:سُوال نمبر70
شادی کے لیے موزُوں ترین عُمر کیا ہے بھلا؟
جواب:۔کیتھولک چرچ رِشتہء ازدواج میں مُنسلک ہونے کی کم از کم عُمر جِس کے حق میں ہے وُہ مردوں کے لیے سولھواں برس اور دوشیزاؤں کے لیے ان سے دو برس کم ہے۔ زِندگی کا یہی حصّہ بالی عُمریا کہلاتا ہے۔ تاہم بشپس کانفرنس اپنے اپنے خطّے کے جُغرافیائی، طبعی و تہذیبی لحاظ سے شادی کے لیے ان مہ و سال میں کمی بیشی کر سکتے ہیں۔ کم سے کم عُمر جو طے کر دی جائے گی، حتمی کہلائے گی۔ اس کی پُشت پناہی میں قائل کر سکنے کا یہ عمل کارفرما ہے کہ ازدواجی زِندگی میں داخل ہونے کے لیے بہترین عُمر کے تعیُّن کا انحصار اُس علاقے کی ثقافتی اقدار پر قائم ہے۔ دِین میں رہبری کرنے والے پریسٹ صاحبان کو اپنا کِردار اداکرنا چاہیے۔ وُہ دیکھیں کہ نوجوان نسل کم عُمری میں ہی شادیوں پر نہ تُل جائے، سہج پکے سو میٹھا ہو۔ شادی کے خواہشمند جوڑے تب تک انتظار کریں جب تک شادی کے لیے طے کردہ کم از کم حدِّ عُمر تک نہ پہنچ جائیں جو اپنے اپنے مُلک کے رسم و رواج کو سامنے رکھ کر مُقرّر کی جاتی ہے۔
یہ حقیقت بھی مدِّ نظر رہے کہ مقابلۃً ثقافتوں کو جانچیں تو معلُوم ہو گا کہ مخصوص و منفرد مغربی تہذیب میں نو بیاہتا لوگوں کو عُمُومی طور پر بہُت سے لوگوں پر مُشتمل اپنے افرادِ کُنبہ سے خال خال ہی کِسی مدد کی توقّع وابستہ ہوتی ہے۔ اُنھیں اپنی مدد آپ سے ہی ہر ڈنگ ٹپانا پڑتا ہے۔ جب کہ روایتی ثقافتوں میں اِس نفسانفسی کے ستمگر دور میں بھی گھر، کُنبہ، خاندان والوں کی سپورٹ شادی پر کمر کسے ہر جوڑے کا آخِر تک ساتھ نِبھاتی ہے۔ یہ موج مشرق میں ہی ہے۔ مغربی تمدُّن میں تو فرد کو بہُت بالغ نظری سے کام لینے کی ضرُورت ہے۔ اپنی صلیب آپ ہی اُٹھانا ہوتی ہے۔ اِس لیے اُن کی شادیوں میں دیر، اندھیر نہیں۔وقت، حالات و معاش کی ضرُورت ہے۔
مسیحی اُصُول و قواعد و عقائد کی روشنی میں اولاد کی نعمت سے سرفراز ہونا، بچّوں کی پرورش، تربیّت، ان کی دیکھ بھال اور زِندگی کی خُوشیاں سمیٹنے اور ترقّی کی طرف قدم بڑھانے کی آرزُو اور عزم انھیں دُنیا اور آسان، خُوشحال اور کامیاب زِندگی کی راہ سُجھانا قدرتی طور پر بامُراد شادی اور شادی خانہ آبادی والی زِندگی کا لاحقہ ہیں جنھیں میاں بیوی اپنی اولاد کے ساتھ خُوب سے خُوب تر انداز میں نِبھاتے ہیں۔ یہی کُچھ مذہب سکھاتا ہے۔
عین وُہ گھڑی جب شادی کے بندھن میں خُوشی خُوشی اور خُوش نصیبی کے ساتھ بندھ جانا سر پر آجائے تو وُہ وُہی ساعتِ سعد ہوتی ہے جب بچّوں کی آمد اور ان کے لیے بہترین پرورش و نگہداشت کے لیے مُستقبل کی منصُوبہ بندی کر لینی چاہیے تاکہ ان کی ذِہنی و جسمانی اُٹھان تسلّی بخش طور پر پروان چڑھے۔ ہاں، ایک بات ہم واضح کر دیں کہ ایسے بیاہے جوڑے جو نہیں چاہتے کہ اُن کے بچّے ہوں، اولاد سے محرُومی پر مُطمئِن ہوں، اُنھیں کیتھولک ڈاکٹرائن کے مُطابِق یہی مشورہ ہے کہ شادی کے کھیکھن اور بال بچّوں کے جھنجٹ میں نہ ہی پڑیں اور چھڑے چھانڈ رہ کر کنوارپنے کی زِندگی کے جنجال پال لیں۔ نہ رہے بانس، نہ بجے بانسُری۔
البتّہ، کِسی بھی وجہ سے جِن کے اولاد نہ ہو، ہو ہی نہ سکتی ہو، بگڑی صِحّت کی وجہ سے، عُمر ڈھل گئی ہو یا کِسی بھی معقُول وجہ کے تحت اپنی نسل آگے نہ بڑھا سکتے ہوںِ یا ان مسائل کا وُہ طِبّی طور، جسمانی طور شُرُوع سے ہی شکار رہے ہوں، معذُوری، کوئی بھی مجبُوری، پتا ہو اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں، اسے بھید نہ بنائیں تو شادی کر سکتے ہیں۔ طویل العُمری اگر آڑے آ رہی ہو تو اسے بھی مسئلہ نہ بنائیں۔ انسان انسان کا دارُو ہے، آدمی آدمی کا مداوا۔ زِندگی اچھّا ساتھی مانگتی ہے۔ اچھّا شریکِ زِندگی، ہمدرد، غمخوار، دُکھ سُکھ کا حصّہ دار، ایسا ساتھ مِل جائے تویہی پاک خُداوند خُدا کی سب سے بڑی نعمت ہے، نعمتِ غیر مترقّبہ۔ بڑی عُمر میں بھی شادی ہو سکتی ہے۔ کوئی قدغن نہیں۔ بیوہ خواتین، رنڈوے مرد حضرات اِس اقدام کے جائز اُمیدوار ہیں۔
پاک خُداوند یسُّوع مسیح سب کو عُمر بھر کے سُکھ نصیب کرے۔ آمین