German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر194

۔نوزائیدہ بچہ کیسے گنہگار مانا جا سکتا ہے کہ اس کے لیے بھی بپتسمہ لازم ہو جائے؟

 

جواب:

۔آغازِ کلیسیا میں تو ظاہر ہے کہ بالغوں کے لیے ہی بپتسمہ لینے، دینے کی رِیت کو رواج مِلا۔ بچوں کے لیے بپتسمہ کی باضابطہ مشق پر عمل تب سے قابلِ قبول ہوا جب ان بپتسمہ یافتہ پہلے مسیحیوں کی دُوسری نسل نے جنم لیا۔ نئے عہد نامہ مقدس میں بھی اِس ضمن میں براہِ راست کِسی حوالے کا ذکر نہیں مِلتا، ما سوا اِس کے کہ انجیلِ مقدس میں پورے گھرانے کو بپتسمہ کے عملِ متبرک سے گزارنے کی بات کئی آیاتِ پاک میں موجود ہے یعنی پورے گھر والوں کو مع ان کے نوکر چاکروں کے بپتسمہ سے سرفراز کِیا گیا، پھر تو اس امکان سے بھی صَرفِ نظر نہیں کِیا جا سکتا کہ سب گھر والوں میں تو بچے بھی شامل ہوں گے۔

حوالہ…

اور جب اُس نے اپنے گھرانے سمیت بپتسمہ پایا تو مِنّت کر کے کہا… اگر تم مجھے خداوند کی ایماندار بندی سمجھتے ہو تو میرے گھر چل کر رہو، اور اُس نے ہمیں مجبور کِیا۔

اعمال…15:16

اور اُس نے رات کو اُس گھڑی اُنھیں لے جا کر اُن کے زخم دھوئے اور اُسی وقت اُس نے اور اُس کے سارے گھرانے نے بپتسمہ پایا۔ اور انھیں اپنے گھر لا کر ان کے سامنے دسترخوان بچھایا اور اپنے تمام گھرانے سمیت بڑی خوشی کی اِس لیے کہ خُدا پر ایمان لے آئے تھے۔

اعمال…34,33:16

اور عبادت خانہ کا سردار کرسپُس اپنے تمام گھرانے سمیت خداوند پر ایمان لایا اور بہت سے قرنتی سُن کر ایمان لائے اور بپتسمہ پایا۔

اعمال8:18

اور مَیں نے استفناس کے گھرانے کو بھی بپتسمہ دیا۔ علاوہ اُن کے مَیں نہیں جانتا کہ مَیں نے کِسی اور کو بپتسمہ دیا ہو۔

1۔ قرنتیوں…16:1

واضح اور تصدیق شدہ حوالے گذشتہ دوسری صدی کے زمانہ میں البتہ ضرور ملتے ہیں، تب سے نوزائیدگان کو بھی بپتسمہ سے نوازا جانے لگا تھا۔ شیر خوار بچوں کے لیے بپتسمہ کا عمل مشرق و مغرب کی دونوں کلیسیاؤں میں ایک طویل عرصہ تک جاری رہا۔ کیتھولک کلیسیاؤں میں تو اب بھی جاری ہے۔ اکثر پوپ مقدسین، کلیسیائی مجالس اور خصوصاً کونسل آف ٹرینٹ(cf. DS 1514; 1626-1627; NR 356; 544-545)توثیق کر چکی ہیں اور اس نظامِ عقائد اور اس پر عمل کو تحفظ فراہم کرنے میں پیش پیش رہتی ہیں۔

نوزائیدہ بچوں کے لیے بپتسمہ کیوں اہم اور ضروری ہے اس کے جوازات موجود ہیں اور وہ تین ہیں:

1۔ بپتسمہ کے ذریعے مسیحی ہونا بالکل فراواں اور بِن مانگے خدا کے فضل کی وہ عطا ہے جو ہمارے عمومی اعمال و فعالیت دیکھے بِنا ہماری زندگیوں کا احاطہ کرتی ہے، جیسے ہی ہم اس دنیا میں اپنی آنکھیں کھولتے ہیں۔

مَحَبّت اِس میں نہِیں کہ ہم نے خُدا سے مَحَبّت رکھی، بل کہ اس میں ہے کہ اُس نے ہم سے مَحَبّت رکھی اور اپنے بیٹے کو بھیجا تا کہ ہمارے گُناہوں کا کفّارہ ہو۔

1۔ مقدس یوحنّا…10:4

پس ہم مَحَبّت رکھتے ہیں کیوں کہ اُس نے ہم سے پہلے مَحَبّت رکھی۔

1۔ مقدس یوحنّا…19:4

تو اُس نے ہمیں نجات بخشی۔ صداقت کے اُن اعمال کے سبب سے نہیں جو ہم نے خود کیے بل کہ اپنی رحمت کے مطابق۔ نئی پیدایش کے غُسل اور روح القدس کی تجدید کے وسیلے سے۔ جسے اُس نے ہمارے بچانے والے یسوع مسیح کی معرفت ہم پر افراط سے نازل کِیا۔

طیطُس…6,5:3

اور اپنی ابتداے حیات سے ہی ہم اِس کے حاجتمند تھے اور اس کا سبب ہمارے موروثی و فطری گناہ تھے۔ یہ ربی رحمت، الٰہی فضل، ہمارا استحقاق نہ تھے، ہمیں بِن کچھ کیے ہی مِل گئے جس کا اظہار اس وقت سے ہوا جب ہم شیر خوار بچے تھے اور ہمیں بپتسمہ دیا گیا۔ اللہ اللہ!! ابھی ہم نے کچھ کِیا بھی نہیں تھااور ہمیں ہماری آیندہ تقصیروں سے معافی عطا ہو گئی۔ اس احسانِ عظیم پر ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہوش سنبھالتے ہی محتاط زندگی گزاریں اور خطائوں، گناہوں سے بچنے اور بچے رہنے کی کوشش جاری رکھیں۔ چناں چہ بچے کو اگر اُس کی پیدایش کے فوراً بعد (مُراد ہے جلد سے جلد) کلیسیا اور مسیحی والدین  بپتسمہ کا ساکرامینٹ نہیں دیں گے، تو گویا اس معصوم کو دِین، دنیا اور آخرت کی بھلائی سے ہم محروم رکھنے کے مُرتکب ٹھہرائے جائیں گے۔ اس الزام کو اپنے سر لینے سے بچنا ہی اچھائی ہے جو روح القدس میں مسیح خداوند کے ہاںمقبول ہے۔ دیر میں نہیں، سویر میں برکت ہے۔

2۔عقیدہ ہمیشہ اس طرف توجہ دِلاتا ہے اور اِسی بات پر انحصار بھی رکھتا ہے کہ اسے قبول کرنے والوں کی شراکت و رفاقت ہی اسے مستحکم رکھتی ہے۔ اسی انحصار کی علامت ہے وہ بپتسمہ جو ننھے مُنے بچوں کو دیا جاتا ہے کہ یوں اُنھیں ساری برادری میں شمولیت مِل جاتی ہے جس کے وہ نئے نئے رکن بنے ہیں۔ اگر برادری کی رفاقت اُسے نہ ملے تو اس کے لیے زندگی اجیرن ہو جائے۔انسان معاشرتی جانور ہے اور معاشرت ہی اس کے پلنے، بڑھنے، پھیلنے پھولنے، ترقی کرنے کی ضامن ہے۔ معاشرہ اسے اور وہ معاشرے کو احترام دے تو وہ کبھی بھی معاشرتی اخلاقی حدود سے باہر نہیں نکل سکتا۔ اور معاشرتی اخلاقی حدود کا بہترین تعین مذہب کرتا ہے اور مذہب تک رسائی  بپتسمہ کے ذریعے ہوتی ہے اور بپتسمہ نوزائیدہ بچے کے لیے خشتِ اوّل ہے اس مسیحی محل کی خاطر آگے چل کر جو اس نے پاک خداوند کی بادشاہت قائم کرنے کے لیے تعمیر کرنا ہے۔ اپنے والدین اور دھرم مائی باپ کے توسط سے بچے کو دوسرے تمام مسیحیت پر ایمان رکھنے والوں میں شراکت کا مقام حاصل ہوتا ہے اور پھر سب کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ خدا کے حضور اور دنیا کے سامنے اس بچے کی دیکھ بھال، مسیحیت سے اس کا جوڑ قائم رکھیں اور قدم قدم اس کی رہنمائی کریں تا کہ وہ اِدھر اُدھر بھٹک نہ سکے۔ یہ بھی ایک اہم ترین جواز ہے کہ والدین اور عزیز واقارب آیندہ زندگی میں بچے کی مسیحی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کا فرض پورا پورا نبھاتے ہوئے اس کی پرورش کی ضمانت بن جائیں تا کہ بپتسمہ کا مقصد پورا ہوتا رہے۔جہاں یہ ضمانت نہیں دی جا سکتی وہاں یہی دانشمندی کی سبیل ہے کہ بپتسمہ کی مقدس تقریب آنے والے وقتوں پر چھوڑ دی جائے۔

3۔ ایمان و عقیدہ کِسی وقت، کیفیت یا وقوعہ کا نام نہیں، یہ ارتقاء کا ایک قاعدہ ہے۔  بپتسمہ یافتہ مسیحیوں کے لیے خداوند یسوع پاک میں رچ بس جانا اور اس پر جان و دِل سے ایمان مضبوط رکھنا تسلسلِ حیات میں ایک متعین طرزِ عمل ہے۔ عقیدے سے بپتسمہ تک کے سفر سے نیا عہد نامہ اقدس میں پوری جانکاری موجود ہے اور بپتسمہ ہی ہے جس کے ذریعے اظہارِ تجسیم کا مکمل عمل ابلاغ پاتا ہے…

لیکن جب اُنھوں نے فیلبوس کا یقین کِیا جو خدا کی بادشاہی اور یسوع مسیح کے نام کی بشارت دیتا تھا تو سب لوگ، مرد و زَن بپتسمہ لینے لگے۔ اور شمعون نے بھی یقین کِیا اور بپتسمہ پا کر فیلبوس سے لِپٹا رہا اور کرشمے اور بڑے بڑے معجزے ظاہر ہوتے دیکھ کر نہایت حیران ہوا۔

اعمال…13,12:8

اور عبادت خانہ کا سردار کرسپُس اپنے تمام گھرانے سمیت خداوند پر ایمان لایا اور بہت سے قرنتی سُن کر ایمان لائے اور بپتسمہ پایا۔

اعمال8:18

 کیا کوئی ان کو پانی سے روک سکتا ہے کہ بپتسمہ نہ پائیں جب کہ انھوں نے ہماری طرح روح القدس پایا؟

اعمال…47:10

حرکتِ معکوس بھی ہے، بپتسمہ یافتگاں کو یاددہانی کروائی جاتی رہتی ہے کہ وہ بپتسمہ پائے مسیحیوں میں شامل ہیں بپتسمہ کی حقیقت کا شعور ان میں ہر آن نہ صرف اُجاگر رکھنا پڑتا ہے بل کہ گہرا اور مزید گہرا ان کے قلب و ذہن میں اُتارا جاتا ہے…

کیا تم نہیں جانتے کہ ہم میں سے جتنوں نے مسیح یسوع میں اصطباغ پایا تو موت میں اصطباغ پایا۔ ہم موت میں اصطباغ پا کر اُس کے ساتھ دفن ہوئے تا کہ جیسے مسیح باپ کے جلال کے وسیلے سے مُردوں میں سے زندہ کِیا گیا ویسے ہی ہم بھی نئی زندگی میں قدم ماریں۔

رومیوں…4,3:6

کیا تم نہیں جانتے کہ ناراست خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہوں گے؟

فریب نہ کھائو۔ نہ حرامکار، نہ بت پرست، نہ زنا کار، نہ عیاش، نہ اِغلامی، نہ چور، نہ لالچی، نہ نشہ باز، نہ طعنہ زن، نہ ظالم، خدا کی بادشاہی کے وارث ہوں گے۔ اور بعض تم میں ایسے ہی تھے مگر تم خداوند یسوع مسیح کے نام سے اور ہمارے خدا کے رُوح سے دھل گئے اور پاک ہوئے اور صادق ٹھہرے۔

1۔ قرنتیوں…9:6تا11

کیوں کہ تم پیشتر تاریکی تھے مگر اب خدا میں نُور ہو۔ تم نُور کے فرزندوں کی طرح چلو۔ (اس لیے کہ نور کا پھل ہر طرح کی خوبی اور راستبازی اور سچائی میں ہے)۔

افسیوں…9,8:5

اِس واسطے تم ہر بدذاتی اور ہر دغابازی اور مَکر اور رشک اور ہر مُذمَّت کو چھوڑ کر نوزاد بچوں کے مانند خالص روحانی دودھ کے مشتاق رہو تا کہ تم اُس کے وسیلے سے نجات کے لیے بڑھتے جائو۔ بشرطے کہ ’’تم نے چکھ لیا ہو کہ خداوند کِس قدر مہربان ہے‘‘۔

اُس زندہ پتھر کے پاس آئو جسے آدمیوں نے تو رد کِیا مگر خدا نے اسے چُن لیا اور معزز جانا۔ اور تم زندہ پتھروں کے مانند روحانی گھر بنتے جائو، بعض ایک مقدس کہانت جس یسوع مسیح کے وسیلے سے خدا کو پسندیدہ روحانی قربانیاں گزرانے۔

1۔ پطرس…1:2تا5

بہرحال، بپتسمہ فقط مذہب کی علامت ہی نہیں بل کہ اس پر ایمان کی طاقت بھی ہے۔ یہ تو آگہی اور روشن خیالی اور روشنیِ ضمیر کا ساکرامینٹ ہے۔ اسی طرح ایمان و ایقان میں بتدریج و مسلسل استقلال پیدا کرنے والی راہوں کا نقطہء آغاز بھی بپتسمہ ہی ہے۔

پس، یہی استدلال ہے جو متقاضی ہے بپتسمہ کے لیے بالغان کی خاطر تازہ، تجدید سے گذرے ہوئے تیاری کے سسٹم کا جسے چوپانی بپتسمہ (Taufpastoral)بھی کہا جاتا ہے کیوںکہ بنیادی طور پر تمام تر چوپانی توجہ و دیکھ بھال اس مقصد کو پورا کرتی ہے کہ لوگ بپتسمہ کی اہمیت و ضرورت سے آگاہ ہو کر بس کھنچے چلے آئیں اور بپتسمہ سے انفرادی طور پر نئے مسیحیوں کو نئی اور راسخ زندگی کی احیاء ملتی رہے اور بپتسمہ کی پاک رسوم پورے حلقہ(پیرش) میں مقبول تر ہو جائے۔

 بپتسمہ کے لیے بالغوں کی آمادگی اور تیاری کی مدت در اصل  بپتسمہ سے پہلے اُنھیں مسیحی تعلیم و تربیت میں طاق کرنا ہوتا ہے اور بہت ہی چھوٹے نونہالوں کو بپتسمہ دینے کی صورت میں ان بچوں کے والدین اور دِینی ماں باپ، شادی کے بندھن میں بندھنے کے لیے پر تولے نئے امیدواران اور تازہ تازہ ازدواجی بندھن میں بندھے جوڑوں کے لیے چوپانی دِینی مسیحی تعلیم و تربیت کی مَد میں ان کا خیال رکھنا، ان کو توجہ دینی، ان کی رہنمائی کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ نوزائیدگان کے لیے کل کلاں انھوں نے بپتسمہ کے علاوہ ان کے پلنے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی مسیحی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینی ہے، اس لیے ایسی تربیت کے لیے انھیں تیار کِیا جانا اشد ضروری ہے۔ بچوں کے بارے میں یہی ذمہ داری ہر پیرش کی تمام مسیحی برادری پر بھی عائد ہوتی ہے۔ چناں چہ گزارش ہے کہ گروہ در گروہ، جماعتی انداز میں مسیحی تعلیم کو پھر سے رواج دیا جائے۔ ریفریشر کورس کرائے جائیں۔ جب تک یہ پریکٹس جاری رہی اس کے مثبت نتائج ہی سامنے آئے۔ جیسے جیسے بچے ہوش سنبھالتے گئے مذہب میں راسخ ہوتے گئے اور چرچ کی زندگی میں رچ بس گئے۔ جب بالغ عمری کو پہنچے تو مسیحیت میں ان کا ایمان سدا کے لیے غیر متزلزل ثابت ہوا۔ آج جس دور سے ہم گذرر ہے ہیں بچے دنیا میں آتے ہی ہماری توجہ کے، گذرے وقتوں سے کہِیں بڑھ کے محتاج ہیں۔

(cf. Gem. Synode, Schwerpunkte heutiger Sakramentenpastoral 2-3)

اِس ڈھنگ سے نگہداشت و پرداخت ہی استقامت و استقلال کی ساکرامینٹ ہے۔

(Katholischer Erwachsenen-Katechismus, Vol. 1, p. 337-339)


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?