German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر88

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انجیر کے درخت پر تین حرف بھیجے، اس بے چارے درخت پر ملامت کی وَجہ؟ اس غریب کا کیا قصور؟ کیا خطا؟

 

جواب:۔ دو جُزوی جوابات ہیں، مُلاحظہ فرمائیے:

1۔نبیوں کے علامتی اقدام کی اپنی ایک اہمیّت ہوتی ہے

مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح سے پہلے کے انبیا جِن کا ذِکر بائبل مُقدّس میں تکرار سے آیا ہے، مثلاً سموئیل نبی۔۔۔۔۔۔

''اور سموئیل روانہ ہونے کے لیے پھرا تو شاؤل نے اس کے جُبّہ کا دامن پکڑا اور وُہ چاک ہو گیا۔ تب سموئیل نے اُس سے کہا خُداوند نے تیری سلطنت اسرائیل پر سے آج کے دِن چاک کر دی اور تیرے ہمسایے کو دے دی جو تُجھ سے بہتر ہے''۔

1۔سموئیل۔۔۔۔۔۔27:15،28 

علامت کی رمزیت میں نبی نے پیشین گوئی بھی کردی۔ اسی طرح نبی احی یاہ شِلونی کی مثال ہے۔

''اور اُنہی دنوں میں یاربعام یرُوشلِیم سے باہر گیا تو اُس کو راہ میں شیلونی احی یاہ نبی مِلا۔ جو ایک نئی چادر اوڑھے ہُوئے تھا۔ اور وُہ دونوں بیابان میں اکیلے تھے۔ تو احی یاہ نے نئی چادر جو اُس پر تھی پکڑی اور اُسے پھاڑ کر بارہ ٹکڑے کیے اور یار بعام سے کہا کہ تُو اپنے لیے دس ٹکڑے لے کیوں کہ خُداوند اسرائیل کا خُدا اِس طرح فرماتا ہے۔ دیکھ! مَیں نے سلیمان کے ہاتھ سے سلطنت پھاڑ ڈالی اور تُجھ کو دس قبیلے عطا کیے، مگر میرے بندے داؤد اور شہر یروشلیم کی خاطر جس کو مَیں نے اسرائیل کے تمام قبائل میں سے چُن لیا، ایک قبیلہ اُس کے لیے ہوگا۔ کیوں کہ اُس نے مجھے چھوڑ دیا اور صیدونیوں کی دیوی عشتارِت اور موآبیوں کے بُت کموش او ربنی عمّون کے معبود مِلکوم کو سجدہ کیا اور میری راہ پر نہ چلا کہ جو کُچھ میری نگاہ میں راست ہے وہ کرتا، اور میرے احکام اور قوانین کو اپنے باپ داؤد کی طرح مانتا، تو بھی مَیں ساری سلطنت اس کے ہاتھ سے نہ لُوں گا بل کہ اپنے بندے داؤد کی خاطر جِس کو مَیں نے اِس لیے برگزیدہ کِیا کہ اُس نے میرے احکام اور قوانین مانے، اس کی زندگی کے سارے دِنوں میں اُس کو حاکم رکھوں گا۔ پر اُس کے بیٹے کے ہاتھ سے سلطنت لے لُوں گا اور اس میں سے دس قبیلے تُجھ کو دُوں گا اور اس کے بیٹے کو ایک قبیلہ دُوں گا تا کہ میرے بندے داؤد کا چراغ یروشلیم کے شہر میں جِس کو مَیں نے اپنے لیے چُن لیا کہ اپنا نام اُس میں رکھوں میرے آگے ہمیشہ تک روشن رہے۔ اور مَیں تُجھ کو لے لُوں گا اور تُو اُن سب پر جِن کی تیرے دِل میں خواہش ہے سلطنت کرے گا اور اسرائیل پر بادشاہ ہو گا، اگر تُو وُہ سب کُچھ کرے جِس کا مَیں تُجھے حُکم دُوں اور میری راہوں پر چلے او رجو کچھ میری نگاہ میں راست ہے وہ کرے، میرے قوانین اور احکام کو میرے بندے داؤد کے مانند مانے تو مَیں تیرے ساتھ ہُوں گا۔ اور تیرے لیے پایدار گھر بناؤں گا جیسا مَیں نے داؤد کے لیے بنایا اور اسرائیل کو تُجھے دُوں گا اور مَیں اسی سبب سے داؤد کی نسل کو دُکھ دُوں گا، لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں''۔

1۔ ملوک۔۔۔۔۔۔29:11تا39 

بزعمِ خود نبوت کے دعوے دار باطل نبی صدقی یاہ کی مثال بھی کلامِ مُقدّس میں موجُود ہے۔۔۔۔۔۔ 

''اور صدقی یاہ بِن کنعنہ نے اپنے لیے لوہے کے سینگ بنائے اور کہا خُداوند یُوں فرماتا ہے، اِن کے ساتھ تُو ارامیوں کو دھکیل دے گا جب تک کہ وُہ فنا نہ ہوجائیں۔ اور تمام انبیا ایسی ہی پیشین گوئی کر کے کہتے تھے کہ راموت جلعاد پر چڑھائی کر اور کامیاب ہو کیوں کہ خُداوند اُس کو بادشاہ کے ہاتھ میں دے گا''۔

1۔ ملوک۔۔۔۔۔۔11:22، 12 

اِن سب باضابطہ اشاراتی مفہوم دینے والے اقوال و اعمال کے ذریعے پیشین گوئیوں کو جاری رکّھا مگر اِس لیے نہیں کہ سامعین کو بھرپور انداز میں مُتاثّر کِیا جائے۔ علامات کا استعمال نبیوں میں اِس لیے مقبُول تھا کہ رمزیت والی نشانیاں سُننے دیکھنے والوں کے دِل و دماغ پر جلد اثر کرتی تھیں۔وُہ ایک قُدرتی و حقیقی تعلُّق بنا دیتے تھے علامتوں اور اصلی معنی خیز اور آفاقی اقوال و عوامل کے ساتھ جو ان کی پیشین گوئیوں میںبھی دُرُست ثابت ہوتے تھے۔ جِن صداقتوں اور حقیقتوں کا نبی دعویٰ کرتے تھے اور ان سے متعلّقہ جو سمبل ہوتے تھے اُن کی مدد سے اُن کی باتیں تغیّر ناپذیر یعنی اٹل ثابت ہوتی تھیں اور سُننے اور سُن کر آگے بتانے والوں کا اعتماد، اعتقاد اور ایمان مضبُوط ہوتا تھا۔ یہ طریقہ عہدِ عتیق کے اکثر انبیا کُبریٰ میں خاص معرُوف و مقبُول رہا، مثلاً ہوشیع نبی کا سارے کاسارامشن دیکھا جائے تو علامتی اُمُور کا مُرقّع تھا، اس کی زندگی، زندگی کا مقصد اور اس کا انجام طے کرنے میں بھی انہی رمُوز نے کام کِیا۔۔۔۔۔۔ 

حوالہ۔۔۔۔۔۔ہوشیع1۔۔۔۔۔۔30 

علامتوں کا استعمال اشعیا نبی کے ہاں کم کم بل کہ نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے لیکن موازنہ کے لیے دیکھیے اشعیا 20 اور اس نے اپنی اولاد کے جو علامتی نام رکھے۔۔۔۔۔۔
''اور خُداوند نے اِشعیا سے کہا کہ تُو اور تیرا بیٹا شآریا شوب اُوپر کے تالاب کی نالے کے پرلے سرے پر جو قصاروں کے کھیت کی راہ میں ہے آحاز کی مُلاقات کے لیے باہر نکلو۔ اور اس سے کہہ کہ خبردار رہ، حوصلہ رکھ اور نہ ڈر اور اُن جلتی ہُوئی اور دُھواں دیتی ہُوئی دو لکڑیوں کی دُموں سے نہ گھبرا''۔

اشعیا۔۔۔۔۔۔3:7، 4 

بموازنہ۔۔۔۔۔۔ 

''اور بقیہ ہاں یعقوب کا بقیہ خُداے قادر کی طرف رُجُوع لائے گا۔ کیوں کہ اے اسرائیل! اگرچہ تیری اُمّت ساحل کی ریت کے مانند ہو تو بھی اُس میں سے فقط بقیہ رُجُوع لائے گا کیوں کہ ایسی بربادی ٹھہرائی گئی جو انصاف سے لبریز ہے''۔

اشعیا۔۔۔۔۔۔21:10، 22 

اور۔۔۔۔۔۔ نجات اور سزا 

''اور خُداوند نے مُجھ سے کہا کہ ایک بڑا طُومار لے اور اُس پر آدمی کے قلم سے لکھ۔۔۔۔۔۔ مہیر شالال حاش بز کے لیے۔ اور مَیں نے اپنے لیے دو امانت دار گواہ لیے یعنی اُوری یاہ کاہن اور زکریاہ بِن بارک یاہ اور مَیں نبیّہ کے نزدِیک گیا تو وُہ حاملہ ہُوئی اور اُس سے بیٹا ہُوا، تب خُداوند نے مُجھ سے کہا: اس کا نام مہیر شالال حاش بَز رکھ کیوں کہ پیشتر اس کے کہ یہ لڑکا اے میرے باپ! اے میری ماں! پُکارنا جانے دمشق کی ثروت اور سامرہ کی غنیمت شاہِ اشور کے آگے لے جائی جائے گی''۔

اشعیا۔۔۔۔۔۔1:8تا 4 

نیز۔۔۔۔۔۔

''دیکھ! مَیں اور وُہ فرزند جو خُدا نے مُجھے عطا کیے ہم، ربُّ الافواج کی طرف سے جو کوہِ صیہون میں سکُونت پذیر ہے، اسرائیل کے لیے نشانات اور مُعجزات ہیں''۔

اشعیا۔۔۔۔۔۔18:8 

علامات کا اندازہ یرمیاہ نبی نے بھی جاری رکّھا۔ علاماتی اور اشاروں میں اس نے بہُت سے واقعات، حادثات اور اتفاقات کے بارے میں وقت سے پہلے آگاہ کِیا۔ اسی طرح حزقیال نبی نے بھی اپنے بہُت سے اظہاریوں کو سمبالِک ٹچ دیے اور لوگوں کو مُتاثّر کِیا اور جب اُن کی صداقتیں واضح ہُوئیں تو اصل رنگ دیکھ کر عوام النّاس ششدر رہ گئے۔ نبی ہوشیع کی طرح اس نے بھی اپنی آپ بیتیوں، امتحان اور آزمایشوں کو رمزیت والے پھُولوں میں سمو کے لوگوں کے سامنے پیش کِیا۔ رمزیت کا عہد نامہ جدید میں بھی عمل دخل ہے، بہترین مثال انجیر کے درخت والی ہے جسے علامتی طور پر خُوب استعمال کِیا گیا ہے جب خُداوند اقدس یسُّوع مسیح نے اس کی ملامت کی اور بد دُعا دی۔۔۔۔۔۔
''اور جب صبح کو شہر کو واپس جا رہا تھا تو اُسے بھُوک لگی اور انجیر کا ایک درخت راہ کے کنارے دیکھ کر اُس کے پاس گیا، اور پتّوں کے سِوا اُس میں کُچھ نہ پایا تو اُس سے کہا: آیندہ تُجھ میں کبھی پھل نہ لگے اور اُسی دم انجیر کا درخت سُوکھ گیا''۔

مُقدّس متّی۔۔۔۔۔۔18:21، 19 

اور شجرِ انجیر۔۔۔۔۔۔ 

''اور دُوسرے دِن جب وُہ بیت عنیا سے باہر آئے تو اُس کو بھُوک لگی اور وُہ دُور سے انجیر کا ایک سرسبز درخت دیکھ کر گیا کہ شاید اُس میں کُچھ پائے۔ مگر جب وُہ اُس کے پاس آیا تو پتّوں کے سِوا کُچھ نہ پایا۔ کیوںکہ انجیر کا موسم نہ تھا۔ تب اُس نے کہا: آیندہ کوئی تُجھ سے کبھی پھل نہ کھائے۔ اور اُس کے شاگردوں نے سُنا''۔

مُقدّس مرقس۔۔۔۔۔۔12:11تا 14 

اور شجرِ انجیر پژمُردہ ہو گیا 

''اور صبح کو جب وُہ اُدھر سے گُذرے تو دیکھا وُہ انجیر کا درخت جڑ سے سُوکھ گیا ہے۔ تب پطرس کو یاد آیا اور اُس نے اُس سے کہا: ربّی! دیکھ، انجیر کا درخت جِس پر تُو نے لعنت کی تھی سُوکھ گیا ہے۔ یسُّوع نے جواب میں اُن سے کہا، خُدا پر ایمان رکھو کہ مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو کوئی اِس پہاڑ کو کہے، اُکھڑ جا اور سمُندر میں جا پڑ اور اپنے دِل میں شک نہ لائے بل کہ یقین کرے کہ جو وُہ کہتا ہے وُہ ہو جائے گا تو اس کے واسطے یہ ہو جائے گا۔

اِس لیے مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ جو کُچھ تُم دُعا میں مانگتے ہو، یقین رکھو کہ تُم نے پا لیا ہے، تو تُم اُسے پاؤ گے''۔

مُقدّس مرقس۔۔۔۔۔۔20:10تا 24 

2۔ خُداوند یسُّوع مسیح کی بد دُعا، انجیر کا درخت جڑوں تک سُوکھ گیا

گُذرے زمانوں کے پیغمبر جِس طرح کرتے آ رہے تھے، اسی طرح مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح بھی علامتی اظہار کو کام میں لایا۔ یہاں انجیر کا درخت نمایندگی کر رہا تھا محرومِ ثمر، بنجر و بانجھ اور فی الحقیقت معتُوب پُوری کی پُوری سرزمینِ اسرائیل کی۔ ہاں، اگر اُنھیں وافر آب رسانی و آبیاری کے مواقع دستیاب ہوں، کھاد بھی میسّر ہواگر، پھر تو کیا بات ہے۔ تب تو انجیر کے درخت شاداب و ثمربار ہو سکتے ہیں، چہ جاے کہ اب جِس صُورتِ حالات کا سامنا ہے، بے وَتر، مُردہ و سنگلاخ زمین اور اِس کی وَجہ سے بے ثمری و بے بضاعتی کا شکار انجیر کا درخت اکل کھُرّا، ضررساں، دُوسروں کے کام نہ آنے والا اور باعثِ زحمت نہیں ہوگا تو کیا ہو گا؟ اب آپ یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ کہانی کا مرکزی نقطہ یہ نہیں کہ بے چارے، سادھ مُرادے، انجیر کے درخت پر پھٹکار بھیجی گئی۔ وُہ کوئی مخلُوق ایسی تو نہیں جیسی مالکِ مرضی اور مختارِ اعمال مخلُوق اِنسان ہے۔ نہ ہی مقصد ان لوگوں کو نشانہء تنقید بنانا ہے جو اس درخت کی صحیح بھال سیوا نہیں کر سکے۔ جب بھی علامتی اظہار سے کام لیا جاتا ہے تو کہانی کی جان اس علامت کے استعمال کی افادیت میں چِھپی ہوتی ہے اور پاک خُداوند یسُّوع نے بھی یہ مثال ان بانجھ ذِہن و بے ثمر فکر والے سامعین کو سامنے رکھ کر دی تھی، وُہ خُداوند یسُّوع مسیح اور اُس کی باتوں پر اپنے متزلزل ایمان کو استقلال و استحکام سے ہم کنار کر ہی نہ پا رہے تھے۔ خالی پتّوں والا انجیر کا درخت بنے کھڑے تھے اور اپنے آپ کو اس اعزاز کے قابل نہ بنا پا رہے تھے کہ مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح اُس کا پھل چکھتا اور اسے مزید برکت عطا کرتا۔کِسی کا بھلا نہ کر کے، کِسی کے کام نہ آ کر، اپنا ہی نُقصان کروا لیا۔ پاک خُداوند خُدا کی طرف سے مذمّت و ملامت و بد دُعا کی سزا مِلی۔ مُقدّس متّی کے بیان کے مُطابِق سزا کے مُعاملے میں مُقدّس یسُّوع مسیح لچک کا قائل نہ تھا۔ سزا میں سخت گیری اصلاح کے لیے ہوتی ہے، انصاف کو بھی زک نہیں پہنچے دی جاتی اور آیندہ کے لیے بھی عبرت کا سبق تازہ رکھتی ہے۔

مُقدّس مرقس کی انجیل پاک میں اگر متوازی فصل پر دھیان دیا جائے تو ایمان پکّا ہوگا٩ باب11اور آیات 12تا 14اور 20تا 24کا پِھر حوالہ دِیا جا رہا ہے۔اِس انجیل کے مصنّف نے اِس کہانی کو بعد میں مُقدّس کتاب میں شامل کِیا۔ اُس کو جو متن دِیا گیا تھا اس میں یہی جگہ بنتی تھی جو برمحل تھی۔ اُس نے یہ اضافہ دو قسطوں میں انجام دیا، پہلی میں درخت پر لعنت ملامت والا حصّہ شامل کِیا گیا اور نزدِیک ہی دُوسری قسط میں درخت کے مُرجھانے اور پِھر سُوکھ ہی جانے والا حِصّہ۔ بد دُعا کا فائدہ یُوں اُٹھایا گیا کہ لوگوں پر واضح ہو جائے کہ یقین، خُلُوص اور اعتقاد کے ساتھ مانگی گئی دُعا اُوپر ضرُور پہنچتی ہے کیوں کہ 

پر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہیں

اِس لیے خُداوند پاک کے حُضُور مُستجاب ہوتی ہے۔

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?