میرے اور اپنے لیے اُنھیں دے۔ 

(مُقدّس متّی 27:17) 

”جو قیصر کا ہے قیصر کو....“

اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ دُنیا میں جو بھی حکمران طبقہ ہے، اُسے اقتدار خُدا کی عطا ہے، اِس لیے اُس کے حُقُوق وفرائض کی ادائی کے لیے بھی انسان کو مستعد رہنا چاہیے۔ جب کبھی لوگ چاہتے کہ خُداوند حضرت یسوع مسیح کو اپنا بادشاہ بنا لیں، خُداوند نے ہمیشہ گریز کی راہ اپنائی: ۔

پس حضرت یسوع یہ جانتے ہوئے کہ وہ چاہتے ہیں کہ آئیں اور مجھے زبردستی پکڑ کر بادشاہ بنائیں۔ پھر پہاڑ پر اکیلا چلا گیا۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 15:6) 

دوسرے روز بہُت سے لوگوں نے، جو عید میں آئے تھے یہ سُن کر کہ حضرت یسوع مسیح یروشلم میں آتا ہے۔ کھجور کی ڈالیاں لیں اور اُس کے استقبال کو نکلے اور پُکارنے لگے :

ہوشغا 

مبارک ہے وہ جو خُداوند کے نام سے آتا ہے 

مبارک ہے شاہِ اسرائیل 

اور حضرت یسوع مسیح گدھی کا بچہ پا کر اُس پر سوار ہُوا۔ جیسا کہ لکھا ہے 

اے صیہون کی بیٹی نہ ڈَر 

دیکھ گدھی کے بچےّ پر سوار ہو کر 

تیرا بادشاہ آتا ہے۔ 

(اُس کے شاگرد پہلے تو یہ باتیں نہ سمجھے، لیکن جب حضرت یسوع مسیح اپنے جلال کو پہنچا تو اُن کو یاد آیا کہ یہ باتیں اُس کے حق میں لکھی ہوئی تھیں اور کہ اُس سے یُوں کِیا گیا تھا۔) 

پس وہ ہُجُوم گواہی دیتا گیا جو اُس وقت اُس کے ساتھ تھا جب اُس نے لعزر کو قبر سے باہر بُلایا اور مُردوں میں سے زِندہ کِیا تھا۔ اُسی سبب سے یہ ہُجُوم اُس کے استقبال کو نکلا، کیوںکہ اُنھوں نے سُنا تھا کہ اُس نے یہ کرشمہ دِکھایا ہے۔ مگر فریسیوں نے آپس میں کہا کہ دیکھو تو، تم سے کچھ نہِیں بَن پڑتا۔ دیکھو! دُنیا اُس کے پیچھے ہو چلی۔ 

جو عید میں پرستش کرنے آئے تھے اُن میں کئی غیر قوم تھے۔ وہ فیلبُوس کے پاس آئے جو جلیل کے بیتِ صیدا کا تھا اور اُس سے التجا کر کے کہا، اے آقا! ہم حضرت یسوع سے ملنا چاہتے ہیں۔ فیلبوس نے آ کر اندریاس سے کہا اور پھر اندریاس اور فیلبوس نے حضرت یسوع کو خبر دی۔ 

حضرت یسوع نے اُن کے جواب میں کہا کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ ابنِ انسان جلال پائے۔ مَیں تم سے سچ سچ کہتا ہُوں کہ جب تک گیہوں کا دانہ زمین میں گِر کر مر نہیں جاتا، اکیلا رہتا ہے، لیکن جب مر جاتا ہے تو بہُت سا پھل لاتا ہے۔ 

جو اپنی جان کو پیار کرتا ہے اُسے کھو دیتا ہے۔ مگر جو اِس دُنیا میں اپنی جان سے کینہ رکھتا ہے وہ اُسے ہمیشہ کی زِندگی کے لیے محفوظ رکھے گا۔ اگر کوئی میری خدمت کرنا چاہے تو میری تقلید کرے اور جہاں مَیں ہُوں وہاں میرا خادم بھی ہو گا۔ اگر کوئی میری خدمت کرے تو باپ اُس کی عزت کرے گا۔ 

اب میری جان گھبراتی ہے اور مَیں کیا کہوں؟ یہ کہ اے باپ! مجھے اِس گھڑی سے بچا؟ لیکن میں اُسی سبب سے اِس گھڑی تک پہنچا ہُوں۔ اے باپ! اپنے نام کو جلال دے۔ تب آسمان سے آواز آئی کہ مَیں نے جلال دِیا ہے، اور پھر جلال دُوں گا۔ 

پس جو ہُجُوم کھڑا سُن رہا تھا وہ کہنے لگا کہ بادل گرجا، مگر اور کہتے تھے کہ کوئی فرشتہ اُس سے بولا ہے، حضرت یسوع نے جواب میں کہا کہ یہ آواز میرے لیے نہِیں بل کہ تمھارے لیے آئی ہے۔ اب اِس دُنیا کی عدالت ہوتی ہے۔ اب اِس دُنیا کا سردار نکال دِیا جائے گا اور مَیں جب زمین سے اوپر اُٹھایا جاﺅں گا تو سب کو اپنے پاس کھینچوں گا۔ 

اُس نے یہ کہہ کر اشارہ کِیا کہ مَیں کِس موت سے مرنے کو ہُوں۔ 

پس ہُجُوم نے اُسے جواب دِیا کہ ہم نے شریعت کی یہ بات سُنی ہے کہ المسیح ہمیشہ تک رہے گا پھر تُو کیوںکر کہتا ہے کہ ضرور ہے کہ ابنِ انسان اُٹھایا جائے؟ یہ ابنِ انسان کون ہے؟ 

حضرت یسوع نے اُن سے کہا کہ اور تھوڑی دیر تک نُور تمھارے درمیان ہے جب تک نُور تمھارے پاس ہے چلے چلو، ایسا نہ ہو کہ اندھیرا تمھیں آ پکڑے۔ اور جو اندھیرے میں چلتا ہے وہ نہِیں جانتا کہ کہاں جاتا ہے۔ جب تک نُور تمھارے پاس ہے نُور پر ایمان لاﺅ تاکہ تم نُور کے فرزند بنو۔ 

حضرت یسوع یہ باتیں کہہ کر چلا گیا اور اُن سے چِھپ گیا۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 12:12تا 36)  

خُداوند حضرت یسوع مسیح کا یوں دُنیاوی اقتدار کی پیشکش ٹھکرا دینے کا عمل عامة الناس کے لیے مایوسی کا سبب بنا اور یہی عِلَّت بنی اُس معلُول کی جس کے تحت خُداوند کو مصلوب ہونا پڑا۔ دُنیاوی جاہ وجلال ٹھکرانے والے مسیحا کو ظالموں نے موت کے گھاٹ اُتار دِیا کیوںکہ وہ ایک شاہانہ مسیحا کی توقع کرتے تھے۔ چُناںچہ جو مسیحیت دُنیاوی سطوت کے مزے لے رہی ہو، اور اُسے اپنا حق سمجھتی ہو، انجیلِ مُقدّس کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ صلیب اپنے کندھوں پر اُٹھانے والوں کا مذہب ہے مسیحیت، مخدوموں کا نہِیں یہ تو خادموں کا دِین ہے۔ خُدا کے بندوں کے کام آنے والوں کا دِین۔ اِس کا تو مطمحِ نظر ہے اور ہونا ہی چاہیے کہ دُنیاوی آلایشوں سے بچا کر دِلوں کو خُداے واحد کی طرف موڑ دے۔ 

ب)مسیحیت ہر طرح کی سیاسی اور معاشرتی ناانصافیوں کو رَد کرتی ہے۔ خُداوند حضرت یسوع کی تو اپنی زِندگی اکثر انہی مذہبی اور سیاسی وسیکولر طاقتوں کے خلاف مُسلسل تصادم میں گذری، جہاں حُقُوقِ انسانی پر زَد آئی خُداوند نے استعمار کے سامنے ڈَٹ کر مقابلہ کِیا۔ کمزوروں اور غریبوں کے حُقُوق کی پایمالی تو کبھی بھی برداشت نہ کی۔غربا وبے دست وپا لوگوں کی فوراً مدد اپنا وتیرہ بنائے رکھا۔ یہ الگ بات کہ ایسی ہمدردی بھی خُداوند کی موت کے اسباب میں سے ایک سبب قرار پائی۔ خُدا کی حُکُومت قائم دائم ہونے کی خوشخبری خاص طور پر غریبوں کو جس کی نوید ووعید دی گئی ہے، اُس خوشخبری کو، خُدا کی اِس حُکُومت واقتدارِ اعلیٰ کو دُنیا کے بادشاہوں پر فوقیت حاصل ہونا چاہیے۔ اُن کی سیاسی قُوّت، حکمرانی کا دبدبہ، حُکُومتِ الٰہی کے سامنے کوئی وقعت نہِیں رکھتا، خُدا کی محبت ہی ہمسایے سے محبت کا ایک جُزوِ لاینفک ہے۔ پڑوسیوں سے محبت گواہ ہے کہ دِلوں میں خُدا کی محبت موجود ہے۔ ہمسایوں کا خیال رکھنے والوں کا خیال خُود خُدا رکھتا ہے۔ اِسی میں خُداوند کی خوشی ہے۔ ہمسایوں کے بارے میں جو احکام ہیں اُن کی بجاآوری کے لیے یہاں تک بھی بات جا پہنچتی ہے کہ اُن پر جان تک وار دی جائے: ۔

اِس سے زیادہ پیار کوئی نہِیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کے لیے دے دے۔

((مُقدّس یُوحنّا 13:15

بادشاہ جواب میں اُن سے کہے گا، مَیں تم سے سچ کہتا ہُوں، چُوںکہ تم نے میرے اِن سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے کِسی ایک کے ساتھ ایسا کِیا تو میرے ہی ساتھ کِیا۔ 

(مُقدّس متّی 40:25)  

ہم نے اُس سے محبت کو جانا ہے کہ اُس نے ہمارے واسطے اپنی جان دے دی۔ اِس لیے ہم کو بھی بھائیوں کے واسطے جان دینی چاہیے۔ 

(16:3 مُقدّس یُوحنّا1)

اگر کوئی کہے کہ مَیں خُدا سے محبت رکھتا ہُوں اور اپنے بھائی سے دُشمنی رکھتا ہو تو جھُوٹا ہے۔ کیوںکہ اگر وہ اپنے بھائی سے جس کو دیکھا ہے محبت نہِیں رکھتا تو خُدا سے جس کو نہِیں دیکھا کیوںکر محبت رکھ سکتا ہے۔ 

(20:4 مُقدّس یُوحنّا1)

آویزشیں مسیحیوں کو اُس منزل سے ہمکنار کر سکتی ہیں جو منزل ہے ایثار کی، بھائی بہنوں کے لیے ذاتی قربانیوں کی اور اِس وَچَن کو نبھانے کی کہ اُن کے ساتھ کِسی نوع کی کوئی ناانصافی نہِیں ہونے دی جائے گی۔ اُن پر ڈھائے جانے والے ہر ظلم کے سامنے خُود ایک ڈھال بن کے کھڑے ہو جانے والی بات ہے۔ گویا اِس قبیل کی سیاسی شمولیت لازماً معاون وکارساز ہو سکتی ہے، اگر وہ مسیحی مشن کا ایک اہم جُزو بن جائے۔ یعنی درج بالا مقاصد کے حصول کے لیے سیاست میں شمولیت روا رکھی جا سکتی ہے۔ 

شہنشاہ کانسٹینٹائن اور بادشاہ تھیوڈوسیئس اوّل کے زمانہ اور مابعد میں مسیحیت بطور ریاستی سرکاری مذہب صدیوں آسمانِ اقتدار پر چھائی رہی۔ اور بعض ممالک میں تو اِسے یہ مقام فی زمانہ بھی حاصل ہے، موہوم سی شکل میں ہی سہی۔ مملکت کی کمزوریوں یا اقتدار کے خلاے خسروی کی وجہ سے سلطنتِ روما کے سیاسی ڈھانچے میں جب دراڑیں پڑنا شروع ہوئیں اور رومن جلال وسطوت زوال کی نذر ہونے لگے تو پاپائیت نے خالی جگہ پُر کرنے کی ٹھان لی، زمین پر ایک ارضی مذہبی طاقت نے اُٹھان پکڑی اور پاپائی حُکُومتِ کلیسا وُجُود میں آ گئی۔ پاپائی ریاستوں کا یہ نقطہ آغاز تھا۔ ایسی مملکتوں کے تمام ہی باشندے مسیحی تھے۔ طاقت واقتدار کی دو تلواروں والی پالیسی عمل میں لائی گئی۔ روحانی تعلیمات یعنی دِینی فروغ والی تلوار اور کاروبارِ سیاست وسیادت والی تلوار اور دونوں کے قبضے دستِ پوپ میں موجود، مذہب کی گرفت اُن پر بھاری۔ شاہوں اور شہنشاہوں کا تقرر پوپ صاحب کی اجازت اور اُس کے حکم کے تابع ہو گیا۔ رُوحانی اور دُنیاوی طاقت کا ایک ہی ادارے (پاپائیت) کے ذیل میں آ جانا دھیرے دھیرے اُس طرف چل پڑا کہ حُکُومتی حکمتِ عملیوں، پالیسیوں اور کارروائیوں کی منظوری کلیسیا نے دینا شروع کر دی، اُنھیں ترتیب اور تخلیق دینا بھی خُود شروع کر دِیا بل کہ اُن کا اجرا بھی چرچ نے اپنے ذِمّہ لے لیا اور ظاہر ہے یہ اعمال اور عملداری سراسر بائبل مُقدّس کی تعلیمات کے برعکس تھی۔ پھر کیا ہُوا، ہُوا یہ کہ گیارھویں سے تیرھویں صدی کی صلیبی جنگوں کی حوصلہ افزائی ہوئی، استعماری اور نوآبادیاتی مہمات کو جِلا ملی اور احتسابی عدالتوں کے ذریعے انتقامی کارروائیوں کی شروعات تاریخ کا حصہ بنیں۔ 

اناجیلِ مُقدّس کی روح کے عین مطابق ویٹی کن کونسل دوم نے چرچ کی آزادی وخُودمختاری اور کِسی بھی دوسرے ادارے پر عدم انحصار کا مطالبہ کر دِیا، سیاسی اقتدار سے مذہب کی علیحدگی کا مطالبہ۔ قلمدانِ سیاست وحُکُومت چرچ (اور مذہب) سے جُدا کر دِیا گیا کہ دونوں سے توقع کی گئی تھی کہ مِل بیٹھ کر علیحدگی کے لیے مسائل ووسائل میں آسانیاں پیدا کرتے ہوئے اپنی اپنی راہ ہو لیں۔ ساتھ کے ساتھ کونسل نے مذہبی اشتمالی معاشرہ کے لیے حُقُوق کی بازیابی چاہی تاکہ وہ انجیلی اقدار کے مطابق جو معیارات مقرر ہیں سوسائٹی کو اُن سے فیضیاب کر سکے۔ پروٹسٹنٹ مسیحیوں کے لیے برمن ڈیکلریشن 1934ع کو مفیدِ مطلب قرار دِیا گیا۔ 

۳۔دُنیا وآخرت کی زِندگی 

خُداوند حضرت یسوع مسیح کا مصلوب ہونے کے بعد دوبارہ جی اُٹھنے کا عمل ابدی زِندگی کے آغاز کا پیغام بر ہے، ابدی زِندگی کا آغاز ہو چُکا ہے۔ ”مَیں ہی حیات بعد از ممات اور مَیں ہی عمرِ جاوداں ہُوں۔

حضرت یسوع نے اُس سے کہا، قیامت اور زِندگی مَیں ہی ہُوں، جو مجھ پر ایمان لاتا ہے اگرچہ وہ مر گیا ہو تو بھی زِندہ رہے گا۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 25:11) 

مَیں تم سے سچ سچ کہتا ہُوں کہ جو میرا کلام سُنتا اور اُس پر جس نے مجھے بھیجا ہے ایمان لاتا ہے وہ ہمیشہ کی زِندگی رکھتا ہے اور زیرِفتویٰ نہِیں ہوتا بل کہ وہ موت سے زِندگی میں داخل ہو گیا ہے۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 24:5)  

ہم تو جانتے ہیں کہ ہم موت سے چھُوٹ کر زِندگی میں داخل ہو گئے ہیں، کیوںکہ ہم بھائیوں سے محبت رکھتے ہیں جو محبت نہِیں رکھتا وہ موت کی حالت میں رہتا ہے۔ 

(14:3۔یُوحنّا1)

کیوںکہ جب ہم اُس کی موت کی مشابہت سے اُس کے ساتھ پیوستہ ہو گئے تو اُس کی قیامت کی مشابہت سے بھی اُس کے ساتھ پیوستہ ہوں گے۔ 

(رومیوں کے نام 5:6) 

یہ دائمی حیات ہے کہ اُنھیں ادراک ہو، تُو ہی خُداے صادق ہے اور حضرت یسوع مسیح وہ ہے جسے تُو نے ہی بھیجا ہے: ۔

اور ہمیشہ کی زِندگی یہ ہے کہ وہ تجھ اکیلے سچّے خُدا کو اور تیرے بھیجے ہوئے حضرت یسوع مسیح کو جانیں۔

 (مُقدّس یُوحنّا 3:17) 

تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بل کہ ہمیشہ کی زِندگی پائے، کیوںکہ خُدا نے دُنیا کو ایسا پیار کِیا کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دِیا، تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بل کہ ہمیشہ کی زِندگی پائے۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 16,15:3) 

کیوںکہ میرے باپ کی مرضی یہ ہے کہ ہر ایک جو بیٹے کو دیکھتا اور اُس پر ایمان لاتا ہے، ہمیشہ کی زِندگی پائے اور مَیں اُسے یومِ آخر میں پھر زِندہ کروں گا۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 40:6)  

مَیں تم سے سچ سچ کہتا ہُوں جو ایمان لاتا ہے وہ ہمیشہ کی زِندگی رکھتا ہے۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 47:6)  

غیر فانی زِندگی کی ابتدا تو ہو چکی، ہاں البتہ پورے طور سامنے نہِیں آئی، مسیحی مخمصے میں پڑے ہیں کہ.... پہلے سے مُیسّر.... کیا ہے اور.... جو فی الحال میسر نہِیں وہ کیا ہے، کم یاب کیا ہے اور نایاب ابھی کیا کچھ ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا یُوں ہے کہ مُکمّل نجات کی آس تو کی جا رہی ہے، جو ملتی ہے، خُداوند حضرت یسوع مسیح نے قربانی دی ہے جس کے بدلے مکتی یقینی ہے اور اِس پر تمام مسیحیوں کا پختہ ایمان ہے، لیکن اِس نجات کا پھل پوری طرح پک کر پورے کا پورا جھولی تک نہِیں پہنچا۔ ابھی کائنات کو کُلّی تغیر نصیب نہِیں ہُوا، دُنیا کو ابھی مزید کایا پلٹ سے گذرنا ہے، تثلیث کی تیسری ذات پاک کی قدرت وطاقت سے، وقت سمٹتا جا رہا ہے، منشاے خُداوندی کے قریب سے قریب تر ہونے کا سمے اُترنے والا ہے۔ 

روح القدس کی طرف سے تخلیقِ کائنات تبھی تکمیل کو پہنچے گی جب خُداوند حضرت یسوع مسیح کا دُنیا میں ورودِ مسعود دوبارہ ہو گا۔ اور وہ نشانی ہو گی دُنیاے ہست بُود کے اختتام کی، تواریخ وادوار کی فنا کی۔ ایسا بھی نہِیں کہ ایک نئی دُنیا بسا دی جائے گی، یُوں ہے کہ اِسی کو نئے سرے سے تعمیر وآباد کِیا جائے گا اور دیکھنے میں اِس کی ہیئت ہی بدلی بدلی سی وُجُود میں آ جائے گی۔ یہ ہماری ہی دُنیا ہو گی اور ہمیں سے آباد ہو گی، وہی دُنیا جس میں ہم رہتے آئے ہیں، اِس مرتبہ خوشگوار تبدیلیوں سے مُرتّب اور مُرصّع اور مُکمّل۔ یہ محض خام خیالی نہِیں، ہرگز نہِیں.... اِس نئی دُنیا کی ساخت کی بُنیاد خُداوند حضرت یسوع مسیح کی اپنی ہستی ہے اور نتیجہ ہے اُس کے دعواے نبوّت کا، ثمر ہے اُس کے جان قربان کر دینے کا اور مُردوں میں زِندہ جی اُٹھنے کا۔ اِسی طرح یہ اُمِّید باندھنا بھی بجا ہے کہ دُنیا اور انسانیت کا تغیر وتبدل اُس لمحے تک مُکمّل ہو ہی نہِیں سکتا جب تک کہ مسیحی عقیدہ کے مطابق خُداوند حضرت یسوع مسیح کی واپسی نہِیں ہو جاتی۔ 

دینِ مسیحی دُنیا میں بھرپور دِلچسپی لینے کی دعوت دیتا ہے، یہ وابستگی خدمت اور دوسروں کے کام آنے کا تقاضا کرتی ہے۔ اناجیلِ مُقدّسہ کے پیغام کی روشنی میں یُوں دُنیا اور دُنیا میں بسنے والی مخلوق میں اِس جذبے سے گھل مل جانا تو گویا حق ادا کر دینے والی بات ہے کہ دُنیا اپنی صحیح منزل کے حُصُول میں کامیاب وکامران ہو جائے۔ عہدنامہءجدید کی پہلی چار مقدّس کتابوں کی تلاوت کی جائے تو آشکار ہوتا ہے کہ بہبود وفلاحِ انسانیت کی مقصد براری کے لیے آمادگی پر کتنا زور دِیا گیا ہے۔ اِس عمل کی مختلف اشکال، مختلف ذرائع ہیں۔ مثلاً کِسی سیاسی جماعت کا کارکن بن کر، یُوں ہمیں بڑی سطح پر وسیع روابط قائم کرنے کا موقع مِلتا ہے، خدمتِ خلق کی راہیں کھُلتی ہیں، ایسے اوقات ومقامات مُیسّر آتے ہیں جب انجیلِ مُقدّس کی روح کے عین مطابق اِس کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اِس کے فیوض اور اِس کی برکات سے دوسروں کو بہرہ مند اور فیضیاب کِیا جا سکے۔ اِن نیکیوں اور انسانیت کے لیے بھلے کاموں کے کرنے میں تب سبھی شریک ہو جاتے ہیں، تمام پارٹی ممبرز، مسیحی ممبران بھی اور غیر مسیحی کارکنان بھی حتیٰ کہ وہ پارٹی ورکرز بھی جو سرے سے نہ خُدا کو مانتے ہیں نہ کِسی مذہب کو، خدمتِ خلق کا ایک ذریعہ راستہ یہ بھی ہے کہ کِسی ٹریڈ یونین کا فعال رُکن بنا جائے یا مختلف سماجی بہبود تنظیموں کے پروگراموں میں رضاکارانہ حصہ لیا جا سکتا ہے۔ اور وہ، وہ جو کیا کہتے ہیں، باضابطہ وباقاعدہ مُنظّم ومربوط زِندگی، وہ بھی، جی، وہ بھی بھرپور انسانی حیات کے حُصُولِ تکمیل میں واقعی ایک مثبت کِردار ادا کرتی ہے، دِیے سے دِیا جلتا ہے۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہے اور حقیقت ہے کہ کلامِ مُقدّس کو کبھی بھی کِسی بھی سیاسی جماعت کے مخصوص پروگراموں میں ملوث نہِیں کِیا جا سکتا، نہ ہی کِسی کو مسیحیت کا استحصال کرنے کی اجازت ہے، نہ مذہب کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی چھُوٹ، ایک اچھے مسیحی پر جو ذِمّہ داریاں عائد ہوتی ہیں اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ پورے طور چوکنا ہو کر، باریک بینی اور پرکھ سے ہر سیاسی اور سماجی نظام کے ساتھ نازک مگر اہم تعلُّقداری اُستوار کرے۔ دُنیاوی فریم ورک میں دوسروں کی آزادی وخُودمختاری کا احترام لازماً مدِّنظر رکھتے ہوئے، خُود کو بھی ذاتی تنقید کے ترازو میں رکھتے ہوئے اور اِس کا رُخ اپنے علاوہ کلیسا کی جانب بھی کرتے ہوئے وہ رشتہ قائم کِیا جائے۔ 

 

 

۴۔مسیحی تصریحات 

۱۔جسم اور رُوح 

وحدتِ انسانیت لائقِ اہمیت ہے۔ جسم اور رُوح کے اِتّحاد سے خُدا نے انسان کو تخلیق کِیا۔ یہ ہے کُل انسان کا وُجُود، جسم اور رُوح دونوں، صِرف روح نہِیں، حال آںکہ اِس کی تخلیق میں عکسِ خُداوندی ہویدا ہے۔ لہٰذا عقیدت واحترام جسم کا حق ہیں، جنسی کشش پر مبنی عامل قُوّتوں کا بھی۔ 

۲۔مذہب اور ریاست 

کلامِ پاک کا بے جا مصرف اور خلاف ورزیاں بھی ہوتی رہیں تاہم جس تاریخی وواقعاتی سیاق وسباق میں یہ سب کچھ ہُوا اُسے بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ اِس کے ساتھ یہ بھی گزارش ہے کہ مسیحی اور مُسلم دونوں اپنے اپنے طور بھی اور مشترک طور بھی اپنی اپنی تاریخ کے بارے میں غورکریں اور اہمیت کے پہلو سے ضرور اِس کے اوراق کھنگالیں۔ مُسلمانوں اور مسیحیوں دونوں پر لازم ہے، اِسے فرضِ منصبی سمجھتے ہوئے اُنھیں چاہیے کہ جہاں جہاں اور جتنے مشترکہ تاریخی حوالے ہیں اُنھیں دانشمندانہ تقریظ وتعریض کے عملِ کشید سے گُزاریں۔ بہُت کچھ ہے جو مشترک ہے، بہُت کچھ۔ 

۳۔دُنیا و ُعقبیٰ 

حیات بعد الممات کا عقیدہ قطعاً اِس بات کی حوصلہ افزائی نہِیں کرتا کہ انسان موت کے بعد کی زِندگی کے ِسحر میں مبتلا ہو کر اِس دُنیا سے ہی لاتعلُّق ہو جائے یا کارزارِ ہستی میں مردانہ وار ڈٹے رہنے کے بجاے پسپائی اختیار کر لے۔ برخلاف اِس کے، اِس عقیدہ سے حوصلہ پا کر جذبہ انسانی ہمدردی اور دوسرے بہن بھائیوں کے کام آنے کی سعی وشوق کو مہمیز لگنی چاہیے بل کہ محروم وپسماندہ ومفلس طبقات کی مد د پر تو تَن مَن دَھن سے جُت جانا فرض بنتا ہے۔ ہمارے حوصلے جوان رہنے چاہییں اور اُمِّیدیں توانا، ہماری تمنّا یہ ہونی چاہیے کہ جب ہم دُنیا سے رخصت ہوں تو اِسے بہتر شکل میں چھوڑ کر جائیں۔ پہلے سے بہُت بہتر، اور پھر یہ کہ اِسی عقیدے کی وساطت سے خُدا کی بادشاہت اور انسانی منصوبہ بندیوں میں کِسی قسم کی مماثلت تلاش کرنے سے ہمیشہ ہمیشہ گریز کی راہ پر چلتے رہیں۔ خُدا ہی مقتدرِ اعلیٰ ہے اور جو ہے اُسی کے حکم سے ہے۔ 

وقت کی رفتار جب تھم جائے گی، انصاف کے دِن قیامت قائم ہو جائے گی۔ یہ وہی دِن ہی تو ہو گا جب عدل وانصاف اپنی جُملہ تعزیروں کے ساتھ سب پر لاگو ہو گا۔ کسی کے لیے قیامت برپا ہو گی، کِسی کے لیے روزِ جزا ہو گا۔ عدل سب کے لیے مساوی ہو گا، انصاف بِلاامتیاز ہو گا۔ فیصلے اچھے بُرے اعمال کے منصفانہ ترازو پر ہوں گے۔ اعمال سزا دِلوائیں گے یا جزا اور کسوٹی ہو گی کہ خُداوند کی غریب بھیڑوں سے کیا سُلُوک کِیا گیا؟ درماندہ وپیش اُفتادہ انسانوں سے بے مروّتی تو نہِیں برتی گئی؟ دبے، کُچلے اور ستائے لوگوں کو دھتکارا تو نہِیں؟ اُن کا سہارا بنے؟ اُن کے سر پر ہاتھ رکھا؟ انصاف کے اِن تقاضوں کے پورا ہونے پر بائبل مقدّس اور قرآن دونوں صاد کرتے ہیں۔ خُدا کے حُقُوق کا احترام شروع ہی بندوں کے حُقُوق کی ادائی سے ہوتا ہے۔ بائبل مُقدّس میں جو حکم خُدا سے پیار کرنے کے لیے صادر ہُوا ہے اُسی میں پڑوسی سے پیار کا فرمان بھی شامل ہے اور پھر حُقُوقِ انسانی کی بجاآوری کی تاکید پر بھی محیط ہے۔


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?