German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

پاک یوخرست

 

۱۔استفسارِ مُسلمانان 

٭مسیحی عبادت کا طریق کیا ہے؟ تو کیا نماز آپ کے بھی دین کا رُکن ہے؟ مَے اور روٹی کا آپ کی عبادات سے کیا تعلُّق ہے (وہ سفید گول، خستہ کرارا بسکٹ سا اور پیالہ کیا ہیں، کس لیے ہیں)؟ حیرت ہے، یہ کیا؟ آپ عبادت میں مَے استعمال کرتے ہیں! یہ تو حرام شے ہے، قانونِ الٰہی میں تو مَے نوشی منع ہے۔ 

٭روٹی اور مَے کے اندر خُدا کے وُجُود پر کیا واقعی آپ کا پختہ ایمان ہے؟ اور وہ بے خمیری روٹی اور مَے خُود خُدا بھی بن جاتی ہے، کیا یہ حقیقت ہے؟ اگر ہے، تو کیا آپ خُدا کو کھا جاتے ہیں؟ 

٭الطار کے پیچھے جو صندوق ہے، وہ کیا ہے؟ اُس میں کیا ہے؟ الطار کے قریب آپ دِیا کیوں جلا چھوڑتے ہیں؟ بڑے گرجا گھر میں اتوار کے روز جو عشاے ربّانی کی شکر گُزاری کی تقریب منعقد ہوتی ہے اور ہفتہ وار چھوٹے گرجا گھروں، چھوٹے کلیساﺅں میں جو تقریب منائی جاتی ہے، اُن میں کیا فرق ہے؟ 

۲۔مسلمانوں کی طرف سے صراحت 

سرسری جائزہ 

۱۔قیام، رکوع، سجود، تشہد پر مشتمل مروّجہ بدنی عبادت یعنی نماز میں ضروری ہے کہ ان ارکانِ صلوٰة کو اختیار کِیا جائے اور اُن دُعاﺅں اور قرآنی آیات کی تلاوت بھی ضروری ہے جو روحانی عبادت کے طور پر مقرر کر دی گئی ہیں اور یہ یقینا اس سے مختلف صُورتِ حال ہوتی ہے جب بے ساختگی میں دُعائیں، التجائیں مُنہ سے ادا ہوتی ہیں اور اُن کے لیے کوئی مختص کیے گئے الفاظ نہِیں ہوتے اور نہ دوسری رسُومِ عبادت کی لازمی پابندی ہی فرض ہوتی ہے۔ 

۲۔اللہ تعالیٰ کے حلول کر جانے کا جو تصوُّر ہے اسلام اُس کی بھرپور تردید کرتا ہے کیوںکہ اُس کا تو سارا زور ہی اِس پر ہے کہ خدا مطلق ہستی ہے، ماوراے ادراک، اور اس کا حلول اسی کی پیدا کردہ بے جان چیزوں مثلاً روٹی اور مَے میں تو ہو ہی نہِیں سکتا اور پھر مَے کا استعمال خالص فضیحت والی بات سامنے لاتا ہے کیوںکہ اس شے کو تو اسلام میں قطعاً حرام قرار دِیا گیا ہے، جب سے قرآن مجید کا نزول ہُوا، تب سے۔ 

۳۔یہ تو واقعی راہ سے بھٹک جانے والی بات ہے جس طرح ایک خاص روایت و مسیحی عقیدہ کے تحت ”پاک یوخرست“ کے بارے میں تصوُّر باندھا جاتا ہے اور ان ”متبرک اجزا“ کی جیسے تشریح کی جاتی ہے اور اس عقیدے کی جس طرح داغ بیل ڈالی جاتی ہے اور اسے پھیلایا جاتا ہے اس پر تو مسلمانوں کا اسے مسترد کرنے کا فعل قابلِ فہم ہے، کیوںکہ غلطی پر مبنی یہ مذہبی روایت کہ تقدیس کے بعد مسیح کے بدن کا روٹی میں آ موجود ہونا، خدا کا روٹی بن جانا، یعنی یہ روٹی حضرت یسوع مسیح ہے جو خُود خُدا ہے۔ اس غلط دعوے کو تقویت ملی جوہر کی تبدیلی کے بارے میں رومن کیتھولک اور مشرقی کلیسیاﺅں کے خیالات سے جن کا صحیح طور تجزیہ ہی نہِیں کِیا گیا تھا۔ دورِ حاضر میں جوہر کے بارے میں جو حوالہ بنتا ہے، وہ ہے اُس کا ایک ٹھوس شے ہونا اور مادّی عوامل کا حاشیہ بردار ہونا۔ یوں یہ مجہول سی بات لگتی ہے کہ روٹی کا جوہر تبدیل ہو کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم بن گیا، کیوںکہ روٹی کا طبعی مواد تو وہی کا وہی رہتا ہے۔ پاک یوخرست میں آ کر ذرا بھی تبدیل نہِیں ہوتا۔ ان مفروضوں کے پیشِ نظر یہ رومن کیتھولک عقیدہ کہ عشاے ربّانی میں روٹی اور مَے اپنی ظاہری شکل برقرار رکھتے ہوئے حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم اور خُون میں بدل جاتے ہیں، یعنی یہ تبدیلی جوہر کی تعلیم بعید از فہم نہِیں اگر اسے رَد کر دِیا جائے۔ 

اس نظریے کے صحیح ادراک کے لیے مُکمّل سمجھنے کی استعداد پیدا کرنے کی ضرورت ہو گی۔ یہ فہم پیدا کِیا جائے کہ جوہر سے مُراد ہے روٹی کی مابعد الطبیعیاتی حقیقت، وہ تمام حقائق جو جسمانی طور تجربے میں آئیں، محسوس کیے جائیں، اُنھیں اتفاقی جوہر یا وصف کے زُمرے میں شُمار کِیا جاتا ہے۔ جیسے ”پاک عناصر، روٹی اور مَے“ اور اتفاقی جوہر کی قبیل میں نہ تغیر وتبدل کی گنجایش ہوتی ہے کہ روا رکھا جا سکے اور نہ ہی اُس کی کایا پلٹ ممکنات میں ہوتی ہے۔ چُناںچہ یوخرست میں روٹی بس روٹی ہی رہتی ہے۔ یہی تبدیلی جوہر کے فلسفہ کی اساس ہے۔ مُقدّس رُسُوم کی جادوئی تفہیم اور یہ تصوُّر کہ کاہن یعنی فادر کے الفاظ مطلب کہ اس کے کلام میں اتنی آٹومیٹک پاور ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی چیز کو کسی دوسری شے میں بدل کر رکھ سکتا ہے،ناممکن ہے۔ 

تفصیلی جائزہ 

۱۔قرآن پاک اور تمام اسلامی نظریات وحقائق کے مطابق مسیحیوں کو وہ لوگ کہا گیا ہے جو عبادت کرتے ہیں، اُن کے عقیدے کی کجیاں اپنی جگہ مگر اللہ کی عبادت کرنے والے۔ ان کی خانقاہی زِندگی یعنی رُہبانیت کے پیش نظر اُنھیں عابد تسلیم کِیا گیا ہے۔ راہب یا مسیحی راہبائیں فنا فی الدین یعنی اپنے آپ کو دِین اور عبادت کے لیے وقف کر دینے والے لوگ ہوتے ہیں: 

یقینا آپ ایمان والوں کا سب سے زیادہ دُشمن یہودیوں اور مُشرکوں کو پائیں گے اور ایمان والوں کی سب سے زیادہ دوستی کے قریب آپ یقینا اُنھیں پائیں گے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں، یہ اِس لیے کہ اُن میں علما اور عبادت کے لیے گوشہ نشین افراد پائے جاتے ہیں اور اس وجہ سے کہ وہ تکبر نہِیں کرتے۔ 

 (المائدہ :82) 

اُن گھروں میں جن کے بُلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے حُکم دِیا ہے، وہاں صبح وشام اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ 

ایسے لوگ جنھیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذِکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے سے غافل نہِیں کرتی اُس دِن سے ڈرتے ہیں جس دِن بہُت سے دِل اور بہُت سی آنکھیں اُلٹ پلٹ ہو جائیں گی۔ 

(القرآن، النور: 36-37) 

ان کے بعد پھر بھی ہم اپنے رسُولوں کو پے در پے بھیجتے رہے اور اُن کے بعد عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اور اُنھیں انجیلِ مقدّس عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دِلوں میں شفقت اور رحم پیدا کر دِیا، ہاں رُہبانیت (ترکِ دُنیا) تو ان لوگوں نے از خُود ایجاد کر لی، ہم نے اُن پر اِسے واجب نہ کِیا تھا۔ سواے اللہ کی رضا جُوئی کے۔ (دوسرا ترجمہ ہے کہ اُنھوں نے یہ کام (اپنی طرف سے) اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لیے کِیا تھا) سو اُنھوں نے اِس کی پوری رعایت نہ کی، پھر بھی ہم نے اُن میں سے جو ایمان لائے تھے اُنھیں اُن کا اجر دِیا اور اُن میں زیادہ تر لوگ نافرمان ہیں۔ 

(القرآن،الحدید: 27)   

۲۔قرآن مجید فرقانِ حمید کے نزول کے بعد اور اسلامی تاریخ کی شروع شروع کی صدیوں میں مسیحی خانقاہیں اور راہب خانے مسلم ریاستوں میں بھی بہُت سے علاقوں کے روایتی ارضی منظر نامے میں ایک لازمی مسیحی جُزو کا مقام رکھتے تھے۔ اِس میں شک نہِیں کہ اسلامی معاشرت میں گرجا گھروں کی تعمیر کی، کلیسیا کا انتظام وانصرام کرنے والوں اور مسیحی عبادت کی نہ صِرف اجازت تھی بل کہ اسلامی شرعی قانون کے تحت تحفُّظ بھی حاصل تھا۔ 

۳۔قرآن شریف کی سورة المائدہ میں یوخرست کے بارے میں ایک تلمیح بھی موجود ہے: 

وہ وقت یاد کے قابل ہے جب کہ حواریوں نے عرض کِیا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل فرما دے؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو، اگر تم ایمان والے ہو۔ 

وہ بولے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اُس میں سے کھائیں اور ہمارے دِلوں کو پورا اطمینان ہو جائے اور ہمارا یہ یقین اور بڑھ جائے کہ آپ نے ہم سے سچ بولا ہے اور ہم گواہی دینے والوں میں سے ہو جائیں۔ 

عیسیٰ ابنِ مریم نے دُعا کی، اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرما! کہ وہ ہمارے لیے یعنی ہم میں جو اوّل ہیں اور جو بعد کے ہیں سب کے لیے ایک خوشی کی بات ہو جائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو جائے اور تُو ہم کو رزق عطا فرما دے اور تُو سب عطا کرنے والوں سے اچھا ہے۔ 

حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ مَیں وہ کھانا تم لوگوں پر نازل کرنے والا ہُوں، پھر جو شخص تم میں سے اُس کے بعد ناحق شناسی کرے گا تو مَیں اُس کو ایسی سزا دوں گا کہ وہ سزا دُنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہ دُوں گا۔ 

(القرآن، المائدہ: 112-115)   

ایسا بھی ہے کہ قرآن کریم کے بعض مفسرین اِن آیات میں وہ تلمیح پاتے ہیں جو روٹی نہِیں بل کہ روٹیوں کا ذِکر کرتی ہے: 

اور رسول حضرت یسوع کے پاس جمع ہوئے اور جو کچھ اُنھوں نے کِیا اور سکھایا تھا سب اُس سے بیان کِیا۔ 

تب اُس نے اُن سے کہا، تم لوگ ویران جگہ میں چلے آﺅ، اور ذرا آرام کرو، اِس لیے کہ وہاں بہُت آمدورفت تھی اور اُنھیں کھانا کھانے کی بھی فُرصت نہ مِلتی تھی۔ پس وہ کشتی پر چڑھ کر الگ الگ ویران جگہ چلے گئے اوربہتیروں نے اُن کو جاتے دیکھا اور جان گئے، اور سب شہروں سے اکٹھے ہو کر وہاں پیدل دوڑے اور اُن سے پہلے جا پہنچے اور حضرت یسوع نے اُتر کر بڑا ہُجُوم دیکھا، اور اُسے اُن پر رحم آیا کیوںکہ وہ اُن بھیڑوں کے مانند تھے جن کا چرواہا نہ ہو۔ اور وہ اُنھیں بہُت سی باتوں کی تعلیم دینے لگا۔ جب کافی دیر ہوئی تو اُس کے شاگردوں نے اُس کے پاس آ کر کہا کہ یہ جگہ ویران ہے اور بہُت دیر ہو چکی، اُنھیں رخصت کر تاکہ آس پاس کے گانو اور بستیوں میں جا کر اپنے واسطے کچھ کھانے کو مول لیں۔ اُس نے جواب میں اُن سے کہا، تم ہی اِنھیں کھانے کو دو۔ تب وہ بولے، کیا ہم جا کر دو سو دینار کی روٹیاں مول لیں اور اِنھیں کھِلائیں؟ پر اُس نے اُن سے کہا تمھارے پاس کتنی روٹیاں ہیں؟ جاﺅ دیکھو۔ اُنھوں نے دریافت کر کے کہا، پانچ اور مچھلیاں دو۔ 

تب اُس نے اُنھیں حکم دِیا کہ سب کو ہری گھاس پر کیاری کیاری میں بٹھاﺅ۔ وہ سَو سَو اور پچاس پچاس کے دستوں میں بیٹھ گئے۔ تب اُس نے وہ پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں لیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر برکت چاہی اور روٹیاں توڑیں اور اپنے شاگردوں کو دیں کہ اُن کے آگے رکھیں اور اُس نے وہ دو مچھلیاں بھی اُن سب میں بانٹیں اور سب کھا کر سیر ہو گئے اور اُنھوں نے بچے ہوئے ٹکڑوں سے بارہ ٹوکریاں بھر کر اُٹھائیں اور کچھ مچھلیوں سے بھی، اور جنھوں نے وہ روٹیاں کھائیں وہ پانچ ہزار مرد تھے۔ 

(40-30:6مُقدّس مرقس)

بعض دوسری اناجیلِ مُقدّسہ میں بھی متوازی ذِکر موجود ہے۔ 

اور یا پھر یافا کے مقام پر مُقدّس پطرس رسُول کو جو واقعہ پیش آیا، آسمان سے اُترتی سَن سے بنی ہوئی چادر اُس نے دیکھی جو مذہبی اعتبار سے حرام جانوروں سے بھری ہوئی تھی وہ اس کے سامنے آ بچھی اور حکم ہُوا، کھاﺅ: ۔

دوسرے دن جب وہ راہ میں تھے اور شہر کے نزدیک پہنچے تو پطرس چھٹی گھڑی کے قریب کوٹھے پر دُعا کرنے گیا اور اُسے بھوک لگی اور وہ کچھ کھانا چاہتا تھا مگر جب تیار ہو رہا تھا تو وہ وَجد میں آ گیا اور اُس نے دیکھا کہ آسمان کھُل گیا اور ایک باسن بڑی چادرکے مانند چاروں کونوں سے لٹکا ہُوا آسمان سے زمین کی طرف اُتر رہا ہے۔ 

اُس میں ہر قسم کے چوپایے اور زمین کے کیڑے مکوڑے اور ہَوَا کے پرندے تھے اور اُسے ایک آواز آئی کہ اے پطرس اُٹھ، ذبح کر اور کھا، مگر پطرس نے کہا، اے خُداوند! ہر گز نہِیں۔ کیوںکہ مَیں نے کبھی کوئی حرام یا ناپاک چیز نہِیں کھائی۔ دوسری بار پھر اُسے آواز آئی کہ جس کو خُدا نے حلال ٹھہرایا ہے تو حرام مت کہہ۔ یہ تین بار ہُوا اور فی الفور وہ باسن پھر آسمان پر اُٹھا لیا گیا۔ 

(10.9:6رسولوں کے اعمال)

تمام تبع تابعین کا اِس پر اتفاق ہے کہ یہ تلمیح یوخرست پر مبنی ہے۔ رسولوں نے حضرت یسوع المسیح سے درخواست کی کہ بہشت سے المائدہ تو منگوائیے یعنی ایک خوان یا میز جس پر انواع واقسام کے کھانے موجود ہوں، یہ اِس لیے کہ اُنھیں یقین ہو جائے کہ واقعی حضرت یسوع المسیح کو اللہ ہی نے بھیجا ہے، پھر حضرت یسوع المسیحبہ نفسِ نفیس اللہ جل شانہ، سے فرمایش کرتے ہیں اور وعید ہوتی ہے کہ فرمایش پوری کی جائے گی۔ اِس پیراگراف سے یہی پتا چلتا ہے کہ المائدہ بہشت کا تحفہ ہی تھی۔ 

(وہ قصہ بھی یاد کرو) جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسیٰ ابنِ مریم! کیا تمھارا پروردگار ایسا کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے (طعام کا) خوان نازل کرے؟ اُنھوں نے کہا کہ اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا سے ڈرو۔ 

وہ بولے ہماری یہ خواہش ہے کہ ہم اِس میں سے کھائیں اور ہمارے دِل تسلّی پائیں اور ہم جان لیں کہ تم نے ہم سے سچ کہا ہے اور اس (خوان کے نزول) پر گواہ رہیں۔ 

(القرآن ، المائدہ112-113)  

اور یہ کہ یہ ایک تہوار بن جائے گا، عید، خوشیوں کے دِن کے طور پر ہمیشہ منایا جانے والا دِن اور غالباً اِس لیے بھی کہ جیسے مسیحی لوگ ایسٹر یعنی عیدِ قیامتِ مسیح مناتے ہیں، یا جو مقام ہفتہ بھر کے دِنوں میں اتوار کو حاصل ہے، اِس عید کو بھی وہ درجہ مِل جائے، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے، تاقیامت، پہلی اور آخری بات یہ ہے کہ یوں دوامی امن، سکون، دِلی تسلی نصیب ہو جائے گی۔ سورة المائدہ (میز) کی آیت 113 میں اِسی طرف اشارہ ہے۔ جب کہ وہ جو ایمان نہِیں لائے اُن تک جب کہ مائدہ پہنچ بھی گئی اور وہ پتھر کے پتھر رہے تو پھر اُن پر سخت عذابِ الٰہی ہی اُترنا تھا: 

اِس واسطے جو کوئی نالائق طور پر یہ روٹی کھائے یا خُداوند کے پیالے میں سے پیے تو وہ خُداوند کے بدن اور خُون کا گُنہگار ٹھہرے گا۔ پس آدمی اپنے آپ کو پرکھے اور اِسی طرح اِس روٹی میں سے کھائے اور اِس پیالے میں سے پیے، کیوںکہ جو نالائق طور پر کھاتا اور پیتا ہے وہ اِس بدن کی تمیز نہ کر کے اپنی سزا کھاتا اور پیتا ہے۔ 

اِسی سبب سے تُم میں بہتیرے کمزور اور بیمار ہیں اور بہُت سے سو بھی گئے ہیں، اگر ہم اپنے آپ کو جانچتے تو سزا نہ پاتے۔ 

مگر جب ہم سزا اُٹھاتے ہیں تو خُداوند سے تربیت پاتے ہیں تاکہ ہم دُنیا کے ساتھ زیرِفتویٰ نہ ہوں۔ 

(32-27:11۔قرنتیوں)

۳۔مسیحی صراحتیں 

شروع سے ہی پاک یوخرست یعنی جو عشاے ربّانی کی مسیحی رسم ہے، چرچ میں عبادت کا مرکزی حصہ رہی ہے۔ اِس تقریبِ عبادت سے حضرت یسوع مسیح کی حیات، وفات وانتقال اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی یاد دِل، دماغ اور رُوح کو شعلہ زن رکھتی ہے۔ مسیحیوں کا ایمان ہے کہ خُداوند حضرت یسوع زِندہ ہے کیوںکہ خُدا نے اُسے مُردوں میں زِندہ اُٹھا لیا تھا اور چرچ میں وہ ہر لحظہ موجود رہتا ہے، مسیحی ہر لمحہ اُسے اپنے پاس پاتے ہیں

اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اِن سب باتوں پر عمل کریں جن کا مَیں نے تم کو حُکم دِیا ہے، اور دیکھو مَیں دُنیا کے آخر تک ہر روز تمھارے ساتھ ہُوں۔ 

(مُقدّس متّی 20:28)   

پاک یوخرست کی تقریب منانے کے لیے عبادت گُزار مسیحیوں کی جماعت اکٹھی ہوتی ہے اور سبھی جانتے ہیں کہ اِس وقت خُداوند حضرت یسوع مسیح ان کے درمیان موجود ہے اور کہہ رہا ہے:۔

کیوںکہ جہاں دو یا تین میرے نام پر فراہم ہوں، وہاں مَیں اُن کے درمیان ہُوں۔ 

(مُقدّس متّی 20:18)  

مسیحی اکٹھے عبادت کرتے ہیں اور بائبل مُقدّس کی تلاوت سُنتے ہیں، صحائفِ مُقدّسہ کے عین مطابق اور یہاں بھی حضرت یسوع مسیح جو کلمہ خُدا ہے، موجود ہوتا ہے۔ 

نئے عہدنامہ میں جو کچھ بتایا گیا ہے، تب تمام مسیحی عبادت گُزار جو خُداوند کے نام پر اکٹھے ہوئے، عین اُس کی پیروی کرتے ہوئے وہی کچھ بجا لائے جوحضرت مسیح نے آخری عشا کے موقع پر کِیا۔ مسیح کےمصائب وآلام کی یہ آخری شام تھی جس میں خداوند حضرت یسوعمسیح نے آخری کھانا تناول کِیا۔ روٹی اور مَے کا پیالہ لیے اُس نے شکر گُزاری کی عبادت کی، دُعاے برکت مبارک لبوں سے ادا کی اور پھر اُس روٹی کو توڑ کر بانٹا جو عشاے ربّانی میں مستعمل ہوئی اور اظہارِ جذبات کے لیے مَے کے روپ میں اپنے مُقدّس جسم اور بے بہا خون کو اپنے حواریوں کے حوالے کر دِیا۔ گویا اپنے آپ کو اپنے رسولوں، شاگردوں کے لیے وقف کر دِیا۔ یہ روٹی اور مَے کے مُقدّس تحفے ہی ہیں جن سے خُداوند حضرت یسوع مسیح اپنے آپ کا اظہار کرتا ہے، اُس مُقدّس ہستی کے طور پر کہ جس نے اپنے آپ کی قیمت پر انسانوں کے لیے نجات یعنی بخشش اور جرم وگُناہ سے بریّت خرید لی۔ جب بھی مسیحی کلیسیا کا اجتماع ہوتا ہے کہ شکرگزاری کی عبادت کریں تو یہ جوخداوند حضرت یسوع مسیح خُداوند نے اپنی ہستی کو پیش کر دِیا تھا یعنی اپنا آپ قربانی کے لیے حاضر کر دِیا تھا، اُسی عظیم قربانی، عظیم ترین احسان کو یاد کرتے ہوئے ہی شکر گزاری کی عبادت ادا کی جاتی ہے، اور مسیحی اِس پختہ عقیدے کے ساتھ عبادت سے سرشار ہوتے ہیں کہخداوند حضرت یسوع مسیح وہاں موجود ہے۔ سامنے، اِس اجتماع میں، ہر طرف اور جب مُقدّس یوخرست کی تقریبِ عبادت جاری ہوتی ہے اور برکت کی دُعائیں پڑھی جا رہی ہوتی ہیں پھر جیسے ہی مسیحی روٹی اور مَے لے لیتے ہیں تو سمجھیے محبتِ مسیح کی یہ دیدنی علاماتِ مُقدّسہ اُنھیں کیا مِلتی ہیں، خداوند حضرت یسوع مسیح ہی مل جاتا ہے۔ اُنھیں سر تا پا واہ رے مُقدّر! یادِ خُداوند کی یہ تقریبِ عید منانے والوں کو مُقدّس تحفوں کی صُورت میں خُداوند حضرت یسوع مسیح مِل جاتا ہے، جو اُنھیں متعارف کرواتا ہے اپنے خُدا سے جس کے ساتھ مسیح خُداوند کا مضبوط ترین رشتہ منسلک ہے، باپ بیٹے کا رشتہ، اور وہ انسان متعارف ہوتے ہیں جن کے لیے خُداوند نے دُکھ سہے، مصیبتیں جھیلیں، غم آزار اپنے آپ پر لیے، پس، یہ تو پھر ہے کہ مل کر، اکٹھے ہو کر، پاک یوخرست منانے والوں کی دُنیا ہی بدل جاتی ہے اور خداوند حضرت یسوع مسیح کا پاک بدن اُنھیں اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ 

سب کچھ اپنی جگہ، لیکن روٹی اور مَے اپنی اصل حالت میں رہتی ہیں، اپنی مادّی شکل میں، طبعی صُورت اور اپنی خاص کیمسٹری میں، البتہ پاک اجزا، روٹی اور مَے، ترکیب میں تو وہی ہیں مگر اُن کے جوہر میں جو تبدیلی آئی ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مامون ومحفوظ ہے۔ نئے سیاق وسباق میں اُن کا حوالہ ہی بدل جاتا ہے، نئی وقعت اور نئی اہمیت اُن کا نصیب بن جاتی ہے، اُن کی خاطر خُداوند حضرت یسوع مسیح جو خُدا باپ میں زِندہ ہے، اپنا مُقدّس بدن، اپنا پاک لہو قربان کر دیتا ہے۔ چُناںچہ روٹی اور مَے، روٹی اور مَے نہِیں رہتیں، مُقدّس روٹی اور مُقدّس مَے بن جاتی ہیں، یہ تقدس اُنھیں پاک حضرت یسوع مسیح خُداوند نے خُود عطا فرمایا، جو آپ خُدا ہے اور پھر یہ کہ حقیقت کیا ہے، سچ کیا ہے؟ خُدا کے ہاں جو سچ ہے وہی سچ ہے، اُس کے سامنے جو حقیقت ہے وہی حقیقت ہے۔ یہ آفاقی حقیقت ہے کہ عشاے ربّانی میں روٹی اور مَے اپنی ظاہری شکل میں بھی برقرار رکھتے ہوئے خُداوند حضرت یسوع مسیح کے جسم اور خُون میں بدل جاتی ہے اور خُداوند حضرت یسوع مسیح کی موجودگی کا اُن میں ہونا فہم وادراک کے احاطہ میں آ جاتا ہے۔ کسی بھی انتشار وابہام کو دُور کرنے کے لیے اِتنا بتا دینا کافی ہے کہ دراصل یہ شکل وصُورت کی تبدیلی نہِیں بل کہ اُن کے اندر موجود جوہر کی تبدیلی ہے، خواص وہی ہیں، روٹی روٹی اور مَے مَے ہی ہے، مگر اُن کی پاک خُداوند کے وسیلے سے اصل تبدیل ہو گئی ہے، یہی صداقت ہے، ناقابلِ تردید صداقت، یہ دونوں مُقدّس چیزیں غذائیت مُہیّا کرنے کے لیے نہِیں نہ ہی کام ودہن کے مزے لینے کا سامان ہیں، یہ تو اِن خاکی انسانوں کی لافانی حیات کے لیے پیغام ہے کہ خُداوند حضرت یسوع مسیح کی موجودگی ہی اصل خزانہ وتقویتِ ایمانی ہے جو مسیحیوں کو حاصل ہے

حضرت یسوع نے اُن کے جواب میں اُن سے کہا کہ مَیں تم سے سچ سچ کہتا ہُوں کہ تم مجھے اِس لیے نہِیں ڈھونڈتے کہ تم نے کرشمے دیکھے، بل کہ اِس لیے کہ تم روٹیاں کھا کر سیر ہوئے۔ فانی خوراک ہی کے لیے نہِیں بل کہ اُس خوراک کے لیے محنت کرو جو ہمیشہ کی زِندگی تک ٹھہرتی ہے۔ جسے ابنِ انسان تمھیں دے گا، کیوںکہ اِس پر باپ یعنی خُود خُدا نے مُہر کر دی ہے۔

(27-26:6(مُقدّس یُوحنّا۔

حضرت یسوع نے اُن سے کہا، زِندگی کی روٹی مَیں ہُوں، جو میرے پاس آتا ہے وہ ہرگز بھوکا نہ ہو گا، او رجو مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 35:6)  

مَیں تم سے سچ سچ کہتا ہُوں جو ایمان لاتا ہے وہ ہمیشہ کی زِندگی رکھتا ہے۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 47:6)  

یہ وہ روٹی ہے جو آسمان سے اُترتی ہے تاکہ جو اِس میں سے کھائے وہ نہ مرے۔ مَیں وہ زِندہ روٹی ہُوں جو آسمان سے اُتری ہے۔ اگر کوئی اِس روٹی میں سے کھائے تو ہمیشہ تک زِندہ رہے گا اور جو روٹی جہان کی زِندگی کے لیے مَیں دوں گا وہ میرا گوشت ہے۔ 

(52-50:6قدّس یُوحنّا۔)

جو میرا گوشت کھاتا ہے اور میرا خون پیتا ہے، وہ ہمیشہ کی زِندگی رکھتا ہے، اور مَیں اُسے یومِ آخر میں پھر زِندہ کروں گا۔ کیوںکہ میرا گوشت حقیقی غذا اور میرا خُون حقیقی شراب ہے۔ جو میرا گوشت کھاتا اور میرا خون پیتا ہے وہ مجھ میں قائم رہتا ہے اور مَیں اُس میں۔ 

(55-57:6قدّس یُوحنّا۔)

 

بُنیادی طور پر تو روٹی اور مَے میں کوئی تبدیلی نہِیں آتی کہ جسے ہم طبعی تبدیلی کہہ سکیں۔ چُناںچہ خُداوند حضرت یسوع اُن کے خواص کے اعتبار سے اُن کی شکل وساخت کے لحاظ سے یا مادّی طور پر روٹی اور مَے تو نہِیں نا بن جاتا، اِسی لیے جسے کھایا جاتا ہے وہ مسیح خُداوند نہِیں، روٹی ہے جو کھائی جاتی ہے، روٹی کی تو اپنی ننھی سی کُل کائنات ہے، اِس میں خُداوند حضرت یسوع مسیح تو اپنے آپ کو محدود نہِیں کرے گا نا۔ اِس لیے ثابت ہے کہ اِس مُقدّس روٹی کو جب مسیحی عبادت گُزار کھاتے ہیں تو وہ روٹی ہی کھا رہے ہوتے ہیں، خُدا مُعاف کرے، خُداوند نہِیں! اِس لیے خُداوند پر کوئی درد وکرب کی کیفیت نہِیں گذرتی۔ 

۴۔مسیحی ردِّعمل 

۱۔مُسلمانوں سے جو کہ قرآن کے مقلّدین ہیں، اُن سے مکالمے کا آغاز کرنے کے لیے بہتر ہوتا ہے کہ المائدہ یعنی میز کے قصے کو چھُوا جائے۔ خُداوند حضرت یسوع مسیح کے فرمان کے مطابق ہم اِس الطار کے گِرد اکٹھے ہوتے ہیں جو مُقدّس میز ہے، کیوںکہ خُداوند حضرت یسوع مسیح نے اِسے اپنی دُنیاوی زِندگی کے انجام پانے کی یادگار کے طور پر ہمارے بیچ چھوڑا تھا۔ اِسی لیے تمام مسیحی، خُداوند حضرت یسوع مسیح کو جو اذیتیں دی گئیں اور جو دکھ اُس نے ہماری نجات کے لیے اپنی ذات پر جھیلے، حتیٰ کہ اِس مقصد کے لیے چُپ چاپ صبر وشکر کے ساتھ وہ سُولی بھی چڑھ گیا، اُن ساری باتوں کو، اُس عظیم قربانی کو کیوںکر یاد نہ کریں بے شک وہ جانتے ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن کے تتبُّع میں تمام مُسلمان، خداوند حضرت یسوع مسیح کی موت کا صریح انکار کرتے ہیں۔ 

۲۔پاک یوخرست کی تقریبِ عبادت مناتے سمے پاک روٹی اور مَے سے برکت حاصل کی جاتی ہے، کیوںکہ خُود خداوند حضرت یسوع مسیح نے بھی دوسروں کے بدلے اپنی ذات پیش کر دینے کے عملی اظہار کے لیے آخری تاریخی کھانے کے موقع پر انہی پاک اجزا کو پسند فرمایا تھا، اسرائیلیوں کے ہاں روٹی اور انگوری مَے خوراک کا بُنیادی جزو تھیں اور تقریبات میں کھانے پینے کے اُس سامان میں سے روٹی کے ننھّے ننھّے’بھورے‘ کرتے ہوئے یعنی ٹکڑے کر کے بانٹتے ہوئے اور مَے کے پیالے سے فیضیاب ہوتے ہوئے عید تہوار پر اُنھیں بطور اہم مذہبی رُسُوم ضیافتوں کا مقبول ولازمی جُزو گردانتے تھے۔ چُناںچہ خُداوند حضرت یسوع نے اپنے آخری کھانے کے موقع پر جو کچھ کِیا وہ مروّجہ روایات کے عین مطابق تھا۔ اپنے تاریخی نقطہ آغاز کی پاسداری میں پاک یوخرست مناتے ہوئے مسیحی کلیسیا نے بھی مُقدّس عشاے ربّانی کی تقلید اُسی طرح جاری رکھی جس طرح خداوند حضرت یسوع مسیح سے منسوب تھی لیکن تفصیلات میں بعض تبدیلیاں ضرور آئی ہیں، جنھیں مُقدّس عشائی رُسُوم وعمل میں شامل کر لیا گیا۔ کسی بھی تہوار کے موقع پر بے خمیری مُقدّس روٹی کے ٹکڑوں کے بجاے ہوسطیہ استعمال ہونے لگے اور اُن کے ننھّے سے ننھّے ٹکڑے کیے جا سکتے ہیں.... مگر ان سے وہ بات تو نہِیں نا بنتی، جو بغیر خمیر بنی مُقدّس روٹی میں تھی۔ آج جو جزو پاک مستعمل ہے، وہ روٹی تو نہِیں مگر روٹی کی ہم شکل ضرور نظر آتی ہے، گول گول، محوری پوزیشن پر پی ایکس کی خطاطی کے ساتھ، زردی مائل سفید روٹی۔ 

اسرائیل میں بالعموم انگوری مَے پینے پر کوئی پابندی نہ تھی، بل کہ انگوری مَے ایک ربّانی تحفہ سمجھ کر پی لی جاتی تھی، دلجمعی وانبساطِ قلب مقصد ہوتا تھا: ۔

اور مَے جو انسان کے دِل کو خُوش کرتی ہے، اور تیل جس سے وہ اپنے چہرے کو چمکائے اور روٹی جو انسان کے دِل کو تقویت بخشتی ہے۔ 

(مزمور 15:104)   

قیامت سے پہلے کی ضیافت کہ جس کے لیے دعوتِ عام ہو گی، اُس میں بہُت اعلیٰ قسم کی منتخب مَے پیش کی جائے گی: ۔

اور ربُّ الافواج اُس پہاڑ پر سب اقوام کے لیے مرغن اشیاے خُوردنی اور عمدہ مَے کی ضیافت تیار کرے گا۔ ہاں مُرغّن اور پُرمغز اشیاے خُوردنی اور عمدہ، خالص مَے کی ضیافت۔ 

(اِشَعَیا 6:25)  

پاک یوخرست میں ایک مچلتی، ہمکتی سی آس موجود ہوتی ہے، قیامت کے روز جسے خُدا کی بادشاہی پورا کر دے گی۔ اُسی سبب یہاں، اِس دُنیا میں خُود انگور سے کشیدکی گئی مَے کے خُمار پر گُزارا کر لیا جاتا ہے۔ 

اور باغ سے خوشی اور شادمانی جاتی رہی اور تاکستانوں میں کوئی راگ یا گانا نہِیں اور کولھو میں انگوروں کا کوئی روندنا نہِیں اور نعرہ تحسین بند ہو گیا۔ 

(اَشعَیا 10:16)  

یہی سبب ہے پاک یوخرست عبادت کے موقع پر ہم جس مَے کے پیالے سے پیتے ہیں خُداوند حضرت یسوع مسیح کی حیاتِ مُقدّسہ کا وہ پہلو سامنے لاتی ہے وہ مَےِ مُقدّس جس میں پاک خُداوند نے تمام انسانوں کے لیے اپنی زِندگی کا نذرانہ پیش کر دِیا تھا۔ یہ ذاتی قربانی یہ جان کا ایثار اور اِس میں اُس کی رضا اور فرطِ محبتِ خُدا اور وفورِ حیاتِ الٰہی عشاے ربّانی کے تبرکات میں شرکت کے موقع پر بخش دیے جاتے ہیں اُن کو جو ایمان لے آئیں۔ یہی روحانی خوراک ہی پاک یوخرست کا مطلوب ومقصود ہے۔ 

۳۔ایمان وایقان کہ خُداوند حضرت یسوع مسیح پاک یوخرست میں ضرور موجود ہوتا ہے، خُداوند حضرت یسوع مسیح بالکل ویسی حقیقت ہے جیسی یہ کہ خُدا ہی انسان بن کر پاک حضرت یسوع مسیح میں ظاہر ہُوا، تجسیم خُداوند حضرت یسوع مسیح کے انسان پن میں.... اور دوسرے بہُت سوں کے بدلے اپنی ہستی ہی قربان کر دینے کے وصفِ اعلیٰ کے طفیل یہ ثبوت بہم پہنچتا ہے کہ خُدا دُنیا میں موجود ہے اور وہ اپنے آپ کو آشکار کر چکا ہے، حضرت یسوع مسیح میں، کسی بھی نوع کے تحفُّظات کے بغیر، اور اپنی بے پایاں محبت کی استواری کے ساتھ، سب کے لیے۔ خُداوند حضرت یسوع مسیح کے اندر خُدا موجود ہے، اور یہ ایک سمجھوتا ہے مسیح میں خُدا کا اپنے بارے میں تمام عالم کے ساتھ: ۔

کیوںکہ خُدا نے مسیح میں دُنیا کو اپنے ساتھ ملا لیا اور اُس نے اُن کی تقصیروں کو اُن کے ذِمّہ نہ لگایا اور میل کا پیغام ہمیں سونپ دِیا ہے۔ 

(2قرنتیوں 19:5)   

حیاتِ خُداوند حضرت یسوع مسیح کامل حیات ہے، خُدا میں اور اپنی موت کی راہ وہ اُٹھا لیا گیا اُس حیاتِ ابدی کے لیے جو خُداوند قدوس کے لیے خاص ہے (مُردوں میں سے زِندہ اُٹھایا جانا، جلال دینا) خُدا کی صُورت خُدا ہو کر خُداوند حضرت یسوع مسیح کائنات میں موجود ہے۔ ہم اُس کے نیاز حاصل کر سکتے ہیں، زیارت کے ساتھ ساتھ اُسے اپنی دُعاﺅں میں مخاطب کر سکتے ہیں، اور اپنی سماعتوں میں بسا سکتے ہیں اُسے۔بہ ہرحال، اِس کے بھی مخصوص طریقے ہیں جن سے وہ اپنی موجودگی کا پتا دیتا ہے (جس طرح ایک شخص بھی تو دوسرے شخص کو اپنی طرف متوجِّہ، کرنے، اپنے ہونے کی اطلاع دینے کی خاطر بعض مخصوص طور طریقوں کی مدد لیتا ہے، مثلا.... بول کر، اشارے سے، حرکات وسکنات وعمل سے، حتیٰ کہ ایک پُرمعنی سی خموشی سے)۔ پاک یوخرست یقینا ایک مہتمم بالشان اور استحقاقی طریقہ وامتیازی انداز ہے جس میں خُداوند حضرت یسوع مسیح موجود ہے اور وہ ایک ٹھوس حقیقت کے طور پر پاک روٹی اور مَے کے نظر آنے والے مُقدّس تحائف کی صُورت رابطہ کرتے ہوئے ایک گہرا قلبی وروحانی اشتراک قائم کرتا ہے.... ایمان لانے والوں کے ساتھ اور ایمان لانے والوں کے مابین۔ یہی وہ اشتراکِ عمل اور عملِ اشتراک ہے جو منبع ہے کلیسیائی شب وروز کا، معمولات کا۔ 

۴۔انعقادِ یوخرست مُقدّس کے مبارک موقع پر، جب کہ خُود خُداوند حضرت یسوع مسیح کی بھی اِس تقریب میں آمد آمد ہو چکی ہوتی ہے اور پاک روٹی اور مَے جن پر شکرگُزاری اور خُدا کی رحمت وبرکت کی مناجات ادا کی جا چکی ہوتی ہےں تب عشاے ربّانی تقسیم کی جاتی ہیں، جنھیں بالعموم اُدھر ہی کھایا پیا جاتا ہے۔ تاہم، کلیسیا کے شروع شروع کے دِنوں میں یہ بھی روایت رہی کہ اِس برکت والی، تقدیس کی گئی پاک روٹی کا کچھ حصہ سنبھال کر رکھ لیا جاتا تھا، تاکہ وہ اُن مسیحیوں میں جو کسی وجہ سے عبادت میں شرکت نہِیں کر سکے، بزُرگ، علیل، معذور (سپیشل لوگ)، اُن میں تقسیم کِیا جا سکے اور وہ بھی یوخرست مُقدّس منانے کی برکت والی تقریب میں شامل ہونے کی سعادت سے محروم نہ رہیں، چُوںکہ کیتھولک مسیحیوں کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ اِس مُقدّس عبادت میں خُداوند حضرت یسوع مسیح بہ ذاتِ خُود، بہ نفسِ نفیس موجود ہوتا ہے۔ اور اُس کی تمجید ہو رہی ہوتی ہے اور اس کی موجودگی یوخرستی عشاے ربّانی میں جاری وساری ہوتی ہے، اِسی لیے اُن پاک اجزا کی تحریم وتکریم بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے سروس کے بعد اُسے مشرف وممتاز جگہ پر یوں سمجھیے مسکنِ پاک صندوق میں محفوظ کر لیا جاتا ہے اور جلتا ہُوا چراغ اُس مقامِ پاک کی نشاندہی کے لیے وہاں رکھ دِیا جاتا ہے۔ یہ آئل لیمپ، موم بتی یا موم بتی نما لپکتے شعلوں والی کوئی الیکٹرانک ڈیوائیس بھی ہو سکتی ہے، کچھ بھی جو روشن ہو، پاک روٹی میں خُداوند کی موجودگی پر تعظیم واحترام کے اظہار کے لیے مخصوص اشارتیں اور علامت ہیں، یعنی مودب طریقے سے جھکنا، تکریم کے لیے دوزانُو ہونا۔ مگر اِس کا مطلب ہرگز یہ نہِیں کہ اِس لائقِ تحریم وتکریم روٹی کی عبادت ہو رہی ہوتی ہے۔ نہ نہ، عبادت کا مرکز تو خُود ذاتِ مسیح ہوتی ہے، خُود خُداوند، تمجید ہو اُس کی۔ 

یوخرستی عزت واحترام ظاہر کرنے والے عمل کی ایسی صُورتیں، ضروری ہے کہ پاک یوخرست کی اصل رسوم منانے کے لیے سختی سے آپس میں مربوط ہوں۔ شکرگُزاری کی عبادت کے لیے خُدا اور خُداوند کی رحمت وبرکت کے حصول کے لیے اور عبادت گُزاروں کی ایک جگہ اکٹھی کی گئی مسیحی جماعت کے مابین رفاقت وشراکت کی سعادتوں کے لیے۔ 

۵۔پاک یوخرست اور دیگر آداب ہاے لطّوریہ کے مطابق مقررہ طرزِ عبادت پوری رضا ورغبت وعقیدت سے، مختلف النوع مقامات یا کہِیں پر بھی ادا کیے جا سکتے ہیں، بڑے گرجا گھروں میں، چھوٹے گرجے میں، بڑے ہال یا کِسی بھی جگہ۔ البتہ ہر اتوار جہاں تک ہو سکے، مسیحیوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ مقامی حلقہ کے چرچ میں اکٹھے ہوں اور مِل کر یوخرست کی عبادت اور رُسُوم کسی تہوار کی آن بان شان سے منائیں۔ 


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?