German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

کلیسیا

 

۱۔مُسلمانوں کے سوالات 

٭کلیسیا اور مُسلِم اُمّہ (مِلّتِ اِسلامی) کا تقابلی جائزہ کیوںکر لیا جا سکتا ہے، موازنے میں کیا کیا اِختلافات سامنے آتے ہیں؟ 

٭مختلف مسیحی کلیسیاﺅں میں کیا کیا نمایاں اِختلافات ہیں۔ 

٭مسیحیوں میں جستجوے اِتحاد بھی ہے یا نہِیں؟ 

٭کلیسیا کا ممبر بننے کے لیے کِن شرائط کا پورا کرنا ضروری ہے؟ بپتسمہ سے کیا مُراد ہے؟ 

٭کلیسیا کا انتظام وانصرام کیوںکر اِنجام پاتا ہے؟ کیا مسجد کمیٹی کے مماثل کوئی ادارہ ہے جو اِس کی ایڈمنسٹریشن کا ذمہ دار ہے؟ 

٭پوپ کے کِردار واِختیارات کے بارے میں کیتھولک کلیسیا میں کیا قواعد وضوابط رائج ہیں، پوپ کی لاخطائیت کن معنوں میں لی جاتی ہے، سِکھانے والی کلیسیا سے کیا مُراد ہے، روم میں پاپائی حکومت کی کیا تشریح ہے؟ مُسلمان جسے معصومیت کہتے ہیں، کیا پوپ کی بے خطائی اُس سے مماثلت رَکھتی ہے، یعنی گناہوں سے پاک شریعت؟ 

۲۔مُسلِم نقطہءنظر 

سرسری جائزہ 

۱۔ہر کلمہ گو مِلت کے مقدر کا ستارہ ہے اور مِلتِ اِسلامی کا ہر فرد اللہ تعالیٰ کے ہاں یکساں مقام کا حامل ہے۔ اللہ جلّ شانہ کے سامنے سب برابر ہیں۔ اہلِ سُنّت والجماعت کے ہاں کسی دینی نظامِ مراتب کا کوئی وجود نہِیں۔ اوامرونواہی کی جانکاری کے لیے ہر مُسلمان پر فرض ہے کہ جانے اور آگے پہنچائے جو وہ جانتا ہے۔ اِس مقصد کے لیے وہ اِختیار واقتدار کے حامل کسی مخصوص ادارے کا پابند نہِیں۔ جو بھی شخص نیک ہے، متقی ہے، عالم ہے، افضل ہے۔ مُسلمان ملائیت اور خُدّام ِدِین وغیرہ کا مرہونِ مِنّت نہِیں۔ کسی بھی وسیلے اور واسطے کے بِنا ہر مُسلمان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے اعمال کا آپ جوابدہ ہے۔ براہِ راست تعلق ہے اُس کا اپنے خُدا سے۔ 

۲۔مُسلمان، شعوری طور پر تو اُن کے مذہب اِسلام میں جو فرقہ بندی، تفرقہ بازی گھُس آئی ہے اُس کو صریحاً رَد کرتے ہیں۔ اخوتِ اِسلامی کے سامنے نہ اُنھیں شیعہ سُنی تفریق نہ دُنیاے اِسلام کی خُود مختارانہ ریاستوں میں موجود تقسیم ہی کسی طور پسند ہے۔ آپس کے جھگڑوں اور ریاستوں کے ایک دوسرے سے ٹکرا جانے کی بھی اُمّہ حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ مگر یہ سب کُچھ خواب ہی رہا، عملی تعبیر سامنے نہ آئی، نیّت بہرحال وہی تھی جو پوری نہ ہو سکی۔ اگر موازنہ کِیا جائے تو مسیحیّت بھی کُچھ کم درجہ بندیوں میں تقسیم نہِیں۔ یہ فرقہ پروری، یہ گروپ بازی دونوں ادیان کا مقدر رہی ہے۔ 

۳۔تمام مُسلمان اِس حقیقت سے مِن جُملہ آگاہ ہیں کہ فرداً فرداً یہ اُن کی بُنیادی ذمہ داری ہے کہ مُقدّس قرآن کی تفسیر اور احادیثِ مُبارکہ کے صحیح متن تک رسائی حاصل کریں۔ مذہبی علماءبطور ایک ادارے کے موجود ہونا اُن کے مِزاج کا حِصہ نہِیں۔ اجماعِ اُمت کا نظام مسلمانوں میں موجود ضرور ہے لیکن اُس سے استفادہ کی ضرورت خال خال ہی پڑی ہے۔ ایسے مُسلمان بھی ہیں جو اِس طرح کے ادارے کی ضرورت محسوس کرنے لگے ہیں تاکہ مذہبی اِتفاق واتحاد پروان چڑھے اور آج کی دُنیا میں مذہب کی واضح تشریح اور اُس کی ابہام سے پاک قبولیت کو عام کِیا جا سکے۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ مُسلّم ہے کہ مذہب کے معاملات پر کسی پکڑ دھکڑ جکڑ والی اتھارٹی کا قیام کسی بھی سطح پر اُمتِ مسلمہ میں مقبولیتِ دوام حاصل نہِیں کر سکا۔ 

۴۔ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ لوگ اِس لیے مُسلمان ہیں کہ ایک تو وہ مُسلمان مُلک میں پیدا ہوئے اور دوسری بات یہ ہے کہ اِسلامی فضا میں اُن کی پرورش وپرداخت ہوئی۔ مسیحیوں کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ بھی مسیحی گھرانوں میں پیدا ہوئے اور اُسی ماحول میں پلے بڑھے۔ علاوہ ازیں یہ کہ مسیحیت میں رسمِ بپتسمہ اور اِسلام میں رسمِ ختنہ بالکل ہی مختلف فرائض ہیں۔ مماثل مذاہب میں یہ تفاوت سمجھ سے بالا تر ہے۔ بعض اوقات عرب مُسلمان ختنہ کا ترجمہ بپتسمہ کے مترادفات سے بھی کر دیتے ہیں۔ یہ بھی ہے کہ بہت سے مُسلمان اور مسیحی ہیں جو شعوری طور بڑے ہوتے ہی مذہب تبدیل کر لیتے ہیں یا پھِر نئے سِرے سے اپنے دِین کی طرف پُورے طور پر راغب ہو جاتے ہیں۔ 

تفصیلی جائزہ 

۱۔اُمّتِ مُسلمہ میں تمام کے تمام اِیمان لانے والے خواہ مرد خواہ خواتین اللہ تعالیٰ کے حضور سب برابر ہیں۔ سبھی کا ایک مقام ہے۔ حدیثِ پاک میں اسے کنگھی کے دندانوں سے تشبیہ، دی گئی ہے۔ 

اے لوگو! ہم نے تُم سب کو ایک (ہی) مرد وعورت سے پیدا کِیا ہے اور اِس لیے کہ تُم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو، کُنبے اور قبیلے بنا دیے ہیں، اللہ کے نزدیک تُم سب میں سے باعزّت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔ 

(القرآن، الحجرات: 13) 

خُدا پرستی کے لیے کسی درمیانی وسیلے کی ضرورت نہِیں، پھِر بھی بہت سے مُسلمان اولیاءاللہ کی سفارش وشفاعت پر تکیہ کیے بیٹھے ہوتے ہیں جب کہ مُسلمانوں کا تو اعتقاد ہے حضرت محمد صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم ہی ہیں جو سب کے شفیع ہوں گے خُدا کی عدالت میں۔ مگر وہاں مُسلِم مختلف قرآنی آیاتِ مبارکہ کے حوالوں سے اِس بات پر مُصِر ہیں کہ یہ شفاعت کا عمل فقط بہ روزِ قیامت ہی اُمّت کا سہارا بنے گا۔ وہ بھی تب جب اللہ تعالیٰ کی خاص اِجازت ہو گی۔ 

دِین کے بارے میں کوئی زبردستی نہِیں، ہدایت ضلالت سے روشن ہو چُکی ہے، اِس لیے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سِوا دوسرے معبودوں کا اِنکار کر کے اللہ تعالیٰ پر اِیمان لائے اُس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالیٰ سُننے والا، جاننے والا ہے۔ 

(القرآن،البقرة: 256) 

اُس روز سب کے سب (خُدائی) بُلانے والے کے کہنے پر ہو لیں گے اُس کے سامنے (کِسی کا) کوئی ٹیڑھا پن نہ رہے گا۔ اور تمام آوازیں اللہ تعالیٰ کے سامنے (مارے ہیبت کے) دب جائیں گی، سو تُو (اے مخاطب) بجز پاﺅں کی آہٹ کے اور کچھ نہ سُنے گا۔ 

(القرآن، طٰہٰ:108) 

۲۔اُمّہ مذہبِ اسلام اِختیار کرنے والی کمیونٹی کا نام ہے۔ 

(یاد رکھو) سارے مُسلمان بھائی بھائی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں میں مِلاپ کروا دیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تُم پر رحم کیا جائے۔ 

(القرآن، الحجرات: 10)  

ایک طرح سے خلیفہ وقت کے فرائض میں شامل ہُوا کرتی تھی یہ بات، اب جو مُلک کے حُکمران کی ذمہ داری کے ذیل میں آ گئی ہے کہ اخوت کے ساتھ ساتھ یکجہتی کی بھی آبیاری کریں اور اِس امر کو بھی یقینی بنائیں کہ لوگوں کے دِلوں میں قانونِ شریعت کا احترام پیدا کِیا جائے، البتہ یہ حُکمرانوں پر لازم نہِیں کہ وہ مذہب کی جامع تعریف اور دِین کی شرح بیان کرتے پھِریں، نہ ہی اِسلامی قوانین کی توضیح و توجیہ اور تصریح اُن کا کام ہے۔ 

۳۔مُسلمانوں کے عقائد کی تشریح اور وہ اپنے مذہب پر کِس طرح عمل پیرا ہوں اُس کی تلقین علماے دِینِ اِسلام پر واجب ہے، بل کہ فرض ہے۔ فقیہوں نے اِسی لیے فقہ کی تعلیم سے فیض حاصل کِیا ہوتا ہے۔ شرعی قوانین پر اُن کو عبور حاصل ہوتا ہے۔ مذہب اور اُس کے قوانین کے تحت اُمّتِ محمدی خطا ثابت ہونے سے پہلے تک معصوم و بے خطا شمار کی جاتی ہے۔ حدیثِ پاک ہے کہ ”میری اُمّت (خطا پسند) کبھی نہِیں ہو گی“ اِس اصول پر پُورا اُترنا قطعاً سہل نہِیں ماضی کے قانونی وشرعی فیصلوں کو رہنما بنا کے مُسلمانوں کے ممالک میں دارالفتاویٰ یا مفتیِ اعظم کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ قانون کی تشریح کریں جب کہ پہلے کے حسبِ ضابطہ فتووں کی نظیر بھی اُن کے سامنے ہوتی ہے۔ کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو عام مُسلمان کسی بھی عالمِ دین سے مشورہ کر سکتے ہیں، علماے اِسلام، صُوفیہ کرام، اولیاءاللہ اور مشائخ شرعی مسائل کے حل بتا سکتے ہیں کیوںکہ اُن کا دِینی فہم، استعداد اور تجربہ مُسلّم ہوتے ہیں۔ 

۴۔باجماعت نماز کی ادائی اِمام کی امامت میں ہوتی ہے۔ خطبہ بھی وہی دیتے ہیں یا پھِر خطیب۔ امام و خطیب سرکاری طور پر مقرر کیے جاتے ہیں۔ اِمام کی غیر حاضری میں کوئی بھی مُسلمان مرد یہ فرض ادا کر سکتا ہے بشرطے کہ وہ اِس کا اہل ہو۔ اِمام پادری نہِیں ہوتا، اِسلام میں رُہبانیت نہِیں۔ مسئلے مسائل، شرع، علومِ دینی و دُنیاوی، اوامر ونواہی پر جس کا جِتنا عبور ہے وہ اُتنا ہی افضل۔ اِن سب کا حتی المقدور عِلم ہر مُسلمان پر فرض ہے۔ 

۵۔اِسلام میں کئی تحاریک بھی پھُوٹتی رہتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط فرقوں میں بھی ڈھل جاتی ہیں اور ہر فرقہ اپنے آپ کو راسخ العقیدہ سمجھتا ہے، دیگر فرقوں اور جماعتوں، گروہوں سے بڑھ کر۔ اِسلام آفاقی دِین ہے، زندہ و پایندہ۔ ایسی تحریکوں کا اِس میں جنم لینا کوئی بہت اچنبے کی بات ہرگز نہِیں۔ دِین کی تشریح سب کی الگ الگ ہے، استفادہ سبھی قرآن سے کرتے ہیں چاہے سُنی مُسلمان ہوں یا شیعہ مومنین یا کسی بھی دیگر فرقہ کے علمبردار۔ 

۶۔مُسلمانوں کو مسیحیت میں بھی ایسی تقسیم، تقسیم در تقسیم کی صورت نظر آتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اُن کی ذات، صِفات اور مقام کو مختلف اقسام کی کلیسیاﺅں میں مختلف انداز سے متصف کِیا جاتا ہے۔ جب قرآن پاک میں حضرت عیسیٰ مسیح کا یا اُن کی اُمّت کا ذِکر آتا ہے تو اُن کے ماننے والوں کے انتشار، خلفشار اور نفاق پر مبنی ہوتا ہے۔ 

پھِر یہ فرقے آپس میں اِختلاف کرنے لگے، پس کافروں کے لیے ”وَیل“ ہے ایک بڑے (سخت) دِن کی حاضری سے۔

(القرآن،مریم:37) 

یہود کہتے ہیں کہ نصرانی حق پر نہِیں اور نصرانی کہتے ہیں کہ یہودی حق پر نہِیں، حال آںکہ یہ سب لوگ توریت پڑھتے ہیں، اسی طرح اُن ہی جیسی بات بے علم بھی کہتے ہیں۔ قیامت کے دِن اللہ اُن کے اِس اختلاف کا فیصلہ اُن کے درمیان کر دے گا۔ 

(القرآن،البقرة: 113)  

اور آپ اگرچہ اہلِ کتاب کو تمام دلیلیں دے دیں لیکن وہ آپ کے قِبلے کی پیروی نہِیں کریں گے۔ اور نہ آپ اُن کے قبلے کو ماننے والے ہیں اور نہ یہ آپس میں ایک دوسرے کے قِبلے کو ماننے والے ہیں اور اگر آپ باوجودے کہ آپ کے پاس عِلم آ چُکا پھِر بھی اُن کی خواہشوں کے پیچھے لگ جائیں گے تو بالیقین آپ بھی ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔ 

(القرآن،البقرة: 145) 

اور جو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں، ہم نے اُن سے بھی عہد وپیمان لیا، اُنھوں نے بھی اُس کا بڑا حصہ فراموش کر دیا جو اُنھیں نصیحت کی گئی تھی، تو ہم نے بھی اُن کے آپس میں بُغض وعداوت ڈال دی جو تاقیامت رہے گی اور جو کُچھ یہ کرتے تھے عنقریب اللہ تعالیٰ اُنھیں سب بتا دے گا۔ 

(القرآن،المائدہ: 14) 

یورپ میں رہنے بسنے والے مُسلمانوں کے مُشاہدہ میں ہے کہ مسیحی دُنیا بالخصوص کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ میں بٹی ہوئی ہے۔ 

۴۔مسیحی نقطہءنظر

۱۔کیتھولک / پروٹیسٹنٹ 

(الف)مسیحیت میں کلیسا کو ایک کثیر السطحی نِظام کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ بُنیادی طور پر ان لوگوں کا مذہب ہے جِن کا اِیمان ہے کہ حضرت یسوع مسیح خُدا کا بیٹا ہے، نِجات دہندہ ہے اور بپتسمہ میں وہ اِنھی باتوں کا اِیجاب وقبول کرتے ہیں، بپتسمہ لینے والی یہ وسیع برادری مختلف مسیحی کلیساﺅں میں منقسم ہے۔ 

(ب)مسیحی ہونے کے لیے پیدایشی طور پر مسیحی ہونے والا عُنصُر کام نہِیں کرتا، عقیدے اور بپتسمہ کے ذریعے مسیحیت قبول کی جاتی ہے۔ جو بپتسمہ یافتہ ہو گیا اُس کا رشتہ حضرت یسوع مسیح کے اُٹھائے جانے اور مُردوں میں سے زِندہ ہونے سے جُڑ گیا۔ 

کیا تُم نہِیں جانتے کہ ہم میں سے جتنوں نے حضرت یسوع مسیح میں اصطباغ پایا تو موت میں اصطباغ پایا۔ ہم موت میں اصطباغ پا کر اُس کے ساتھ دفن ہوئے تاکہ جیسے یسوع مسیح باپ کے جلال کے وسیلے سے مُردوں میں سے زِندہ کِیا گیا ویسے ہی ہم بھی نئی زِندگی میں قدم ماریں۔ کیوںکہ جب ہم اُس کی موت کی مُشابہت سے اُس کے ساتھ پیوستہ ہو گئے تو اُس کی قیامت کی مُشابہت سے بھی اُس کے ساتھ پیوستہ ہوں گے۔ چناںچہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری پُرانی اِنسانیت اُس کے ساتھ اِس لیے مصلوب ہوئی کہ گناہ کا بدن نیست ہو جائے تاکہ ہم آگے کو گناہ کے غلام نہ رہیں، کیوںکہ جو مر گیا ہے وہ گناہ سے بری کِیا گیا ہے۔ پس اگر ہم مسیح کے ساتھ مر گئے تو ہمیں یقین ہے کہ ہم مسیح کے ساتھ زِندہ بھی رہیں گے۔ یہ جانتے ہوئے کہ مسیح مُردوں میں سے زِندہ کِیا جا کر پھِر مرنے کا نہِیں اور نہ پھِر موت کے زیرِ اِختیار ہی ہونے کا ہے، کیوںکہ اُس کا مرنا قطعی گناہ کی نسبت مرنا تھا۔ مگر اُس کا جینا خُدا کی نسبت جینا ہے۔ اِسی طرح تم بھی اپنے آپ کو گناہ کی نسبت مُردہ مگر خُدا کی نسبت حضرت یسوع مسیح میں زِندہ سمجھو۔ 

(رومیوں کے نام 11-3:6)  

اور یوں بنا جاتا ہے کلیسیا کارکن ۔ 

(ج)عہدِ عتیق و جدید کے کلامِ مُقدّس کے تتبُّع میں کلیسا کی یہی جِدّوجُہدرہی کہ خُدا کے کلمہ پر یقینِ محکم رہے اور ہر نئے زمانہ کے عین مُطابق اِس کا ادراک واِبلاغ عام کِیا جائے۔ روح القدس کہ جِس کا وعدہ حضرت یسوع مسیح نے اپنے پیروکار شاگردانِ رشید سے کِیا تھا وہ آج بھی متحرک ہے۔ تسلسل اور تازگی کے ساتھ کہ خُدا کے مُقدّس کلام کی آسان تفہیم جاری رہے جسے فروغ دینے کی سرگرمی کلیسیا میں ہمیشہ جاری وساری رہتی ہے۔ 

مخصوص پروٹیسٹنٹ عقائد 

کلیسیا کی بنیادیں وہاں مضبوط ہوتی ہیں جہاں کلامِ خُدا کا بول بالا ہو اور بپتسمہ اور مُقدّس عشاے ربّانی کے شعائر کا انجیلِ مُقدّس کے عین مطابق اِنتظام ہوتا ہو۔ مقامی عبادت گزاروں کے اجتماع سے کلیسیا بڑھتی پھولتی ہے۔ اِس کی ہیئت ِترکیبی کلیسیائی نمایندوں کی کلیسیائی امور کے لیے مشاورتی اِکٹھ کی ذیلی تنظیم ترتیب دیتی ہے: اِس کے کرتا دھرتا، خُدّامِ دین ہوں یا اسقفین یعنی بشپ صاحبان، جو بھی ہوں وہ جوابدہ ہوتے ہیں، کلیسا کی اِس ذیلی تنظیم کے بورڈ کے سامنے، اور وہ بورڈ مرکب ہوتا ہے مذہبی خدمت کے لیے مخصوص شخصیات اور کلیسیائی عوام کا۔ کلیسیا کے رہنما مرد ہوں یا خواتین، شادی شدہ ہوں یا کنوارے اُنھیں انتظام وانصرام کے جُملہ اِختیارات حاصل ہوتے ہیں اور عام راہباﺅں اور راہبوں کے درمیان عبادت وخدمتِ دین اُن کے فرائض کا حصّہ ہوتا ہے جسے مسیحی بہن بھائیوں نے سرانجام دینا ہوتا ہے۔ 

کیتھولک مسیحیوں کے مخصوص عقائد 

اوّلین ونمایاں ترین نقطہ یہ ہے کہ کلیسیا خُدا کی اُمّت، خُدا کے بندوں سے عبارت ہوتی ہے اور وہاں اپنے بپتسمہ کی بدولت تمام لوگ اپنی حیثیت و قدر کے لحاظ سے برابر قرار پاتے ہیں۔ کلیسیائی اُصُولوں کے مطابق جِن لوگوں کو دِین کی خِدمت کے لیے مامور کِیا جاتا ہے وہ مسیحی برادری کی دِینی خدمت اپنا مقصدِ حیات بنا لیتے ہیں۔ کلیسیا کے بارے میں جو آئین طے ہے دوسری ویٹی کن کونسل میں دیدہ دانستہ کلیسیائی حکومت کی رعایا کے حوالے سے کھُل کر بات کی گئی۔ کلیسا بزعمِ خُود کلیسیائی حکومت ہرگز نہِیں، وہ تو مسیحی کمیونٹی کا نمایندہ ہے۔ یعنی اس کی کلیسیائی حکومت اگر ہے بھی تو وہ مسیحی برادری کی خدمت اپنا نصب العین سمجھتی ہے۔ 

غلطی سے پاک ہونے اور پوپ کے یوں قابلِ اعتماد ہونے کی بے خطائی والا جو فلسفہ ہے اُسے اگر بخوبی سمجھنے کی آرزو ہو تو سب سے پہلے اِس بات کو پلّے باندھ لینا ہو گا کہ یہ خُدا کا ہی حُکم وکلام ہے کہ حضرت یسوع کی ذات سے جِس کا ابلاغ ہُوا، اصل لاخطائیت اُسی کی ہے۔ اِیمان کی حد تک جو بھروسے کے لائق ہے اور جو غلطیوں سے پاک ہے وہ ہستی حضرت یسوع مسیح کی ہے جو منادی کرتا ہے اور خُداوند کی سچائی کی گواہی دیتا ہے

تب پیلاطُس نے اُس سے کہا، کیا تُو بادشاہ ہے! حضرت یسوع نے جواب دیا، تو خُود کہتا ہے کہ مَیں بادشاہ ہُوں۔ مَیں اِس لیے پیدا ہُوا اور اِس واسطے دُنیا میں آیا ہُوں کہ حق کی گواہی دُوں۔ 

(مُقدّس یوحنّا 37:18)   

یہ صداقت کلیسیا پر نازل کیے گئے روح القدس کی بدولت ہے اور کلیسیا نے اسے اِیمان کا حصہ قرار دیا پوری وفاداری، اطاعت وایمانداری کے ساتھ.... روح القدس، حضرت یسوع مسیح کے شاگردوں کی مکمل اور اصل آفاقی سچائی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ 

لیکن جب وہ یعنی روح الحق آئے گا تو وہ ساری سچائی کے لیے تمھاری ہدایت کرے گا کیوںکہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا۔ لیکن جو کُچھ سُنے گا وہی کہے گا اور تمھیں آیندہ کی خبر دے گا۔ 

(مُقدّس یوحنّا 13:16)  

کلیسیا کے عقیدہ میں، جو روح سے اُترا یعنی نازل ہُوا، پہنچا، وہ ربّانی سچ کا تیقن تھا۔ وہ صداقت جِس میں کوئی شک شُبہ نہ ہو۔ دوسری ویٹی کن کونسل میں اِس کی یوں تشریح کی گئی کہ ایمان لانے والے کا مکمل جسم، کیوںکہ پاک خُداوند نے ممسوح کِیا ہے: ۔

مگر تم نے اُس قُدّوس سے مسح پایا اور سب واقف ہو۔ 

(20:2 یوحنّا-1)

لیکن وہ مسح جو تُم نے اُس سے پایا ہے تم میں قائم رہتا ہے اور تم اِس کے محتاج نہِیں کہ کوئی تمھیں سِکھائے۔ بل کہ جیسے اُس کا مسح تمھیں سب باتیں سِکھاتا ہے ویسے ہی وہ سچ ہے اور جھوٹ نہِیں اور جیسے اُس نے تمھیں سِکھایا ویسے ہی تم اُس میں قائم رہو۔ 

(27:2 یوحنّا-1)

اِس لیے اِیمان کے معاملے میں بھٹکنا ناممکن ہے۔ خطاﺅں سے آدمی بس یونہی مُبرّا نہِیں ہو جاتا، مسیحی پیروکار لوگوں کے لیے اِیمان کی رُو سے مذہبی اور اِخلاقی طور پر ایک عالمگیر معاہدہ کرنا ضروری ہے تب بے خطائی کے ذیل میں اُن کا شمار ہوتا ہے۔ عقیدہ کے لحاظ سے یہ بریّت جِس کا تعلق کلیسیا سے وابستہ ہے اُس کی ٹھوس حیثیت اُس وقت اُبھر کے سامنے آتی ہے جب اُس میں بشپ صاحبان کی رفاقت شامل ہوتی ہے اور بشپ صاحبان رسولوں کے جانشین ہوتے ہیں (مزید برآں یہ کہ عالمگیر کلیسائی مجلس بھی معاشرے کی تعمیرِ نو کے لیے بین الکلیسائی روابط اور اِتحاد پر زور دیتی ہے، مثلاً ورلڈ کونسل آف چرچز) اور اُن خُدّامِ دین کے ہاں بھی جو پطرس رسول کے خواص میں شمار ہونے کے دعویدار ہیں اور اُس کے جانشین ہیں اُن کے فرائض میں بھی شامل ہے کہ کلیساﺅں کے اتحاد کے لیے کام کریں، پاپائی منصب کے تحت رہ کر۔ یہ خطا ناپذیری کی عطا عزت مآب پوپ کو نصیب تو ہے مگر اُن کی ذاتی حیثیت کو ملحوظِ خاطر رَکھتے ہوئے ہرگز نہِیں، نہ ہی اُن کے تمام کے تمام عقیدہ کے بَل پر دیے گئے مذہبی فلسفہ کے بیانات کو عام مُعافی حاصل ہے۔ عقیدہ پر اُن کے دوٹوک فیصلوں اور تعلیمات کو البتہ بے خطائی سے نوازا گیا ہے جو اُن کی تعلیمات پر مبنی فرمودات واعلانات کے ذیل میں آتے ہیں۔ مثلاً جب وہ اپنے عہدہ کے لحاظ سے اعلیٰ ترین مقام کے حامل چرواہے کے طور پر اور تمام سچّے پیروکاروں کے اُستاد ورہنما کے طور پراپنے ارشاداتِ عالی سے نوازیں اور اپنے معتبر عمل سے عقیدے یا اِخلاقیات کی کوئی گُتھی سُلجھا رہے ہوں۔ چناںچہ عزت مآب پوپ یا اُن کے عالی مقام بشپ صاحبان کی جماعت اپنی من مانی کرتے ہوئے بعض تعلیمات کو بے خطائی کا سرٹیفکیٹ نہِیں دے سکتے، بل کہ اُن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اُن عقائد اور اُصُولوں کی پابندی کریں جِن کی کلیسیا اُن سے توقع رکھتی ہے، اور جِن کی خُود کلیسا پابند ہے اور اُن کی تبلیغ وترویج کا ذمہ دار بھی۔ پس، عقیدے اور اِیمان سے متعلق جو بھی فیصلہ ہو وہ تابع ہو، مطابق ہو اور ثابت ہو مسیحیت کے صحائفِ مُقدّسہ سے۔ یہی کلیسا کی روایت رہی ہے اور یہی ہے جو آج بھی مسیحیوں کے مُشاہدہ اور تجربہ میں ہے۔ 

عام مسیحی برادری کے لیے بھی ازبس ضروری ہے کہ مستند طریقے سے مسیحی اِیمان اپنانے کے بارے میں جو اعلان کِیا جائے توجُّہ سے سُنے۔ یہ قبولِ عام کے لیے اعلانِ دِین یقینی طور اُن مقرر کیے گئے مسیحیت کے خدمت گاروں کے ذمہ ہے جِن کا تعلق کلیسیا سے ہے۔ اِن رسولوں کا مِشن اور اُس مِشن کی تکمیل اُن کا اوڑھنا بچھونا ہے اور خاص طور پر اُن کا جو مُقدّس پطرس کے مکتبہ فِکر سے منسلک ہیں اور رسول پطرس ہی تھے جنھیں حضرت یسوع مسیح نے اِس مِشن کی آبیاری سونپی تھی: ۔

اور مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں کہ تُو کیفا ہے اور مَیں اِس کیفا پر اپنا کلیسا بناﺅں گا اور عالمِ اَسفَل کے دروازے اُس پر غالب نہ آئیں گے۔ 

(مُقدّس متّی 18:16) 

لیکن مَیں نے تیرے لیے دُعا کی کہ تیرا اِیمان جاتا نہ رہے اور جب تُو رُجُوع کرے تو اپنے بھائیوں کو مضبوط کرنا۔ 

(مُقدّس یوحنّا 32:22)   

اور جب وہ ناشتا کر چکے تو حضرت یسوع نے شمعون پطرس سے کہا کہ اے شمعون بریونا! کیا تُو اِن سے زیادہ مجھے پیار کرتا ہے۔ اُس نے اُس سے کہا کہ ہاں اے خُداوند تُو تو جانتا ہی ہے کہ مَیں تجھے پیار کرتا ہُوں۔ اُس نے اُس سے کہا کہ تُو میرے برّے چَرا۔ 

(مُقدّس یوحنّا 15:21) 

اُس نے سہ بارہ اُس سے کہا کہ اے شمعون بریوناکیا تُو مجھے پیار کرتا ہے؟ تب پطرس دلگیر ہُوا۔ اِس لیے کہ اُس نے تیسری بار اُس سے کہا کہ کیا تُو مجھے پیار کرتا ہے؟ اور اُس نے کہا کہ اے خُداوند تُو تو سب کُچھ جانتا ہے۔ تجھے معلوم ہی ہے کہ مَیں تجھے پیار کرتا ہُوں۔ حضرت یسوع نے اُس سے کہا، تُو میری بھیڑیں چَرا۔ 

(مُقدّس یوحنّا 17:21) 

یہی سمجھا جاتا ہے کہ عالمگیر کلیسا (اور یہی کیتھولک کلیسا کی بھی مراد ہے کہ) برابری کے مقام ومنصب کے ساتھ تمام مقامی کلیساﺅں کی شرکت سے ایک لڑی ہے جِس میں سب پروئے ہوتے ہیں۔ مقامی کلیساﺅں کا باہمی اِتحاد بشپ کی سربراہی میں ڈائیوسس پر اُستوار ہوتا ہے۔ ڈائیوسیز پیرشوں میں منقسم ہوتی ہیں، جِن کی اِمامت بشپ نے پیرش کے کاہنوں کے سپرد کر دی ہوتی ہے۔ جو مقامی کلیسا ہیں اُن کی ذمہ داری بشپ کا منصب ہے جو کاہنوں کی ڈیوٹیاں لگاتا ہے وہ اُس کے معاون کارکن بن کرروانہ ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ عبادت کے لیے حضرت یسوع پر اِیمان لانے والوں کو ایک جماعت کی طرح متحد کرتے ہیں۔ یہ کاہن مسیحی پیشوا کے ذمہ لگایا گیا کام ہے جِس میں دوسرے کارپردازانِ کلیسا کی بھی اُسے معاونت حاصل ہوتی ہے تاکہ حضرت یسوع کے نام پر مسیحیوں کو اِکٹھا کِیا جا سکے اور یہ کاہن عشاے ربّانی یعنی پاک یوخرست کی مُقدّس رُسُوم میں اپنی شرکت ورہنمائی یقینی بناتے ہیں۔ دیگر مُقدّس رسوم بھی وہ مسیحیوں کے ساتھ مناتے ہیں اور دینی تعلیم وچوپانی پاسبانی کے فرائض بھی نِبھاتے ہیں۔ ڈائیوسیز کی کُل تعداد مقامی پیرش کی کلیسیائیں مِل کر ایک عالمگیر کلیسا میں ڈھل جاتے ہیں جِس کی رہنمائی اور اس اتحاد واتفاق کی ذمہ داری فضیلت مآب بشپ آف روم کی ہوتی ہے جو پاپاے اعظم پوپ کہلاتا ہے اور وہ مُقدّس پطرس کا جانشین ہوتا ہے اور دُنیا بھر کے بشپ اُس کے جلو میں ہوتے ہیں۔ 

مشرقی کلیسیاﺅں میں تعینات رہنما (لیڈرز) چاہے پاپاے روم کے ذیل میں کام کریں یا اُن سے آزاد ہو کر، یونانی ہوں یا دوسرے باطریق (اسلاف) ہی کہلاتے ہیں۔ 

۲۔کلیسیائیں اور اِتحادِ کلیسیا 

آغازِ کار سے ہی کلیسیا کو تفرقہ بازی اور بدعتوں کے کرب جھیلنے پڑے ہیں۔ الٰہیاتی معاملات کے ساتھ ساتھ سیاسی عوامل اور اِخلاقی عناصر نے کلیسا کی کارکردگی پر اَنمِٹ نُقُوش چھوڑے ہیں۔ آج کے زمانہ میں دیکھا جائے تو ہمیں عالمِ مسیحیت کی تین بڑی شاخیں نظر آتی ہیں جو ساری دُنیا میں پھیلی ہیں۔ وہ تین شاخیں ہیں کیتھولک مسیحیت، تحریکِ اصلاحِ کلیسا کے نظریات پر مبنی پروٹیسٹنٹ تحریک اور ابتدائی کلیسا کے مروجہ عقائد پر چلنے والے آرتھوڈاکس۔ اُنھوں نے صدیاںگزار دیں ایک دوسرے کی مخالفت میں، تینوں ہی آپس میں اُلجھ پڑتے تھے اور بسا اوقات ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار بھی اُٹھا لیتے رہے۔ تبلیغی حلقوں میں بھی ایک دوسرے کو نیچا دِکھانے سے باز نہ آئے، کیوںکہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا مقابلہ جو تھا، جسے شاذونادر ہی صداقتوں اور اِیمانداری کے معیار پر لڑا گیا، بس دشمنی برائے دشمنی چلتی رہی۔ خُداوند حضرت یسوع مسیح کا تو یہ پیغام تھا ہی نہِیں، اُن کا رویّہ تو اُس کی اُن دعاﺅں اور عبادتوں کی ضِد تھا جِن میں امن واِتحاد کی آرزو کی گئی تھی۔ 

مَیں تو آگے کو دُنیا میں نہ ہُوں گا۔ مگر یہ دُنیا میں ہیں اور مَیں تیرے پاس آتا ہُوں۔ 

اے قدّوس باپ! اپنے اُس نام کے وسیلے سے جو تُو نے مُجھے بخشا ہے اِن کی حفاظت کر، تاکہ یہ ہمارے مانند ایک ہوں۔

  (مُقدّس یوحنّا 11:17)

مَیں صِرف اُنھی کے لیے نہِیں بل کہ اُن کے لیے بھی عرض کرتا ہُوں جو اِن کے کلام کے وسیلے سے مُجھ پر اِیمان لائیں گے۔ تاکہ وہ سب ایک ہوں، جِس طرح کہ تُو اے باپ مُجھ میں ہے اور مَیں تُجھ میں ہُوں۔ وہ بھی ہم میں ایک ہوں تاکہ دُنیا اِیمان لائے کہ تُو نے مُجھے بھیجا ہے اور وہ جلال جو تُو نے مُجھے دیا ہے مَیں نے اُنھیں دیا ہے تاکہ وہ ایک ہوں جِس طرح کہ ہم ایک ہیں۔ 

(22-20:17مُقدّس یوحنّا)

بیسویں صدی عیسوی کی شروع کی دہائیوں میں پروٹیسٹنٹ کلیساﺅں میں کلیسائی اِتحاد کے لیے چلائی جانے والی مہم جِس کا مقصد بین الاقوامی مسیحی اِتحاد کا حصول اور مختلف فرقوں کے درمیان بین الاقوامی رابطہ تھا اور یہ مہم تحریکِ اقومانی کہلائی اِسے بڑی کامیابی مِلی، 1948ع میں ورلڈ کونسل آف چرچز کا قیام ظہور پذیر ہُوا۔ ڈبلیو سی سی سے پروٹیسٹنٹ چرچز، کلیساے انگلستان اور راسخ العقیدہ کلیساﺅں کا الحاق ہے۔ کیتھولک مسیحی چرچ جو دُنیا بھر کے آدھے سے زیادہ مسیحیوں کو اپنے اراکین میں شمار کرتا ہے اور تعداد کے لحاظ سے مسیحیوں کی مضبوط ترین کلیسیا ہے بوجوہ ویٹی کن کونسل دوم کے بعد بھی ورلڈ کونسل آف چرچز میں شامل نہِیں ہو پایا۔ جب کہ ڈبلیو سی سی کے اکثر اہم منصوبوں کے لیے اُس کی آشیرباد تو ہے ہی، بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ عملی طور پر اُن میں بڑھ چڑھ کے حصہ بھی لیتا ہے، اور اِس کے دیگر کلیسیائی ممبر جو ہیں اُن کے ساتھ کیتھولک مسیحی چرچ کے بعض بہت اہم معاہدے بھی طے پا چکے ہیں جیسے اقدس یوخرست پر، کلیسائی امور کی انجام دہی پر مامور جماعت اور کار پردازانِ کلیسیا اور تقدُّس مآب پوپ کے حقوق وفرائض پر مسیحی اِتحاد کے لیے تمام دروازے ہمہ وقت کھُلے ہیں۔ نصب العین وہی ہے کہ تمام مسیحی مِل کر خُداوند حضرت یسوع مسیح میں ایک دوسرے کو مسیحی بہن بھائی شمار کریں، ایک دوسرے کی بات تحمل اور برداشت سے سُنیں، ایک دوسرے پر جائز توجُّہ دیں اور جب بھی کہِیں بھی موقع نصیب ہو مِل کر دینی خِدمت اِنجام دیں۔ 

۴۔مسیحی نقطہءنظر 

۱۔کلیسا اور اُمّہ بھی ماننے والوں، اِیمان لانے والوں کی ہی جماعتیں ہیں۔ دونوںہی زِندگی کے سماجی اور دُنیاوی پہلوﺅں کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔ عصرِ حاضر میں ملّتِ اِسلامی اپنا فرض سمجھتے ہوئے کوشاں ہے کہ معرفتِ رضاے الٰہی کے لیے وہ اپنے نبی کے ذریعے پہنچائے گئے خُدا کے پیغام، احکامات اور سُنّت کی ترویج اور تبلیغِ دِین کو آگے بڑھائے اور آنے والی نسلوں تک پہنچائے۔ خُداوند حضرت یسوع مسیح اور اُس کی بادشاہی کی نمایاں طور نمایندگی کرتے ہوئے مسیحی کلیسیا روحانی اِتحاد ویکجہتی کے وصف کے ساتھ اُس وسعت پذیر اُمّہ کے متقابل ہے۔ کلیسیائی حکومت اور تعلیمی مناصب کیتھولک چرچ کو بھرپور انداز میں سب پر مُمَیّز رَکھتے ہیں، جب کہ پروٹیسٹنٹ کلیسیاﺅں میں کلیسیائی مشاورتی مجلس کے اصولوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، حتیٰ کہ وہاں بھی جہاں لیڈر شپ کے مسیحی ڈھانچے کو پوری طرح ترقی اور عروج مِل چُکا ہو۔ دونوں کے اہم خواص آپس میں متناقص نہِیں ہیں۔ 

۲۔پاپائیت اور خلافت: ریاست کے مقتدرِ اعلیٰ کے طور پر خلیفہ دراصل ایک دُنیاوی حکمران ہی ہوتا تھا مقابلةً آج کے زمانہ میں پوپ کا اِختیار واقتدار محض روحانی انداز کا متقاضی ہے اور روحانی اقدار پر مبنی ہے۔ پوپ اور سرکردہ لوگوں کی مجلس (کیوریاCuria) کی سیاسی آزادی کے لیے دورِ حاضر کی ننھی سی ریاست ویٹی کن ذمہ دار، نگران اور محافظ ہے۔ پاپاے اعظم کے سفیرِ کبیر اور اُن کے ایلچی کسی دُنیاوی حُکمران کے پیغامبر نہِیں ہوتے بل کہ وہ فقط ایک روحانی رہنما کے ذاتی نمایندے ہوتے ہیں۔ 

۳۔کیتھولک کلیسا، اُمّتِمحمدی اور لاخطائیت: اساسی طور پر مُسلِم اُمّہاور کیتھولک چرچ دونوں میں ہی خطا ناپذیری کا اصول موجود ہے اور دونوں ہی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اصول صِرف مومنوں پر لاگوہوتا ہے۔ مومنوں پر بھی لاگو ہونے کی کیا کیا شرائط ہیں اس پر البتہ مسیحیوں اور مسلمانوں دونوں میں اختلافات موجود ہیں۔ کیتھولکس تک مسیحیوں کے ہاں اشد ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ دِینی تعلیم کا ادارہ موجود ہو جسے روح القدس کی رہنمائی میسّر ہو تاکہ ناگزیر ترقی وارتقاءکے فروغ کے ساتھ نسل درنسل یہ طے رہے کہ کلیسا کی طاقت انجیلِ مُقدّس کے ساتھ ہمیشہ اپنی اطاعت ووفاداری نبھاتی رہے۔ 

۴۔کیتھولک فادر اور پروٹیسٹنٹ پادری: مسلمانوں کے ہاں اِمام کی طرح، وہ بھی بطور تمجید، عبادات، تبلیغ وتعلیم میں راہ نُمائی کر رہے ہوتے ہیں۔ اُن کی زیرِنگرانی، ہدایت ورہنمائی کے اُمُور احسن طور اور بہآسانی اِنجام پاتے ہیں۔ کیتھولک فادر اور پروٹیسٹنٹ منسٹر کو دینِ مسیحی کی خِدمت کے لیے خصوصی طور پر مامور کِیا جاتا ہے جب کہ اِس کے برعکس مُسلِم امام مسجد کو جماعت یا کمیٹی امامت کے فرائض کے لیے منتخب کرتی ہے یا مساجد کی تنظیمیں کِسی کو مِلّتِ اِسلامی کے اجتماع کے لیے خطیب و امام چُن لیتی ہیں۔ اِمامتِ صلوٰة کے فرائض سنبھالنے کے لیے اور دعوتِ دِین کی پیشہ وارانہ تربیت کے حصول کی شرط نہِیں ہوتی۔ 

۵۔بپتسمہ، دِین کی قبولیت اور سُنتیں/ مسلمانیاں: مُسلِم والدین کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ مُسلمان ہوتا ہے (پیدایشی مُسلمان)، یا پھِر کلمہءشہادت پڑھا کر مُسلمان کر لیا جاتا ہے۔ یعنی اِسلام پر اِیمان لانے والے نے گواہی دے دی کہ معبود بس اللہ ہے، اکیلا ہے اور اُس کا کوئی شریک نہِیں اور محمد اُس کے بندے اور رسول ہیں۔ یہ قبولِ اِسلام گواہوں کے سامنے ہوتا ہے۔ 

بپتسمہ کے ذریعے بندہ مسیحیت میں داخل ہو کر مسیحی کلیسا کا ممبر بن جاتا ہے۔ یہ مذہب کا قبول کرنا اِیمان لانا ہوتا ہے، خُداوند حضرت یسوع مسیح پر جو خُدا کا بیٹا ہے۔ 

سُنتیں کروانے کے عمل کا قرآن شریف میں کوئی ذِکر نہِیں، یہ بس سُنّتِ رسول ہے (احادیث میں اِس کی روایت موجود ہے)۔ بعض مجتہدین نے اِسے ضروری قرار دیا ہے اور بعض نے اِسے نبی کا پسندیدہ فعل قرار دیا ہے۔ ختنے لڑکوں کے ہی ہوتے ہیں، بعض لوگ اِسے بچیوں کے لیے بھی مُناسب سمجھتے ہیں لیکن مُسلمانوں کی اکثریت نے اِسے بدعت سے محمول کرتے ہوئے اِس کی نفی ہی کی ہے۔ 

۶۔اِتحادِ کلیسا اور اِتحاد بین المسلمین: کلیسا اور مُسلِم اُمّہ فرقہ بندی اور رقابتوں کے تجربہ سے گذر چکے ہیں اور اکثر یہ جھگڑے خون ریزی تک بھی نوبت لے آئے ہیں۔ اِنسانی فطرت، خطا کاریوں اور گناہوں سے اِنکار بھی نہِیں اور اِفتخار کی بھی کوئی وجہ نہِیں بنتی۔ کلیسا کے حساب سے تو اِس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ مثال کے طور پر کیتھولک کلیسا کی طرف سے ان وجوہات اور ذرائع کا کھلا اقرار جن کی وجہ سے یہ تفریق عام ہوئی جیسے مشرقی کلیساﺅں میں کہ جو قسطنطنیہ کے اسقفِ اعظم کی پیروکار تھیں جِن میں مشرقی یورپ، مغربی ایشیا اور مِصر کی کلیسیائیں شامل تھیں اور جو مِصر، انطاکیہ، یروشلم اور الیگزینڈریہ کے بشپ کے ماتحت تھیں۔ یہ کلیسیائیں پاپاے اعظم اور بشپ آف روم کے ماتحت نہ تھیں (اب اُنھیں آرتھوڈاکس مشرقی کلیسیائیں کہا جاتا ہے)۔ سولھویں صدی عیسوی میں کلیسیا میں جو تقسیمیں عمل پذیر ہوئیں اُن کے لیے بھی کیتھولک مسیحی کلیسیا پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ بعینہ پروٹیسٹنٹ کلیسیائیں بھی اندرونی تنازعات کا اِقبال کر چُکی ہیں۔ یوں ہمیں موقع مِلتا ہے کہ اس امر کی وضاحت کی جا سکے کہ کیتھولک عقائد کے مطابق مسیحی کلیسیا الٰہیاتی یعنی ربّانی بھی ہے اور اِنسانی بھی۔ اِس کا خمیر مائل بہ خطا بھی ہے اور کیتھولکس اور پروٹیسٹنٹس کے حساب سے کلیسیا مُقدّس بھی ہے اور یہ بھی کہ عاصیوں سے بھی مرکب ہے۔ یہ تسلیم کرنا کہ کلیسیا میں اصلاح کا عمل برابر جاری رہتا ہے اِس امر کی دلالت ہے کہ مخالفت اور مطابقت کے بیچوں بیچ وہ دریچے کھُلے رَکھنے پڑتے ہیں جِن کے ذریعے تازہ ہَوَا کے جھونکے کلیسیا کے بند ایوانوں میں گذر جاری رکھیں، مگر اِس کا مطلب یہ بھی نہِیں کہ کسی کو بھی گمان گذرے جیسے یہ تو ایسا فعل ہے کہ اِس سے تقسیم در تقسیم کے مواقع کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔ نہِیں، ایسا ہرگز نہِیں بل کہ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے مُسلمان اِسلام کے بہُت سے فرقوں میں بٹ جانے کے باوجود دینی طور پر بھی بھائی بھائی ہیں۔ اِسی طرح مسیحیوں کو بھی بیدار ہونا چاہیے کہ اپنے اپنے عقائد کی سرحدوں سے پرے پاک خُداوند حضرت یسوع مسیح میں ہم سب ایک ہیں، ترجمہ وتفسیرِ بائبل مقدّس کے لیے جب بھی ضرورت پڑے ہم سب پورے اِتحاد واتفاق کے ساتھ آ موجود ہوں۔ غور وفکر اور تحقیق میں تعاون کے لیے، دینِ مسیحی کی اپنی اپنی بساط کے مطابق خدمت کے لیے، تاکہ روحانی ارتقا کی منزلیں طے کی جا سکیں اور ہم سب سماجی، فلاحی اور غریب پروری کے کاموں کی تصدیق کرنے والے ہوں۔ 

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?