خدا کی طرف سے مسیحیوں کے لیے کاہنانہ/راہبانہ زندگی اختیار کرنے کی بلاہٹ/طلب
ازدواجی زندگی اختیار کرنے کی دعوت
1۔ مُسلم زاویہء نِگاہ
شادی کے بارے میں مُسلمان بتاتے ہیں کہ مرد اور عورت کے مابین یہ ایک ایسے رِشتے کی اُستواری کا عمل ہے جِسے تخلیقِ کائنات کی عِلّتِ غائی میں اہم الٰہی مقام حاصل ہے:
''اللہ نے تمھارے لیے تم میں سے ہی تمھاری بیویاں پیدا کیں اور تمھاری بیویوں سے تمھارے لیے تمھارے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور تمھیں اچھّی اچھّی چیزیں کھانے کو دیں۔ کیا پِھر بھی لوگ باطل پر ایمان لائیں گے؟ اور اللہ کی نعمتوں کی ناشُکری کریں گے؟''
(القرآن72:16ویں آیت)
خُدا کی خلق کردہ بے شمار چیزوں میں مطلُوب و پسندیدہ چیز ہے شادی، اور شادی کے نتیجہ میں پھیلتا ہُوا کُنبہ۔
شادی قُدرت کی طرف سے بندوبست ہے جس سے جِنسی کشِش (شہوانیت) زور پکڑتی ہے جِس کا ثمر افزایشِ نسلِ انسانی ہے۔ مسیحیت اور اسلام، دونوں مذہب میں نہ تو شادی سے پہلے جِنسی اختلاط کی اجازت دی گئی ہے اور نہ شادی کے بعد خاوند بیوی کو ایک دُوسرے سے دھوکا، بددیانتی اور امانت میں خیانت کی چھُوٹ دی گئی۔ اسلام بھی مسیحیت کی طرح مظہرِ شہوانیت کو شادی کی حدود میں پابند کر دیتا ہے۔ وظیفہء زوجیت کو میاں بیوی کے درمیان ازدواجی زندگی کا لاحقہ بنا دینے سے وہ جِسے جرمن زبان میں کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ لیبیز گیمائِین شافٹ۔۔۔۔۔۔ اس کے سبب ایک خاندا، قبیلے، گھرانے کی بِنا پڑتی چلی جاتی ہے۔ اور ایک برادری پھلتی پھُولتی مضبُوط و توانا ہوتی ہے کیتھولک مسیحی کلیسیا تو مباشرت سے پرہیز اور بیاہ نہ کرنے کے عہد کے تحت ناکتخدائی اور تجرُّد کی زندگی کو قدر کی نِگاہ سے دیکھتی ہے مگر اسلام واضح طور پر شادی شُدہ زندگی کو ترجیح دیتا ہے:
''تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں اُن کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غُلام لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مُفلس بھی ہوں گے تو اللہ اُنھیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کُشادگی والا اور علم والا ہے''۔
(القرآن۔ سورۃ32:24ویں آیت)
قرآن میںمیاں بیوی کے حُقُوق و فرائض میں برابری کی سطح پر عدل و انصاف کی تاکید آئی ہے۔ تخلیق کی ذِمّہ داری جس کے لیے جرمن لفظ خاص ہے۔۔۔۔۔۔ شٹٹ ہالٹیرشافٹ۔۔۔۔۔۔ اسے نبھانا دونوں کی ذِمّہ داری قرار دیا گیا ہے نہ کہ محض مرد کی۔ مہر و محبّت اِس مُبارک رِشتے کی پہچان ہے۔
''اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمھاری ہی جِنس سے بیویاں پیدا کیں تا کہ تم ان سے آرام پاؤ اُس نے تمھارے درمیان محبّت اور ہمدردی قائم کر دی، یقینا غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس میں بہُت سی نشانیاں ہیں''۔
(القرآن21:30)
خاوند بیوی ایک دُوسرے کے بِنا ادُھورے ہیں، مِل جائیں تو تکمیل ہوتی ہے۔ شوہر بیوی ایک دُوسرے کا لباس ہیں، بیوی شوہر کا، شوہر بیوی کے لیے۔
''روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے مِلنا تمھارے لیے حلال کِیا گیا، وہ تمھارا لباس ہیں اور تُم اُن کے لباس ہو،تمھاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ کو علم ہے، اُس نے تمھاری توبہ قُبُول فرما کر تم سے درگذر فرما لیا، اب تمھیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی چیز کو تلاش کرنے کی اجازت ہے، تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے۔ پِھر رات تک روزے کو پُورا کرو اور عورتوں سے اُس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجد میں اعتکاف میں ہو۔ یہ اللہ کی حدود ہیں، تم ان کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں لوگوں کے لیے بیان فرماتا ہے تا کہ وہ بچیں''۔
(القرآن۔۔۔۔۔۔سورۃ2، آیت187)
اِس کے باوُجُود قرآن پاک میں بعض احکامِ خُداوندی ایسے بھی ہیں جن کے ذریعے خاوند کو شریکہء حیات پر ایک طرح کی سرفرازی عطا کی گئی ہے۔ وُہ ایک درجہ اُوپر نظر آتا ہے:
''طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں، اُنھیں حلال نہیں کہ اللہ نے اُن کے رحم میں جو پیدا کِیا ہو اُسے چِھپائیں، اگر اُنھیں اللہ پر اور قیامت کے دِن پر ایمان ہو، اُن کے خاوند اس مُدّت میں اُنھیں لوٹا لینے کے پُورے حقدار ہیں اگر اُن کا اِرادہ اصلاح کا ہو۔ اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے اُن پر مردوں کے ہیں اچھّائی کے ساتھ۔ ہاں مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمت والا ہے''۔
(القرآن۔۔۔۔۔۔228:2)
اور مرد کو بیوی پر اختیار حاصل ہے اور کفالت اور عورت کے دیگر حُقُوق ادا کرنے کا ذِمّہ دار ہے وہ۔
''مرد عورتوں پر حاکم ہیں اِس وجہ سے کہ اللہ نے ایک کو دُوسرے پر فضیلت دی ہے اور اِس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں، پس نیک تابع فرماں عورتیں خاوند کی عدم موجُودگی میں بہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جِن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمھیں خوف ہو اُنھیں نصیحت کرو اور اُنھیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور اُنھیں مار کی سزا دو پِھر اگر وہ تابعداری کریں تو اُن پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بُلندی اور بڑائی والا ہے''۔
(القرآن۔۔۔۔۔۔34:4)
(اگر عورت اصلاح کر لے تو پِھر راستہ تلاش نہ کرو یعنی معمولی مار پِیٹ بھی نہ کرو، نہ تنگ کرو، نہ طلاق دو۔ طلاق بالکُل آخری مرحلہ ہے۔ یعنی پند و نصیحت، عارضی علیحدگی، وحشیانہ تشدُّد نہیں، ہلکی سی مار آزما چکنے کے بعد)۔
جب تک شوہرِ نامدار صاحب بیوی بچّوں کے حُقُوق پُورے کرتے ہیں اور اپنی ذِمّہ داریوں کو بہ حُسن و خُوبی نِبھاتے ہیں اُنھیں بیویوں پر مناسب ترجیح دی جاتی رہے گی اور اسلامی مُعاشرت میں مقام بھی زوجہ محترمہ سے بہتر ہی ودیعت ہو گا۔ شریکِ حیات کو حق مہر ادا کرنا ہو گا۔ نہ کام کا نہ کاج کا، دُشمن اناج کا بن کر رہتا مرد تو اچھّا نہیں نا لگتا۔ نکھٹُّو مرد اپنی توقیر کھو دیتے ہیں۔ بال بچّوں، گھر والی کے نان نفقہ، کپڑا لتّا ایسی ضروریات پوری کرنا ہیں، چوکی چُولھا، نون تیل، ہلدی مرچ، دال سبزی کا خرچہ بھی روز چاہیے، سر پر چھت کا بندوبست اور بچّوں کی صِحّت، تعلیم، یونی فارم، کتابیں فیسوں کے اخراجات اسی نے پُورے کرنے ہیں جِس نے بُور کے لڈُّو کھائے اور کھلائے۔ شادی کے لڈُّوؤں کے لیے تو بُور کا نام تکلفاً لیا جاتا ہے ورنہ تو پتھروں اور لوہے کے بنے ہوتے ہیں جنھیں چبانے کے لیے آج کے دور میں اچھّی بیبیوں کو بھی اپنے صاحب کا ساتھ دینا پڑتا ہے تا کہ گھر گرھستی، شادی و غمی، آئے گئے کی خدمت مہمانداری اس منہگائی کے دور میں کِسی نہ کِسی طور نِبھتی رہے کم از کم۔ یہ تو ہو گیا، چلیے مان لیا ایسا ہی ہُوا۔ پِھر بھی گھر والوں کے مفادات کو ہمیشہ پیش پیش رکھنا اور ان کے جان مال عِزّت و آبرُو کو تحفُّظ فراہم کرنا بھی تو گھر والے کی ہی ذِمّہ داری ہے، کیوں کہ خصم کا مرتبہ اینویں ای نہیں مِل جاتا۔
خاندان اور بطور گھرانے کے سربراہ کے بچّوں کا باپ، اگر گریڈ اچھّا ہو یا کاروبار سے آمدنی معقُول تو خاتُونِ خانہ کا سرتاج، بس گُزارا ہو رہا ہو تو سِر دا سائیں، کراےے کے مکان میں ہو تو جی خوش رکھنے کے لیے گھر والی کا گھر والا کہلانے والا فوقیت کے ساتھ ذِمّہ دار ٹھہرایا جاتا ہے کہ ''ہوم منسٹری'' کا فنانس منسٹر بس وہی ہے۔ اکیلا بہُت سارے صوبوں کا وزیرِ خزانہ! اسی نے مُعاشرے میں اپنے ''خوشحال کُنبے'' کے ٹَوہر بنانے ہیں، اچھّی بات تو نہیں مگر شریکوں سے اِٹ کھڑکّا، مقابلہ بازی اپنی جگہ، ان کا مُنہ لال دیکھ کے اپنے بھی رُخسار چپیڑوں سے لال کر لینے ہیں۔ اور ہاں! باہر کے حالات سے جی داری سے نمٹنے کی ذِمّہ داری بھی اُسی کی ہے۔ جب کہ خانہ داری اور بچّوں کی نگہداشت و پرداخت کے اندرونی محاذ پر بیوی صاحبہ کو ''مردانہ وار'' مورچا سنبھالے رکھنا ہوتاہے۔ اِسی لیے فوقیت کا پلڑا ہر گھر میں انھیں محترمہ والا ہی جھُکا دِکھائی دیتا ہے۔ میاں بیوی کے فرائض ایک جیسے تو نہیں ہیں بل کہ قطعاً ایک سے نہیں ہیں۔ مرد بچّہ تو نہیں جَن سکتا نا۔ بس، جِس کا کام اُسی کو ساجھے۔ دونوں ہی اپنی اپنی فیلڈ کے چیمپیئن ہیں۔
اسلام خواتین و حضرات کے ایک دُوسرے کے شانہ بشانہ کام کرنے کے کُچھ زیادہ حق میں نہیں۔ کُچھ قدغنیں لگاتا ہے۔ سب کی مخلُوط موجُودگی چند احتیاطوں اور بعض شرائطِ شرعی کے تحت قُبُول بھی کی جا سکتی ہے۔ خواتین کو شرعی قواعد کا پاس اور مردوں کو خواتین کے احترام کے ساتھ ساتھ بھری پُری شرافت کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوڑنا ہو گا۔ ایساہو جائے تو، اجازت ہے۔
ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو اپنے گھر کی چار دیواری میں خاصی آزادی میسّر ہوتی ہے۔ افرادِ خانہ یعنی محرموں کے سامنے اور خواتین خواتین کے اکٹھ میں ہوں تو اس چڑیوں کے چنبے پر بہُت سی پابندیاں بھی نرم کر دی جاتی ہیں ورنہ تو غیر محرموں کے سامنے نِگاہیں جُھکی جُھکی رکھنا پڑتی ہیں۔ اجنبی مردوںسے گُفتگُو کرنا ہو تو آواز کی ملائمت غائب کرنا پڑتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
''مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نِگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں۔ اور اپنی زِینت کو ظاہر نہ کریں، سواے اس کے جو ظاہر ہے۔ اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیںاور اپنی آرایش کو کِسی کے سامنے ظاہر نہ کریں، سواے اپنے خاوندوں کے، یا اپنے والد کے، یا اپنے خُسر کے، یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے، یا اپنے بھائیوں کے، یا اپنے بھتیجوں کے، یا اپنے بھانجوں کے، یا اپنے میل جول کی عورتوں کے، یا غُلاموں کے، یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں، یا ایسے بچّوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں۔ اور اِس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ اُن کی پوشیدہ زینت معلُوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تا کہ تم نجات پاؤ''۔
(القرآن31:24)
چُناں چہ وضاحت ہُوئی کہ دِینِ اسلام میں پردے کے جو روایتی آداب ہیںا ور روزمرّہ کی زندگی میں جس طرح کی عِفّت مآبی کا بھرم رکھنا پڑتا ہے، شرم و حیا، حجاب و غیرت کا جو مظاہرہ کرنا پڑتا ہے یہ مرد و عورت کے مقام میں امتیاز برتنے، تفریق روا رکھنے کے لیے نہیں بل کہ خواتین کو تحفُّظ فراہم کرنے کے لیے ہے اور اس میں انھی کا بھلا ہے۔
خاوند کے لیے بھی ضروری ہے کہ ضبطِ نفس سے کام لے اور نیک چلنی پر قائم رہے۔
''مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نِگاہیں نیچی رکھّیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی اُن کے لیے پاکیزگی ہے، لوگ جو کُچھ کریں اللہ سب سے خبردار ہے''۔
(القرآن۔۔۔۔۔۔24ویں سورۃ،آیت30)
چُناں چہ قرآن اپنا فیصلہ سُناتا ہے کہ میاں بیوی دونوں برابر ہیں۔ اُنھیں جو رول تفویض کِیا گیا ہے ایمانداری کے ساتھ ادا کریں۔ جو بھی خاص اُمُور ان کے ذِمّہ ہیں، انھیں پُورا کریں۔ اور جس حکمتِ الٰہی کے تحت ان کی بِساط مُطابِق جو بوجھ ان پر لادا گیا ہے اُسے اُٹھانے کی بے چُون و چرا ہِمّت کریں۔ خُدا کو معلُوم ہے انسان اُتنا ہی کر سکتا ہے جتنا اس کے بس میں کر دیاگیا ہے۔ اللہ کے حُکم سے سرتابی جان بُوجھ کر کوئی نہیں کرنا چاہتا، بس انسان ہے ہی خطا کا پُتلا۔ ہر چُوک کے لیے کوئی نہ کوئی عُذر، بہانہ، مجبوری گھڑ لیتا ہے، سہواً بھی روز کے اعمال میں سے کوئی نہ کوئی عمل چھُوٹ ہی جاتا ہے۔ سلسلہ وار تبدیلیوں کے ذریعے بتدریج تاریخی فروغ اور رِیت روایات رواجوں سے لِتھڑی اس مُعاشرت میں عورت بے چاری اعانت، خدمت اور طاعت جوگی ہی رہ گئی تھی مگر جدید دور میں اس کی حیثیّت ثانوی ہرگز نہیں، مرد عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیّے ہیں، برابر، توانا اور مضبُوط تر۔
مُتّحدہ خاندانوں کا مُعاشرہ جو خاندان کے مردِ بزُرگ کے ما تحت ہو مغربی تہذیب بھی اس سے ناآشنا نہیں۔ مشرقی و مغربی تمدُّن کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی اپنی اپنی ثقافتی، مُعاشرتی، مذہبی اقدار کو ایک دُوسرے میں خلط ملط کر کے نہیں دیکھنا چاہیے۔ اس گَڈ مَڈی سے اُلجھاو پیدا ہوں گے، سُلجھاو نہیں۔ حال آں کہ دونوں کئی لحاظ سے ایک دُوسرے کے لیے حوالہ بھی بنتے رہتے ہیں۔
مسیحی نقطہء نظر2
الف ۔شادی سبھاو
وُہ جو کہتے ہیں جوڑے آسمان پر بنتے ہیں، سچ یُوں ہے کہ خُدا قدرت والے نے ہی عورت مرد کی جوڑی طے کر دی ہوتی ہے، انھیں ایک دُوسرے کا شریکِ حیات مُقرّر کر دیا ہوتا ہے۔ خُدا خالق کی تخلیق یہ انسان ذاتِ باری ہی کا عکسِ جمیل ہے۔ اور مرد و زن کو ایک دُوسرے کی زندگانی کا وفادار ساتھی بنا کر انسان پر احسانِ عظیم کِیاگیا ہے تا کہ وُہ ایک دُوسرے کے کام آئیں اور ایک دُوسرے کا ساتھ نبھائیں، ایک دُوسرے سے مُخلص رہیں اور ہمدرد و غمخوار ثابت ہوں۔ خُداوند پاک کی عطا کی ہوئی یہ سُوجھ بُوجھ شادی کے بارے میں مطلُوبہ صحیح عقل و سمجھ پیدا کرتی ہے اور شوہر بیوی کو حالات و معمُولات اور نِبھا کے تقاضوں سے عُہدہ برآ ہونے کی صلاحیت نوازتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی ہے کہ مبالغے سے پاک یہ معقُول لفظ معاہدہ یا قول و قرار یعنی زوجیّت کا قانُونی معاہدہ اِس امر کی دلالت کرتا ہے کہ ایک سمجھوتے کے تحت میاں بیوی کے مابین ذاتی نسبت تعلُّق سے رِشتہ داری قائم ہو گئی ہے، زندگانی ایک اکائی کے تحت آگئی ہے اور شوہر اور بیوی کی تقدیر مشترک ہو گئی ہے جِس کی جڑیں مذہب میں پیوست ہیں اور مذہب ہی ان کا ملجا و ماویٰ، مُراد، آسرا و سہارا ہے۔
کیتھولک مسیحی کلیسیا کی تعلیمات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ اس میں یوں درج ہے کہ شادی۔۔۔۔۔۔
ساکرامینٹ۔۔۔۔۔۔ مُقدّس رسُوم کا مجمُوعہ ہے۔ یہ نسلِ انسانی کے ساتھ مُقدّس خُداوند خُدا کے میثاق کی روشن دلیل ہے۔ دُولھا دُلھن پر واجب ہے کہ وُہ اِس الٰہی علامتِ معاہدہ کو ہمیشہ زندہ، توانا اور قائم رکھیں۔ ایساکرنا بالکل یُوں ہے جیسے انسانی مخلُوق کے لیے خُدا کرم کرنے والے، رحم کرنے والے، محبّت کرنے والے کی کبھی نہ ختم ہونے والی محبّت کو کُل عالَم پر عیاں کر دیا ہو بل کہ ایسے جیسے مُقدّس خُدا باپ نے اپنی پاک محبّت کی مُقدّس بیٹے خُداوند یسُّوع مسیح کے توسّط سے تمام انسانوں پر برکھا برسا دی۔ چُناں چہ شادی سے یہی مقصُود ہے کہ خُدا شان والے نے زوجین کوجو محبّت کی نعمت سے نوازا ہے اس سے دونوں سرشار ہوں، اورشادی کے اس مُبارک ساکرامینٹ کی پاک خُداوند یسُّوع مسیح کی تمجید کے ساتھ قدر کریں اور برکتیں پائیں اور بدلے میں محبّت و اپنائیت اور صلہ رحمی کو اپنے اردگرد آباد قومیتوں اور برادریوں تک پھیلانے کا فرض نِبھائیں۔
مسیحیوں میں صِرف باضابطہ طور پر انجام دی گئی شادی ہی کیتھولک چرچ کی نِگاہ میں مُقدّس ساکرامینٹ کے طور پر قُبُول کی جاتی ہے۔ شادی کے اس دستُور کو کلیسیا کی تکریم حاصل ہے اور وُہ تحفُّظ فراہم کرتی ہے ان تمام شادیوں کو جو مسیحیوں کے درمیان اور غیر مسیحیوں کے میان یا ان دونوں مذاہب کے لوگوں میں وقُوع پذیر ہوتی ہیں اور کلیسیا اِس بات کا بھی بُرا نہیں مناتی کہ آیا یہ رستہ عین مذہبی اُصُول و قواعد کے تحت انجام پایا یا سیکولر طریق پر یا قبیلے، برادری، گوت کے اپنے مخصُوص رسُوم و رواج کے تحت قرار پایا، کیوں کہ شادی کی تاریخ پکّی ہونا، خانہ آبادی کا بندھن بندھنا اور اس میں خُوش بختی کا عمل دخل مضبُوط ہونا۔۔۔۔۔۔ یہ سب انسان کی بِساط میں ہے نہ ہی کلیسیا کی صوابدید پر اس کا انحصار ہے۔ یہ تو خالص اَمرِ رَبّی ہے۔ جو ہوتا ہے اُس کی منشا، اس کی قدرت اور اُسی کے حُکم سے ہوتا ہے۔ اُسی کے حُکم سے جِس کے حُکم کے بغیر پتّا بھی نہیں ہِلتا۔
اسلام کے پیروکاروں کے مابین جب یہ رِشتہ اُستوار ہوتا ہے تو اسلامی شریعت کے تقاضے پُورے کیے جاتے ہیں۔ اسے مُقدّس ساکرامینٹ تو نہیں قرار دِیا جا سکتا مگر یہ ضرُور ہے کہ کلیسیا اس کی نفی بھی نہیں کرتی۔ زندگی بھر کے اس میل کی توثیق کرتی ہے، بجا طور اس کا احترام کرتی ہے۔ اسی طرح ایک مُسلم مرد یا خاتُون کی شادی جب کِسی مسیحی مرد یا خاتُون کے ساتھ طے پاتی ہے تو وُہ بھی مُقدّس ساکرامینٹ کے درجہ سے باہر ہوتی ہے۔ (ہاں، اگر مُسلم فریق مسیحیت اختیار کر لے تو اس شادی کو مُقدّس رسُومات کے ذیل میں لیا جا سکتا ہے، تب وُہ بھی متبرّک ہو جائے گی۔ پُورے طور۔ کلیسیا کا تحفُّظ اور اُس کی شُبھ کامنائیں ایسی شادیوں کے شاملِ حال ہو جاتی ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے، تحسین کے ساتھ، کلیسیا انھیں کُلیۃً جائز قرار دیتی ہے۔ اور جہاں تک مطلُوبہ اور کِسی حد تک ناگُزیر اجازت کا تعلُّق ہے، یہاں جِس صُورت کا سامنا ہے وُہ ایسی ہے کہ قابلِ استثنیٰ قرار دی جا سکے۔ ممانعت بوجہ نسبت قانونی سے، مانع ازدواج شِق سے، اور مخلُوط مذہب کی وجہ سے ممانعت اثر پذیر ہونے سے مستثنیٰ۔
ب۔بیاہ کے خواص
کیتھولک کلیسیا کے نزدیک شادی بیاہ اپنا اپنا انتہائی ذاتی، جیون بھر ساتھ دینے کے اِرادے، عہد اور عمل کا نام ہے، جس کے تحت اس سے مِلتے جُلتے تعلُّق قائم کیے گئے، واسطے سب ماضی کی بھُول بنا دیے جاتے ہیں، سب ختم، بشمُول ان کے جو بس سرزدہو گئے جنسیاتی فعل تھے۔۔۔۔۔۔ گُناہِ بے لذّت۔ مگر لذّت ہو یا بے لذّتی، گُناہ تو گُناہ ہے۔ فردِ جُرم تو ہو گئی نا عائد، روزِ عدالت سزابھی برابر بولی جائے گی۔ جو بولی جائے گی وُہ بھُگتنا بھی ہوگی۔
یہ جو ایک دُوسرے کا شریکِ حیات بننے کا عمل ہے اس کی بُنیاد بس جوڑے کے دِل و دماغ کے فیصلے پر ہی اُٹھنا کافی نہیں۔ یہ تو رُوح و جسم کا مِلاپ ہے جسے تقویت اور اُٹھان پاک خُداوند یسُّوع مسیح کی مُقدّس آشیرباد سے مِلتی ہے۔ رُوحُ القُدُس کے دَم سے برکتیں ہی برکتیں مُقدّر بنتی ہیں۔۔۔۔۔۔ تب شادی، خانہ آبادی بنتی ہے!
شادی ناقابلِ تحلیل ہوتی ہے، ہم آہنگی و اِتّحاد اس کا وصف ہے
ہر دو فریق ایک دُوسرے کے مُخلص ساتھی ہیں، شریکِ حیات، زندگی کے سرد و گرم، اس کی دُھوپ چھاؤں، اس کی خُوشیوں غمیوں کا سامنا کرنے میں ایک دُوسرے کے پارٹنر ہیں۔بائبل مُقدّس کے عہدِ عتیق کے شُرُوع شُرُوع کے بابِ تکوین میں بیان ہوا ہے: انسان کی پیدایش:
''اور خُدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صُورت پر اپنے مانند بنائیں۔ اور وُہ سمُندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور چوپائیوں اورکُل رُوے زمین اور سب کِیڑے مکوڑوں پر جو زمین پر رِینگتے ہیں حُکُومت کرے۔
اور خُدا نے انسان کو اپنی صُورت پر پیدا کِیا، خُدا کی صُورت پر اُس نے اُس کو پیدا کِیا، نَر و ناری ان کو پیدا کِیا۔ اور خُدا نے انھیں برکت دی اور کہا کہ پھَلو اور بڑھو اور زمین کو معمُور و محکُوم کرو۔ اور سمُندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور سب زندہ مخلُوقات پر جو زمین پر چلتی ہیں۔ حُکُومت کرو''۔
تکوین۔۔۔۔۔۔26:1تا28
(کلیسیائی علما کی راے کے مُطابِق ''خُدا کی صُورت'' خاص رُوح میں ہوتی ہے کیوں کہ وُہ غیر فانی ہے اور اس میں سمجھ اور آزاد مرضی پائی جاتی ہے)۔
پیدایش کے باب میں دُوسری جگہ مرد اور عورت کے جوڑا جوڑا تخلیق کرنے کی بابت تاکید و تشریح سے کہا گیا تا کہ اِبہام نہ رہے: عورت کی پیدایش:
''اور خُداوند خُدا نے کہاکہ انسان کا اکیلا رہنا اچھّا نہیں۔ ہم اُس کے لیے ایک مددگار اُس کے مانند بنائیں''۔
تکوین۔۔۔۔۔۔18:2
مزید فرمایا:
''اِس واسطے مرد اپنے باپ اور اپنی ماں کو چھوڑے گا۔ اور اپنی بیوی سے مِلا رہے گا۔ اور وُہ دونوں ایک تن ہوں گے''۔
تکوین۔۔۔۔۔۔24:2
(اِس لیے خُداوند یسُّوع پاک نکاح کو نامُمکنُ التّفریق ثابت کرتا ہے)۔
پاک خُداوند یسُّوع مسیح نے انجیلِ مُقدّس۔۔۔۔۔۔ کلامِ مُقدّس کے عہدِ جدید میں تصدیق کی ہے کہ خُدا نے خُود شادی کے نظم و نظام کو تشکیل دِیا:
''۔۔۔۔۔۔لیکن تکوین کی اِبتدا سے خُدا نے اُنھیں نر و ناری بنایا۔ اِس واسطے مرد اپنے باپ اور اپنی ماں کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے مِلا رہے گا۔ اور وُہ دونوں ایک تن ہوں گے''۔
مُقدّس مرقّس۔۔۔۔۔۔6:10تا8
یہ لُبِّ لُباب ہے کیتھولک مسیحی کلیسیا میں اُصُول و عقیدہ کی مذہبی تعلیم کا جِس کی رُو سے شادی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ اِن مقاصدکو ٹارگٹ کرتی ہے:
٭ دُولھا دُلھن کے مفادات۔۔۔۔۔۔ انفرادی و اجتماعی
اور
٭بچّوں کی نگہداشت و پرداخت(انھیں پالنا پوسنا)
اور افزایشِ نسلِ انسانی
مسیحی فکر کے مُطابِق ایک طرف تو شادی۔۔۔۔۔۔
٭ایک قانُونی اقرار و معاہدہ ہے۔
مطلب یہ کہ قدرت کے اِس میل کو قانُون کی سرپرستی حاصل ہے۔ مسیحی شریعت و حُکُومتِ وقت اس تعلقداری کو تحفُّظ فراہم کرتی ہے۔ دُولھا اور دُلھنیا کے مُثبت اقرارِ واثق کو اہم دستاویز مانا گیاہے۔
اِس معاہدے کا ایک اور رُخ بھی ہے۔۔۔۔۔۔
٭ اس عہد وپیمان کی قانُونی تعریف یُوں ہے کہ شادی ایک مُقدّس عہد ہے، سمجھوتا ہے جو طے پاتا ہے فریقین کی رضامندی کے اعلان سے کہ وُہ ایک دُوسرے کو بطور شریکِ زندگی قُبُول کرتے ہیں اور دونوں ہمیشہ ایک تن رہیں گے۔
اور ہاں، یہ دو کا ایک ہونا کیاہے؟ یُونٹی سے کیا مُراد ہے؟ ہم بتاتے ہیں۔ یہ مُطابقتِ راے میں، اِتّفاق و یگانگت میں، موافقت میں ایک ہونا ہوتاہے حتّٰی کہ وُہ کیفیت طاری ہوجائے کہ۔۔۔۔۔۔
تُو من شُدی، مَن تُو شُدُم ، مَن تن شُدُم تُو جاں شُدِی
تا کس نگوید بعد زاں ، من دِیگرم ، تُو دیگری
یہ جناب فارسی ہے۔ فارسی، یعنی اردو کا میکا دُولھے بادشاہوں کو دُلھن کے میکے والوں کے بارے میں اکثر تحفُّظات ہوتے ہیں۔ ظاہرہے جو دوست فارسی داں نہیں ہیں، اُنھیں شعر میں جو بات کہی گئی ہے سمجھ تو آگئی ہو گی مگر دُلھن کے میکے والے حوالے سے، ہاں، ہُوں، لیکن، پر کر رہے ہوں گے۔ چُناں چہ پنجابی کُوزے میں جو دریا بند ہے، اُسے ہَوَالگوائے دیتے ہیں تاکہ کوئی عُذر نہ بچے اور ابلاغِ عام ہو جائے۔ عرض کِیا ہے:
رانجھا رانجھا کردی نی مَیں آپے رانجھا ہوئی
اِسے کہتے ہیں یک تن ہونا۔
نر اور ناری کے درمیان ایک مضبُوط شرعی، سماجی رِشتہ قائم ہوتے ہی دونوں ایک دُوسرے کے لیے لازم و ملزُوم ہو جاتے ہیں۔ شادی ریشم کی مُعاشرتی گانٹھ ثابت ہوتی ہے۔ دیگر قبیل کی شادیاں جوبالرضا، بالاجازت والی فہرست میں آتی ہیں یا آگے چل کر ایسی صُورت پیدا ہو جائے کہ دونوں وفادار شوہر بیوی میں سے کِسی ایک کی عُمر وفا نہ کرے تو جِسے موت نے مُہلت دے رکّھی ہو اُس کے لیے مذہبی ضابطوں میں استثنیٰ کی گُنجایش موجُود ہے، وُہ نیا بیاہ رچا سکتا ہے۔ ہاں، یہ البتّہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی وقت میں میاں کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں یا بیوی کے ایک سے زیادہ شوہر۔
اب ہم جائزہ لیتے ہیں عمیق یعنی اتھاہ تعلُّقات کا۔ وُہ جو سمُندروں سے گہرے اور پہاڑوں سے بُلندتر ہوتے ہیں، نامُمکنُ التّفریق سے۔ ایسا کوئی امکان نہیں کہ میاں، بیوی۔۔۔۔۔۔ فریقین یا ان میں سے کوئی ایک، ازدواجی رِشتے میں بندھے ہونے کے باوُجُود یعنی جِن کی شادی انجام پائی اور خلوتِ صحیحہ کے ذریعے شادی کی تکمیل ہوئی اور شادی کو دُرُست و مؤثِّر یعنی جائز قرار بھی دِیا جا چُکا، کلیسیا نے اس کی توثیق کر دی پِھر بھی اِس رِشتے کو توڑا جا سکے، ختم کِیا جا سکے اور کہِیں اور نئی شادی کے نئے تانے بانے بُنے جانے لگیں کہ ایک طرف سے تو آزاد ہو گئے چُناں چہ نئی نویلی و نویکلی دُلھن یا پِھر کِسی زیرو میٹر دُولھا سے شادی کے ارمان پُورے کرنے کے لیے میاں لڈُّوؤں کے تھال پر تھال پِھر سے تیّار کروانا چاہے یا بیوی کے من کے لڈُّو پھُوٹنے کو بے قراری پر اُتر آئیں، پُرانے گھر میں نئی دُلھنیاکے منہدی جھانجروں والے پاؤں پہنچتے دیکھنے کی حسرت، یا نئے پِیاکے لیے سجی ڈولی میں جھَپ سے جا بیٹھنے کی تمنّا یُوں تو پُوری ہونے سے رہی۔ بھرے گرجا میں پہلی شادی کی مُبارک تقریب منعقد ہوئی تھی، شبِ زفاف منائی گئی اور اب نئے ساتھی کا انتظار!!! چہ بُوالعجبیست! پہلا بندھن کچّا کر کے بل کہ توڑ کے دُوسری سے گھر کی رونق بڑھانے کی چاہ یا جِنسِ مخالف کا یہ خواب کہ وُہ اب کِسی اور کا گھر جا آباد کرے، مسیحیت میں رہتے ہوئے تو ایساہر گز نہیں ہو سکتا۔ جو ہوئی تھی وہ کوئی گُڈّے گُڑیا کی شادی تو نہ تھی۔ دو انسانوں میں ایک مُقدّس معاہدہ طے پایا تھا۔ اسے داخلی وُجُوہ مثلاً ساس، نند، بہُو، دیورانی جٹھانی کی کِل کِل، جھگڑے، طعنے مِہنے، تُو تُو مَیں مَیں، میاں بیوی کی آپس کی کِچ کِچ اور شکوے شکایتوں، لڑائیوں کا بہانہ بنا کر توڑے جانے کی اجازت ہے اور نہ خارجی کِسی دباو، تحکّم، دھمکی کے تحت بغیر کِسی مصالحتی حل تک پہنچنے کا تردُّد کیے، شادی بچانے کے جتن کیے، میرا وُہ راستہ تیری وُہ راہ کہہ کر قصّہ پاک کِیا جا سکتا ہے۔
شادی والی پکّی، چِیڑھی گانٹھ، بس موت ہی کھول سکتی ہے۔ ظالم موت!!
(اس آرٹیکل کے لیے کاتھولش / اسلامیشے این: آئینے ہانڈرائیخُونگ۔ ہاایرایس گے۔ ایرٹس یِشوئیظیشیس گینیرال وِیکاری ایٹ کوئِلن، ہاؤپ ٹاب ٹائِیلُونگ زیل سورگے۔ ایڈیٹر: ریفیرات فیورا انٹر ریلی گی اوئے سے ڈائیالوگ،2000ع، صفحات11تا 14اور35تا39سے استفادہ کِیا گیا۔)
Test
۱۔مُسلمانوں نے پُوچھا
٭مسیحی مبلغین اور راہبانہ جماعت کے لوگ شادی کیوں نہِیں کرتے۔
۲۔مُسلم تاثُّرات ونظریات
سطحی مُطالعہ
۱۔اسلامی تعلیمات کے تحت بتایا گیا ہے کہ یہ قدرتی طور خواتین وحضرات کی ایک اہم تمنّا اور ضرورت ہوتی ہے کہ وہ خاندان قائم کرنے کی بنیاد ڈالیں اور بطور صادق مومن ازدواجی زِندگی کا لُطف بھی اُٹھائیں اور وہ تمام جُوکھم بھی جھیلیں جو فرمایشوں، تقاضوں، مطالبات کی صُورت سامنے آئیں، یہ اونچ نیچ یعنی نشیب وفراز تعلُّقات، نفع ونقصان سب برداشت کرنا شادی کے بندھن میں بندھے لوگوں کا وہ بوجھ ہے جسے ہنسی خوشی یا پھر جیسے تیسے اُٹھانا اُن کا مُقدّر ہوتا ہے، جو ایک دوسرے کے حُقُوق وفرائض کا خیال کرتے ہوئے آسان بنایا جا سکتا ہے، اور اِسے آسان تر بنانا انسانی تقاضوں اور مذہبی فرائض کے عین مطابق ہے۔ ایک آدمی کہ شادی کی عمر کو پہنچ جائے اور چاہتا ہو کہ مجرد یعنی سِنگل ہی رہے، یہ بات تو شک میں ڈال دے گی، آخر کیوں؟ جی ہاں سوچنے کی بات ہے۔ یا تو وہ تجرد کی زِندگی اختیار کرنے پر آمادہ مرد یا خاتون جو بھی ہے، کسی خُودغرضی کا شکار ہے، یا پھر یہ کہ طبّی طور پر وہ شادی کے قابل ہی نہِیں، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ محبت کی چوٹ کھائے انسان کی مایوسیاں، حسرتیں اور پچھتاوے جو ہوتے ہیں وہی اُس کے بھی نصیب کا حصہ بن گئے اور اُس نے زِندگی اور اُس کی رنگینیوں سے مُنہہی موڑ لیا۔ مسلم کمیونٹی کو اِس میں بھی شک ہے کہ وہ جو وعدے کے ذریعے خُود کو ناکتخدائی، کنوارے رہنے کے عمل کی پابندی پر قائم رہنے کا پاسِ فرض ہے، احساسِ ذِمّہ داری ہے، اُسے استقلال سے نبھایا بھی جاتا ہے کہ نہِیں، کاہنوں اور راہب طبقہ کے ارکان کے درمیان خفیہ روابط واختلاط بھی تو راہ پا سکتے ہیں، ہم جنسی میلانات بھی حلفِ تجرد کو اندر ہی اندر گھُن لگا سکتے ہیں، المختصر یہ کہ شاید ہی کوئی ہو جو اِس حقیقت سے انکاری ہو کہ صحت، تندرستی اور توانائی کے ہوتے ہوئے مرد ہو یا عورت اپنے جسمانی تقاضوں، جنسی رغبتوں کو تادیر دبائے رکھ سکنے پر فطری طور پر قادر نہِیں ہیں، جو لوگ یہ قُدرت رکھتے ہیں، نبی ہیں، ولی ہیں، یا بہُت ہی برگزیدہ ہستیاں یا انتہائی پاکباز لوگ ہیں۔ جنسی تعلُّق بھوک نہِیں، انسانی ضرورت ہے اور شادی اِس کا حل ہے۔
۲۔علاوہ ازیں یہ بات بھی ہے کہ مومنین کے لیے شادی اُن کا دینی فریضہ ہے اور اِسے نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے، اور یہ بات حدیث سے بھی ثابت ہے، صنفِ نازک کو تحفُّظ مُہیّا کرنا مردوں کے فرائض میں شامل ہے۔ رضاکارانہ کنوارپن اختیار کرنے والوں کو اِسی لیے سکینڈلز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، باتیں بنتی ہیں، چہ میگوئیاں ہوتی ہیں، افواہیں اُڑتی ہیں اور ایسے لوگوں کے ساتھ اہانت آمیز سُلُوک روا رکھا جاتا ہے، اور مسلمانوں میں تو کنوارپنے کی زِندگی گُزارنے والوں کو بے رحمانہ تنقید کے تیر ہی نہِیں نیزے اور بھالے بھی سہنا پڑتے ہیں، بے شک اِس برجستہ اور بُنیادی ردِّعمل میں فی زمانہ بتدریج ایک تبدیلی جاری ہے کہ اب وہ طعنوں کے تیر، تشنوں کے نیزے اور بہتانوں کے بھالے زنگ آلود ہو کر کُند پڑتے جا رہے ہیں۔
۳۔مرد وخواتین میں من مرضی سے کنوارپن کی زِندگی اختیار کرنے کا رجحان کثیر الوقوع ہو چلا ہے، دُنیاے اسلام بھی اِس سے مبرا نہِیں۔ یہ معروض بعض اوقات عارضی طور معیادِ حُدُود کے لیے بھی اختیار کِیا جاتا رہا ہے۔ تجرد اپنانے کی وجوہات میں کِسی خاص نصب العین کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دینا بھی ایک بڑی وجہ ہے، بڑے بھائی بہنوں کو بعض اوقات ضروری ہو جاتا ہے کہ چھوٹے بھائی بہنوں کا سہارا بنیں، ضعیف العمر والدین کے لیے زِندگی تج دیں۔ نرسنگ کا پیشہ اگر پورے خلوص، انسانی ہمدردی اور جذبہ خدمت سے اختیار کرنا پڑ جائے یا سماجی خدمت، معاشرتی بہبود کے کاموں میں سرگرمی سے حصہ لینا اپنی زِندگی بنا لیا جائے اور یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ فلسطین کی آزادی کی جِدّوجُہد میں بطور حریت پسند فدائین یا فدائیات کی صف میں شمولیت اختیار کر لی جائے اور ایسا بھی ہے کہ بعض ذاتی وُجُوہ انسان کو مجرد رہنے پر مجبور کر دیں یا شادی کے جکڑ بند میں پھنسنے سے پہلے آزادانہ وخُودمختارانہ زِندگی کا لُطف اُٹھا لیا جائے ورنہ تو گھر گرھستی کی زِندگی نے سر اُٹھانے کی فرصت بھی چھین لینا ہے اور ہاں یہ بھی ہے کہ مذہبی وُجُوہ بھی ہو سکتی ہیں جیسے ناکتخدا زائرات کہ بس مکّہ مدینہ کی ہی ہو کے رہ جانا چاہتی ہیں، حجاج کرام میں سے کئی لوگ جن کی تمنّا ہوتی ہے کہ دیارِ حرم یا دیارِ نبیصلی اللہ علیہ وسلم میں آ گئے ہیں تو یہیں اللہ اللہ کرتے، درود پاک پڑھتے موت آ جائے۔ بعض کی مُراد پوری بھی ہو سکتی ہے، چاہے عارضی مُدّت یا لمبا عرصہ، (سعودی قوانین پر منحصر ہے)۔
۴۔پریسٹ ہوں یا مسیحی راہبانہ جماعت کے ارکان اگر اِن لوگوں سے شناسائی ہو اور اِن کے معمولاتِ زِندگی بھی مشاہدے اور تجربے میں ہوں تو آپ دُرُست تسلیم کریں گے کہ خُدا کی خدمت اور مسیحی زِندگی کی طرف طلب کے تحت مذہبی طور راہبانہ زِندگی گُزارنے کے لیے کنوارے رہنے کے حلف کو انتہائی کھرے اور پاک صاف اندازہ میں نباہ کر دِکھایا جا سکتا ہے۔ بہُت ہیں جو اِس طرزِ زِندگی کے لیے رطب اللسان ہیں۔ اُن معترفین میں وہ مُسلم لڑکیاں بھی شامل ہیں جنھوں نے کچھ عرصہ راہبات (ننز) کے بہُت قریب رہ کر گُزارا ہو، اکٹھے کام کِیا ہو تو اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ بطور مسلم دوشیزہ وہ سسٹرز ایسی زِندگی بسر کریں مگر اُنھیں حسرت رہتی ہے کہ کاش اِس متقابل طرزِ دینی بود وباش کی اسلام میں بھی گنجایش ہوتی۔ وہ کیوں ایسا چاہتی ہیں؟ شادی سے فرار کی راہ؟ یا دِین کے لیے وہ بھی اپنی زِندگی وقف کر دینا چاہتی ہیں؟ تاکہ جم کے دِین کی خدمت کریں، اللہ تعالیٰ کی پورے استغراق کے ساتھ عبادت کریں، مگر.... مُسلمان تو یہ کہیں ہی کہیں کہ ایسا بس مسیحیت میں تو ممکن ہے، مگر اسلام میں رُہبانیت کے لیے کوئی جگہ نہِیں۔
عمیق مطالعہ
چند ہستیوں کے ساتھ خاص استثنا برتتے ہوئے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ مذہبی اور راہبانہ زِندگی اختیار کرنے کی طلب میں مجرد رہنے یعنی کنوار پنے کی حالت میں عُمر گُزارنے کو اسلام نے قطعاً قبول نہِیں کِیا، نہ مطمحِ انسانی کے طور پر اور نہ مذہبی طور۔ کلام اللہ میں بھی کہِیں تجرد کی حوصلہ افزائی نہِیں کی گئی۔ رسولِ خُداصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شادیاں کیں اور رشتہ ازدواج کو مثالی طور نبھا دِکھایا۔ اِسی لیے بہُت سی احادیثِ مبارکہ ہیں جن میں ازدواجی زِندگی کو صریحاً سراہا گیا ہے اور کنوارپنے کو اپنائے ہی چلے جانے کی نفی کی گئی ہے اور اُسے مردود ٹھہرایا ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سُنّت فرمایا۔ روایت بھی اور تقویٰ سے متصف بھی، حتیٰ کہ نصف ایمان تک فرما دِیا اور اللہ تعالیٰ کے حضور ایک کنوارے شخص کے طور پر پیش ہونے کو انتہائی نامناسب قرار دِیا۔ ایک غیر شادی شدہ صحابی کو سمجھانے اور شادی کی اہمیت ووقعت جتلانے کے لیے یہاں تک فرمایا کہ اگر اُنھیں ایک دِن اور جینا ہو اور ابھی شادی نہ کی ہو، تو وہ ترجیحاً شادی کریں گے پہلے، تاکہ جب خُدا کے حضور حاضری ہو تو ایسا نہ ہو کہ وہ کنوارے ہوں اور (اللہ تعالیٰ کے نیاز حاصل کر رہے ہوں)۔
(مندرجہ بالا سطور احادیثِ مبارکہ کا لفظی ترجمہ نہِیں، حتیٰ المقدور مفہوم کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کی سعی کر دیکھی ہے۔ کہِیں کچھ بھی سہو سرزد ہوئی ہو تو اللہ اور اُس کا رسولصلی اللہ علیہ وسلم درگذر سے نوازیں۔ آمین)
پایے کے مسلم عالمِ دِین گذرے ہیں امام غزالی (1111-1058ع)، اُنھوں نے شادی کے انسٹی ٹیوشن پر کھل کے بحث کی ہے کہ کیوں اِسے مذہبِ اسلام میں ایک لحاظ سے فرضِ عین قرار دِیا گیا:
کاہن، فادر اور راہبانہ جماعت (رِیلی جیئس آرڈر) کے دوسرے ممبرز فادر، برادر اور سسٹرز آخر شادی کیوں نہِیں کرتے؟
خُداوند کریم کی عطا سے اولاد نصیب ہوتی ہے، نسل اور نام آگے بڑھتا ہے اور اِسی میں خُدا اور اُس کے پیغمبر کی رضا وخوشنودی مضمر ہے۔ بندے پر اپنے معبود کی اطاعت تو امرِ لازم ہے۔
مسلم معاشرت پھلے پھُولے گی، اُمّتِ محمدی مضبوط ہو گی۔
اِسی دُنیا میں ہی مسرت وانبساط کے بہشتی مزوں سے متمتع ہُواجاتا ہے۔ مسلمان مرد کو گھر گرھستی کو سنبھالنے والی زوجہ مُیسّر آ جاتی ہے، اُسے فراغت ملتی ہے تاکہ عبادتِ خُداوندی میں جُویاے تسکین ہو سکے۔
عارف وصوفی کو بھی پاکیزہ زِندگی اور ازدواجی تعلُّقات سے حظ اُٹھانے کی نعمت نصیب ہوتی ہے۔ بیوی کی اُفتادِ طبع سے موافقت کی کوشش، اُس کی سرشت سے سمجھوتا اور مزاج کی نرمی گرمی برداشت کرنے سے شوہر کو صبر وشکر کی عادت پڑتی ہے۔
تقریباً تمام ہی اولیا اللہ، صوفی اور درویش شادی شدہ تھے، بہرحال کچھ بھی ہو تجرد کو نہ تو نظرانداز کِیا جاتا ہے نہ کبھی سرے سے رَد۔ حضرت بی بی مریم کی عفت مآبی کو مثالی بتاتے ہوئےقرآن مجید نے مُقدّس ماں کی تعریف کی ہے۔ اُنھوں نے ”اپنی پاک دامنی کی حفاظت کی“۔
اور اُن (مریم) کو (بھی یاد کرو) جنھوں نے اپنی عِفَّت کو محفوظ رکھا۔ تو ہم نے اُن میں اپنی رُوح پھونک دی اور اُن کو اور اُن کے بیٹے کو اہلِ عالم کے لیے نشانی بنا دِیا۔
((القرآن ، الانبیا:91
اور (دوسری) عمران کی بیٹی مریم کی (مثال) جنھوں نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا۔ تو ہم نے اُس میں (مریم میں) اپنی روح پھونک دی اور وہ اپنے پروردگار کے کلام اور اُس کی کتابوں کو برحق سمجھتی تھی اور فرماں برداروں میں سے تھی۔
(القرآن،سورة التحریم: 12)
وہ ابھی عبادت گاہ میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے کہ فرشتوں نے آواز دی کہ (ذکریا!) خُدا تمھیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو خُدا کے فیض (یعنی عیسیٰ ) کی تصدیق کریں گے اور سردار ہوں گے اور عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے اور (خُدا کے) پیغمبر (یعنی) نیکوکاروں میں ہوں گے۔
(القرآن،آلِ عمران: 39)
یہاں حضرت یحییٰ علیہ السلام یعنی مُقدّس یُوحنّا اصطباغی کا حوالہ دِیا گیا ہے۔ جن کے اطہر ومطہر ہونے میں کوئی شک نہِیں، اور قرآنی سٹائل میں اصل مقصود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پاک دامنی اور معصومیت ہے۔ مسیحی راہبوں کے بارے میں بھی قرآن پاک میں تعریف آئی ہے: ۔
(اے پیغمبر) تم دیکھو گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دُشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور دوستی کے لحاظ سے مومنوں سے قریب تر اُن لوگوں کو پاﺅ گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اِس لیے کہ اُن میں عالِم بھی ہیں اور مشائخ (راہب) بھی اور وہ تکبُّر نہِیں کرتے۔
(القرآن،المائدہ: 82)
(وہ قندیل) اُن گھروں میں (ہے) جن کے بارے خُدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ بُلند کیے جائیں اور وہاں خُدا کے نام کا ذِکر کِیا جائے (اور) اُن میں صبح وشام اُن کی تسبیح کرتے رہیں۔
(یعنی ایسے) لوگ جن کو خُدا کے ذِکر اور نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے سے نہ سوداگری غافل کرتی ہے نہ خرید وفروخت۔ وہ اُس دِن سے جب دِل (خوف اور گھبراہٹ کے سبب) اُلٹ جائیں گے اور آنکھیں (اوپر چڑھ جائیں گی) ڈرتے ہیں۔
(القرآن ،النور:37,36)
پھر اُن کے پیچھے اُنھی کے قدموں پر (اور) پیغمبر بھیجے اور اُن کے پیچھے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو بھیجا اور اُن کو انجیل مقدّس عنایت کی اور جن لوگوں نے اُن کی پیروی کی اُن کے دِلوں میں شفقت اور مہربانی ڈال دی۔ اور لذّات سے کنارہکشی کی تو اُنھوں نے خُود ایک نئی بات نکال لی (یعنی رُہبانیت) ہم نے اُن کو اِس کا حکم نہِیں دِیا تھا مگر (اُنھوں نے اپنے خیال میں) خُدا کی خُوشنودی حاصل کرنے کے لیے (آپ ہی ایسا کر لیا تھا) پھر جیسا اُس کو نباہنا چاہیے تھا، نباہ بھی نہ سکے۔ پس جو لوگ اُن میں سے ایمان لائے اُن کو ہم نے اُن کا اجر دِیا، اور اُن میں بہُت سے نافرمان ہیں۔
(القرآن،الحدید: 27)
لیکن یہ بھی دھیان میں رہے۔
اُنھوں نے اپنے علماءاور مشائخ اور مسیح ابنِ مریم کو اللہ کے سوا خُدا بنا لیا حال آںکہ اُن کو یہ حکم دِیا گیا تھا کہ خُداے واحد کے سِوا کِسی کی عبادت نہ کریں، اُس کے سِوا کوئی معبود نہِیں اور وہ اِن لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔
(القرآن،سورة التوبہ: 31)
مومنو! (اہلِ کتاب کے) بہُت سے عالِم اور مشائخ لوگوں کا مال ناحق کھاتے اور (اُن کو) راہِ خُدا سے روکتے ہیں۔ اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خُدا کے رستے میں خرچ نہِیں کرتے اُن کو عذابِ الیم کی خبر سُنا دو۔
(القرآن،سورة التوبہ: 34)
بعض مسلم صُوفیہ کرام اور تارک الدُّنیا زُہَّاد ایسے بھی گذرے ہیں جو تمام عمر مجرد ہی رہے۔ زُہد وتقویٰ میں بُلند مقام پر فائز رابعہ بصریٰ کی مثال موجود ہے۔ اُنھوں نے اپنا جینا مرنا سانس سانس اللہ تعالیٰ کی سپردگی میں دے دی تھی اور شادی نہ کی۔ دِینی مقاصد کے لیے تجرد اپنانے کے لیے سداکنوارہ رہنے کی حوصلہ افزائی بعض مسلم مسالک اور دِینی سِلسلوں کے بارے میں بعض اُن کی کتابوں میں مرقوم مِلتا ہے، سِلسلہ رحمانیہ، بیکتاشیہ، وغیرہ۔
خلاف اور شادی کے حق میں دلائل، پر بحث کرتے ہوئے امام غزالیؒ نے اُس صورت میں کنوارپن میں رہنے کو قرینِ مصلحت گردانا ہے جب کوئی خرچ اخراجات، نان نفقہ کی ذِمّہ داریاں شادی کر کے ادا کر سکنے کے لیے اپنے آپ کو ناقابل سمجھتا ہو، ایسی صُورتِ حال ہو کہ خُود اپنے خاندان پر بوجھ تو ہو ہی اب رشتہ ازدواج پھر آل اولاد کی ذِمّہ داریاں اُن پر ڈالنے سے مُحترز ہو، یا پھر اُسے پتا ہو کہ جہاں بات چل رہی ہے اُن محترمہ کے طور اطوار اور اُن کے سیٹ اپ سے دولھا میاں کوئی سمجھوتا نہ کر سکیں گے۔ اور یہ بھی کہ ہونے والی دُلھن کے بارے میں عِلم ہو جائے کہ وہ اُن کے صوفیانہ رنگ ڈھنگ سے چِڑ کھا جائے گی اور اُن کی عبادت ویادِ الٰہی میں خشوع وخضوع، مراقبے، گیان دھیان سب تلپٹ ہو کر رہ جائیں گے۔ چُناںچہ امام غزالی اِس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ شادی شدہ یا بغیر شادی کے زِندگی گُزاری جا سکتی ہے مگر اپنے اپنے حالات کی مناسبت سے بہترین صُورت تو یہی ہے کہ زُہد وعبادت، خُداپرستی، پارسائی اور اُن کے ساتھ ساتھ خوشگوار ازدواجی تعلُّقات یُوں رچے بسے ہوں کہ زِندگی دوسروں کے لیے بھی نمونہ بن جائے، یہی پیرویِ سُنَّتِ رسولصلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اپنے نکاح میں کِسی کو نہ لانے کے عمل پر اپنی راے امام غزالی نے یُوں دی ہے کہ: ۔
قدرتی طور پر اُن کی طبیعت کبھی اِس طرف مائل ہی نہ ہو پائی کیوںکہ وہ سمجھتے تھے کہ گھربار، خاندان اور شادی کے جھمیلے اُنھیں بے حد تھکا دیں گے۔ یا یہ بھی اُنھوں نے سوچا ہو گا کہ (جس مقصدِ عظیم کی براری کے لیے وہ دُنیا میں آئے ہیں اُس کو پورا کرنے کی جِدّوجُہد کے ساتھ ساتھ) اُن کے لیے بہُت مشکل ہو گا کہ وہ اپنے خاندان کی پرداخت، نگہداشت اور پرورش میں اُلجھے رہنے کی کٹھنائیوں کو اپنے لیے جائز قرار دے سکیں۔ خُداوند تعالیٰ کی بندگی کی خاطر اپنی تمام مساعی وقف کر دینے کی راہ میں شادی کو اُنھوں نے رکاوٹ ہی سمجھا ہمیشہ، اِس لیے خُدا کے کاموں اور شادی میں امتزاج پیدا کر دیکھنے کا خیال کبھی بھی دماغ میں نہ لائے۔ چُناںچہ خُدا کی خدمت کو ہی سب کچھ پر سدا ترجیح دی۔
۳۔مسیحی تاثُّرات
اکیلے پن سے جو دُنیاوی طور مُراد لی جاتی ہے اور جس میں جسمانی لُطف یالذّت سے رضاکارانہ اجتناب کو کوئی اہمیت حاصل نہِیں، ہم اُس کی بات نہِیں کر رہے۔ ہمارا موضوعِ سخن مذہبی حوالوں سے تجرد میں عمر ڈھال دینے سے ہے یعنی شُعُوری مسیحی ترغیب وتحریک براے کنوار پن۔ خاص طور پر مجرد رہنا اور جنسی عمل سے پرہیز اختیار کرنا۔ ایک حلف کے تحت پریسٹ اور مذہبی نظم ونسق کی تنظیم کے ارکان یعنی جماعتِ رُہبانیت کے اراکین تجرد کو خُدا وخُداوند کی خدمت اور مسیحی زِندگی کی طرف طلب یا دعوت پر اپنے آپ پہ لاگو کر لیتے ہیں۔
۱۔کیتھولک نقطہءنظر
کیتھولک عقیدہ میں بُنیادی طور مُمِدومُتمم اغراض ومقاصد تین طرح کے ہیں جن کے لیے طلبِ خدمتِ خالق ومخلوق کے تحت رضاکارانہ طور پر مجرد زِندگی اپنائی جا سکتی ہے۔
الف)آسمان کی بادشاہی کے لیے
بعض تو خوجے ہیں جو ماں کے بطن ہی سے ایسے پیدا ہوئے، اور بعض خوجے ہیں جنھیں آدمیوں نے خوجہ بنایا اور بعض خوجے ہیں جنھوں نے آسمان کی بادشاہی کے لیے اپنے آپ کو خوجہ بنایا۔ جو سمجھ سکے وہ سمجھ لے۔
(مُقدّس متّی 12:19)
یا جس طرح مُقدّس پولُوس رسول نے بھی وضاحت کی ہے.... اعلانِ انجیلِ مُقدّس کی خاطر۔
کیا مَیں آزاد نہِیں؟ کیا مَیں رسول نہِیں؟ کیا مَیں نے حضرت یسوع ہمارے خُداوند کو نہِیں دیکھا؟ کیا تُم خُداوند میں میری مُہم نہِیں۔ اگر مَیں دوسروں کے لیے رسول نہِیں تو بھی تمھارے لیے تو البتہ ہُوں۔ کیوںکہ تم خداوند میں میری رسالت پر مُہر ہو۔ جو مجھے پرکھتے ہیں اُن کے لیے میرا یہی جواب ہے۔ کیا ہمیں کھانے پینے کا اِختیار نہِیں؟ کیا ہمیں یہ اختیار نہِیں کہ کِسی بہن کو ساتھ لیے پھریں؟ جیسے دوسرے رسول اور خُداوند کے بھائی اور کیفا کرتے ہیں۔ یا صِرف مجھے اور برنباس کو ہی محنت مُشقّت سے باز رہنے کا اختیار نہِیں؟ کون سا سپاہی کبھی اپنی گِرہ سے کھا کر جنگ کرتا ہے؟ کون تاکستان لگا کر اُس کا پھل نہِیں کھاتا؟ یا کون گلّہ چرا کر اُس گلّے کا دُودھ نہِیں پیتا؟ کیا مَیں یہ باتیں محض انسانی قیاس ہی کے موافق کہتا ہُوں؟ کیا شریعت بھی یہی نہِیں کہتی۔ چُناںچہ حضرت موسیٰ کی شریعت میں لِکھا ہے کہ ”تُو گاہتے وقت بَیل کا مُنہ مت باندھ۔کیا خُدا کو بیلوں ہی کی پروا ہے؟ یا وہ خاص ہماری خاطر یُوں کہتا ہے؟ ہاں یہ ہماری خاطر لکھا ہے کیوںکہ واجب ہے کو جو تنے والا اُمِّید پر جوتے اور گاہنے والا حِصّہ پانے کی اُمِّید پر گاہے۔ پس اگر ہم نے تمھارے لیے روحانی چیزیں بوئی ہیں تو کیا یہ بڑی بات ہے کہ ہم تمھاری جسمانی چیزوں کی فصل کاٹیں؟ اگر اوروں کو تم پر یہ اختیار ہے تو کیا ہمارا اِس سے زیادہ نہ ہو گا؟ لیکن ہم اِس اختیار کو عمل میں نہِیں لائے بل کہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ ہم یسوع مسیح کی انجیلِ مقدّس کے مزاحم ہوں۔ کیا تُم نہِیں جانتے؟ کہ جو ہیکل کا کام کرتے ہیں وہ ہیکل میں سے کھاتے ہیں۔ اور جو قربان گاہ کی خِدمت کرتے ہیں وہ قربان گاہ سے حصہ لیتے ہیں۔ اِسی طرح خُداوند نے بھی ٹھہرایا ہے کہ جو انجیلِ مقدّس سُناتے ہیں انجیلِ مقدّس ہی سے اسبابِ زِندگی پائیں۔ مگر مَیں اِن میں سے کُچھ عمل میں نہِیں لایا اور نہ اِس ارادے سے لِکھا ہے کہ میرے واسطے یُوں کِیا جائے۔ کیوںکہ میرا اِس سے مرنا ہی بہتر ہے کہ....! کوئی میرا فخر نہ کھوئے گا۔ اِس لیے کہ اگر مَیں انجیلِ مقدّس سُناﺅں تو میرا کچھ فخر نہِیں کیوںکہ یہ میرے لیے اَمرِ لازمی ہے۔ اور مجھ پر افسوس ہے اگر مَیں انجیلِ مقدّس نہ سُناﺅں۔ کیوںکہ اگر مَیں خوشی سے کروں تو میرا اجر ہے لیکن اگر مجبوری سے کروں تو مجھے ایک مختاری سونپی گئی ہے۔ پس تو میرا کیا اَجر ہے؟ یہ کہ جب مَیں انجیلِ مقدّس سُناﺅں تو مُفت انجیلِ مقدّس سُناﺅں تاکہ اُس اختیار کا بَد اِستعمال نہ کروں جو انجیلِ مقدّس کے سبب سے مجھے حاصل ہے۔
گو مَیں سب سے آزاد ہُوں۔ پھر بھی مَیں نے اپنے آپ کو سب کا غُلام بنایا ہے تاکہ مَیں بہتوں کو حاصل کر سکوں۔ مَیں یہودیوں کے درمیان یہودی کی طرح بنا تاکہ یہودیوں کو حاصل کر سکوں۔ اہلِ شریعت کے لیے مَیں اہلِ شریعت کی طرح بنا (گو مَیں شریعت کے تابع نہِیں) تاکہ اہلِ شریعت کو حاصل کر سکوں۔ بے شرعوں کے لیے مَیں بے شرع بنا (گو مَیں خُدا کی شریعت کے بغیر تھا بل کہ مسیح کی شریعت کے تابع تھا) تاکہ بے شرعوں کو حاصل کر سکوں۔ کمزوروں کے لیے کمزور بنا تاکہ کمزوروں کو حاصل کر سکوں۔ سب کے لیے سب کچھ بنا تاکہ ہر ممکن طور سے بعض کو بچا سکوں۔ مَیں یہ سب کچھ انجیل مقدّس کے واسطے کرتا ہُوں تاکہ مَیں اُس میں شریک ہُوں۔ کیا تم نہِیں جانتے؟ کہ میدان میں جب دوڑتے ہیں تو سب دوڑتے ہیں، مگر اِنعام ایک ہی پاتا ہے۔ پس تم ایسے دوڑو کہ تم ہی جیتو اور ہر ایک کُشتی گِیر سب چیزوں کا پرہیز رکھتا ہے۔ وہ اِس لیے یہ کرتے ہیں تاکہ کُملانے والا سہرا پائیں مگر ہم نہ کُملانے والے سہرے کے لیے۔ پس مَیں دوڑتا ہُوں مگر بے ٹھکانے نہِیں، مَیں گھُونسے لڑتا ہُوں مگر ہَوا کو مارنے والے کے مانند نہِیں بل کہ مَیں اپنے بدن کو مارتا پیٹتا اور اِسے قابُو میں لاتا ہُوں، ایسا نہ ہو کہ مَیں اوروں کو وعظ کر کے آپ نامقبول ٹھہروں۔
(27-1:9۔قرنیتوں1)
یہ تو معاملہ ہی دراصل خُداوند حضرت یسوع مسیح کے حضور بے حد عقیدت سے شکرانہ ادا کرنے اور خُداوند حضرت یسوع مسیح کی ہستی پر محبت نچھاور کر دینے کا ہے۔ جو نیک لوگ کنوارپن اختیار کرتے ہیں اُن کے اِس لائحہءعمل سے بندہ خُدا کے رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ مَن تُو شُدم تُو مَن شُدی والی بات ہو جاتی ہے۔ بندہ خُدا شناسی کی دولت سے مالامال ہو جاتا ہے اور پھر یوں سمجھیے کہ قطرہ سمُندر میں جا کے سمُندر بن جاتا ہے۔ مذہبی تجرد تو اظہاریہ ہے خُدا، خُداوند سے آس توکّل پورے تیقُّن اور بھروسے اور مان سے باندھنے کا۔ اور اُس کی بادشاہی میں جینے کے انتظار کا۔ب)دوسرا عظیم مقصد ہے انسانیت، مخلوقِ خُدا کی خدمت، اور وہ دوچند ہو جاتی ہے اگر سماجی بندھن پاﺅں کی بیڑی نہ بنے ہوں تو، جس قدر آزادی مُیسّرہو گی خلقِ خُداوند کی خدمت اُتنی آسان ہو گی اور انہماک میں استقلال نصیب ہو گا۔
ج)تیسرا متبرک مقصد ہے خُداوند حضرت یسوع مسیح کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انہی کی طرح کنوارے رہنا۔ پاک ماں مُقدّسہ مریم کی پیروی کرنا جنھیں مُقدّس رسولوں کے عقیدہ میں کنواری کہا گیا ہے۔ انہی مثالوں سے اُس تحریک کو جِلا مِلی اور مسیحی مرد وخواتین کو رغبت مِلی کہ وہ بھی مجرد طرزِ زِندگی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں، اِس میں خُداوند کا جلال ہے۔
۲۔پروٹسٹنٹ نکتہ عقیدہ
ازدواجی زِندگی کو ناکتخدائی والے طرزِ بُودوباش کے برابر ہی درجہ حاصل ہے اور کسی ایک طرزِ عمل کو دوسرے پر کوئی فوقیت حاصل نہِیں۔ انجیلِ مُقدّس کی تبلیغی خدمات کے لیے اپنے آپ کو کاملةً وقف کر دینے کی خاطر اگر تجرد کی کیفیات سے گذرنا پڑ جائے تو اُسے مفیدِ مطلب کہا جا سکتا ہے کیوںکہ تب اُسے خُدا کے حضور پہنچنے کی تیاری کے زُمرے میں شُمار کرنا ہو گا، تاہم مجرد پنا مذہبی پیشواﺅں اور تبلیغ کرنے والوں کے لیے لازم وملزوم ہرگز قرار نہِیں دِیا گیا۔ دوشیزگی، کنوارے رہنے کے لیے چند دِینی معاشرتی طبقات میں گنجایش نکالی بھی گئی ہے مگر ایسا قطعاً نہِیں کہ نارمل لائف میں واپسی ناممکن بنا دی گئی ہو۔ سرے سے ایسا کوئی تقاضا کِیا ہی نہِیں جاتا۔ بجا کہ تجرد پسندوں کے لیے خُداوند حضرت یسوع مسیح کی مثال موجود ہے مگر اُن کے اسوہ حسنہ کی اِس ایک مثال سے کہِیں ثابت نہِیں ہوتا کہ اِس سے کوئی بہُت بڑے فوائد حاصل کیے گئے۔ لیکن یہ بھی اپنی جگہ اَتّم ہے کہ پاک ماں مُقدّس مریم کے بارے میں یہ بات یوں نہِیں کہی جا سکتی۔ بائبل مُقدّس کے عُلُوم کے ماہرین اِس حقیقت کے قائل ہیں کہ پاک بی بی مریم نے تمام عمر ناکتخدائی میں ہی نہ گُزار دی اور خُداوند حضرت یسوع کے بعد بھی اُن سے اور اولاد پیدا ہوئی۔
کیا یہ وہ بڑھئی نہِیں؟.... ابنِ مریم۔ اور یعقوب اور یوسف اور یہودہ اور شمعون کا بھائی؟.... اور کیا اِس کی بہنیں ہمارے ہاں نہِیں؟ اور اُنھیں اُس کے سبب سے ٹھوکر لگی۔
(مُقدّس مرقس 3:6)
۴۔کیتھولک تاثُّرات
۱۔مسلمانوں کے اِس شبہ کے پیشِ نظر کہ کنوار پن کے پیچھے جو محرک جذبہ ہے وہ کچھ نہِیں، بس خُودغرضی ہی خُودغرضی ہے، خُود مطلبی۔ نہِیں، اس کا جواب دِیا جا سکتا ہے۔ تجرد کی جو طلب ہے وہ اُصُولی طور پر یہی ہے کہ اِس کے پیچھے جو محرک جذبہ ہے وہ کچھ نہِیں، بس انسانیت کی خدمت ہی خدمت کا جذبہ ہے کہ کام آئے دُنیا میں انسان کے انسان۔ اور اِس جذبے کو بُنیاد فراہم کرتا ہے فلاح وبہبودِ انسانیت کے لیے کام کرنے کا مصمم ارادہ۔ تاہم مجرد مردوں، ناکتخدا خواتین سے اُن کا وَچَن متقاضی ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کے لیے ہر دم مستعد نظر آئیں، اور اگر وقت ہی نہ نکال پائیں تو سب اُن کے جذبے، ارادے اپنا وُثُوق کھو بیٹھیں گے کیوںکہ پھر فرق ہی کیا رہ گیا شادی شُدہ اور کنوارے یا کنواری میں۔ بائبل مُقدّس کی پاک تعلیمات سے اگر طرزِ زِندگی مزین ہو تو تجرد کی زِندگی اختیار کر لینا جُوے شیر لانے کے مترادف کبھی بھی نہ سمجھا جائے گا۔ ایک خدمتگار مسیحی کا اندازِ زِندگی کہلائے گا۔
۲۔شادی کرنا اور پھر خاندان کی پرورش اور دیکھ بھال بے شک اِس لائق ہے کہ اُسے بھرپور توجُّہ دینا چاہیے، اِس کا حقِ اہمیت وافادیت سمجھا جائے۔ یہ امر دِینی واخلاقی فرائض میں شامل ہے، بالکل بجا۔ لیکن اِس حقیقت کا بھی تو ادراک کیجیے تجرد کی زِندگی سے گذرنا سہلِ ممتنع بھی نہِیں، اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو خُدا کے لیے وقف کر دینے والا عمل ہے اور مُکمّل وقف کر دینے والا عمل ہے۔ بس خُدا کا ہی ہو کے رہ جانے والی بات ہے۔ خُدا کے لیے سب کچھ تج دینے والا عمل ہے جسے ایک بار اختیار کر لیا گیا تو سمجھیے لائف سٹائل بن گیا، پھر واپسی محال۔ یہی عبادت ہے۔ ہر عمل دُعاﺅں میں ڈھل جاتا ہے، اپنی نہِیں دوسروں کی فکر پڑی رہتی ہے، اور یہ خُود غرضی اور خُود مطلبی نہِیں ایثار ہوتا ہے۔ قربانی ہوتی ہے، خُدا اور خُداوند کو راضی رکھنا ہوتا ہے اور خُداوند کو راضی رکھنا اِس لیے ضروری ہے کہ خُداوند ہی تو خُدا ہے۔ اِسی لیے خُداوند کے حضور مُکمّل سپردگی اور اُس کی بندگی کا اظہار اُس کے جلال میں ہے، جو نُمایاں ہے۔
۳۔جب یہ شائبہ پڑے کہ شاید محبت میں ناکامی اِس فیصلے پر منتج ہوئی ہو گی کہ اب کیا فائدہ، اب شادی کرنا ہی نہِیں، کنوارے ہی رہیں گے۔ بس یہیں پر ہی دُنیا ختم نہِیں ہو جاتی۔ انسان کے اِردگِرد شادیاں ہو رہی ہوتی ہیں، ہر طرف خوشیوں کی آتش بازی اور مسکراہٹوں کی پھلجھڑیاں پھُوٹ رہی ہوتی ہیں، ازدواجی زِندگی کی مسرّتیں اور برکتیں اپنی تمام تر خوبصورتیوں اور اچھائیوں کے ساتھ انسان کو ورغلا رہی ہوتی ہیں، اگر دُنیاوی لحاظ سے تجرد اختیار کِیا تھا تو واپسی کے سو بہانے۔ کرسچن فیملی میں شادیوں کی تیاری، چرچ کی تقریبات ورسومات، ساتھ نبھانے کی قسمیں، دُعائیں، تحفے تحائف، دعوتیں اور پھر اپنے ہی بھائی بہنوں کی آئیڈیل قسم کی شادیاں اور بہترین نباہ کے قصّے کنوارے رہنے کا ارادہ پاش پاش کرنے کے لیے کم نہِیں۔ مگر مذہب کے لیے، خُدا کی محبت، لوگوں کی خدمت کر کے ملنے والی طمانیت واپسی کی راہیں مسدود کر دیتی ہے اور انسان اِس اکیلے پن میں ایک دُنیا آباد کر لیتا ہے۔
۴۔تجرد کے رنگ میں رنگے جانے اور اِس رنگ کو اپنے اندر تک اُتارنے میں بڑی محنت اور جِدّوجُہد درکار ہوتی ہے اور اِسے نہ چِھپانا چاہیے، نہ مکرنا چاہیے کہ بہلاوے پھسلاوے، تحریصات وترغیبات سے بھی قدم قدم، پل پل پالا پڑا رہتا ہے۔ اور اہم بات یہ کہ ایسا بھی کوئی تاثُّر نہِیں دینا چاہیے کہ دِینی طور مجرد رہنے کی روش زِندگی میں آنے والے یا آئے ہوئے بحرانوں کے بہتے دریا کے سامنے کوئی بند باندھ دے گی۔ اپنے غم بھلا کے، دُکھ درد فراموش کر کے دوسروں کے غم، درد، دکھ سینے سے لگا لینا جان جوکھوں میں ڈالنے والی بات ہوتی ہے۔ اِس لیے دیکھا گیا ہے کہ بڑے بڑے مضبوط ارادوں والے لوگوں نے اِن راہوں پر چلنے کی ٹھانی، پاﺅں زخم زخم ہوئے اور پلٹ گئے.... واپس۔ کنوارپنے کی قسم نبھانا ہر کسی کے بس کی بات ہی نہِیں۔
یہ رُتبہ بُلند مِلا جس کو مِل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
۵۔جب موضوعِ زیرِمطالعہ کے بارے میں اُن سے سوال کِیا جائے تو کاہن، فادر صاحبان اور مسیحی راہبانہ زندگی کے دوسرے اراکین پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اِس راہبانہ طریقِ حیات کے ضمن میں تفصیلی گُفتگُو کریں اور بتائیں کہ خُدا کی اِس دعوت پر لبیک کہنے کے بعد وہ کِن کِن تجربات ومشاہدات سے گذرے، اپنے جذبہ الفت وتکریم اور خُلُوصِ دِل کی پہنائیوں میں مسلسل گہرائی اور اضافے کے بارے میں جو صداقت ہے وہ سامنے لائیں، نیز اپنی اِس انمٹ تمنّا کو بھی سوال کرنے والوں کے ساتھ شیئر کریں تاکہ اُنھیں پتا چلے کہ آپ پکّے پیروکار ہیں، مومن مسیحی ہیں، اِسی لیے مُقدّس کنواری ماں مریم اور تقدُّس کے تاج والے بیٹے خُداوند حضرت
ازدواجی زندگی اختیار کرنے کی دعوت
1۔ مُسلم زاویہء نِگاہ
شادی کے بارے میں مُسلمان بتاتے ہیں کہ مرد اور عورت کے مابین یہ ایک ایسے رِشتے کی اُستواری کا عمل ہے جِسے تخلیقِ کائنات کی عِلّتِ غائی میں اہم الٰہی مقام حاصل ہے:
''اللہ نے تمھارے لیے تم میں سے ہی تمھاری بیویاں پیدا کیں اور تمھاری بیویوں سے تمھارے لیے تمھارے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور تمھیں اچھّی اچھّی چیزیں کھانے کو دیں۔ کیا پِھر بھی لوگ باطل پر ایمان لائیں گے؟ اور اللہ کی نعمتوں کی ناشُکری کریں گے؟''
(القرآن72:16ویں آیت)
خُدا کی خلق کردہ بے شمار چیزوں میں مطلُوب و پسندیدہ چیز ہے شادی، اور شادی کے نتیجہ میں پھیلتا ہُوا کُنبہ۔
شادی قُدرت کی طرف سے بندوبست ہے جس سے جِنسی کشِش (شہوانیت) زور پکڑتی ہے جِس کا ثمر افزایشِ نسلِ انسانی ہے۔ مسیحیت اور اسلام، دونوں مذہب میں نہ تو شادی سے پہلے جِنسی اختلاط کی اجازت دی گئی ہے اور نہ شادی کے بعد خاوند بیوی کو ایک دُوسرے سے دھوکا، بددیانتی اور امانت میں خیانت کی چھُوٹ دی گئی۔ اسلام بھی مسیحیت کی طرح مظہرِ شہوانیت کو شادی کی حدود میں پابند کر دیتا ہے۔ وظیفہء زوجیت کو میاں بیوی کے درمیان ازدواجی زندگی کا لاحقہ بنا دینے سے وہ جِسے جرمن زبان میں کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ لیبیز گیمائِین شافٹ۔۔۔۔۔۔ اس کے سبب ایک خاندا، قبیلے، گھرانے کی بِنا پڑتی چلی جاتی ہے۔ اور ایک برادری پھلتی پھُولتی مضبُوط و توانا ہوتی ہے کیتھولک مسیحی کلیسیا تو مباشرت سے پرہیز اور بیاہ نہ کرنے کے عہد کے تحت ناکتخدائی اور تجرُّد کی زندگی کو قدر کی نِگاہ سے دیکھتی ہے مگر اسلام واضح طور پر شادی شُدہ زندگی کو ترجیح دیتا ہے:
''تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں اُن کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غُلام لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مُفلس بھی ہوں گے تو اللہ اُنھیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کُشادگی والا اور علم والا ہے''۔
(القرآن۔ سورۃ32:24ویں آیت)
قرآن میںمیاں بیوی کے حُقُوق و فرائض میں برابری کی سطح پر عدل و انصاف کی تاکید آئی ہے۔ تخلیق کی ذِمّہ داری جس کے لیے جرمن لفظ خاص ہے۔۔۔۔۔۔ شٹٹ ہالٹیرشافٹ۔۔۔۔۔۔ اسے نبھانا دونوں کی ذِمّہ داری قرار دیا گیا ہے نہ کہ محض مرد کی۔ مہر و محبّت اِس مُبارک رِشتے کی پہچان ہے۔
''اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمھاری ہی جِنس سے بیویاں پیدا کیں تا کہ تم ان سے آرام پاؤ اُس نے تمھارے درمیان محبّت اور ہمدردی قائم کر دی، یقینا غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس میں بہُت سی نشانیاں ہیں''۔
(القرآن21:30)
خاوند بیوی ایک دُوسرے کے بِنا ادُھورے ہیں، مِل جائیں تو تکمیل ہوتی ہے۔ شوہر بیوی ایک دُوسرے کا لباس ہیں، بیوی شوہر کا، شوہر بیوی کے لیے۔
''روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے مِلنا تمھارے لیے حلال کِیا گیا، وہ تمھارا لباس ہیں اور تُم اُن کے لباس ہو،تمھاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ کو علم ہے، اُس نے تمھاری توبہ قُبُول فرما کر تم سے درگذر فرما لیا، اب تمھیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی چیز کو تلاش کرنے کی اجازت ہے، تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے۔ پِھر رات تک روزے کو پُورا کرو اور عورتوں سے اُس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجد میں اعتکاف میں ہو۔ یہ اللہ کی حدود ہیں، تم ان کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں لوگوں کے لیے بیان فرماتا ہے تا کہ وہ بچیں''۔
(القرآن۔۔۔۔۔۔سورۃ2، آیت187)
اِس کے باوُجُود قرآن پاک میں بعض احکامِ خُداوندی ایسے بھی ہیں جن کے ذریعے خاوند کو شریکہء حیات پر ایک طرح کی سرفرازی عطا کی گئی ہے۔ وُہ ایک درجہ اُوپر نظر آتا ہے:
''طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں، اُنھیں حلال نہیں کہ اللہ نے اُن کے رحم میں جو پیدا کِیا ہو اُسے چِھپائیں، اگر اُنھیں اللہ پر اور قیامت کے دِن پر ایمان ہو، اُن کے خاوند اس مُدّت میں اُنھیں لوٹا لینے کے پُورے حقدار ہیں اگر اُن کا اِرادہ اصلاح کا ہو۔ اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے اُن پر مردوں کے ہیں اچھّائی کے ساتھ۔ ہاں مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمت والا ہے''۔
(القرآن۔۔۔۔۔۔228:2)
اور مرد کو بیوی پر اختیار حاصل ہے اور کفالت اور عورت کے دیگر حُقُوق ادا کرنے کا ذِمّہ دار ہے وہ۔
''مرد عورتوں پر حاکم ہیں اِس وجہ سے کہ اللہ نے ایک کو دُوسرے پر فضیلت دی ہے اور اِس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں، پس نیک تابع فرماں عورتیں خاوند کی عدم موجُودگی میں بہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جِن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمھیں خوف ہو اُنھیں نصیحت کرو اور اُنھیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور اُنھیں مار کی سزا دو پِھر اگر وہ تابعداری کریں تو اُن پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بُلندی اور بڑائی والا ہے''۔
(القرآن۔۔۔۔۔۔34:4)
(اگر عورت اصلاح کر لے تو پِھر راستہ تلاش نہ کرو یعنی معمولی مار پِیٹ بھی نہ کرو، نہ تنگ کرو، نہ طلاق دو۔ طلاق بالکُل آخری مرحلہ ہے۔ یعنی پند و نصیحت، عارضی علیحدگی، وحشیانہ تشدُّد نہیں، ہلکی سی مار آزما چکنے کے بعد)۔
جب تک شوہرِ نامدار صاحب بیوی بچّوں کے حُقُوق پُورے کرتے ہیں اور اپنی ذِمّہ داریوں کو بہ حُسن و خُوبی نِبھاتے ہیں اُنھیں بیویوں پر مناسب ترجیح دی جاتی رہے گی اور اسلامی مُعاشرت میں مقام بھی زوجہ محترمہ سے بہتر ہی ودیعت ہو گا۔ شریکِ حیات کو حق مہر ادا کرنا ہو گا۔ نہ کام کا نہ کاج کا، دُشمن اناج کا بن کر رہتا مرد تو اچھّا نہیں نا لگتا۔ نکھٹُّو مرد اپنی توقیر کھو دیتے ہیں۔ بال بچّوں، گھر والی کے نان نفقہ، کپڑا لتّا ایسی ضروریات پوری کرنا ہیں، چوکی چُولھا، نون تیل، ہلدی مرچ، دال سبزی کا خرچہ بھی روز چاہیے، سر پر چھت کا بندوبست اور بچّوں کی صِحّت، تعلیم، یونی فارم، کتابیں فیسوں کے اخراجات اسی نے پُورے کرنے ہیں جِس نے بُور کے لڈُّو کھائے اور کھلائے۔ شادی کے لڈُّوؤں کے لیے تو بُور کا نام تکلفاً لیا جاتا ہے ورنہ تو پتھروں اور لوہے کے بنے ہوتے ہیں جنھیں چبانے کے لیے آج کے دور میں اچھّی بیبیوں کو بھی اپنے صاحب کا ساتھ دینا پڑتا ہے تا کہ گھر گرھستی، شادی و غمی، آئے گئے کی خدمت مہمانداری اس منہگائی کے دور میں کِسی نہ کِسی طور نِبھتی رہے کم از کم۔ یہ تو ہو گیا، چلیے مان لیا ایسا ہی ہُوا۔ پِھر بھی گھر والوں کے مفادات کو ہمیشہ پیش پیش رکھنا اور ان کے جان مال عِزّت و آبرُو کو تحفُّظ فراہم کرنا بھی تو گھر والے کی ہی ذِمّہ داری ہے، کیوں کہ خصم کا مرتبہ اینویں ای نہیں مِل جاتا۔
خاندان اور بطور گھرانے کے سربراہ کے بچّوں کا باپ، اگر گریڈ اچھّا ہو یا کاروبار سے آمدنی معقُول تو خاتُونِ خانہ کا سرتاج، بس گُزارا ہو رہا ہو تو سِر دا سائیں، کراےے کے مکان میں ہو تو جی خوش رکھنے کے لیے گھر والی کا گھر والا کہلانے والا فوقیت کے ساتھ ذِمّہ دار ٹھہرایا جاتا ہے کہ ''ہوم منسٹری'' کا فنانس منسٹر بس وہی ہے۔ اکیلا بہُت سارے صوبوں کا وزیرِ خزانہ! اسی نے مُعاشرے میں اپنے ''خوشحال کُنبے'' کے ٹَوہر بنانے ہیں، اچھّی بات تو نہیں مگر شریکوں سے اِٹ کھڑکّا، مقابلہ بازی اپنی جگہ، ان کا مُنہ لال دیکھ کے اپنے بھی رُخسار چپیڑوں سے لال کر لینے ہیں۔ اور ہاں! باہر کے حالات سے جی داری سے نمٹنے کی ذِمّہ داری بھی اُسی کی ہے۔ جب کہ خانہ داری اور بچّوں کی نگہداشت و پرداخت کے اندرونی محاذ پر بیوی صاحبہ کو ''مردانہ وار'' مورچا سنبھالے رکھنا ہوتاہے۔ اِسی لیے فوقیت کا پلڑا ہر گھر میں انھیں محترمہ والا ہی جھُکا دِکھائی دیتا ہے۔ میاں بیوی کے فرائض ایک جیسے تو نہیں ہیں بل کہ قطعاً ایک سے نہیں ہیں۔ مرد بچّہ تو نہیں جَن سکتا نا۔ بس، جِس کا کام اُسی کو ساجھے۔ دونوں ہی اپنی اپنی فیلڈ کے چیمپیئن ہیں۔
اسلام خواتین و حضرات کے ایک دُوسرے کے شانہ بشانہ کام کرنے کے کُچھ زیادہ حق میں نہیں۔ کُچھ قدغنیں لگاتا ہے۔ سب کی مخلُوط موجُودگی چند احتیاطوں اور بعض شرائطِ شرعی کے تحت قُبُول بھی کی جا سکتی ہے۔ خواتین کو شرعی قواعد کا پاس اور مردوں کو خواتین کے احترام کے ساتھ ساتھ بھری پُری شرافت کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوڑنا ہو گا۔ ایساہو جائے تو، اجازت ہے۔
ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو اپنے گھر کی چار دیواری میں خاصی آزادی میسّر ہوتی ہے۔ افرادِ خانہ یعنی محرموں کے سامنے اور خواتین خواتین کے اکٹھ میں ہوں تو اس چڑیوں کے چنبے پر بہُت سی پابندیاں بھی نرم کر دی جاتی ہیں ورنہ تو غیر محرموں کے سامنے نِگاہیں جُھکی جُھکی رکھنا پڑتی ہیں۔ اجنبی مردوںسے گُفتگُو کرنا ہو تو آواز کی ملائمت غائب کرنا پڑتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
''مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نِگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں۔ اور اپنی زِینت کو ظاہر نہ کریں، سواے اس کے جو ظاہر ہے۔ اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیںاور اپنی آرایش کو کِسی کے سامنے ظاہر نہ کریں، سواے اپنے خاوندوں کے، یا اپنے والد کے، یا اپنے خُسر کے، یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے، یا اپنے بھائیوں کے، یا اپنے بھتیجوں کے، یا اپنے بھانجوں کے، یا اپنے میل جول کی عورتوں کے، یا غُلاموں کے، یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں، یا ایسے بچّوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں۔ اور اِس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ اُن کی پوشیدہ زینت معلُوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تا کہ تم نجات پاؤ''۔
(القرآن31:24)
چُناں چہ وضاحت ہُوئی کہ دِینِ اسلام میں پردے کے جو روایتی آداب ہیںا ور روزمرّہ کی زندگی میں جس طرح کی عِفّت مآبی کا بھرم رکھنا پڑتا ہے، شرم و حیا، حجاب و غیرت کا جو مظاہرہ کرنا پڑتا ہے یہ مرد و عورت کے مقام میں امتیاز برتنے، تفریق روا رکھنے کے لیے نہیں بل کہ خواتین کو تحفُّظ فراہم کرنے کے لیے ہے اور اس میں انھی کا بھلا ہے۔
خاوند کے لیے بھی ضروری ہے کہ ضبطِ نفس سے کام لے اور نیک چلنی پر قائم رہے۔
''مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نِگاہیں نیچی رکھّیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی اُن کے لیے پاکیزگی ہے، لوگ جو کُچھ کریں اللہ سب سے خبردار ہے''۔
(القرآن۔۔۔۔۔۔24ویں سورۃ،آیت30)
چُناں چہ قرآن اپنا فیصلہ سُناتا ہے کہ میاں بیوی دونوں برابر ہیں۔ اُنھیں جو رول تفویض کِیا گیا ہے ایمانداری کے ساتھ ادا کریں۔ جو بھی خاص اُمُور ان کے ذِمّہ ہیں، انھیں پُورا کریں۔ اور جس حکمتِ الٰہی کے تحت ان کی بِساط مُطابِق جو بوجھ ان پر لادا گیا ہے اُسے اُٹھانے کی بے چُون و چرا ہِمّت کریں۔ خُدا کو معلُوم ہے انسان اُتنا ہی کر سکتا ہے جتنا اس کے بس میں کر دیاگیا ہے۔ اللہ کے حُکم سے سرتابی جان بُوجھ کر کوئی نہیں کرنا چاہتا، بس انسان ہے ہی خطا کا پُتلا۔ ہر چُوک کے لیے کوئی نہ کوئی عُذر، بہانہ، مجبوری گھڑ لیتا ہے، سہواً بھی روز کے اعمال میں سے کوئی نہ کوئی عمل چھُوٹ ہی جاتا ہے۔ سلسلہ وار تبدیلیوں کے ذریعے بتدریج تاریخی فروغ اور رِیت روایات رواجوں سے لِتھڑی اس مُعاشرت میں عورت بے چاری اعانت، خدمت اور طاعت جوگی ہی رہ گئی تھی مگر جدید دور میں اس کی حیثیّت ثانوی ہرگز نہیں، مرد عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیّے ہیں، برابر، توانا اور مضبُوط تر۔
مُتّحدہ خاندانوں کا مُعاشرہ جو خاندان کے مردِ بزُرگ کے ما تحت ہو مغربی تہذیب بھی اس سے ناآشنا نہیں۔ مشرقی و مغربی تمدُّن کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی اپنی اپنی ثقافتی، مُعاشرتی، مذہبی اقدار کو ایک دُوسرے میں خلط ملط کر کے نہیں دیکھنا چاہیے۔ اس گَڈ مَڈی سے اُلجھاو پیدا ہوں گے، سُلجھاو نہیں۔ حال آں کہ دونوں کئی لحاظ سے ایک دُوسرے کے لیے حوالہ بھی بنتے رہتے ہیں۔
IIمسیحی نقطہء نظر
الف ۔شادی سبھاو
وُہ جو کہتے ہیں جوڑے آسمان پر بنتے ہیں، سچ یُوں ہے کہ خُدا قدرت والے نے ہی عورت مرد کی جوڑی طے کر دی ہوتی ہے، انھیں ایک دُوسرے کا شریکِ حیات مُقرّر کر دیا ہوتا ہے۔ خُدا خالق کی تخلیق یہ انسان ذاتِ باری ہی کا عکسِ جمیل ہے۔ اور مرد و زن کو ایک دُوسرے کی زندگانی کا وفادار ساتھی بنا کر انسان پر احسانِ عظیم کِیاگیا ہے تا کہ وُہ ایک دُوسرے کے کام آئیں اور ایک دُوسرے کا ساتھ نبھائیں، ایک دُوسرے سے مُخلص رہیں اور ہمدرد و غمخوار ثابت ہوں۔ خُداوند پاک کی عطا کی ہوئی یہ سُوجھ بُوجھ شادی کے بارے میں مطلُوبہ صحیح عقل و سمجھ پیدا کرتی ہے اور شوہر بیوی کو حالات و معمُولات اور نِبھا کے تقاضوں سے عُہدہ برآ ہونے کی صلاحیت نوازتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی ہے کہ مبالغے سے پاک یہ معقُول لفظ معاہدہ یا قول و قرار یعنی زوجیّت کا قانُونی معاہدہ اِس امر کی دلالت کرتا ہے کہ ایک سمجھوتے کے تحت میاں بیوی کے مابین ذاتی نسبت تعلُّق سے رِشتہ داری قائم ہو گئی ہے، زندگانی ایک اکائی کے تحت آگئی ہے اور شوہر اور بیوی کی تقدیر مشترک ہو گئی ہے جِس کی جڑیں مذہب میں پیوست ہیں اور مذہب ہی ان کا ملجا و ماویٰ، مُراد، آسرا و سہارا ہے۔
کیتھولک مسیحی کلیسیا کی تعلیمات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ اس میں یوں درج ہے کہ شادی۔۔۔۔۔۔
ساکرامینٹ۔۔۔۔۔۔ مُقدّس رسُوم کا مجمُوعہ ہے۔ یہ نسلِ انسانی کے ساتھ مُقدّس خُداوند خُدا کے میثاق کی روشن دلیل ہے۔ دُولھا دُلھن پر واجب ہے کہ وُہ اِس الٰہی علامتِ معاہدہ کو ہمیشہ زندہ، توانا اور قائم رکھیں۔ ایساکرنا بالکل یُوں ہے جیسے انسانی مخلُوق کے لیے خُدا کرم کرنے والے، رحم کرنے والے، محبّت کرنے والے کی کبھی نہ ختم ہونے والی محبّت کو کُل عالَم پر عیاں کر دیا ہو بل کہ ایسے جیسے مُقدّس خُدا باپ نے اپنی پاک محبّت کی مُقدّس بیٹے خُداوند یسُّوع مسیح کے توسّط سے تمام انسانوں پر برکھا برسا دی۔ چُناں چہ شادی سے یہی مقصُود ہے کہ خُدا شان والے نے زوجین کوجو محبّت کی نعمت سے نوازا ہے اس سے دونوں سرشار ہوں، اورشادی کے اس مُبارک ساکرامینٹ کی پاک خُداوند یسُّوع مسیح کی تمجید کے ساتھ قدر کریں اور برکتیں پائیں اور بدلے میں محبّت و اپنائیت اور صلہ رحمی کو اپنے اردگرد آباد قومیتوں اور برادریوں تک پھیلانے کا فرض نِبھائیں۔
مسیحیوں میں صِرف باضابطہ طور پر انجام دی گئی شادی ہی کیتھولک چرچ کی نِگاہ میں مُقدّس ساکرامینٹ کے طور پر قُبُول کی جاتی ہے۔ شادی کے اس دستُور کو کلیسیا کی تکریم حاصل ہے اور وُہ تحفُّظ فراہم کرتی ہے ان تمام شادیوں کو جو مسیحیوں کے درمیان اور غیر مسیحیوں کے میان یا ان دونوں مذاہب کے لوگوں میں وقُوع پذیر ہوتی ہیں اور کلیسیا اِس بات کا بھی بُرا نہیں مناتی کہ آیا یہ رستہ عین مذہبی اُصُول و قواعد کے تحت انجام پایا یا سیکولر طریق پر یا قبیلے، برادری، گوت کے اپنے مخصُوص رسُوم و رواج کے تحت قرار پایا، کیوں کہ شادی کی تاریخ پکّی ہونا، خانہ آبادی کا بندھن بندھنا اور اس میں خُوش بختی کا عمل دخل مضبُوط ہونا۔۔۔۔۔۔ یہ سب انسان کی بِساط میں ہے نہ ہی کلیسیا کی صوابدید پر اس کا انحصار ہے۔ یہ تو خالص اَمرِ رَبّی ہے۔ جو ہوتا ہے اُس کی منشا، اس کی قدرت اور اُسی کے حُکم سے ہوتا ہے۔ اُسی کے حُکم سے جِس کے حُکم کے بغیر پتّا بھی نہیں ہِلتا۔
اسلام کے پیروکاروں کے مابین جب یہ رِشتہ اُستوار ہوتا ہے تو اسلامی شریعت کے تقاضے پُورے کیے جاتے ہیں۔ اسے مُقدّس ساکرامینٹ تو نہیں قرار دِیا جا سکتا مگر یہ ضرُور ہے کہ کلیسیا اس کی نفی بھی نہیں کرتی۔ زندگی بھر کے اس میل کی توثیق کرتی ہے، بجا طور اس کا احترام کرتی ہے۔ اسی طرح ایک مُسلم مرد یا خاتُون کی شادی جب کِسی مسیحی مرد یا خاتُون کے ساتھ طے پاتی ہے تو وُہ بھی مُقدّس ساکرامینٹ کے درجہ سے باہر ہوتی ہے۔ (ہاں، اگر مُسلم فریق مسیحیت اختیار کر لے تو اس شادی کو مُقدّس رسُومات کے ذیل میں لیا جا سکتا ہے، تب وُہ بھی متبرّک ہو جائے گی۔ پُورے طور۔ کلیسیا کا تحفُّظ اور اُس کی شُبھ کامنائیں ایسی شادیوں کے شاملِ حال ہو جاتی ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے، تحسین کے ساتھ، کلیسیا انھیں کُلیۃً جائز قرار دیتی ہے۔ اور جہاں تک مطلُوبہ اور کِسی حد تک ناگُزیر اجازت کا تعلُّق ہے، یہاں جِس صُورت کا سامنا ہے وُہ ایسی ہے کہ قابلِ استثنیٰ قرار دی جا سکے۔ ممانعت بوجہ نسبت قانونی سے، مانع ازدواج شِق سے، اور مخلُوط مذہب کی وجہ سے ممانعت اثر پذیر ہونے سے مستثنیٰ۔
ب۔بیاہ کے خواص
کیتھولک کلیسیا کے نزدیک شادی بیاہ اپنا اپنا انتہائی ذاتی، جیون بھر ساتھ دینے کے اِرادے، عہد اور عمل کا نام ہے، جس کے تحت اس سے مِلتے جُلتے تعلُّق قائم کیے گئے، واسطے سب ماضی کی بھُول بنا دیے جاتے ہیں، سب ختم، بشمُول ان کے جو بس سرزدہو گئے جنسیاتی فعل تھے۔۔۔۔۔۔ گُناہِ بے لذّت۔ مگر لذّت ہو یا بے لذّتی، گُناہ تو گُناہ ہے۔ فردِ جُرم تو ہو گئی نا عائد، روزِ عدالت سزابھی برابر بولی جائے گی۔ جو بولی جائے گی وُہ بھُگتنا بھی ہوگی۔
یہ جو ایک دُوسرے کا شریکِ حیات بننے کا عمل ہے اس کی بُنیاد بس جوڑے کے دِل و دماغ کے فیصلے پر ہی اُٹھنا کافی نہیں۔ یہ تو رُوح و جسم کا مِلاپ ہے جسے تقویت اور اُٹھان پاک خُداوند یسُّوع مسیح کی مُقدّس آشیرباد سے مِلتی ہے۔ رُوحُ القُدُس کے دَم سے برکتیں ہی برکتیں مُقدّر بنتی ہیں۔۔۔۔۔۔ تب شادی، خانہ آبادی بنتی ہے!
شادی ناقابلِ تحلیل ہوتی ہے، ہم آہنگی و اِتّحاد اس کا وصف ہے
ہر دو فریق ایک دُوسرے کے مُخلص ساتھی ہیں، شریکِ حیات، زندگی کے سرد و گرم، اس کی دُھوپ چھاؤں، اس کی خُوشیوں غمیوں کا سامنا کرنے میں ایک دُوسرے کے پارٹنر ہیں۔بائبل مُقدّس کے عہدِ عتیق کے شُرُوع شُرُوع کے بابِ تکوین میں بیان ہوا ہے: انسان کی پیدایش:
''اور خُدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صُورت پر اپنے مانند بنائیں۔ اور وُہ سمُندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور چوپائیوں اورکُل رُوے زمین اور سب کِیڑے مکوڑوں پر جو زمین پر رِینگتے ہیں حُکُومت کرے۔
اور خُدا نے انسان کو اپنی صُورت پر پیدا کِیا، خُدا کی صُورت پر اُس نے اُس کو پیدا کِیا، نَر و ناری ان کو پیدا کِیا۔ اور خُدا نے انھیں برکت دی اور کہا کہ پھَلو اور بڑھو اور زمین کو معمُور و محکُوم کرو۔ اور سمُندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور سب زندہ مخلُوقات پر جو زمین پر چلتی ہیں۔ حُکُومت کرو''۔
تکوین۔۔۔۔۔۔26:1تا28
(کلیسیائی علما کی راے کے مُطابِق ''خُدا کی صُورت'' خاص رُوح میں ہوتی ہے کیوں کہ وُہ غیر فانی ہے اور اس میں سمجھ اور آزاد مرضی پائی جاتی ہے)۔
پیدایش کے باب میں دُوسری جگہ مرد اور عورت کے جوڑا جوڑا تخلیق کرنے کی بابت تاکید و تشریح سے کہا گیا تا کہ اِبہام نہ رہے: عورت کی پیدایش:
''اور خُداوند خُدا نے کہاکہ انسان کا اکیلا رہنا اچھّا نہیں۔ ہم اُس کے لیے ایک مددگار اُس کے مانند بنائیں''۔
تکوین۔۔۔۔۔۔18:2
مزید فرمایا:
''اِس واسطے مرد اپنے باپ اور اپنی ماں کو چھوڑے گا۔ اور اپنی بیوی سے مِلا رہے گا۔ اور وُہ دونوں ایک تن ہوں گے''۔
تکوین۔۔۔۔۔۔24:2
(اِس لیے خُداوند یسُّوع پاک نکاح کو نامُمکنُ التّفریق ثابت کرتا ہے)۔
پاک خُداوند یسُّوع مسیح نے انجیلِ مُقدّس۔۔۔۔۔۔ کلامِ مُقدّس کے عہدِ جدید میں تصدیق کی ہے کہ خُدا نے خُود شادی کے نظم و نظام کو تشکیل دِیا:
''۔۔۔۔۔۔لیکن تکوین کی اِبتدا سے خُدا نے اُنھیں نر و ناری بنایا۔ اِس واسطے مرد اپنے باپ اور اپنی ماں کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے مِلا رہے گا۔ اور وُہ دونوں ایک تن ہوں گے''۔
مُقدّس مرقّس۔۔۔۔۔۔6:10تا8
یہ لُبِّ لُباب ہے کیتھولک مسیحی کلیسیا میں اُصُول و عقیدہ کی مذہبی تعلیم کا جِس کی رُو سے شادی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ اِن مقاصدکو ٹارگٹ کرتی ہے:
٭ دُولھا دُلھن کے مفادات۔۔۔۔۔۔ انفرادی و اجتماعی
اور
٭بچّوں کی نگہداشت و پرداخت(انھیں پالنا پوسنا)
اور افزایشِ نسلِ انسانی
مسیحی فکر کے مُطابِق ایک طرف تو شادی۔۔۔۔۔۔
٭ایک قانُونی اقرار و معاہدہ ہے۔
مطلب یہ کہ قدرت کے اِس میل کو قانُون کی سرپرستی حاصل ہے۔ مسیحی شریعت و حُکُومتِ وقت اس تعلقداری کو تحفُّظ فراہم کرتی ہے۔ دُولھا اور دُلھنیا کے مُثبت اقرارِ واثق کو اہم دستاویز مانا گیاہے۔
اِس معاہدے کا ایک اور رُخ بھی ہے۔۔۔۔۔۔
٭ اس عہد وپیمان کی قانُونی تعریف یُوں ہے کہ شادی ایک مُقدّس عہد ہے، سمجھوتا ہے جو طے پاتا ہے فریقین کی رضامندی کے اعلان سے کہ وُہ ایک دُوسرے کو بطور شریکِ زندگی قُبُول کرتے ہیں اور دونوں ہمیشہ ایک تن رہیں گے۔
اور ہاں، یہ دو کا ایک ہونا کیاہے؟ یُونٹی سے کیا مُراد ہے؟ ہم بتاتے ہیں۔ یہ مُطابقتِ راے میں، اِتّفاق و یگانگت میں، موافقت میں ایک ہونا ہوتاہے حتّٰی کہ وُہ کیفیت طاری ہوجائے کہ۔۔۔۔۔۔
تُو من شُدی، مَن تُو شُدُم ، مَن تن شُدُم تُو جاں شُدِی
تا کس نگوید بعد زاں ، من دِیگرم ، تُو دیگری
یہ جناب فارسی ہے۔ فارسی، یعنی اردو کا میکا دُولھے بادشاہوں کو دُلھن کے میکے والوں کے بارے میں اکثر تحفُّظات ہوتے ہیں۔ ظاہرہے جو دوست فارسی داں نہیں ہیں، اُنھیں شعر میں جو بات کہی گئی ہے سمجھ تو آگئی ہو گی مگر دُلھن کے میکے والے حوالے سے، ہاں، ہُوں، لیکن، پر کر رہے ہوں گے۔ چُناں چہ پنجابی کُوزے میں جو دریا بند ہے، اُسے ہَوَالگوائے دیتے ہیں تاکہ کوئی عُذر نہ بچے اور ابلاغِ عام ہو جائے۔ عرض کِیا ہے:
رانجھا رانجھا کردی نی مَیں آپے رانجھا ہوئی
اِسے کہتے ہیں یک تن ہونا۔
نر اور ناری کے درمیان ایک مضبُوط شرعی، سماجی رِشتہ قائم ہوتے ہی دونوں ایک دُوسرے کے لیے لازم و ملزُوم ہو جاتے ہیں۔ شادی ریشم کی مُعاشرتی گانٹھ ثابت ہوتی ہے۔ دیگر قبیل کی شادیاں جوبالرضا، بالاجازت والی فہرست میں آتی ہیں یا آگے چل کر ایسی صُورت پیدا ہو جائے کہ دونوں وفادار شوہر بیوی میں سے کِسی ایک کی عُمر وفا نہ کرے تو جِسے موت نے مُہلت دے رکّھی ہو اُس کے لیے مذہبی ضابطوں میں استثنیٰ کی گُنجایش موجُود ہے، وُہ نیا بیاہ رچا سکتا ہے۔ ہاں، یہ البتّہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی وقت میں میاں کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں یا بیوی کے ایک سے زیادہ شوہر۔
اب ہم جائزہ لیتے ہیں عمیق یعنی اتھاہ تعلُّقات کا۔ وُہ جو سمُندروں سے گہرے اور پہاڑوں سے بُلندتر ہوتے ہیں، نامُمکنُ التّفریق سے۔ ایسا کوئی امکان نہیں کہ میاں، بیوی۔۔۔۔۔۔ فریقین یا ان میں سے کوئی ایک، ازدواجی رِشتے میں بندھے ہونے کے باوُجُود یعنی جِن کی شادی انجام پائی اور خلوتِ صحیحہ کے ذریعے شادی کی تکمیل ہوئی اور شادی کو دُرُست و مؤثِّر یعنی جائز قرار بھی دِیا جا چُکا، کلیسیا نے اس کی توثیق کر دی پِھر بھی اِس رِشتے کو توڑا جا سکے، ختم کِیا جا سکے اور کہِیں اور نئی شادی کے نئے تانے بانے بُنے جانے لگیں کہ ایک طرف سے تو آزاد ہو گئے چُناں چہ نئی نویلی و نویکلی دُلھن یا پِھر کِسی زیرو میٹر دُولھا سے شادی کے ارمان پُورے کرنے کے لیے میاں لڈُّوؤں کے تھال پر تھال پِھر سے تیّار کروانا چاہے یا بیوی کے من کے لڈُّو پھُوٹنے کو بے قراری پر اُتر آئیں، پُرانے گھر میں نئی دُلھنیاکے منہدی جھانجروں والے پاؤں پہنچتے دیکھنے کی حسرت، یا نئے پِیاکے لیے سجی ڈولی میں جھَپ سے جا بیٹھنے کی تمنّا یُوں تو پُوری ہونے سے رہی۔ بھرے گرجا میں پہلی شادی کی مُبارک تقریب منعقد ہوئی تھی، شبِ زفاف منائی گئی اور اب نئے ساتھی کا انتظار!!! چہ بُوالعجبیست! پہلا بندھن کچّا کر کے بل کہ توڑ کے دُوسری سے گھر کی رونق بڑھانے کی چاہ یا جِنسِ مخالف کا یہ خواب کہ وُہ اب کِسی اور کا گھر جا آباد کرے، مسیحیت میں رہتے ہوئے تو ایساہر گز نہیں ہو سکتا۔ جو ہوئی تھی وہ کوئی گُڈّے گُڑیا کی شادی تو نہ تھی۔ دو انسانوں میں ایک مُقدّس معاہدہ طے پایا تھا۔ اسے داخلی وُجُوہ مثلاً ساس، نند، بہُو، دیورانی جٹھانی کی کِل کِل، جھگڑے، طعنے مِہنے، تُو تُو مَیں مَیں، میاں بیوی کی آپس کی کِچ کِچ اور شکوے شکایتوں، لڑائیوں کا بہانہ بنا کر توڑے جانے کی اجازت ہے اور نہ خارجی کِسی دباو، تحکّم، دھمکی کے تحت بغیر کِسی مصالحتی حل تک پہنچنے کا تردُّد کیے، شادی بچانے کے جتن کیے، میرا وُہ راستہ تیری وُہ راہ کہہ کر قصّہ پاک کِیا جا سکتا ہے۔
شادی والی پکّی، چِیڑھی گانٹھ، بس موت ہی کھول سکتی ہے۔ ظالم موت!!
(اس آرٹیکل کے لیے کاتھولش / اسلامیشے این: آئینے ہانڈرائیخُونگ۔ ہاایرایس گے۔ ایرٹس یِشوئیظیشیس گینیرال وِیکاری ایٹ کوئِلن، ہاؤپ ٹاب ٹائِیلُونگ زیل سورگے۔ ایڈیٹر: ریفیرات فیورا انٹر ریلی گی اوئے سے ڈائیالوگ،2000ع، صفحات11تا 14اور35تا39سے استفادہ کِیا گیا۔)
۱۔مُسلمانوں نے پُوچھا
٭مسیحی مبلغین اور راہبانہ جماعت کے لوگ شادی کیوں نہِیں کرتے۔
۲۔مُسلم تاثُّرات ونظریات
سطحی مُطالعہ
۱۔اسلامی تعلیمات کے تحت بتایا گیا ہے کہ یہ قدرتی طور خواتین وحضرات کی ایک اہم تمنّا اور ضرورت ہوتی ہے کہ وہ خاندان قائم کرنے کی بنیاد ڈالیں اور بطور صادق مومن ازدواجی زِندگی کا لُطف بھی اُٹھائیں اور وہ تمام جُوکھم بھی جھیلیں جو فرمایشوں، تقاضوں، مطالبات کی صُورت سامنے آئیں، یہ اونچ نیچ یعنی نشیب وفراز تعلُّقات، نفع ونقصان سب برداشت کرنا شادی کے بندھن میں بندھے لوگوں کا وہ بوجھ ہے جسے ہنسی خوشی یا پھر جیسے تیسے اُٹھانا اُن کا مُقدّر ہوتا ہے، جو ایک دوسرے کے حُقُوق وفرائض کا خیال کرتے ہوئے آسان بنایا جا سکتا ہے، اور اِسے آسان تر بنانا انسانی تقاضوں اور مذہبی فرائض کے عین مطابق ہے۔ ایک آدمی کہ شادی کی عمر کو پہنچ جائے اور چاہتا ہو کہ مجرد یعنی سِنگل ہی رہے، یہ بات تو شک میں ڈال دے گی، آخر کیوں؟ جی ہاں سوچنے کی بات ہے۔ یا تو وہ تجرد کی زِندگی اختیار کرنے پر آمادہ مرد یا خاتون جو بھی ہے، کسی خُودغرضی کا شکار ہے، یا پھر یہ کہ طبّی طور پر وہ شادی کے قابل ہی نہِیں، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ محبت کی چوٹ کھائے انسان کی مایوسیاں، حسرتیں اور پچھتاوے جو ہوتے ہیں وہی اُس کے بھی نصیب کا حصہ بن گئے اور اُس نے زِندگی اور اُس کی رنگینیوں سے مُنہہی موڑ لیا۔ مسلم کمیونٹی کو اِس میں بھی شک ہے کہ وہ جو وعدے کے ذریعے خُود کو ناکتخدائی، کنوارے رہنے کے عمل کی پابندی پر قائم رہنے کا پاسِ فرض ہے، احساسِ ذِمّہ داری ہے، اُسے استقلال سے نبھایا بھی جاتا ہے کہ نہِیں، کاہنوں اور راہب طبقہ کے ارکان کے درمیان خفیہ روابط واختلاط بھی تو راہ پا سکتے ہیں، ہم جنسی میلانات بھی حلفِ تجرد کو اندر ہی اندر گھُن لگا سکتے ہیں، المختصر یہ کہ شاید ہی کوئی ہو جو اِس حقیقت سے انکاری ہو کہ صحت، تندرستی اور توانائی کے ہوتے ہوئے مرد ہو یا عورت اپنے جسمانی تقاضوں، جنسی رغبتوں کو تادیر دبائے رکھ سکنے پر فطری طور پر قادر نہِیں ہیں، جو لوگ یہ قُدرت رکھتے ہیں، نبی ہیں، ولی ہیں، یا بہُت ہی برگزیدہ ہستیاں یا انتہائی پاکباز لوگ ہیں۔ جنسی تعلُّق بھوک نہِیں، انسانی ضرورت ہے اور شادی اِس کا حل ہے۔
۲۔علاوہ ازیں یہ بات بھی ہے کہ مومنین کے لیے شادی اُن کا دینی فریضہ ہے اور اِسے نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے، اور یہ بات حدیث سے بھی ثابت ہے، صنفِ نازک کو تحفُّظ مُہیّا کرنا مردوں کے فرائض میں شامل ہے۔ رضاکارانہ کنوارپن اختیار کرنے والوں کو اِسی لیے سکینڈلز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، باتیں بنتی ہیں، چہ میگوئیاں ہوتی ہیں، افواہیں اُڑتی ہیں اور ایسے لوگوں کے ساتھ اہانت آمیز سُلُوک روا رکھا جاتا ہے، اور مسلمانوں میں تو کنوارپنے کی زِندگی گُزارنے والوں کو بے رحمانہ تنقید کے تیر ہی نہِیں نیزے اور بھالے بھی سہنا پڑتے ہیں، بے شک اِس برجستہ اور بُنیادی ردِّعمل میں فی زمانہ بتدریج ایک تبدیلی جاری ہے کہ اب وہ طعنوں کے تیر، تشنوں کے نیزے اور بہتانوں کے بھالے زنگ آلود ہو کر کُند پڑتے جا رہے ہیں۔
۳۔مرد وخواتین میں من مرضی سے کنوارپن کی زِندگی اختیار کرنے کا رجحان کثیر الوقوع ہو چلا ہے، دُنیاے اسلام بھی اِس سے مبرا نہِیں۔ یہ معروض بعض اوقات عارضی طور معیادِ حُدُود کے لیے بھی اختیار کِیا جاتا رہا ہے۔ تجرد اپنانے کی وجوہات میں کِسی خاص نصب العین کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دینا بھی ایک بڑی وجہ ہے، بڑے بھائی بہنوں کو بعض اوقات ضروری ہو جاتا ہے کہ چھوٹے بھائی بہنوں کا سہارا بنیں، ضعیف العمر والدین کے لیے زِندگی تج دیں۔ نرسنگ کا پیشہ اگر پورے خلوص، انسانی ہمدردی اور جذبہ خدمت سے اختیار کرنا پڑ جائے یا سماجی خدمت، معاشرتی بہبود کے کاموں میں سرگرمی سے حصہ لینا اپنی زِندگی بنا لیا جائے اور یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ فلسطین کی آزادی کی جِدّوجُہد میں بطور حریت پسند فدائین یا فدائیات کی صف میں شمولیت اختیار کر لی جائے اور ایسا بھی ہے کہ بعض ذاتی وُجُوہ انسان کو مجرد رہنے پر مجبور کر دیں یا شادی کے جکڑ بند میں پھنسنے سے پہلے آزادانہ وخُودمختارانہ زِندگی کا لُطف اُٹھا لیا جائے ورنہ تو گھر گرھستی کی زِندگی نے سر اُٹھانے کی فرصت بھی چھین لینا ہے اور ہاں یہ بھی ہے کہ مذہبی وُجُوہ بھی ہو سکتی ہیں جیسے ناکتخدا زائرات کہ بس مکّہ مدینہ کی ہی ہو کے رہ جانا چاہتی ہیں، حجاج کرام میں سے کئی لوگ جن کی تمنّا ہوتی ہے کہ دیارِ حرم یا دیارِ نبیصلی اللہ علیہ وسلم میں آ گئے ہیں تو یہیں اللہ اللہ کرتے، درود پاک پڑھتے موت آ جائے۔ بعض کی مُراد پوری بھی ہو سکتی ہے، چاہے عارضی مُدّت یا لمبا عرصہ، (سعودی قوانین پر منحصر ہے)۔
۴۔پریسٹ ہوں یا مسیحی راہبانہ جماعت کے ارکان اگر اِن لوگوں سے شناسائی ہو اور اِن کے معمولاتِ زِندگی بھی مشاہدے اور تجربے میں ہوں تو آپ دُرُست تسلیم کریں گے کہ خُدا کی خدمت اور مسیحی زِندگی کی طرف طلب کے تحت مذہبی طور راہبانہ زِندگی گُزارنے کے لیے کنوارے رہنے کے حلف کو انتہائی کھرے اور پاک صاف اندازہ میں نباہ کر دِکھایا جا سکتا ہے۔ بہُت ہیں جو اِس طرزِ زِندگی کے لیے رطب اللسان ہیں۔ اُن معترفین میں وہ مُسلم لڑکیاں بھی شامل ہیں جنھوں نے کچھ عرصہ راہبات (ننز) کے بہُت قریب رہ کر گُزارا ہو، اکٹھے کام کِیا ہو تو اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ بطور مسلم دوشیزہ وہ سسٹرز ایسی زِندگی بسر کریں مگر اُنھیں حسرت رہتی ہے کہ کاش اِس متقابل طرزِ دینی بود وباش کی اسلام میں بھی گنجایش ہوتی۔ وہ کیوں ایسا چاہتی ہیں؟ شادی سے فرار کی راہ؟ یا دِین کے لیے وہ بھی اپنی زِندگی وقف کر دینا چاہتی ہیں؟ تاکہ جم کے دِین کی خدمت کریں، اللہ تعالیٰ کی پورے استغراق کے ساتھ عبادت کریں، مگر.... مُسلمان تو یہ کہیں ہی کہیں کہ ایسا بس مسیحیت میں تو ممکن ہے، مگر اسلام میں رُہبانیت کے لیے کوئی جگہ نہِیں۔
عمیق مطالعہ
چند ہستیوں کے ساتھ خاص استثنا برتتے ہوئے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ مذہبی اور راہبانہ زِندگی اختیار کرنے کی طلب میں مجرد رہنے یعنی کنوار پنے کی حالت میں عُمر گُزارنے کو اسلام نے قطعاً قبول نہِیں کِیا، نہ مطمحِ انسانی کے طور پر اور نہ مذہبی طور۔ کلام اللہ میں بھی کہِیں تجرد کی حوصلہ افزائی نہِیں کی گئی۔ رسولِ خُداصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شادیاں کیں اور رشتہ ازدواج کو مثالی طور نبھا دِکھایا۔ اِسی لیے بہُت سی احادیثِ مبارکہ ہیں جن میں ازدواجی زِندگی کو صریحاً سراہا گیا ہے اور کنوارپنے کو اپنائے ہی چلے جانے کی نفی کی گئی ہے اور اُسے مردود ٹھہرایا ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سُنّت فرمایا۔ روایت بھی اور تقویٰ سے متصف بھی، حتیٰ کہ نصف ایمان تک فرما دِیا اور اللہ تعالیٰ کے حضور ایک کنوارے شخص کے طور پر پیش ہونے کو انتہائی نامناسب قرار دِیا۔ ایک غیر شادی شدہ صحابی کو سمجھانے اور شادی کی اہمیت ووقعت جتلانے کے لیے یہاں تک فرمایا کہ اگر اُنھیں ایک دِن اور جینا ہو اور ابھی شادی نہ کی ہو، تو وہ ترجیحاً شادی کریں گے پہلے، تاکہ جب خُدا کے حضور حاضری ہو تو ایسا نہ ہو کہ وہ کنوارے ہوں اور (اللہ تعالیٰ کے نیاز حاصل کر رہے ہوں)۔
(مندرجہ بالا سطور احادیثِ مبارکہ کا لفظی ترجمہ نہِیں، حتیٰ المقدور مفہوم کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کی سعی کر دیکھی ہے۔ کہِیں کچھ بھی سہو سرزد ہوئی ہو تو اللہ اور اُس کا رسولصلی اللہ علیہ وسلم درگذر سے نوازیں۔ آمین)
پایے کے مسلم عالمِ دِین گذرے ہیں امام غزالی (1111-1058ع)، اُنھوں نے شادی کے انسٹی ٹیوشن پر کھل کے بحث کی ہے کہ کیوں اِسے مذہبِ اسلام میں ایک لحاظ سے فرضِ عین قرار دِیا گیا:
کاہن، فادر اور راہبانہ جماعت (رِیلی جیئس آرڈر) کے دوسرے ممبرز فادر، برادر اور سسٹرز آخر شادی کیوں نہِیں کرتے؟
خُداوند کریم کی عطا سے اولاد نصیب ہوتی ہے، نسل اور نام آگے بڑھتا ہے اور اِسی میں خُدا اور اُس کے پیغمبر کی رضا وخوشنودی مضمر ہے۔ بندے پر اپنے معبود کی اطاعت تو امرِ لازم ہے۔
مسلم معاشرت پھلے پھُولے گی، اُمّتِ محمدی مضبوط ہو گی۔
اِسی دُنیا میں ہی مسرت وانبساط کے بہشتی مزوں سے متمتع ہُواجاتا ہے۔ مسلمان مرد کو گھر گرھستی کو سنبھالنے والی زوجہ مُیسّر آ جاتی ہے، اُسے فراغت ملتی ہے تاکہ عبادتِ خُداوندی میں جُویاے تسکین ہو سکے۔
عارف وصوفی کو بھی پاکیزہ زِندگی اور ازدواجی تعلُّقات سے حظ اُٹھانے کی نعمت نصیب ہوتی ہے۔ بیوی کی اُفتادِ طبع سے موافقت کی کوشش، اُس کی سرشت سے سمجھوتا اور مزاج کی نرمی گرمی برداشت کرنے سے شوہر کو صبر وشکر کی عادت پڑتی ہے۔
تقریباً تمام ہی اولیا اللہ، صوفی اور درویش شادی شدہ تھے، بہرحال کچھ بھی ہو تجرد کو نہ تو نظرانداز کِیا جاتا ہے نہ کبھی سرے سے رَد۔ حضرت بی بی مریم کی عفت مآبی کو مثالی بتاتے ہوئےقرآن مجید نے مُقدّس ماں کی تعریف کی ہے۔ اُنھوں نے ”اپنی پاک دامنی کی حفاظت کی“۔
اور اُن (مریم) کو (بھی یاد کرو) جنھوں نے اپنی عِفَّت کو محفوظ رکھا۔ تو ہم نے اُن میں اپنی رُوح پھونک دی اور اُن کو اور اُن کے بیٹے کو اہلِ عالم کے لیے نشانی بنا دِیا۔
((القرآن ، الانبیا:91
اور (دوسری) عمران کی بیٹی مریم کی (مثال) جنھوں نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا۔ تو ہم نے اُس میں (مریم میں) اپنی روح پھونک دی اور وہ اپنے پروردگار کے کلام اور اُس کی کتابوں کو برحق سمجھتی تھی اور فرماں برداروں میں سے تھی۔
(القرآن،سورة التحریم: 12)
وہ ابھی عبادت گاہ میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے کہ فرشتوں نے آواز دی کہ (ذکریا!) خُدا تمھیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو خُدا کے فیض (یعنی عیسیٰ ) کی تصدیق کریں گے اور سردار ہوں گے اور عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے اور (خُدا کے) پیغمبر (یعنی) نیکوکاروں میں ہوں گے۔
(القرآن،آلِ عمران: 39)
یہاں حضرت یحییٰ علیہ السلام یعنی مُقدّس یُوحنّا اصطباغی کا حوالہ دِیا گیا ہے۔ جن کے اطہر ومطہر ہونے میں کوئی شک نہِیں، اور قرآنی سٹائل میں اصل مقصود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پاک دامنی اور معصومیت ہے۔ مسیحی راہبوں کے بارے میں بھی قرآن پاک میں تعریف آئی ہے: ۔
(اے پیغمبر) تم دیکھو گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دُشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور دوستی کے لحاظ سے مومنوں سے قریب تر اُن لوگوں کو پاﺅ گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اِس لیے کہ اُن میں عالِم بھی ہیں اور مشائخ (راہب) بھی اور وہ تکبُّر نہِیں کرتے۔
(القرآن،المائدہ: 82)
(وہ قندیل) اُن گھروں میں (ہے) جن کے بارے خُدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ بُلند کیے جائیں اور وہاں خُدا کے نام کا ذِکر کِیا جائے (اور) اُن میں صبح وشام اُن کی تسبیح کرتے رہیں۔
(یعنی ایسے) لوگ جن کو خُدا کے ذِکر اور نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے سے نہ سوداگری غافل کرتی ہے نہ خرید وفروخت۔ وہ اُس دِن سے جب دِل (خوف اور گھبراہٹ کے سبب) اُلٹ جائیں گے اور آنکھیں (اوپر چڑھ جائیں گی) ڈرتے ہیں۔
(القرآن ،النور:37,36)
پھر اُن کے پیچھے اُنھی کے قدموں پر (اور) پیغمبر بھیجے اور اُن کے پیچھے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو بھیجا اور اُن کو انجیل مقدّس عنایت کی اور جن لوگوں نے اُن کی پیروی کی اُن کے دِلوں میں شفقت اور مہربانی ڈال دی۔ اور لذّات سے کنارہکشی کی تو اُنھوں نے خُود ایک نئی بات نکال لی (یعنی رُہبانیت) ہم نے اُن کو اِس کا حکم نہِیں دِیا تھا مگر (اُنھوں نے اپنے خیال میں) خُدا کی خُوشنودی حاصل کرنے کے لیے (آپ ہی ایسا کر لیا تھا) پھر جیسا اُس کو نباہنا چاہیے تھا، نباہ بھی نہ سکے۔ پس جو لوگ اُن میں سے ایمان لائے اُن کو ہم نے اُن کا اجر دِیا، اور اُن میں بہُت سے نافرمان ہیں۔
(القرآن،الحدید: 27)
لیکن یہ بھی دھیان میں رہے۔
اُنھوں نے اپنے علماءاور مشائخ اور مسیح ابنِ مریم کو اللہ کے سوا خُدا بنا لیا حال آںکہ اُن کو یہ حکم دِیا گیا تھا کہ خُداے واحد کے سِوا کِسی کی عبادت نہ کریں، اُس کے سِوا کوئی معبود نہِیں اور وہ اِن لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔
(القرآن،سورة التوبہ: 31)
مومنو! (اہلِ کتاب کے) بہُت سے عالِم اور مشائخ لوگوں کا مال ناحق کھاتے اور (اُن کو) راہِ خُدا سے روکتے ہیں۔ اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خُدا کے رستے میں خرچ نہِیں کرتے اُن کو عذابِ الیم کی خبر سُنا دو۔
(القرآن،سورة التوبہ: 34)
بعض مسلم صُوفیہ کرام اور تارک الدُّنیا زُہَّاد ایسے بھی گذرے ہیں جو تمام عمر مجرد ہی رہے۔ زُہد وتقویٰ میں بُلند مقام پر فائز رابعہ بصریٰ کی مثال موجود ہے۔ اُنھوں نے اپنا جینا مرنا سانس سانس اللہ تعالیٰ کی سپردگی میں دے دی تھی اور شادی نہ کی۔ دِینی مقاصد کے لیے تجرد اپنانے کے لیے سداکنوارہ رہنے کی حوصلہ افزائی بعض مسلم مسالک اور دِینی سِلسلوں کے بارے میں بعض اُن کی کتابوں میں مرقوم مِلتا ہے، سِلسلہ رحمانیہ، بیکتاشیہ، وغیرہ۔
خلاف اور شادی کے حق میں دلائل، پر بحث کرتے ہوئے امام غزالیؒ نے اُس صورت میں کنوارپن میں رہنے کو قرینِ مصلحت گردانا ہے جب کوئی خرچ اخراجات، نان نفقہ کی ذِمّہ داریاں شادی کر کے ادا کر سکنے کے لیے اپنے آپ کو ناقابل سمجھتا ہو، ایسی صُورتِ حال ہو کہ خُود اپنے خاندان پر بوجھ تو ہو ہی اب رشتہ ازدواج پھر آل اولاد کی ذِمّہ داریاں اُن پر ڈالنے سے مُحترز ہو، یا پھر اُسے پتا ہو کہ جہاں بات چل رہی ہے اُن محترمہ کے طور اطوار اور اُن کے سیٹ اپ سے دولھا میاں کوئی سمجھوتا نہ کر سکیں گے۔ اور یہ بھی کہ ہونے والی دُلھن کے بارے میں عِلم ہو جائے کہ وہ اُن کے صوفیانہ رنگ ڈھنگ سے چِڑ کھا جائے گی اور اُن کی عبادت ویادِ الٰہی میں خشوع وخضوع، مراقبے، گیان دھیان سب تلپٹ ہو کر رہ جائیں گے۔ چُناںچہ امام غزالی اِس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ شادی شدہ یا بغیر شادی کے زِندگی گُزاری جا سکتی ہے مگر اپنے اپنے حالات کی مناسبت سے بہترین صُورت تو یہی ہے کہ زُہد وعبادت، خُداپرستی، پارسائی اور اُن کے ساتھ ساتھ خوشگوار ازدواجی تعلُّقات یُوں رچے بسے ہوں کہ زِندگی دوسروں کے لیے بھی نمونہ بن جائے، یہی پیرویِ سُنَّتِ رسولصلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اپنے نکاح میں کِسی کو نہ لانے کے عمل پر اپنی راے امام غزالی نے یُوں دی ہے کہ: ۔
قدرتی طور پر اُن کی طبیعت کبھی اِس طرف مائل ہی نہ ہو پائی کیوںکہ وہ سمجھتے تھے کہ گھربار، خاندان اور شادی کے جھمیلے اُنھیں بے حد تھکا دیں گے۔ یا یہ بھی اُنھوں نے سوچا ہو گا کہ (جس مقصدِ عظیم کی براری کے لیے وہ دُنیا میں آئے ہیں اُس کو پورا کرنے کی جِدّوجُہد کے ساتھ ساتھ) اُن کے لیے بہُت مشکل ہو گا کہ وہ اپنے خاندان کی پرداخت، نگہداشت اور پرورش میں اُلجھے رہنے کی کٹھنائیوں کو اپنے لیے جائز قرار دے سکیں۔ خُداوند تعالیٰ کی بندگی کی خاطر اپنی تمام مساعی وقف کر دینے کی راہ میں شادی کو اُنھوں نے رکاوٹ ہی سمجھا ہمیشہ، اِس لیے خُدا کے کاموں اور شادی میں امتزاج پیدا کر دیکھنے کا خیال کبھی بھی دماغ میں نہ لائے۔ چُناںچہ خُدا کی خدمت کو ہی سب کچھ پر سدا ترجیح دی۔
۳۔مسیحی تاثُّرات
اکیلے پن سے جو دُنیاوی طور مُراد لی جاتی ہے اور جس میں جسمانی لُطف یالذّت سے رضاکارانہ اجتناب کو کوئی اہمیت حاصل نہِیں، ہم اُس کی بات نہِیں کر رہے۔ ہمارا موضوعِ سخن مذہبی حوالوں سے تجرد میں عمر ڈھال دینے سے ہے یعنی شُعُوری مسیحی ترغیب وتحریک براے کنوار پن۔ خاص طور پر مجرد رہنا اور جنسی عمل سے پرہیز اختیار کرنا۔ ایک حلف کے تحت پریسٹ اور مذہبی نظم ونسق کی تنظیم کے ارکان یعنی جماعتِ رُہبانیت کے اراکین تجرد کو خُدا وخُداوند کی خدمت اور مسیحی زِندگی کی طرف طلب یا دعوت پر اپنے آپ پہ لاگو کر لیتے ہیں۔
۱۔کیتھولک نقطہءنظر
کیتھولک عقیدہ میں بُنیادی طور مُمِدومُتمم اغراض ومقاصد تین طرح کے ہیں جن کے لیے طلبِ خدمتِ خالق ومخلوق کے تحت رضاکارانہ طور پر مجرد زِندگی اپنائی جا سکتی ہے۔
الف)آسمان کی بادشاہی کے لیے
بعض تو خوجے ہیں جو ماں کے بطن ہی سے ایسے پیدا ہوئے، اور بعض خوجے ہیں جنھیں آدمیوں نے خوجہ بنایا اور بعض خوجے ہیں جنھوں نے آسمان کی بادشاہی کے لیے اپنے آپ کو خوجہ بنایا۔ جو سمجھ سکے وہ سمجھ لے۔
(مُقدّس متّی 12:19)
یا جس طرح مُقدّس پولُوس رسول نے بھی وضاحت کی ہے.... اعلانِ انجیلِ مُقدّس کی خاطر۔
کیا مَیں آزاد نہِیں؟ کیا مَیں رسول نہِیں؟ کیا مَیں نے حضرت یسوع ہمارے خُداوند کو نہِیں دیکھا؟ کیا تُم خُداوند میں میری مُہم نہِیں۔ اگر مَیں دوسروں کے لیے رسول نہِیں تو بھی تمھارے لیے تو البتہ ہُوں۔ کیوںکہ تم خداوند میں میری رسالت پر مُہر ہو۔ جو مجھے پرکھتے ہیں اُن کے لیے میرا یہی جواب ہے۔ کیا ہمیں کھانے پینے کا اِختیار نہِیں؟ کیا ہمیں یہ اختیار نہِیں کہ کِسی بہن کو ساتھ لیے پھریں؟ جیسے دوسرے رسول اور خُداوند کے بھائی اور کیفا کرتے ہیں۔ یا صِرف مجھے اور برنباس کو ہی محنت مُشقّت سے باز رہنے کا اختیار نہِیں؟ کون سا سپاہی کبھی اپنی گِرہ سے کھا کر جنگ کرتا ہے؟ کون تاکستان لگا کر اُس کا پھل نہِیں کھاتا؟ یا کون گلّہ چرا کر اُس گلّے کا دُودھ نہِیں پیتا؟ کیا مَیں یہ باتیں محض انسانی قیاس ہی کے موافق کہتا ہُوں؟ کیا شریعت بھی یہی نہِیں کہتی۔ چُناںچہ حضرت موسیٰ کی شریعت میں لِکھا ہے کہ ”تُو گاہتے وقت بَیل کا مُنہ مت باندھ۔کیا خُدا کو بیلوں ہی کی پروا ہے؟ یا وہ خاص ہماری خاطر یُوں کہتا ہے؟ ہاں یہ ہماری خاطر لکھا ہے کیوںکہ واجب ہے کو جو تنے والا اُمِّید پر جوتے اور گاہنے والا حِصّہ پانے کی اُمِّید پر گاہے۔ پس اگر ہم نے تمھارے لیے روحانی چیزیں بوئی ہیں تو کیا یہ بڑی بات ہے کہ ہم تمھاری جسمانی چیزوں کی فصل کاٹیں؟ اگر اوروں کو تم پر یہ اختیار ہے تو کیا ہمارا اِس سے زیادہ نہ ہو گا؟ لیکن ہم اِس اختیار کو عمل میں نہِیں لائے بل کہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ ہم یسوع مسیح کی انجیلِ مقدّس کے مزاحم ہوں۔ کیا تُم نہِیں جانتے؟ کہ جو ہیکل کا کام کرتے ہیں وہ ہیکل میں سے کھاتے ہیں۔ اور جو قربان گاہ کی خِدمت کرتے ہیں وہ قربان گاہ سے حصہ لیتے ہیں۔ اِسی طرح خُداوند نے بھی ٹھہرایا ہے کہ جو انجیلِ مقدّس سُناتے ہیں انجیلِ مقدّس ہی سے اسبابِ زِندگی پائیں۔ مگر مَیں اِن میں سے کُچھ عمل میں نہِیں لایا اور نہ اِس ارادے سے لِکھا ہے کہ میرے واسطے یُوں کِیا جائے۔ کیوںکہ میرا اِس سے مرنا ہی بہتر ہے کہ....! کوئی میرا فخر نہ کھوئے گا۔ اِس لیے کہ اگر مَیں انجیلِ مقدّس سُناﺅں تو میرا کچھ فخر نہِیں کیوںکہ یہ میرے لیے اَمرِ لازمی ہے۔ اور مجھ پر افسوس ہے اگر مَیں انجیلِ مقدّس نہ سُناﺅں۔ کیوںکہ اگر مَیں خوشی سے کروں تو میرا اجر ہے لیکن اگر مجبوری سے کروں تو مجھے ایک مختاری سونپی گئی ہے۔ پس تو میرا کیا اَجر ہے؟ یہ کہ جب مَیں انجیلِ مقدّس سُناﺅں تو مُفت انجیلِ مقدّس سُناﺅں تاکہ اُس اختیار کا بَد اِستعمال نہ کروں جو انجیلِ مقدّس کے سبب سے مجھے حاصل ہے۔
گو مَیں سب سے آزاد ہُوں۔ پھر بھی مَیں نے اپنے آپ کو سب کا غُلام بنایا ہے تاکہ مَیں بہتوں کو حاصل کر سکوں۔ مَیں یہودیوں کے درمیان یہودی کی طرح بنا تاکہ یہودیوں کو حاصل کر سکوں۔ اہلِ شریعت کے لیے مَیں اہلِ شریعت کی طرح بنا (گو مَیں شریعت کے تابع نہِیں) تاکہ اہلِ شریعت کو حاصل کر سکوں۔ بے شرعوں کے لیے مَیں بے شرع بنا (گو مَیں خُدا کی شریعت کے بغیر تھا بل کہ مسیح کی شریعت کے تابع تھا) تاکہ بے شرعوں کو حاصل کر سکوں۔ کمزوروں کے لیے کمزور بنا تاکہ کمزوروں کو حاصل کر سکوں۔ سب کے لیے سب کچھ بنا تاکہ ہر ممکن طور سے بعض کو بچا سکوں۔ مَیں یہ سب کچھ انجیل مقدّس کے واسطے کرتا ہُوں تاکہ مَیں اُس میں شریک ہُوں۔ کیا تم نہِیں جانتے؟ کہ میدان میں جب دوڑتے ہیں تو سب دوڑتے ہیں، مگر اِنعام ایک ہی پاتا ہے۔ پس تم ایسے دوڑو کہ تم ہی جیتو اور ہر ایک کُشتی گِیر سب چیزوں کا پرہیز رکھتا ہے۔ وہ اِس لیے یہ کرتے ہیں تاکہ کُملانے والا سہرا پائیں مگر ہم نہ کُملانے والے سہرے کے لیے۔ پس مَیں دوڑتا ہُوں مگر بے ٹھکانے نہِیں، مَیں گھُونسے لڑتا ہُوں مگر ہَوا کو مارنے والے کے مانند نہِیں بل کہ مَیں اپنے بدن کو مارتا پیٹتا اور اِسے قابُو میں لاتا ہُوں، ایسا نہ ہو کہ مَیں اوروں کو وعظ کر کے آپ نامقبول ٹھہروں۔
(27-1:9۔قرنیتوں1)
یہ تو معاملہ ہی دراصل خُداوند حضرت یسوع مسیح کے حضور بے حد عقیدت سے شکرانہ ادا کرنے اور خُداوند حضرت یسوع مسیح کی ہستی پر محبت نچھاور کر دینے کا ہے۔ جو نیک لوگ کنوارپن اختیار کرتے ہیں اُن کے اِس لائحہءعمل سے بندہ خُدا کے رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ مَن تُو شُدم تُو مَن شُدی والی بات ہو جاتی ہے۔ بندہ خُدا شناسی کی دولت سے مالامال ہو جاتا ہے اور پھر یوں سمجھیے کہ قطرہ سمُندر میں جا کے سمُندر بن جاتا ہے۔ مذہبی تجرد تو اظہاریہ ہے خُدا، خُداوند سے آس توکّل پورے تیقُّن اور بھروسے اور مان سے باندھنے کا۔ اور اُس کی بادشاہی میں جینے کے انتظار کا۔ب)دوسرا عظیم مقصد ہے انسانیت، مخلوقِ خُدا کی خدمت، اور وہ دوچند ہو جاتی ہے اگر سماجی بندھن پاﺅں کی بیڑی نہ بنے ہوں تو، جس قدر آزادی مُیسّرہو گی خلقِ خُداوند کی خدمت اُتنی آسان ہو گی اور انہماک میں استقلال نصیب ہو گا۔
ج)تیسرا متبرک مقصد ہے خُداوند حضرت یسوع مسیح کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انہی کی طرح کنوارے رہنا۔ پاک ماں مُقدّسہ مریم کی پیروی کرنا جنھیں مُقدّس رسولوں کے عقیدہ میں کنواری کہا گیا ہے۔ انہی مثالوں سے اُس تحریک کو جِلا مِلی اور مسیحی مرد وخواتین کو رغبت مِلی کہ وہ بھی مجرد طرزِ زِندگی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں، اِس میں خُداوند کا جلال ہے۔
۲۔پروٹسٹنٹ نکتہ عقیدہ
ازدواجی زِندگی کو ناکتخدائی والے طرزِ بُودوباش کے برابر ہی درجہ حاصل ہے اور کسی ایک طرزِ عمل کو دوسرے پر کوئی فوقیت حاصل نہِیں۔ انجیلِ مُقدّس کی تبلیغی خدمات کے لیے اپنے آپ کو کاملةً وقف کر دینے کی خاطر اگر تجرد کی کیفیات سے گذرنا پڑ جائے تو اُسے مفیدِ مطلب کہا جا سکتا ہے کیوںکہ تب اُسے خُدا کے حضور پہنچنے کی تیاری کے زُمرے میں شُمار کرنا ہو گا، تاہم مجرد پنا مذہبی پیشواﺅں اور تبلیغ کرنے والوں کے لیے لازم وملزوم ہرگز قرار نہِیں دِیا گیا۔ دوشیزگی، کنوارے رہنے کے لیے چند دِینی معاشرتی طبقات میں گنجایش نکالی بھی گئی ہے مگر ایسا قطعاً نہِیں کہ نارمل لائف میں واپسی ناممکن بنا دی گئی ہو۔ سرے سے ایسا کوئی تقاضا کِیا ہی نہِیں جاتا۔ بجا کہ تجرد پسندوں کے لیے خُداوند حضرت یسوع مسیح کی مثال موجود ہے مگر اُن کے اسوہ حسنہ کی اِس ایک مثال سے کہِیں ثابت نہِیں ہوتا کہ اِس سے کوئی بہُت بڑے فوائد حاصل کیے گئے۔ لیکن یہ بھی اپنی جگہ اَتّم ہے کہ پاک ماں مُقدّس مریم کے بارے میں یہ بات یوں نہِیں کہی جا سکتی۔ بائبل مُقدّس کے عُلُوم کے ماہرین اِس حقیقت کے قائل ہیں کہ پاک بی بی مریم نے تمام عمر ناکتخدائی میں ہی نہ گُزار دی اور خُداوند حضرت یسوع کے بعد بھی اُن سے اور اولاد پیدا ہوئی۔
کیا یہ وہ بڑھئی نہِیں؟.... ابنِ مریم۔ اور یعقوب اور یوسف اور یہودہ اور شمعون کا بھائی؟.... اور کیا اِس کی بہنیں ہمارے ہاں نہِیں؟ اور اُنھیں اُس کے سبب سے ٹھوکر لگی۔
(مُقدّس مرقس 3:6)
۴۔کیتھولک تاثُّرات
۱۔مسلمانوں کے اِس شبہ کے پیشِ نظر کہ کنوار پن کے پیچھے جو محرک جذبہ ہے وہ کچھ نہِیں، بس خُودغرضی ہی خُودغرضی ہے، خُود مطلبی۔ نہِیں، اس کا جواب دِیا جا سکتا ہے۔ تجرد کی جو طلب ہے وہ اُصُولی طور پر یہی ہے کہ اِس کے پیچھے جو محرک جذبہ ہے وہ کچھ نہِیں، بس انسانیت کی خدمت ہی خدمت کا جذبہ ہے کہ کام آئے دُنیا میں انسان کے انسان۔ اور اِس جذبے کو بُنیاد فراہم کرتا ہے فلاح وبہبودِ انسانیت کے لیے کام کرنے کا مصمم ارادہ۔ تاہم مجرد مردوں، ناکتخدا خواتین سے اُن کا وَچَن متقاضی ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کے لیے ہر دم مستعد نظر آئیں، اور اگر وقت ہی نہ نکال پائیں تو سب اُن کے جذبے، ارادے اپنا وُثُوق کھو بیٹھیں گے کیوںکہ پھر فرق ہی کیا رہ گیا شادی شُدہ اور کنوارے یا کنواری میں۔ بائبل مُقدّس کی پاک تعلیمات سے اگر طرزِ زِندگی مزین ہو تو تجرد کی زِندگی اختیار کر لینا جُوے شیر لانے کے مترادف کبھی بھی نہ سمجھا جائے گا۔ ایک خدمتگار مسیحی کا اندازِ زِندگی کہلائے گا۔
۲۔شادی کرنا اور پھر خاندان کی پرورش اور دیکھ بھال بے شک اِس لائق ہے کہ اُسے بھرپور توجُّہ دینا چاہیے، اِس کا حقِ اہمیت وافادیت سمجھا جائے۔ یہ امر دِینی واخلاقی فرائض میں شامل ہے، بالکل بجا۔ لیکن اِس حقیقت کا بھی تو ادراک کیجیے تجرد کی زِندگی سے گذرنا سہلِ ممتنع بھی نہِیں، اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو خُدا کے لیے وقف کر دینے والا عمل ہے اور مُکمّل وقف کر دینے والا عمل ہے۔ بس خُدا کا ہی ہو کے رہ جانے والی بات ہے۔ خُدا کے لیے سب کچھ تج دینے والا عمل ہے جسے ایک بار اختیار کر لیا گیا تو سمجھیے لائف سٹائل بن گیا، پھر واپسی محال۔ یہی عبادت ہے۔ ہر عمل دُعاﺅں میں ڈھل جاتا ہے، اپنی نہِیں دوسروں کی فکر پڑی رہتی ہے، اور یہ خُود غرضی اور خُود مطلبی نہِیں ایثار ہوتا ہے۔ قربانی ہوتی ہے، خُدا اور خُداوند کو راضی رکھنا ہوتا ہے اور خُداوند کو راضی رکھنا اِس لیے ضروری ہے کہ خُداوند ہی تو خُدا ہے۔ اِسی لیے خُداوند کے حضور مُکمّل سپردگی اور اُس کی بندگی کا اظہار اُس کے جلال میں ہے، جو نُمایاں ہے۔
۳۔جب یہ شائبہ پڑے کہ شاید محبت میں ناکامی اِس فیصلے پر منتج ہوئی ہو گی کہ اب کیا فائدہ، اب شادی کرنا ہی نہِیں، کنوارے ہی رہیں گے۔ بس یہیں پر ہی دُنیا ختم نہِیں ہو جاتی۔ انسان کے اِردگِرد شادیاں ہو رہی ہوتی ہیں، ہر طرف خوشیوں کی آتش بازی اور مسکراہٹوں کی پھلجھڑیاں پھُوٹ رہی ہوتی ہیں، ازدواجی زِندگی کی مسرّتیں اور برکتیں اپنی تمام تر خوبصورتیوں اور اچھائیوں کے ساتھ انسان کو ورغلا رہی ہوتی ہیں، اگر دُنیاوی لحاظ سے تجرد اختیار کِیا تھا تو واپسی کے سو بہانے۔ کرسچن فیملی میں شادیوں کی تیاری، چرچ کی تقریبات ورسومات، ساتھ نبھانے کی قسمیں، دُعائیں، تحفے تحائف، دعوتیں اور پھر اپنے ہی بھائی بہنوں کی آئیڈیل قسم کی شادیاں اور بہترین نباہ کے قصّے کنوارے رہنے کا ارادہ پاش پاش کرنے کے لیے کم نہِیں۔ مگر مذہب کے لیے، خُدا کی محبت، لوگوں کی خدمت کر کے ملنے والی طمانیت واپسی کی راہیں مسدود کر دیتی ہے اور انسان اِس اکیلے پن میں ایک دُنیا آباد کر لیتا ہے۔
۴۔تجرد کے رنگ میں رنگے جانے اور اِس رنگ کو اپنے اندر تک اُتارنے میں بڑی محنت اور جِدّوجُہد درکار ہوتی ہے اور اِسے نہ چِھپانا چاہیے، نہ مکرنا چاہیے کہ بہلاوے پھسلاوے، تحریصات وترغیبات سے بھی قدم قدم، پل پل پالا پڑا رہتا ہے۔ اور اہم بات یہ کہ ایسا بھی کوئی تاثُّر نہِیں دینا چاہیے کہ دِینی طور مجرد رہنے کی روش زِندگی میں آنے والے یا آئے ہوئے بحرانوں کے بہتے دریا کے سامنے کوئی بند باندھ دے گی۔ اپنے غم بھلا کے، دُکھ درد فراموش کر کے دوسروں کے غم، درد، دکھ سینے سے لگا لینا جان جوکھوں میں ڈالنے والی بات ہوتی ہے۔ اِس لیے دیکھا گیا ہے کہ بڑے بڑے مضبوط ارادوں والے لوگوں نے اِن راہوں پر چلنے کی ٹھانی، پاﺅں زخم زخم ہوئے اور پلٹ گئے.... واپس۔ کنوارپنے کی قسم نبھانا ہر کسی کے بس کی بات ہی نہِیں۔
یہ رُتبہ بُلند مِلا جس کو مِل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
۵۔جب موضوعِ زیرِمطالعہ کے بارے میں اُن سے سوال کِیا جائے تو کاہن، فادر صاحبان اور مسیحی راہبانہ زندگی کے دوسرے اراکین پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اِس راہبانہ طریقِ حیات کے ضمن میں تفصیلی گُفتگُو کریں اور بتائیں کہ خُدا کی اِس دعوت پر لبیک کہنے کے بعد وہ کِن کِن تجربات ومشاہدات سے گذرے، اپنے جذبہ الفت وتکریم اور خُلُوصِ دِل کی پہنائیوں میں مسلسل گہرائی اور اضافے کے بارے میں جو صداقت ہے وہ سامنے لائیں، نیز اپنی اِس انمٹ تمنّا کو بھی سوال کرنے والوں کے ساتھ شیئر کریں تاکہ اُنھیں پتا چلے کہ آپ پکّے پیروکار ہیں، مومن مسیحی ہیں، اِسی لیے مُقدّس کنواری ماں مریم اور تقدُّس کے تاج والے بیٹے خُداوند حضرت یسوع مسیح کی پیروی میں اُنھی کی زِندگی کی مثال سامنے رکھتے ہوئے، وہی زِندگی جی رہے ہیں۔ بالکل وہی زِندگی جو مُقدّس باپ نے محبت سے اُن کا مُقدّر کر دی۔ اور اِس کی یُوں بھی تشریح کی جا سکتی ہے، دوسرے ایمان لانے والے مسیحیوں کے ساتھ مل کر عبادت، دعاﺅں اور مناجات کے ذریعے یہ دعوتِ خُداوند پُختہ تر ہوئی اور باوصفِ انہماک ومشاورتِ مسیحیان رنگ لائی۔ خاندان کے لوگوں نے تعاون کِیا، تب کہِیں جا کر کامیابی بخت بنی۔ ناکامی کی صُورت میں جینا دوبھر ہو جاتا ہے، خُدا کی زمین تنگ ہوتی نظر آنے لگتی ہے، اندر کا ملول موسم اچھے بھلے موسموں میں بھی اُداسیاں گھول دیتا ہے۔
یسوع مسیح کی پیروی میں اُنھی کی زِندگی کی مثال سامنے رکھتے ہوئے، وہی زِندگی جی رہے ہیں۔ بالکل وہی زِندگی جو مُقدّس باپ نے محبت سے اُن کا مُقدّر کر دی۔ اور اِس کی یُوں بھی تشریح کی جا سکتی ہے، دوسرے ایمان لانے والے مسیحیوں کے ساتھ مل کر عبادت، دعاﺅں اور مناجات کے ذریعے یہ دعوتِ خُداوند پُختہ تر ہوئی اور باوصفِ انہماک ومشاورتِ مسیحیان رنگ لائی۔ خاندان کے لوگوں نے تعاون کِیا، تب کہِیں جا کر کامیابی بخت بنی۔ ناکامی کی صُورت میں جینا دوبھر ہو جاتا ہے، خُدا کی زمین تنگ ہوتی نظر آنے لگتی ہے، اندر کا ملول موسم اچھے بھلے موسموں میں بھی اُداسیاں گھول دیتا ہے۔