:سوال نمبر189
۔ تقدیر کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟ کیا ہماری زندگیوں کے سلسلے میں سب کچھ پہلے سے ہی طے شدہ ہے؟
جواب:
۔اپنی مخلوق پر خدا کی دیکھ بھال اور نگرانی پر ایمان پُختہ ہو تو اس کی تخلیق پر بھی حتمی عُمق اور اُس کے وجود کے متعلق سنجیدگی کا یقین ایمان کی حد تک پُختہ تر ہو جاتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ الٰہی رزّاقی پر ذاتی علم سے قطع نظر، دلائل و شواہد کی بنیاد پر ذِہنی قبولیت اور بھروسا قائم رکھنے کے لیے دُشواریوں کا مسلسل سامنا کرتے رہنا پڑتاہے۔ بار بار ہم ایسی صورتِ حالات میں اپنے آپ کو گِھرا محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں کہنا پڑتا ہے، آخر مجھ پر ہی کیوں ساری مصیبتیں ٹوٹ پڑیں؟ مَیں ہی کیوں نشانہ بنا؟ لوگ شکوہ سنج ہوتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، بِلبِلا اُٹھتے ہیں، ہمیشہ بڑبڑاتے رہے ہیں اور اب بھی ظالم و اندھی تقدیر کی بات کرتے ہیں، بُرے نصیبوں کا رونا روتے ہیں، قسمت کے رنگ نیارے بتاتے ہیں، خوش قسمتی کی آس رکھتے ہیں، تقدیر کیا ہے ؟ نہیں جانتے، مگر تقدیر کے لکھے کے تذکرے لے بیٹھتے ہیں۔کبھی کہتے ہیں فلاں کی قسمت کا ستارہ عروج پر ہے کبھی کہتے ہیں جوڑے تو آسمانوں پر بنتے ہیں، اکثر علمِ نجوم، فلکیات اور علم البروج کے پروفیسروں کے سامنے ہتھیلی پھیلائے بیٹھے ستاروں کی گردشوں کے ذریعے قسمت کا حال جاننے جا پہنچتے ہیں۔ کِسی کو قسمت کا دھنی سمجھتے ہیں، کِسی کے بارے میں قیاس کرتے ہیں کہ اس پر تقدیر بہت مہربان ہے، پانچوں گھی میں اور سر کڑاھی میں ہے۔ کبھی بتاتے ہیں کہ فلاں بچہ تو سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوا تھا ماں باپ کو بھاگ لگا دیے اور کِسی کو لکّی سٹار کے زیرِ اثر دیکھتے ہیں، کِسی کے ستارے اُنھیں چمکتے نظر آتے ہیں اور کِسی کے نحس۔ شعور، لا شعور یا تحت الشعور میں کئی لوگ اس اکیسویں صدی میں بھی وہ باقیات ہیں جو ضعیف الاعتقادی اور اوہام پرستی کے عفریتوں سے جان نہیں چھڑا پائے۔ اگلے زمانے کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو۔ یہ بیچارے آج بھی طلسمات، جادو ٹونے، منحوس نمبر مثلاً8,13، سعد گھڑی، منحوس گھڑی، اچھا شگون، بُرا شگون کے اس قدر قائل ہیں کہ منگل کے روز باہر نہیں نکلتے، کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو واپس مُڑ جاتے ہیں، گیدڑ سنگھیوں کی سیندور، شنگرف اور دُودھ سے تواضع کرتے رہتے ہیں۔ کِن کِن خرافات کے نام گِنوائیں ہم۔
کتابِ مقدس پورے وثوق سے بتاتی ہے کہ زندگی در حقیقت باقاعدہ ایک نظم میں مربوط ہے جو عالمِ انسانیت پر ایک مقتدرہ طاقت کی طرح حاوی ہے۔ یہ بے نام سی، مجہول و گم نام طاقت نہیں جسے تقدیر کا نام دیا جا سکے، بل کہ اس طاقت کی حکمرانی خدا ذوالجلال کی راہ نمائی کے تابع ہے۔ مقدس عہد نامہء قدیم میں پہلے ہی ذکر آ چکا ہے کہ ایسے بعض افراد گذرے ہیں جنھیں الٰہی رہبری حاصل تھی مثلاً مصری یوسف، موسیٰ نبی کہ خدا کی نگہبانی و کرم گستری سے اُسے نیل میں راستہ دیا گیا اور خدا اُسے اور اُس کی اُمت کو ڈوبنے سے اور دُشمنوں کے تعاقب سے صاف بچا لایا۔ طوبیاہ نبی(Tobias)جس کے سفر میں خدا نے اپنا ایک فرشتہ اُس کا ساتھی بنا دیا۔ اس رہبری و ہدایت کا اظہار انتہائی معقول انداز میں مزامیر مقدس میں یوں کِیا گیا ہے:
خداوند میرا چوپان ہے، مجھے کوئی کمی نہیں۔
وہ مجھے ہری ہری چراگاہوں میں بٹھاتا ہے۔
وہ مجھے راحت کی ندیوں کے پاس لے جاتا ہے۔
وہ میری جان کو بحال کرتا ہے۔
وہ مجھے اپنے نام کی خاطر
سیدھی راہوں پر لے چلتا ہے،
اگرچہ مَیں تاریکی کی وادی میں گزروں۔
مَیں کِسی آفت سے نہ ڈروں گا، کیوں کہ تُو میرے ساتھ ہے۔
تیرا عصا اور تیری لاٹھی
یہ میری تسلّی کا باعث ہیں۔
مزمور…1:(23)22تا4
ایسا ہی مضمون مزمور(91)90میں مذکور ہے جو حمدیہ گیت ہے… ’’خدا کی حفاظت میں محفوظ‘‘: وہ جو ربِّ اکبر کی پناہ میں مگن رہتا ہے۔ [مزمور (91)90]۔ دوسری صدی قبل مسیح میں سلیمان بادشاہ کی شخصیت میں یونانی زبان میں لکھی گئی مقدس کتابِ حکمت تمام مخلوق کے لیے الٰہی پروردگاری پر گواہی دیتی ہے۔
مالکِ کُل کِسی کو مستثنیٰ نہ کرے گا اور نہ کِسی عظمت سے ڈرے گا کیوں کہ چھوٹوں اور بڑوں دونوں کو اُسی نے بنایا اور اُس کی مہربانی سب پر یکساں ہے۔
حکمت…7:6
مقدس خداوند یسوع مسیح نے بارہا خصوصی طور پر واضح کِیا کہ اس کی حیات، اس حیاتِ ارضی میں دِینی خدمت کی انجام دہی اور اُس کی اِس جہانِ فانی میں موت مطلق مشیّتِ ایزدی پر مشتمل و منحصر ہیں۔ اس لیے اس نے ہمیں بچوں ایسے اخلاص و معصومیت بھرے اعتماد کی ہی تحریک دی۔
اس لیے مَیں تم سے کہتا ہوں۔ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پییں گے اور نہ اپنے بدن کی کہ ہم کیا پہنیں گے۔ کیاجان خوراک سے اور بدن پوشاک سے زیادہ بہتر نہیں؟ آسمان کے پرندوں کو دیکھو، کہ نہ وہ بوتے نہ کاٹتے، نہ کھتّوں میں جمع کرتے ہیں، تو بھی تمھارا آسمانی باپ اُن کی پرورش کرتا ہے۔ کیا تم اُن سے زیادہ قدر نہیں رکھتے؟
مقدس متی…26,25:6
اس لیے فکر مند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پییں گے یا کیا پہنیں گے، کیوں کہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں۔ اور تمھارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم اِن سب چیزوں کے محتاج ہو۔
مقدس متی…32,31:6
اور اِس حوالے پر بھی غور کیجیے:
اِس لیے اُن سے مت ڈرو کیوں کہ کوئی چیز ڈھپی نہیں جو کھولی نہ جائے گی اور نہ چِھپی ہے جو جانی نہ جائے گی۔ جو کچھ مَیں تمھیں اندھیرے میں کہتا ہوں اُجالے میں کہو۔ او رجو کچھ تم کان میں سُنتے ہو، کوٹھوں پر اُس کی منادی کرو اور اُن سے مت ڈرو جو بدن کو قتل کرتے ہیں پر جان کو قتل نہیں کر سکتے بل کہ اُسی سے ڈرو جو جان اور بدن دونوں کوجہنّم میں ہلاک کر سکتا ہے۔ کیا پیسے کی دو چِڑیاں نہیں بِکتیں؟ اور ان میں سے ایک بھی تمھارے باپ کی مرضی کے بغیر زمین پر نہیں گِرتی، بل کہ تمھارے سر کے بال بھی سب گِنے ہوئے ہیں۔ پس مت ڈرو۔ تم بہت چڑیوں سے زیادہ قدر رکھتے ہو۔
مقدس متی…26:10تا 31
انجیلِ مقدس میں خداوند اقدس یسوع المسیح کی اس دعوت، اس پیغام، اس منادی کو یوں سمویا گیا ہے:
…اور اپنی ساری فکر اُس پر ڈال دو کیوں کہ اُس کو تمھاری فکر ہے۔
1۔ پطرس…7:5
آئیڈیل نظم سے منسوب یہ دلکش خیالات ایسے لوگوں کے نہیں جو نیک و پارسا تو ہیں مگر دنیا و مافیہا سے بے نیازی کا رویہ اختیار کر چکے ہیں ، بل کہ پروردگارِ عالم کی الوہی صفت رزّاقی پر ایمان کا تو بائبل مقدس میں ذکر اس ذیل میں آیا ہے جس کا تعلق ذاتِ قدسی کے ان تمام تر الٰہی منصوبوں سے ہے جو نجاتِ خلقت کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے خدا قادرِ مطلق نے عالمِ انسانیت کی رُشد و ہدایت درجہ بہ درجہ مختلف طریقوں سے انجام فرمائی ہے۔ مثلاً نبی نوح سے اپنا پیمان پورا کر کے، نبی ابراہیم سے وعدہ نبھا کے، نبی موسیٰ کی رہنمائی اور مدد فرما کے اور نبی داؤد بادشاہ سے میثاق کی تکمیل کے ذریعے۔ اور پھر خداوند یسوع میں نئے عہد کے ساتھ جو روزِ آخر تک واثق ہے۔ روح القدس میں بھی وہ کلیسیا کا راہ نما و راہبر ہے تا کہ کل عالم پر محیط خدا کی بادشاہی اُس کے ذریعے قائم ہو۔ پروردگاری کے خاص افعال مخصوص ہیں انفرادی طور پر ہر انسان کی مخلصی کے لیے جو خدا کے جامع منصوبہ ہاے نجات کے طفیل بالآخر مکتی پائے گا۔ خداوند یسوع مسیح کا کلیدی کلام پروردگار پر اس کے یقین کی وضاحت کرتا ہے:
بل کہ تم اُس کی بادشاہی اور راستی کو ڈھونڈو۔ تو یہ سب چیزیں بھی تمھیں دی جائیں گی۔
مقدس متی…33:6
یہ محض سیدھی سادی خوش اُمیدی نہیں بل کہ مفہوم و مطلب یہ ہے کہ اپنی زندگیوںکو خدا پر فوکس رکھتے ہوئے تمام تر توجہ اور ساری تگ و دو خدا کی بادشاہی کے قیام پر مرکوز کر دی جائے، تب کہیں جا کے ہمارے ارد گرد کا ماحول، دنیا اوردنیا کے رنگ ڈھنگ، طور طریقے تبدیل ہو کر ہمارے حسبِ حال و حسبِ مُراد ہو سکیں گے۔
خدائی ربانیت پر یقین و اعتماد کا اظہار یوں ہوتا ہے کہ بے پناہ مخلوق اور خدا کے ارادے اور جامع نجات بخش منصوبے فرد فرد کے لیے الگ الگ ترتیب دیے گئے ہیں۔ بلا شبہ، تخلیق کا مقصد اور تاریخ کا دائرئہ کار ہر فرد بشر میں فیصل ہو رہا ہے۔ چناں چہ الٰہی پروردگاری کو سمجھنے میں ٹھوکر نہیں کھانی چاہیے اور یہ کج فہمی دُور کر لی جانا چاہیے کہ جیسے یہ تو لوگوں کی خواہشوں، تمنائوں، ان کی آرزوؤں، آس امیدوں سے صَرفِ نظر کرنے والے منصوبے ہیں۔ جب کہ ان کا انحصار تو بندے کی اپنی آمادگی اور تعاون پر ہے کہ وہ اپنے آپ کو باری تعالیٰ کی نگرانی اور دیکھ بھال میں کامل اعتماد کے ساتھ سپرد کر دے۔ قادرِ مطلق، خداے لم یزال پر یقین اور بھروسا ہونا چاہیے۔ اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتاہے، پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔ نیت یہ ہونی چاہیے…
سپردم بتومایہء خویش را
تُو دانی حسابِ کم و بیش را
اس کے کرم کی امید اس انکسار اور عاجزی کے ساتھ شرطِ اوّل ہے…
جے مَیں ویکھاں اپنے عملاں وَلے ، کجھ نہیں میرے پلّے
جے مَیں ویکھاں تیری رحمت ولے ، بَلّے بَلّے بَلّے!
خدا تعالیٰ کی مرضی و منشا پر انسان جتنا بھروسا کرتا ہے اور مشیّتِ ایزدی سے جس قدر بھی زیادہ خیر کی امیدیں وابستہ کر لیتا ہے اور اپنا لائف سٹائل وہ بنالیتا ہے جو آقا و مولا کو پسند ہو، زندگی بے بندگی شرمندگی کو ہر دم سامنے رکھتے ہوئے خدا کا اطاعت شعار جب بن جاتا ہے تو مقدر اُس کا ساتھ دینے لگتا ہے۔ قسمت اُس پر مہربان ہو جاتی ہے۔ اس کے نصیب بدل جاتے ہیں۔ اللہ راضی تو سب راضی۔ حالات و واقعات کی مشکلات دُور ہو جاتی ہیں، کل تک جو کچھ اجنبیت میں لپٹا تھا، آج کھُل کے اپنا اپنا سا ہو جاتا ہے۔ قدرت کے کرشمے نرالے!! خدا مہربان تو کُل جگ مہربان۔ اُس شانوں والے کے خاص الوہی انداز ہیں۔ اس کی رحمتوں اور عنایات کی برابری نہ کوئی کر سکا، نہ کر سکتا ہے، نہ کبھی کوئی کر سکے گا۔ وہ اپنے مومن بندوں پر کائنات لُٹا دے تو اس کو کوئی فرق نہ پڑے گا وہ کئی کائناتیں اپنے ایک ہی کلمہ سے جھَٹ پیدا کرلے گا۔ مگر سب سے بڑی اس کی نعمت، اعلیٰ ترین انعام، بہترین سوغات مقدس خداوند یسوع مسیح کی محبت ہے جس کا کوئی بدل نہیں، جو مِل جائے تو پھر زِنہار چِھن نہیں سکتی۔ پاک خداوند یسوع کی طرح اُس کی محبت بھی امر ہے۔
پس، کون ہم کو مسیح کی محبت سے جُدا کرے گا؟ مصیبت یا تنگی یا ظلم یا قحط یا عریانی یا خطرہ یا تلوار؟
رومیوں…35:8
اور میرے نزدیک تویہ جو فی زمانہ ہمیں مصائب، مشکلات، آلام، حق تلفیوں، دہشت گردیوں، شدت پسندیوں اور بے انصافیوں کا سامنا ہے، یہ سب اس کے سامنے ہیچ ہیں جو شان، جلال، عنایت و ستایش ہم مسیحیوں کا مقدر بنایا جا چکا ہے جب ہم خداوند یسوع پاک کے جِلو میں ابدی زندگی میں داخل ہوں گے۔
کیوں کہ میری سمجھ میں اِس زمانہ کے دُکھ درد، اِس لائق نہیں ہیں کہ اُس جلال سے جو ہم پر ظاہر ہونے والا ہے مقابلہ کر سکیں۔
رومیوں…18:8
درباطن خداکی ربوبیت جو ہر ذِی روح پر محیط ہے وہ جڑی ہوئی ہے آزادیِ انساں سے اور اس کا اصل اظہار ہوتا ہے شفاعتی دُعا میں۔ انسان کا اپنے لیے سفارش و شفاعت کے لیے ملجتی ہو سکنے کا اِذنِ خداوندی ظاہر کرتا ہے کہ اُسے خدا تک براہِ راست وسیلے سے بھی اور براہِ راست بھی رسائی حاصل ہے۔ اُسے یقین ہے کہ شفاعت سے اس کا بیڑا پار ہو جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ خدا کو جب پکارو، وہ سُنتا ہے، اپنے بندوں پر توجہ دیتا ہے، ان کی فریاد پر مائل بہ کرم ہوتا ہے اور اپنے عاجز بندوں کو اپنی قبولیت میں لے لیتا ہے۔ اس لیے عاجزی و انکساری کے ساتھ التجائیں کرنا، مقدس خداوند یسوع مسیح سے روح القدس میں شفاعت کی باری تعالیٰ کے حضور اپنے لیے خیرات مانگنا بندے کی شان گھٹا کے اُسے فِدوی نہیں بنا دیتا بل کہ اُس کے سامنے جو جتنا جھکے وہ اُسے اُتنا ہی بلند کر دیتا ہے۔ وہ رافع ہے دوسروں کو بھی رفعتیں عطا کرتا ہے۔ خدا کے منصوبوں میں تو شفاعت کو دوام حاصل ہے۔ وہ زبردست پالنہار ہے، مانگنے والے کو اس سے بھی سوا دیتا ہے۔ وہ سخیوں کا سخی بادشاہ ہے۔ جب دیتا ہے بے حساب دیتا ہے، رزق میں کٹوتیاں نہیں کرتا۔ دعا کرتے سمے جب بندہ اپنی حالتِ زار کا نقشہ اُس کے سامنے کھینچتا ہے، اُسے یقین ہونا چاہیے کہ اس کی آہیں اُس تک پہنچ رہی ہیں، اس کازار و قطار رونا وہ دیکھ رہا ہے، اس کا لفظ لفظ وہ سُن رہا ہے۔ وہی وقت ہوتا ہے جب اس کا رحم و کرم بیتاب ہو کر دعا مانگنے والے کو دان ہو جانے میں دیر نہیں کرتا۔ وہ سب کی سنتا ہے، سب کی مُرادیں پوری کرتاہے، ان کی جو بھی بِن مانگے پاتے ہیں، اُسے مانیں یا نہ مانیں، تخلیق تو اُسی کی ہیں نا۔ اپنی مخلوق سے اُسے پیار ہے، انمٹ پیار جو اُس کا احساس ہے جس کا بدلہ بھی نہیں چکایا جا سکتا۔ وہ لینے کا محتاج نہیں، دے کے خوش ہوتا ہے۔ بس انسان کو چاہیے اس کی رضا کے لیے اپنی کوششیں سدا جاری رکھے۔ خداوند یسوع مسیح کا فرمان ہے:
اس لیے مَیں تم سے کہتا ہوں کہ جو کچھ تم دُعا میں مانگتے ہو یقین رکھو کہ تم نے پا لیا ہے تو تم اُسے پائو گے۔
مقدس مرقس…24:11
مانگو تو تمھیں دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو تم پائو گے۔ کھٹکھٹاؤ تو تمھارے واسطے کھولا جائے گا۔
مقدس متی…7:7
اور جو کچھ تم ایمان کے ساتھ دُعا میں مانگو گے وہ سب تمھیں ملے گا۔
مقدس متی…22:21
پس، مَیں تم سے بھی کہتا ہوں۔ مانگو تو تمھیں دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پاؤ گے۔ کھٹکھٹائو تو تمھارے لیے کھولا جائے گا۔
مقدس لوقا…9:11
بہت سے لوگ اچنبے میں پڑے ہوتے ہیں کہ اگر خُدا ہر دُعا قبول کر لیتا ہے، تو اُن دُعائوں کا کیا کہہ سکتے ہیں جو بظاہر یا واقعی طور شاید اُس تک رسائی نہیں پاتیں، پاتی ہیں تو وہ اُنھیں رد کر دیتا ہے یا اُن کا کچھ بھی نہیں ہوتا جیسے راہ میں ہی گم ہو گئی ہیں، کوئی خواب نہیں مِلتا چاہے التجاؤں اور استدعاؤں کی بھرمار ہی کر دی جائے؟ … اب اِس کا کیا جواب دیا جا سکتا ہے، مشکل سوال ہے۔ لیکن مطمئن کرنے کے لیے اِتنا ہی کافی ہے کہ ہم مقدس خداوند یسوع مسیح کے ایک واضح فرمان سے استفادہ کریں۔
خداوند نے فرمایا ہے: خدا تو ہر دُعا کو ایجاب بخشتا ہے، اس سے کہِیں بڑھ کے جتنی ہم اُس سے اُمید رکھتے ہیں۔ اگر ہماری توقعات، آس اُمید سے ہٹ کے، ہمیں لگے کہ اُس نے تو ہماری سُنی ہی نہ، تو یہ ہماری خام خیالی ہو گی۔ ہماری تو دُعا اِس لیے فوری قبول نہیں ہوئی کہ جو ہم نے مانگا، اُس کا وقت ہی نہیں ہواتھا۔ ہمیں تو علم ہی نہیں مگر اُسے سب پتا ہے، وہ جانتا ہے کہ کب ہماری دُعا پوری ہو اور ہمیں اِس مانگے کا فائدہ ہو۔ اِس لیے دیر ہوئی، اندھیر نہ ہوا۔ ہم اندھیرے میں ہیں، وہ نُور ہی نُو رہے۔ وہ وہی کرتا ہے اور تب کرتاہے جب ہمارے لیے فائدہ ہی فائدہ ہو۔ وہ علیم ہے، خبیر ہے، دعائیں سنتا ہے اور پوری بھی کرتا ہے۔ اُس کے ہاں سب کچھ ہے مگر ردی کی ٹوکری نہیں جس کی نذر ہماری التجائیں ہو جائیں۔ مقدس آگسٹین نے اس کے بارے میں یوں کہا ہے: ’’رب بھلائی ہی بھلائی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے جو ہم مانگتے ہیں، وہ نہیں دیتا، بل کہ وہ دیتا ہے جو ہمیں مانگنا چاہیے تھا‘‘۔ چناں چہ مقدسہ تریضا آف لیسیئو نے کہا تھا… ’’میری دعائیں قبول نہیں کرتے، نہ سہی۔ مَیں تو پہلے سے بھی زیادہ تم سے پیار کروں گی‘‘… خاص بات یہ ہے کہ خدا ہماری خواہشوں کو سدھار عطا کرتا ہے اور ہمارے ایمان، امید اور ہماری محبت میں گہرائی ودیعت کرتاہے۔ ہماری دعا میں کی گئی التماس کو موقع محل کی مناسبت میں ا س کے ہم آہنگ کرتے ہوئے ہمیں امن، سلامتی اور سکون کی اس دولت سے مالا مال کر دیتا ہے جو ہمارے تصور سے کہیں بالاتر ہوتی ہے۔
خداوند میں ہر وقت خوش رہو۔ پھر کہتا ہوں کہ خوش رہو۔ تمھاری نرم دلی سب آدمیوں پر ظاہر ہو۔ خداوند نزدیک ہے۔ کِسی بات کی فکر نہ کرو۔ بل کہ ہر ایک بات میں دُعا اور مِنّت سے شکرگزاری کے ساتھ تمھاری درخواستیں خدا کے حضور کی جایا کریں۔ اور خدا کی سلامتی جو ساری ، سمجھ سے باہر ہے تمھارے دِلوں اور تمھاری عقلوں کی مسیح یسوع میں نگہبانی کرے۔
فیلپیوں…4:4تا 7
بالآخِر ہم اِس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ آخر الامر حاجتوں کی پیش بینی کر کے انھیں پورا کرنے کے لیے ذرائع کی بھی الٰہی فراہمی اُس کا ربانی بھید ہی ہے یعنی سِرِّ ربِّ اکبر اور اس کی بے حد و حساب محبت کا راز۔ خدائی رزّاقی پر ایمان کے باوجود ہستی کے اَسرار کے اثرات کا ادراک ہمارے لیے سعیِ لاحاصل ہی رہتا ہے۔ نہ ہی ان بھیدوں کی شفافیت ہم پر کھلتی ہے۔ ہمارے لیے تو خداکے تدبر کی پرکھ پہچان، بصیرت و معرفت بھی اپنے بس سے باہر ہے۔ رب اِک گنجھلدار بجھارت، رب اک گورکھ دھندا ہی ہے ہمارے لیے، ہم عامیوں کے لیے۔ البتہ خاصوں کی بات دوسری ہے۔ ہمیں تو اس کی پروردگاری، رہبری و نگہبانی والے اوصاف کا بھی پورا شعور حاصل نہیں۔ خدائی کارسازی پر جو ہم پختہ عقیدہ رکھتے ہیں اس کے بل پر تو ہم یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکتے ہماری اپنی داستانِ حیات ہمارے سامنے شفاف و عیاں ہے ورنہ تو ہمیں پتا ہوتا ہم کِس حد تک اشرف المخلوقات ہیں، یوں اندھیروں اور آزمایشوں میں نہ گِھرے رہتے۔خصوصاً تاریخ کی رہنمائی جہاں تک ہو سکتی ہے ہمارا خدا ہماری نگاہوں سے اوجھل خدا ہے۔ خداے مستور!
یقینا تُو پُر راز خدا ہے۔
اسرائیل کا خُدا اور مخلص۔
اشعیا…(VGL15:45)
واہ! خدا کی دولت اور حکمت اور علم کِس قدر عمیق ہیں! اُس کی قضائیں کیا ہی بعید الادراک اور اُس کی راہیں کیا ہی بے نشان ہیں۔
کِس نے خدا کی عقل کو جانا ہے یا کون اُس کا مشیر ہوا ہے۔
رومیوں…34,33:11
جب فقط مذہبی نقطہء نظر سے دیکھیں تو الٰہی پروردگاری کا سمجھ سے بالاتر ہونا اتنی اچنبے کی بات نہیں لگتی کیوں کہ اس کے مفہوم کی گہرائی اور اس کا بعید از قیاس ہونا اپنی جگہ مگر یہ وہ بھید ہے جو یقین و اعتماد کی تحریک سے پیدا ہو کر ذہنوں میں اپنی جا بناتاہے۔ جب کہ وہ لوگ جو تقدیر پر اعتقاد رکھتے ہیں وہ جب اس کی تہہ میں اُترتے ہیں تو وہاں ایک بے معنی سا کھوکھلا پن اور بے اطمینانی ان کا منہ چِڑا رہی ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ لوگ جو نصیب کے قیدی نہیں بنتے اور ربّانی رزّاقی پر اعتقاد رکھتے ہیں وہ جب پروردگار کی پروردگاری کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تو اِس کوشش کے پہلے مرحلے میں ہی وہ مقدس باپ کی انمٹ محبت پا لیتے ہیں۔ بے شک ہمیں وہ بصیرت تو اتنی عطا نہیں کی گئی کہ ہم صحیح صحیح اندازے لگا سکیں کہ الٰہی انداز پروردگاری اور اس کی ہدایت کے کیا طریقے اور اندازِ عطا ہیں لیکن ہر بار جب ایسی علامات اور ایسے نشانات ہمارے سامنے آتے ہیں جن کا تعلق الٰہی توجہ، نگہبانی اور ہدایت سے ہوتا ہے تو ہر ایماندار مسیحی جھٹ اُنھیں پہچان لیتا ہے۔ ایمان کی توثیق ہو جاتی ہے اور عقیدے کو استقلال مِلتا ہے۔ اور ہم جان جاتے ہیں کہ خدا اِس سب کچھ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُن لوگوں کے تصرف میں دے دیتا ہے جو لوگ خدا سے محبت کرتے ہیں، جن کو رضاے خداوندی کی طرف سے الٰہی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے برسرِ عمل رہنے کی دعوت دی گئی ہے۔
اور ہم جانتے ہیں کہ سب چیزیں مِل کر اُن کے لیے جو خدا کو پیار کرتے ہیں بھلائی پیدا کرتی ہیں۔ یعنی ان کے لیے جو اُس کی تقدیر کے موافق بُلائے گئے ہیں۔
رومیوں…28:8
(Katholischer Erwachsenen-Katechismus, Vol 1: Das Glaubensbekenntnis der Kirche, p.102-106)
:سوال نمبر189
۔ تقدیر کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟ کیا ہماری زندگیوں کے سلسلے میں سب کچھ پہلے سے ہی طے شدہ ہے؟
جواب:
۔اپنی مخلوق پر خدا کی دیکھ بھال اور نگرانی پر ایمان پُختہ ہو تو اس کی تخلیق پر بھی حتمی عُمق اور اُس کے وجود کے متعلق سنجیدگی کا یقین ایمان کی حد تک پُختہ تر ہو جاتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ الٰہی رزّاقی پر ذاتی علم سے قطع نظر، دلائل و شواہد کی بنیاد پر ذِہنی قبولیت اور بھروسا قائم رکھنے کے لیے دُشواریوں کا مسلسل سامنا کرتے رہنا پڑتاہے۔ بار بار ہم ایسی صورتِ حالات میں اپنے آپ کو گِھرا محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں کہنا پڑتا ہے، آخر مجھ پر ہی کیوں ساری مصیبتیں ٹوٹ پڑیں؟ مَیں ہی کیوں نشانہ بنا؟ لوگ شکوہ سنج ہوتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، بِلبِلا اُٹھتے ہیں، ہمیشہ بڑبڑاتے رہے ہیں اور اب بھی ظالم و اندھی تقدیر کی بات کرتے ہیں، بُرے نصیبوں کا رونا روتے ہیں، قسمت کے رنگ نیارے بتاتے ہیں، خوش قسمتی کی آس رکھتے ہیں، تقدیر کیا ہے ؟ نہیں جانتے، مگر تقدیر کے لکھے کے تذکرے لے بیٹھتے ہیں۔کبھی کہتے ہیں فلاں کی قسمت کا ستارہ عروج پر ہے کبھی کہتے ہیں جوڑے تو آسمانوں پر بنتے ہیں، اکثر علمِ نجوم، فلکیات اور علم البروج کے پروفیسروں کے سامنے ہتھیلی پھیلائے بیٹھے ستاروں کی گردشوں کے ذریعے قسمت کا حال جاننے جا پہنچتے ہیں۔ کِسی کو قسمت کا دھنی سمجھتے ہیں، کِسی کے بارے میں قیاس کرتے ہیں کہ اس پر تقدیر بہت مہربان ہے، پانچوں گھی میں اور سر کڑاھی میں ہے۔ کبھی بتاتے ہیں کہ فلاں بچہ تو سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوا تھا ماں باپ کو بھاگ لگا دیے اور کِسی کو لکّی سٹار کے زیرِ اثر دیکھتے ہیں، کِسی کے ستارے اُنھیں چمکتے نظر آتے ہیں اور کِسی کے نحس۔ شعور، لا شعور یا تحت الشعور میں کئی لوگ اس اکیسویں صدی میں بھی وہ باقیات ہیں جو ضعیف الاعتقادی اور اوہام پرستی کے عفریتوں سے جان نہیں چھڑا پائے۔ اگلے زمانے کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو۔ یہ بیچارے آج بھی طلسمات، جادو ٹونے، منحوس نمبر مثلاً8,13، سعد گھڑی، منحوس گھڑی، اچھا شگون، بُرا شگون کے اس قدر قائل ہیں کہ منگل کے روز باہر نہیں نکلتے، کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو واپس مُڑ جاتے ہیں، گیدڑ سنگھیوں کی سیندور، شنگرف اور دُودھ سے تواضع کرتے رہتے ہیں۔ کِن کِن خرافات کے نام گِنوائیں ہم۔
کتابِ مقدس پورے وثوق سے بتاتی ہے کہ زندگی در حقیقت باقاعدہ ایک نظم میں مربوط ہے جو عالمِ انسانیت پر ایک مقتدرہ طاقت کی طرح حاوی ہے۔ یہ بے نام سی، مجہول و گم نام طاقت نہیں جسے تقدیر کا نام دیا جا سکے، بل کہ اس طاقت کی حکمرانی خدا ذوالجلال کی راہ نمائی کے تابع ہے۔ مقدس عہد نامہء قدیم میں پہلے ہی ذکر آ چکا ہے کہ ایسے بعض افراد گذرے ہیں جنھیں الٰہی رہبری حاصل تھی مثلاً مصری یوسف، موسیٰ نبی کہ خدا کی نگہبانی و کرم گستری سے اُسے نیل میں راستہ دیا گیا اور خدا اُسے اور اُس کی اُمت کو ڈوبنے سے اور دُشمنوں کے تعاقب سے صاف بچا لایا۔ طوبیاہ نبی(Tobias)جس کے سفر میں خدا نے اپنا ایک فرشتہ اُس کا ساتھی بنا دیا۔ اس رہبری و ہدایت کا اظہار انتہائی معقول انداز میں مزامیر مقدس میں یوں کِیا گیا ہے:
خداوند میرا چوپان ہے، مجھے کوئی کمی نہیں۔
وہ مجھے ہری ہری چراگاہوں میں بٹھاتا ہے۔
وہ مجھے راحت کی ندیوں کے پاس لے جاتا ہے۔
وہ میری جان کو بحال کرتا ہے۔
وہ مجھے اپنے نام کی خاطر
سیدھی راہوں پر لے چلتا ہے،
اگرچہ مَیں تاریکی کی وادی میں گزروں۔
مَیں کِسی آفت سے نہ ڈروں گا، کیوں کہ تُو میرے ساتھ ہے۔
تیرا عصا اور تیری لاٹھی
یہ میری تسلّی کا باعث ہیں۔
مزمور…1:(23)22تا4
ایسا ہی مضمون مزمور(91)90میں مذکور ہے جو حمدیہ گیت ہے… ’’خدا کی حفاظت میں محفوظ‘‘: وہ جو ربِّ اکبر کی پناہ میں مگن رہتا ہے۔ [مزمور (91)90]۔ دوسری صدی قبل مسیح میں سلیمان بادشاہ کی شخصیت میں یونانی زبان میں لکھی گئی مقدس کتابِ حکمت تمام مخلوق کے لیے الٰہی پروردگاری پر گواہی دیتی ہے۔
مالکِ کُل کِسی کو مستثنیٰ نہ کرے گا اور نہ کِسی عظمت سے ڈرے گا کیوں کہ چھوٹوں اور بڑوں دونوں کو اُسی نے بنایا اور اُس کی مہربانی سب پر یکساں ہے۔
حکمت…7:6
مقدس خداوند یسوع مسیح نے بارہا خصوصی طور پر واضح کِیا کہ اس کی حیات، اس حیاتِ ارضی میں دِینی خدمت کی انجام دہی اور اُس کی اِس جہانِ فانی میں موت مطلق مشیّتِ ایزدی پر مشتمل و منحصر ہیں۔ اس لیے اس نے ہمیں بچوں ایسے اخلاص و معصومیت بھرے اعتماد کی ہی تحریک دی۔
اس لیے مَیں تم سے کہتا ہوں۔ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پییں گے اور نہ اپنے بدن کی کہ ہم کیا پہنیں گے۔ کیاجان خوراک سے اور بدن پوشاک سے زیادہ بہتر نہیں؟ آسمان کے پرندوں کو دیکھو، کہ نہ وہ بوتے نہ کاٹتے، نہ کھتّوں میں جمع کرتے ہیں، تو بھی تمھارا آسمانی باپ اُن کی پرورش کرتا ہے۔ کیا تم اُن سے زیادہ قدر نہیں رکھتے؟
مقدس متی…26,25:6
اس لیے فکر مند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پییں گے یا کیا پہنیں گے، کیوں کہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں۔ اور تمھارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم اِن سب چیزوں کے محتاج ہو۔
مقدس متی…32,31:6
اور اِس حوالے پر بھی غور کیجیے:
اِس لیے اُن سے مت ڈرو کیوں کہ کوئی چیز ڈھپی نہیں جو کھولی نہ جائے گی اور نہ چِھپی ہے جو جانی نہ جائے گی۔ جو کچھ مَیں تمھیں اندھیرے میں کہتا ہوں اُجالے میں کہو۔ او رجو کچھ تم کان میں سُنتے ہو، کوٹھوں پر اُس کی منادی کرو اور اُن سے مت ڈرو جو بدن کو قتل کرتے ہیں پر جان کو قتل نہیں کر سکتے بل کہ اُسی سے ڈرو جو جان اور بدن دونوں کوجہنّم میں ہلاک کر سکتا ہے۔ کیا پیسے کی دو چِڑیاں نہیں بِکتیں؟ اور ان میں سے ایک بھی تمھارے باپ کی مرضی کے بغیر زمین پر نہیں گِرتی، بل کہ تمھارے سر کے بال بھی سب گِنے ہوئے ہیں۔ پس مت ڈرو۔ تم بہت چڑیوں سے زیادہ قدر رکھتے ہو۔
مقدس متی…26:10تا 31
انجیلِ مقدس میں خداوند اقدس یسوع المسیح کی اس دعوت، اس پیغام، اس منادی کو یوں سمویا گیا ہے:
…اور اپنی ساری فکر اُس پر ڈال دو کیوں کہ اُس کو تمھاری فکر ہے۔
1۔ پطرس…7:5
آئیڈیل نظم سے منسوب یہ دلکش خیالات ایسے لوگوں کے نہیں جو نیک و پارسا تو ہیں مگر دنیا و مافیہا سے بے نیازی کا رویہ اختیار کر چکے ہیں ، بل کہ پروردگارِ عالم کی الوہی صفت رزّاقی پر ایمان کا تو بائبل مقدس میں ذکر اس ذیل میں آیا ہے جس کا تعلق ذاتِ قدسی کے ان تمام تر الٰہی منصوبوں سے ہے جو نجاتِ خلقت کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے خدا قادرِ مطلق نے عالمِ انسانیت کی رُشد و ہدایت درجہ بہ درجہ مختلف طریقوں سے انجام فرمائی ہے۔ مثلاً نبی نوح سے اپنا پیمان پورا کر کے، نبی ابراہیم سے وعدہ نبھا کے، نبی موسیٰ کی رہنمائی اور مدد فرما کے اور نبی داؤد بادشاہ سے میثاق کی تکمیل کے ذریعے۔ اور پھر خداوند یسوع میں نئے عہد کے ساتھ جو روزِ آخر تک واثق ہے۔ روح القدس میں بھی وہ کلیسیا کا راہ نما و راہبر ہے تا کہ کل عالم پر محیط خدا کی بادشاہی اُس کے ذریعے قائم ہو۔ پروردگاری کے خاص افعال مخصوص ہیں انفرادی طور پر ہر انسان کی مخلصی کے لیے جو خدا کے جامع منصوبہ ہاے نجات کے طفیل بالآخر مکتی پائے گا۔ خداوند یسوع مسیح کا کلیدی کلام پروردگار پر اس کے یقین کی وضاحت کرتا ہے:
بل کہ تم اُس کی بادشاہی اور راستی کو ڈھونڈو۔ تو یہ سب چیزیں بھی تمھیں دی جائیں گی۔
مقدس متی…33:6
یہ محض سیدھی سادی خوش اُمیدی نہیں بل کہ مفہوم و مطلب یہ ہے کہ اپنی زندگیوںکو خدا پر فوکس رکھتے ہوئے تمام تر توجہ اور ساری تگ و دو خدا کی بادشاہی کے قیام پر مرکوز کر دی جائے، تب کہیں جا کے ہمارے ارد گرد کا ماحول، دنیا اوردنیا کے رنگ ڈھنگ، طور طریقے تبدیل ہو کر ہمارے حسبِ حال و حسبِ مُراد ہو سکیں گے۔
خدائی ربانیت پر یقین و اعتماد کا اظہار یوں ہوتا ہے کہ بے پناہ مخلوق اور خدا کے ارادے اور جامع نجات بخش منصوبے فرد فرد کے لیے الگ الگ ترتیب دیے گئے ہیں۔ بلا شبہ، تخلیق کا مقصد اور تاریخ کا دائرئہ کار ہر فرد بشر میں فیصل ہو رہا ہے۔ چناں چہ الٰہی پروردگاری کو سمجھنے میں ٹھوکر نہیں کھانی چاہیے اور یہ کج فہمی دُور کر لی جانا چاہیے کہ جیسے یہ تو لوگوں کی خواہشوں، تمنائوں، ان کی آرزوؤں، آس امیدوں سے صَرفِ نظر کرنے والے منصوبے ہیں۔ جب کہ ان کا انحصار تو بندے کی اپنی آمادگی اور تعاون پر ہے کہ وہ اپنے آپ کو باری تعالیٰ کی نگرانی اور دیکھ بھال میں کامل اعتماد کے ساتھ سپرد کر دے۔ قادرِ مطلق، خداے لم یزال پر یقین اور بھروسا ہونا چاہیے۔ اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتاہے، پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔ نیت یہ ہونی چاہیے…
سپردم بتومایہء خویش را
تُو دانی حسابِ کم و بیش را
اس کے کرم کی امید اس انکسار اور عاجزی کے ساتھ شرطِ اوّل ہے…
جے مَیں ویکھاں اپنے عملاں وَلے ، کجھ نہیں میرے پلّے
جے مَیں ویکھاں تیری رحمت ولے ، بَلّے بَلّے بَلّے!
خدا تعالیٰ کی مرضی و منشا پر انسان جتنا بھروسا کرتا ہے اور مشیّتِ ایزدی سے جس قدر بھی زیادہ خیر کی امیدیں وابستہ کر لیتا ہے اور اپنا لائف سٹائل وہ بنالیتا ہے جو آقا و مولا کو پسند ہو، زندگی بے بندگی شرمندگی کو ہر دم سامنے رکھتے ہوئے خدا کا اطاعت شعار جب بن جاتا ہے تو مقدر اُس کا ساتھ دینے لگتا ہے۔ قسمت اُس پر مہربان ہو جاتی ہے۔ اس کے نصیب بدل جاتے ہیں۔ اللہ راضی تو سب راضی۔ حالات و واقعات کی مشکلات دُور ہو جاتی ہیں، کل تک جو کچھ اجنبیت میں لپٹا تھا، آج کھُل کے اپنا اپنا سا ہو جاتا ہے۔ قدرت کے کرشمے نرالے!! خدا مہربان تو کُل جگ مہربان۔ اُس شانوں والے کے خاص الوہی انداز ہیں۔ اس کی رحمتوں اور عنایات کی برابری نہ کوئی کر سکا، نہ کر سکتا ہے، نہ کبھی کوئی کر سکے گا۔ وہ اپنے مومن بندوں پر کائنات لُٹا دے تو اس کو کوئی فرق نہ پڑے گا وہ کئی کائناتیں اپنے ایک ہی کلمہ سے جھَٹ پیدا کرلے گا۔ مگر سب سے بڑی اس کی نعمت، اعلیٰ ترین انعام، بہترین سوغات مقدس خداوند یسوع مسیح کی محبت ہے جس کا کوئی بدل نہیں، جو مِل جائے تو پھر زِنہار چِھن نہیں سکتی۔ پاک خداوند یسوع کی طرح اُس کی محبت بھی امر ہے۔
پس، کون ہم کو مسیح کی محبت سے جُدا کرے گا؟ مصیبت یا تنگی یا ظلم یا قحط یا عریانی یا خطرہ یا تلوار؟
رومیوں…35:8
اور میرے نزدیک تویہ جو فی زمانہ ہمیں مصائب، مشکلات، آلام، حق تلفیوں، دہشت گردیوں، شدت پسندیوں اور بے انصافیوں کا سامنا ہے، یہ سب اس کے سامنے ہیچ ہیں جو شان، جلال، عنایت و ستایش ہم مسیحیوں کا مقدر بنایا جا چکا ہے جب ہم خداوند یسوع پاک کے جِلو میں ابدی زندگی میں داخل ہوں گے۔
کیوں کہ میری سمجھ میں اِس زمانہ کے دُکھ درد، اِس لائق نہیں ہیں کہ اُس جلال سے جو ہم پر ظاہر ہونے والا ہے مقابلہ کر سکیں۔
رومیوں…18:8
درباطن خداکی ربوبیت جو ہر ذِی روح پر محیط ہے وہ جڑی ہوئی ہے آزادیِ انساں سے اور اس کا اصل اظہار ہوتا ہے شفاعتی دُعا میں۔ انسان کا اپنے لیے سفارش و شفاعت کے لیے ملجتی ہو سکنے کا اِذنِ خداوندی ظاہر کرتا ہے کہ اُسے خدا تک براہِ راست وسیلے سے بھی اور براہِ راست بھی رسائی حاصل ہے۔ اُسے یقین ہے کہ شفاعت سے اس کا بیڑا پار ہو جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ خدا کو جب پکارو، وہ سُنتا ہے، اپنے بندوں پر توجہ دیتا ہے، ان کی فریاد پر مائل بہ کرم ہوتا ہے اور اپنے عاجز بندوں کو اپنی قبولیت میں لے لیتا ہے۔ اس لیے عاجزی و انکساری کے ساتھ التجائیں کرنا، مقدس خداوند یسوع مسیح سے روح القدس میں شفاعت کی باری تعالیٰ کے حضور اپنے لیے خیرات مانگنا بندے کی شان گھٹا کے اُسے فِدوی نہیں بنا دیتا بل کہ اُس کے سامنے جو جتنا جھکے وہ اُسے اُتنا ہی بلند کر دیتا ہے۔ وہ رافع ہے دوسروں کو بھی رفعتیں عطا کرتا ہے۔ خدا کے منصوبوں میں تو شفاعت کو دوام حاصل ہے۔ وہ زبردست پالنہار ہے، مانگنے والے کو اس سے بھی سوا دیتا ہے۔ وہ سخیوں کا سخی بادشاہ ہے۔ جب دیتا ہے بے حساب دیتا ہے، رزق میں کٹوتیاں نہیں کرتا۔ دعا کرتے سمے جب بندہ اپنی حالتِ زار کا نقشہ اُس کے سامنے کھینچتا ہے، اُسے یقین ہونا چاہیے کہ اس کی آہیں اُس تک پہنچ رہی ہیں، اس کازار و قطار رونا وہ دیکھ رہا ہے، اس کا لفظ لفظ وہ سُن رہا ہے۔ وہی وقت ہوتا ہے جب اس کا رحم و کرم بیتاب ہو کر دعا مانگنے والے کو دان ہو جانے میں دیر نہیں کرتا۔ وہ سب کی سنتا ہے، سب کی مُرادیں پوری کرتاہے، ان کی جو بھی بِن مانگے پاتے ہیں، اُسے مانیں یا نہ مانیں، تخلیق تو اُسی کی ہیں نا۔ اپنی مخلوق سے اُسے پیار ہے، انمٹ پیار جو اُس کا احساس ہے جس کا بدلہ بھی نہیں چکایا جا سکتا۔ وہ لینے کا محتاج نہیں، دے کے خوش ہوتا ہے۔ بس انسان کو چاہیے اس کی رضا کے لیے اپنی کوششیں سدا جاری رکھے۔ خداوند یسوع مسیح کا فرمان ہے:
اس لیے مَیں تم سے کہتا ہوں کہ جو کچھ تم دُعا میں مانگتے ہو یقین رکھو کہ تم نے پا لیا ہے تو تم اُسے پائو گے۔
مقدس مرقس…24:11
مانگو تو تمھیں دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو تم پائو گے۔ کھٹکھٹاؤ تو تمھارے واسطے کھولا جائے گا۔
مقدس متی…7:7
اور جو کچھ تم ایمان کے ساتھ دُعا میں مانگو گے وہ سب تمھیں ملے گا۔
مقدس متی…22:21
پس، مَیں تم سے بھی کہتا ہوں۔ مانگو تو تمھیں دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پاؤ گے۔ کھٹکھٹائو تو تمھارے لیے کھولا جائے گا۔
مقدس لوقا…9:11
بہت سے لوگ اچنبے میں پڑے ہوتے ہیں کہ اگر خُدا ہر دُعا قبول کر لیتا ہے، تو اُن دُعائوں کا کیا کہہ سکتے ہیں جو بظاہر یا واقعی طور شاید اُس تک رسائی نہیں پاتیں، پاتی ہیں تو وہ اُنھیں رد کر دیتا ہے یا اُن کا کچھ بھی نہیں ہوتا جیسے راہ میں ہی گم ہو گئی ہیں، کوئی خواب نہیں مِلتا چاہے التجاؤں اور استدعاؤں کی بھرمار ہی کر دی جائے؟ … اب اِس کا کیا جواب دیا جا سکتا ہے، مشکل سوال ہے۔ لیکن مطمئن کرنے کے لیے اِتنا ہی کافی ہے کہ ہم مقدس خداوند یسوع مسیح کے ایک واضح فرمان سے استفادہ کریں۔
خداوند نے فرمایا ہے: خدا تو ہر دُعا کو ایجاب بخشتا ہے، اس سے کہِیں بڑھ کے جتنی ہم اُس سے اُمید رکھتے ہیں۔ اگر ہماری توقعات، آس اُمید سے ہٹ کے، ہمیں لگے کہ اُس نے تو ہماری سُنی ہی نہ، تو یہ ہماری خام خیالی ہو گی۔ ہماری تو دُعا اِس لیے فوری قبول نہیں ہوئی کہ جو ہم نے مانگا، اُس کا وقت ہی نہیں ہواتھا۔ ہمیں تو علم ہی نہیں مگر اُسے سب پتا ہے، وہ جانتا ہے کہ کب ہماری دُعا پوری ہو اور ہمیں اِس مانگے کا فائدہ ہو۔ اِس لیے دیر ہوئی، اندھیر نہ ہوا۔ ہم اندھیرے میں ہیں، وہ نُور ہی نُو رہے۔ وہ وہی کرتا ہے اور تب کرتاہے جب ہمارے لیے فائدہ ہی فائدہ ہو۔ وہ علیم ہے، خبیر ہے، دعائیں سنتا ہے اور پوری بھی کرتا ہے۔ اُس کے ہاں سب کچھ ہے مگر ردی کی ٹوکری نہیں جس کی نذر ہماری التجائیں ہو جائیں۔ مقدس آگسٹین نے اس کے بارے میں یوں کہا ہے: ’’رب بھلائی ہی بھلائی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے جو ہم مانگتے ہیں، وہ نہیں دیتا، بل کہ وہ دیتا ہے جو ہمیں مانگنا چاہیے تھا‘‘۔ چناں چہ مقدسہ تریضا آف لیسیئو نے کہا تھا… ’’میری دعائیں قبول نہیں کرتے، نہ سہی۔ مَیں تو پہلے سے بھی زیادہ تم سے پیار کروں گی‘‘… خاص بات یہ ہے کہ خدا ہماری خواہشوں کو سدھار عطا کرتا ہے اور ہمارے ایمان، امید اور ہماری محبت میں گہرائی ودیعت کرتاہے۔ ہماری دعا میں کی گئی التماس کو موقع محل کی مناسبت میں ا س کے ہم آہنگ کرتے ہوئے ہمیں امن، سلامتی اور سکون کی اس دولت سے مالا مال کر دیتا ہے جو ہمارے تصور سے کہیں بالاتر ہوتی ہے۔
خداوند میں ہر وقت خوش رہو۔ پھر کہتا ہوں کہ خوش رہو۔ تمھاری نرم دلی سب آدمیوں پر ظاہر ہو۔ خداوند نزدیک ہے۔ کِسی بات کی فکر نہ کرو۔ بل کہ ہر ایک بات میں دُعا اور مِنّت سے شکرگزاری کے ساتھ تمھاری درخواستیں خدا کے حضور کی جایا کریں۔ اور خدا کی سلامتی جو ساری ، سمجھ سے باہر ہے تمھارے دِلوں اور تمھاری عقلوں کی مسیح یسوع میں نگہبانی کرے۔
فیلپیوں…4:4تا 7
بالآخِر ہم اِس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ آخر الامر حاجتوں کی پیش بینی کر کے انھیں پورا کرنے کے لیے ذرائع کی بھی الٰہی فراہمی اُس کا ربانی بھید ہی ہے یعنی سِرِّ ربِّ اکبر اور اس کی بے حد و حساب محبت کا راز۔ خدائی رزّاقی پر ایمان کے باوجود ہستی کے اَسرار کے اثرات کا ادراک ہمارے لیے سعیِ لاحاصل ہی رہتا ہے۔ نہ ہی ان بھیدوں کی شفافیت ہم پر کھلتی ہے۔ ہمارے لیے تو خداکے تدبر کی پرکھ پہچان، بصیرت و معرفت بھی اپنے بس سے باہر ہے۔ رب اِک گنجھلدار بجھارت، رب اک گورکھ دھندا ہی ہے ہمارے لیے، ہم عامیوں کے لیے۔ البتہ خاصوں کی بات دوسری ہے۔ ہمیں تو اس کی پروردگاری، رہبری و نگہبانی والے اوصاف کا بھی پورا شعور حاصل نہیں۔ خدائی کارسازی پر جو ہم پختہ عقیدہ رکھتے ہیں اس کے بل پر تو ہم یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکتے ہماری اپنی داستانِ حیات ہمارے سامنے شفاف و عیاں ہے ورنہ تو ہمیں پتا ہوتا ہم کِس حد تک اشرف المخلوقات ہیں، یوں اندھیروں اور آزمایشوں میں نہ گِھرے رہتے۔خصوصاً تاریخ کی رہنمائی جہاں تک ہو سکتی ہے ہمارا خدا ہماری نگاہوں سے اوجھل خدا ہے۔ خداے مستور!
یقینا تُو پُر راز خدا ہے۔
اسرائیل کا خُدا اور مخلص۔
اشعیا…(VGL15:45)
واہ! خدا کی دولت اور حکمت اور علم کِس قدر عمیق ہیں! اُس کی قضائیں کیا ہی بعید الادراک اور اُس کی راہیں کیا ہی بے نشان ہیں۔
کِس نے خدا کی عقل کو جانا ہے یا کون اُس کا مشیر ہوا ہے۔
رومیوں…34,33:11
جب فقط مذہبی نقطہء نظر سے دیکھیں تو الٰہی پروردگاری کا سمجھ سے بالاتر ہونا اتنی اچنبے کی بات نہیں لگتی کیوں کہ اس کے مفہوم کی گہرائی اور اس کا بعید از قیاس ہونا اپنی جگہ مگر یہ وہ بھید ہے جو یقین و اعتماد کی تحریک سے پیدا ہو کر ذہنوں میں اپنی جا بناتاہے۔ جب کہ وہ لوگ جو تقدیر پر اعتقاد رکھتے ہیں وہ جب اس کی تہہ میں اُترتے ہیں تو وہاں ایک بے معنی سا کھوکھلا پن اور بے اطمینانی ان کا منہ چِڑا رہی ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ لوگ جو نصیب کے قیدی نہیں بنتے اور ربّانی رزّاقی پر اعتقاد رکھتے ہیں وہ جب پروردگار کی پروردگاری کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تو اِس کوشش کے پہلے مرحلے میں ہی وہ مقدس باپ کی انمٹ محبت پا لیتے ہیں۔ بے شک ہمیں وہ بصیرت تو اتنی عطا نہیں کی گئی کہ ہم صحیح صحیح اندازے لگا سکیں کہ الٰہی انداز پروردگاری اور اس کی ہدایت کے کیا طریقے اور اندازِ عطا ہیں لیکن ہر بار جب ایسی علامات اور ایسے نشانات ہمارے سامنے آتے ہیں جن کا تعلق الٰہی توجہ، نگہبانی اور ہدایت سے ہوتا ہے تو ہر ایماندار مسیحی جھٹ اُنھیں پہچان لیتا ہے۔ ایمان کی توثیق ہو جاتی ہے اور عقیدے کو استقلال مِلتا ہے۔ اور ہم جان جاتے ہیں کہ خدا اِس سب کچھ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُن لوگوں کے تصرف میں دے دیتا ہے جو لوگ خدا سے محبت کرتے ہیں، جن کو رضاے خداوندی کی طرف سے الٰہی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے برسرِ عمل رہنے کی دعوت دی گئی ہے۔
اور ہم جانتے ہیں کہ سب چیزیں مِل کر اُن کے لیے جو خدا کو پیار کرتے ہیں بھلائی پیدا کرتی ہیں۔ یعنی ان کے لیے جو اُس کی تقدیر کے موافق بُلائے گئے ہیں۔
رومیوں…28:8
(Katholischer Erwachsenen-Katechismus, Vol 1: Das Glaubensbekenntnis der Kirche, p.102-106)