:سُوال نمبر35
۔بطور تنظیم اور برادری روزی کروسی برادری کیا ہے؟
جواب:۔ عقیدئہ مافوق الفطری قوت و باطنِیّت کے ماننے والوں کی تنظیم ہے اور امریکا میں اب بھی فعال ہے۔ روزی کروشی افعالِ باطنی پر مشتمل مذہبی اصولوں کو ماننے والی سترھویں اٹھارھویں صدی کی قدیم صوفیانہ تنظیم مانی جاتی ہے۔ اس کی تعلیمات کے مُطابِق روزی کروشین لوگ گلاب کے پھولوں اور صلیب کے اشتراک و ارتباط سے مصلُوب ہونے کے بعد دوبارہ زندگی کو اور اِنسان کو گُناہ کی غلامی اور اس کی سزا سے مُقدّس نجات دہندہ کے ذریعے نجات کا استعارہ اس سے یعنی گلاب و صلیب کے امتزاج سے اخذ کرتے ہیں۔ گولڈن ڈان آرڈر کے تربیت یافتہ ماہرین اپنے سینوں پر گلابوں والی صلیب سجاتے تھے۔ گلاب کی رنگ برنگی 22 پتیاں ہوتی تھیں جو عبرانی حروفِ تہجی کے22 حروف کی علامت تھیں یہ بائیس پتیاں۔ شجرِ حیات کی طرف رہنمائی کرنے والی طرزِ عمل کی روشیں، پگڈنڈیاں بھی22 ہی ہیں جن سے10 شمار و قطار آپس میں مربوط ہیں۔ گلاب کی ان پتیوں کو جیومیٹری کی ایسی اشکال بنانے میں استعمال کِیا جاتا ہے جن سے ذِہنی و نفسیاتی قوتوں کی نُمایندگی ہو۔ تنظیم کے نام کو پہلے تو عبرانی حروف میں نقل کِیا گیا پِھر پتیوں پر لکھے حرف حرف کو ایک خاص شکل میں ترتیب دیا گیا کہ پتّی پتّی تسلسُل میں تنظیم کے مکمل نام کا پتا دیتی تھی۔
ایک مشہور و معروف سینہ بہ سینہ چلنے والی حکایت کے مُطابِق ایک ہیرو ٹائپ شخص تھا کرسچیئن روزین کرائیٹس1378-1484ع، اسی نے اس خفیہ تنظیمِ اخوت کی بنیاد رکھی۔ اس کا نام تنظیم کے نام کا حصہ ہے۔ آج قیاسِ واثق یہی ہے کہ یہ شخص در اصل جے۔وی۔ آندرے (1586-1684ع) کی دریافت تھا یا اس نے یہ شخصیت اپنے پاس سے ہی گھڑ لی تھی۔یہ خیال کہ کہِیں نہ کہِیں ایسی مخفی بھائی بندی موجُود ضرُور ہو گی، جس کے ڈانڈے گلاب و صلیب تحریک سے جا ملتے ہوں گے اور لطف کی بات یہ ہے کہ موجُودہ صدی میں بھی اس کا وُجُود قائم ہے(ذرا اپنے دھیان کا رُخ موڑ دیکھیے بھلا.... دی آرڈر آف دی گولڈن ڈان!)۔ اٹھارھویں صدی نے روزی کروسین برادران کو اپنے نام کی اساس پر ایسی ہی روایتی سوانح مشہورِ عام کرتے سُنا بھی اور دیکھا بھی۔ ہاں، یہ بات بھی طے ہے کہ تاریخِ داستان گوئی میں سترھویں صدی سے پہلے پہلے صلیب و گلاب برادری نام کی کِسی داستان کا ذِکر تک نہِیں ملتا۔ یہ بہُت بعد کی پیداوار ہے، بہرحال۔
روزی کروسی کے تصوُّر نے کٹّڑ پروٹسٹینٹس مسیحیوں کی دلی خواہش پر کہ ایک بار پِھر جامع اصلاحی عمل کی ازسرِ نو تشکیل ہو جائے، ضمناً جڑ پکڑی۔
بعد کے عرصہ میں جے۔وی۔ آندرے ماضی کی اپنی تحریروں سے مُکر ہی گیا۔ اس کی مذمت و تحریک کرنے کے لیے اس نے وضاحتاً کہا کہ وُہ تو ایک طرح سے محض طنز تھا جو کُچھ کیمیا گری کرنے والوں، حاضرات کے عمل کے ماہرین، جذباتی وارفتگی کا اسیر بنانے والوں، ہر ساحرانہ قوت یا قلبِ ماہیت ، جادوگر پروفیسران، منجموں اور توتا فال نکالنے والے دست شناس نجومیوں اور اس دور کے فرقہ پرستوں کے بارے میں کہا۔ اس خفیہ اخوانی تنظیم کی چوں کہ سُن گُن تو ایک دُنیا تک سرایت کر چُکی تھی، اس زمانے کے شُہرت کے حامل علما فضلا اس تنظیم کا کھُرا ناپنے نکل کھڑے ہوئے مگر کھُرا کہِیں نہ کہِیں گم ہو جاتا رہا۔
بعض دانش وروں اور پروفیسروں نے ایسی مساعی کی یہ توضیح پیش کی کہ یہی کاوشیں سترھویں صدی کے سائینسی انقلاب کے لیے عقبی فعال طاقت کا مقام رکھتی تھیں۔ ممکن ہُوا کہ سوچ کے متبادل زاویے پروان چڑھیں اور یہ عمل مرہونِ احسان رہا ہے ایسی ہی خفیہ تنظیموں کا۔ کیوں کہ ایسی تنظیمیں قرونِ وسطیٰ کے فکر، سوچ اور اس کے فلسفہءحیات کی راہ میں سدِّ سکندری بن جاتی رہی ہیں۔ انھیں نتیجةً دُنیا کے بارے میں اپنا دقّیانوسی زاویہءنِگاہ بدلتے ہی بن پڑی۔ دُنیا کو ایک نئی نہج پر ڈالنے کی ابتدا بھی اِسی ذیل میں آتی ہے۔
تنظیم کا ہر رُکن ایک آزاد اُفتادِ طبع کا مالک تھا۔ اُجلا اُن کا شُعُور تھا۔ وُہ فطرت کے بھید جاننا چاہتے تھے۔ اسی کھوج کے دوران ان پر قدرت کے مظاہر اور اس کی طبعی صفات اور خواص ظاہر ہوئے جن کو دُنیا پر چھائے، چھا گئے نظریات پر منطبق نہِیں کِیا جا سکتا تھا۔ اس کی اپنی فکری توجیحات کے ہوتے ہوئے انھیں اب نئی معاشرت میں اپنی جگہ قائم رکھنے، رکھ سکنے کے لالے پڑ گئے۔ عام یا فطری علم کی حدوں سے پرے ہونے کی اس پر چھاپ لگ گئی۔ باطنی عناصر اور جادونگری کی شعبدہ بازیاں سب راستے کی دُھول ہو گئے۔ ان کا متبادل اندازِ فکر رفتہ رفتہ اُنھیں لے ڈُوبا۔ اب زمانے نے انگڑائی لی تھی۔ فطرت کے رازوں سے پردہ اُٹھانے کے لیے نِت نئے تجربات ہونے لگے اور فطرت کی بُو قلمونیوں کے ادراک کے لیے غور و فکر کو مہمیز لگ گئی۔