German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

مذہبی آزادی ووسیع النظری تکسیریّت

 

۱۔مسلم سوالات 

٭اگر خُدا نے سبھی انسانوں کو ایک ہی سی فطرت سے سرفراز فرمایا ہے تو پھر انسانیت اتنے ڈھیر سارے مذاہب میں کیوں تقسیم ہو گئی؟ 

٭مسیحیت کا دعویٰ تو ہے ہی لیکن تمام کے تمام مذاہب بھی تو عالمگیر مذہب ہونے کے دعویدار ہیں۔ مذاہب مختلف بھی ہوں اور عالمگیر بھی؟ ایک ہی مذہب ہو سکتا ہے جو عالمگیریت کی تعریف پر صادق آتا ہو۔ باقی مذاہب تو بس یہ کہہ سکتے ہیںکہ ہم جُزوی طور پر یا کِسی حد تک کِسی زمانے میں وقتی طور پر بعض صداقتوں کے حامل رہے ہوں تو رہے ہوں، عالمگیر مذہب تو ایک ہی ہو سکتا ہے، جو بھی ہو، وہی حق پر اور وہی سچا مذہب ہے۔ 

٭کیا یہ بہتر نہِیں ہو گا کہ بندہ تمام مذاہب کے ایک مُرکّب کو ہی یونیورسل مذہب کے طور پر اختیار کر لے؟ 

٭چرچ کی طرف سے آج کل مذہبی آزادی پر بڑا زور ہے، اِن دنوں ہی اِس کے بڑے تذکرے ہیں ورنہ پہلے تو ایسا کم کم ہی دیکھنے کو ملا۔ زمانہءماضی میں تو چرچ کی رِیت رہی کہ استعماریت اور نوآبادیاتی نظام کواِس نے اپنے مفاد میں خوب خوب استعمال کِیا، اور جب دیکھا کہ یُوں تو کوئی خاص بات نہِیں بن پا رہی تو اب زمانہءحال میں وہ بڑا حمایتی بن گیا ہے مذہبی آزادی کا، یُونہی ہے نا؟ 

٭جہاں تک تو اُصُول کی بات ہے، مذہبی آزادی والی بات ٹھیک ہے، ہونی چاہیے، مگر یہ بتائیں کہ آیا لوگوں کو اِس امر کی اجازت ہو گی کہ اپنے مذہب، جس کو کہ وہ اب تک سچّا مانتے رہے، اُس سے مُنہ موڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کر لیں؟ کیا مذہبی آزادی کا اُصُولی موقّف ایک خطرے کو تشکیل نہِیں دے رہا جس سے دُنیا کے تمام مذاہب اِس کی زَد میں آ گئے ہیں؟ 

۲۔مسلم جائزے 

عام طور پر تو یُوں ہے کہ

۱۔مسلمانوں کے نزدیک صراطِ مستقیم ہے اسلام، مُکمّل اور دائم قائم رہنے والامذہب ہے، اس نے سمو لی ہیں اپنے اندر دوسرے مذاہب کی تمام وہ باتیں جن کی ذرا بھی قدر وقیمت ہو، اہمیت ہو، افادیت ہو، روایتی اصطلاحوں پر مبنی فکر اورسوچ رکھنے والا ہر مسلمان اچنبے میں پڑ جاتا ہے، جب دیکھتا ہے کہ ورُودِ اِسلام کے بعد بھی تختہءگیتی پر یہود ونصاریٰ موجود ہیں۔ اسلام کی آمد کے ساتھ ہی یہ دونوں مذہب اصولاً تو اپنا وُجُود لازمی طور کھو چکے تھے، بے موقع، بے مقصد ہو گئے تھے۔ صیہونیت اور مسیحیت تو بس ایک خاص وقت میں خاص علاقہ کے لیے جُزوی صداقتوں میں گُندھے دینِ الٰہی تھے، جو اپنی مُدّت پوری کر گئے۔ اِن کا مقصد اشتمالی معاشروں کی اصلاح تک محدود تھا، سو وہ پورا ہُوا۔مسلمانوں کے مُطابِق اِسلام سے ہٹ کر کِسی مذہب کی کوئی حیثیت نہِیں، پس یہ فقط آفاقی مذہب اِسلام ہی ہے جسے واقعی عالمگیریت کی صفت حاصل ہے۔ 

۲۔مذہب کے نام پر لڑی جانے والی جنگیں ایک تاریخی حقیقت ہیں، گذشتہ ادوار میں اسلامی اور صلیبی دُنیاﺅں میں یہ جنگ چھڑی رہی، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مسیحی فرقے برسرِپیکار رہے، حد یہ ہے کہ مذہب کے نام پر آج بھی خون خرابہ جاری ہے، لبنان، شمالی آئرلینڈ، جزائر فلپائن اور سوڈان وغیرہ میں تصادمات زمانہءحال کی زِندہ مثال ہیں۔ 

۳۔سامراجیت، استعماریت اور قوم پرستی کا مسیحیت کے ساتھ جو چولی دامن والا رشتہ ہے اُسے اکثر مسلمان پایہءثبوت کو پہنچی ہوئی صداقت کا درجہ دیتے ہیں۔ 

۴۔تبدیلیِ مذہب کا حق تسلیم نہِیں کِیا جا سکتا۔ بچہ اپنے دِین پر پیدا ہوتا ہے اور وہ دِین اُس کے خاندان اور معاشرے میں رائج ہوتا ہے جس میں اُس نے آنکھ کھولی اور اُسے اُسی دِین پر قائم رہنا ہوتا ہے کیوںکہ اِس سے فرد کی ذاتی، اجتماعی اور قومی شناخت تشکیل پاتی ہے۔ مذہبِ اسلام میں داخل ہونے کے عمل کو استثنیٰ حاصل ہے۔ کیوںکہ قبولیتِ اِسلام کے باوصف، اُس کے وسیلے سے آپ اسلامی معاشرت کا حصہ بنتے ہیں، ایسے نظامِ مِلّت کو اپناتے ہیں جو تمام دوسری شناختوں کو ختم کر کے مِلّتِ اسلامی کی آپ کو مربوط ومضبوط پہچان عطا کرتا ہے۔ 

تفصیلاً یُوں ہے کہ

۱۔قرآنِ مجید میں جابجا اِس مشیتِ ایزدی کا ذِکر پھیلا ہے کہ سب لوگ اِتّفاق کر کے ایک ہی دینی معاشرت میں ڈھل جائیں، یعنی ایک ہی اُمّہ، اللہ تعالیٰ نے شروع سے ہی اِسی بات کو پسند فرمایا۔ لیکن.... لوگ جلد ہی مختلف مذاہب میں منقسم ہوتے چلے گئے، اِس دعوے کے ساتھ کہ فقط وہی مذہب صحیح، سچّا اور اصل مذہب ہے جس کے وہ پیروکار ہیں۔

”ہمارے نزدیک چُوں کہ مالِ دُنیا کی حےثےت ایک پرِ کاہ کے برابر بھی نہیں ہے، چُناں چہ اگر طمع میں آکر سبھی لوگوں کے کافرہو جانے کا یقینی اندیشہ نہ ہوتا تو ہم کافروں کے گھروں کی چھتیں اور اُن چھتوں پر چڑھنے کی سیڑھیاں چاندی کی بنا دیتے “۔

(القرآن، سورة الزخرف :33)  

”یہ سب انبیاکی جماعت تمھاری ہی ایک جماعت ہے اور مَیں تمھارا رب ہُوں ، تو میری ہی عبادت کِیا کرو “۔

(القرآن، سورة الانبیا:92)  

”اگر تمھارا رب چاہتا تو تمام بنی نوعِ انسان کو ایک ہی مِلّت بنا دیتا، مگر چُوں کہ وہ ایسا نہیں چاہتا ، اِس لیے وہ ہمیشہ آپس میں اختلاف ہی کرتے رہیں گے“۔

(القرآن، سورة ہود:118)  

” تمام انسانی نسل ایک ہی اُمّت ہُوا کرتی تھی۔ پِھر وہ مختلف ہو گئی اور اگر تمھارے پروردگار کی طرف سے کوئی بات پہلے ہی طے نہ ہو چکی ہوتی تو اُن کے باہمی اختلاف کا کب کا فیصلہ کر دِیا جاتا “۔

(القرآن، سورة یونس :19)  

۲۔حتمی اگر کوئی دِین ہے تو وہ دِینِ اِسلام ہے، ہر لحاظ سے مُکمّل، سب میں ممتاز، آخری اور عالمگیر، اِس کی دعوت حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے دی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین تھے، آخری نبیصلی اللہ علیہ وسلم۔ حصولِ نجات کے لیے اسلام ہی ہے جسے قبول کرنے کی دعوت حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے دی۔

”اﷲ کے نزدیک اطاعت گُزاری ہی دِین ہے ۔اہلِ کتابِ سابِق، جو عِلم آجانے کے بعد بھی اختلاف میں پڑ گئے تو ایسا اُن کی اپنی اپنی بے جا ضد کے باعث ہُوا ۔ جو شخص اﷲ کی آیتوں کا ، کسی بھی وجہ سے، انکار کرے ، اﷲ ، بہ ہرحال، بہت جلد حساب میں گھسیٹنے والا ہے “۔

(القرآن، آلِ عمران:19)  

اللہ ہی ہے جس نے اپنے پیغمبر کو بھیجا، ہدایت کے ساتھ، دِینِ صادق کے ساتھ، اور دیگر تمام ادیان پر عمل پیرا لوگوں کو اِس اللہ کے پسندیدہ دِین میں داخل ہونے کی دعوت کے ساتھ، چاہے مشرکین کو بُرا ہی لگے۔ 

 وہی تو ہے جس نے اپنے رسُول کو ضابطہءرہنُمائی اور سچّا دِین دے کر بھیجا ہے، تاکہ اُس کو تمام اَدیان پر غالب کر ے۔ اگرمُشرِک بُرا مانتے ہیں تو مانا کریں۔

(القرآن، سورة التوبہ:33)  

وہی تو ہے جس نے اپنے رسُول کو مبنی بر حق دِین د ے کر بھیجا، تاکہ اِسے تمام ادیان پر فتح عطا کرے، خواہ بُت پرست بُرا ہی کیوں نہ مانیں ۔

(القرآن، سورة الصف :9)  

منطقی اعتبار سے یہی حتمی بات ہے کہ اِسلام اور اِس کی دعوت سب کے لیے عام ہے، سب کے لیے، تمام انسانیت کے لیے:۔

اے میرے رسُول! کہہ دو کہ مَیں تم سب کی طرف اﷲ کا بھیجا ہُوا ہُوں۔ جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ اِس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہی حیات دیتا ہے وہی موت دیتا ہے۔ تو اﷲ پر ایمان لاﺅ اور اﷲ کے رسُول پر ایمان لاﺅ، جو نہ پڑھنے کا محتاج ہے نہ لکھنے کا، اور جواﷲ پر اور اُس کے کُل کلماتِ کلام پر ایمان رکھتا ہے، اُس کی پیروی کرو، تاکہ حُسنِ اتّفاق سے راہِ راست پر آسکو۔

(القرآن، سورة الصف:158)  

۳۔قرآن مجید کا یہ اُصُولی دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے یا نہ لانے کا ہر ذی بشر کو اختیار حاصل ہے۔

اور اگر یہ تمھارا انکار کریں تو اُن سے کہہ دو کہ تمھارے اعمال تمھارے ساتھ، میرے اعمال میرے ساتھ،تم مےرے اعمال سے بری اور مَیں تمھارے اعمال سے بری۔ اور اُن میں بعض ایسے بھی ہیں جو تجھے سُنتے ہیں، لیکن کیا تم دِل کے بہروں کو سمجھا سکو گے جب کہ وہ کُچھ بھی سُو جھ نہ رکھتے ہوں؟اور اُن میں بعض ایسے بھی ہیں جو تمھاری طرف دیکھتے ہیں، تو کیا تم عقل کے اندھوں کو رستہ دِکھا سکتے ہو، جب کہ وہ کُچھ بھی سمجھ نہ سکتے ہوں۔ اﷲ تو لوگوں پر ظُلم نہیں کرتا، لوگ خُود ہی اپنے اُوپر ظُلم کرتے ہیںاور جس دِن اﷲ اُنھیں اِکٹھے جمع کرے گا تو اُنھیں ایسا لگے گا جیسے دُنیا میں گھڑی پَل سے زیادہ رُکے ہی نہیں تھے۔ یہ ایک دُوسرے کی پہچان بھی کریں گے۔ جن لوگوں نے اِس حقیقت کو کہہ ایک دِن اﷲ کے حضُور پیش ہونا ہے، جُھٹلایا، وہ نُقصان میں پڑ گئے اور اِس کی رہنُمائی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

(القرآن، سورة یونس:40-45)  

کہہ دو کہ ہر شخص اپنے طور طریق کے مُطابق عمل کرتا ہے ، سو جو شخص سیدھی راہ پر ہے، تمھار اپروردگار اُس سے برابر واقف ہے۔

(القرآن، سورة بنی اسرائیل:84)  

اِس کے ساتھ ایک اور اُصُول بھی ہے جس کا فی زمانہ بہُت پرچار کِیا جا رہا ہے، ’دِین میں کوئی جبر نہِیں‘ یہ من چاہے کا سودا ہے۔

دِین میں کسی کو کسی پر زبردستی کی اجازت نہیں دی گئی۔ ہدایت، گُمراہی سے یقینا، واضح طور پر، الگ ہو چکی ہے، پس جو شخص جھُوٹے دیوتاﺅں کوٹُھکرا کر ایک اﷲ پر ایمان لے آیا، اُس نے یقینا اﷲ سے مضبُوط رشتہ جوڑ لیا، جو ہر گز ہر گز ٹُوٹنے والا نہیں اور اﷲ سُننے اور جاننے والا ہے۔

(القرآن، سورة البقرة:256)  

 اِس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ یہودی اور عیسائی جو اہلِ کتاب ہیں اُن کو ایک درجہ دِیا گیا ہے، ذمّیوں کا درجہ، اُن کی حفاظت کا ذِمّہ مسلم ریاست پر فرض کر دِیا گیا ہے۔ وہ اپنے مذہب پر قائم رہ سکتے ہیں، عیسائیت کو یہ آزادی دے دی گئی ہے کہ وہ اپنے کلیسائی نظامِ مراتب اور اپنی مذہبی رُسُوم کو جاری رکھ سکتی ہے۔ البتہ اُنھیں جزیہ یعنی علیحدہ سے ایک طرح کا ٹیکس ضرور ادا کرنا ہو گا اور وہ اقلیت کے دائرے میں اپنی زِندگی گُزار سکتے ہیں۔ مطیع رہیں اور کھُلے عام اپنے دِین کا پرچار نہ کریں۔ 

”جو اہلِ کتاب ہوتے ہوئے اﷲ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جن چیزوں سے اﷲ اور اِس کے رسُول نے منع کِیا ہے ، اُ ن سے منع نہیں ہوتے اور نہ سچّائی کے دِین کی پیروی کرتے ہیں ،اُن لوگوں کے خلاف یہاں تک جنگ کرو کہ خُود ہی اِس حد تک گِر جائیں کہ جز یہ دیناقُبول کر لیں “۔

(القرآن،سورة التوبہ:29)  

 ایک مسلمان جو مرتد ہو جائے، چاہے کوئی اور مذہب اختیار کر کے، یا اپنے کِسی عمل سے یا گفتار سے دِینِ اِسلام کی اہانت پر اُتر آئے، اُس پر ارتداد کا فتویٰ لاگو ہو گا اور اُس پر خُدا کی لعنت ہو گی۔

اور جو لوگ اﷲ اور آخرت پر ایمان لائے ، پھر مُنکِر ہوگئے ، پھر ایمان لائے ، پھر مُنکِر ہو گئے، اور پھر انکار ہی میں بہُت آگے نکل گئے ۔اﷲ نہ تو اُنھیں بخشے گا اور نہ سیدھا رستہ ہی دکھائے گا۔

(القرآن،سورة النسا :137)  

 اور یہ وہی لوگ ہیں جن کے دِلوں ، کانوں اور آنکھوں پر ، اﷲ نے، سوچنے ، سمجھنے اور رہنُمائی حاصل کرنے کے حوالے سے، پابندی لگا رکھّی ہے۔ یہ لوگ غفلت کا شکار ہیں۔

  (القرآن،سورة النحل :108)

 مرتد کی بس ایک ہی سزا ہے، موت۔

اور جو کوئی تم میں سے اپنے دِین سے پھِر گیا اور مُنکر ہی مرا، اُس کے اعمال دُنےا و آخرت میں اکارت گئے۔ تو ایسے لوگ بجا طور پر مُستقل دوزخی ہیں۔

(القرآن،سورة البقرة:217)

(اِس کی تفسیر کے مطابق ہی مسلسل قاضی ومفتی صاحبان اِس کی تشریح وپابندی کرتے چلے آئے ہیں، اور اس کی تفسیر کو اکثر احادیثِ مبارکہ سے بھی تقویت حاصل ہے)۔ ۴۔زمانہءحال میں سبھی اسلامی ممالک نے اپنے مندوبین کے ذریعے اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حُقُوق میں مذہبی آزادی کے اُصُول کو قبولیت کی سند دے رکھی ہے۔ اس اُصُول کو عالمی اعلانِ انسانی حُقُوق میں وضع کِیا گیا تھا (آرٹیکل 18میں فکری آزادی، ضمیر کی آزادی اور مذہبی آزادی کی تاکید کی گئی ہے)۔ اِن ممالک نے بہرحال اپنے اصل دِین سے کِسی بھی شخص کے منحرف ہونے پر قدغن لگا رکھی ہے، یعنی دِینِ اِسلام سے پھرنے کی اجازت کِسی کو نہِیں۔ 

۵۔عصری ثقافتی حوالوں سے اور نظریاتی تکثریت کے لحاظ سے یعنی کِسی بھی معاشرے کی ایسی نوعیت کہ جس کے اندر مختلف لسانی، معاشرتی اور ثقافتی مفادات موجود ہوں اور آپس میں مِل کر مجموعی ترقّی کر رہے ہوں، جب مسلمانوں پر اُن کی افادیت کھُلی تو اکثریت نے ایسے رویّوں کی پذیرائی کرتے ہوئے کہ یہ مغرب میں اپنا اچھا تاثّر محکم کر چکے تھے، خُود بھی متفقہ طور مان لیا کہ تمام لوگوں کو اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کی اجازت ہونا چاہیے۔ دیگر مسلمانوں نے بھی تسلیم کر لیا کہ تمام مذاہب کو ایک جیسا درجہ حاصل ہے اور مزید برآں یہ کہ اسلام اور مسیحیت ایک دوسرے کے ساتھ جڑے جڑے سے مذاہب ہیں، بھلے تعلیمات کے لحاظ سے اِن میں مشابہت کا فقدان مشاہدے میں آتا ہو، اِن کے آپس میں نزدیکی تعلُّق سے اغماز نہِیں برتا جا سکتا۔ ایسے خیالات وبیانات کے باوجود مذہبی معاملات میں اگر ایک دوسرے کی طرفداری نہِیں کرتے تو مخالفت بھی نہِیں کرتے، اجتناب برتتے ہیں، بل کہ آپس میں ایک برادرانہ رویّے کے موید ہیں اور مذہبی معاملات میں چھیڑ چھاڑ سے پرہیز کرتے ہوئے مِل جُل کر بل کہ گھُل مِل کر رہتے ہیں۔ ایک ہی ہمہ گیر مذہب کے بارے میں بھی کئی مسلمانوں کی تائید سامنے آئی ہے باوجودے کہ عملی طور پر تو ایک طرح کی توافقیت ہی ہو گی۔ قصہءمختصر، مسلمانوں کی اکثریت اِس بات پر آمادہ ہے کہ تمام مذاہب مثلاً مسیحیت اور اسلام ہی کو لے لیجیے، اِن میں جھوٹ، تعلّی، بدنیتی اور بناوٹ سے پاک مکالمہ وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے، سمجھنے او ربرادرانہ تعلُّقات قائم کرنے کی مساعی کو تقویت ملے اور پھر خُدا پر چھوڑ دِیا جائے کہ ساتھ ساتھ جینے کا جو سفر ہے اُس کی رضا سے احسن طور اور بآسانی جہاں تک ہو سکتا ہو طے پاتا رہے۔ مفیدِ مطلب بات یہ ہونی ضروری ہے کہ خُدا پر ایمان کے بارے میں دونوں طرف سے باہمی تائید وتصدیق دُنیا کے سامنے آنی چاہیے۔ 

۳۔مسیحی جائزے 

۱۔یہی خُداوند حضرت یسوع مسیح کا دعویٰ رہا اور عمل بھی کہ انسانوں کے لیے خوشخبری ہو خُدا نے تمام انسانوں کے لیے اپنے آپ کو ظاہر کِیا تو ایک مہربان باپ کی صُورت، سراسر بے کراں اور غیر مشروط محبت کے ساتھ، اور وہ محبت خاص کر دی گئی اُن کے لیے جو ذِلتوں کے مارے لوگ تھے، تہی دست واہانت چشیدہ لوگ، گنہگار، دھتکارے ہوئے بے وقعت انسان، مظلوم ومجبور، علیل ومقہور، جبر واستبداد تلے پسے ہوئے لوگ، اُن ہی کو محبتِ پد ری کا زیادہ حقدار ٹھہرایا گیا، یہی خُداوند کی منشا رہی کہ وہ اپنی بھیڑوں کو اکٹھا کرے اور سبھی بھیڑوں کو اپنی محبتِ خُداوندی سے سرشار ونہال کر دے۔ پوری انسانیت کے لیے برکت ہو، اور اُن میں بھی بطورِ خاص غریبوں کو، ناداروں کو، بے کسوں کو، جس کا کوئی نہِیں اُس کا حضرت یسوع ہے۔ سب کو خُدا کی سلطنت میں سما جانے کی دعوتِ عام ہے، تاکہ وہ اقلیمِ محبتِ خُداوندی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آ بسیں۔ 

۲۔نئے عہد نامہ میں شروع شروع کے رسولی کلیسیا کے اِس عقیدہ کے تصدیق کی گئی کہ خُداوند حضرت یسوع مسیح جو خُدا کا کلام ہے، وہی ارفع واعلیٰ، حتمی وقطعی، معتبر ومعین خُدا ہے جس نے اس دُنیا میں نزول فرمایا۔ حضرت یسوع مسیح میں خُدا سب سے مخاطب ہے، اِسی لیے مسیحیت اپنی ماہیت میں عالمگیر ہے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ آغازِ مسیحیت سے ہی کلیسیا پر واضح ہو گیا تھا کہ اُس کے ذِمّہ جو پیغام، دعوت اور خدمت ہے وہ کُل انسانیت کے لیے ہے۔ کلیسا آفاقی محبتِ خُداوندی کا پرچارک ہے اور امن، عفوودرگذر ومُعافی سے اِس کا خمیر گندھا ہے۔

 (.2قرنتیوں کے نام 18:5تا 21، افسیوں کے نام 11:2تا12) 

۳۔تاریخی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو رسولوں کا پختہ تر ایمان اور اُن کی مادّی وروحانی قُوّت اِس کا سبب بنی، اوریہ مسیح پر ایمان لانے والوں کی پہلی نسل کا کمال تھا کہ مسیحیت کی نشوونما، ترقّی وترویج ہو پائی۔ ظلم وجور کے ہوتے ہوئے بل کہ اُن پر روا رکھے گئے اُسی جور وستم ہی کی وجہ، سے ان کی گواہی معتبر ٹھہری اور اُن کی طرف سے دی گئی دعوتِ دِین موموثِّر ثابت ہوئی۔ میلان کونسل کے فرمانِ شاہی(313عیسوی) کے مطابق کہ جس نے کلیسیا کو مُکمّل مذہبی آزادی کی ضمانت دی تھی، کلیسیا کی حوصلہ افزائی ہوئی اور مسیحیت کو سلطنت کا سرکاری مذہب قرار دے دِیا گیا۔ بس پھر کیا تھا دینِ مسیحی طرح طرح کے متشددانہ تصادمات کے الجھاو، اٹکاو کا آسان شکار بن گیا۔ بدعتیوں اور ملحدوں پر ڈھائے گئے مظالم کی کارروائیوں میں کلیسیا کو بھی ملوث ہونا پڑا، بل کہ برابر کا ذِمّہ دار ٹھہرایا گیا اور اُن پرسماجی دباو کا بھاری پتھر رکھنے میں کلیسا پیش پیش رہا۔ یہ تنازعات قطعاًسیاسی نوعیت کے تھے، لیکن اُنھیں مسیحی مقاصد کا چولا پہنا دِیا جاتا رہا تاکہ سبھی مسیحیوں کا تعاون اور اُن کی مدد شاملِ حال رہے۔ 

صلیبی جنگوں کا معاملہ الگ سے ہے، کیوںکہ جو بات بطور بنیادی محرک سامنے آئی وہ تھی اُس غار یا قبر مبارک کی واگزاری جہاں خُداوند حضرت یسوع مسیح کو رکھا گیا تھا، چُناںچہ اُن لڑائیوں کے لیے مذہبی ترغیبات کے زیرِاثر مسیحیوں نے یلغار کیے رکھی تھی۔ نوآبادیاتی نظام اور مسیحی مشن کے مابین تعلُّقات مختلف ادوار میں مختلف النوع حکمتِ عملیوں کے تحت ترتیب پاتے رہے۔ بعض صُورتوں میں مشنریز نے ساتھ ساتھ سفر اختیار کِیا اور کبھی اُن کے پیچھے پیچھے وہ بھی وہاں پہنچ گئے جہاں نوآبادیاتی نظام نے فروغ پایا، مثلاً پندرھویں اور سولھویں صدی میں پرتگالیوں اور ہسپانویوں کے ساتھ ایسے تعلُّقات کی مثال دی جا سکتی ہے اور ایسے بھی مواقع آئے کہ مشنریز پہلے پہنچے جیسے وسطی افریقا، چین اور جاپان کی مثالیں موجود ہیں، لاطینی امریکا میں لاس کاساس اور اُس کے علاوہ فرانسیسی مغربی افریقا کی ایسی مثالیں بھی ہیں جہاں مشنریز نے نوآبادیاتی نظام کی نفی بھی کی۔ 

۴۔دِینِ مسیحی کے نقطہءنظر سے غیر مسیحی ادیان کے دینِ صادق ہونے یا نہ ہونے کی جانچ پرکھ کے طریق میں ارتقا کی طویل منزلیں طے کی گئی تھیں، مُقدّس جسٹن شہید جن کا انتقال 165عیسوی میں ہُوا اور جنھوں نے روحانی بیجوں کی بات کی تھی جو کلامِ خُداوندی کے بطور ہر انسان کے اندر پھلنے پھولنے کو بے تاب ہوتے ہیں، اُن سے لے کر مُقدّس آگسٹین آف ہِپّو (354تا 430ع) تک کہ جن کی نکتہ سنجی وباریک بینی نے غُلُو کی حدود کو جا چھُوا تھا کہ وہ تو جوشِ خطابت میں یہ تک کہہ گئے کہ کفار ومشرکین کی اچھائیاں، نیکیاں، اچھائی اور نیکی نہِیں رہتیں بل کہ برائی اور بدی کے زُمرے میں شمار ہوتی ہیں اور پھر ایسے نظریات بھی اِسی ارتقائی سفر کا حصہ ہیں جو لگی لپٹی رکھے بغیر غیر مسیحیوں کی نیک نیتی اور اُن کے واقعی اچھے اعمال واقدام اور بھلائیوں کے لیے اِتنی رعایت ضرور دیتے ہیں کہ ضائع نہ جائیں گی اور اچھے عمل کر کے وہ لوگ مستوجبِ عذاب نہ گردانے جائیں گے۔ حال ہی میں بعض علماے دِین تو یہ درس دیتے بھی نظر آئے کہ دِین میں، قوموں کی اخلاقی اقدار میں اور عالمی تہذیبوں میں ایسے عناصر موجود ہیں جنھیں اپنی تکمیل شفاف طور پر خداوند حضرت یسوع مسیح میں خُدا باپ کے ظاہر ہونے پر ایمان کی شکل میں نظر آتی ہے اور بنیاد فراہم کرتی ہے اُن غالب وموموثِّر تصوُّرات کو جن کی بالادستی آج اظہر من الشمس ہے۔ 

غیر مسیحی ادیان کی الٰہیات کی شفاف اور موزوں ترین تشکیل کے لیے تازہ بتازہ جو مساعی سامنے آئیں اُن میں سے دو تو خاص توجُّہ کے لائق ہیں اور اُن دو میں بھی دوسری اہم تر ہے کہ وہ وسیع تر تاثُّر کی حامل ہے۔ 

الف)عقیدے اور مذہب میں تفاوت اور اِس کی اہمیت 

ایمان اور عقیدہ میں جو فرق ہے اُس کی اہمیت پر زور دینے والے نظریہ کی وکالت کرنے والے پروٹسٹنٹ دینی علما کرام میں کارل بارتھ (1886تا1968ع) اور ڈیترش بون ہوئیفر (1906تا 1945ع) کے اسماے گرامی قابلِ ذِکر ہیں۔ بعد میں اِس تھیوری میں ضروری ردّوبدل کر کے کیتھولک مُفکّرین بھی اِس کے پرچارک بن گئے۔ اُن معزز ہستیوں میں جین دانیلو (1905تا 1974ع) کا نام لیا جا سکتا ہے۔ یہاں مذہب کو ایک ایسے قدرتی سفر کے پیرایے میں دیکھا گیا جو مخلوقِ انسانی خُدا کی طرف اختیار کرتی ہے۔ تمام ادیان اجتماعی اظہار میں سماجی رُسُوم، عبادت کے ارکان اور خُدا پرستی کی مختلف اشکال کا شروع شروع کے کارل بارتھ کے الٰہیاتی افکار کے مطابق ادیان کو صنعتِ انسانی کے کھاتے میں ڈال دِیا گیا اور بائبل مُقدّس میں جو مذہب کی تعریف ہے اُس کے برعکس اِن دینی عقائد کو مقام تفویض کِیا گیا مگر دانیلو نے اِنھیں مثبت طور پر اہمیت دی۔ اُس کے مطابق تمام انسانی گروہوں کا ہر تہذیب کا ایک اپنا مذہب ہوتا ہے، جیسے کلٹی لاطینی، جرمن، بحیرہ روم پر واقع اقوام کا مذہب، افریقی اور برِّصغیر ہند کے مختلف مت، اور مسیحی مذہب کے اُس میں ایسے بے شمار خواص پائے جاتے ہیں جو دوسرے مذاہب کا بھی خاصّہ ہیں۔ 

اور یہ بھی ہے کہ آدمی خُدا کے کلام کا جب اثر قبول کرتا ہے تو عقیدہ باندھتا ہے، اُس خُدا پر ایمان لاتا ہے جو اپنی مخلوق کا سامنا کرنے کی ابتدا اور اِس کی تخلیق پر سوال جواب کر سکنے کا اقدامِ اوّل عطا کرتا ہے۔ اگر انسانی روح کا خُدا کی طرف سفر مذہب کہلاتا ہے تو پھر عقیدہ جو ہوتا ہے وہ جواز ہے خُدا کے اُس کلام کا جو نبی اور رُسُولوں کے ذریعے اُن تک پہنچا۔ جین دانیلو کا اعتقاد یہ تھا کہ خُداوند حضرت یسوع مسیح پر جو ایمان ہے وہ تو دُنیا کے ہر مذہب میں مُتجسّم ہونا چاہیے۔ عقیدہ اور ایمان چوںکہ مذاہب اور اُن سے تہذیب پانے والی ثقافتوں کے ساتھ اپنے اُسلُوب وانداز کے لحاظ سے انتہائی مناسب طور پر بندھے ہوتے ہیں اِس لیے یہ عقیدہ ہی ہے جو اُنھیں نیا ڈکشن دیتا ہے اور اُس مذہب کی رُسُوم کو نئے معانی پہناتا ہے، قواعد میں تصحیح لاتا ہے اور روایات کی نوک پلک سنوارتا ہے، دانیلو نے جو نتیجہ اخذ کِیا وہ یہ ہے کہ دینِ مسیحی اختیار کرتے سمے ایسا نہِیں ہوتا کہ لوگ ایک مذہب چھوڑ کر دوسرے مذہب میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں، نہِیں نہِیں، ایسا ہرگز نہِیں، حقیقت یہ ہے کہ اُن کے اپنے ہی مذہب والا چہرہ نکھرنے سنورے کے عمل میں گذرتا ہے اور صِرف خدوخال ہی حقیقی حُسن سے آشکار نہِیں ہوتے بل کہ اُن ہی کا مذہب پورے مدھ میں آ کر مسیحیت میں ڈھل جاتا ہے۔ 

ب)مذہبی آزادی کا اظہارِ عام اور مکاشفہءخاص میں امتیاز 

یہ کارل رانیر (1904تا 1984ع) ہی تھے جو اِس نئے آہنگ کی طرح ڈالنے والے اور اِسے پروان چڑھانے کے ذِمّہ دار تھے۔ بعد میں دوسرے دانشوروں نے اِس نظریے کے اہم اہم پہلوﺅںسے خُوب استفادہ کِیا۔ آغازِ آفرینش سے ہی خُدا نے انسانوں کے ساتھ ابلاغ میں کبھی بھی کمی نہ آنے دی۔ اِس عمومی اظہارِ خُداوندی کی تصدیق بائبل مُقدّس میں موجود ہے یعنی بنی آدم، بنی نوح اور اسفارِ حکمت اور رومیوں کے نام مُقدّس پولوس رسول کے خطوط میں (رومیوں 19:1) خُداوند قدوس کے یُوں ظہورِ عام کے تو تمام غیر مسیحی معتبر ادیان بھی کِسی نہ کِسی صُورت ثقہ انداز میں معترف ہیں۔ مگرتاریخ گواہ ہے کہ تب خُدا کا کلام ایک خاص انداز سے اپنے چنیدہ بندوں پر نازل ہوتا رہا۔ ابراہیم نبی سے ابتدا ہوئی، اسحقنبی ، یعقوبنبی اور اُس کے بارہ بیٹے، اِن اسلافِ مُقدّس کے علاوہ دوسرے رسولوں کے ذریعے، حتیٰ کہ ایک وقت آیا جب خُداوند حضرت یسوع مسیح میں کلام مجسم ہُوا اور انسان بنا، اظہارِ خُداوندی مُکمّل ہُوا۔ وہ خُدا کے جلال میں نہِیں بل کہ خادم کی صُورت میں آیا، یہ خصوصی مکاشفہ تھا جس مکاشفہ میں خُدا کا اپنی ذاتِ مُقدّس کے ابلاغ سے مستفید کرنے کا عمل اظہارِ عام میں بھی سامنے آیا، تاریخ سے اِس کی صداقت کی جانچ کی جا سکتی ہے۔ اس لیے طے ہے کہ یہ ظہورِ خُداوندی انسانی بشرہ میں ہُوا۔ یعنی خُداوند حضرت یسوع ناصری میں۔ ”جس نے مجھے دیکھا، اُس نے خُدا باپ کو دیکھا“ (مُقدّس یوحنا 9:14)۔ ظاہر ہونے کے اِس عمل کی روشنی میں دیکھا جائے تو تمام مذاہبِ عالم میں خُدا کے تصوُّر کی موجودگی قابلِ فہم ہو جاتی ہے۔ خُدا کے نور سے ہر مذہب منور ہے۔ ہر مذہب میں خُدا موجود ہے۔ 

خُدا خُود خداوند حضرت یسوع مسیح میں مخلوق کے سامنے ظاہر تو ہو گیا مگر اِس انکشافِ عظیم کی پوری طرح سمجھ تبھی آئے گی جبھی آمدِ ثانی کے وقت مُقدّس المسیح کا ظہور مبارک ہو گا۔ یہ امر تو اٹل ہے کہ قیامت کے قریب قریب خُداوند کا دُنیا میں ورودِ مسعود دوبارگی ہونا ہی ہونا ہے۔ مسیحی دعاوی اور دوسرے مذاہب کے ساتھ کلیسیا کے مکالمہ کا مطمحِ نظر اِسی حقیقت پر موقوف رہا ہے۔ خُداوند کی پہلی اور دوسری آمد کا جو درمیانی وقفہ ہے اُس میں مذہبی تاریخ، سمیت اُن تمام ادیان کے کہ جو غیر مسیحی تھے اور صفحہءہستی پر موجود تھے اپنے حصے کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے اثر سے ظہورِ الٰہی کے اسرار ورُمُوز سے پردہ ہٹانے کی مقدور بھر کوشش کرتی رہی۔ خُدا کے حضرت یسوع کے مُقدّس رُوپ میں دُنیا میں آنے والی بات کی جب تفہیم ہو جائے، ذہن اُسے تسلیم کر لے کہ خُدا نے دُنیا پر آنا تھا تو وہ حضرت یسوع مسیح بن کر آ گیا اور وہ خدا کا کامل ظہور ہیں۔ اِس لیے ضروری ہو گیا کہ دوسرے مذاہب کی اہانت ہرگز نہ کی جائے۔ دوسرے مذاہب کے بارے میں اِس اعتراف کی کہ اُن مذاہب کے ذریعے بھی مختلف النوع حیثیتوں میں کس حد تک خداے پاک کے اپنے آپ کو مخلوق پر آشکار کرانے کے عمل کا سہل ادراک رواج پاتا رہا ہے، بین المذاہب مکالمہ کی صُورت میں اگر دوسرے مذاہب کی تنگ دامانی وسیع النظری میں ڈھل کر وسعتِ داماں کا مظہر بن سکتی ہے تو مسیحی دُنیا بھی مکالمہ سے بھرپور استفادہ کے لیے کشادہ دِلی سے اپنے دامنِ مسیحیت میں بے پناہ وسعت پیدا کر سکتی ہے ۔ 

۵۔مسیحیت اگر مخلص ووفادار ہے انجیلِ مُقدّس کی، تو اِس کی وجہ، یہی ہے کہ مسیحیوں کا اِس بات پر پختہ یقین ہے کہ یہ مُقدّس الہامی کتاب یہ پیغام دیتی ہے کہ سب انسانوں میں امن وصلح، میل ملاپ ومصالحت کا دور دورہ ہونا چاہیے، اپنی اُمّت کی تمناﺅں کے برعکس خُداوند حضرت یسوع مسیح نے صاف صاف اور قطعی طور انکار کر دِیا کہ وہ اپنے آپ کو سیاسی مسیحا کے طور پر پیش کرے، کِسی سیاسی انقلاب میں ملوث ہونے سے تو خُداوند نے مرجانا بہتر گردانا، اقتدار کے جبر پر صلہءرحمی کو اُس نے ترجیح دی۔ مدتوں بعد، بادشاہ کانسٹینٹائن اعظم جس نے 306ع سے 337ع تک حکمرانی کی، اُس کی طرف سے چرچ کو جب تعاون حاصل ہُوا تو اُس کے نتیجے میں ریاست سے چرچ کی رفاقت ومعاونت اِس حد تک جا پہنچی کہ ایسے بھی وقت آئے جب اعلانِ جنگ بھی چرچ کی طرف سے کِیا جانے لگا اور سلطنت کی جنگوں میں کامیابی کے لیے آشیرباد اور ایسے معرکوں کو جائز قرار دینے کے اعلانات بھی چرچ کی طرف سے کیے گئے۔ تاہم حال کی دہائیوں میں چرچ اور پوپ دِل وجان سے کوشاں نظر آئے اور ایسا کوئی موقع رایگاں نہ جانے دِیا کہ اُنھوں نے امن وامان اور عدل وانصاف کی تلقین نہ کی ہو۔ انسانی حُقُوق اور امن وآشتی کے مطمحِ نظر کو مقبول کِیا گیا۔ چرچ حفاظتِ نفسی کو تسلیم کرتا ہے۔ حفاظتِ خُود اختیاری کا حق فرد کو بھی دیتا ہے اور قوموں کو بھی اِس حق کا مستحق سمجھتا ہے۔ اور یہ کہ وہ اپنا بھی حق قرار دیتا ہے بل کہ فرض سمجھتا ہے کہ جب بھی غیر منصفانہ وجابرانہ سیاسی حکومتوں کی مثال سامنے آئے، اُن کی بھرپور مخالفت کی جائے۔ بہرحال یہ بھی مدِّنظر رہے کہ جب بھی اور کہِیں بھی ممکن ہو تمام مسیحی عدم تشدد کو ہی ترجیح دیں (یہ کبھی نہ سمجھا جائے کہ ایسا کرنا بے اثرجائے گا، اِس عمل کا اپنا اثر ہے اور بے پناہ اثر ہے) اور دینی تنگ نظری، قوم پرستانہ تعصب اور انتہا پسندانہ مذہبی نظریات اور اُن میں جو تشدد کے امکانات پوشیدہ ہوتے ہیں اُن سب کو مغلوب ومتروک کرنے میں مقدور بھر حصہ ضرور ادا کریں۔ 

۶۔مذہب خُدا کا انمول تحفہ ہے، جسے انسان چاہے قبول کر لے، چاہے انکاری ہو جائے، من مانے کا سودا ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا بھی ہُوا کہ لوگوں پر مذہب تھوپ دِیا گیا، جبر سے، دھمکی، دھونس اور دھاندلی سے، بادشاہ شارلیمان (فرانس کا بادشاہ چارلس دی گریٹ) کی مثال موجود ہے کہ سیکسن لوگ جرمنی کے شمالی علاقوں میں پانچویں اور چھٹی صدی میں آئے۔ اُنھوں نے انگلستان فتح کِیا، یہیں کے ہو رہے۔ انگریزوں میں انگریز ہو گئے مگر فرانس کے بادشاہ نے زورآوری سے زبردستی اُنھیں اپنے مذہب میں داخل ہونے پر مجبور کر دِیا اور یُوں بھی ہُوا کہ بعض لوگوں نے محض انسانی محرکات اور سماجی عناصر کے سبب اپنا مذہب ترک کر کے کوئی دوسرا مذہب اختیار کر لیا اور ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ کِسی مذہب سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ اُس پر ایمان لے آئے۔ 

خطا کِسی بھی فعل کا جواز نہِیں ہوتی، ایک لمبی مُدّت چرچ کا مرکزی نقطہءنظر یہ رہا کہ مسیحیت اور ریاست میں تعلُّقات کا بہترین سسٹم بس وہی تھا جس میں مسیحیت کو سرکاری مذہب قرار دِیا جاتا رہا، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ شروع شروع میں چرچ کا مطالبہ تھا بل کہ اُس کی طرف سے حکم تھا کہ دِینِ مسیحی کو اختیار کرنے کے لیے سب لوگ آزاد وخُودمختار ہوں، اُنھیں کِسی جبر، اکراہ یا پاداش کا ڈَر نہ ہو۔ البتہ اِتنا ضرور تھا کہ چرچ اِس معاملے میں بہُت محتاط اور قدرے سخت گیر بھی تھا کہ ایسی اجازت کِسی کو نہ تھی کہ کوئی بھی مسیحی اپنے تئیں دِین مسیحی کی تاویلات بیان کرتا پھرے، یا اپنے اِس دِین سے کِسی سٹیج پر منحرف ہو جائے اور یا اِسے ردّ کرتے ہوئے کِسی اور ہی دِین کی راہ چل پڑے۔ اِس کے لیے ہسپانوی احتساب عدالتوں یعنی تیرھویں صدی کی عدالت ہاے تفتیشِ بدعات کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ مذہبی آزادی کے حصول کے ضمن میں جو ایک طویل ودقّت طلب محنت صَرف ہوئی اگر وہ ہمارے ذہن میں تازہ ہو تب ہمیں پتا چلے گا کہ مسیحیت نے کن کٹھنائیوں سے گذر کر یہ منزل پائی اور اِسی سے ہمیں اندازہ ہو سکتا ہے کہ مسلمانوںکو بھی کیسے کیسے رویّوں کا سامنا رہا ہو گا، کتنے ہی ردِّعمل اُن کی راہ کا روڑا بنے ہوں گے اور اُنھیں بھی کیا کیا مشکلات پیش آئی ہوں گی۔ 

دوسری ویٹی کن کونسل کے اعلامیہءمذہبی آزادی کے بعد سے اِس مسئلہ پر چرچ کا نقطہءنظر بالکل شفاف، واضح اور مثبت رہا ہے، دینی سرکاری سطح پر ایسا ہونے میں تو شک کی گنجایش تک نہِیں، چرچ نے مذہبی آزادی کو بنیادی اور غیر مشروط یعنی مطلق ومسلّمہ اور حُقُوقِ انسانی میں سے ایک حق تسلیم کِیا ہے۔ اِس مشن کو جس طرح آگے بڑھایا گیا ہے وہ قابلِ قدر ہے کیوںکہ وہ دوسروںکی قدر وقیمت کو سمجھتے ہوئے اُن کے نکتہ ہاے نظر کو احترام سے دیکھنے کا متحمل ومتقاضی رہا ہے۔ مکالماتی سطح پر تبلیغی جماعتِ رسالت وخدمت کی تائید وتصدیق بھی اِس مشن کا حصہ ہونا ضروری ہے کہ اِس کا نچوڑ یہی ہے، مذہب کِسی پر ٹھونسنے کی شے نہِیں، یہ دعوت ہے، کوئی اِسے قبول کر لے یا ٹھکرا دے۔ اپنی نیت صاف ہونا چاہیے اور مقصود دوسروں کا بھلا ہو، اِس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔ (.2قرنتیوں کے نام 20:5) مذہب تو قبولیت کے لیے پیش کِیا جا سکتا ہے، کِسی کے سر تھوپنا حصولِ مقصد نہِیں ہوتا۔ ہر بندہ اپنے طور پر ذِمّہ دار اور آزاد ہے کہ خُدا کو حاضر وناظر جان کر ضمیر کی روشنی میں مذہب اپنانے کا خُود فیصلہ کرے۔ 

۴۔مسیحی تاویلات 

۱۔وسیع المشربیت

 (Religious Pluralism)

وسیع المشربیت میں پُراسراریت پِنہاں ہے۔ ایک طرف تو خُداے مہرباں کی جانب سے انسانی آزادی وخُودمختاری کا جو پاس کِیا جاتا ہے یہ اُس سے بھی کِسی حد تک کِسی نہ کِسی طور اپنا کِردار ادا کرتی نظر آتی ہے اور دوسری صفت یہ بھی سامنے آتی ہے کہ وہ جو ایک قدرتی جواز سامنے آتا ہے اور مطلوبہ ماحول تشکیل پاتا ہے جس میں انسانوں کے مذہبی اور ثقافتی ارتقا کو جِلا مِلتی ہے اُس میں بھی وسیع المشربیت کا خاطر خواہ عمل دخل مشاہدے میں آتا ہے۔ برس ہابرس بنی نوعِ انسان کے بڑے بڑے گروہ یورپ، ایشیا اور امریکا میں ایک دوسرے سے کٹ کر علیحدہ علیحدہ ہی بُود وباش رکھتے چلے آئے تھے۔ اُن کا ایک دوسرے سے کوئی ربط رابطہ نہ تھا، مگر دھیرے دھیرے، وقت کے ساتھ ساتھ، اب نُمایاں طور پر مختلف صُورتِ حال ہے۔ ہمارے اِس سیارہ زمین پر جتنے بھی انسان بستے ہیں، وہ سب گلوبل ولیج کے باسی ہیں۔ اِن میں گوناگوں باہمی روابط قائم ہیں۔ اِن میں اتّصالِ باہمی کی اَن گنت مثالیں ہیں جو ہمارے سامنے ہیں اور مُکمّل شُعُور وآگہی کے ساتھ ایک دوسرے پر انحصار ہی وہ بُنیاد ہے جو اِن خواص کے لیے سیمنٹ کا کام دیتی ہے۔ ہاں، البتہ، یہ بھی دُرُست ہے کہ مختلف انسانی معاشروں میں کہِیں کہِیں بعض مسائل اور کہِیں کہِیں قدرتی وسائل اِن میں کھنچاو بھی پیدا کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات بعض تنازعات انسانی گروہوں میں تشدُّد وجارحیت کا بھی رُخ اختیار کر لیتے ہیں۔ مگر.... یہی وہ صُورتِ حال ہے جو پیدا ہوتی ہے تو اُس وقت مذاہب ہی ہیں جو ایسے گمبھیر مواقع پر اہم ترین کِردار ادا کر سکتے ہیں، بل کہ کرتے ہیں۔ قوموں کے مابین، مختلف اقتصادی گروپس کے درمیان اور ہماری اِس ننھی سی، سمٹی سمٹائی خُوب صُورت دُنیا کی مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں میں جب کبھی آویزشیں سر اُٹھاتی ہیں تو مذاہب ہی ہیں جو اپنی ذِمّہ داری کو نبھاتے ہوئے عدل وانصاف کا حُصُول ممکن بناتے ہیں تاکہ قوموں، اکنامک بلاکس اور ثقافتی گروپس میں برداشت، احترام، اِتّحاد، اِتّفاق، ہم آہنگی اور تعاون راہ پا سکے اور ایک دوسرے کی فلاح وبہبود اُن کا مطمحِ نظر ہو۔ مذاہب کو بھی ایسے شوشوں سے دُور رکھنا ہو گا جیسے مجادلے، مناظرے، مباحثے اور شقی القلبی پر محمول تبلیغِ دِین جو دوسروں کو اُن کے مذہب سے اپنے مذہب میں لانے پر زور دے۔ کٹّرپن اور اکھڑ پن سے بھی پرہیز لازم ہے ورنہ تو مذہب کی اُپج، اصلیت اور اِس کا اِستناد اور اِس کی صداقت سب مجروح ہو جائیں گے، دِین بے اعتبار ہو کر رہ جائے گا۔ مذاکرہ سے اور مکالمے سے، کہ اِس میں تعلیم وتعلُّم (تبلیغ)کی دونوں جانب تحصیل ہو رہی ہوتی ہے، ایک دوسرے کے مذہب کو سمجھنے اور اچھی راے رکھنے اور اِس کے اظہار کے مواقع مُیسّر آتے ہیں۔ وسیع القلبی سے ایک دوسرے کے مذہب کی توقیر کو رواج مِلتا ہے۔ بھانت بھانت کے مذاہب کو ماننے والے ایک دوسرے کے عقیدے کو برداشت کرتے ہوئے مِل جُل کر بل کہ گھُل مِل کر بھی رہنے لگتے ہیں۔ جو اختلافات ہیں، وہ تو ہیں، اُن سے انکار مقصود نہِیں، اصل مقصد تو یہ ہے کہ مذاہب کے درمیان جو اختلاف موجود ہیں، اُن کی حقیقت جان لی جائے اور معلوم کِیا جائے کہ اُن میں کتنا وزن ہے، اُن کی نوعیت کیا ہے، صُلحِ کُل پر وہ کِس حد تک اثرانداز ہو سکتے ہیں؟ بین المذاہب مکالمہ سے اچھی فضا جنم لے گی۔ اِتّحاد وہم آہنگی کی خاطر ایماندارانہ اور پُرخُلُوص کوشش اور اِتّفاق کے حصول کے واسطے ایسے اہم نکات کی تلاش اور منشاے خُداوند خُدا کے لیے، خُود کو عاجزی، حلیمی وانکساری کے ساتھ وقف کر دینے کی تمنّا ضرور ثمرآور ثابت ہو گی۔ 

۲۔تکثیریتِ مذاہبِ آفاقی 

اِسلام بھی اور مسیحیت بھی دونوں عالمگیر مذاہب ہونے کے ناتے بجا طور پر اپنے تئیں معقول ومعتبر مذہب ہونے کے دعویدار رہے ہیں اور ایسی کوئی وجہ، نہِیں کہ دونوں میں سے کوئی ایک اپنے دعوے سے دستبردار ہو جائے۔ اِس معاملے کے ہر پہلو کا دارومدار دراصل اِس بات پر ہے کہ دونوں مذاہب اپنے اپنے طور پر اپنے بارے میں جانکاری دینے کے لیے کیا کیا طریقے استعمال کرتے ہیں تاکہ عالمگیریت کے اِس دعوے کی سچائی تسلیم کر لی جائے۔ اب جس دور سے ہم گذر رہے ہیں ایسے حربے استعمال کرنے کی قطعاً کوئی گنجایش نہِیں جن کا دارومدار ذاتی یا اجتماعی خواہشات کی شِدّت سے ہو۔ جیسے تشدُّد، تصادم، جارحیت کے تمام مظاہر یا دوسرے مذاہب پر سبقت لے جانے کی تمنّا، بھلے اُن کو سلیقے سے روا رکھا جائے یا بھونڈے انداز سے۔ فقط ایک ہی انداز ہے جو قابل ہے خُداوند خُدا کے ہاں بھی اور انسانوں کے نقطہءنظر سے بھی۔ وہ ہے اُن اقدار کا توسّل حاصل کرنا جنھیں خُود بھی سچ مانا جائے اور دُنیا بھی اِن کی سچائی کی قائل ہو اور ایک زِندہ وپایندہ مذہب کی رُو سے قابلِ عمل اور لائقِ ترویج بھی ظاہر ہے کہ ہو گا۔ عالمی پذیرائی کے لیے صاف، شفاف اور کُشادہ دِلی پر محمول مکالمہ اور انسانی ضمیر کے بِلا جبر واکراہ آزادانہ فیصلے کو احترام واستحسان کی نگاہوں سے دیکھا جانا بھی ازبس ضروری ہے۔ 

۳۔مذاہب اور جنگ کے باب میں اُن کی ذِمّہ داری 

یہ مان لینے میں کوئی مضایقہ نہِیں کہ ماضی میں لڑی جانے والی جنگوں کی ذِمّہ داری مذاہب پر بھی عائد ہوتی رہی ہے۔ اہم ترین جواز وہی فراہم کرتے تھے۔ بعض صُورتوں میں اگر براہِ راست اُن کا کِیا دھرا نہِیں ہوتا تھا تو جنگ چھڑنے کی وجوہات میں اُن کا بھی حصہ ضرور شامل ہوتا تھا۔ اور ہم نہِیں کہہ سکتے کہ آج کل صُورتِ حال بہتر ہے، نہ نہ! آج بھی کچھ نہِیں بدلا۔ جنگ بازی میں ملوث ہونے میں مذاہب اب بھی دیر نہِیں لگاتے۔ وسیع تناظُّر میں دیکھا جائے تو یہ دُھوپ چھانو کا کھیل آج بھی جاری نظر آتا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں پتا چلتا ہے کہ ایسا ایک بار نہِیں، کئی بار ہُوا ہے کہ مذہبی عُنصُر نے مزاحمت کی ہو یا پھر درمیانی درجہ کی شِدّت یا سختی کو کم کِیا ہو یا انتہاﺅں سے گریز کی راہ سُجھائی ہو۔ سوچیے تو، مثال کے طور پر مسیحی قرونِ وسطیٰ میں خُدا کے نام پر عمل میں لائی گئی جنگ بندی، جہاد کے لیے اِسلام کی طرف سے عائد کردہ سخت ترین شرائط جیسے جنگی قیدیوں کی مناسب دیکھ بھال، وہ لوگ جنھیں مذہب کے نام پر زبردستی جنگوں کا ایندھن بننے پر مجبور کِیا گیا ہو، بے گناہ وبے تقصیر عام شہری جنھیں مذاہب نے جذباتی ترغیبیں دے کر جنگ کی بھٹی کی طرف دھکیلا ہو اور وہ مذہب کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے میدان میں کُود پڑے ہوں، (فصلوں، باغات کو روندنے اور شہری آبادیوں کو تہِ، تیغ کرنے سے گریز وغیرہ)۔ مزید یہ کہ مذہب کے نام پر لڑی گئی جنگوں کے لیے جواز مذاہب کی آپس میں مخالفت ومخاصمت ہی پر موقوف نہِیں ہوتا تھا بل کہ حصولِ اقتدار کا انفرادی سطح پر عمل دخل زیادہ ہوتا تھا، انسانی گروہ ومعاشرے بھی حکمرانی کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں تھامنے کو بے تاب ہوتے تھے (سلطنتیں، شاہی خانوادے، قومیتیں) اور ایسی کارروائیوں کے لیے مذہب ہی کو ڈھال بنایا جاتا تھا، تاکہ جاہ کی انفرادی یا اجتماعی طلب پوری کی جا سکے۔ قصہءمختصر، عصری آویزشوں کے لحاظ سے ضروری بات تو یہ ہے کہ آپ تک پہنچائی گئی کِسی بھی اطلاع کے بارے میں قطعیت کے ساتھ تب کچھ کہنا بنتا ہے جب اُس اطلاع کا تنقیدی جائزہ لیا جا چکا ہو، اِسی طرح سیدھے سیدھے مذہبی مقاصد وترغیبات قرار دینے سے پہلے اچھی طرح چھان پھٹک کر لینی چاہیے۔ مثلاً یہ تو بڑا ہی آسان ہے کہ لبنان، شمالی آئرلینڈ، ریاست ہاے بلقان، جزائر فلپائن اور افغانستان کے مسائل کو محض مذہبی تنازعات سے موسوم کر دِیا جائے۔ حال آںکہ مذہب ایک عُنصُر تو ہو سکتا ہے، قطعی جواز نہِیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اُن تنازعات میں اکثر متنازع اُمُور میں مذہبی اربابِ اختیار کا کِردار بالکل ہی اُلٹ ہے۔ اُنھوں نے ان ممالک کے مسائل کو اُبھارنے کے ضمن میں کوئی اُچکل نہِیں دی بل کہ اِس کے برعکس وہ تو پُوری لگن سے، سرگرمی کے ساتھ، پوری پوری ذِمّہ داری قبول کرتے ہوئے امن وآشتی کے پرچارک رہے ہیں۔ 

۴۔مذہبی آزادی 

مذہب ہر انسان کا حقِ لاینفک ہے۔ اسے دبانا یا کُچلنا یا محدود کرنا بھی جلال وجمال والے خُدا کو کھِجانے والی بات ہے، اور ایسا کرنے سے بے شک انسانیت کی تضحیک کا بھی پہلو نکلتا ہے۔ یہ حقِ آزادی دراصل مذہب اور ریاست کے اختلاط کا وسیلہ ہے۔ (اِس جدید دور میں بھی یہ سنگم قوم پرستی اور ریاست میں سیمنٹ کا کِردار ادا کرتا ہے، اور یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ ریاست کے نظام کو عملی کفر والحاد جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہو یا اشتراکیت کا، اُنھیں بھی آپس میں جوڑے رکھتا ہے۔ ریاست سے علیحدہ نہِیں ہونے دیتا)۔ مذہبی رواداری کے بل بوتے پر قائم ایسا اِتّحاد واِتّفاق غلط طور پر بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ ماضی میں بھی اور دورِ گذراں میں بھی۔ چُناںچہ ایسے نظاموں سے گلوخلاصی حاصل کرنے کا ہر مذہب کو حق پہنچتا ہے اور ایسے نظام ہا کی مدافعت پر مُکمّل غلبہ حاصل کرنا تمام مذاہب کو سزاوار ہے تاکہ مذہبی آزادی کا صحیح طور نفاذ ممکن بنایا جا سکے اور اِس کا غلط استعمال روکا جا سکے۔ 

مسلمان ہوں یا مسیحی تمام دینداروں کی یہ ذِمّہ داری ہے کہ وہ اپنے معاشرتی گروہ یا دِینی برادری سے پوری یکجہتی اور سماجی ہم آہنگی والا برتاو قائم رکھیں اور سب کی خاطر امن اور خوشحالی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہیں۔ ایسی بھلائی چاہنا سبھی پر فرض ہے، خواہ اُن کا تعلُّق مُسلم اُمّہ سے ہو، کِسی بھی گروہ، خواہ مسیحی سماج سے ہو۔ ساتھ کے ساتھ یہ بھی گوش گُزار کر دُوں کہ دوسروں کی راے اور فیصلوں کا احترام زِندگی کے لوازم میں شامل کر لیا جائے، خُصُوصا ایسے فیصلوں کا پاس لحاظ کرنا جو مذہب کے بارے میں شخصی معقولیت اور عدل پر منتج ہوں۔ کیوںکہ نیک نیتی اور شُعُورِ باطن پر مبنی ہوتے ہیں یہ اقدامات۔ جی ہاں! اِن کا احترام اخلاقیاتِ انسانی کی معراج ہی تو ہے۔ ہر فرد کی مذہبی وابستگی اور ثابت قدمی کی قدر کی جانی چاہیے۔ 

وفاداری بشرطِ استواری اصل اِیماں ہے 

مرے بُت خانہ میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو 

والی بات ہے۔ اِس باب میں، اِس سلسلہ میں ایک اہم اُصُول یہ بھی ہے کہ اپنے ضمیر کی آواز پر کان دھرنے چاہییں، یہ انسانی ضمیر ہی تو ہوتا ہے جو صداقتوں کی تلاش میں نکلے لوگوں کو صحیح راہ پر گامزن رکھتا ہے۔ آزمایشوں میں ثابت قدمی عطا کرنا، مشکلیں آسان کرنا، سچائیوں کی پرکھ اور تالیفِ قلبی یہ سب خُداوند کے کام ہیں۔ عقیدہ، مذہب، ایمان اصلی اور کھرے تبھی ہیں اگر لوگوں کو اِنھیں اپنے لیے چُن لینے اور اِن پر یقین باندھنے، پختہ کرنے کی آزادی، یا اِنھیں قبول نہ کرنے، رد کر دینے کا اختیار حاصل ہو۔ رضاے خداوندی کے حُصُول کے لیے ہر ممکن کاوش ہمارے لیے چیلنج ہے، آزمایش ہے، صریح امتحان ہے، امتحانِ عظیم، اور ہمیں اِس میں پورا اُترنا ہے۔ 

صلاے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے 

بابِ آخِر

جوہرِ مسیحیت اور قلبِ مسیحیت

 

۱۔سوالاتِ مُسلم 

ایسا بھی ممکنات میں سے ہے کہ کبھی کوئی مسلمان جن کے ذہن میں مسیحی تعلیم مختلف پہلوﺅں اور مسیحیوں کے بعض عقائد کے بارے میں کوئی واضح اور طے شدہ سوالات نہ ہوں مگر پھر بھی تجسُّس کے تحت وہ پُوچھ بیٹھے یا واقعی ذاتی طور پر ہی اُسے دِلچسپی ہو کہ معلوم کرے آخر مسیحیت کی ماہیت ہے کیا؟ اس کے اہم ترین خواص کیا ہیں؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟.... اِس آخری باب میں ہم نے ایسی ہی کرید کا احاطہ کِیا ہے اور مُکمّل وضاحت سے نشاندہی کی ہے، ایسے ہی سوالوں کے جواب دیتے ہوئے تشفی بخش جانکاری کی۔ سب سے پہلے تو مُسلمان اور پھر یہ کہ مسیحی برادران بھی سمجھ لیں کہ مسیحیت کی اصل، اساس ہے کیا۔ 

۲۔اہم نکات کا ابلاغ.... مُسلم نقطہءنظر 

یا ”اہم نکاتِ اِسلامی“ 

سرسری جائزہ 

۱۔اگر دیکھا جائے تو مُسلمان اِس بات کے بڑی شدّومدّ سے قائل ہیں کہ اُن کا دِینِ اِسلام آخری دِینِ الٰہی ہے جو دُنیا کے تمام مذاہب سے کہِیں بڑھ کر جامع، وسیع اور کامل دِین ہے اور ایسے مذاہب مثلاً یہودیت اور مسیحیت اسلام سے پہلے زمانوں کے لیے اُتارے گئے تھے۔ وہ اُس وقت کے لیے تھے، آیندہ کے زمانوں کے لیے نہِیں۔ تب وہ جائزہ تھے، اب اُن کی جگہ خُدا کے آخری مذہب نے سنبھال لی ہے جو اسلام ہے، دِینِ صادق، اور فقط اِس کو اختیار کرنے والے یعنی مُسلمان قیامت کے روز نجات سے سرفراز ہوں گے۔ 

اور یہ بھی ہے کہ مسیحیوں کی زِندگی میں روا رکھی گئی بعض مذہبی اقدار کے مُسلمان لوگ رطب اللسان بھی رہے ہیں، پوری فراخ دِلی اور قبولِ خاطر کے ساتھ، مگرچہ بوالعجیب است کہ جن مسیحیوں کا اسلام سے کبھی واسطہ پڑا اور اُنھوں نے اِس دین کا مطالعہ بھی کِیا پھر بھی وہ مسیحی ہی رہے، بجاے اِس کے کہ اسلام کی جن جن باتوں سے وہ مُتاثّر ہوئے اور اپنی توقعات اور اُمِّیدوں پر اُنھیں اسلام پورا بھی اُترتا نظر آیا وہ اپنے اِس مشاہدے کا فائدہ اُٹھاتے اور اِس سچے اور آخری مذہبِ الٰہی پر ایمان لے آتے، حیرت ہے کہ ایسا کم ہی ہُوا۔ مسلم دُنیا اِس بارے میں یہی قیاس ہی جما سکتی ہے کہ شاید مسیحیوں کے دِلوں میں مغربی مذہب، تہذیب اور ثقافت سے جو ہیجان آور، غیر منطقی اور جذباتی وابستگی گھر کرچکی ہے، وہ اُنھیں قبولِ اِسلام سے باز رکھتی ہے۔ اِس کے علاوہ بھی کئی محرکات ہو سکتے ہیں؟ یہ دیکھنا پڑے گا۔ 

۲۔بعض مسلمانوں کے پاس زیادہ تفصیلی دلائل بھی موجود ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لائے ہوئے مذہب کے بارے میں اُن کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ وہ بھی اسلام ہی تھا۔ایک خدا پر ریحان لانا اور اُس کی بندگی کر۔ مسیحیوں نے جلد ہی اس قدوسی پیغام میں توڑ مروڑ شروع کر دی اور مُقدّس پولوس نے تو خاص طورپر۔ رہا دوسروں کا احوال تو اِس بارے عرض یہ ہے کہ چرچ بھی کم قصوروار نہِیں کیوںکہ اُس کا ریاست کی مقتدرہ سے اِتّحاد ایسی کئی بوقلمونیوں کا مرتکب ہوتا رہا ہے اور اُس کی داغ بیل کانسٹینٹائن اعظم کے دورِ حکمرانی سے ہی پڑ گئی تھی۔ یہ امرِ حقیقت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر خُداوند تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی اصل انجیلِ مُقدّس میں بہرحال تحریف کی گئی۔ 

۳۔ایسے بھی مسلمانان موجود ہیں جن کے نظریہ کے مطابق تاریخ کے آئینے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جو عکس اُبھرتا ہے وہ بائبل مُقدّس کے تحقیق ومطالعہ وتحریر کرنے والوں کے کمالِ ہُنر کا نتیجہ ہے۔ اِسی نکتہ کو مسلمانوں کے ہاں خاص اہمیت حاصل ہے کیوںکہ اِسی صُورتِ حال سے وہ اعتراض جنم لیتا ہے جو بعض مسیحی اعتقادات کہ جن کا تعلُّق ذاتِ مسیح مُقدّس سے ہے اُن پر اُٹھایا جاتا ہے کیوںکہ مُسلمانوں کو اُن سے صریح اختلاف ہے۔ یہی وجہ، ہے کہ مسیحیت کے جو مرکزی عقائد ہیں اُن کا مسلمان صاف انکار کرتے ہیں اور قرار دیتے ہیں کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ابدی پیغام کی غلط تفسیر ہے جو رواج دے دی گئی ہے۔ یعنی اُن کی تعلیمات وپیغامِ خُداوندی کی غلط تعبیر وتحریف کیے جانے کی وجہ، سے واحد انجیلِ مُقدّس جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اُتری اس کے بجاے چار چار اناجیلِ مُقدّسہ ہیں جن سے نیا عہدنامہ ترتیب دیا گیا اور اِس کی تلاوت ہوتی ہے۔

۴۔کامل حسین پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر مگر پایے کے دینی عالِم اور مفکر تھے، اُنھوں نے ایک دلچسپ مگر کمال کا موضوعی واساسی نقطہءنظر پیش کِیا۔ اُنھوں نے کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام کلیم اللہ جو پیغام لائے وہ تقویٰ یعنی خوفِ خُدا پر مبنی تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ کا پیغام محبت تھا اور محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا محور جنت کے حصول کی اُمِّید اور ارادہ ہے۔ چُناںچہ کامل حسین مسیحیت کے مطالب ومقاصد کے بارے میں کچھ اِس طرح رقمطراز ہیں: 

رُوح تک اُترا ہُوا پختہ ایمان جو ہمیں نیکیوں کی طرف، بھلائیوں کی سمت اور اچھائیوں کی اور بُلائے، وہ نتیجہ ہے خُدا سے محبت کا۔ وہی ایمان ہمیں یہ راہ بھی دکھاتا ہے کہ اُن سے محبت کرو جن سے خُدا محبت کرتا ہے اور ہر اُس فعل سے باز رہو جو دوسروں کو گزند پہنچائے۔ خُدا کو سب انسانوں سے محبت ہے، بلاتخصیص، بلاتمیز، سبھی سے برابر محبت، اور حتمی بات یہ کہ ہمیں جان لینا چاہیے کہ اگر ہم نے خُدا کے دوستوں کو تکلیف پہنچائی یعنی دوسرے انسانوں کو کوئی نقصان پہنچایا تو پھر ہم خُدا سے محبت کرنے والوں کے حلقہ سے باہر ہو جائیں گے۔ 

۵۔مسیحیت کے سِلسلہ میں آج کل دیکھنے میں آتا ہے کہ مُسلمانوں کی پرکھ دو مختلف زاویوں پر منحصر ہے : 

الف)مثبت: مسیحیت اہلِ کتاب کا مذہب ہے۔ جس طرح یہودیت اور اسلام کے ڈانڈے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جا ملتے ہیں، مسیحیت کو بھی اُسی ظرفِ اشرف سے مشرف کِیا گیا ہے۔ یہ ایک آفاقی اور الہامی مذہب ہے۔ یہی وجہ، ہے مسیحیوں اور مسلمانوں میں ایک ُقرب سا ہمیشہ موجود رہا ہے۔اور مسیحی مسلمانوں کے خلاف نہیں۔ 

تُو پاوے گا سب لوگوں میں زیادہ دُشمنی مسلمانوں سے، یہود کو، اور شریک والوں کو اور تو پاوے گا سب سے نزدیک محبت میں مسلمان کی، وہ لوگ جو کہتے ہیں ہم نصاریٰ ہیں، یہ اِس واسطے کہ اُن میں عالِم ہیں، اور درویش ہیں اور یہ کہ وہ تکبُّر نہِیں کرتے۔ (القرآن،المائدہ: 82)

یہ اللہ پر ایمان لانے والوں میں شامل ہیں اور تمام مومنین بھائی بھائی ہیں۔ 

مسلمان جو ہیں سو بھائی ہیں، مِلا دو اپنے دو بھائیوں کو، اور ڈرتے رہو اللہ سے، شاید تم پر رحم ہو۔ 

(القرآن ،الحجرات:10)  

مسلمانوں کی طرح مسیحی بھی ایک خُدا کو ماننے والے ہیں، عبادت گزار ہیں، انسانیت کی فلاح وبہبود کی ذِمّہ داری اپنے سر لینے والے لوگ ہیں۔ مسیحیت کے پیروکاروں سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ غریبوں، ناداروں اور بے کسوں سے ہمیشہ محبت کا سُلُوک کریں گے۔ 

ب)منفی: مسیحی ایک خُدا پر ایمان نہِیں رکھتے، کافر ہیں، موحد نہِیں ہیں۔ ایک سے زیادہ خُداﺅں پر اُن کا ایمان ہے اِس لیے مُشرک ہیں۔ یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابنِ مریم کی عبادت کرتے ہیں جو انسان تھے، اِنھوں نے اُن کو خُدا بنا ڈالا اور پوجنے لگے۔ اِن کا تین خُداﺅں پر ایمان ہے (پاک بی بی مریم، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اُن کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھی ایمان ہے)۔ بہُت گنجلک ہے اِن کا عقیدہ جب کہ اسلام سیدھا، سادہ اور کھرا مذہب ہے۔ اِن کی کلامِ مُقدّس کی کتاب، عہدنامہ قدیم وجدید، انجیلِ مُقدّس، اِس میں بڑی تحریف کی جا چکی ہے، کمی اور اضافے کا شاہکار ہے، اصل صُورت میں موجود ہی نہِیں۔ بہُت کچھ بدلا گیا۔ اِن کی شریعت ختم اور اسلامی شریعت کا آغاز ہُوا۔ دِینِ اِسلام نے دینِ مسیحی کی جگہ لے لی۔ کلیسا اور اُس کا محکمہ تحفُّظِ ایمان واخلاق فکر کی آزادی کے زنہار دُشمن رہے اور سائینس کو تسلیم کرنا اِن کی برداشت سے باہر تھا۔ (مثلاً گلیلیو گلیلی پیدایش 1564ع وفات 1642ع)۔ مسیحی لوگ اسلام کو تسلیم ہی نہِیں کرتے اور نہ ہی اُنھیں مسلمانوں کی توحید پرستی میں اُن کا کٹّر پن راس آتا ہے اور نہ وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبییّن ماننے کو راضی ہیں۔ مسیحی لوگ عبادت کے معاملہ میں لکیر کے فقیر نہِیں، اِس لیے اُصُول وقواعد اُن کے لیے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ نہ صلوٰة کے پابند ہیں نہ صوم کے اِن کا مذہب یکطرفہ طور پر روحانیت میں رچابسا ہے۔ مسیحی مذہب کے بعض تقاضے غیر فطرتی ہیں مثلاً کنوار پن کی پابندی، جسم کی تحقیر ونفرین کے مرتکب ہیں اور اِس خیال کے قیدی ہیں کہ دُنیا گناہوں کا گڑھ ہے۔

تفصیلی جائزہ 

۱۔قرآن پاک غور وفکر کے لیے دو موقّف پیش کرتا ہے جو ایک دوسرے میں سے پھوٹتے اور پھیلتے، منفرج ہوتے ہیں: ایک مسیحیت کا مداح ہے، دوسرا غیر دوستانہ۔ اسلام میں دونوں رجحانات پائے جاتے ہیں، اور ایک طائرانہ جائزہ لیا جائے تو جنابِ عالیٰ! دونوں کا وُجُود ماضی میں بھی مِلتا ہے اور حال بھی اِن کا نقیب ہے۔  

ب)مثبت رُجحان: ایسی مذہبی ہستیاں جو مسیحیوں کے لیے عزیزتر ہیں وہ مسلم دُنیا میں بھی انتہائی عقیدت واحترام سے دیکھی جاتی ہیں۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام، اُن کی والدہ محترمہ پاک بی بیمقدّسہ مریم، حضرت عیسیٰ مسیح کے حواری، رسول، مُقدّس یُوحنّا اصطباغی، حضرت زکریا اور دوسری دِینی شخصیات۔ تعظیم تو انجیلِ مُقدّس کے لیے بھی بہُت ہے کہ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ یہ الہامی کتاب ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اُتری اورقرآن مجید فرقانِ حمید میں اِس کی تصدیق موجود ہے۔ اُس پاک انجیل مقدّس کی جو اوریجنل موادِ مُقدّس پرمبنی تھی، بلا تحریف وتصریف، معتبر ومستند، قرآن شریف میں اِس بات کی بھی شہادت موجود ہے کہ حضور پاک حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حضرت عیسیٰ مسیح کو ماننے والے موجود تھے جو اسلام سے مخاصمت نہ رکھتے تھے۔ ایسے نصاریٰ کو اقربا کے نزدیک نزدیک رُتبہ سے یاد کِیا جاتا رہا۔ 

یقینا آپ ایمان والوں کا سب سے زیادہ دُشمن یہودیوں اور مُشرکوں کو پائیں گے اور ایمان والوں سے سب سے زیادہ دوستی کے قریب آپ یقینا اُنھیں پائیں گے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں، یہ اِس لیے کہ اِن میں عُلما اور عبادت کے لیے گوشہ نشین افراد پائے جاتے ہیں اور اس وجہ سے کہ وہ تکبُّر نہِیں کرتے۔ 

(القرآن،المائدہ: 82)  

یہ لوگ یوں بھی عزیز مان گئے کہ خُداوند کریم کے حضور عاجزی وانکساری کے ساتھ جھکنے والے تھے۔

یقینا اہلِ کتاب میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور تمھاری طرف جو اُتارا گیا ہے اور اُن کی جانب جو نازل ہُوا اُس پر بھی، اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچتے بھی نہِیں، اِن کا بدلہ اِن کے رب کے پاس ہے، یقینا اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔ 

(القرآن،آلِ عمران: 199)  

تم بہترین اُمّت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حُکم کرتے ہو اور بُری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو، اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لاتے تو اُن کے لیے بہتر تھا، اُن میں ایمان والے بھی ہیں، لیکن اکثر تو فاسق ہیں۔ 

(القرآن،آلِ عمران: 110)  

یہ سارے کے سارے یکساں نہِیں بل کہ اِن اہلِ کتاب میں ایک جماعت (حق پر) قائم رہنے والی بھی ہے جو راتوں کے وقت بھی کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدے بھی کرتے ہیں۔ 

(القرآن،آلِ عمران:113)  

پھر قرآن پاک میں ذِکر ہُوا۔ 

یہ جو کچھ بھی بھلائیاں کریں اُن کی ناقدری نہ کی جائے گی اور اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کو خوب جانتا ہے۔ 

(القرآن،آلِ عمران: 115)  

پھر اِن میں سے بعض نے تو اِس کتاب کو مانا اور بعض اِس سے رُک گئے، اور جہنّم کا جلانا کافی ہے۔ 

(القرآن، النسا: 55)   

(وہ قندیل) اُن گھروں میں (ہے) جن کے بارے میں خُدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ بُلند کیے جائیں اور وہاں خُدا کے نام کا ذِکر کِیا جائے (اور) اُن میں صبح وشام اُس کی تسبیح کرتے رہیں۔ 

(یعنی ایسے) لوگ جن کو خُدا کے ذِکر اور نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے سے نہ سوداگری غافل کرتی ہے نہ خرید وفروخت۔ وہ اُس دِن سے جب دِل (خوف اور گھبراہٹ کے سبب) اُلٹ جائیں گے اور آنکھیں (اوپر چڑھ جائیں گی) ڈرتے ہیں۔ 

(القرآن، سورة النور: 37-36)  

پھر اُن کے پیچھے اُن ہی کے قدموں پر (اور) پیغمبر بھیجے اور اُن کے پیچھے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو بھیجا اور اُن کو انجیلِ مقدّس عنایت کی اور جن لوگوں نے اُن کی پیروی کی ان کے دِلوں میں شفقت اور مہربانی ڈال دی اور لذّات سے کنارہ کشی کی تو اُنھوں نے خُود ایک نئی بات نکال لی، ہم نے اُن کو اِس کا حکم نہِیں دِیا تھا۔ مگر (اُنھوں نے اپنے خیال میں) خُدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے (آپ ہی ایسا کر لیا تھا) پھر جیسا اُس کو نباہنا چاہیے تھا، نباہ بھی نہ سکے۔ پس جو لوگ اُن میں سے ایمان لائے اُن کو ہم نے اُن کا اجر دِیا، اور اُن میں بہُت سے نافرمان ہیں۔ 

(القرآن، الحدید: 27)  

یہ تو ایک رُخ ہُوا اور دوسرا رُخ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ 

مومنو! (اہلِ کتاب کے) بہُت سے عالم اور مشائخ لوگوں کا مال ناحق کھاتے اور (ان کو) راہِ خُدا سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اُس کو خُدا کے رستے میں خرچ نہِیں کرتے اُن کو عذابِ علیم کی خبر دو۔ 

(القرآن 34:9) 

ج)منفی رُجحان: یہ رُجحان خاص طور پر خُدا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مُتعلّق جو مسیحی عقائد ہیں اُن کو لپیٹ میں لیتا ہے۔ مسیحیوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم کو ہی خُدا مان لیا ہے اور وہ اُنھیں خدا کا بیٹا تسلیم کرتے ہیں۔ 

جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ عیسیٰ ابنِ مریم خُدا ہیں وہ بے شک کافر ہیں۔ (اُن سے) کہہ دو کہ اگر خُدا عیسیٰ ابنِ مریم کو اور اُن کی والدہ کو اور جتنے لوگ زمین میں ہیں سب کو ہلاک کرنا چاہے تو اُس کے آگے کس کی پیش چل سکتی ہے؟ اور آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اُن میں ہے سب پر خُدا کی بادشاہی ہے۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور خُدا ہر چیز پر قادر ہے۔ 

(القرآن، المائدہ: 17) 

اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خُدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح خُدا کے بیٹے ہیں، یہ اُن کے مُنہ کی باتیں ہیں، پہلے کافر بھی اِسی طرح کی باتیں کہا کرتے تھے، یہ بھی اُنھیں کی ریس کرنے لگے ہیں، خُدا اُن کو ہلاک کرے، یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔ 

اُنھوں نے اپنے علما اور مشائخ اور مسیح ابنِ مریم کو اللہ کے سِوا خُدا بنا لیا حال آںکہ اُن کو یہ حُکم دِیا گیا تھا کہ خُداے واحد کے سِوا کِسی کی عبادت نہ کریں، اُس کے سِوا کوئی معبود نہِیں، اور وہ اُن لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔

( (القرآن، سورة التوبہ: 31-30

مسیحی تین خُداﺅں کی پوجا کرتے ہیں اور قطعیت کے ساتھ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کر دِیا گیا تھا۔ 

اور اُن کے ُکفر کے سبب اور مریم پر بُہتانِ عظیم باندھنے کے سبب۔ 

اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو جو خُدا کے پیغمبر (کہلاتے) تھے، قتل کر دِیا ہے (خُدا نے اُن کو ملعون کر دِیا) اور اُنھوں نے عیسیٰ کو قتل نہِیں کِیا اور نہ اُنھیں سولی پر چڑھایا بل کہ اُن کو اُن کی سی صُورت معلوم ہوئی۔ اور جو لوگ اُن کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ اُن کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ پیرویِ ظن کے سِوا اُن کو اِس کا مطلق عِلم نہِیں، اور اُنھوں نے عیسیٰ کو یقینا قتل نہِیں کِیا بل کہ خُدا نے اُن کو اپنی طرف اُٹھا لیا۔ اور خُدا غالب (اور) حِکمت والا ہے۔ 

(القرآن، النسا: 156-158)  

جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ ! مَیں تجھے پورا لینے والا ہُوں اور تجھے اپنی جانب اُٹھانے والا ہُوں اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہُوں اور تیرے تابعداروں کو کافروں کے اوپر غالب کرنے والا ہُوں قیامت کے دِن تک، پھر تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے، مَیں ہی تمھارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کروں گا۔ 

(القرآن، سورة آلِ عمران: 55)  

اور پھر یہ کہ وہ فرقوں میں تقسیم ہو گئے کیوںکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہستی کے بارے میں اُن کے خیالات اور پھر اعتقادات یکسر بدل گئے اور اُن میں اختلافات کی دراڑیں پڑ گئیں۔ 

اور جو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں، ہم نے اُن سے بھی عہد وپیمان لیا، اُنھوں نے بھی اُس کا بڑا حصہ فراموش کر دِیا جو اُنھیں نصیحت کی گئی تھی، تو ہم نے بھی اُن کے آپس میں بُغض وعداوت ڈال دی جو تا قیامت رہے گی، اور جو کچھ یہ کرتے تھے عن قریب اللہ تعالیٰ اُنھیں سب بتا دے گا۔ 

(القرآن،المائدہ: 14)  

ان کا دعویٰ ہے کہ فقط مسیحی ہی جنت میں داخل ہوں گے۔ 

اور (یہودی اور عیسائی) کہتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے سِوا کوئی بہشت میں نہِیں جانے کا۔ یہ ُان لوگوں کے خیالاتِ باطل ہیں۔ (اے پیغمبر! اُن سے) کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔ 

(القرآن، سورة البقرة: 111)  

یہ متناقض ومتضاد صُورتِ حال ہی بلاشک وشبہ ذِمّہ دار ہے مسیحیوں کے اُن متصادم رویّوں کی اور مخاصمانہ سُلُوک کی جو وہ قرآن پاک اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف روا رکھتے ہیں۔ بعض مسیحیوں نے اِن مسلم خیالات کو درخورِ اعتنا سمجھا، بعض نے انکار کر دِیا۔ قرآن بھی اِن متنازع باتوں سے کبیدہ خاطر ضرور ہُوا اور بعض آیات میں ردِّعمل سامنے آیا۔ 

اِسی لیے تو مسیحیوں کو کِسی جگہ تو منظورِ نظر گروہ قرار دِیا گیا اور اُنھیں اہلِ کتاب کے لقب سے ملقَّب کِیا گیا اور کہِیں مقہورین کے گروہ میں شُمار کرتے ہوئے اُنھیں ُکفار میں شامل کِیا گیا اور بعض مقامات پر اُنھیں بُت پرست اور مشرکین کی صف میں لا کھڑا کِیا گیا۔ تضادات کا شکار یہی ضابطے تھے جنھوں نے مسلمانوں کا وہ کِردار تشکیل دِیا جو مسیحیت کے ساتھ اُن کے بُرے سُلُوک پر منتج ہُوا، اور آج بھی اُن کے رویّوں میں کوئی کمی مشاہدے میں نہِیں آئی۔ مسیحیوں اور مسیحیت کو جن پیمانوں سے ناپا جاتا ہے، چاہے مشرکین، چاہے اہلِ کتاب اور موحدین کی صورت، اِس کا دارومدار ہوتا ہے کافی حد تک کھنچاو والی صُورتِ حال پر اور یا پھر پُرامن بقاے باہمی والی فضا میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر جس میں مسلمان اور مسیحی بالاتفاق سانس لیتے ہیں، بعینہ حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی زِندگی میں دونوں اُمتّوں کی نہج رہی تھی۔ 

۲۔اسلامی روایات ودینیات میں یہی دورُخی چلتی آ رہی ہے اور کثرت سے منفی رُجحانات کی پذیرائی کی گئی ہے۔ یہ دو دھاری میراث قابلِ توجُّہ رہے، ایک طرف تو یہ کہ مسیحی عقائد کی اور اخلاقیات کی مسلسل نفی کی جاتی ہے اور دوسری طرف یُوں بھی ہے کہ منظرنامہ بالکل ہی اُلٹ جاتا ہے اور قرآن میں اِس کی تائید موجود ہے۔ تین آسمانی مذاہب میں سے ایک مسیحیت کو بتایا گیا اور تینوں وہ مذہب ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی تعلیم دیتے ہیں۔ خُدا پر کامل ایمان کے سبب مسیحیوں کو برادران وخواہران کی صف میں شُمار کِیا گیا، دینی بھائی بہن، یعنی مومن سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ 

منفی نقطہءنظر کے مطابق دیکھا جائے تو ہمیں تین پرتیں نظر آتی ہیں جن کا ذِکر ضروری ہے: 

الف)مسیحیت خاصے غُلُو سے کام لیتے ہوئے اُس تعلُّق کو بیان کرتی ہے جو خالق اور مخلوق کے درمیان موجود ہے اور وہ مسیحی عقیدہ کے مطابق محبت کا رشتہ ہے جو خُدا باپ اور اُس کے بچّوں یعنی تمام انسانیت کے مابین قائم ہے۔ 

ب)مسیحیت میں روحانی اقدار پر بہُت زور دِیا گیا ہے، روحانی اطوار پر تاکید بھی بڑھا چڑھا کر بیان کی گئی اور جسم اور دُنیاوی زِندگی کی قربانی کے عوض آخرت کی زِندگی اور روح کو امتیازی حیثیت سے پورے ذوق وشوق سے اپنا لیا گیا۔ فرد پر توجُّہ دی گئی اور زِندگی کے سماجی ومعاشرتی پہلو کی اہمیت عدم توجّہی کا شکار رہی۔ یہ باتیں اسلام سے لگّا نہِیں کھاتیں، کیوںکہ اسلام تو تمام کے تمام انسانوں کی فلاح وبہبود، تالیفِ قلب، اور اُن کے لیے دونوں جہانوں کی بہتری کی خاطر اپنے آپ کو وقف کر دینے والا مذہب ہے۔ 

ج)انتم کار یہ کہ مسیحیت خُداے ارفع واعلیٰ کے مطلق ہستی ہونے کو اُس گہری عقیدت اور احترام سے معنون نہِیں کر سکی جو اُس کی مقتضی تھی، بل کہ وہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک ہی وقت میں انسان بھی مانتی ہے اور خُدا بھی۔ یہی نہِیں وہ تو عام انسانوں کو بھی حیاتِ ربّانی میں شریک گردانتی ہے۔۳۔اہم نکاتِ مسیحی 

مسیحیت کے مختلف منتخب پہلوﺅں میں سے دوپر تاکیدی توجُّہ مبذول کروائی گئی ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔ 

۱۔مسیحیت بطور طرزِ زِندگی 

الف)اصطلاح میں اسم ”کرسچیئن“ (مسیحی) خُداوند حضرت یسوع مسیح کے ماننے والوں کے لیے سنہ 43ع کے لگ بھگ انطاکیہ (جنوب مشرقی ترکی) کے باسی غیر یہودیوں نے رواج دِیا۔  

اور جب وہ ملا تو اُسے انطاکیہ میں لایا اور یوں ہُوا کہ وہ سال بھر تک وہاں جماعت میں شامل ہوتے اور بہُت سے لوگوں کو تعلیم دیتے رہے۔ اور شاگرد پہلے انطاکیہ ہی میں مسیحی کہلائے۔ 

(رسُولوں کے اعمال 26:11)  

مسیحی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ناصرت کے حضرت یسوع مسیح پر کامل ایمان ہونا چاہیے جو انسانی فلاح کے لیے تمام عُمر کوشاں رہا۔ 

کہ کس طرح خُدا نے حضرت یسوع ناصری کو رُوح القدس سے اور قُدرت کے ساتھ مسح کِیا۔ وہ نیکی کرتا اور اُن سب کو جو شیطان کے ہاتھ سے ظلم اُٹھاتے تھے شِفا دیتا پھرا کیوںکہ خُدا اُس کے ساتھ تھا۔ 

(رسولوں کے اعمال 38:10)  

اور وہی خُداوند حضرت یسوع مسیح جس نے صلیب پر جان دی اور مُردوں میں سے اُٹھ کھڑا ہُوا، وہی، وہی ہے کرائسٹ، ہمارا مسیحا، المسیح، وہ خُدا کی ذات پر حتمی، معتبر، حقیقی اور مُکمّل اظہار کے ساتھ انسانوں پر منشکف ہُوا۔ مسیحیوں کی یہی سعی رہی ہے کہ وہ خُدا اور اُس کے بندوں سے اپنا رشتہ یُوں مستحکم رکھیں جو عین خُدا کی رضا کے مطابق ہو اور انسانیت کی خدمت وبھلائی پر مبنی ہو۔ خُدا کی یہی مرضی ہے، وہ ہم سے یہی چاہتا ہے کہ ہم اُس کی مخلوق سے پیار کریں، تمام انسان اس درجہ پر فائق ہیں جہاں خالق نے اُنھیں اپنے بچّوں سے موسوم کِیا ہے۔ اِسی بحث کے باوصف ہمیں اِس تقاضاے خُداوندی پر پُورا اُترنا ہے کہ ہم دونوں سے پیار کریں، خُدا سے بھی اور تمام انسانوں سے جو ہمارے ہی بھائی بہن ہیں۔ 

مسیحیوں کا پکا عقیدہ ہے کہ خُداوند حضرت یسوع مسیح جسے مصلوب کِیا گیا، وہ مُردوں سے جی اُٹھااور اب قدرت وسطوت وشانِ خُداوندی میں وہ شریک ہے، خُدا کے ساتھ اپنے ابّا خُدا کے ساتھ۔ وہ زِندہ ہے، ہر آن ،ہر جا موجود ہے۔ 

ب)روے زمین پر رہتے ہوئے خُداوند حضرت یسوع مسیح نے انکشاف کِیا کہ خُدا باپ ہے، اُس کا اپنا ابّا، وہی مسیحیوں کا باپ ہے اور تمام انسانوں کا باپ خُدا ہے۔

اِس وجہ، سے یہودی اور بھی زیادہ اُسے قتل کرنے کی کوشش کرنے لگے کیوںکہ وہ نہ صِرف سبت کا احترام نہِیں کرتا تھا بل کہ خُدا کو اپنا باپ کہہ کر اپنے آپ کو خُدا کے برابر بناتا تھا۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 18:5)  

حضرت یسوع مسیح نے اُس سے کہا، مجھ سے نہ چمٹنا کیوںکہ مَیں ہنوز اپنے باپ کے پاس اُوپر نہِیں گیا، مگر میرے بھائیوں کے پاس جا اور اُن سے کہہ کہ مَیں اپنے باپ اور تمھارے باپ کے پاس یعنی اپنے خُدا اور تمھارے خُدا کے پاس اُوپر جاتا ہُوں۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 17:20) 

پس تم اِس طرح دُعا کِیا کرو کہ اے ہمارے باپ تُو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے.... 

(مُقدّس متّی 9:6)  

خدا باپ کی یہی مشیت ہے کہ تمام انسانوں کو یہی سمجھنا چاہیے کہ وہ اُس کے بچّے ہیں، نسلِ انسانی اور خُدا کے مابین جو تعلُّقِ خاطر ہے، جو رشتہ ہے، یعنی باپ اور بیٹے کا رشتہ، خُداوند حضرت یسوع مسیح نے اُسے ایک مضبوط وموموثِّر تمثال سے واضح کِیا ہے.... اور اِس سے محبتِ خُداوندی چھلک چھلک پڑ رہی ہے۔ اور وہ مثال ہے.... وہی محبت جو ایک باپ اپنے بچّوں کو دے سکتا ہے، بل کہ اُس سے بھی کہِیں زیادہ خُدا باپ اپنے فرزندوں یعنی انسانوں سے پیار کرتا ہے۔ اور جس والدیت کے رشتے کی بات کی جا رہی ہے وہ خُدا باپ کا اپنی مخلوق کے ساتھ کِسی مادّی طبیعیاتی اعتبار سے قائم ہونے والا رشتہ نہِیں بل کہ ایسا رشتہ ہے جیسا ایک شفیق ومہربان باپ کا اپنے بچّوں کے ساتھ ہو سکتا ہے، مگر خُدا اور مخلوق کا رشتہ روحانی عمل ہے، اِس سے کہِیں زیادہ مضبوط اور بے حدّوحساب۔ 

مُقدّس عہد نامہءقدیم (توریت) میں خُداوند حضرت یسوع مسیح نے اپنے پیارے اور مخصوص انداز میں عرفانِ خُداوندی کا ایک نُمایاں پہلو یُوں اُجاگر کِیا ہے: انتہائی عمیق محبت ہے جو خُدا کو اپنے بندوں سے ہے۔ بالکل ویسی محبت جیسی ماں کو اپنے بچّوں سے ہو سکتی ہے۔ 

پر صیہون کہتا ہے کہ خُداوند نے مجھے ترک کِیا اور مالک مجھے بھُول گیا۔ کیا عورت اپنے شیرخوار بچےّ کو بھُول جاتی ہے؟ کہ اپنے شکم کے فرزند پر رحم نہ کرے اور اگرچہ وہ بھُول بھی جائے پر مَیں تجھ کو نہ بھُولوں گا۔ 

(اشعیا 15,14:49)  

جب اسرائیل ہنوز بچہ ہی تھا تو مَیں نے اُس سے محبت رکھی۔ اور مَیں نے مصر سے اپنے بیٹے کو بُلایا، جس قدر مَیں نے اُن کو بلایا اُسی قدر وہ میرے سامنے سے دُور ہوتے گئے۔ وہ بعلیم کے لیے قربانیاں گُزراننے اور تراشی ہوئی مُورتوں کے لیے بخور جلانے لگے تو بھی مَیں نے افرائیم کو چلنا سکھایا اور گود میں اُٹھایا۔ لیکن اُنھوں نے نہ مانا کہ مَیں نے ہی اُن کو صِحّت دی۔ مَیں اُن کو انسانی رشتوں اور محبت کی ڈوریوں سے کھینچتا رہا۔ مَیں اُن کے لیے اُس کے مانند تھا جو ننھّے بچےّ کو اُٹھا کر اپنے گال سے لگاتا اور اُس کی طرف جھُک کر اُسے کھِلاتا۔

  (ہوشیع 1-4:11)

یا پھر جیسے ایک شوہر اپنی بیوی سے پیار کرتا ہے چاہے وہ وفادار، پاکباز ہو ہی نہ۔ 

اور خُداوند نے مجھ سے کہا کہ جا اور اُس عورت سے پھر محبت رکھ جو کِسی اور کی محبوبہ ہو کر زنا کرتی ہے۔ جس طرح خُداوند بنی اسرائیل سے محبت رکھتا ہے، حال آںکہ وہ دوسرے معبودوں پر نگاہ کرتے ہیں اور کشمش کی ٹکیوں کو چاہتے ہیں۔ 

  (ہوشیع 1:3) 

مزید حوالہ کے لیے براے تلاوت (حزقیال 1:16تا63) اور (ہوشیع باب 3-1

اور اِس محبت کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اپنی منگیتر سے اُلفت رکھے۔ (نشید الاناشید) خُداوند حضرت یسوع مسیح نے خُداے مہربان کی مُکمّل اور غیر مشروط محبت کی جو نسلِ انسانی سے اُس کی کاملاً شرح بیان کر تی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ خُداکی محبت محض یہودیوں کے لیے وقف ہے، بِلاشُبہ اُن لوگوں پر محیط ہے، یہودیوں میں جو راست باز ہیں، صادق ہیں، پاکباز ہیں، لیکن خُداوند حضرت یسوع مسیح کے دورمیں تو دریاے محبتِ خُداے قدوس بے کنار وبے بہا ہو گیا، انسانی فہم وادراک کی وسعتوں سے باہر وبالا۔ حتیٰ کہ قیاسِ انسانی کی حُدُود وقیود میں یہ بات سما گئی کہ بادشاہتِ الٰہی سے نہ صِرف غیر یہودیوں کو بل کہ اُن یہودیوں کو بھی دیس نکالا مِل گیا جو بال بال گُناہوں میں جکڑے پڑے تھے، سرتاپا ڈوب چکے تھے گُناہوں میں، اور جن میں نہ ہی شرمندگی تھی نہ خُدا خوفی، نزدیک کی مثال اُس زمانہ کے یہودی محصول داروں کی تھی اور وہ بھی اُس زُمرے میں آتے تھے جو لوگ متعدی بیماریوں کا شکار تھے، مثلاً کوڑھ، جزام۔ 

 خُدا کے اور انسانوں کے درمیان رشتے کے بارے میں جو تفہیم تھی کہ وہ اچھے انسانوں کو ہی پسند کرتا ہے، خُداوند حضرت یسوع مسیح نے اُس رشتے اور تعلُّق کا کینوس ہی بدل دِیا۔ اُسے وسعت دے کر تمام مخلوق، تمام انسانوں تک پھیلا دِیا۔ اور دعویٰ کِیا کہ خُدا تو سب پر مہربان ہے، سبھی کی سُنتا ہے اور سب سے ایک جیسا پیار کرتا ہے، یہی شانِ خُداوندی ہے، یہی اُس کا بڑا پن ہے۔ اُس کی نظرِ التفات سب کے لیے ایک جیسی ہی ہے۔ وہ خُدا باپ ہے، سب کا، اُس کی محبت سب کے لیے ہے، بِلا کِسی امتیاز کے، سب کے لیے برابر اور اگر فرض کر لیا جائے کہ خُدا کی محبت ومہربانیاں کِسی کے لیے خاص بھی ہو سکتی ہیں، تو پھر پتا ہے وہ کون لوگ ہوں گے؟ اُن کے علاوہ اور کوئی نہِیں جنھیں معاشرے نے دھتکار دیا، سماج کے روندے ہوئے لوگ، اور وہ لوگ جنھیں سوسائٹی قابلِ نفرین سمجھتی ہو اور وہ لوگ بھی گُناہ جن کا اوڑھنا بچھونا رہا مگر ندامت نے اُنھیں آن گھیرا، ضمیر نے متاسّف ہونے پر مجبور کر دِیا، توبہ کا در کھٹکھٹانے پر آمادہ رہے۔ خُدا بخشنہار ہے، اُس کی توجُّہ اُس کی محبت میں کوئی فرق نہِیں آتا، اُس کی محبت سب کے لیے ہے، غیر یہودیوں کے لیے بھی، اور اُن میں زمانِ مسیح کے ٹیکس کلکٹرز (مُحصِّل) بھی شامل ہیں، اور کسبیاں بھی.... اور یہ لوگ خُدا کی بادشاہی میں داخل ہونے میں سبقت بھی لے جا سکتے ہیں۔

حضرت یسوع مسیح نے اُن سے کہا، مَیں تم سے سچ کہتا ہُوں کہ مُحصِّل اور کسبیاں تم سے پہلے خُدا کی بادشاہی میں داخل ہوتی ہیں۔ 

(مُقدّس متّی 31:21) 

حضرت یسوع مسیح نے یہ سُن کر تعجب کِیا اور اُن سے جو اُس کے پیچھے ہو لیے تھے کہا، مَیں تم سے سچ کہتا ہُوں کہ مَیں نے اِتنا بڑا ایمان اسرائیل میں بھی نہِیں پایا۔ 

(مُقدّس متّی 10:8)   

فریسیوں میں سے کِسی نے اُسے دعوت دی کہ میرے ہاں کھانا کھا۔ اور وہ اُس فریسی کے گھر جا کر کھانا کھانے بیٹھا۔ اور دیکھو! اُس شہر میں ایک گنہگار عورت تھی جو یہ معلوم کر کے کہ وہ اُس فریسی کے گھر میں کھانے کھانے بیٹھا ہے، سنگِ مرمر کے عطردان میں عطر لائی۔ اور اُس کے پانو کے پاس روتی ہوئی پیچھے کھڑی ہو کر آنسوﺅں سے اُس کے پاﺅں بِھگونے لگی اور اپنے سر کے بالوں سے پونچھ کر اُس کے پاﺅں کو مکرراً چُوما اور عِطر مَلا۔ اور اُس فریسی نے جس نے اُس کی دعوت کی تھی۔ یہ دیکھ کر اپنے میں کہنے لگا کہ اگر یہ نبی ہوتا تو جانتا کہ جو اِسے چھُوتی ہے یہ کون اور کیسی عورت ہے، یعنی یہ کہ گُنہگار ہے۔ 

اور حضرت یسوع مسیح نے مخاطب ہو کر اُس سے کہا کہ اے شمعون! مجھے تجھ سے کچھ کہنا ہے۔ اُس نے کہا ،اے اُستاد! فرما۔ 

کِسی ساہوکار کے دوقرضدار تھے۔ ایک پانچ سو دینار کا، دوسرا پچاس کا۔ جب اُن کو ادا کرنے کا مقدور نہ رہا تو اُس نے دونوں کو بخش دِیا۔ پس اُن میں سے کون اُس کو زیادہ پیار کرے گا؟ 

شمعون نے جواب میں کہا، میری دانست میں وہ جسے اُس نے زیادہ بخشا۔ تب اُس نے اُس سے کہا، تُو نے ٹھیک فیصلہ کِیا ہے۔ 

اور اُس عورت کی طرف مُنہ پھیر کر اُس نے شمعون سے کہا، کیا تو اِس عورت کو دیکھتا ہے۔ مَیں تیرے گھر میں آیا، تُو نے پاﺅں کے لیے پانی نہ دِیا مگر اِس نے میرے پاﺅں آنسوﺅں سے بِھگو دیے اور اپنے بالوں سے پونچھے۔ تُو نے مجھ کو نہ چُوما مگر اِس نے جب سے کہ مَیں اندر آیا ہُوں میرے پاﺅں چومنے سے باز نہ رہی۔ تُو نے میرے سر پر تیل نہ مَلا مگر اِس نے میرے پاﺅں پر عطر مَلا ہے۔ اِسی لیے مَیں تجھ سے کہتا ہُوں کہ اِس کے گناہ جو بہُت ہیں مُعاف ہو گئے کیوںکہ اِس نے بہُت پیار کِیا۔ مگر جس کو تھوڑا پیار کِیا گیا ہے، وہ تھوڑا پیار کرتا ہے۔ اور اُس عورت سے کہا کہ تیرے گُناہ مُعاف ہوئے۔ اس پر ہمنوالے اپنے میں کہنے لگے کہ یہ کون ہے جو گُناہ بھی مُعاف کرتا ہے۔ 

مگر اُس نے عورت سے کہا، تیرے ایمان نے تجھے بچا لیا ہے، سلامت چلی جا۔ 

(36-50:7مُقدّس لُوقا)

یہ تھی وہ بات جس نے خُداوند حضرت یسوع مسیح کو.... اظہارِ خُداوندی کے بطور ہمہ گیر اور انتہائی مہربان اور رحم کرنے والے مُقدّس باپ کی مطابقت میں عمل کناں رکھا اور وہ ہمیشہ اُن غریبوں اور ناچاروں کو اور بدنامِ زمانہ معصیت کاروں کو گلے لگائے رکھتے رہے جنھوں نے اُن کی طرف بتقاضاے روحانی ومادّی اصلاح وحاجت رُجُوع کِیا۔ خُداوند نے اپنے در پہ آئے کِسی بھی ذی روح کو نامُراد نہ لوٹایا۔ غریب، امیر، مقتدر یا بے کس، اُونچے درجے کے لوگ یا عام فریسی، حتیٰ کہ مُحصِّل اور گناہ وعصیان میں لتھڑے انسان، الغرض، جس نے بھی خُداوند حضرت یسوع مسیح کی مہمانی کے لیے اُنھیں مدعو کِیا، آپ نے دعوت قبول کر لی۔ گنہگاروں کے ساتھ مِل بیٹھ کر کھانے پر کئی بھنویں تنی ہوں گی، تنقیدوں کے ِتیر چلے ہوں گے، اچھّے اچھّوں نے مُنہ بسورے ہوں گے۔

حضرت یسوع نے یہ سُن کر تعجب کِیا اور اُن سے جو اُس کے پیچھے ہو لیے کہا، مَیں تم سے سچ کہتا ہُوں کہ مَیں نے اِتنا بڑا ایمان اسرائیل میں بھی نہِیں پایا۔ 

(مُقدّس متّی 10:8)  

کیوں کہ یوحنا نہ کھاتا آیا اور نہ پیتا۔اور لوگ کہتے ہیں کہ اُس میں بد روح ہے۔ابنِ انسان کھاتا پیتا آیا اور لوگ کہتے ہیں کہ دیکھو، کھاﺅ اور شرابی، محصِّلوں اور گنہگاروں کا یار مگر حکمت اپنے کاموں سے راست ٹھہرتی ہے۔ 

(مُقدّس متّی 18-19:11)  

اُن دونوں میں سے کون اپنے باپ کی مرضی بجا لایا؟ اُنھوں نے کہا کہ پہلا۔ حضرت یسوع نے اُن سے کہا کہ محصِّل اور کسبیاں تم سے پہلے خُدا کی بادشاہی میں داخل ہوتی ہیں۔ 

(مُقدّس متّی 31:21) 

اور جب وہ گھر میں کھانا کھانے بیٹھا تو دیکھو بہُت سے محصِّل اور گُنہگار آ کے حضرت یسوع اور اُس کے شاگردوں کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے۔ فریسیوں نے یہ دیکھ کر اُس کے شاگردوں سے کہا، تمھارا اُستاد محصِّلوں اور گُنہگاروں کے ساتھ کیوں کھاتا ہے؟ اُس نے یہ سُن کر کہا کہ تندرستوں کو نہِیں بل کہ بیماروں کو طبیب درکار ہے۔ لیکن تم جا کر اِس کے معنے دریافت کرو کہ ”مَیں قربانی نہِیں بل کہ رحم پسند کرتا ہُوں“ کیوںکہ مَیں راست بازوں کو نہِیں بل کہ گنہگاروں کو بُلانے آیا ہُوں۔ 

(مُقدّس متّی :9 10-13) 

اسی طرح.... مُقدّس لُوقا 36:7تا 50کی تلاوت سے حوالہ پڑھیے: 

تب سب محصِّل اور گُنہگار اُس کے پاس آئے تھے تا کہ اُس کی سُنیں، اور فریسی اور فقیہ، یوں کہتے ہوئے اعتراض کرتے تھے کہ یہ گُنہگاروں سے مِلتا اور اُن کے ساتھ کھانا کھاتا ہے۔ 

(مُقدّس لُوقا2,1:15) 

مَیں تم سے کہتا ہُوں کہ اسی طرح ایک تائب گُنہگار کے باعث خُدا کے فرشتوں کے سامنے خُوشی ہوتی ہے۔ 

(مُقدّس لُوقا 7:19)   

ٹھیک اِنہی معانی ومفہوم میں خُداوند نے کہا کہ مَیں راست بازوں کے لیے نہِیں، عاصیوں اور گناہ گاروں کے لیے دُنیا میں آیا ہُوں۔

لیکن تم جا کر اِس کے معنے دریافت کرو کہ

مَیں قربانی نہِیں بل کہ رحم پسند کرتا ہُوں“ کیوںکہ مَیں راست بازوں کو نہِیں بل کہ گُنہگاروں کو بُلانے آیا ہُوں۔ 

(مُقدّس متّی 13:9)  

حضرت یسوع مسیح نے سُن کر اُن سے کہا، تندرستوں کو طبیب درکار نہِیں بل کہ مریضوں کو، کیوںکہ مَیں راست بازوں کو نہِیں بل کہ گُنہگاروں کو بُلانے آیا ہُوں۔ 

(مُقدّس مرقس 17:2)  

مَیں راست بازوں کو نہِیں بل کہ گُنہگاروں کو توبہ کے لیے بُلانے آیا ہُوں۔ 

(مُقدّس لُوقا 32:5)   

وہ اُن سے سخت خفا ہوتا جو لوگ اپنی راست بازی پر اِتراتے تھے اور اِس کے ساتھ ساتھ گُنہگاروں کی مذمّت کرتے اور اُنھیں ملامت کا نشانہ بناتے اور یہی رویّہ غریبوں اور غیر یہودیوں کے ساتھ روا رکھتے تھے۔

پس جو کچھ وہ تم سے کہیں وہ سب عمل میں لاﺅ اور مانو، لیکن اُن کے سے کام نہ کرو کیوںکہ وہ کہتے ہیں، مگر کرتے نہِیں۔ 

(مُقدّس متّی 3:23)  

لیکن تم پر افسوس! اے فقیہو اور فریسیو! اے ریاکارو! 

تم آسمان کی بادشاہی لوگوں کے لیے بند کرتے ہو، نہ تو آپ داخل ہوتے ہو اور نہ اندر جانے والوں کو داخل ہونے دیتے ہو۔ تم پر افسوس! اے فقیہو اور فریسیو، اے ریاکارو! جو بیواﺅں کے گھروں کو نگلتے ہو اور دکھاوے کے لیے نمازوں کو طول دیتے ہو۔ تم اِس لیے زیادہ سزا پاﺅ گے۔ 

تم پر افسوس! اے فقیہو اور فریسیو، اے ریاکارو کیوںکہ تم تری اور خشکی کا دورہ کرتے ہو تاکہ کسی کو اپنا مُرید بناﺅ، اور جب وہ بن چکا تو اُسے اپنے سے دوگُنا جہنّم کا فرزند بناتے ہو۔ 

تم پر افسوس! اے اندھے رہنماﺅ، جو کہتے ہو کہ اگر کوئی ہیکل کی قسم کھائے تو کچھ مضایقہ نہِیں، لیکن اگر ہیکل کے سونے کی قسم کھائے تو پابند ہو گا۔ اے نادانو! اور اندھو! کون سا بڑا ہے؟ سونا یا ہیکل جو سونے کو پاک کرتی ہے؟ پھر اگر کوئی قربان گاہ کی قسم کھائے تو کچھ مضایقہ نہِیں لیکن اگر نذر کی جو اُس پر چڑھی ہو قسم کھائے تو پابند ہو گا۔ اے اندھو! کون سی بڑی ہے، نذر یا قربان گاہ جو نذر کو پاک کرتی ہے؟ پس جو قربان گاہ کی قسم کھاتا ہے وہ اُس کی اور اُن سب چیزوں کی جو اُس پر ہیں قسم کھاتا ہے۔ اور جو ہیکل کی قسم کھاتا ہے اُس کی اور اُس کے رہنے والے کی بھی قسم کھاتا ہے۔ اور جو آسمان کی قسم کھاتا ہے وہ خُدا کے تخت کی اور اُس پر بیٹھنے والے کی بھی قسم کھاتا ہے۔ 

تم پر افسوس! اے فقیہو اور فریسیو! اے ریاکارو کیوںکہ پودینہ اور انیسُون اور کمون پر تو دَہ یکی دیتے ہو پر شریعت کی بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان سے لاپروائی کرتے ہو۔ واجب تھا کہ یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے۔ 

اے نابینا رہنماﺅ! جو مچھر چھانتے اور اُونٹ کو نگل جاتے ہو، تم پر افسوس! اے فقیہو اور فریسیو! اے ریاکارو! کیوںکہ تم پیالے اور رکابی کو باہر سے تو صاف کرتے ہو مگر اندر لُوٹ اور بدپرہیزی بھری ہے۔ اے نابینا فریسی پہلے پیالے اور رکابی کو اندر سے صاف کر تاکہ باہر سے بھی صاف ہو جائیں۔ تم پر افسوس! اے فقیہو اور فریسیو، اے ریاکارو! کیوںکہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کے مانند ہو جو باہر سے خُوب صُورت دِکھائی دیتی ہیں پر اندر مُردوں کی ہڈّیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں۔ اِسی طرح تم بھی ظاہر میں لوگوں کو راست باز دِکھائی دیتے ہو مگر باطن میں ریاکاری اور بے دینی سے بھرے ہو۔ 

تم پر افسوس! اے فقیہو اور فریسیو، اے ریاکارو کیوںکہ تم نبیوں کی قبریں بناتے اور راست بازوں کے مزار آراستہ کرتے ہو اور کہتے ہو کہ اگر ہم اپنے باپ دادا کے ایّام میں ہوتے تو انبیا کے خُون میں اُن کے شریک نہ بنتے۔ اِس طرح تم اپنی بابت گواہی دیتے ہو کہ ہم انبیا کے قاتلوں کے فرزند ہیں۔ 

پس اپنے باپ دادا کا پیمانہ بھر دو، اے سانپو! اے افعی کی اولاد! تم جہنّم کے فتویٰ سے کیوںکر بچو گے؟ اِس لیے دیکھو! مَیں انبیا اور علما اور فقہا کو تمھارے پاس بھیجتا ہُوں، اُن میں سے تم بعض کو قتل اور مصلوب کرو گے اور بعض کو اپنے عبادت خانوں میں کوڑے مارو گے اور شہر بہ شہر ایذا دیتے پھرو گے تاکہ سب بے گناہ خُون جو زمین پر بہایا گیا تم پر آئے۔ ہابیل راست باز کے خون سے لے کر زکریا بن بارک یاہ کے خُون تک جسے تم نے ہیکل اور مذبح کے درمیان قتل کِیا۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہُوں کہ یہ سب کچھ اِس پُشت پر آئے گا۔ 

(مُقدّس متّی 13:23تا 36)  

مگر اے فریسیو، تم پر افسوس! کہ تم پودینے اور سداب اور ہر ایک ترکاری پر دَہ یکی دیتے ہو لیکن انصاف اور خُدا کی محبت سے کِنارہ کرتے ہو! چاہیے تھا کہ اِن کو کرتے اور اُن کو بھی نہ چھوڑتے۔ اے فریسیو تم پر افسوس! کہ تم عبادت خانوں میں اعلیٰ درجے کی کُرسیاں اور بازاروں میں کُورنشات پسند کرتے ہو۔ تم پر افسوس! کیوںکہ تم پوشیدہ قبروں کے مانند ہو۔ آدمی اُن پر چلتے ہیں اور جانتے بھی نہِیں۔ 

تب علماے شرع میں سے کِسی نے مخاطب ہو کر اُس سے کہا کہ اے اُستاد! اِن باتوں کے کہنے سے تُو ہمیں بھی بے عزت کرتا ہے۔ لیکن اُس نے کہا، اے علماے شرع! تم پر بھی افسوس! کہ تم ایسے بوجھ جو اُٹھائے نہِیں جاتے آدمیوں پر لادتے ہو۔ اور آپ ایک اُنگلی بھی اُن بوجھوں کو نہِیں لگاتے۔ تم پر افسوس! کہ تم نبیوں کی قبروں کو بناتے ہو اور تمھارے باپ دادا نے اُن کو قتل کِیا۔ سچ مچ تم گواہی دیتے ہو اور اپنے باپ دادا کے کاموں کی تائید کرتے ہو۔ کیوںکہ اُنھوں نے تو اُن کو قتل کِیا اور تم قبریں بناتے ہو۔ اِسی لیے خُدا کی حکمت نے کہا، کہ مَیں نبیوں اور رسولوں کو اُن کے پاس بھیجوں گا، وہ اُن میں سے بعض کو قتل کریں گے اور ستائیں گے تاکہ سب نبیوں کے خون کی جو بِناے عالم سے بہایا گیا اِس پُشت سے جوابدہی کی جائے۔ ہابیل کے خون سے لے کر اُس ذکریا کے خُون تک جو قربان گاہ اور ہیکل کے درمیان ہلاک ہُوا۔ ہاں مَیں تم سے کہتا ہُوں کہ اِسی پُشت سے جوابدہی کی جائے گی۔ 

اے علماے شرع! تم پر افسوس کہ تم نے معرفت کی ُکنجی چھین لی۔ تم آپ داخل نہ ہوئے اور داخل ہونے والوں کو بھی روکا۔ 

(مُقدّس لُوقا 42:11تا52)  

پھر اُس نے بعضوں کے حق میں جو اپنے پر بھروسا رکھتے تھے کہ ہم راست باز ہیں اور دوسروں کو ناچیز جانتے تھے یہ تمثیل کہی کہ دو شخص ہیکل میں دُعا کرنے گئے، ایک فریسی دوسرا محصِّل۔ فریسی کھڑا ہو کر اپنے جی میں یوں دُعا کرنے لگا کہ اے خُدا! مَیں تیرا شکر کرتا ہُوں کہ مَیں باقی آدمیوں کی طرح جو لُٹیرے، ظالم، زناکار ہیں، یا اِس محصِّل کے مانند نہِیں ہُوں۔ مَیں ہفتہ میں دو بار روزہ رکھتا اور اپنی ساری آمدنی پر دَہ یکی دیتا ہُوں۔ مگر اُس محصِّل نے دُور کھڑے ہو کر اِتنا بھی نہ چاہا کہ آسمان کی طرف آنکھ اُٹھائے بل کہ چھاتی پِیٹ پِیٹ کر کہتا تھا کہ اے خُدا! مجھ گنہگار پر رحم کر! 

مَیں تم سے کہتا ہُوں کہ یہ شخص دوسرے کی نسبت راست باز ٹھہر کر اپنے گھر گیا۔ کیوںکہ جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کِیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا، وہ بڑا کِیا جائے گا۔ 

(مُقدّس لُوقا 9:18تا14)  

پس یہی خُداوند کی تعلیم کا لبِّ لباب تھا۔ 

مَیں تم سے کہتا ہُوں کہ اِسی طرح ننانوے راست بازوں کی نسبت جو توبہ کے محتاج نہِیں ایک تائب گُنہگار کے باعث آسمان پر زیادہ خوشی ہو گی۔ 

(مُقدّس لُوقا 7:15) 

مَیں تم سے کہتا ہُوں کہ اِسی طرح ایک تائب گُنہگار کے باعث خُدا کے فرشتوں کے سامنے خوشی ہوتی ہے۔ 

(مُقدّس لُوقا 10:15) 

مُسرف بیٹے والی تمثیل میں گُنہگاروں سے روا رکھی گئی سُنّتِ الٰہی کی کمال مثال سامنے آتی ہے۔

پھر اُس نے کہا، کسی شخص کے دو بیٹے تھے۔ اُن میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا، اے باپ! مال کا وہ حصہ جو مجھے آتا ہے مجھے دے۔ اُس نے مال اُنھیں بانٹ دِیا اور بہُت دِن نہ گذرے کہ چھوٹا بیٹا سب کچھ جمع کر کے دُور دراز مُلک کو روانہ ہُوا اور وہاں اُس نے اپنا مال اوباشی میں اُڑا دِیا۔ اور جب سب خرچ کر چُکا تو اُس ملک میں سخت کال پڑا اور وہ محتاج ہونے لگا۔ تب اُس ملک کے ایک باشندے کے ہاں جا پڑا۔ اُس نے اُسے اپنے کھیتوں میں سور چرانے بھیجا۔ اور وہ چاہتا تھا کہ اُن چھِلکوں سے جو سور کھاتے تھے اپنا پیٹ بھرے مگر کوئی اُسے نہ دیتا تھا۔ تب اُس نے ہوش میں آ کر کہا، کہ میرے باپ کے کتنے مزدوروں کو بہُت روٹی مِلتی ہے اور مَیں یہاں بھُوکا مرتا ہُوں۔ مَیں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاﺅں گا اور اُس سے کہوں گا کہ اے باپ! مَیں نے آسمان کا اور تیری نظر میں گُناہ کِیا ہے۔ اب اِس لائق نہِیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاﺅں۔ مجھے اپنے مزدوروں میں سے ایک کے مانند بنا۔ 

اور اُٹھ کر وہ اپنے باپ کے پاس چلا گیا۔ اور ابھی وہ دُور ہی تھا کہ اُس کو دیکھ کر اُس کے باپ کو ترس آیا اور دوڑ کر اُس کو گلے لگا لیا اور مکرراً چُوما۔ 

بیٹے نے اُس سے کہا کہ اے باپ! مَیں نے آسمان کا اور تیری نظر میں گُناہ کِیا ہے اور اب اِس لائق نہِیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاﺅں۔ مگر باپ نے اپنے غلاموں سے کہا کہ جلدی سے اچھی سے اچھی پوشاک نکال لاﺅ اور اِسے پہناﺅ اور اِس کے ہاتھ میں انگوٹھی اور پاﺅں میں جُوتی پہناﺅ، اور پلے ہوئے بچھڑے کو لا کر ذبح کرو کہ ہم کھائیں اور خوشی منائیں۔ کیوںکہ میرا یہ بیٹا مُردہ تھا اب زِندہ ہو گیا ہے، کھو گیا تھا، اب مِلا ہے، پس وہ خوشی کرنے لگے۔ 

(32-11:15مُقدّس لُوقا )

اِسی طرح دوسری تماثیل میں کہ جن کا مرکزی نکتہ خُداوند قُدّوس کا ترحم ہے، مثلاً.... مُقدّس لُوقا کے ابواب 13سے 15کی آیات میں جو مثالیں موجود ہیں، اُن کی تلاوت کا شرف حاصل کیجیے۔ خُداوند حضرت یسوع مسیح نے ہمیشہ اِس تقسیم کے خلاف محاذ کھولے رکھا کہ جس کا مُدّعا ہی یہ تھا کہ بنی نوعِ انسان کو دو گروہوں میں منقسم رکھا جائے، نیک وپارسا لوگوں کا گروہ اور دوسرا گُنہگاروں پر مشتمل گروہ۔ یہودیوں کی شریعت میں اُن کے ایسے انتہائی مُقدّس وقابلِ حُرمت قواعد جنھیں اُن کے عقائد کے مطابق چھُونا بھی گردن زدنی ہو مثلاً سبت۔ تو اُس کے مُتعلّق خُداوند نے فرمایا:۔ 

کیوںکہ ابنِ انسان سبت کا بھی مالک ہے۔ 

(مُقدّس متّی 8:12)  

اور اُس نے اُن سے کہا کہ سبت انسان کے لیے بنایا گیا تھا نہ کہ انسان سبت کے لیے۔ پس ابنِ انسان سبت کا بھی مالک ہے۔ 

(مُقدّس مرقس 27:2)  

اور وہاں ایک شخص تھا جو اڑتیس برس سے بیمار تھا۔ حضرت یسوع مسیح نے جب اُسے پڑا دیکھا اور جانا کہ وہ بڑی مُدّت سے اِس حالت میں ہے تو اُس سے کہا کہ کیا تو تندرست ہونا چاہتا ہے؟ اُس بیمار نے اُسے جواب دِیا کہ اے خُداوند! میرے پاس کوئی آدمی نہِیں کہ جب یہ پانی ہلے تو مجھے حوض میں اُتار دے اور جب تک مَیں خُود آپ پہنچوں دوسرا مجھ سے پہلے اُتر پڑتا ہے۔ حضرت یسوع نے اُس سے کہا، اُٹھ اور اپنا کھٹولا اُٹھا کر چلا جا۔ فی الفور وہ شخص تندرست ہو گیا اور اپنا کھٹولا اُٹھا کر چلا گیا۔ 

اور وہ دِن سبت کا تھا۔ 

مندرجہ بالا اقتباس مُقدّس یُوحنّا باب 5 آیات مبارکہ 6تا 9 سے ہے۔ برکت کے لیے پورے باب 5اور 6 کی تلاوت مناسب رہے گی۔ 

اِسی طرح یروشلم کی ہیکل میں عبادت کی پابندی پر خُداوند کا ارشاد مُلاحظہ ہو۔ 

اور یہودیوں کا فِصَح نزدیک تھا اور حضرت یسوع مسیح یروشلم کو گیا اور اُس نے ہیکل میں بیلوں اور بھیڑوں اور کبُوتر بیچنے والوں کو دیکھا اور صرافوں کو بھی جو وہاں بیٹھے تھے۔ تب اُس نے رسیوں کا کوڑا بنا کر سب کو بھیڑوں اور بیلوں سمیت ہیکل سے باہر نکِال دِیا، اور صرافوں کی نقدی بکھیر دی اور تختے اُلٹ دیے اور کبُوتر فروشوں سے کہا، اِن چیزوں کو یہاں سے لے جاﺅ۔ میرے باپ کے گھر کو بیوپار کا گھر مت بناﺅ۔ اور اُس کے شاگردوں کو یاد آیا کہ یُوں لکھا ہے کہ تیرے گھر کی غیرت مجھے کھا جائے گی۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 13:2تا17)  

ہمارے باپ دادا نے اُس پہاڑ پر پرستش کی اور تم کہتے ہو کہ وہ جگہ جہاں پر پرستش کرنی چاہیے یروشلم میں ہے۔ 

حضرت یسوع مسیح نے اُس سے کہا، بی بی! میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تم نہ تو اُس پہاڑ پر اور نہ یروشلم میں باپ کی پرستش کرو گے۔ لیکن وہ وقت آتا ہے، بل کہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار روح اور سچائی سے باپ کی پرستش کریں گے کیوںکہ باپ اپنے پرستار ایسے ہی چاہتا ہے۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 23,21,20:4)  

کیوںکہ ”سبت انسان کے لیے بنایا گیا تھا، نہ کہ انسان سبت کے لیے“ 

(مُقدّس مرقس 27:2)   

اگرچہ بنی اسرائیل کے کرتا دھرتا لوگوں نے خُداوند حضرت یسوع مسیح کو موت کی سزا تو سُنا دی مگر زور لگایا کہ وہ خُود نہِیں بل کہ مصلُوب اُنھیں رومن سپاہ کرے تو وجہ، اِس کی خُداوند حضرت یسوع مسیح کا یہ دعویٰ تھا جو خُدا کی غیر مشروط آمادگی پر دال تھا کہ وہ بخشنہار ہے، راضی ہو جانے والا ہے، یعنی اُس کے راضی ہونے، معاف کر دینے، اُس کی شانِ عفوودرگذر کے لیے اعلانِ عام ہے، مشروط ہرگز نہِیں۔ اِس پیغام سے لوگوں کے قائدین کے بُنیادی اختیارات پر بہُت سے سوال اُٹھتے ہیں۔ یہ رضاے خُداوندی تھی، خُدا باپ کی مرضی کہ اپنے بیٹے خُداوند حضرت یسوع مسیح کے خلاف یہودیوں کے رہنُماﺅں کا فیصلہ چلنے دِیا، اور خُداوند کو وہ بِلا روک ٹوک، بے خوف وخطر صلیب اُٹھوا کے ظلم وستم کرتے مصلوب کرنے کی جگہ جا پہنچے۔ ورنہ کِسی کی کیا مجال تھی، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ خُدا باپ نے خُداوند بیٹے کو اپنے ساتھ سے نہ محروم کِیا نہ موت کی طاقت کے سامنے اُسے بے بس ہونے دِیا۔

کیوںکہ تُو میری جان کو عالمِ اسفل میں نہ چھوڑے گا، اور نہ تُو اپنے مُقدّس کو سڑنے ہی دے گا۔ 

(رسولوں کے اعمال 27:2)  

بل کہ اُسے مُردوں میں سے زندہ کِیااور سب چیزوں میں اُسے اوّل بنا دِیا، مُردوں میں سے پلوٹھا تھا نا۔

اور وہی بدن یعنی کلیسیا کا سر ہے۔ وہی ابتدا ہے اور مُردوں میں سے پلوٹھا، تاکہ سب چیزوں میں وہی اوّل ہو۔

 (کُلُسِیّوں 18:1)

کہ واجب تھا کہ المسیح دُکھ اُٹھائے اور سب سے پہلے مُردوں میں سے زِندہ ہو کر اِس اُمّت کو اور غیر قوموں کو بھی مُنوّر کرے۔ 

(رسولوں کے نام 23:26)  

اور حضرت یسوع مسیح کی طرف سے جو سچا گواہ ہے اور مُردوں میں سے پلوٹھا اور شاہانِ عالم کا سردار ہے اُسی کو جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور جس نے اپنے خُون کے ذریعے سے ہمیں ہمارے گُناہوں سے چھُڑایا۔ 

(مکاشفہ 5:1)  

اور اُسے اپنی داہنی طرف بٹھایا۔ مُقدّس رسول پطرس نے کہا، ”اِس سب کچھ کے ہم سب گواہ ہیں“۔ 

اِسی حضرت یسوع مسیح کو خُدا نے زِندہ کِیا جس کے ہم سب گواہ ہیں۔ 

(رسولوں کے اعمال 32:2)  

پس حضرت یسوع خُود خُدا ہے، مُختارِ کُل خُدا کی قُدرت کے ساتھ اُسے یہ تمام صفات ودیعت کر دی گئیں۔ جو کچھ اُس نے کہا، حق تھا، خُدا اور انسانیت کے بارے میں اُس کے فرمودات میں ابدی سچائی تھی، خُداوند کے پیغام کو خُدا کی تصدیق حاصل تھی کیوںکہ وہ آقا، مولا، مالک خُود خُدا تھا، جس نے انسان کا روپ دھارا۔ 

ج)یہ پیغام، پیغام ہے، انمِٹ محبت کا، ہمیشہ رہنے والے خُدا کی امر محبت کا جو سب انسانوں کے لیے ہے جنھیں اُس کی طرف سے دعوت ہے کہ اُس کے تابع فرمان بچےّ بن جائیں۔ خُدا انسان کو بالکل اپنے بچوں کی طرح چاہتا ہے، ایک جیسی محبت، سب کے لیے، بالکل اُسی طرح جس طرح اُس کا سورج اچھوں اور بروں سب پہ یکساں نکلتا ہے۔ اُس کا ابرِ رحمت مومنوں پر بھی اُسی طرح چھا جاتا ہے جس طرح گُنہگاروں پر اور وہ اپنے کرم کی بارش بھی نیک بد سب پر یکساں برساتا ہے۔ اُسے اپنے بچوں سے بے پناہ، بے حد محبت ہے۔

اور جو تمھیں ستائیں اور بدنام کریں، اُن کے لیے دُعا مانگو۔ تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے فرزند ٹھہرو۔ کیوںکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں پر طُلُوع کرتا ہے اور راست بازوں اور ناراستوں پر مینہ برساتا ہے۔

(مُقدّس متّی 45:5) 

د) چُناںچہ یہ قدرتی امر ٹھہرا کہ خُداوند حضرت یسوع مسیح نے فرمانِ محبت کو خُوب اہمیت دی جو موسوی شریعت کی طرح مسیحیوں کا بھی ضابطہ حیات قرار پائی۔

اُس نے اُس سے کہا کہ تُو خُداوند اپنے خُدا کو اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے پیار کر۔ 

(مُقدّس متّی 37:22) 

اور دوسرا جو اُس کے مانند ہے، یہ ہے کہ تُو اپنے ہمسایے کو اپنے مانند پیار کر۔ 

(مُقدّس متّی 39:22)  

خُدا سے محبت اور دوسرے انسانوں سے پیار دونوں کے جوڑ کو کلامِ مُقدّس کے عہدِ عتیق میں مذکورِ خاص کا درجہ حاصل ہے۔ 

پس تُو خُداوند اپنے خُدا کو اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے پیار کر۔ 

(تثنیہ شرع 5:6)  

تُو اپنی قوم کے فرزندوں سے بدلا نہ لے، اور نہ اُن سے کینہ رکھ۔ تُو اپنے ہمسایے کو اپنے مانند پیار کر، مَیں خُداوند ہُوں۔

 (احبار 18:19)

اور خُداوند حضرت یسوع مسیح نے ہمیشہ اِس پر عمل کِیا اور عمل کرنے کی تلقین کی اور اِسے مسیحی شریعتِ نو کا حصّہ بنا دِیا۔ 

مَیں تمھیں ایک نیا حکم دیتا ہُوں کہ ایک دوسرے کو پیار کرو۔ جیسا مَیں نے تم کو پیار کِیا۔ تم بھی ایسا ہی ایک دوسرے کو پیار کرو۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 34:13) 

ایسا صِرف اِس لیے نہِیں کہ اُس نے پیار کِیا سو سب پیار کریں، یہ عمل تو خُدا کے دِین کا خلاصہ ہے ازل تا ابد۔ یہی شریعت رہی تمام نبیوں کی۔

انہی دو حکموں پر تمام توریت اور صحائفِ انبیاءکا مدار ہے۔ 

(مُقدّس متّی 40:22) 

پس جو کچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمھارے ساتھ کریں، وہی تم بھی اُن کے ساتھ کرو، کیوںکہ توریت اور صحائفِ انبیاءکا خلاصہ یہی ہے۔ 

(مُقدّس متّی 12:7)   

اور ایسا تم چاہتے ہو کہ لوگ تم سے کریں، تم بھی اُن سے ویسا ہی کرو۔ 

(مُقدّس لُوقا 31:6)   

ایسا حکم اِس لیے بھی دِیا گیا کہ خُداوند حضرت یسوع مسیح کے توسُّط سے خُدا کے لیے محبت اور ہمسایوں یعنی تمام ہی انسانوں سے پیار کے عمل کو نئے اور اہم ترین معانی ملے، اِس عمل کی توقیر وتحریم بڑھی۔ 

بندوں کی خدا سے اور خدا کی کہ وہ باپ ہے تمام انسانوں سے، اُس کی محبت بندوں کے ساتھ اِس بات کی متقاضی ہے کہ تمام انسان آپس میں ایک دوسرے سے محبت کا رشتہ پکا کریں، تمام انسان اِس بات کا پالن کریں کیوںکہ ذاتِ خُداوندی کی محبت خالص ہے اور سب کے لیے، سب اُس کے بچےّ ہیں اور وہ محبت کرنے والا مُقدّس باپ۔ خُداوند حضرت یسوع مسیح کے دورِ نبوّت میں یہودی بھی ساتھی یہودی کو ہمسایے کی صف میں شُمار کرتے تھے اور اُسے اپنی محبت کا حقدار گردانتے تھے۔ لیکن خُداوند کے لحاظ سے ہر کوئی پیار کا مستحق ٹھہرا بھلے وہ کتنا ہی گنہگار ہو، وہ تو وہ انسان کے جانی دُشمن بھی اِس قابل سمجھنے کے لائق قرار پائے کہ اُن سے بھی پیار، محبت، ہمدردی اور خُلُوص کا برتاو کِیا جائے۔ اور پھر دھیرے دھیرے مزید واضح ہوتا چلا گیا اور خُود حضرت یسوع مسیح، اُس کے رسولوں اور پیروکاروں نے یہ نکتہ پا لیا کہ سبھی محتاج ہیں محبت کے، سبھی پر پیار نچھاور کِیا جائے چاہے غیر یہودی ہوں یا کِسی بھی دِین ایمان کے پابند لوگ، سب خُدا کے بندے ہیں، اسی کے بالک ہیں،چاہے وہ سامری، آشوریائی، شامی، فنیقی یا رومی ہوں، محبت کا فرمانِ الٰہی سب پر لاگو ہے۔ خُداوند حضرت یسوع مسیح کے شاگرد آپس میں اِس پیار محبت سے رہتے تھے کہ مسیحی ہونے کی پہچان ہی تو بن گیا یہ اظہارِ اُلفت۔

اگر تم ایک دوسرے کو پیار کرو گے تو اِس سے سب جانیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 35:13) 

میرا حکم یہ ہے کہ جیسے مَیں نے تم سے پیار کِیا ہے، تم بھی ایک دوسرے کو پیار کرو۔ اِس سے زیادہ پیار کوئی نہِیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کے لیے دے دے۔ تم میرے دوست ہو بشرطے کہ جو کچھ مَیں حُکم کروں تم کرو۔ آگے کو مَیں تمھیں غلام نہ کہوں گا کیوںکہ غلام نہِیں جانتا کہ اُس کا مالک کیا کرتا ہے بل کہ مَیں نے تمھیں دوست کہا ہے کیوںکہ جو باتیں مَیں نے اپنے باپ سے سُنی ہیں مَیں نے وہ سب تمھیں بتا دیں۔ 

تم نے مجھے نہِیں چُنا بل کہ مَیں نے تمھیں چُن لیا ہے اور تمھیں مقرر کِیا ہے کہ تم جاﺅ اور پھل لاﺅ اور تمھارا پھل باقی رہے تاکہ تم میرا نام لے کر جو کچھ باپ سے مانگو وہ تمھیں دے دے۔ 

مَیں تمھیں یہ حُکم دِیتا ہُوں کہ تم ایک دوسرے کو پیار کرو۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 12:15تا17)  

مذہبی تعصُّب کی بنا پر جفا شعار وایذا رساں لوگ ہوں یا ذاتی پرخاش رکھنے والے دُشمن محبت کی بانہیں سب کے لیے وا رہنی چاہییں۔ محبت سب کے لیے۔

تم سُن چکے ہو کہ کہا گیا تھا، اپنے ہمسایے کو پیار کر اور اپنے دُشمن سے کینہ رکھ۔ لیکن مَیں تم سے یہ کہتا ہُوں کہ اپنے دُشمن کو پیار کرو اور اپنے ستانے والوں کے لیے دُعا مانگو اور جو تمھیں ستائیں اور بدنام کریں اُن کے لیے دُعا مانگو تاکہ تم اپنے باپ کے، جو آسمان پر ہے، فرزند ٹھہرو۔ کیوںکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں پر طُلُوع کرتا ہے اور راست بازوں اور ناراستوں پر مینہ برساتا ہے۔ کیوںکہ اگر تم اُنہی کو پیار کرو جو تمھیں پیار کرتے ہیں تو تمھارے لیے کیا اجر ہے؟ کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہِیں کرتے، اگر تم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرو تو تم کیا فیاضی کرتے ہو؟ کیا غیر قوموں کے لوگ بھی ایسا نہِیں کرتے؟ 

اِس واسطے تم کامل ہو جیسا تمھارا آسمانی باپ کامل ہے۔ 

(مُقدّس متّی 43-48:5) 

بجاے اِس کے کہ بُرائی کا بدلا بُرائی میں دِیا جائے، مسیحیوں کو چاہیے کہ وہ بُرائی کا بدلا بھلائی سے دیں۔ 

تم سُن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت، مگر مَیں تم سے کہتا ہُوں کہ بُرائی کا مقابلہ نہ کرنا۔ بل کہ جو تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے، دوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے۔ 

اور اگر کوئی عدالت میں تجھ پر نالش کر کے تیرا کُرتہ لینا چاہے تو چُغا بھی اُسے لے لینے دے۔ 

اگر کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے، اُس کے ساتھ دو کوس چلا جا۔ 

جو کوئی تجھ سے کچھ مانگے، اُسے دے۔ اور جو تجھ سے قرضہ چاہے اُس سے مُنہ نہ موڑ۔ 

(مُقدّس متّی 38-42:5)  

اور اُنھیں معاف کر دینے میں حد وحساب کی پروا نہِیں کرنا چاہیے۔ 

تب پطرس نے پاس آ کر اُس سے کہا کہ اے خُداوند! کتنی دفعہ میرا بھائی میرا گُناہ کرے اور مَیں اُسے مُعاف کروں؟ کیا سات دفعہ تک؟ حضرت یسوع نے اُس سے کہا، مَیں تجھ سے یہ نہِیں کہتا کہ سات دفعہ بل کہ سات دفعہ کے ستر بار تک۔ 

(مُقدّس متّی 22,21:18)  

یہ وہی بات ہے کہ بالکل اِس طرح جس طرح خُدا مُعاف فرماتا ہے۔ 

پس تم اِس طرح دُعا کِیا کرو کہ 

اے ہمارے باپ تُو جو آسمان پر ہے 

تیرا نام پاک مانا جائے 

تیری بادشاہی آئے، تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے 

زمین پر بھی ہو 

ہمارے روزینہ کی روٹی آج ہمیں دے 

اور جس طرح ہم اپنے قرض داروں کو بخشتے ہیں تو ہمارے قرض ہمیں بخش 

اور ہمیں آزمایش میں نہ پڑنے دے بل کہ ہمیں بُرائی سے چھُڑا 

کیوںکہ اگر تم آدمیوں کو اُن کے قصور بخشو گے تو تمھارا آسمانی باپ تمھیں بھی بخشے گا۔ لیکن اگر تم آدمیوں کو نہ بخشو گے تو تمھارا باپ تمھارے قصور تمھیں نہ بخشے گا۔ 

(مُقدّس متّی 15-9:6)  

بالکل اُسی طرح جس طرح خُداوند حضرت یسوع مسیح نے اُن کو بھی بخش دِیا جنھوں نے اُس کے جسم مبارک میں میخیں گاڑی تھیں۔ 

اور حضرت یسوع مسیح نے کہا کہ اے باپ اِن کو مُعاف کر کیوںکہ یہ نہِیں جانتے کہ کیا کرتے ہیں اور اُنھوں نے اُس کے کپڑے بانٹنے کے لیے قرعہ ڈالا۔ 

(مُقدّس لُوقا 34:23)    

اِس کا مطلب یہ نہِیں کہ بُرائی اور ناانصافی سے لاتعلُّق ہو جانا مطلوب ہے، یا بُرائی اور ظلم کے لیے اظہارِ پسندیدگی وخوشنودی مقصود ہے، نہِیں نہِیں۔ یہ تو بدشعار اور ظالم وبے انصاف کے ساتھ حُسنِ سُلُوک سے پیش آنے اور بخش دینے کا عملِ عظیم ہے کیوںکہ برائیوں سے چھٹکارا اُسے راس ہی تبھی آئے گا جب بُرائی کے بدلے میں بخشش ودرگذر سے کام لیا جائے گا۔ بخش دینا ہی سب سے بڑا بدلا ہے کیوںکہ یہ باعث بنتا ہے خُدا سے معاملات میں اُستواری آنے کا، اور آپس میں تعلُّقات پھر سے اُستوار ہو جانے کا۔ 

محبت کی سرحدیں نہِیں ہوتیں، بِلاشُبہ یہ محبت، محبتِ خُداوندی تمثال ہے خُدا کی، جو بخش دیتا ہے، اپنا بنا لیتا ہے اور امن وسکون عطا کرتا ہے۔ یہ تو خُدا کی نعمت ہے اور انسان کا دوسرے انسانوں کے لیے تحفہ، خُدا سے محبت بھی ہمارے لیے انعامِ خُداوندی ہے کیوںکہ ہم اپنے ہمسایے سے محبت کرتے ہیں، ہمسایہ چاہے کوئی بھی ہو۔ محبت مفادات اور خُود غرضی کے ترازو میں نہِیں تُلتی، یہ تو ایثار مانگتی ہے۔ محبت خُدا کی دین ہے اور اُسے دے بانٹ کر ہی خُوشی مِلتی ہے، بے لوث ہے، اِس سے بڑھ کے محبت اور کیا ہو سکتی ہے کہ کوئی کِسی کے لیے جان تک قُربان کر دے۔

اِس سے زیادہ پیار کوئی نہِیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کے لیے دے دے۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 13:15) 

آخری بات یہ کہ خُداوند حضرت یسوع مسیح صِرف اِس پر ہی آسودہ خاطر ہو کے نہ بیٹھ رہا کہ اُس نے محبت کے بارے میں اپنی تبلیغ پوری کر لی، اور بس، نہ نہ نہ، اُس نے تو زِندگی ہی اِس کام کے لیے تج دی تھی۔ تمام انسانوں کی محبت میں اُس نے اپنی جان قربان کر دی، اُن کے لیے بھی بھلے جو اُس کے دُشمن تھے۔ وہی جنھیں صلیب پر اُس نے عام مُعافی دے دی تھی۔ 

موت اور پھر مُردوں میں سے اُس کے جی اُٹھنے کے بعد خُداوند مسیح کے حواریوں، رسولوں اور شروع زمانہ کے مسیحیوں کو اِس بات کا پوری طرح ادراک حاصل ہو چکا تھا کہ خُداوند کی حیات اور تعلیمات کا لُبِّ لباب کیا تھا۔ وہ تھا محبت، خُدا کی محبت ہمارے لیے اور ہماری محبت خُداوند قدوس کے لیے۔ اور.... بے انتہا محبت سب انسانوں کے لیے، بِلاشرط، بِلاحدّ، بے حساب، خُداوند حضرت یسوع مسیح کے شاگروں نے تو یہاں تک بھی کہنا شروع کر دیا کہ پڑوسی سے کی جانے والی محبت وہ کسوٹی ہے جس پر خُدا سے کی جانے والی محبت کی پرکھ ہو سکتی ہے۔

اگر کوئی کہے کہ مَیں خُدا سے محبت رکھتا ہُوں اور اپنے بھائی سے دُشمنی رکھتا ہو تو جھُوٹا ہے، کیوںکہ اگر وہ اپنے بھائی سے جس کو دیکھا ہے محبت نہِیں رکھتا توخُدا سے جس کو نہِیں دیکھا کیوںکر محبت رکھ سکتا ہے۔ اور ہم نے اُس سے یہ حُکم پایا ہے کہ جو کوئی خُدا سے محبت رکھتا ہے وہ اپنے بھائی سے بھی محبت رکھے۔ 

(21-20:3۔یُوحنّا1)

(بہتر ہو گا پورے باب 4سے استفادہ کِیا جائے تاکہ برکت ہو) 

اے بچّو! ہم کلام اور زُبان ہی سے نہِیں بل کہ کام اور سچائی کے ذریعے بھی محبت رکھیں۔ 

(18:3۔یُوحنّا1)

ہم محبت کے رموز یُوں جان سکتے ہیں کہ اُس نے ہماری خاطر اپنی جان قربان کر دی۔ ہمیں بھی تو چاہیے نا کہ ایک دوسرے پر ہم بھی جان نچھاور کرنے والے بن جائیں۔ 

ہم نے اُس سے محبت کو جانا ہے کہ اُس نے ہمارے واسطے اپنی جان دے دی، اِس لیے ہم کو بھی بھائیوں کے واسطے جان دینی چاہیے۔ 

(16:3یُوحنّا1)

اور یہ حقیقت ہے کہ شروع شروع میں مسیحیوں نے برادرانہ محبت کے اِس سماج کی نِیُو رکھ دکھائی۔

اور وہ رسولوں کی تعلیم اور اختلاط میں اور روٹی کے توڑنے اور دُعا کرنے میں قائم رہے۔ اور ہر ایک کو ڈَر آیا کہ بہُت سے اچنبے اور کرشمے رسولوں سے یروشلم میں ظاہر ہوئے اور سب جو ایمان لائے تھے اکٹھے رہتے اور سب چیزوں میں شراکت رکھتے تھے۔ وہ اپنی ملکیت اور اسباب بیچ بیچ کر ہر ایک کی ضرورت کے موافق سب کو بانٹ دِیا کرتے تھے اور ایک دِل ہو کر ہر روز ہیکل میں جمع ہُوا کرتے تھے اور گھر گھر روٹی توڑا کرتے تھے اور خوشی اور دِل کی صفائی سے کھانا کھایا کرتے تھے۔ 

(46-42:2رسولوں کے اعمال)

اور ہفتہ کے پہلے دِن جب ہم روٹی توڑنے کو جمع ہوئے تو پَولُوس نے جو دوسرے دِن جانے والا تھا اُن کے ساتھ کلام کِیا اور آدھی رات تک کلام کرتا رہا۔ اور اُس بالاخانے میں جہاں ہم اکٹھے تھے بہُت سے چراغ جل رہے تھے۔ اور اوطوکس نامی ایک نوجوان کھڑکی میں بیٹھا تھا۔ اُس پر نیند کا غلبہ ہُوا اور جب پولوس دیر تک باتیں کرتا رہا تو وہ نیند سے مغلوب ہو کر تیسری منزل سے نیچے 

گِر پڑا اور مُردہ اُٹھایا گیا، تب پولوس اُتر کر اُس سے لپٹ گیا اور گلے لگا کر کہا،مت گھبراﺅ کیوںکہ اُس کی جان اِس میں ہے اور اُوپر جا کر روٹی توڑی اور کھا کر اتنی دیر تک اُن سے باتیں کرتا رہا کہ فجر ہو گئی، پھر وہ روانہ ہو گیا۔ 

اور وہ اُس نوجوان کو زِندہ لائے اور نہایت خاطر جمع ہوئے۔ 

(7-12:20سولوں کے اعمال)

پاک تثلیث کے تیسرے مُقدّس اقنوم.... روح القدس سے تحصیل کی گئی روشنی میں خُداوند حضرت یسوع مسیح کی زِندگی اور اُن کی دعوت وپیغام پر جب رسولوں نے غور کِیا تو اُن پر کھُلا کہ خُداوند کے لیے ایسا ممکن تھا جیسا بیان کِیا گیا کہ اُس نے خُدا کی اِس محبت کا نچوڑ، اِس کا رَس بہُت ہی خُوب صُورت انداز میں واضح کِیا اور وہ خُداوند حضرت یسوع مسیح ہی کر سکتا تھا اور اِس پاک محبت کے کامل اثر سے جس جس طرح پوری پوری سرشاری حاصل کی یہ بھی خُداوند کا ہی کمال تھا، وہی کر سکتا تھا کیوںکہ وہ خُدا کا بیٹا تھا، ایک خاص لحاظ اور بے نظیر انداز میں، اور خُدا باپ نے خُداوند کو اِس لیے بھیجا کہ محبت کی اعلیٰ اقدار سے وہ دُنیا کو روشناس کروائے۔ خُدا ہی محبت ہے۔

جس میں محبت نہِیں، وہ خُدا کو نہِیں جانتا کیوںکہ خُدا محبت ہے۔ خُدا کی محبت اِس سے ہم پر ظاہر ہوئی کہ خُدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دُنیا میں بھیجا ہے تاکہ ہم اُس کے ذریعے سے زِندگی پائیں۔ محبت اِس میں نہِیں کہ ہم خُدا سے محبت رکھیں بل کہ اِس میں ہے کہ اُس نے ہم سے محبت رکھی اور اپنے بیٹے کو بھیجا تاکہ ہمارے گُناہوں کا کفارہ ہو۔ 

اے پیارو! جب کہ خُدا نے ہم سے ایسی محبت رکھی تو چاہیے کہ ہم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھیں۔ خُدا کو کبھی کِسی نے نہِیں دیکھا۔ اگر ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں تو خُدا ہم میں رہتا ہے اور ہماری وہ محبت جو اُس سے ہے ہم میں کامل ہو گئی ہے۔ ہم اِس سے جانتے ہیں کہ ہم اُس میں رہتے ہیں اور وہ ہم میں، کیوںکہ اُس نے اپنی روح میں سے ہمیں دِیا ہے۔ 

اور ہم نے دیکھ لیا ہے اور گواہی دیتے ہیں کہ باپ نے بیٹے کو اس لیے بھیجا ہے کہ دُنیا کا نجات دہندہ ہو۔ 

جو کوئی اقرار کرے کہ حضرت یسوع خُدا کا بیٹا ہے خُدا اس میں اور وہ اس میں رہتا ہے اور جو محبت خُدا کو ہم سے ہے ہم نے اُسے پہچان لیا ہے اور سچ جان لیا ہے۔ خُدا محبت ہے اور جو محبت میں رہتا ہے وہ خُدا میں رہتا ہے اور خُدا اُس میں۔ 

(16-8:4۔یُوحنّا1)

اور اُس کی محبت ہم پہ یُوں آشکار ہوئی کہ 

خُدا کی محبت اِس سے ہم پر ظاہر ہوئی کہ خُدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دُنیا میں بھیجا ہے تاکہ ہم اُس کے ذریعے سے زِندگی پائیں۔ 

(1۔یُوحنّا9:4)  

اور یہ خُدا، محبت بانٹنے والا خُدا 

اور کلمہ متجسد ہُوا۔ یعنی خُدا کے ازلی کلمہ نے انسان کا جسم اختیار کِیا ہے

اور ہم میں سکونت پذیر ہُوا۔ 

اور ہم نے اُس کا جلال دیکھا۔ 

باپ کے وحید کا جلال۔ 

فضل اور سچائی سے معمور۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 14:1)   

خُداوند حضرت یسوع مسیح، خُدا کا ازلی کلمہ ہے اور وہی خُدا کی محبت کا مجسم اظہار ہے، کیوںکہ وہ اُس کا بیٹا ہے۔ بے شک محبت کا یہ اظہار خُداوند حضرت یسوع میں اور اُس کے طفیل تمام نسلِ انسانی تک بہُت ضروری ہے کہ پہنچے۔ مزید یہ کہ بات صِرف اظہار تک ہی محدود نہ رہے یہ محبت عمل میں بھی ڈھل جانی چاہیے، اور جاری رہے۔ اِس کا عملی اظہار تاقیامت، خُدا کی قدرت اور روح القدس کی طاقت کے ساتھ.... کلیسا میں بھی اور کلیسا سے باہر کی دُنیا پر بھی محیط ہو تاکہ خُدا کی تمجید ہو، اُس کے جلال اور برکت اور محبت کے ساتھ۔

مُقدّس پولوس نے جو بات تاکیداً کہی ہے وہ یہ ہے کہخُداوند حضرت یسوع نے مُردوں میں دوبارہ جی اُٹھنے کے بعد روح القدس سے جو کام لیا۔ 

پھر عید کے آخری دِن جو خاص دِن ہے حضرت یسوع کھڑا ہُوا اور بُلند آواز سے کہا کہ اگر کوئی پیاسا ہو تو میرے پاس آئے۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے، جیسے نوشتہ کہتا ہے، ”اُس کے بطن سے زِندہ پانی کی ندّیاں جاری ہوں گی۔

(38-37:7مُقدّس یُوحنّا)

لیکن مَیں تمھیں سچ کہتا ہُوں کہ تمھارے لیے میرا جانا ہی فائدہ مند ہے کیوںکہ اگر مَیں نہ جاﺅں تو وہ وکیل تمھارے پاس نہ آئے گا۔ لیکن اگر مَیں جاﺅں تو مَیں اُسے تمھارے پاس بھیج دوں گا، اور جب وہ آئے گا تو دُنیا کو گُناہ اور صداقت اور عدالت کے بارے میں تقصیروار ٹھہرائے گا۔ گُناہ کے بارے میں اِس لیے کہ وہ مجھ پر اِیمان نہِیں لاتے۔ 

صداقت کے بارے میں اِس لیے کہ باپ کے پاس جاتا ہُوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے۔ 

عدالت کے بارے میں اِس لیے کہ اِس دُنیا کے سردار پر فتویٰ لگایا گیا ہے۔ 

میری اور بہُت سی باتیں ہیں کہ تم سے کہوں مگر اب تم اِن کی برداشت نہِیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روح الحق آئے گا تو وہ ساری سچائی کے لیے تمھاری ہدایت کرے گا۔ کیوںکہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا، لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا، اور تمھیں آیندہ کی خبر دے گا۔ وہ میری بزُرگی کرے گا اِس لیے کہ وہ مجھ سے پا کر تمھیں خبر دے گا۔ جو کچھ باپ کا ہے وہ سب میرا ہے۔ اِس لیے مَیں نے کہا کہ وہ مجھ سے پا کر تمھیں خبر دے گا۔ 

(16-15:7مُقدّس یُوحنّا)

 وہی ہمارے لیے ممکن بنا سکتا ہے کہ ہم بھی خُدا قدوس کو خُدا ہمارا باپ کہہ سکیں، اُسے باپ کہہ کے پکار سکیں۔ 

کیوںکہ تم نے غلامی کی روح نہِیں پائی ہے کہ پھر ڈرو بل کہ تبنیت کی روح پائی ہے جس سے ہم پکار کر ابّا یعنی اے باپ کہتے ہیں۔ 

(رومیوں کے نام 15:8)  

اور کہ تم بیٹے ہو، اِس سے ثابت ہے کہ خُدا نے اپنے بیٹے کی روح ہمارے دِلوں میں بھیجی ہے جو ابّا یعنی اے باپ کہہ کر پکارتا ہے۔

((غلاطیوں 6:4

 اس سے پیار کرنا اور دوسرے انسانوں سے محبت رکھنا، بالکل اُسی طرح، اُسی محبت سے جیسی ہمیں خُود خُدا سے مِلی۔ 

برادرانہ محبت کی بابت تمھیں کچھ لکھنا ضروری نہِیں، کیوںکہ تم نے آپس میں محبت کرنے کی خُدا سے تعلیم پائی۔

(1۔تسالونیکیوں9:4) 

اور اُمِّید شرمندہ نہِیں کرتی، کیوںکہ جو روح القدس ہمیں بخشا گیا ہے اُسی کے وسیلے سے خُدا کی محبت ہمارے دِلوں میں اُنڈیلی گئی ہے۔ 

(رومیوں کے نام 5:5) 

اور اے بھائیو! مَیں اپنے خُداوند حضرت یسوع مسیح کی خاطر اور روح القدس کی محبت کے سبب سے تم سے التماس کرتا ہُوں کہ تم میرے لیے خُدا سے دُعا کرنے میں میری مدد کرو۔

((رومیوں کے نام 30:15)

اے پیارو! آﺅ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں کیوںکہ محبت خُدا سے ہے اور جو محبت رکھتا ہے وہ خُدا سے پیدا ہُوا ہے اور خُدا کو پہچانتا ہے۔ 

(1۔یُوحنّا7:4)  

مُقدّس پولوس رسول نے محبت کی نغمہ سرائی کرتے سمے اِس حقیقت کو سامنے رکھا ہے کہ ہمارے ہر عمل کو وقعت نصیب ہونے کا دارومدار.... محبت پر ہے اور سچ ہے کہ محبت شاملِ حال نہِیں تو تمام تر کرشماتی اوصاف اپنی تمام قدر وقیمت کھو بیٹھتے ہیں۔ محبت جمال ہے اور جمال خُدا۔ 

۴۔مسیحی عقیدہ کی تعلیم اور اُصُول وعقیدہ ایمان

مسیحی نظامِ عقائد اور مسیحیت میں راسخ الاعتقادی کا ارتقائی وُجُود مسیحیت کی اوّلین صدیوں میں ہی رونُما ہو کر خُداوند حضرت یسوع مسیح کی نُمایاں اہمیت اور قدرومنزلت کا عکاس ثابت ہو چکا تھا جو دلائل وبراہین کے ٹاکروں، مذاکروں جو اُس وقت اُس دور کا خاص میلان تھا اُس کے مطابق مذہبی عمائدین اور سرکردہ مفکرین اور جیّد فلسفیوں کے مباحث سے ابلاغ واضح تر اور ادراک سہل ہوتا چلا گیا۔ نئے عہدنامہءمُقدّس کے لیے دفاع کی نئی صُورتیں اور نئی سمتیں منظرِ عام پر آئیں۔ 

۵۔محبت کے طریق اپنانے کا نام مسیحیت ہے اور اِس کا سرچشمہ خُود خُدا

اے پیارو! آﺅ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں، کیوںکہ محبت خُدا سے ہے اور جو محبت رکھتا ہے وہ خُدا سے پیدا ہوتا ہے اور خُدا کو پہچانتا ہے۔ 

(7:4۔یُوحنّا1)

وہی خُدا جو خُداوند میں ہمارے لیے ظاہر ہُوا۔ اور خُداوند حضرت یسوع خُدا باپ کا بیٹا ہے یہی اُس کی تبلیغ تھی، اُس کی زِندگی، اُس کی موت، مُردوں میں سے جی اُٹھنا.... سب اُس صراطِ مستقیم کی طرف رہنُمائی کرتے ہیں، جس کی منزل محبت ہے۔ خُداوند حضرت یسوع مسیح کے کلیسا کی بُنیاد ہی محبت ہے جس پر وہ اُستوار ہے۔ یہی اُس کی بقا کا راز ہے۔ 

کلیسا میں اختیارات واحکام کے استعمال کی نوعیت ترجیحی طور پر کچھ ایسے ہے کہ وہ جو خُداوند حضرت یسوع مسیح کے رسولوں کا پروان چڑھایا ہُوا معاشرہ ہے یعنی مسیحی برادری، اِس کی خدمت کی جائے۔ اور یُوں بھی کہ اُس نمونے کی مُکمّل پیروی کرتے ہوئے جو خُدا کی مبارک ہستی میں کاملاً رچا بسا ہے.... اور وہ نمونہ ہے محبت کا، اور اختیارات کا ایسا استعمال خُداوند حضرت یسوع مسیح سے والہانہ وبے بہا محبت کے مطالبے پر منتج ہوتا ہے، اور تن، من، دھن کی قربانی اِس کا ثقہ ذریعہءاظہار ہے۔ 

اور جب وہ ناشتا کر چکے تو حضرت یسوع نے شمعون پطرس سے کہا کہ اے شمعون بریونا! کیا تُو اِن سے زیادہ مجھے پیار کرتا ہے؟ 

اُس نے اُس سے کہا کہ ہاں، اے خُداوند! تُو تو جانتا ہی ہے کہ مَیں تجھے پیار کرتا ہُوں۔ اُس نے اُس سے کہا کہ تُو میرے برّے چَرا۔ اُس نے دوبارہ اُس سے کہا، اے شمعون بریونا! کیا تُو مجھے پیار کرتا ہے؟ اُس نے اُس سے کہا کہ ہاں اے خُداوند تُو تو جانتا ہی ہے کہ مَیں تجھے پیار کرتا ہُوں۔ اُس نے اُس سے کہا کہ تُو میری چھوٹی بھیڑوں کی گلّہ بانی کر۔ اُس نے سہ بارہ اُس سے کہا کہ اے شمعون بریونا، کیا تُو مجھے پیار کرتا ہے؟ تب پطرس دِل گیر ہُوا۔ اس لیے کہ اُس نے تیسری بار اُس سے کہا کہ کیا تُو مجھے پیار کرتا ہے۔ اور اُس سے کہا کہ اے خُداوند تُو تو سب کچھ جانتا ہے۔ تجھے معلوم ہی ہے کہ مَیں تجھے پیار کرتا ہُوں۔ 

حضرت یسوع نے اُس سے کہا کہ تُو میری بھیڑیں چَرا۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 15-17:21)  

 

تاہم، پیار محبت سے معمور یہ مسیحی برادری محتاط رہے، خطرہ ہے کہ کہِیں نرگسیت یعنی خُودپرستی کا شکار ہو کر بس آپس میں مسیحی بہن بھائیوں تک ہی نہ محدود ہو جائے۔ اِن کا تو شعار ہونا چاہیے۔ 

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے 

یہ تبلیغ ہے لازمی شہادت کے ساتھ۔ خُدا کی محبت ہمارے لیے نمونہ اور تمام انسانیت کے لیے ہماری محبت، ہر شخص کے لیے نمونہ۔ 

تاکہ وہ سب ایک ہوں۔ جس طرح کہ تُو اے باپ مجھ میں ہے اور مَیں تجھ میں ہُوں۔ وہ بھی ہم میں ایک ہوں، تاکہ دُنیا ایمان لائے کہ تُو نے مجھے بھیجا ہے۔

(مُقدّس یُوحنّا 21:17)

فرداً فرداً اس پر عمل ہر مسیحی پر فرض ہے اور پوری مسیحی دُنیا اِس پر عمل پیرا ہونے کی پابند ہے اور اِس سیارہ زمین کے چپّے چپّے پر پیار ومحبت کے پرچار کی ذِمّہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہر اُس مسیحی پر جس کی والہانہ وابستگی ہے خُداوند کے ساتھ، حق وانصاف کے ساتھ، امن وآشتی کے ساتھ اور وہ یہ چاہتا ہو کہ خُداوند کی پناہ میں آ جائے۔ یہی مقصودِ کامل ہے، اعلیٰ آدرش ہے۔ اور افسوس اِس پر عمل کم ہی ہُوا ہے۔ مگر اسے اپنانے تمام مسیحی اس پر عمل کرنے کے آرزومند ہمیشہ ہی رہے ہیں۔ جو تھوڑا بہُت کِسی نے عمل کِیا، اِتنا ہی اکتسابِ نعمت اُسے مُیسّر بھی آ گیا۔ یہی کم نصیبی ہے، تاریخی کم نصیبی کہ عام مسیحیوں نے عمومی طور پر مگر چرچ نے خصوصاً اِس نصب العین، اِس آدرش کو پا سکنے میں ہر بار ہزیمت ہی اُٹھائی ہے۔ اِس مقصودِ مثالی کے حصول میں دراصل جس اخلاصِ نیّت کی احتیاج تھی اُس سے کم کم ہی استفادہ کِیا جاتا رہا۔ یہ حقیقت ہے جو قابلِ افسوس بھی ہے اور لائقِ ندامت بھی اور اِس کا پوری ایمانداری سے اعتراف کر لینے میں کوئی حرج بھی نہِیں کہ ہم سے ہمیشہ چُوک ہوتی جاتی رہی ہے۔ تاہم ابھی موقع ہاتھ سے گیا نہِیں۔ خُداوند حضرت یسوع مسیح کی یہ نویدِ خیروبرکت موجود ہے، عمل کے لیے دعوت دے رہی ہے، مُیسّر ہے اور جاری ہے یعنی مسلسل مُیسّر، آج بھی اور کل بھی۔ اِس سے فیضیاب نہ ہونا، کُفرانِ نعمت ہے۔ محبت کا یہ قانون کلیسیا کا مرکزی عقیدہ بنا دیے جانے پر سارا زور ہے اور یہ مقصود ہے کہ محبت چہار دانگ عالم پر چھا جائے اور اِس کے لیے کلیسیا اپنی تمام تر کاوشیں صرف کر دے۔ ہر رکاوٹ کو اُکھاڑ پھینکا جائے، چاہے وہ نسلی تعصب کی آڑ ہو، سماجی دیوار یا مذہبی منافرت کا پہاڑ، سب گِرا دیے جائیں کیوںکہ وہ انسانی تعلُّقات اور رشتوں میں دراڑیں ڈالتے ہیں۔ چُناںچہ خُودغرضی کے گُناہ کی جڑوں پر کاری وار کرنے کی ضرورت ہے اور نفرت کے خلاف بھاری محاذ قائم کرنا ازبس ضروری ہے۔ تمام مسیحیوں کے لیے یہ خُداوند کی پکار ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور محبت کی فتح کے لیے اپنے آپ کو غیر مشروط طور پورے اخلاص اور یقینِ محکم کے ساتھ وقف کر دیں۔ 

یہ دعویٰ ہے کہ خُدا سے محبت اور پڑوسی سے پیار محض مسیحیت کی تعلیمات واحکامات کا خاص، نمایاں اور لازمی عُنصُرہے، اِتنا دُرُست نہِیں، دوسرے مذاہب اور تخصیص کے ساتھ اسلام کے بارے میں ہم یہ نہِیں کہہ سکتے کہ وہ محبت کے اِس لین اور دین کے سلسلہ میں قطعی بے بہرہ رہا ہو۔ نہ ہی یہ حق جتانا مناسب معلوم ہوتا ہے یہ صِرف مذہب پرست، دِین دار مسیحی ہی ہوتے ہیں جنھیں محبت کا صحیح ادراک ہے اور اِسے کماحقہ، اہمیت دیتے ہیں بل کہ اِن کا تو سانس لینا، جینا، زِندگی کرنا مرہونِ مِنّت ہی محبت واُلفت کا ہے۔ اسلام میں محبت کا ایک اپنا ہی انداز ہے اور اُسے بہُت سے مُسلمانوں نے اپنا بھی رکھا ہے۔

 مثال کے طورپر

الف)قرآن میں چند آیات ضرور موجود ہیں جو بغیر کِسی ابہام کے صاف، محبتِ خُداوندی کا احاطہ کرتی ہیں۔ خُدا اپنی صفت، الودود، کے ساتھ یعنی اُس محبت کا ذِکر ہے جو خُدا اپنے بندوں کے ساتھ روا رکھتا ہے۔ انتہائی شفقت ومہرومحبت۔ 

اپنے رب سے مُعافی مانگو اور پِھر ، توبہ کے لیے، اِس کی طرف رُجُوع کرو۔ بے شک میرا پروردگار رحم کرنے والا اور پیار کرنے والا ہے

 (القرآن، سورة ہود: 90)  

اور وہی ہے بخشتا، محبت کرتا۔

((القرآن، سورة البروج: 14

خدا کا حضرت موسیٰ کو اپنے حلقہ محبت میں سمو لینا۔ 

کہ تُو اُسے صندوق میں بند کر کے دریا میں چھوڑ دے، پس دریا اُسے کنارے لا ڈالے گا اور میرا اور خُود اُس کا دُشمن اُسے لے لے گا، اور مَیں نے اپنی طرف کی خاص محبت ومقبولیت تجھ پر ڈال دی تاکہ تیری پرورش میری آنکھوں کے سامنے کی جائے۔

(القرآن،سورة طٰہٰ: 39) 

اور انسانوں کے سلسلے میں بھی ذِکر موجود ہے کہ اِن کی محبت خُدا کے لیے، براے حوالہ مندرجہ ذیل سے استفادہ کیجیے: ۔

بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر اُن سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہُت سخت ہوتے ہیں۔ کاش کہ مشرک لوگ جانتے جب کہ اللہ کے عذاب کو دیکھ کر (جان لیں گے) کہ تمام طاقت اللہ ہی کو ہے اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے (تو ہرگز شرک نہ کرتے)۔ 

(القرآن،سورة البقرة: 165)  

کہہ دیجیے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خُود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گُناہ مُعاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔  

(القرآن،سورة آلِ عمران: 31)  

اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دِن سے پِھر جائے تو اللہ تعالیٰ بہُت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اللہ کی محبوب ہو گی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہو گی۔ وہ نرم دِل ہوں گے مسلمانوں پر سخت اور تیز ہوں گے کفّار پر، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کِسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا بھی نہ کریں گے، یہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل جسے چاہے دے، اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا اور زبردست عِلم والا ہے۔

((سورة المائدہ: 54

ایک آیت یہ بھی ہے کہ باہم دگر کیفیتِ محبت.... یعنی خُدا کی محبت مومنین کے لیے اور مومنین کی محبت خُدا کے لیے، اُن لوگوں کے مُتعلّق حوالہ ہے جو خُدا سے محبت رکھتے ہیں اور خُدا اُنھیں عزیز رکھتا ہے۔

اے ایمان والو! اگر کوئی تم میں سے اپنے دِین سے پِھر جائے تو خُدا ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن سے وہ محبت رکھے گا اور وہ اس سے محبت رکھیں گے اور جو مومنوں کے حق میں نرمی اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں، خُدا کی راہ میں جہاد کریں اور کِسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں۔ یہ خُدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور خُدا بڑی کشایش والا (اور) سب جاننے والا ہے۔

 (سورة المائدہ:54-55)

اِس کی وجہ،ِ ذِکر جہاد ہے، مُراد کفّار کے خلاف جنگ وجدل، مُقدّس جنگ جو صِرف خُدا اور اُس کے دِین کے لیے غنیم سے لڑی جائے۔ بہرحال اِن قرآنی آیات کو بُنیاد بنا کر ہم یہ تو نہِیں کہہ سکتے کہ انسانوں کے لیے خُدا کی محبت اور انسانوں کی محبت خُدا کے لیے اسلامی تعلیمات کا خصوصی ومرکزی موضوع رہا ہو۔ کیوںکہ اسلامی تعلیمات تو، خُدا واحد ہے، عادل ہے، آمرزگار اور مُنصف ہے زیادہ تر اِسی ہی تصوُّر کے گِرد گھومتی ہیں۔ قرآن وحدیث کے ذریعے ثقہ، مثالی ومُستند اسلام میں البتہ اِتنا ضرور ہے کہ محبت کو دیگر موضوعات کی طرح بطور ایک موضوع چھُوا ضرور گیا ہے، جس کی بِنا پر اِس مذہب میں جو روحانی روایات پائی جاتی ہیں اُن کے لیے وافر مواد اور مصطلحات مُہیّا ہو گئیں۔ 

ب) اسلام میں یہ جو روحانی سِلسلہ ہے، اُصُولی طور پر اِس کی روایت کے امین ہیں.... مسلم صوفیہ کرام۔ اُن عارفین میں نُمایاں ترین مثال ہے زمانہ ساتویں صدی عیسوی میں رابعہ بصری کی۔ وہ اور اُن کے بعد جتنے بھی صوفی گذرے ہیں عشقِ خُداوندی میں غرق ہوتے تھے۔ انسانوں سے خُدا کی محبت سے زیادہ اُن کا مرکزِ توجُّہ خُدا سے محبت کا مقام رہا۔ اُس سے گذرتے تو آگے کی سوچتے۔ اس لیے تلاشِ حق میں خُدا سے عشق ہی اُن کے تمام حواس کا مرکز ومحور رہا۔ اسلام کی آغاز کی صدیوں میں یہی طریقِ محبت وعشقِ الٰہی تھا جسے اُن متصوفین، عارفین اور صُوفیہ نے بُنیادی ومثالی اسلام کی پور پور میں جذب کر دِیا۔ امام محمد الغزالی نے اپنی وفات 1111ع تک اِس وُفُورِ جذب ومستی کو یہاں تک پہنچا دِیا کہ اُن کی اِس روحانی کھوج کا نصب العین بس اِسی پر ہی ختم قرار پایا۔ اور پھر بعد کی صدیوں میں خُدا سے اِس بے پناہ محبت ولازوال عشق کے آدرش کو ساری مُسلم دُنیا کا عظیم اثاثہ مان لیا گیا اور اِس کی ترویج وتبلیغ میں اخوان المسلمین نے قابلِ قدر خدمات انجام دِیں۔ پِھر تو یُوں سمجھیے صوفیوں کا بخشا ہُوا ذِکر وفِکر کے عمل کے لیے ایک آسان نسخہ ہاتھ آ گیا اور مجموعی طور پر اِسے مروّجہ ومسلّمہ اسلام کے مستند مکاتیب نے بھی قبولیت کی سند عطا کر دی۔ 

 خُدا کے لیے انسانوں کے دریاے محبت اور انسانوں کے لیے خُدا کی محبت کے سمُندر کا بھلا آپس میں کیا حسابِ کم وبیش، فرق تو صاف ظاہر ہے۔ یہی امتیازخالصتاً مثالی اسلامی خاصیتوں کا حامل ہے۔ چاہے جانے کی کمی کا احساس ہی جان لیوا ہوتا ہے۔ بعض محرومیاں جب انسان کو دبوچنے کو لپکتی ہیں تو وہ سب کی آغوش میں پناہ لیتا ہے۔ یہ انسانی ردِّعمل ہے، خُدا اِس سے بے نیاز ہے، وہ تو سب کچھ کا مالک ہے، سبھی کچھ اُسی کا ہی تو ہے، اُسے کس بات کی کمی، اُسے کیوں محرومیوں کا احساس تنگ کرے۔ وہ محتاج نہِیں، مختار ہے۔ اُسے اختیار ہے محبتیں لُٹانے کا اور بے حدّوحساب لُٹانے کا۔ اِس لیے مذہبِ اِسلام میں جو خُدا کا تصوُّر ہے وہ پکّا ہے کہ وہ محتاج نہِیں، کُلّی مختار ہے۔ چُناںچہ خُدا کو پا لینے کی آرزو، اُسی کا ہو رہنے کی تمنّا، فنا فی اللہ ہو جانے کی منزل کو مسلمان محبت کانام دیتے ہیں، بھرپور محبت، بس اپنی حد تک، یہی مُسلمانوں کا عقیدہ ہے اور صوفیوں کی معراج۔ خُدا کی محبت انسانوں سے جو ہے اُسے وہ احسان سمجھتے ہیں، اپنی بساط سے بڑھ کر محبتِ الٰہی فرض مانتے ہیں۔ اُس کے احسانوں کا قرض محبت ووارفتگی سے لوٹانا چاہتے ہیں۔ اِس لیے جو اُس سے پیار کرتے ہیں وہ بھی مسلمانوں کو پیارے ہیں، کیوںکہ خُدا اُن سے بھی تو پیار کرتا ہے، ہمسایوں سے مُسلمانوں کی محبت اور حُسنِ سُلُوک اِسی ذیل میں آتا ہے۔ لیکن.... بڑا فرق رکھتے ہیں مُسلمان اِس میں کہ جو محبت مخلوقِ خُداوندی سے کی جائے اور جو خُود خالقِ حقیقی کو سزاوار ہے۔ بہُت سے مسلمان صوفی بشمول رابعہ بصری اور امام غزالی فنا فی اللہ ہو جانے والے نظریہ کے پرچارک اور عامل رہے ہیں مگر یہ تبھی ممکن ہے جب دُنیا کی آلایشوں سے اپنے آپ کو پاک رکھا جائے گا۔ جو خالق سے تار بندھا ہے، مخلوقات سے فاصلہ ہی اُسے قائم رکھوا سکتا ہے۔ مخلوق کی توجُّہ یا مخلوقات کی طرف دھیان اِس گیان کو تارِ عنکبوت کی طرح پارہ پارہ کر سکتاہے۔ لَو لگائی ہے تو فقط ایک ہی طرف لگے گی، باقی سب سراب ہے۔ 

۱۔مسیحیت اور تکمیلِ انسانیت 

الف)ایمان والوں کے لحاظ سے، خواہ وہ ایمان لانے والے مسیحی ہوں یا مُسلم سبھی کی طرف سے یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ انسانوں کی تخلیق خُدا کے دستِ قُدرت کا کمال ہے اور وہ تخلیقِ خُدا کی اپنی تمثال ہے اور یہ بھی کہ پایانِ کار اُسی کی طرف اُس کی مخلوق کی مراجعت ہو گی۔ یعنی خالقِ حقیقی کی طرف لوٹنا اُس کا مُقدّر کر دِیا گیا ہے، اور انجامِ کار عالمِ بالا پر خُدا کے جلال کی آزادی میں شرکت کے لیے یہی بُنیادی دعوت ہے جو فرد کی طرف سے، نسلِ انسانی کی طرف سے بل کہ کُل مخلوقاتِ خُداوندی کی طرف سے ہے کہ جو جبر، ظلم اور زیادتی کی ہمہ اقسام سے خلاصی پانے کو ترستی ہے۔ 

کیوںکہ خلقت کمالِ آرزُو سے خُدا کے فرزندوں کے ظاہر ہونے کی راہ تکتی ہے۔ اِس لیے کہ خلقت بطّالت کے تابع ہے، اپنی خُوشی سے نہِیں بل کہ اُس کے سبب سے جس نے اُسے تابع کِیا۔ اِس اُمِّید پر کہ خلقت بھی فنا کی گرفت سے چھُوٹ کر خُدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں شرکت حاصل کرے گی۔ کیوںکہ ہم جانتے ہیں کہ ساری خلقت اب تک چیخیں مارتی ہے اور اُسے دردِزِہ لگا ہے اور فقط وہی نہِیں مگر ہم بھی جنھیں روح کے پہلے پھل مِلے ہیں خُود اپنے باطن میں کراہتے ہیں اور تَبنیت یعنی اپنے بدن کی مخلصی کی راہ دیکھتے ہیں کیوںکہ اُمِّید سے ہم نے نجات حاصل کی، مگر اُمِّید کی ہوئی چیز کا دیکھ لینا اُمِّید نہِیں ہوتی، کیوںکہ جس چیز کو کوئی دیکھ رہا ہے، اُس کی اُمِّید کیسی؟ مگر جب ہم نادیدنی چیز کی اُمِّید کرتے ہیں تو صبر کے ساتھ اُس کی راہ دیکھتے ہیں۔ 

(25-19:8رومیوں کے نام)

جب سورج کی دُھوپ تہ، ہو جاوے، اور جب تارے میلے ہو جاویں، اور جب پہاڑ چلائے جاویں، اور جب بیاتی اونٹنیاں چھُٹی پھریں، اور جب وحشی جانور جمع کیے جائیں گے، اور جب دریا آگ ہو جائیں گے، اور جب روحیں (بدنوں سے) مِلا دی جائیں گی، اور جب اُس لڑکی سے جو زِندہ دفنا دی گئی ہو پُوچھا جائے گا کہ وہ کِس گُناہ پر مار دی گئی؟ اور دوزخ (کی آگ) بھڑکائی جائے گی، اور بہشت جب قریب لائی جائے گی تب ہر شخص معلوم کر لے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔ 

ہم کو اُن ستاروں کی قسم جو پیچھے ہٹ جاتے ہیں، اور جو سیر کرتے (ہیں) اور غائب ہو جاتے ہیں اور رات کی قسم جب ختم ہونے لگتی ہے اور صبح کی قسم جب نمودار ہوتی ہے کہ بے شک یہ (قرآن) فرشتہ عالی مقام کی زُبان کا پیغام ہے جو صاحبِ قُوّت مالکِ عرش کے ہاں اونچے درجے والا سردار اور امانت دار ہے۔ 

اور (مکّے والو!) تمھارے رفیق (یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم) دیوانے نہیں ہیں۔ بے شک اُنھوں نے اُس (فرشتے) کو (آسمان) کے کھُلے (یعنی شرقی) کنارے پر دیکھا ہے اور وہ پوشیدہ باتوں کے (ظاہر کرنے) میں بخیل نہِیں۔ اور یہ شیطان مردُود کا کلام نہِیں۔ پھر تم کدھر جا رہے ہو؟ یہ تو جہان کے لوگوں کے لیے نصیحت ہے (یعنی) اُس کے لیے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے۔ 

اور تم کچھ بھی نہِیں چاہ سکتے مگر وہی جو خُداے ربّ العالمین چاہے۔ 

(القرآن،سورة التکویر: 1-19)    

جب آسمان پھٹ جائے گا، اور جب تارے چھڑ پڑیں گے، اور جب دریا بہہ (کر ایک دوسرے سے مِل) جائیں گے اور جب قبریں اُکھیڑ دی جائیں گی، تب ہر شخص معلوم کر لے گا کہ اُس نے آگے کیا بھیجا تھا اور پیچھے کیا چھوڑا تھا۔ 

اے انسان! تجھ کو اپنے پروردگار کرم گُستر کے بارے میں کِس چیز نے دھوکا دِیا؟ (وہی تو ہے) جس نے تجھے بنایا اور (تیرے اعضاءکو) ٹھیک کِیا اور (تیری قامت کو) معتدل رکھا۔ اور جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دِیا۔ 

مگر ہیہات! تم لوگ جزا کو جھُٹلاتے ہو، حال آںکہ تم پر نگہبان مقرر ہیں، عالی قدر (تمھاری باتوں کے) لکھنے والے، جو تم کرتے ہو وہ اُسے جانتے ہیں، بے شک نیکوکار نعمتوں (کی بہشت) میں ہوں گے اور بدکِردار دوزخ میں، (یعنی) جزا کے دِن اُس میں داخل ہوں گے۔ اور اُس سے چِھپ نہِیں سکیں گے۔ اور تمھیں کیا معلوم کہ جزا کا دِن کیسا ہے۔ پھر تمھیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے۔ جس روز کوئی کسی کا کچھ بھلا نہ کر سکے گا اور حُکم اُس روز خُدا ہی کا ہو گا۔ 

1-19:القرآن،سورة الانفطار)

جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی، اور زمین اپنے (اندر کے) بوجھ نکال ڈالے گی، اور انسان کہے گا کہ اِس کو کیا ہُوا ہے؟ اُس روز وہ اپنے حالات بیان کر دے گی، کیوںکہ تمھارے پروردگار نے اُس کو حکم بھیجا (ہوگا)۔ 

اُس دِن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے تاکہ اُن کو اُن کے اعمال دِکھا دیے جائیں۔ تو جس نے ذرّہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اُس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ بھر بُرائی کی ہو گئی وہ اُسے دیکھ لے گا۔

(1-8:القرآن،سورة الزلزلہ)

کھڑکھڑانے والی، 

کھڑکھڑانے والی کیا ہے؟ اور تم کیا جانو کہ کھڑکھڑانے والی کیا ہے؟ 

(وہ قیامت ہے) جس دِن لوگ ایسے ہوں گے جیسے بکھرے ہوئے پتنگے، اور پہاڑ ایسے ہو جائیں گے جیسے دُھنکی ہوئی رنگ برنگ کی اُون۔ 

تو جس کے (اعمال) وزن بھاری نکلیں گے، وہ دِل پسند عیش میں ہو گا۔ اور جس کے وزن ہلکے نکلیں گے، اُس کا مرجع ہاویہ ہے۔ 

اور تم کیا سمجھے کہ اور یہ کیا چیز ہے؟ 

وہ دہکتی ہوئی آگ ہے۔ 

 (القرآن،سورة القارعہ:-11 1)

اِس دعوتِ مشترک کا وصفِ خاص سامنے یہ آیا کہ مذہبی تضادات وعناد، سماجی تقسیم ومنافرت اور نسلی تفاوت وتعصبات کی ریشہ دوانیوں سے جان چھُڑانے کی خاطر سب لوگوں نے ایکا کر لینے کی ٹھان لی۔ 

ب)دِینِ اسلام کے قواعد وضوابط میں رہ کر جس صُورتِ حال کا قرآن ترجمان ہے وہ اُس کے بھی مطابق ہے جس کا دعویٰ دینِ مسیحی، خُداوند حضرت یسوع جو خُدا کا کلمہ ہے اُس کی ذات بابرکات نے کِیا تھا۔ چُناںچہ مسیحیت محض درس وتدریس نہِیں، تعلیم وتربیت کو لازم قرار دیتی ہے، اُس نظام کی مطابقت میں جو خُداوند مسیح کے شاگردوں اور پاک رسولوں کا خاصّہ تھا۔ اِس لیے ہر شخص کے لیے دعوتِ عام ہے کہ خُدا کا متبنّٰی بن جائے پاک خُداوند حضرت یسوع مسیح میں خُدا کے لے پالک بیٹا یا بیٹی۔

اُسی نے اپنی مرضی کے نیک ارادے کے موافق حضرت یسوع مسیح میں متبنّٰی ہونے کے لیے ہمیں پیشتر سے مقرر کِیا ہے۔

(1:5:افسیوں)

خالق اور مخلوق میں باہم دِگر محبت ہی کا اثر رسوخ قائم ہے۔ خالق کون ہے؟ باپ ہے، اور انسان.... تمام انسان اُس کے بچےّ ہیں۔ تعلُّقات کی یہ بے تکلفی اِس سے کہِیں بڑھ کر اعلیٰ ہے کہ خالق ومخلوق کے رشتے کی نہج وہ ہو جو بندہ ومولا، غلام اور آقا کے لیے روا رکھی جاتی ہے۔ ہر مسیحی کے لیے ہدایت موجود ہے کہ وہ خُدا سے محبت رکھے، اُس کے سب کے سب انسانوں کو پیار کرے، کیوںکہ تمام لوگ خُداوند حضرت یسوع مسیح کے بھائی بہن ہیں اور آسمان پر اُس خُداے جمیل وجمال وجلال کے بچےّ جو سب کا باپ ہے۔ 

تکمیلِ انسانیت اور انسانیت کی تسکین اگر مقصود ہو تو اُس کے حصول کا فقط ایک ہی ذریعہ، ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے خُدا سے محبت اور اُس کی خلقت سے پیار کا راستہ جسے اختیار کرنا ویسے بھی معراجِ انسانیت ہے اور یہ محبت لوگوں کی آپس میں محبت سے کہِیں ارفع واعلیٰ ہے کیوںکہ خُداوند حضرت یسوع مسیح جو ہم سے چاہتا ہے وہ ہے کہ ہمیں بُرائی کا بدلہ بُرائی سے نہِیں دینا چاہیے بل کہ ہمیں تو پوری دِلجمعی سے استقامت اور مضبوطی کے ساتھ معاف کر دینے، درگذر کرنے، بخش دینے پر عمل پیرا ہونا چاہیے، اِس حد تک کہ دُشمنوں کے لیے بھی محبت بھری ہماری بانہیں اُن کی طرف پھیلی رہیں۔ بجا کہ ایسے عمل سے متصف ہونا، ایسی محبت کا متحمل ہونا کِسی بھی انسان کے بس کی بات تو ہرگز نہِیں۔ یقینا یہ تو نعمتِ خُداوندی ہے جسے بھی نصیب ہو اور اِس نعمت ہی کی برکتیں ہیں کہ ہم اِس لائق ہو جاتے ہیں کہ اپنے بہن بھائیوں سے محبت کریں، جس طرح خُود خُداوند اُن سے پیار کرتا ہے۔ اور خُداوند حضرت یسوع مسیح نے تو اِس آفاقی پیغام کو اِس حد تک اپنایا کہ اِن پیاروں کے لیے، سب انسانوں کے لیے صلیب پر اپنی جان تک دے دی۔ یہ ہوتی ہے محبت! ایسے خُدا کی نفی کرنا، اُس پر ایمان نہ لانا، چاہے اِس کے لیے لاکھ تاویلیں گھڑ لی جائیں، یہ تو توبہ توبہ ایسا عمل ہو گا جو انسانیت کی تذلیل اور انسان کو ہر طرح سے خُود اپنے ہاتھوں بے وقعت کر دینے پر منتج ہونے کے مترادف ہے۔ 

ج)خُداوند حضرت یسوع مسیح نے خُدا کی بادشاہت کا اعلان کِیا تھا۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو اِس کی حقیقت اب تک سامنے آ تو چکی ہے مگر اِسے پا لینے میں انسان منزل تک رسائی کی تشنہ کامی کا معتوب ہے۔ اِس کی مثال اُس یقین دہانی، اُس وعدہ کی سی ہے جو ابھی پوری طرح ایفا ہی نہِیں ہُوا۔ تکمیلِ انسانیت یُوں تو اِس دُنیا میں بس ایک خواب ہی محسوس ہوتی ہے مگر اِس کی تکمیل میں ہی وہ عظیم قُوّت پنہاں ہے جو نسلِ انسانی کو آگے بڑھائے رکھتی ہے۔ ہِمّت بندھاتی ہے، اُس خواب کی پُرتاثیر تعبیر سُناتی ہے، مایوس نہِیں ہونے دیتی، پُراُمِّید رکھتی ہے۔ ترقّی، ارتقا کو دیکھا جائے تو ہرلحاظ سے اِس کے برسرِعمل رہنے کے امکانات ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ ترقّی نے جاری رہنا ہے، دُنیا کے ختم ہونے تک اور انفرادی سطح پر نمو کی بقا تب تک تو ہے ہی نا، جب تک فرد سانس لے رہا ہے، زِندہ ہے۔ اکثر لوگوں کے نزدیک موت ثبوت ہے، زیستِ مستعار کی افادیت، صلاحیت اور معنویت کے فقدان کا، لیکن ایک سچّے مسیحی کا ایمان ہوتا ہے کہ صلیب پر حضرت یسوع خُداوند کی موت ہی اُس کی زِندگی کا پیغام تھی اور تمام انسانوں کے لیے سببِ حیات بعد از ممات۔ گویا خُداوند نے انسانیت کو موت کے بے رحم ہاتھوں شکست سے بچاتے ہوئے الٹا موت کو شکست دے کر انسان کی مفتوحہ بنا دِیا۔ موت پر انسان کی فتح خُداوند کی بخشی ہوئی برکت ہی سے تو ہے، اسی لیے زیستِ انسانی کا انجام اور قیامت کے دِن دُنیا کی تباہی وہلاکت ابدی زِندگی کا دروازہ کھول دے گی اور مِن جُملہ انسانیت اپنے کمال کو پہنچے گی۔ اُس روز سب خُدا کا، آمنے سامنے، دیدار کریں گے، نئی بہشت میں، نئی دُنیا، نئی زمین پر، وہاں بنی نوعِ انسان اور دیگر مخلوقاتِ خُداوند اپنی حتمی اور باکمال تکمیل کی منزلِ مُراد پا لیں گے۔

کیوںکہ ہم جانتے ہیں کہ ساری خلقت اب تک چیخیں مارتی ہے اور اُسے دردِزِہ لگا ہے۔ اور فقط وہی نہِیں مگر ہم بھی جنھیں رُوح کے پہلے پھل مِلے ہیں، خُود اپنے باطن میں کراہتے ہیں اور تبنیت یعنی اپنے بدن کی مخلصی کی راہ دیکھتے ہیں۔

(رومیوں 23,22:8) 

د)انسانوں کی قدر وقیمت کا اسی سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کی تخلیق میں خُود خُدا کا عکس ہویدا ہے۔

اور خُدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صُورت پر اپنے مانند بنائیں، اور وہ سمُندر کی مچھلیوں اور آسمانوں کے پرندوں اور چوپایوں اور کُل رُوے زمین اور سب کیڑوں پر جو زمین پر رینگتے ہیں حکومت کرے۔ 

اور خُدا نے انسان کو اپنی صُورت پر پیدا کِیا، خُدا کی صُورت پر اُس نے اِس کو پیدا کِیا نرا ورناری، اُن کو پسند کِیا۔

 (تکوین 27,26:1)

مرد کو اپنا سر ڈھانپنا نہ چاہیے کیوںکہ وہ خُدا کی صُورت اور اُس کا جلال ہے مگر عورت مرد کا جلال ہے۔ 

(7:11۔قرنتیوں1)

 تم نے تو پُرانی انسانیت کو اُس کے کاموں سمیت اُتار دِیا ہے اور اِس نئی کو پہن لیا ہے جو معرفت حاصل کرنے کے لیے اپنے خالِق کی صُورت پر نئی بنتی جاتی ہے۔

(کلسیوں 10-9:3)

ہم اِسی سے خُداوند اور باپ کو مبارک کہتے ہیں اور اِسی سے آدمیوں کو بددُعا دیتے ہیں جو خُدا کی صُورت پر پیدا کیے گئے ہیں۔ ایک ہی مُنہ سے برکت اور لعنت نکلتی ہے، نہِیں اے میرے بھائیو! یُوں ہونا مناسب نہِیں۔ کیا کوئی چشمہ ایک ہی مُنہ سے میٹھا اور کھارا پانی نکالتا ہے؟ 

(9-11:3یعقوب )

اور خُداوند حضرت یسوع مسیح کی تمثال پیدا کِیا۔ 

اِسی سے سب کچھ پیدا ہُوا، ایک بھی چیز جو پیدا ہوئی اُس کے بغیر پیدا نہ ہوئی۔

(مُقدّس یُوحنّا 3:1)

کیوںکہ جنھیں اُس نے پہلے سے پہچانا ہے اُنھیں پہلے سے مُقدّر بھی کِیا ہے کہ اُس کے بیٹے کی صُورت کے ہم شکل ہوں تاکہ وہ بہُت سے بھائیوں میں پلوٹھا ٹھہرے۔ 

 (رومیوں 29:8)

لیکن ہمارے نزدیک فقط ایک ہی خُدا ہے یعنی باپ جس کی طرف سے سب چیزیں ہیں اور اُسی کے لیے ہم ہیں اور فقط ایک ہی خُداوند ہے یعنی حضرت یسوع مسیح جس کے وسیلے سے سب چیزیں موجود ہوئیں اور ہم بھی اُس کے وسیلے سے ہیں۔ 

 (1۔قرنتیوں6:8) 

کیوںکہ اُسی میں سب چیزیں کیا آسمان میں، کیا زمین پر، کیا دیدنی، کیا نادیدنی خلق کی گئیں۔ عروش، سیادتیں، ریاستیں، حکومتیں سب چیزیں اُسی سے اور اُسی کے لیے خلق ہوئیں۔

 (کُلُسیّوں 16:1)

اِن ایّام کے آخر میں ہم ہی سے بیٹے کی معرفت کلام کِیا جسے اُس نے تمام چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جس کے وسیلے سے اُس نے عالم کو خلق کِیا۔ 

 (عبرانیوں 2:1)

تو پھر حضرتِ انسان کو زیب نہِیں کہ ذریعہ بنتا پھرے یعنی استعمال ہو کِسی بھی مقصد کے لیے۔ اور وہ خاتون ہو یا مرد اُس کے حقوق کا احترام ہمہ قسم مقتدرہ پر لازم ہے چاہے وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی، معاشرتی ہو، بھلے سیاسی مُقتدرہ ۔ 

مگر یہ جو مخلوق انسان ہے نا، اِسے تسکین بس اپنی ہی معاشرت میں مِلتی ہے جو آزاد اور خُودمختار لوگوں پر محمول ہوتی ہے۔ اِس لیے خاندان یا کِسی اور شکل میں انسانی برادریاں، قبیلے، قومیں، گروہ ایسے کِردار ادا کرتے ہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر کہ اُنھیں نظرانداز نہِیں کِیا جا سکتا ہے۔ یہ سماجی بندھن، معاشرتی اِتّحاد ناگزیر ہیں۔ فرد کے حُقُوق ہوں یا معاشرے کے وہ متوازن ہونے چاہییں اور اُن کے آپس کے تعلُّقات کی اہمیت کے لیے بہُت محتاط توجُّہ اور رویّوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ فرد کے اپنے حُقُوق اور مجموعی حیثیت میں جو معاشرے کے حُقُوق ہوتے ہیں اُن میں توازن کے لیے بہُت ضروری ہے کہ اُن میں بڑی محتاط اور نپی تُلی طرز پر باہم رشتوں کی لڑی میں پروئے جانے کا سامان مُہیّا ومیسّر ہو۔ کیوںکہ 

فرد قائم ربطِ مِلّت سے ہے تنہا کچھ نہِیں 

موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہِیں 

انسانی طبقات، تہذیبیں اور معاشرے، دِینی یا دِین کی پابندیوں سے آزاد ہر دو صورتوں میں فلاح وبہبود کی خدمات کی انجام دہی میں اُس حد کو جا چھُوتے ہیں جہاں فرد کی شخصی اہمیت ووقعت ایک لازمہ بن جاتی ہے، سماجی اقدار کے لیے۔ 

ضمیمہ براے نُقطہءخاص: انسان دوستی اور مُسلمان 

صِرفمسیحیت ہی بس ایسا مذہب نہِیں ہے کہ جو دُنیا بھر کے انسانوں کے بارے میں جامع اور واضح تصوُّر عطا کرنے کا دعویدار ہو اور بتاتا ہو کہ انسانوں کا نسب، اُن کا نقطہ آغاز کیا ہے اور یہ بھی کہ اُن کا مُقدّر اور مقدُور کیا ہے۔ اسلام کا وژن بھی کچھ اِسی سے مِلتا جُلتا ہے۔ اسلامی انسان دوستی اور مسیحی انسان نوازی میں جو فلاحِ انسانیت کی علمبرداری ہے اِس کا مرکز ومحور خُداوند حضرت یسوع مسیح کی ذات والا تبار ہے، اور مسلمان.... مسلمان جس چشمے سے سیراب ہوتے ہیں وہ ہے اُن کی مذہبی کتاب.... قرآن۔ دونوں مذاہب کے مابین جو نقطہ امتیاز ہے وہ، وہ فرق ہے کہ کون فرد کو بطورِ انسان کتنی اہمیت، فوقیت اور وُقعت دیتا ہے۔ 

قرآن کہتا ہے کہ آدم کی تخلیق خُدا کے دستِ قُدرت کی مرہونِ مِنّت ہے۔ خُدا نے انسان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ 

(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا، اے ابلیس! تجھے اِسے سجدہ کرنے سے کِس چیز نے روکا جسے مَیں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کِیا۔ کیا تُو کچھ گھمنڈ میں آ گیا ہے؟ یا تُو بڑے درجے والوں میں سے ہے۔ 

(القرآن،سورة ص: 75)  

اُسے مٹّی سے بنایا :

(خُدا نے) فرمایا، جب مَیں نے تجھ کو حُکم دِیا تو کِس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے باز رکھا۔ اُس نے کہا کہ مَیں اِس سے افضل ہُوں مجھے تُو نے آگ سے پیدا کِیا اور اِسے مٹّی سے بنایا ہے۔ 

(القرآن،سورة الاعراف: 12)  

یقینا ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کِیا۔ 

(القرآن،سورة المومنون: 12)  

..جس نے خُوب بنائی جو چیز بنائی، اور شروع کی انسان کی پیدایش ایک گارے سے۔

((القرآن، سورة السجدہ: 7

خُدا نے آدم میں اپنی رُوح بھی پھونکی۔ 

جب اُس کو (صُورتِ انسانیہ میں) دُرُست کر لوں اور اُس میں اپنی (بے بہا چیز یعنی) رُوح پھونک دُوں تو اُس کے آگے سجدے میں گِر پڑنا۔ 

(القرآن، سورةالحجر: 29)  

پھر اُس کو برابر کِیا اور پھُونکی اُس میں اپنی روح۔ اُسی نے تمھارے کان، آنکھیں اور دِل بنائے (اِس پر بھی) تم بہُت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو۔ 

(القرآن،سورة السجدہ: 9)  

پھر جب ٹھیک بنا چکوں، اور پھونکوں اُس میں ایک اپنی جان (رُوح) تو تم گِر پڑو اُس کے آگے سجدے میں۔

(القرآن، سورة ص: 72)

امام ابنِ حنبل سے روایت شُدہ ایک مشہور حدیث بھی ہے جو اصطلاح میں اسفارِ تواریخی کے اسفار خسمہ میں سے تکوین سے مماثل ہے۔ 

اور خُدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صُورت پر اپنے مانند بنائیں۔ اور وہ سمُندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور چوپایوں اور کُل رُوے زمین اور سب کیڑے مکوڑوں پر جو زمین پر رینگتے ہیں حُکُومت کرے۔ 

(تکوین 26:1)  

اس حدیث میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ خُدا نے آدم کو اپنی صُورت پر بنایا۔ 

نسلِ انسانی کی تخلیق کا مقصد خُداے واحد کی عبادت تھا، اُس کی بندگی اور اُس کی اطاعت، اُس کی حمد کہ صِرف وہی لائقِ تحسین ہے اور اُس کی شکرگُزاری کہ شکرانہ بھی اُسی کو سزاوار ہے۔

لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کِیا (یعنی اوّل) اور اُس سے اُس کا جوڑا بنایا۔ پھر اُن دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کر کے رُوے زمین پر) پھیلا دیے۔ اور خُدا سے جس کے نام کو تم اپنی حاجت براری کا ذریعہ بناتے ہوئے ڈرو اور (قطعِ مودّت) ارحام سے (بچّو)۔ کچھ شک نہِیں کہ خُدا تمھیں دیکھ رہا ہے۔ 

(القرآن،سورة النسا: 1) 

اور مَیں نے جو بنائے ہیں جن اور آدمی سو اپنی بندگی کو۔ 

(القرآن،سورة الذاریات: 56)   

آسمانوں اور زمین کی پیدایش میں اور رات دِن کے ہیر پھیر میں یقینا عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں، جو اللہ تعالیٰ کا ذِکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں وزمین کی پیدایش میں غور وفِکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔ 

اے ہمارے پروردگار! 

تُو نے یہ بے فائدہ نہِیں بنایا، تُو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔ 

(القرآن،آلِ عمران: 191,190) 

جو لوگ خُداے واحد پر ایمان لانے سے انکاری ہیں، ایسے منکرین کا موازنہ جانوروں سے ہی کِیا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ شُعُور میں بھی ان چوپایوں سے بہتر نہ نکلے۔ 

یا تُو خیال رکھتا ہے، کہ بہُت اُن میں سُنتے یا سمجھتے ہیں؟ اور کچھ نہِیں وہ برابر ہیں چوپایوں کے، بل کہ وہ بہکے ہیں بہُت راہ سے۔ 

(القرآن،سورة الفرقان: 44)  

تمام جانداروں سے بدتر، اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو کُفر کریں، پھر وہ ایمان نہ لائیں۔

 (القرآن، سورة الانفال: 55)

انسان تو اعلیٰ مقام پر فائز ہے۔ یہ آدم ہی تو تھے جن پر خُدا نے تمام جانوروں کے نام منکشف کیے اور یہ تو ایسا عِلم تھا جو فرشتوں تک کے وُقُوف میں بھی نہ تھا: ۔

اور اُس نے آدم کو سب (چیزوں کے) نام سکھائے پھر اُن کو فرشتوں کے سامنے کِیا اور فرمایا کہ اگر سچّے ہو تو مجھے اِن کے نام بتاﺅ۔ 

اُنھوں نے کہا تُو پاک ہے جتنا عِلم تُو نے ہمیں بخشا ہے اُس کے سِوا ہمیں کچھ معلوم نہِیں۔ بے شک تُو دانا (اور) حِکمت والا ہے۔ 

(تب) خُدا نے (آدم کو) حُکم دِیا کہ آدم! تُم اِن کو اُن (چیزوں) کے نام بتاﺅ۔ جب اُنھوں نے اُن کو اِن کے نام بتائے تو (فرشتوں سے) فرمایا، کیوں مَیں نے تم سے نہِیں کہا تھا کہ مَیں آسمانوں اور زمین کی (سب) پوشیدہ باتیں جانتا ہُوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو پوشیدہ کرتے ہو (سب) مجھ کو معلوم ہے

(القرآن،سورة البقرہ:31-33)  

خُدا نے اِس لیے ملائک کو حُکم دِیا کہ وہ آدم کے آگے تعظیم کے لیے جُھک جائیں، فوراً سجدہ بجا لائیں جیسے ہی اُس کی خلقت تکمیل کو پہنچے۔ سب نے تعمیل میں دیر نہ کی مگر ابلیس.... کہ اُس نے سجدہ سے اِنکار کر دِیا۔ 

مگر شیطان، اُس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے اِنکار کِیا۔ 

(القرآن،سورة الحجر: 31)  

اور جب ہم نے فرشتوں کو حُکم دِیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کِیا مگر ابلیس (نے نہ کِیا) وہ جِنّات میں سے تھا تو اپنے پروردگار کے حُکم سے باہر ہو گیا۔ کیا تم اُس کو اور اُس کی اولاد کو میرے سِوا دوست بناتے ہو! حال آںکہ وہ تمھارے دُشمن ہیں اور (شیطان کی دوستی) ظالموں کے لیے ( خُدا کی دوستی کا) بُرا بدل ہے۔ 

(القرآن، سورةالکہف: 50)

پھر سجدہ کِیا فرشتوں نے سارے اکٹھے مگر ابلیس نے غرور کِیا اور تھا وہ منکروں میں۔

 (القرآن، سورة ص: 74)

تمام مخلوقات کو خُدا نے بنی نوع انسان کے تابع کر دِیا اور اُس کے تصرُّف میں دے دِیا۔

خُدا ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کِیا اور آسمان سے مینہ برسایا۔ پھر اُس سے تمھارے کھانے کے لیے پھل پیدا کیے اور کشتیوں (اور جہازوں) کو تمھارے زیرِفرمان کِیا تاکہ دریا (اور سمُندر) میں اُس کے حکم سے چلیں اور نہروں کو بھی تمھارے زیرِفرمان کِیا۔ 

اور سورج اور چاند کو تمھارے لیے کام میں لگا دِیا کہ دونوں (دِن رات) ایک دستور پر چل رہے ہیں اور رات اور دِن کو بھی تمھاری خاطر کام میں لگا دِیا۔ 

(القرآن،سورة ابراہیم: 33,32)    

اُسی نے رات دِن اور سُورج چاند کو تمھارے لیے تابع کر دِیا ہے اور ستارے بھی اُسی کے حُکم کے ماتحت ہیں۔ یقینا اِس میں عقلمند لوگوں کے لیے کئی ایک نشانیاں موجود ہیں۔ اور بھی بہُت سی چیزیں طرح طرح کے رنگ وروپ کی اُس نے تمھارے لیے زمین پر پھیلا رکھی ہیں۔ بے شک نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے اِس میں بڑی بھاری نشانی ہے۔ 

اور دریا بھی اُسی نے تمھارے بس میں کر دیے ہیں کہ تم اُس میں سے (نکلا ہُوا) تازہ گوشت کھاﺅ اور اُس میں سے اپنے پہننے کے زیورات نکال سکو اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اُس میں پانی چیرتی ہوئی (چلتی) ہیں اور اِس لیے بھی کہ تم اُس کا فضل تلاش کرو اور ہو سکتا ہے کہ تم شکرگزاری بھی کرو۔ 

(القرآن،سورة النحل: 12تا14)    

تُو نے نہ دیکھا؟ کہ اللہ نے بس میں دِیا تمھارے، جو کچھ ہے زمین میں، اور کشتی چلتی دریا میں اُس کے حکم سے اور تھام رکھتا ہے آسمان کو اِس سے کہ گِر پڑے زمین پر، مگر اُس کے حکم سے مقرر۔ اللہ لوگوں پر نرمی کرتا ہے۔ مہربان۔

 (القرآن، سورة الحج: 65)

اور انسان زمین پر خُداوند قدوس کا خلیفہ ہے، نائب ہے۔ 

اور جب کہا تیرے ربّ نے فرشتوں کو مجھ کو بنانا ہے زمین میں ایک نائب۔ بولے، کیا تُو رکھے گا اُس میں، جو شخص فساد کرے وہاں اور کرے خُون؟ اور ہم پڑھتے ہیں تیری خُوبیاں، اور یاد کرتے ہیں تیری پاک ذات کو۔ کہا، مجھ کو معلوم ہے جو تم نہِیں جانتے۔ (القرآن،سورة البقرة: 30)

جدید دور کے مصنّفین اِس تھیوری کو جب بیان کرتے ہیں کہ انسانیت کو مسلمانوں میں کیا مقام حاصل ہے تو اِن آیاتِ قرآنی کا ہی حوالہ دیتے ہیں جو نظرگُزار کی جا چکی ہیں۔ 

تتمہ توضیحی: اسلام اور محبتِ خُداوندی 


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?