German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

اجل (موت)، حساب کتاب، انصاف (قیامت) اور ابدی زندگی

 

I۔مسلم نقطہء نظر

موت

مسلمان موت کے تصوُّر کو ہرگِز اپنی زندگیوں سے اِخفا میں نہیں رکھ سکتے۔ انھیں تو سبق ہی یہی دیا گیا ہے کہ وُہ زندہ ہی موت کے ساتھ رہیں۔ اُن کے نزدیک زندگی اور موت کا تو ہے ہی چولی دامن کا ساتھ۔ مومن موت کو ہر لحظہ یاد رکھتا ہے۔مسلمانوں کو اسلام نے آگہی یہی دی ہے کہ جیون بھُگتانا ہے تو موت کو سینے سے لگائے رکھو۔ ہر دن، ہر آن، ہر لمحہ کی وہ تمھاری رفیق ہے:

''تم جہاں کہِیں بھی ہو موت تمھیں آ پکڑے گی، گو تم مضبوط قلعوں میں ہو اور اگر انھیں کوئی بھلائی ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی بُرائی پہنچتی ہے تو کہہ اُٹھتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے۔ اُنھیں کہہ دو کہ یہ سب کُچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اُنھیں کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔78:4۔

اور۔۔۔۔۔۔ 

''کہہ دیجیے! جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو وُہ تو تمھیں پہنچ کر رہے گی پھر تم سب چِھپے کھُلے کے جاننے والے (اللہ ) کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وُہ تمھیںتمھارے کیے ہوئے تمام کام بتلا دے گا''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔8:62۔

اور پِھر یہ کہ۔۔۔۔۔۔

''ہم ہی نے تم میں موت کو متعیّن کر دیا ہے، اور ہم اس سے ہارے ہوئے نہیں ہیں۔ کہ تمھاری جگہ تم جیسے اور پیدا کر دیں اور تمھیں نئے سرے سے اس عالَم میں پیدا کریں جس سے تم (بالکل) بے خبر ہو''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔60:56اور61۔

(یعنی تمھاری صُورتیں مسخ کر کے تمھیں بندر اور خنزیر بنا دیں اور تمھاری جگہ تمھاری شکل و صُورت کی کوئی اور مخلُوق پیدا کر دیں۔

'موت کو متعین کر دیا' یعنی ہر شخص کی موت کا وقت مقرر کر دیا ہے جِس سے کوئی تجاوز نہیں کر سکتا۔ چُناں چہ کوئی بچپن میں، کوئی جوانی میں اور کوئی بڑھاپے میں فوت ہوتا ہے۔

'ہم اس سے ہارے ہوئے نہیں'۔۔۔۔۔۔ مُراد ہے مغلُوب اور عاجز نہیں ہیں بل کہ قادر ہیں)

تمام مسلمان دِن میں کوئی پانچ مرتبہ زبان سے یہ الفاظ ادا کرتے نہیں تھکتے:

شروع کرتا ہُوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

''زمانے کی قسم

بے شک( بالیقین) انسان سر تا سر نقصان میں ہے سواے ان لوگوں کے جوایمان لائے اور نیک عمل کیے اور (جنھوں نے) آپس میں حق کی وصیّت کی اور ایک دُوسرے کو صبر کی نصیحت کی''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔1:103تا3

مسلمانوں کی زندگی میں، اجتماعی طور پر مسلم اُمّہ کی تمام تر مذہبی زندگی میں موت کو زندگی کی ہی ایک حقیقت کے طور پر لیا گیا ہے۔ اسے اہمیت دی گئی ہے۔اُسے نہ تو قالین کے نیچے چِھپا دینے کی کوشش کی گئی ہے نہ ہی اسے جھٹک پھٹک کر درد کے کِسی کونے میں پھینکا گیا ہے۔ بل کہ جو ہُوا ہے اس کے برعکس ہی ہُوا ہے۔ اسے تو بڑی خاص وُقعت دی گئی ہے بل کہ یُوں جانیے کہ اس کے ساتھ اس کے شایانِ شان سُلُوک روا رکّھا گیا ہے۔ اپنے کلام مبارک، قرآنِ مجید فرقانِ حمِید میں لوگوں کو باور کروایا ہے اللہ تعالیٰ نے کہ موت سے کِسی کو استثنا حاصل نہیں، نہ ہی اجل استثنائی حساب سے اور لازماً گُناہوں کا بدلہ، اجر اُجرت ہے۔ یہ مکافاتِ گُناہ نہیں۔ اس نے تو آنا ہی آنا ہے، لازماً۔ اِس لیے کہہ سکتے ہیں کہ مرگِ انسان تو اس کے آخری ٹھکانے کی طرف اُس کی حتمی مراجعت ہے، قصّہ ختم شُد والی بات نہیں کہ کہہ دیا جائے، کہانی گئی پار، اسیں رہئے اُروار، کہانی تو اب شُرُوع ہوئی، کبھی ختم نہ ہونے والی کہانی۔ موت تو اعلان ہے امر کہانی کا۔ مذہب کی طرف سے بُکَّل مار کے جب ہم موت کا ہیولیٰ تصوُّر میں لائیں تو موت ہمیں ایگزٹ نظر آتی ہے۔ ترکِ عمل یعنی خُرُوج۔ یہ ایگزٹ ہے یعنی کُوچ رختِ سفر باندھ کے کہِیں سدھار جانا۔ یہ مآلِ کار ہے، انجام ہے۔ اَنْت ہے۔ انتقال یعنی آنجہانی ہوجانا ہے۔ سچّی سچّی کہِیں تو آشوب ہے آشوب، آشوب سے ذرا بھی کم نہیں۔ مگر۔۔۔۔۔۔ مذہبی حقائق دُوسری بات کرتے ہیں، وُہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔

پہنچی وَہِیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

یعنی قربِ الٰہی کا حُصُولِ شرف، موت ہے۔ یہی اِس عظیم سعادت سے مشرّف ہونے کا موقع عطا کرتی ہے۔

''مسلمانو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کا قُرب تلاش کرو اور اُس کی راہ میں جہاد کرو تا کہ تمھارا بھلا ہو''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔35:5۔

(عربی متن میں لفظ وسیلہ استعمال ہُوا ہے۔ وسیلہ کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو کِسی مقصُود کے حُصُول یا اُس کے قرُب کا ذریعہ ہو۔ یعنی ایسے اعمال اختیار کر وجس سے تمھیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کا قُرب حاصل ہو۔)

توگویا موت زندگی کا آخری کفّارہ ہے؟ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے اِس مسئلہ کو یُوں واضح کِیا ہے کہ وُہ نہیں پسند فرماتا کہ اجل جو اٹل ہے، اس کے بارے میں ٹامک ٹوئیاں نہ ماری جائیں، اسے سمجھنے میں خطا نہ کھائی جائے۔ موت کا ہرگز یہ مطلب نہیں جو سمجھا جا رہا ہے اور خبردار، اس وضاحت کا اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کوئی موت کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ وہی صحیح ہے جو قرآن کہتا ہے۔۔۔۔۔۔

حدیث پاک

اگر آپ مسلمانوں کے تَیَقُّن کے بارے میں وثُوق سے جاننے کے خواہشمند ہیں تو آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اُن کے یقین کی توجُّہ کا مرکزی نقطہ روزِ قیامت حیات بعد از ممات اور قُربِ خُداوندی میں حیاتِ دوام کا پُختہ عقیدہ ہے۔ چُناں چہ ضرُوری معلُوم ہوتا ہے کہ حدیث پاک میں موجُود سرگرمی و توانائی کے بارے میں تفصیل سے جان لیا جائے۔

آخرت سے متعلق جو حالات و واقعات ہیں ان کے سلسلے میں ملک الموت (فرشتہ، احادیث مبارک میں اس کا نام عزرائیل ؑ آیا ہے)اس فرشتے کا نمایاں کردار سامنے آیا ہے۔ قرآن شریف کی ایک سورۃ پاک میں اس کا ذِکر یُوں کِیا گیا ہے:

''کہہ دیجیے، کہ تمھیں موت کا فرشتہ فوت کرے گا جو تم پر مقرر کِیا گیا ہے۔ پِھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔11:32 ۔

(یعنی اُس کی ڈیوٹی ہی یہ ہے کہ جب تمھاری موت کا وقت آجائے تو وُہ آ کر رُوح قبض کر لے)

بے شک، قرآنِ مجید اِس بارے میں کُچھ زیادہ تفصیل میں نہیں جاتا کہ بالصراحت بتائے مرنے اور روزِ محشر قبروں سے اُٹھا دیے جانے یعنی دوبارہ زندہ کیے جانے کے درمیان جو ایک مُدّت حائل ہے اُس میں مُردے پر کیا بیتتی ہے۔ احادیث سے ہمیں اِس سلسلہ میں بہُت آگاہی مِلتی ہے۔ ان کے مُطابِق ملک الموت کے ذِمّہ یہ فرض ہے کہ وُہ رُوح کو جو نفس یا آتما ہے اُسے میّت سے، مُردے کے جسم سے، علیحدہ کر دے۔ اگر تو وُہ رُوح جسے فرشتہء اجل قبض کر کے لے اُڑا، کِسی نجات پائے مُتّقی لوگوں میں سے کِسی کی ہے، وُہ تو سیدھی خُداوند کریم کی بارگاہ میں لے جائی جائے گی اور اُسے خوشخبری ملے گی کہ وُہ تمام گُناہوں، خطاؤں سے پاک ہُوا۔ اُس کے لیے معافی عام ہے۔ تب وُہ رُوح واپس زمین پر آتی ہے اور میّت کے سرھانے آ کر بیٹھ جاتی ہے، حتّٰی کہ میّت نمازِ جنازہ اور دفنانے کے لیے اُٹھا لی جاتی ہے۔ اور وُہ رُوح جو کِسی نیکیوں کی راہ گُم کردہ لعنتی شخص کی رُوح ہوتی ہے اُسے لے کر موت کا فرشتہ جب عالمِ بالا کی طرف عازمِ سفر ہوتا ہے تو پہلے آسمان کے پہلے پڑاو پر ہی اس رُوح کو دُھتکار دیا جاتا ہے، گیٹ بند، جن ہاتھوں نے اُس کی رُوح کو تھاما ہُوا تھا، فرشتہ وہ ہاتھ کھینچ لیتا ہے، سہارا چھُٹتے ہی وہ چیختی چِلّاتی مدد کو پُکارتی زمین پر دھپ سے آن گرتی ہے۔ جہنم کا داروغہء جہنم کے چند فرشتوں کا دستہ لے کر وہاں پہنچتا ہے اور فرشتے اسے مدھول کر رکھ دیتے ہیں اور پِھر کھینچتے، گھسیٹتے، لٹکاتے، ہچکولے کھلاتے اسے اُوپر وہاں پہنچا دیتے ہیں جہاں اس جیسے ''نحس'' اور لعنتی کتنے ہی اور موجُود ہوتے ہیں۔ ملعُونوں کے اکٹھ میں ایک اور عصیاں کار کا اضافہ ہو جاتا ہے تا کہ دوزخ کا ایندھن روزِ حشر تک اکٹھا ہوتارہے۔

سفرِ آخرت کی اس روڈ پر اگلا اہم سٹاپ قبر کا ہے، جو شہرِ خموشاں میں واقع ہے۔ یہاں ''پُچھ پرتیت'' والے فرشتے ڈائری لینے آتے ہیں۔ یہ مُنکر نکیرہیں ، سُوال جواب کا سیشن جاری ہوتا ہے۔ تمھارا دِین کیا ہے؟ تمھارا رب کون ہے؟ جیسے آسان سُوالوں سے شُرُوع ہو کر ادق مسائلِ شرعی سب کھنگالے جاتے ہی۔ اِس احوال کی تفصیل بڑی مُتاثّر کُن اور رِقّت انگیز طور پر ایک حدیث شریف میں آئی ہے، جو تجہیز و تکفین کے مراحل میں سب سے زیادہ اہمیّت رکھتی ہے اور میّت کے لیے سُودمند ہے۔ جنازے میں شریک دوست احباب، اعزّا اقربا، ہمساےے ما پیؤ جائے اور دُو نزدِیک کے جاننے والے سبھی عزادار مِل کے نماز، تلاوتوں اور دُعاؤں کے ذریعے سفرِ آخرت پر روانہ مرحُوم کے لیے ایصالِ ثواب کی نئی گٹھڑیاں فراہم کرتے ہیں تا کہ سفر آرام اور خیریت سے کٹے، منکر اور نکیر فرشتے کے سُوال مرنے والے پر آسان ہوں اور سزا و جزا والے فرشتوں کے ساتھ بھی تعلُّقات خوش گُوار رہیں۔ عاقبت کی منزلیں مرحلے آسانی سے کٹیں۔ قبر میں میّت کے کان میں اُس کے لوگوں کی آخری آواز جو سُنوائی جاتی ہے وُہ یہ ہے:

اے خُدا کے بندے!

ذہن میں تازہ کرو وُہ احساناتِ ربّی جو تم پر ہوئے اور اس دارِ فانی سے رُخصت ہونے سے پہلے پہلے جو تم نے وعدے وعید کیے اور حُقُوق و فرائض جو تم نے اپنے ذمہ لیے۔

اور یہ ادراک کہ الوہیّت و ربوبیّت میں خُدا کا کوئی ہمسر نہیں۔ وُہ واحد ہے، احد، اور اس خُدائے واحد کا پیغمبر ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔

یاد کرو یہ ایمان کہ جنت دوزخ برحق ہیں، قبر میں منکر نکیر کا سامنا بھی ہونا ہے اور سچ ہے سُوال جواب بھی ہوں گے۔ کوئی شک نہیں قیامت آئے گی اور روزِ حساب الٰہی عدالت لگے گی اور یہ بھی سچ ہے کہ اُس روز خُدا کے حُکم سے صُور پھُونکا جائے گا اور تمام مُردے صحیح سالم زندہ ہو جائیں گے، جو قبروں میں سو رہے ہیں اُٹھ کھڑے ہوں گے۔

ذِہن پر زور دو، تمھیں یاد آئے گا، تم ایمان لائے تھے اُس حقیقت پر کہ تمھارا آقا و مولا بس وُہی ایک ہے جو خُدا ہے۔ تمھارا سب کا ایک خُدا۔ قرآن تمھاری ہدایت کا منبع ہے، کعبہ تمھارا قبلہ نُما ہے یعنی وہ سمت نُما جو سمت خُدا تک رسائی دیتی ہے۔ اِس لیے تم کعبہ رُخ ہو کر خُدا کی نماز قائم کرتے ہو اور یاد رکھو سب مومنینِ اسلام تمھارے اسلامی بھائی بہن ہیں۔

خُدا سے دُعا ہے، اس کی آزمایش میں پُورے اُترو۔ قرآنِ کریم گواہی دیتا ہے:

''ایمان والوں کو اللہ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دُنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی، ہاں ناانصاف لوگوں کو اللہ بہکا دیتا ہے اور اللہ جو چاہے کر گُذرے''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔27:14۔

(اس کی تفسیر حدیث میں(صحیح بخاری،صحیح مسلم میں) اِس طرح آتی ہے کہ ''موت کے بعد قبر میں جب مسلمان سے سُوال کِیا جاتا ہے، تو وُہ جواب میں اِس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سِوا کوئی معبود نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے رسول ہیں)۔

تیرا رب کون ہے؟ تیرا دِین کیا ہے؟ تیرا پیغمبر کون ہے؟ اور اللہ تعالیٰ کی ہی عطا کردہ ثابت قدمی سے وُہ جواب دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ میرا رب اللہ ہے، میرا دِین اسلام ہے اور میرے پیغمبر سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔ تب امتحان میں پاس ہونے کی نوید لے کر دو فرشتے مبشّر اور بشیر آتے ہیں اور اُس کے نگہبان، رکھوالے بن جاتے ہیں۔ اور قیامت تک اُس کی دیکھ بھال، خبر گیری میں مُستعِد رہتے ہیں۔ وُہ اُس کی قبر ستّر ہاتھ کُشادہ کر دیتے ہیں، روشنی کی کرنیں قبرکو منوّر رکھتی ہیں جو نشانی ہوتی ہے اِس بات کی کہ تم نے ایک بار، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آخری بار پِھر جی اُٹھنا ہے۔ یہ وعدہ ہے اللہ کا تم سے۔ اور وہ فرشتے اُسے گہری میٹھی نیند سُلا دیتے ہیں:ـ

نچنت ہو کر سو جاؤ،

سو جاؤ، دُولھا کی نیند

سُکُون و راحت کی نیند

جس سے صرف تمھاری پیاری دُلھن ہی تمھیں بیدار کرے تو کرے، سوئے رہو آرام سے، اُس وقت تک، جب تک بستر چھوڑنے کے لیے خُدا نہ تم سے کہے۔

اور اگر منکر نکیر کے سُوالوں کے جواب ٹھیک ٹھیک وصُول نہ ہوئے تو پِھر قبر کا عذاب اُس مُردے کو جھیلنا لازم ہو جائے گا۔ (قبر کے عذاب سے تو بڑوں بڑوں نے اللہ کی پناہ مانگی ہے)۔

قبر کی منزل کے فیصلے آچکنے کے بعد۔۔۔۔۔۔ ایک طویل رات مُدّتوں چھائی رہنے کو شہرِ خموشاں میں بسنے والوں کے گھروں کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اب یہ قبر ریلوے کے ویٹنگ رُوم کی طرح، صُورِ قیامت سُننے کے لیے انتظار گاہ بن جاتی ہے۔ رُوحیں بھی قرار پاتی ہیں اور لمبی نیند سوئی رہتی ہیں۔ اور پِھر ایک دِن آ پہنچے گا، قیامت کی زبردست چنگھاڑ لیے۔ یومِ آخرت طُلُوع ہو جائے گا اور سوئے پڑے انسانوں کو جاگتے ہی یُوں محسوس ہو گا:

''اور اُن کو وُہ دِن یاد دِلائیے جس میں اللہ اُن کو(اپنے حُضُور) جمع کرے گا (تو اُن کو ایسا محسوس ہو گا) کہ گویا وُہ (دُنیا میں) سارے دِن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہوں گے اور آپس میں ایک دُوسرے کو پہچاننے کو ٹھہرے ہوں گے۔ واقعی خسارے میں پڑے وُہ لوگ جنھوں نے اللہ کے پاس جانے کو جھُٹلایا، اور وُہ ہدایت پانے والے نہ تھے''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔45:10

اور

''جِس روز یہ اُسے دیکھ لیں گے تو ایسا معلُوم ہو گا کہ صرف دِن کا آخری حصّہ یا اوّل حصّہ ہی (دُنیا میں) رہے ہیں''۔

القرآن46:79۔

قبر میں سُوال جواب والی حدیث قرآنِ پاک کی دو سورتوں کی مخصوص آیات کو حوالہ بناتی ہے۔۔۔۔۔۔

''اور کچھ تمھارے گِرد و پیش والوں میں اور کچھ مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ اُن کو نہیں جانتے، اُن کو ہم جانتے ہیں۔ ہم اُن کو دُہری سزا دیں گے، پِھر وُہ بڑے بھاری عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔101:9۔

مزید یہ تین آیاتِ کلام اللہ۔۔۔۔۔۔

''آپ کہہ دیجیے! کہ کیا تم اُس (اللہ) کا انکار کرتے ہو اور تم اُس کے شریک مقرر کرتے ہو جِس نے دودِن میں زمین پیدا کر دی،سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے۔

اور اُس نے زمین میں اس کے اُوپر سے پہاڑ گاڑ دیے اور اس میں برکت رکھ دی اور اس میں (رہنے والوں کی) غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں کر دی (صرف) چار دِن میں، ضرُورت مندوں کے لیے یکساں طور پر۔

پِھر آسمان کی طرف متوجِّہ ہُوا اور وُہ دُھواں (سا) تھا، پس اُسے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے۔ دونوں نے عرض کِیا ہم بخوشی حاضر ہیں''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔9:41تا11۔

البتّہ، یہ جو علاوہ قرآنِ مجید علمِ معرفتِ الٰہی کی روایت ہے، یہ ہمیشہ سے ہی علماے دِینِ اسلام کے درمیان بحث طلب رہی ہے، حال آں کہ صُورتِ حالات یہ بھی ہے کہ عامۃ المسلمین اسے انتہائی عقیدت لائق گردانتے ہیں۔ آٹھویں صدی کے نصف اوّل میں معتزلہ کے دلائل پر مبنی الٰہیاتی نظریہ کے تحت سُوال و جواب کے اس رائج آئیڈیا کی تردید کی گئی جسے مصلح محمد عبدہ' (1849ع تا1905ع) کی حمایت، تائید و تعاوُن بھی حاصل رہا۔ مُنکر نکیر ہی نہ پہنچے قبر میں تو وہاں کی مار دھاڑ، جزا و سزا سب کہانیاں بن گئیں۔ اسلامی فرقہ معتزلہ والے جواز پیش کرتے ہیں:

اگر کِسی مُردہ جسم کو بغور دیکھا جائے تو وہاں نہ کوئی نشان، علامت یا شہادت نظر آئے گی کہ ہم یقین کر لیں اسے دوبارہ زندہ کِیا جا سکے گا، چُناں چہ قبر میں جہاں اس نے مٹّی میں مٹّی ہو جانا ہے وہاں اس سے کون سے سُوال اور کون بھلا پُوچھنے والا۔ یہ، بہ ہرطور، جِن آیات کا ابھی ابھی حوالہ دیا گیا تھا ان کے لفظی ترجمہ و توضیح کے لحاظ سے تو واقعی بالکل اُلٹ ہی بات ہے، اسی سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ بے چارے مدفُون سے وہاں کیسا حساب کتاب اور کیسی جزا سزا۔ قرآنی آیات کا لفظی ترجمہ اور اس کی تفسیر بھی تبھی ممکن ہے جبھی وہ مُشاہدے، تجربے اور معقُولیت کے خلاف نہ جاتی ہوں۔ ورنہ، بہ صُورتِ دیگر، اصطلاحاً، کنایۃً جو بنتی ہو وُہ مُراد لے لی جانی چاہییں۔ ہمارا جِس بات پر اعتقاد ہونا چاہیے وُہ یہ ہے بل کہ ہمارا ایمان ہے اس پر کہ ہر بندے نے خُداوند کریم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنی صفائی آپ دینی ہے اور پِھر عدلِ خُداوندی حرکت میں آئے گا، صفائی جو پیش کی گئی اس میں اگر معقُولیت ہوئی تو فیصلہ سامنے آئے گا، سزا یا جزا۔۔۔۔۔۔ انصاف والے خُدا کے ہاں نہ دیر ہے نہ اندھیر۔

موت اور دوبارہ زندگی کے درمیان جو وقفہ ہے اس میں رُوح کہاں جائے گی، کہاں ٹھکانا کرے گی، اس بارے میں بہُت سی روایات، بہُت سی کہانیاں موجُود ہیں۔ اسناد جو میسّر ہیں ان میں سے ایک کہ اس کا مستند ہونے کا اپنے بارے میں دعویٰ ہے، وہ یہ ہے کہ تن بدن سے تو رُوح نکل گئی، آدمی مر گیا، قبر میں پہنچ گیا مگر ساتھ نہ چھوڑا رُوح نے۔ پاس پاس ہی رہی، قبر میں بھی پاس۔ اُس دِن تک پاس جِس دِن مُردے اُٹھا بٹھا دیے جائیں گے۔ یہی تمھارا ٹھکانا ہے، روزِ محشر تک۔ اس روز داورِ محشر خُود ہی تمھیں جاگ جگوا لے گا۔ تب جِس کے لائق ہے، اس کے مُطابِق بندے کو آخرت میں حصّہ مِل جائے گا۔ کیے کا ثمر بھی ہو سکتا ہے اور جیسا کِیا ویسی پاداش بھی تا کہ مُشتے از خردارے۔ جو فائنل ملنا ہے تلخ یا شیریں، مزہ چکھ لے، پیشگی۔ یومِ عدالت، زندہ ہو کر جب الٰہی ترازُو کے سامنے میدانِ حشر میں کھڑا ہو گا، اُس دِن جو اس پر گُذرنی ہے وہ بندہ اس تکلیف یا راحت کا تھوڑا سا مزہ پہلے ہی چکھ چُکا ہو گا۔

اِسی سلسلے میں دُوسری کہانی کا متن یہ ہے کہ تمام ایمان لانے والے سیدھے جنت جا پہنچتے ہیں جب کہ روزِ حساب ابھی دُور ہوتا ہے۔ خُدا پر ایمان رکھنے والوں کی رُوحیں پرندوں کی مثال شجر ہاے بہشت پر اپنا مسکن بنا کے استراحت کرنے لگتی ہیں، حتّٰی کہ جِس دِن اُن رُوحوں کے دُنیاوی گھروں یعنی اجسامِ انسانی میں دوبارہ جان پڑنی ہوتی ہے ان لطیف و شفّاف رُوحوں کو خُدا کے حُکم سے جگا دیا جاتا ہے۔

روایت کے ضعیف ہونے کی بِنا پر قُدرتی طور اسے لائقِ احترام تو سمجھا ہی جاتا ہے اس لیے ایسی بھی احادیث روایت کی گئی ہیں جِن کے ثقہ ہونے یا ضعِیف ہونے کو بعض علماے دِین چیلنج نہیں کرتے، کوئی چُون و چرا نہیں کرتے۔ 'ہوگی ، ہم مانتے ہیں، یہ ہم نہ پُوچھیں گے کہ واقعی حُضُورِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایسا کہا ہوگا یا کِیا ہو گا؟'۔

معاد سے متعلق یعنی موت، عدالت، بقا کے بارے میں جو سُوالات ہیں ان پر معتزلہ مسلک سے وابستہ حضرات اپنے سامنے حُضُورِپاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اصحابِ کرام، تابعین و تبع تابعین کی تعلیمات سامنے رکھتے ہوئے اپنے آپ کو درج ذیل بیان کا سختی سے پابند بنا لیتے ہیں:

''مومنوں کی رُوحیں خُدا کے ہاں موجُود ہیں''۔

اس بیان پر نہ وُہ کوئی اضافہ کرتے ہیں، نہ کوئی کمی۔ وُہ بس اِتنے کو ہی حدیث سمجھتے ہیں۔

قرآن اور ۔۔۔۔۔۔موت کی حد بندیوں کو پار کر جانا

حدیث مبارک اور اس کی مصلحت آمیزی کے متعلق کوئی خواہ کُچھ بھی سوچے، سمجھے، کہے۔۔۔۔۔۔ بات تو وُہی ہے کہ جو اس کا متن ہے وُہ اعلیٰ ترین سطح پر پُورے وثُوق سے اِس امر کا بھرپور اظہار ہے کہ بندوں کی خُدا سے دِید وا دِید یقینی ہے۔ اور یہ کہ خُدا کے لیے کِسی شَے کی کوئی حد، پابندی نہیں، موت کی بھی نہیں۔ موت تو خود اس کی اپنی تخلیق ہے۔ اور یہ بھی کہ موت زندگی کا فُل سٹاپ نہیں، بل کہ جہاں موت کو ''دی اینڈ'' لگتا ہے، عین وہاں زندگی کا نئے سرے سے آغاز ہوتا ہے۔

 

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا

مَیں تو دریا ہُوں ، سمُندر میں اُتر جاؤں گا

 

باغِ بہشت کے بارے میں جو رنگین تصوُّرات قائم ہیں، اپنی جگہ دُرُست سہی۔۔۔۔۔۔ اس کا کیا کِیا جائے۔۔۔۔۔۔ کہ

''اور ان میں بعض (ایسے بھی ہیں کہ) تیری طرف کان لگاتے ہیں، یہاں تک کہ جب تیرے پاس سے جاتے ہیںتو اہلِ علم سے (بوجہ کُند ذہنی و لاپروائی کے) پُوچھتے ہیں کہ اس نے ابھی کیا کہا تھا؟

یہی لوگ ہیں جِن کے دلوں پر اللہ نے مُہر کر دی ہے اور وُہ اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔16:47۔

قرآنِ پاک تو بے باک، بے لوث، خام خیالی دُور کرنے والا کلامِ خُدا ہے، مگر خُدا سے مُلاقات والے مسئلے پر خاموش ہی ہے۔ لگتا ہے جیسے اظہارِ حقیقت اس کے مدِّ نظر تو ہو مگر خُدا کی شکتی اور اُس کے رحم و کرم کے وسیلے سے موت پر غلبہ پانے کے ضمن میں نہ چاہتا ہو کہ الفاظ کی تلاش شُرُوع کر دی جائے یا اس کی مہربانیوں اور عطا کی طرف اشارہ کرنے کی ضرُورت محسوس کی جائے۔ وُہ قادر کریم ہے، سب کا رحیم ہے۔ ہم سب اُس کے بندے ہیں اور ساری خُدائی اُسی کی ہے۔

بِلا شُبہ، کبھی ختم نہ ہونے والی، لافانی حیات کے لیے حساب کتاب کے دِن زندہ کیے جانے کا عقیدہ کہ انسان اپنے اپنے اعمال کے مُطابِق جزا یا سزا پائے گا، اسلام میں اِس عقیدے کو بڑی فوقیّت حاصل ہے۔ اصلاح پسند مکتبِ فکر کے مُلّا محمد عبدہ' جنھوں نے اپنی زندگی میں 56بہاریں اور اُتنی ہی خزائیں دیکھیں، اپنی کتاب میں توحید کے مسئلہ پر اُنھوں نے سیر حاصل گُفتگُو کی ہے:

جن لوگوں کا مقدّس بائبل اور اس کے فرامین پر ایمان محکم ہے اُنھیں معلُوم ہے کہ یہ مقدّس کتاب حیات بعد از ممات کے بارے میں کِن کِن حقیقتوں کا انکشاف کرتی ہے اور وُہ اپنی اپنی تعبیر حیاتِ اُخروی کے بارے میں اپنے طور بھی جانتے ہیں کہ جب وُہ زندگی شُرُوع ہوئی تب وُہ کِس کِس منظر کا حصّہ ہوں گے۔ ہُو بہ ہُو، اصل تعبیرِ شخصی اور تفسیرِ حقیقت میں مُشکل کوئی پیش آئی تو پِھر خیال اپنا اپنا، قیاس اپنا اپنا۔ متن کی شرح کو اعتباری ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد کا آسرا ڈُھونڈنا پڑے گا، اگر الفاظ کے آسان معانی و مطالب سے لگا کھاتا نظر نہ آئے تو ضرُوری ہو گا واپس اس جہان میں آنکھیں مُوند لینے کے بعد اگلے جہان میں کھولتے ہی کیا کیا سامنے آئے گا اس کے بارے میں جو مذہبی تعلیمات ہیں ان سے استفادہ لازمی ہو جائے گا۔ کلامِ مقدّس کو اپنی مذہبی کتاب ماننے والوں کو چاہیے کہ ان کی تشریحات جزا و سزا کے عقیدے پر منفی طور پر اثر انداز نہ ہوں، مکافات نتیجہ ہوں گے اُن افعال کا جو انسان نے دُنیا میں کیے یا اُس سے سرزد ہوئے اور یہ منحصر ہوں گے اُن وعدوں اور وعیدوں کے جنھوں نے پُورا ہونا ہے آیندہ کی زندگی میں۔ یہی نچوڑ ہے اس موضوعِ خاص پر قرآنی تعلیمات کا۔ پایانِ کار، یہی طے پایا کہ ایسی کوئی تشریح و تصریح قابلِ دست اندازیِ فرشتگان ہو گی جو کِسی بھی صُورت مذہب کی طرف سے لاگُو کردہ اخلاقی ذمہ داریوں پر اُنگلی اُٹھائے گی۔

اس موقع محل کی مناسبت سے مُلّا عبدہ' حوالہ دیتے ہیں اسلامی عقائد کے آرٹیکل آٹھ کا جو پابند کرتا ہے مرنے کے بعد زندہ کیے جانے اور روزِ حساب کے انعقاد کے اعلان کرنے کا کہ اس دِن سب کے دفترِ عمل پیش ہوں گے اور عدلِ الٰہی فوری حرکت میں آئے گا۔ آرٹیکل 8مبنی ہے راسخ الاعتقادی کی کارگزاری پر۔۔۔۔۔۔

''ساری اچھّائی مشرق و مغرب کی طرف مُنہ کرنے میں ہی نہیں بل کہ حقیقتاً اچھّا وُہ شخص ہے جو اللہ پر، قیامت کے دِن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو۔ جو مال سے محبّت کرنے کے باوُجُود قرابت داروں،یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سُوال کرنے والوں کو دے، غُلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائی کرے، جب وعدہ کرے تب اُسے پُورا کرے، تنگدستی، دُکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچّے لوگ ہیں اوریہی پرہیز گار ہیں''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔177:2۔

مزید ارشادِ ربّانی ہے:

''پس آپ رحمتِ الٰہی کے آثار دیکھیں کہ زمین کی موت کے بعد کِس طرح اللہ اُسے زندہ کر دیتا ہے۔

کُچھ شک نہیں کہ وُہی مُردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وُہ ہر ہر چیز پر قادر ہے''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔50:30۔

سوادِ اعظم کے اِتّفاقِ راے اور مِلّتِ اسلامیہ کے فہم و فکر کے مُطابِق ضرُوری نہیں کہ آنے والی دوام کی زندگی کے گرد و نواح میں کوئی خاص ہی ماحول ہو، اور کوئی مخصوص موقع مقام ہو تا کہ اس بات کی اہمیّت اُجاگر ہو کہ موعودہ و متوقّع نجات کا مقصد و التزام پُورا ہو گیا۔ قرآن اور احادیث میں جنّت و دوزخ کی رُوداد تفصیل سے کہِیں سامنے نہیںلائی گی۔ یہ تو ایک سرپرائز پیکج ہی بنا ہُوا ہے۔

باغات جِن میں مومنین ہمیشہ رہیں گے یا پِھر بھڑکتی چنگھاڑتی لمبے لمبے شُعلے لپکاتی آگ جِس کا ایندھن پتھّر اور گنہگار انسان ہوں گے۔ یہ اِستعارات بالکنایہ ہیں اور ان سے حُسنِ دِلفریب شدّت، طاقت، تیزی تو ظاہر ہوتی ہے، خاصیّت و ماہیت نہیں۔ا ِتنا اظہار تو ضرُور ہوتا ہے کہ بہشت کے ذِکر پر مسرّت و انبساط اور دوزخ کی ہولناکی سے دُکھ تکلیف اور مصیبت کا احساس جو براہِ راست انسانی اعمال کا مآل ہوں گے جِن کا ربّی عدل نے وعدہ بھی کر رکّھا ہے اور اپنی جنّت دوزخ کے مقصد کا تعیُّن بھی۔ جنّت کے انعامات کی کیفیت جاننی ہو تو قرآنِ حکیم سے ہمیں اشارہ مِلتا ہے۔۔۔۔۔۔

''کوئی نفس نہیںجانتا جو کُچھ ہم نے اُن کی آنکھوں کی ٹھنڈک اُن کے لیے پوشیدہ کر رکّھی ہے، جو کُچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔17:32۔

اور ایک حدیثِ مبارک ہے، اس کا ترجمہ کُچھ یوں ہے۔۔۔۔۔۔

''میرے راست باز، صادق، پارسا بندے کے لیے مَیں نے جو کپچھ سنبھال رکّھا ہے، اُسے نہ کِسی آنکھ نے اب تک دیکھا اور نہ ہی کِسی کان نے کبھی سُنا اور نہ ہی کوئی اس کا اندازہ ہی کر سکتا ہے''۔

حدیثِ پاک۔ صحیح بخاری و مسلم۔ راوی حضرت ابو ہریرہؓ

دل کی آنکھوں میں سمائی جنّت۔۔۔۔۔۔کیا ہے؟ کیسی ہے؟ کیوں ہے؟ مقصد؟

اپنی حیاتِ مُستعار میں پیش آئے ذاتی تجربات کو حوالہ بنا کر ہی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خوشی کیا ہوتی ہے، غمی کیا بلا ہے۔ راحت اور سُکھ کیا ہوتے ہیں، دُکھ تو ہوتے ہی ہیں مصیبت بھی کِس قدر جان لیوا ہوتی ہے۔ ایک خاص ماحول میں یہ سب کیفیات کیوںکر اثر انداز ہوتی ہیں، یہ سب کُچھ انسان کے اپنے ہی مُشاہدات اور تجربات اُسے صحیح صحیح بتا سکتے ہیں۔ا نسان کے اندر کا موسم سُہانا ہو تو باہر کا ماحول بھی نکھرا نکھرا دِکھائی دیتا ہے ، اندر بجلیاں کوند رہی ہوں تو باہر کے اُجالے بھی دُھندلائے دُھندلائے سے نظر آتے ہیں۔ ایک جگہ محمد حمید اللہ نے لکھا ہے کہ جنت اور جہنم کے ضمن میں جو بیانات و روایات دستیاب ہیں ان کا مواد اور قالب قدرتی طور پر نمایندگی کرتے ہیں اُن تصوُّرات اور اُمِّید و بِیم کی جو حُضُورِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے معاصرین کے ذہنوں میں پک رہے تھے اور وُہ ان وقتوں، ماحول اور موسموں، توقّعات، خواہشات، پسند ناپسند اور اس مخصوص خطّے اور دور کے تقاضوں کے عین مُطابِق تھے۔ جو کُچھ دُنیاوی زندگی میں حاصل کرنے کی اُنھیں حسرت تھی انھی چیزوں کی کنکریٹ شبیہ جو اُن کے تصوُّر میں بن پاتی تھی، اُن کے حساب سے بس وُہی جنّت تھی۔ گُل و گُلزار، ٹھنڈے پانی کے چشمے، بہتی ندّیاں، دُودھ شہد کی نہریں، خُوب رُو خُوب سیرت دوشیزائیں، دبیز قالین، عالی شان خیمے، پُرشکوہ محلّات، قیمتی پتھّر، لعل و جواہر، انواع و اقسام کے فاکہات، شرابیں اور کائنات بھر کی نعمتیں اور الوان کہ جن کی خواہشات ذہنوں میں مچل رہی ہوں، وُہ بہشت کی شاپنگ مال میں حُور و غلمان مُفت بانٹتے پھرتے ہوں۔

اور جِن چیزوں سے اللہ توبہ اللہ توبہ کی جاتی ہے اور خُدا کی پناہ مانگی جاتی ہے اُن سے دوزخ کا تصوُّر توانا کِیا جاتا ہے۔وہاں آگ کے آتش فشاں ہیں، سانپ اور اژدہے ہیں، پیپ اور اُبلتا ہُوا پینے کا پانی ہے اور اپنی اپنی قیاس آرائیوں کے مُطابِق اذیّتیں اور عذابِ نار ہیں۔ ریگستانوں کی سردیاں اس جہان میں ناقابلِ برداشت ہوتی تھیں تو دوزخ کو جب آنکھیں بند کر کے دیکھا تو وہاں سردیاں اور جمی برف کے صحرا نظر آئے۔ا ور اِس سارے دردنا ک میوزک کی تان تو یہاں ٹوٹی کہ۔۔۔۔۔۔ موت تو کب کی اپنی موت مر چُکی اب تو جینا ہی جینا ہے اور عذابِ دوزخ سہنا اور سزا کے دِن کٹنے کا انتظار، وہاں دِن بھی ہزار ہزار سال کا ہو گا!

گو کہ وُہ خیالی تصویریں اور مثالی پیکر عصرِ حاضر کے حساب سے برمحل نہ بھی ہوں، ہم محسوس کر سکتے ہیں، اندازہ لگا سکتے ہیں شدّتِ احساس کا، جو ابلاغ دینا چاہتا ہے کُچھ ایسی باتوں کا جو اِس لیے تھیں ہی نہیں کہ ان کے منطقی یا عقلی تجزیے کیے جاتے۔ ان کا تعلُّق تو ہے ہی جذبات سے، بہلاووں سے۔ مقصد صاف ظاہر ہے، یہی ہے کہ ایسی باتوں، قیاسات، تصوُّرات کو کام میں لاکر خوبیِ عادات و اطوار، اخلاقیات اور سماجی طور طریقوں کو توانائی پہنچائی جائے اور ان میں بہتری لا کر انھیں پکّا کرتے ہوئے مفید سے مفید تر بنایا جائے تا کہ صرف مسلمانوں کی ہی نہیں تمام انسانیّت کی فلاح ہو۔

مثلاً، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا(جس کا ترجمہ قریباً یہ ہے) کہ۔۔۔۔۔۔

''جب موت کِسی اہلِ ایمان کے در پر دستک دیتی ہے، وُہ اُسے خوشخبری سمجھتا ہے کہ خُدا اُس سے راضی ہُوا، خُوش ہُوا،اور اُس نے خاص کرم کِیا۔ اس مومن کو اس سے بڑھ کے اور کُچھ نہیں بھاتا جو سُلُوک آیندہ کے لیے اُس کے انتظار میں ہے۔ اس کی دِلی آرزُو پُوری ہو گی، اللہ سے مُلاقات ہو گی اور اللہ کو بھی یہ بات پسندآتی ہے۔

اس کے برعکس، کِسی بھی کافر کے نزدِیک موت کی اطلاع تو خطرے کی گھنٹی ہے جو خُداکی خفگی و آزُردگی کا اعلان ہے۔ اس مُنکرِ دِین کو اپنے سر پر عذاب منڈلاتا نظر آتا ہے۔ اس کافر کو اس سے بڑھ کے اور کُچھ بُرا نہیںلگتا جو کُچھ اُس کے ساتھ بیتنے والا ہے۔ خُدا سے ملاقات کا سُوچ کے ہی اُسے پریشانی و گھبراہٹ گھیر لیتی ہے اور خُدا بھی ایسی کِسی مُلاقات کے لیے راضی نہیں۔

جہنمی لوگ وہاں بڑے ہوتے جائیں گے، اتنے دیو ہیکل کہ اُن کے کانوں کی لووں کے اور شانوں کے درمیان کا فاصلہ سات سو سال کی مسافت میں طے ہو گا، اُن کی کھال ستر ہاتھ موٹی اور اُن کے جبڑے اُحد پہاڑ جتنے ہوں گے''۔

(مسندِ احمد میں درج یہ حدیث ابنِ عمر نے روایت کی)

اگر ہم غور کریںتو اندازہ ہو سکتا ہے کہ انسانی جسم، خُصُوصاً جِلد اور سر جودرد کے معاملے میں زیادہ ہی زُود حِس ہوتے ہیں وُہ کیا تکلیف دہ اثر اور ناقابلِ برداشت کیفیت طاری کرتے ہوں گے! اور پِھر تصوُّر میں لائیے ایسے دردناک عذابوں کی باتیں سُننے والوں کی کیا حالت کر دیتی ہوں گی۔جو کپکپی آپ پر طاری ہو سکتی ہے وُہی اہلِ عرب کی حالت غیر کر دیتی تھی، وُہ ڈر جاتے تھے اور حُضُورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اصحاب استغفار استغفار، استغراللہ، استغفراللہ کا ورد کرنے لگتے تھے۔

اور پِھر ایسے بھی شاندار تذکرے ہیں جوساکنانِ جنّت کے عیش و آرام کی داستانیں سامنے لاتے ہیں۔ اُنھیں سُن کے تو جو مسلمان نہ بھی ہونا چاہے وُہ بھی کلمہ پڑھ اُٹھے۔ صحیح مسلم میں ایک حدیث پاک ہے جس کے راوی حضرت ابو ہریرہؓ ہیں۔۔۔۔۔۔ نزدیک ترین ترجمہ کُچھ یُوں ہے کہ۔۔۔۔۔۔

''تمھی میں سے ایک بہشتی کی انتہائی فرومایگی کی ایک مثال یُوں ہے کہ خُدا اُس سے کہے گا، بتاؤ اگر کوئی خواہش ہے۔ وُہ اپنی آرزُوؤں، تمنّاؤں کاڈھیر لگا دے گا۔ تب خُدا اُس سے کہے گا، اُس کی تمام کی تمام آرزُوئیں پُوری ہوئیں۔ واقعی اس کی ہرتمنّا پُوری ہوجائے گی، بل کہ جتنی کی اُس نے خواہش کی تھی اُتنی مزید نعمتیں بھی اُسے مِل جائیں گی''۔

سبحان اللہ! سبحان اللہ! الحمد للہ!

اُوپر والے کے درشن

طویل راہِ حق کی انتہا نجات ہے اور اِس راہ کے نیک، مُتّقی، پرہیز گار راہیوںکے لیے مقابلۃً جو کامیابی وبامُرادی کی ٹِپ ہے وُہ اہلِ ایمان کو دے دی گئی ہے۔۔۔۔۔۔

''جِن لوگوں نے نیکی کی ہے اُن کے واسطے خُوبی ہے اور مزید برآں بھی اور اُن کے چہروں پر نہ سیاہی چھائے گی اور نہ ذِلّت، یہ لوگ جنّت میں رہنے والے ہیں وُہ اس میں ہمیشہ رہیں گے''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔26:10۔

جامع احادیثِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جنابِ محدث حضرت امام مسلمؒ جِن کی وفاتِ حسرت آیات 875ع میں ہوئی، اور محمد ابو عیسیٰ الترمذی دونوں ریکارڈ پر ہیں دونوں محدثین نے کہا ہے کہ نبیِ آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسی سورۃ پاک کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ دیدارِ خُداوندی، اس سے مِل پانا ہی بہُت بڑا انعام ہے، اسے راضی رکھ سکنے کا بہترین صلہ ہے۔ یہی مومن کی معراج ہے۔ ایک اور حدیث میں کُچھ اِس طرح فرمایا گیاتھا کہ عرش العظیم کے سامنے حاضر و ناظر تمام لوگ جو جمع ہوں گے خُداوند تعالیٰ اپنے آپ کو اُن کے سامنے ظاہر کرے گا، سبھی لوگ اُس کے دِیدار سے مشرّف ہوں گے۔ بالکل اس طرح جیسے کوئی رات کے سمے چاند کو دیکھتا ہے جب وُہ اپنی پُوری آب و تاب اور چاندنی کے ساتھ چمک رہا ہوتا ہے۔

اس حدیث کا اصل متن بخاری اور رقاق میںموجُود ہے۔

وُہ حتمی مقصدِ عظیم جِس کے حُصُول کے لیے مسلمان ہمیشہ سرگرداں رہتے ہیں، وُہ ہے اپنے خُدا کے ساتھ میل مُلاقات، دِیدارِ الٰہی۔ اہلِ ایمان کے بارے میں قرآن کہتا ہے (کہ روزِ قیامت)

''اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔23:75

''ان ایماندارمردوں اور عورتوں سے اللہ نے اُن جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے جِن کے نیچے نہریں لہریں لے رہی ہیں جہاں وُہ ہمیشہ ہمیش رہنے والے ہیں اور ان صاف سُتھرے پاکیزہ محلّات کا جو ان ہمیشگی والی جنتوںمیں ہیں،ا ور اللہ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے، یہی زبردست کامیابی ہے''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔72:9۔

''اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف تم کو بُلاتا ہے اور جِس کو چاہتا ہے راہِ راست پر چلنے کی توفیق دیتاہے''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔25:10،

خدا جلّ شانہ' کا وعدہ ہے کہ موت مغلُوب ہو کر رہے گی۔۔۔۔۔۔

''اے اطمینان والی رُوح!

تُو اپنے رب کی طرف لوٹ چل، اِس طرح کہ تُو اُس سے راضی وُہ تُجھ سے راضی، پس میرے خاص بندوںمیں داخل ہوجااور میری جنت میں چلی جا''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔27:89تا 30۔

رہی بات ملعُون جہنمیوں کی۔۔۔۔۔۔

''بے شک جو لوگ اللہ کی اُتاری ہوئی کتاب چِھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں، یقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھررہے ہیں۔ قیامت کے دِن اللہ ان سے بات بھی نہ کرے گا، نہ انھیں پاک کرے گا، بل کہ ان کے لیے دردناک عذاب ہے''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔174:2۔

''بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پربیچ ڈالتے ہیں، اُن کے لیے آخرت میںکوئی حصّہ نہیں، اللہ نہ تو اُن سے بات چیت کرے گا نہ اُن کی طرف قیامت کے دِن دیکھے گا، نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔77:3۔

لیکن یقینی طور پر داورِ حشر اور ان کے درمیان روزِ عدل ایک پردہ کھنچا ہو گا، خُدا کے ترس، رحم و کرم سے دُور کر دیے جائیں گے یہ گنہگار و بدکار لوگ۔۔۔۔۔۔

''۔۔۔۔۔۔ہرگز نہیں۔ یہ لوگ اُس دِن اپنے رب سے اوٹ میں رکّھے جائیں گے''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔15:83۔

پر یہ دُھتکار دائمی نہ ہوگی۔ رسول اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد مبارک ہے (جس کا ترجمہ کِسی حد تک یُوں ہے کہ)۔۔۔۔۔۔

''جہنم پر ایک روز ایسا بھی آئے گا کہ اُس کے پھاٹک آپس میں کھڑکھڑا رہے ہوں گے ہوا سے اور وُہ خالی ہو چُکی ہو گی۔ (اندر کوئی نہ ہوگا)''۔

(مسند احمد کی حدیث ہے جس کے راوی عبداللہ ابن امر ابن العاص ؓ ہیں)

راسخ، اصل اور کھری زندگی تک رسائی کے لیے تمام وعدے وعید اور احادیث مبارکہ پابند ہیں قادرِ مُطلق کے، عظیم حُکمِ قضا و قدر کے۔۔۔۔۔۔

''اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ، جب کہ رسول تم کو تمھاری حیات بخش چیز کی طرف بُلاتے ہوں۔ اور جان رکھو کہ اللہ آدمی کے اور اُس کے قلب کے درمیان آڑ بن جایا کرتا ہے اور بِلا شُبہ تم سب کو اللہ ہی کے پاس جمع ہونا ہے''۔

القرآن۔۔۔۔۔۔24:8۔

محمد سلیم عبداللہ کی تخلیقIslam Fur das Gesprach mit Chirsten

(Islam in favour of Dialogue with Christians)

آلٹین بیرگے، 1988ع۔ صفحات 82تا 93سے اس مضمون کی تیاری میں استفادہ کِیا گیا جِس کے لیے مصنّف اِحسان مند ہے۔

II۔مسیحی نقطہء نظر

یومِ انصاف مُردوں کا جی اُٹھنا اور دائمی حیات

بھرپُور زندگی گُزار کے بزُرگی کی عُمر پہنچتے ہیں اور لوگ فوت ہو جاتے ہیں۔ موت سے مفر نہیں، بچے ہوں یا نوجوان، بیماری، بھُوک، سخت سردی، حادثات اور قُدرتی آفات کے بہانے موت انھیں بھی آ دبوچتی ہے۔ اور یہ بھی صِرف خُدا ہی جانتا ہے کتنے لوگ محض اپنے ہمسایوں کی بے اعتنائی کے سبب جان ہار جاتے ہیں۔ پڑوس میں اردگرد ایسے بھی لوگ رہتے ہیں جو مال مست ہیں، پڑوسی بھُوکا ہے اُنھیں کوئی غرض نہیں بل کہ پتا ہی نہیں کہ وُہ بے بس ہے لاچار ہے بیمار ہے، اس تک وقت پہ دوائی پہنچائی جا سکتی تھی، بیمار پُرسی ہی کر لی جاتی، تیمارداری کی ضرُورت تھی اس بے کس کو، مگر نہ اپنوں نے کوئی پروا نہ کی نہ غیروں نے، کوئی بھی کام نہ آیا حتّٰی کہ جُڑے مکان والا ہمسایہ بھی نہیں۔ بیمار نے آنکھیں مُوند لیں۔ خُدا نے بے کسی کی شرم رکھ لی، پڑوسی بے خبر رہے۔ گھر مکان زمین تو بہُت دُور کی بات ہے کہ کِسی عیال دار، مُفلس، بے روزگار و لاچار کراےے دار کو مالدار پڑوسی آدھا مکان ہی پیش کرنے کا کبھی سُوچ لے جب کہ سبھی جانتے ہیں یہ زمین، جایدادیں، مکانات، کوٹھیاں، فارم ہاؤس، پلازے سب یہِیں رہ جائیں گے اور لاد چلے گا بنجارا۔اپنے اپنے مقررہ وقت پر مر جانا ہے، قبر میں اُتر جانا ہے سب نے، جو وقت ہے اچھّا گُزار جائیں، غنیمت ہے، دُعائیں لیں، زندہ لوگ ہماری قدر کریں گے ورنہ مرنے والے تو اِس دور میں تھوک کے بھاو مارے جا رہے ہیں، جنگ آزماؤں کے جبر و تشدُّد سے، جب کہ ان کی ترجیحات میں تو سرِ فہرست کاش جدوجہد ہوتی امن کے لیے، جان لینے کے لیے نہیں، زندگی اور اس کے لیے سُکھ چین آرام سُکُون دینے کے لیے، راحتیں پانے کے لیے اور راحتیں بانٹنے کے لیے۔ اے کاش! اے کاش!!! کبھی تو کام آئے دُنیا میں انساں کے انساں!

٭    جب یسُّوع پاک کے لوگ کہتے ہیں کہ اُن کا ایمان ہے یومِ انصاف پر، اس روز لوگوں کے زندہ کیے جانے پر اور ان کے مستقبل کی دائمی زندگی پر تو اس کا مطلب یہ تو ہرگز نہیں کہ ہم مسیحی موت سے کترا رہے ہوتے ہیں یا اذیتوں او رمصیبتوں سے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب تو زندگی کے لوازمات ہیں، سُکھ کے ساتھ دُکھ، آرام کے ساتھ تکلیف، سُکُون کے ساتھ بے چینی، پالینا اور پالینے کے ساتھ کھو دینا، جینا اور جینے کے ساتھ جڑا مرنا۔

٭      مسیحیوں کی تو بیشتر توجُّہ ہی اس طرف ہوتی ہے مُشکلات اور ناموافق حالات میں گھرے لوگوں اور محرومیوں کا شکار سماج کے ستائے انسانوں، پڑوسیوں کی خاطر جمعی کریں، اُن کے دُکھ درد بانٹیں اور موت کے بعد ملنے والی بہتر زندگی کا آسرا سہارا انھیں یاد دلائیں۔ دُنیا تو مختصر مُدّت کا عارضی ٹھکانا ہے، اصل خوش گوار زندگی تو آگے ہے، آج مرے کل دُوسرا دن۔

٭    جب مسیحی مومنین کہتے ہیں کہ اُنھیں پُورا یقین ہے جو مر گئے، سب زندہ کر دیے جائیں گے اور وُہ دائمی زندگی جییں گے، پِھر کوئی فنا نہیں، سب بقا ہی بقا ہو گی۔ پتا ہے آپ کو اِس سب کُچھ سے ہماری کیا مُراد ہے؟ ہم بتاتے ہیں، سُنیے! سی سی سی989گواہ ہے:

ہمارا عقیدہ ہے، ہم پابند ہیں کہ جییں تو ایسے جییں کہ جیسے مسیحیت سے ہماری قلبِ ماہیت ہو چُکی ہو، خُداوند یسُّوع مسیح پاک کی تعلیمات نے ہماری کایا ہی پلٹ دی ہو اور نئی و بہتر زندگی کی شروعات ہو چُکی ہوں اور وُہ کُچھ میسّر آنے لگا ہو جو ہمارے خواب و خیال میں بھی شاید نہ آیا ہو کبھی اور یہ سب اِس لیے ممکن ہُوا کہ یہ سب خُدا کا انعام تھا، ہمارے خُدا کا فضل جو ہمیں دان ہُوا۔

ہمارا ایمان ہے اور پُورے اعتماد و بھروسے کے ساتھ ہماری یہ اُمِّید بندھی ہے کہ جس طرح مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح مُردوں میں سے سچ مچ زندہ ہُوا اور اُس کی زندگی کو بقا مِلی، بعینہٖ صادق و پارسا مسیحی مرنے کے بعد جب اُٹھیں گے تو پِھر کبھی نہ مریں گے، دائمی حیات ان کے انتظار میں ہے۔ اور یہ وُہ زندگی ہے، پاک زندگی، جو زندہ مسیح کے دامان کے ساتھ ساتھ گذرے گی۔ اِسی لیے وُہ سب کو زندہ کرے گا اور پِھر ہمیشہ زندہ رکّھے گا پَگ پَگ اپنے ساتھ اور یہی سبب ہے کہ اِس آخری دِن، روزِ محشر کا، ہمیں بے تابی سے انتظار ہے۔

وہ مُردوں کانہیں، زندوں کا خدا ہے

کلامِ اقدس کی ساری مُقدّس کتابیں کہانیوں سے بھری پڑی ہیں۔ ان کتابوں میں بتانے والوں نے اپنی تدابیر، اپنے ارادوں کی باتیں کی ہیں، اپنے سُہانے دِنوں کی باتیں کرتے ہوئے خوشیوں بھری کہانیاں سُنائی ہیں اور جنھیں جب مال و زر کی تنگی آئی تو شُرُوع ہو گئے نااُمِّیدیوں، نامُرادیوں اور آزُردگیوں کی داستانیں کہنے۔ بُرا بیج بو کے جب بُری ہی فصل کاٹی تو بائبلی قصّوں کی رزمیہ جھلک نے لہُو رنگ اختیار کر لیا۔ اور پِھر سب پُوچھنے لگے، باغِ بہشت سے مجھے حُکمِ سفر دیا تھا کیوں؟ ہمیں زمین پر اُٹھا پھینکنے کا مقصد، فائدہ؟ ہم کیا لینے آئے ہیں اِس دھرتی پر؟ یہاں آ کے دیکھا ہزار بکھیڑے، ہزار رنگینیاں، ہزار اُلجھنیں، ہزار مستیاں، ایمبولینسیں سٹریچر تابُوت جنازے تو کہِیں موج میلے شور و شغب سال گرہیں شادیاں، یہ سب کُچھ کیا ہے جِس کے لیے ہم محنت، تردُّد کرتے منصُوبے بناتے ہیں، کوششیں کرتے ہاتھ پاؤں مارتے قویٰ مضمحل کروا لیتے ہیں، عمریں گنوا لیتے ہیں، کیا اِس لیے کہ موت آئے اور سب کیے کرائے پر پانی پھیر دے؟ اور پِھر یہ کیا، کِسی کی اتنی طویل عُمر کہ کھانستے کھانستے بے حال ہو کر بھی اس کے سانس کی ڈوری نہ ٹُوٹے اور کوئی اُس وقت موت کے شکنجے میں جکڑا گیا جب زندگی کا مزہ بس شُرُوع ہی ہونے والا تھا۔ اس ماں کا کیا قُصُور کہ بچہ9ماہ پیٹ میں لے کے اَوازار پھرتی رہی اور معصُوم بچّے نے ایک باریک سی چیخ دُنیا کو سُنائی اور واپس دُوسرے جہان جا پہنچا، اُس کی ہلکی سی چیخ کی قیمت موت تھی کیا؟ کھُلی آنکھوں سے تو اِس دارِ فانی کی ایک جھلک بھی اُس نے نہ دیکھی، کیوں آیا تھا وُہ؟

حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بِن کھلے مُرجھا گئے

لوگوں کو مضبُوط، دُرُست، تسلّی بخش جواب نہیں ملتے، وُہ اپنے اندر بھی جھانکتے ہیں، اپنے تجربات کی چھلنی میں اپنے سارے سُوالات چھانتے ہیں اور کُچھ نہیں پاتے۔ تب ان زندہ انسانوں کی نِگاہ اُوپر آسمان کی طرف اُٹھ جاتی ہے، اپنے خُدا کی طرف۔ جو زندہ کو مار سکتا ہے، مرے کو زندہ کر سکتا ہے، وُہی خُدا ہے، خُداے بزرگ و برتر۔

جِن لوگوں کی کہانیاں ہم بائبل مُقدّس میں پڑھتے ہیں، اُنھیں اپنی حُدُود، اپنی بساط کا پتا تھا۔ پتا ہونے کے باوُجُود وُہ ایک آس لیے لیے پھرتے تھے جو دِل سے جا ہی نہ پا رہی تھی اور پِھر ایک دِن وُہ آس ان تمام حدّوں کو پار کر گئی اور حُدُود، بساط، اوقات کی زندہ لاش پیچھے تڑپتی چھوڑ گئی۔ لوگ جانتے تھے کہ اُن کا خُدا سے بھلا کیا چِھپا۔ ان کا اندر باہر، ڈھکا کھُلا سب خُدا پر عیاں تھا۔ اُنھوں نے خُدا سے بہُت اُمِّیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔

پاک خُداوند یسُّوع المسیح کا وَچَن تھا جو مرے گا، دوبارہ زندہ کِیا جائے گا۔ جب اُس کا دوست لعزر انتقال کر گیا تو خُداوند نے اُس کی بہن مارتھا سے جو کہا تھا وُہی باتیں بعد میں وُہ ہر اُس مرد و عورت سے بھی کہتا رہا جو اپنے بھائی یا بہن کی قبر پر اُس کو رو رہے ہوتے تھے۔

''یسُّوع نے اُس سے کہا، قیامت اور زندگی میں ہی ہُوں۔ جومجھ پر ایمان لاتا ہے اگرچہ وُہ مر گیا ہو تو بھی زندہ رہے گا''۔

مُقدّس یُوحنّا۔۔۔۔۔۔25:11۔

ایسٹر کے موقع پر خُدا نے یسُّوع پاک کے ذریعے اظہار فرمایا کہ وُہ موت سے بڑھ کے طاقت والا ہے۔ خُداوند کی قبر خالی ہے اور مُردوں میں سے جی اُٹھتے ہی یسُّوع المسیح اپنے شاگردوں کے سامنے آگیا۔ اُس نے ایک شاگرد کو اپنے ہاتھ دِکھائے اور پاؤں بھی جِن پر اذیّت ناک میخوں کے گہرے نشانات تھے۔۔۔۔۔۔

''میرے ہاتھ اور میرے پاؤں دیکھو کہ مَیں ہی ہُوں۔ مجھے چھُو کر دیکھو کیوں کہ رُوح کے گوشت اور ہڈّی نہیں ہوتی جیسا مجھ میں دیکھتے ہو''۔

مُقدّس لُوقا۔۔۔۔۔۔39:24۔

خُداوند یسُّوع مسیح اقدس کا دوبارہ جی اُٹھنا اُن لوگوں کے لیے تشفّی آمیز بات تھی، اُنھیں حوصلہ مِلا اور وُہ مانے کہ ہم بھی خُداوند کے ساتھ جی اُٹھیں گے جِس روز قیامت برپا ہو گی۔۔۔۔۔۔ مُقدّس رسول پولوس نے سب کا یقین پُختہ کِیا۔۔۔۔۔۔

''پِھر اگر یسُّوع کو مُردوں میں سے زندہ کرنے والے کا رُوح تم میں بسا ہُوا ہے تو مسیحِ یسُّوع کو مُردوں میں سے زندہ کرنے والا تمھارے فانی بدنوں کو بھی اُس رُوح کے ذریعہ سے زندہ کرے گا جو تم میں بسا ہُوا ہے''۔

رومیوں کے نام۔۔۔۔۔۔11:8۔

انجیلِ مُقدّس یوحنّا میں اعلانِ مسیح پاک ہے۔۔۔۔۔۔

''اس سے تعجّب نہ کرو کیوں کہ وُہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اُس کی آواز سُنیں گے اور جِنھوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے نکلیں گے اور جِنھوں نے بدی کی ہے فتویٰ کی قیامت کے واسطے''۔

مُقدّس یوحنّا۔۔۔۔۔۔28:5اور 29۔

مُردے کیوں کر دُوسری زندگی پائیں گے

ہماری زبان اور زبان کے الفاظ جو ہیں اُن کا سیاق و سباق، حوالہ اِسی دُنیا اور اِس کی حقیقت و اصلیّت سے بنتا ہے۔ اور جو پروردگار کا جہانِ بے کراں و بسیط ہے اور اس کی جو حقیقی ماہیت ہے اس کے لیے ہمارے ہاں الفاظ کا قحط ہے۔ شُرُوع شُرُوع کی اُمّتِ مسیح اِس تجربے سے گُذر چُکی ہے کیوں کہ اس نے ایک وقت آیا جب پُوچھا تھا۔۔۔۔۔۔ مُردوں کے دوبارہ جی اُٹھنے کا عمل کیوں کر ممکن بنایا جائے گا؟ وُہ اجسام جو قبر میں گل سڑ کے مٹّی میں مٹّی ہو جائیں گے اُن کا کیا بنے گا؟ کیا ایک اپاہج انسان دُوسری بار زندگی ملنے پر بھی اپاہج کا اپاہج ہی قبر سے باہر نکلے گا؟ کیا وُہ معصُوم جو ابھی بچّہ ہی تھا کہ فوت ہو گیا جنّت میں پہنچ کے بڑا ہو جائے گایا بچّے کا بچّہ ہی رہے گاَ؟ کیا خیال ہے! کیا بنے گا اُن کا جو ویسے تو مر چکے ہیں لیکن اُنھیں تو ابھی مرنا ہے اس آس میں جو اُنھوں نے خُداوند قُدُّوس سے لگا رکھی ہے اور خُداوند یسُّوع مسیح کی برکات کو اُنھوں نے ایمان و یقین کا حصّہ بنا رکھّا ہے؟

اِن سارے سُوالات کا اور ایسے کئی دیگر سُوالات کا آئے روز ہمیں سامنا رہتا ہے۔ ہمیں تو کوئی مناسب جواب بن نہیں پڑتا ماسوا اِس کے کہ تمام سُوالوں کی پٹاری سمیت ہم اپنا رُخ مُردوں میں سے جی اُٹھنے والے خُداوند پاک یسُّوع مسیح کی ذاتِ اقدس کی طرف موڑ لیںجِسے جلال اور تمجید دی گئی ہے اور جِس نے اپنے جسم پر اذیّتوں کے زخم برداشت کیے ہیں جو ہمارے لیے اُس کی بے پایاںمحبّت کی عظیم علامت ہیں جو سبب ہیں اِس امر کا کہ اُس نے اپنی جان ہمارے بھلے کی خاطر ہم سب پر وار دی۔

خالی قبراور مسیح کی اذیّت کے ہوا کے جھونکے کی طرح اور دُوسری طرف تازہ مگر پُراَسرار سی آمدِ مسیح کہ وُہ زندہ و قائم دائم، واقعی اپنے شاگردوں کے سامنے آ گیا۔ یہ دونوں حقائق ہمیں حوصلہ دیتے ہیں کہ ہم برملا کہہ سکیں کہ مُردے اُٹھ کھڑے ہوں گے پاک خُداوند کی طرح اپنے پُورے بدنوں کے ساتھ، صحیح سالم، اپنے اپنے قد اور جُثّہ کے مُطابق۔۔۔۔۔۔ البتّہ، بعض تبدیلیاں بھی دیکھنے کو ملیں گی۔ مثلاً یہ دوبارہ جی اُٹھنے والے برکت یافتہ ہوں گے، نُورانی چہروں کے ساتھ زندہ ہوں گے، ان کی شخصیّت سے عظمت مترشّح ہو گی۔ ان مومن مسیحیوں پر گندم کے دانے کی مثال صادق آتی ہے، جو گرتا ہے اور زمین میں گُم ہو جاتا ہے۔ تبدیلیِ ہیئت اُس کی موت بن جاتی ہے اور اس موت سے نئی حیات پیدا ہوتی ہے۔ یہی ثمر ہے اُس کے مرنے اور پِھر جی اُٹھنے کا۔۔۔۔۔۔

''مَیں تم سے سچ سچ کہتا ہُوں کہ جب تک گیہوں کا دانہ زمین میں گِر کر مر نہیں جاتا اکیلا رہتا ہے۔ لیکن جب مر جاتا ہے تو بہُت سا پھل لاتا ہے''۔

مُقدّس یُوحنّا۔۔۔۔۔۔24:12۔

یہ حیات بعد از ممات کیا ہے؟

جب موت واقع ہوتی ہے، رُوح کو جسم سے جُدا کر دیا جاتا ہے، انسانی بدن بگڑنے، خراب ہونے لگتا ہے۔ رُوح خُدا کے پاس چلی جاتی ہے اور اونسیاں ڈالتی رہتی ہے انتظار میں کہ کب اس کا دوبارہ ملاپ ہو پائے گا اپنے رفعت و عظمت یافتہ بدن کے ساتھ۔ خُدا جلال والا جو قادرِ مُطلق ہے، اپنی لازوال قُدرت و طاقت کے ساتھ قطعی طورپر ناقابلِ فنا، وُہی لازوال زندگی ہمارے جسموں کو بھی عطا کردے گا اور رُوح و جسم کا بتوسّط اپنے مُقدّس بیٹے خُداوند یسُّوع مسیح کے دوبارہ زندہ ہونے، مُردوں میں جی اُٹھنے کی طاقت سے ، ملاپ کرا دے گا۔

استفادہ از کیتھولک کلیسیا کی مسیحی تعلیم کی کتاب، 997

اَسرارِ محبّتِ خُداوندی اور حیات بخش کی بخشی ہوئی نعمتِ حیات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے جو کہ ذُوالجلال کی قُدرتِ مُطلق پر منحصر ہوتی ہیں، اس بارے میں مُقدّس رسُو پولوس نے قرنتیوں سےفرمایا۔۔۔۔۔۔ بل کہ جیسا لکھا ہے:

''جو کُچھ نہ آنکھ نے دیکھا ہے

اور نہ کان نے سُنا ہے

اور نہ آدمی کے باطن میں سُوجھا ہے

اُسے خُدا نے اپنے پیار کرنے والوں کے لیے

تیّار کِیا ہے''۔

1۔ قرنتیوں۔۔۔۔۔۔9:2۔

جب ہم عشاے ربّانی (متبرک اجزا) میں شرکت کی سعادت پاتے ہیں، وہاں ہم اپنے جسم کو جو تغذیہ بہم پہنچاتے ہیں اس کو نسبت زندہ مسیح کے مبارک جسم اور لہو سے ہے۔ پاک یوخرست ضمانت ہے، عہد ہے، کفّارہ، فدیہ اور معاہدہ ہے ہماری نجات اور دوامی زندگی کے لیے۔۔۔۔۔۔ سی سی سی1000کے حوالے سے مندرجہ ذیل سطور پر غور فرمائیے:

تاہم ہماری اقدس یُوخرست میں شرکت ہمیشہ ہماری اُمید تازہ کر دیتی ہے کہ خُداوند یسُّوع مسیح کے دم سے ہماری تبدیلیِ ہیئتِ اجسام ہو گی، ہم معزز و پُرشکوہ بنا دیے جائیں گے۔ٍ

مُقدّس یُوحنّا کی انجیلِ مُبارک میں ہے:

''مگر یسُّوع نے اُن سے کہا:

مَیں تم سے سچ سچ کہتا ہُوں کہ اگر تُم اِبنِ انسان کا گوشت نہ کھاؤ اور اس کا خُون نہ پِیو تو تم میں زندگی نہیں ہو گی''۔

مُقدّس یُوحنّا۔۔۔۔۔۔54:6۔

(مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح پاک کا فرمان ہے ''جو مجھے کھاتا ہے مجھ سے جیے گا''۔ اس کا حُکم ہے کہ ہم اس کا گوشت کھائیں اور اُس کا خُون پییں۔ ہرکوئی جو اقدس روٹی کھائے گا ہمیشہ کے لیے جیے گا۔)

''جو میرا گوشت کھاتا اور میرا خُون پیتا ہے وُہ ہمیشہ کی زندگی رکھتا ہے اور مَیں اُسے یومِ آخر میں پِھر زندہ کروں گا''۔

مُقدّس یوحنّا۔۔۔۔۔۔55:6۔

اُس خاص الخاص متوقّع دِن کی آمد کے انتظار میں دِین دار مسیحیوں کے بدن اور اُن کی رُوحیں مُکمَّل طور پر پاک خُداوند یسُّوع المسیح کے ہو جانے اور خُداوند خُدا کی طرف سے اُن کی اِس خُود سِپُردگی کو قُبُول کر لینے کے اعزاز پانے اور اپنی اس آرزُومندی کو برکت دیے جانے کے فضل و عنایت پر مسیحی ایمانداروں کی شادمانی و فرحانی اچنبے کی بات نہیں، بل کہ ایک قُدرتی ردِّ عمل ہے۔ سی سی 1004میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ منزلت و عظمت اور برکت پانے کا یہ شرف مشروط رہا ہے اس مطالبے سے کہ ہر مومن مسیحی اپنے جسم کا احترام کرنے کا پابند ہو گا، صرف اپنے جسم کا ہی نہیں اُسے تو ہر دُوسرے انسان کے بدن کو پُوِتّر جاننا ہو گا اور اس کی قدر و منزلت پیشِ نِگاہ رکھنا ہوگی۔ اور خاص طور پر سماج کے مظلُوم انسانوں کے بارے میں تو سب سے ز یادہ محتاط رہنا ہو گا۔ کیوں کہ۔۔۔۔۔۔

''کھانے پیٹ کے لیے ہیں اور پیٹ کھانوں کے لیے۔مگر خُدا اِس کو اور اُن کو نِیست کرے گا مگر بدن حرام کاری کے لیے نہیں بل کہ خُداوند کے لیے ہے اور خُداوند بدن کے لیے۔ اور خُدا نے خُداوند کو بھی زندہ کِیا ہے اور ہم کو بھی اپنی قُدرت سے زندہ کرے گا۔

کیا تم نہیں جانتے کہ تمھارا بدن مسیح کے اعضا ہیں؟

پس کیا مَیں مسیح کے اعضا لے کر فاحشہ کے اعضا بناؤں؟

ہر گز نہیں''۔

1۔ قُرنتیوں۔۔۔۔۔۔13:6تا 15۔

''کیا تم نہیں جانتے کہ تمھارا بدن رُوح القُدُس کی ہیکل ہے جو تم میں ساکن ہے اور جِس کو تم نے خُدا کی طرف سے پایا ہے، اور کہ تم اپنے نہیں ہو۔ اس لیے کہ تم قیمت سے خریدے گئے ہو۔ پس اپنے بدن سے خُدا کا جلال ظاہر کرو''۔

1۔ قُرنتیوں۔۔۔۔۔۔19:6، 20۔

موت اور مسیحیّت۔۔۔۔۔۔ آمنے سامنے

چہرے کے رنگ اُڑ جاتے ہیں، موت ایک سنسنی سی دوڑا دیتی ہے سارے جسم میں۔ حتّٰی کہ خُدا پر کامل یقین رکھنے والوں کو بھی اس کا ذکر آجائے تو ایک مرتبہ تو جھُرجھُری اُنھیں بھی جھُرجھُرا دیتی ہے۔

موت کیاہے؟۔۔۔۔۔۔ موت ایک الوداعی ہچکی ہے۔ ہنستی بستی دنیا چھوڑ کے شہرِ خموشاں منتقل ہو جانے کا نام ہے موت۔ دارالفنا سے انتقال کر کے دارالبقا کی طرف جاری رکھے جانے والے سفر کا نقطہء آغاز ہے موت۔ زندگی نے جو صلے دیے ولولے دیے، خوابوں کو حقیقت میں بدلا اور خوشیوں کو تکمیل بخشی۔ عزیز اقارب، دوست، پیارے، دولت، عزت، کامیابیاں ٹرافیاں میڈل سرٹیفکیٹ، رول آف آنر، ڈگریاں، واہ وا۔۔۔۔۔۔جو کُچھ مِلا وُہ زمانے کو لوٹادینے کا عمل ہے موت۔ سبھی نے ایک نہ ایک دِن مرنا ہے، سکندرِ اعظم بھی مر گیا تھا۔ اُس نے اپنے دونوں ہاتھ تابُوت سے باہر رکھوانے کی تاکید کی تھی، دونوں ہاتھ خالی تھے۔ آدھی دُنیا کے جو خزانے لُوٹ کے لایا تھا، پُوری دُنیا کو لوٹا دیے۔

موت اٹل ہے اور خوف ایک قُدرتی احساس، اس پر مرنے والے کا شرمندہ ہونا بنتا ہی نہیں۔ صلیب پر تو یسُّوع پاک بھی مُقدّس باپ کو پُکارنے لگا تھا۔ اسی کی طرح، اسی کے ساتھ، ہر قریب المرگ انسان خُدا کی مدد، خُدا کی پناہ کے لیے اُس کی دُہائی دے سکتا ہے۔ وُہ ڈاکو جسے خُداوند یسُّوع مسیح اقدس کے ساتھ مصلُوب کِیا گیا، اُس نے اپنا کامِل کمال توکّل مُشکل کُشا اپنے خُدا کارساز و مددگار پر چھوڑ دیا تھا، اُسے اسی اِبتلا کے لمحے جِس میں وُہ مُبتلا تھا خوشخبری کے دو بول سُننے کو ملے۔۔۔۔۔۔

''اور یسُّوع نے اُس سے کہا: مَیں تُجھ سے سچ کہتا ہُوں کہ آج ہی تُو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا''۔

مُقدّس لُوقا۔۔۔۔۔۔43:23۔

اور خُدا کے مقبُول المسیح کا وعدہ پُورا ہُوا۔

مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح میں ہر مرنے والے کو یقین ہونا چاہیے کہ رحم والا کرم کرنے والا خُدا ہر خوف کو خُوشی سے بدل دے گا اور خالی ہاتھ خالی نہیں رہنے دے گا، مُرادوں ثوابوں سے بھر دے گا۔ 1006 CCC کے مُطابِق۔۔۔۔۔۔

ان سفرِ آخرت کے راہیوں کو کہ جنھیں خُداوند یسُّوع مسیح پاک کے فضل سے فیضیاب ہونے کا موقع مِلا اُن کو خُداوند خُدا کی موت میں شرکت کا اعزاز نصیب ہُوا تا کہ جب وُہ دوبارہ جی اُٹھے گا تو یہ بھی اس کے ساتھ ہی اُٹھ بیٹھیں گے۔ جس طرح اُس کی زندگی دائمی ہو گی اُسی طرح اُن کی حیاتِ نو کو بھی دوام حاصل ہو گا۔

ہم مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ ہمارے مرنے کے بعد خُداے پُرجلال ہمیں اپنی مُلاقات سے نوازے گا۔ موت نے ہماری جِن آنکھوں کو بند کر دیا تھا، اب کھُلیں گی۔ ہم جاگتی آنکھوں خُداے مہربان کا دیدار کر یں گے، اور بہُت کُچھ ہم پر روشن ہو گا۔ ہم خُدا شان والے کی بارگاہ میں اُس کے سامنے دست بستہ موجُود ہوں گے، ہم میں سے ہر ایک اپنی ہی کہانی لیے کھڑا ہو گا، اپنی اپنی محبّت پر جو خُدا باپ، بیٹے اور رُوح سے ہے مطمئن اور اپنے اپنے گُناہوں پر جو اس سے جان بُوجھ کے یا ان جانے میں سرزد ہوئے، سب پر نادم۔ تو کیا وُہ تمام اچھّائیاں، نیکیاں اور بُرائیاں بداعمالیاں کہِیں عدل کے ترازُو میں برابر برابر تو نہ تُل جائیں گی؟، شاید اچھّائیوں کا پلڑا زیادہ جھُک جائے، شاید بدیوں والا بھاری نکلے، اُف میرے خُدا! کیا بنے گا ہمارا! خُدایا مدد! خُداوندا مدد، شافع مُقدّس رُوح المدد!!! ہمارے ایسے افعال جو ہم نے خُدا کی اور ہمسایے کی محبّت میں انجام دیے یا ہمارے ایسے رویے جو اُسے اچھّے نہیں لگے۔۔۔۔۔۔ کُچھ بھی ہو سکتا ہے۔ دیدارِ الٰہی کے بعد ہی پتا چل سکے گا کہ اب ہماری دائمی ز ندگی کِس نہج پر گُذرے گی۔ پہلے تو ہوتا یہ تھا کہ ہر شخص فکر کرے گا کہ چند بے اعتدالیاں کیں یا بعض بے احتیاطیاں کر کرکے کوئی مُوذی مرض لگوا لیا یا خُودکُشیاں وُودکشیاں کر لیں،جان چھُٹ گئی، لیکن اب سُنا ہے وہاں موت شَوت آنی ہی نہیں۔ یہاں مرنا لازم تھا، وہاں جینا لازمی و ابدی ہے۔ مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح پر ہی آس بندھی ہے بس۔ وُہی جو کرے گا بھروسا ہے بہترہی کرے گا۔

بنی اسرائیل کی طرف مبعُوث کیے گئے انبیا کرام اور خُود خُداوند یسُّوع مسیح اِس تجربے، اس آزمایش کو جویومِ حساب عمل میں آئے گی انصاف کا نام دیتے رہے ہیں۔ خُدا کی نِگاہیں دُور گہرائی تک ہماری رُوح میں اُتر جاتی ہیں۔ اُس کے سامنے کوئی بھید بھید نہیں رہتا۔ سب مُلمّعے اُترے جاتے ہیں۔ وُہ جو ازلی ابدی حقّ ہے، اِنتہا کا عادل اور جو لامُتناہی سچ ہے۔۔۔۔۔۔ وُہی خُدا ہے، اور جانتا ہے کہ ہم اُس کے بندے کِس قدر کمزور و بے بس ہیں۔ اس لیے وُہ خُود ہی اِس حقیقت کا جو اسی کی پیدا کی ہوئی حقیقت ہے، اُ س کا لحاظ، پاس رکھے گا۔ وُہ انتہائی رحم کرنے والا، بڑا ترس کھانے والا، شفیق و مہربان خُدا ہے۔ اسے خُوب معلُوم ہے کہ آیا ہم پُوری عاجزی اور مسکینی سے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہیں اور آیندہ را احتیاط کا وعدہ کرتے ہیں یا پِھر اُسی پر ہی سب کُچھ چھوڑ دیتے ہیں کہ وُہ رحیم ہے تو رحم بھی کرے گا، کریم ہے تو کرم بھی کرے گا اور جب وُہ توبہ کروانے پر بھی قادر ہے تو پِھر درگُذر سے بھی وُہی کام لے گا۔

روزِ جزا و سزا فیصلے سُنا دیے جائیں گے، صلے یا سزائیں! رحمت یا لعنت! باپ ابراہیم کی گود مُبارک یا پِھر بھڑکتی آگ کے لپکتے شُعلوں کی خاکستر کر دینے والی لپیٹ؟ حمدیہ گیت یا بَین، ماتم، رونا پیٹنا اور دانتوں کا بجنا؟

''مگر بادشاہی کے فرزند باہر کے اندھیرے میں ڈالے جائیں گے، وہاں رونا اور دانتوں کا بجنا ہو گا''۔

مُقدّس متی۔۔۔۔۔۔12:8۔

بیاہ پر دھمالوں والی خُوشی یومِ عدالت فیصلے کا حصّہ بنے گی یا پِھر مقفّل دروازوں پر بے سُود کی دستک کی سزا سُنائی جائے گی؟ یہ قصّہ در اصل کُچھ یُوں ہے کہ۔۔۔۔۔۔

''تب آسمان کی بادشاہی اُن دس کنواریوں کے مانند ہو گی جو اپنی مشعلیں لے کر دُولھا کے استقبال کو نکلیں۔ ان میں پانچ بے عقل اور پانچ عقلمند تھیں۔ جو بے عقل تھیں اُنھوں نے مشعلیں لے لیں پر تیل اپنے ساتھ نہ لیا، مگر عقلمندوں نے اپنی مشعلوں کے ساتھ اپنی کُپّیوں میں تیل بھی لے لیا۔ جب دُولھا نے دیر لگائی تو سب اُونگھنے لگیں اور سو گئیں۔ آدھی رات کو دُھوم مچی کہ دیکھو دُولھا آتا ہے، اُس کے استقبال کو نکلو۔ اس پر وہ سب کنواریاں اُٹھ کر اپنی مشعلیں دُرُست کرنے لگیں اور بے عقلوں نے عقلمندوں سے کہا، اپنے تیل میں سے ہمیں بھی دو کیوں کہ ہماری مشعلیں بُجھی جاتی ہیں۔ عقلمندوں نے جواب میں کہا، شاید ہمارے تمھارے دونوں کے لیے کافی نہ ہو۔ تو بہتر یہ ہے کہ بیچنے والوں کے پاس جاؤ اور اپنے واسطے خرید لو۔ جب وُہ خریدنے گئیں تو دُولھا آ پہنچا اور وُہ جو تیّار تھیں اُس کے ساتھ شادی میں چلی گئیں اور دروازہ بندہو گیا۔ پِھر وُہ دُوسری کنواریاں بھی آئیں اور کہنے لگیں، اے خُداوند! اے خُداوند!! ہمارے لیے دروازہ کھول دے! پر اُس نے جواب میں کہا: مَیں تم سے سچ کہتا ہُوں کہ مَیں تم کو نہیں جانتا۔ اس لیے جاگتے رہو، کیوں کہ تم نہ اُس دِن کو جانتے ہو، نہ اُس گھڑی کو''۔

مُقدّس متّی۔۔۔۔۔۔1:25تا 13۔

یہی مثالیں، ہمارے احساسات کو جھنجوڑ کے رکھ دیتی ہیں۔ یہ اُن لوگوں کے سامنے دُہرائی جاتی ہیں جو صراطِ مستقیم پر چل تو رہے ہیں مگر ابھی راہ میں ہیں، اُن پریہ باتیں اثر کریں گی، جو کھو دیا اُس پر تاسُّف، جو بچ رہا ہے اس کی حفاظت کرنے لگیں گے اور ان کی زندگی میں مُثبت تبدیلیوں کو راہ ملے گی، تب ایک دن خُداوند یسُّوع المسیح کی محبّت میں پُوری طرح سرشار ہو جائیں گے۔ اس کے دیے ہوئے مذہب پر پکی طرح قائم رہتے ہوئے، اس کی رہنمائی، مدد اور اس کی طرف سے نجات کی یقین دہانی پر ایمان مضبُوط رکھتے ہوئے اُس سے محبّت اور اُس کی محبّت پر بھروسا کرتے ہوئے یہ لوگ اچھّے مسیحی، وفادار مسیحی، مومن مسیحی بن جائیں گے۔

''وہ تیرے دِین دار انسان کہ جِن کی زندگی میں انقلاب آیا

مہذّب بن گئے، طاعت میں سبقت لے گئے مِل کر

فنا کا ماس کر لیں گے جمع تاریک گوشے میں

مکاں چِھن جائے گا مل جائے گا اک گھر

درِ افلاک پہ جس کے لکھا ہے

اندر آنا

منع ہے

پرے ہٹ موت!

(پیارے مومن مسیحیوں کی یاد میں جو ہم سے بچھڑ گئے)

موت

جب کوئی انسان موت کا ہدف بنتا ہے تو وُہ اس کی دُنیاوی زندگی کا تو اختتام ہوتا ہے مگر وُہی اس کی دائمی حیات کا نقطہء آغاز بھی ہے۔۔۔۔۔۔ فانی جسم سے یعنی اس کے مسکن سے رُوح کو علیحدہ کر لیا جاتا ہے۔ ایک خاص لحاظ سے الٰہی عدالت میں رُوح کی مُلاقات خُداوند کریم سے ہوتی ہے۔ یومِ آخرت، افلاک پر، عالمِ بالا میں پاک خُداوند یسُّوع مسیح دوبارہ اپنے جلال، اپنی بزُرگی، اپنی عظمت کے اوصاف سے مُتّصِف ہوتا ہے تو وُہ تمام انسان جو مر چُکے تھے وُہ بھی دوبارہ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اب اُن کی رُوحوں نے واپس اُن کے جسموں میں آنا ہوتا ہے۔ وُہ جو راستباز، راست کردار انسان ہوں گے رُوح کا اُن کی بدلی صُورتوں اور اَوج یافتہ بدنوں کے ساتھ مِلاپ ہو گا اور وُہ جو قابلِ نفرین و ملامت انسان ہوں گے اُن کے تو اجسام دُکھ، درد، مُصِیبت و اذِیّت میں گرفتار ہوں گے وُہ بھلا رُوح کی واپسی پر اس کا استقبال کیسے کرسکیں گے، رُوح بھی مُنہ بسورتی، پیر پٹختی، چاروناچار، حُکمِ ربِّی کی اطاعت میں جا اُن میں ٹھکانا کرے گی اور اُن کے دُکھ درد، مُصِیبت، اذیّت میں کُچھ کمی کے بجاے اضافہ ہو جائے گا۔

روزِ انصاف

بڑا فرق ہے کِسی کی انفرادی پرکھ پڑتال میں یعنی فرداً فرداً کِسی کو اُس کے اعمال کو، انصاف کے ترازُو میں تولنے اور یومِ آخر کے حساب کتاب یعنی عدل و انصاف اور جزا یا سزا کے اعلان میں۔

انسان کے افعال و اعمال جو ریکارڈ کیے گئے وُہ تو سمجھیں ثُبُوت ہیں جو اکٹھے کیے گئے مگر فرداً فرداً فوری عدالتِ ربِّی کی جو حاضری ہے اس میں عقلِ کُل، عادِل، ربِّ اکبر نے فردِ جُرم قائم کرنا ہوتی ہے۔ یہاں طے پاتا ہے کہ مُدّعا علیہ کو مُنتخب مذہبی قوم یعنی مسیحی برادری میں دائمی رُکنیّت مِل پائے گی یا اُمّتِ مسیحی سے موصُوف کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خارج قرار دیا جائے گا۔

یومِ قیامت جسے روزِ عدالت بھی کہتے ہیں، اُس مخصُوص آخری دِن جو الٰہی عدالت لگنی ہے۔ اس میں بڑا فرق ہے۔ اُس دِن کُل نوعِ بشر کا حساب ہو گا۔ ہاتھ، پاؤں، مُنہ، آنکھ، ناک، کان، دِل، دماغ الغرض انسان کے انگ انگ کی گواہی میں دفترِ عمل سامنے ہو گا، ایک ایک سطر پڑھی جا چُکی ہو گی، اِنکار کِس بات کا؟ سب سچ۔ اپنے ہی جسم کے اعضا اپنے خلاف گواہی دے رہے ہوں گے۔ میدانِ حشر میں ہی حتمی فیصلے جزا یا سزا سُنا دی جائے گی۔ اُس روز انصاف کے تقاضے پُورے کرنے کے لیے دیکھا جائے گا کہ کِس نے کِس حد تک خُدا کی رضا، اُس کی خُوشنُودی کا دِل سے دھیان رکّھا، جانچا جائے گا کہ خُدا جلال والے کے احکام کی کِس حد تک تعمیل کی گئی، پرکھا جائے گا کہ اُس کی مخلُوق کے، اپنے ہمسایوں، والدین، رشتہ داروں، مُحتاجوں، ضرُورتمندوں کے حُقُوق بہتر طور ادا کیے یا نہیں؟

فرد بشر کی دُنیاوی زندگی، اُس کے معمُولات کے لمحہ لمحہ کی رپورٹ موجُود ہو گی اور اس سے پتا چلے گا کہ خُداوند یسُّوع مسیح کا ماننے والا تو وُہ تھا ہی، مگر کِس درجہ کا؟ کِس قبیل کا؟۔۔۔۔۔۔ اُسے خُداوند المسیح سے پیار تھا؟ یہ تو اُس کے اعمال ہی بتا دیں گے کہ وُہ پیار گلّیں باتِیں تھا، یا عملی۔

یومِ آخرت، دُنیا اور اس کے علائق سے کٹ جانے کا آخری دِن اور جہانِ اُخروی میں قدم رکھنے کا پہلا دِن ہو گا۔ اُسی دِن پاک خُداوند یسُّوع مسیح پِھر ظہُور پذیر ہو گا اور کاشف بنے گا خُداے لم یزال کی بادشاہی کے قیام کا جو در اصل اُ س کی بھی بادشاہت ہے بل کہ اُس کی ہی بادشاہت ہے۔

یہی وُہ دِن ہے جب سب کی سب مخلُوق اپنی مُکمَّل صُورت میں اُٹھ کھڑی ہو گی۔ خُداوند خُدا اقدس کے سامنے ساری اُمّتیں، ساری قومیں لا کھڑی کر دی جائیں گی۔ یہاں سب کے سامنے ہر بشر کا نامہء اعمال کھُلے گا۔ الٰہی عدل حرکت میں آئے گا۔ بندہ سیہ کار ہو گا تو رُوح اور کلبُوت دونوں کانپ رہے ہوں گے۔ خُداوند یسُّوع مسیح پاک کا دامن دُنیا میں جِس نے ہاتھ سے جانے نہ دیا ہو ا تو آج بھی خُداوند مُکتی داتا نے رُوحُ القُدُس کی شفاعت میں اس مسیحی مومن کو اُنگلی سے لگایاہو گا اور مُقدّس خُدا باپ راضی، رُوح اقدس مُطمئِن اور رُوح و کلبُوت پُرسُکُوت ہوں گے۔ آیندہ کی زندگی مُقدّس خُدا بیٹے کے برکت والے ساےے میں اُس کے فضل سے گُذرے گی اُس کے ساتھ ساتھ، ہمیشہ ہمیشہ ہمیشہ۔

الٰہی عدالت

دونوںجہانوں کی عظیم ترین ربّی عدالت کے فیصلے، ہر بشر کی شخصی آزادی جو اُسے بخشی گئی اور اکثر مُعاملات میں اُس کی پسند ناپسند، مرضی ، منشا اور خُود مُختاری جو دُنیاوی حیات میں اُسے عطا کی گئی، ایسے ہی عوامل کو بُنیاد بنا کر سُنائے جائیں گے۔

وُہ لوگ جنھوں نے خُدا اور اپنے درمیان قصداً و عمداً دُوریاں پیدا کر لیں اور یہ نہ محسُوس کِیا کہ۔۔۔۔۔۔ زندگی بے بندگی شرمندگی ہے، تو ایسے مُنکر لوگ پِھر بھُگتیں بھی۔ خُدا کے پسندیدہ و مُنتخب لوگوں میں اُن کا شُمار پِھر کیوں ہونے لگا۔ مسیحی قوم خُدا کی چُنی ہُوئی خاص اُمّت ہے اور خُدا سے بالارادہ دُور یہ لوگ مسیحیّت کی برکتوں سے بھی دُور کر دیے جائیں گے۔ نہ معافی، نہ بخشش۔ آگ ہی آگ:

''تب وُہ اُن سے بھی جو اُس کے بائیں ہوں گے کہے گا: اے ملعُونو! میرے سامنے سے اُس دائمی آگ میں چلے جاؤ، جو شیطان اور اُس کے چیلوں کے لیے تیار کی گئی ہے''۔

مُقدّس متّی۔۔۔۔۔۔41:25۔

یہی دوزخ ہے، نارِ جہنّم، یہی عذاب ہے!

وُہ جو خُدا کے اطاعت شعار، عبادت گُزار بندے ہیں اور مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح پر کہ وُہ اِبنِ خُدا ہے، ایمان رکھتے ہیں لیکن ابھی ان کے عقائد پکّے نہیں ہوئے جب اُن کے رِحلت کرجانے کا وقت آئے گا تو وُہ چونکیں گے۔ اپنے اس آخری سفر کے لیے تو مطلُوبہ تیّاری ابھی کی ہی نہ تھی۔ زادِ راہ جمع کرنے میں دیر ہوگئی۔ خُدا باپ، خُدا بیٹے اور رُوحُ القُدُس سے مُلاقات کے لیے اُنھیں اپنا آپ اس لائق ہی نظر نہ آئے گا۔ انھی لوگوں کے لیے خاص طور پر اعراف میں دیگر بے چاری قسم کی رُوحوں کے ساتھ اُن کی بھی رُوحوں کو رکھنے کا سپیشل اہتمام کِیا گیا ہو گا۔ ان کی ارواح وہاں انتظار کریں گی۔ وہیں ان کچّے پکّے مسیحیوں کا باطن صاف کِیا جائے گا اور مذہبی بلُوغت کو پہنچنے تک ان کی رُوحوں کو وہیں رہنا ہو گا۔ اس انتظار میں خُداوند خُدا مُقدّس کے دِیدار کی آتشِ شوق خواہ کتنی ہی بھڑکنے لگی ہو، کامل مسیحی بننے تک انتظار تو کرنا ہی ہو گا۔ کبھی دوزخ کی طرف سے گرما گرم بدبُودار ہواڑیں اور گاہے بہشت کی طرف سے آنے والی بہار آفریں عطر بیز مست کرنے والی ہوائیں۔اسی دُھوپ چھاؤں میں لمبے لمبے دِن بسر کرنا ہوں گے کیوں کہ تزکیہء نفس ضُروری ہے اور رُوحوں کی سروس ٹیُوننگ بھی۔ بِلا شُبہ یہی کفّارے میں گُناہوں سے برأت کی پہلی منزل ہے جو اعراف کہلاتی ہے۔ یہ منزل آسان ہوتے ہی یہ آس پُوری ہوتی نظر آنے لگے گی کہ بندہ خُداے مہربان کی مُکمَّل رفاقت میں پُورا پُورا داخل کر لیا جائے۔ مومن مسیحیوں کی خشوع و خضوع سے دی گئی دُعائیں، وارثین کی عبادتیں، مناجاتیں اس داخلے کے لیے۔۔۔۔۔۔ دُنیا والوں کی طرف سے سب سے بڑی استعانت ہیں۔

وُہ چیدہ و چنیدہ لوگ جو خُدا پُر تمجید کا انتخاب کہلائے اور جو مُقدّس مسیح خُداوند کی محبّت میں درجہء کمال کو پہنچے اور اُن کی پاک خُداوند کے فضل سے قلبِ ماہیت ہو گئی اُن فدایانِ یسُّوع مسیح کے لیے سَنَد یُوں عطا کی گئی:

''تب بادشاہ اُن سے جو اُس کے دائیں ہو ں گے کہے گا: آؤ میرے باپ کے مُبارک لوگو! جو بادشاہی بِناے عالم سے تمھارے لیے تیّار کی گئی ہے، اُسے میراث میں لو''۔

مُقدّس متّی۔۔۔۔۔۔34:25۔

یہ لوگ خُدا کو اُس کے اصل تجلّیات والے رُوپ میں اپنے سامنے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور اُس کا عکسِ جمیل اُنھیں اپنے آپ میں بھی دِکھائی دے گا۔۔۔۔۔۔

''وُہ رات کے وقت اُس کے پاس آیا اور اُس سے کہا: ربّی ہم جانتے ہیں کہ تُو خُدا کی طرف سے اُستاد ہو کر آیا ہے۔ کیوں کہ جو نشان تُو دِکھاتا ہے، کوئی دِکھا نہیں سکتا جب تک خُدا اُس کے ساتھ نہ ہو''۔

مُقدّس یُوحنّا۔۔۔۔۔۔2:3۔

ہمیشہ کی رفاقتِ خُداوندی اُن کے لیے خاص کر دی گئی! یہی اُن کے لیے فردوس سے بڑا انعام ہے۔

عالمِ بقا میں حیاتِ غیر فانی

جنھیں کِسی سے بھی ڈرنے، خوف کھانے کی ضرُورت نہیں، حتّٰی کہ اپنی کمزوریوں، خامیوں سے بھی گھبرانے، ہچکچانے کی کوئی احتیاج نہیں۔۔۔۔۔۔ خُدا نے بھی ایسی ہی شخصیات کے لیے چاہا تھا کہ اُنھیں اپنی قربت بخشے اِسی لیے ہم انسانوں میں سے جو جو اُسے ایسا دلیر نظر آیا اُس نے نام لے لے کر اُسے مدعُو کر لیا کہ وُہ خُدا کے ساتھ ساتھ رہنے کا اعزاز پائے۔ ایک مُکمَّل، بھرپُور زندگی، ہمیشہ ہمیش کی، آسُودگی سے پُر دائمی قیام گاہ میں استراحت و لُطفِ آسایش کے علاوہ تصوُّر سے بھی ماوریٰ مُکمَّل و بے حد و حساب امن، تنویر اور محبّت آمیز زندگی جیے چلے جانے کی نعمت مُیسّر ہو گی۔۔۔۔۔۔ شاید ہی کوئی بتا سکے کہ کیا شَے ہو گی وُہ زندگی!

٭آباے کلیسیا میں سے ایک مُقدّس ہستی سینٹ آگُسٹِین کے الفاظ میں ہے کہ۔۔۔۔۔۔

''۔۔۔۔۔۔ہم آزاد ہوں گے اور وہاں ہم دیکھیں گے

جو دیکھیں گے وُہی بھلا لگے گا

اس سے ہم محبّت کا اظہار کریں گے اور شُکرانہ بھی

آپ دیکھتے ہیں نا۔۔۔۔۔۔ دیکھ لیجیے گا

ایسا ہی ہو گا جیسا بتایا ہے اور جوہو گا وُہ جاری رہے گا

دائم دائم''۔

بنی اسرائیل کے انبیا اور مسیحیوں کے مُقدّس رسول یوحنّا اصطباغی جو عارف تھے اور انجیلِ مُقدّس کی کتابوں میں سے آخری کتاب مکاشفہ اسی کی تخلیق ہے اور اس کے مندرجات کے حوالے سے اُسے روزِ محشر کا نبی بھی کہتے ہیں۔ اس کا یہ انکشاف کہ اُس روز خُدا کا اپنے آپ کو لوگوں پر ظاہر کرنے کا عمل ظہُور پذیر ہو گا، مکاشفہ اقدس کا اہم جُزو ہے۔ ان سب رسولوں اور نبیوں نے اشارۃً کنایۃً اور بعض نے صراحت کے ساتھ بتایا ہے کہ انسان کی نئی زندگی کے رنگ ڈھنگ کیسے ہوں گے۔ اُنھوں نے فردوس کا ذِکر کِیا ہے مگر اِس طرح نہیں کہ وُہ کِسی مقام، کِسی جگہ کا نام ہے جو اُوپر آسمانوں میں بادلوں سے ورے موجُود ہے۔ در اصل جہاں خُدا ذُوالجلال ہے، وُہی جنّت الفردوس ہے اور وَہِیں اُس کے پیارے بندے رہیں گے، اس کی اُمّتِ پسندیدہ بن کر۔ وُہ جو دُنیا تھی نا، پُرانی دُنیا۔۔۔۔۔۔جُرم و عصیاں کا بھرپُور شاہکار، مکرُوہ چہروں سے بھری دُنیا، گئی، اُجڑپُجڑ گئی، ختم شُد۔ انسانیت سے ایک نئی دُنیا آباد ہو گی، عرش کے پاس یہ فرشِ نو ایک ایسی ارض ہوگی، جیسی خُداے رحمن رحیم خالق و مالک اسے دیکھنی چاہے گا۔ انسانوں کو مختار کِیا تھا اُنھوں نے تو پہلے والی زمین کا حشر ہی کر دیا، اب ایسا نہ ہو گا۔وُہ بڑا کارساز، حافظ و ناصر اور حفیظ ہے۔ کُچھ بھی اُس کی دسترس سے باہر نہیں۔ یہ نئی دُنیا بھی منوّر و تاباں ہو گی، خُدائی نُور سے جگمگاتی ہوئی، اور نُور کی کرنیں جِس منبع سے اُس تک پہنچیں گی وُہ منبع ہو گا خُود خُداوند پاک یسُّوع مسیح۔اک نیا زمانہ، نئی دُنیا یکسر نئے حالات، نئی مصرُوفیات جِس میں اُمّتِ مسیحی، اس کی اپنی پیاری اُمّت، سب کے سب مسیحی اُس کے پاس ہوں گے، اسی کے ساتھ رہیں گے، وِصالِ خُداوندی کی تجلّیات سے مالا مال ہر دم نہال، دیدارِ الٰہی سے آنکھوں میں ٹھنڈک، نُورِ جمال، وُہی نُور ہی نُور وُہی زندگی۔ پس سُورج، چاند، ستارے کِس کام کے، ان کی کیا ضرُورت، ان کی کیا مجال۔

وہاں نیا ایک مُبارک شہر آباد ہوگا، نیو یروشلم، وہاں مٹّی، گارا، چُونا، پتھّر کے مکانات نہ ہوں گے، نہ ہی ہیکل اور گرجا گھر جہاں خُدا مِلتا تھا۔ خُدا تو ہر جگہ موجُود ہے، وُہ تو رہتا ہی ہم میں ہے اور ہم اُس کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ دِل، اسی کا ہی تو گھر ہے میرا دِل، آپ کا دِل، اِس کا دِل، اُس کا دِل، سب کے دِلوں میں ربّ ہی ربّ ہے۔ بچپن میں ایک شعر اور پِھر جواب الجواب سُناتھا، آپ بھی لُطف اُٹھائیے۔۔۔۔۔۔

 

زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر

یا وُہ جگہ بتا دے جہاں پر خُدا نہ ہو

 

پینی ہے گر شراب تو کافر کے دِل میں پی

یہی تو وُہ جگہ ہے جہاں پر خُدا نہیں

 

نئی الٰہی دُنیا کی نئی ثمردار سرزمین ہو گی جِس کے سلسلے میں بائبل مُقدّس میں کتنی ہی کہانیاں اور مثالیں موجُود ہیں۔۔۔۔۔۔ وُہ دُنیا ایسی ہو گی کہ جہاں۔۔۔۔۔۔

''بھیڑیا بِرّے کے ساتھ رہے گا اور چِیتا حَلوان کے ساتھ بیٹھے گا، اور بچھڑا اور شیر بچّہ اکٹھّے بسیں گے اور ایک چھوٹا بچّہ اُن کی ہدایت کرے گا۔ گاے اور ریچھنی اکٹھّی چریں گی اور اُن کے بچّے اکٹھّے رہیں گے اور شیر بَیل کی طرح بھُوسا کھائے گا اور شیر خوار بچّہ افعی کے بِل کے پاس کھیلے گا اور دُودھ چھڑایا ہُوا لڑکا اجگر کے سُوراخ میں ہاتھ ڈالے گا''۔

اشعیا۔۔۔۔۔۔6:11تا 8۔

تب لوگوں پر کھُلے گا کہ بندہ صحیح معنوں میں انسان بن چُکا ہو گا، مُکمَّل انسان، اعتبار، دیانتداری اور کُلِّیّت میں۔ نیا جہانِ بقا بیماروں سے خالی ہو گا۔ فنا وہاں کی کِسی بھی شَے، جِنس یا ذات پر حاوی نہ ہو گی۔ کوئی ذِی رُوح تنہا نہ ہو گا۔ خُدا نے بھی بڑا تنہا رہ لیا اب وُہ اپنے بندوں، مومن مسیحیوں کے بیچ رہے گا، پِھر وُہ کِسی کو کِسی طرح بھی رنجیدہ ہونے دے گا بھلا؟ وہاں تو نہ کِسی آنکھ میں کبھی آن;سُو بھر بھر آئیں گے! نہ کوئی پلک بھیگے گی، نہ نِیر بہیں گے۔ نفرت کی اس جہانِ نو میں کوئی گُنجایش نہیں۔ وہاں نہ کوئی پرخاش نہ زر زمین زن کے تنازُع، نہ کِسی سے دُشمنی اور نہ ہی کِسی کا استحصال۔

ہر طرف امن، ہر کِسی کو امان اور چہار بلکہ شش سُو پیار ہی پیار ہو گا۔

نیا جہانِ بادشاہت ہو گا پاک خُداوند ہمارے خُدا یسُّوع مسیح کا۔

عالمِ بالا پر اُس کے نام کی تمجید ہو!

۔۔۔۔۔۔آمین!

وُہ الفاظ کہاں سے لائیں جو خُداوند یسُّوع مسیح پاک کی بادشاہی کی پُوری پُوری تفصیل سامنے لا سکیں۔۔۔۔۔۔ بائبل مُقدّس سے مدد لیتے ہیں:

''تب اندھوں کی آنکھیں بِینا کی جائیں گی۔ اور بہروں کے کان کھولے جائیں گے۔ تب لنگڑا آدمی ہرن کی طرح کُودے گا اور گُونگے کی زُبان گِیت گائے گی۔ کیوں کہ پانی بیابان میں اور دریا جنگل میں پھُوٹ نکلیں گے''۔

اشعیا۔۔۔۔۔۔5:35تا7۔

 

''اور وُہ بہُت سی اُمّتوں کے درمیان عدالت کرے گا اور دُور کی طاقت ور قوموں کا اِنفصال کرے گا تو وُہ اپنی تلواروں کو تور کر پھالیں اور نیزوںکو درانتیاں بنائیں گی۔ پِھر قوم قوم پر تلوار نہ اُٹھائے گی اور وُہ پِھر کبھی جنگ کرنا نہ سیکھیں گے۔

تب ہر ایک آدمی اپنی تاک اور اپنے اِنجیر کے درخت کے نیچے بیٹھے گا اور کوئی اس کو نہ ڈرائے گا، اِس لیے کہ ربُّ الافواج نے اپنے مُنہ سے یہ فرمایا ہے''۔

مِیکا۔۔۔۔۔۔3:4اور 4۔

 

خُداوند کریم خُود افسُردہ انسان کی آنکھ سے آنسُو پُونچھ ڈالے گا، آخری آنسُو کہ آیندہ آنکھیں کبھی نم آلُود نہ ہوں گی۔ جو ہو چُکا، بس ہو چُکا۔ آیندہ کے لیے راوی چین لکھتا ہے۔۔۔۔۔۔

''اور وُہ اُس کا چہرہ دیکھیں گے اوراُس کا نام اُن کی پیشانی پر ہو گا۔

اور پِھر رات نہ ہوگی اور وُہ چراغ اور سُورج کی روشنی کے محتاج نہ ہوں گے کیوں کہ خُداوند خُدا اُن کو روشن کرے گا اور وُہ ابدالآباد تک بادشاہی کرتے رہیں گے''۔

مکاشفہ۔۔۔۔۔۔4:22اور 5۔

مُقدّس یوحنّا عارف و صاحبِ کشف نے نئے عہد نامہ کی آخری کتاب مکاشفہ جِس میں ان الہام و کشف و رؤیا کی رُوداد بیان کی گئی ہے جِن کا ابلاغ اس پر جزیرہ پتموس میں ہوتا رہا۔ کشفی طریقہ سے ربّی اَسرار مُقدّس یوحنّا پر ظاہر کیے گئے، مثلاً خُدا باپ کا پوری کائنات میں بول بالا ہونا اور اس کے بیٹے یسُّوع المسیح کا فتحمند ہونا بمقابلہ بدی کی طاقتوں کے اور اس کو جلال دیا جانا۔ اسی طرح اُن بھیدوں سے بھی پردہ اُٹھاجو خُداوند قُدُّوس یسُّوع مسیح میں دائمی نجات پر منتج تھے۔ اور وُہ راز بھی مُقدّس یُوحنّا اصطباغی پر کھُلے جو اُن لوگوں کی سعادتمندی کا انعام تھے کہ اُن کا اُٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، بولنا سُننا، حتّٰی کہ پُوری زندگی، ابدی زندگی سمیت، خُداے عظمت و بزُرگی و محبّت والے کے ساتھ گُزاری جائے گی۔۔۔۔۔۔ فضل کی بدولت:

''ہمارے خُداوند یسُّوع مسیح کا خُدا اور باپ مُبارک ہو جِس نے ہم کو مسیح میں ہر طرح کی آسمانی برکاتِ رُوحانی سے برکت بخشی ہے۔

اُسی نے ہم کو بِناے عالم سے پیشتر اُس میں چُنا تا کہ ہم اس کی نِگاہ میں محبّت میں پاک اور بے عیب ہوں۔ اُسی نے اپنی مرضی کے نیک ارادے کے مُوافق یسُّوع مسیح میں متبنّٰی ہونے کے لیے ہمیں پیشتر سے مقرّر کِیا ہے تا کہ اس کے اُس جلالی فضل کی تعریف ہو جو اُس نے ہمیں المحبوب میں عطا فرمایا۔ اسی میں ہمیں اُس کے خون کے وسیلے سے مخلصی یعنی گُناہوں کی مُعافی حاصل ہے اور یہ اُس کے اُس فضل کی دولت کے موافق ہے، جو اُس نے ہر طرح کی حکمت اور دانائی کے ساتھ افراط سے ہم پر نازل کِیا جب اُس نے اپنی مشیّت کا بھید ہم پر ظاہر کِیا یعنی اپنا وُہ نیک اِرادہ جو اُس نے اپنے آپ میں ٹھہرایا تھا۔ تاکہ زمانوں کے پُورے ہونے پر ایسا انتظام ہو کہ جو کُچھ ہے، کیا آسمان میں کیا زمین میں، سب کو مسیح میں سراسر ایک بنائے۔

اُسی میں ہم بھی اُس کے ارادے کے موافق جو اپنی مرضی کی مصلحت سے سب کُچھ کرتا ہے، پیشتر سے مقرّر ہوئے تا کہ ہم جو پہلے مسیح کی اُمِّید میں تھے اُس کے جلال کی ستایش کا باعث ہوں۔ اُسی میں تم بھی جب تم نے حق کے کلام یعنی اپنی نجات کی اِنجیل کو سُنا اور اُس پر ایمان لائے۔ اس معہُودہ رُوحُ القُدُس سے مہر کیے گئے جو ملکیّت کی خرید کے لیے ہماری میراث کا بیعانہ ہے تا کہ اُ سکے جلال کی ستایش ہو''۔

افسیوں کے نام۔۔۔۔۔۔3:1تا14۔

(From : I Believe. Small Catholic Catechism Konigstein i.T: Kirche in Not, 2004, S 105-113)

۔٭۔

 

 

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?