:سوال نمبر180
۔ اگر مقدس نیا عہد نامہ چاروں اناجیلِ پاک پر موقوف ہے تو پرانا عہد نامہ مؤثق نہیں رہا کیا؟ بہ الفاظِ دیگر مذہبِ یہود کو ہم کالعدم قرار دے سکتے ہیں؟ کلامِ مقدس کے تو زیادہ صفحات عہدِ عتیق سے بھرے پڑے ہیں۔
جواب:
۔ ایوینجیلیئم، گوسپیل، انجیلِ مقدس سے اوّلین مراد ہوتی ہے مبارک خوشخبری، پُرتقدیس بشارت جو مسیحِ مسعود کی آمد آمد کی نوید ہے۔ (المسیح…ممسوح، یونانی زبان میں کرسٹؤس یعنی مقدس خداوند یسوع مسیح)۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے خوش خبری، بشارتِ حکومتِ الٰہی کا نزول، جس کی منادی خود خداوند پاک نے کی اور اسی کے نام سے، اسی کی نسبت سے مقدس کلیسیا بھی اس کی پرچارک اور مبشر ہے۔نئے عہد نامہ (بائبل مقدس کے عہدِ جدید) کی چاروں مقدس اناجیل کے مبلغ، مبشر، انجیل نویس رُسُلِ مقدسین متی، مرقس، لوقا اور یوحنا اصطباغی نے خداوند یسوع کی حیاتِ مبارک کی روشنی میں بشارتِ ورودِ مسیح کی منادی کا فرض نبھایا ہے۔ ایسا بھی ہے کہ سارے کے سارے عہد نامہ جدید میں دیا گیا پیغام خداوند، خوش خبری (انجیلِ پاک) کہلاتا ہے۔ موسوی مذہب اورمسیحیت میں جو رِشتہ ہے اس کے بارے میں سیکنڈ ویٹی کن کونسل 1965عیسوی نے مندرجہ ذیل اصولی مؤقف کا اظہار نوسترا ایتاتے نمبر4(دیگر مذاہب کے ساتھ کلیسیا کے تعلقات، اعلان نمبر4) میں کر دیا ہے۔
مذہبِ یہود
4۔ جیسا کہ اقدس Synod یعنی کلیسیائی مجلس (کلیسیائی محترم نمایندوں کا کلیسیائی امور کے لیے مشاورتی اجلاس)اسرارِ کلیسیا کی کھوج میں رہتی ہے، اس کے پیشِ نظر ہمیشہ یہ مدعا اُجاگر رہتا ہے کہ اس بندھن،اس تعلق کو استقلال بخشنا اس کی ذمہ داری ہے جس میں تجدید یافتہ عہد پر قائم مسیحیوں کو نسلِ ابراہیمی کے ساتھ کلیسیائی اور روحانی طور بندھے رکھنا ہے۔
اس طرح خداوند یسوع مسیح کی کلیسیا تسلیم کرتی ہے کہ الٰہی نجات بخش مشیت کے باوصف کلیسیا کے عقائد، اس کے انتخابات کی اساس و سراغ، اسلاف، ابتدائی بزرگوں، بنی موسیٰ اور دوسرے انبیا میں موجود ہے۔
کلیسیا کو اعتراف ہے کہ مذہبِ مسیحی کے طفیل جن لوگوں کا عقیدہ و یقین خداوند مسیح اور نبی ابرہام کے بیٹوں اسحق، یعقوب اور اس کے بارہ بیٹوں میں پختہ ہے(6) وہ ان طریقوں سے کی، کلیسیائی بزرگوں کی بلاہٹ میں شراکت پانے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح کلیسیا یہ بھی اقرار کرتی ہے کہ کلیسیا کی مخلصی کے لیے پُراسراری کے ساتھ مصر سے برگزیدہ قوم بنی اسرائیل کے خروج یعنی غلامی کی سرزمین سے آزادی کی طرف روانگی ہی کا پیش خیمہ بن چکی ہے۔ چناں چہ کلیسیا یہ فراموش نہیں کر سکتی کہ اسے عہد نامہء قدیم کا مکاشفہ، اظہارِ عام، ملا تو ملا اس قوم سے جس کے ساتھ خدا ذوالجلال نے اپنی ناممکن البیان الٰہی رحمت سے قدیمی میثاق واثق و راسخ کِیا تھا۔ نہ ہی کلیسیا یہ بھُلا سکتی ہے کہ اس کو بقاے دوام ملی تو ملی اُس جڑ سے جس کے طفیل اس زیتون کے درخت نے نشوونما اور اُٹھان پائی جس پر ان شاخوں کے پیوند (قلمیں) لگے جنھیں جینٹائلز (غیر یہودی، غیر اقوام) کہا جاتا ہے(7) بلا شبہ کلیسیا یقین رکھتی ہے اپنی صلیب کے ناتے مقدس خداوند یسوع مسیح، ہمارے امن کے شہزادے نے یہودیوں اور غیر یہودیوں، سب کے ساتھ مصالحت کی روش اپنائی اور پاک خداوند میں سب ایک ہو گئے(8)۔
کلیسیا کے ذہن پر نقش ہے وہ کلام جو مقدس رسول نے اپنے خونی رشتے کے لوگوں، برادری، قرابت داروں کے ضمن میں ادا کیا:
وہ اسرائیلی ہیں تبنیت کا حق اور جلال اور عُہُود اور شریعت کا دیا جانا اور عبادت اور وُعُود اُنہی کے ہیں۔ آبا اُن ہی کے ہیں اور بشریت کی نسبت المسیح بھی اُن ہی میں سے ہوا جو سب کے اُوپر ابد تک خداے محمود ہے۔ آمین!
رومیوں…5,4:9
وہی مقدسہ کنواری مریم کا بیٹا ہے۔
کلیسیا کیسے بھول سکتی ہے سب رسول وہ مقدسین، اہم ترین ہستیاں جن پر کلیسیا کا اپنا سارا دارومدار ہے اور جو شروع زمانہ میں شاگردانِ مسیح ہوئے اور دنیا بھر میں خداوند کی انجیل کی منادی کرتے پھرے، وہ بھی تو سب کے سب یہودی النسل ہی تھے، مسیحی تو بعد میں بنے۔
جیسا کہ کتابِ مقدس تصدیق کرتی ہے، صفحہء ہستی پر اس کی آمد کا اندراج یروشلم نے کبھی قبول نہیں کِیا،(9) نہ ہی یہودیوں کی اکثریت نے انجیلِ مقدس کی صداقت کو تسلیم کِیا۔ بالکل ہی چند ایک تھے جنھوں نے کلامِ مقدس کی ترویج کی مخالفت نہ کی۔(10) اس کے باوجود، خدا تعالیٰ ان کے آبا کے صدقے یہودیوں کو بہت عزیز رکھتا ہے۔ اس نے بے شمار نعمتوں سے انھیں نوازا، اس پر اسے کوئی ملال نہیں۔ اور ان کے لیے جو فرامین اس نے نازل کیے، ان کی اطاعت کی گئی یا نافرمانی، اس پر بھی اس نے اغماض ہی برتا۔ اس پر رسول گواہ ہے۔(11) اسی رسول اور دوسرے نبیوں کے ساتھ، کلیسیا اس دن کی منتظر ہے، جو پتا نہیں کب آئے، ا س کے آنے کا خدا جلیل و عظیم کو ہی علم ہے، جب بھی وہ موعودہ دِن آئے گا اور ضرور آئے گا جب تمام خلقت یک زبان ہو کر پکار اُٹھے گی ہمارا ہے یسوع مسیح، پاک خداوند، مکتی داتا…سب شانہ بہ شانہ اس کی بارگاہ میں دو زانو ہوں گے:
یقینا مَیں اس روز امتوں کے ہونٹ پاک کر دوں گا تا کہ وہ سب کے سب خداوند کا نام لیں۔ اور ایک ہی شانے سے اس کی عبادت کریں۔
صفن یاہ…9:3
مسیحیوں اور یہودیوں کا روحانی ترکہ مشترکہ ہونا اتنی امید افزا صورتِ حالات ہے کہ مبارک کلیسیائی مجلس نے خاص طور پر اس پر غور و خوض کِیا اور باہمی افہام و تفہیم اور قدر و احترام کے لیے فضا سازگار بنانے کی پُرزور سفارش کی اور سچ جانیے، یہ پھل ہے بائبلی اور دینی، الٰہیات کے مطالعہ اور درس و تدریس کا، جس کا نتیجہ ہو سکتا ہے برادرانہ، دوستانہ ماحول میں مکالمہ اور بھائی چارے کی ابتدا اور اس میں دائمی استحکام۔
بہ ہرحال یہ اپنی جگہ ایک حقیقت رہی ہے کہ یہودی اربابِ اختیار اور جن کے وہ پیشرو ہوتے ہیں، من حیث القوم بھی، سب کے سب خداوند یسوع مسیح کی موت، اس کے اسباب و علل کو موضوع بنا کر سارا زور اسی پر صرف کرتے رہے ہیں۔(13) اس کے باوجود، اب وہ وقت ہے کہ خداوند یسوع پاک کے دُکھوں، مصیبتوں، اس پر ڈھائے گئے مصائب و ستم اور اس کی اذیتوں کا ذمہ دار تمام اسرائیلیوں کو نہیںبنایاجا سکتا، ماضی کی تلخیاں بحیرئہ روم میں غرق کر دینا چاہییں۔ اس وقت جو یہودزندہ تھے اور بلا امتیاز مانہء حال کے یہودیوں کو الزام دینے کے بجاے صلح و آشتی کی فضا میں مصالحت و خیر سگالی کے لیے اپنی اپنی مساعی کو تیز تر کر دینے کی ضرورت ہے تا کہ نسلِ انسانی کی فلاح، ترقی اور خوشحالی کے لیے مل جل کر اقدامات کو بامراد و کامیاب کِیا جا سکے۔
کلیسیا خدا کی نئی امت ہے، بے شک، مگر یہودیوں کو خدا کی رد کی ہوئی اور ملامت کردہ مخلوق پینٹ کرنا بھی سراسر زیادتی ہو گی، یہی صحائفِ مقدسہ اور نوشتہ جات تعلیم دیتے ہیں۔ سب کو اس کا نوٹس لینا چاہیے، مسیحی تعلیم و تعلم سے متعلقہ فرائض کی ادائی اور کلامِ خداے پُرجلال یعنی بائبل مقدس کی تبلیغ کے دوران محتاط روش اختیار کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ایسی کوئی بات مسیحی تعلیم و تربیت کا حصہ نہیں بننی چاہیے جو انجیلِ مقدس کی صداقتوں سے لگّا نہ کھائے اور روحِ مسیحیت کی صحیح ترجمانی سے گریز پا ہو۔ مقدس خداوند یسوع مسیح فقط مسیحیوں کے لیے ہی نہیں فلک سے اُترا تھا، سب انسانوں کے لیے آیا اور دوبارہ آئے گا، یقینا۔
مزید برآں یہ کہ کلیسیا ستانے، ستمگری، ایذا رسانی اور ظلم و عقوبت سے کِسی بھی ذی بشر کو دوچار کرنے کی مذمت کرتے ہوئے ایسے افعال کو رد کرتی ہے۔ مقدس کلیسیا اپنی میراث کے لحاظ سے بہت محتاط رہتے ہوئے ادراک رکھتی ہے کہ اس میں وہ یہودیت کے ساتھ برابر کی شریک ہے، دونوں قومیں ایک ہی مذہبی ورثہ کی مالک ہیں، اور اس کا اقبال وہ کِسی سیاسی نقطہء نظر سے نہیں کرتی، بائبل مقدس کی روحانی محبت میں کرتی ہے، نفرتوں کی تحقیر کرتی اور اسے ملامت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہے۔ اذیت رسانیوں اور دوسروں کو جسمانی و ذہنی تکلیفیںپہنچانے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ یہودیت کی مخالفت کے نظریہ کی نفی کرتی ہے، یہودیوں کے خلاف ریشہ دوانیوں، عناد اور مخالفتوں کی جب بھی، کہِیں سے بھی کوئی تحریک اُٹھے اس کی حمایت نہیں بل کہ کلیسیا اس کی مذمت کرتی ہے۔ کلیسیا کا ہمیشہ سے ہی یہی مؤقف رہا ہے کہ اپنے اوپر کی گئی سختیوں، اذیتوں کو اس نے اپنی مشیتِ خداوندی سے خودہی موت سمیت قبول کِیا تھا لوگوں کے، مسیحیوں کے گناہوں کا کفارہ ا دا کرنے کے لیے اور ایسا اس نے انسانوں کے لیے اپنی لامحدود محبت کے پیشِ نظر ہی کِیاتا کہ سب کے لیے اس کی قربانی سے مکتی کا سامان ہو جائے۔ چناں چہ یہ اب کلیسیا کی ذمہ داری ہے کہ تبلیغ کے لیے موضوع بنائے مقدس خداوند یسوع مسیح کی صلیب کو، کہ وہ خداوند قدوس کی سب پر نچھاور کی جانے والی انمٹ محبت کا نشان اور وہ چشمہء اُلفت و کرم ہے جس میں سے اس کی نعمتیں اور فضل اور اس کی محبت اور حمایت و شفاعت کہ جس کا انسان حقدار نہ بھی ہو، پھر بھی خداوند کے تحفہء عظیم کے طور پر پھوار بن کے اس سے ٹپکتی رہتی ہے۔آسمانوں پر خداوند کو جلال اور اس کی تمجید ہو! آمین!
انسانوں میں افزایشِ عالمگیر اخوت
(The Universal Brotherhood of Man)
5۔ انسان کہ ربِّ کائنات کا ہی عکس ہے، اس سے برادرانہ سلوک سے اگر ہم احتراز کریں، خدا کی مخلوق کے اس حق کو تسلیم نہ کریں تو ہمیں بھی حق نہیں پہنچتا کہ ربِّ اکبر کا نام لے کر اس کی مہربانیوں اور اس کے فضل کی یافت کی اس سے التجا کریں، وہ پروردگار تو سب کا باپ ہے اور ہم اس کے بچے۔ اس کی مشیت کے خلاف کام کِیا تو کون باپ اور کیسے بچے۔ خدا باپ سے انسان کا رِشتہ اور اس کی انسان اور اس کے بھائی بندوں سے قرابت، اتنی دو طرفہ اور مربوط ہے کہ بائبل مقدس میں اس کی واشگاف کلمات میں تصدیق آئی ہے:
جس میں محبت نہیں وہ خدا کو نہیں جانتا، کیوں کہ خدا محبت ہے۔
1۔ مقدس یوحنا…8:4
علمی، قیاسی، نظری غور و فکر اور کِسی بھی مداومت کی اصولی اساس ہی تلپٹ ہو جاتی ہے اگر انسان انسان میں فرق قائم کِیا جائے، قوم قوم میں تمیز روا رکھی جائے انسانی توقیر کے حساب سے۔ کیوں کہ انسانی حقوق کے تمام سوتے اسی عزت و عظمت اور احترامِ آدمیت کے چشمے سے پھوٹتے ہیں۔
کلیسیا سخت تنبیہ کرتی ہے کہ مقدس خداوند یسوع مسیح کا ذہنِ رسا اس سے قطعی مطابقت نہیں رکھتا کہ انسان انسانوں میں تفریق کے موجب و موجد بنیں اور ان میں ایذا دہی و ابتلا کو رواج دیں، خلقت کی تشویش کا سبب بنیں۔ اور نسل، رنگ، کِسی کی ابتر زندگی اور اس کے مذہب کو جواز بنا کے نفرتوں اور تعصب کو ہوا دیں، یہ سب غلط افعال ہیں اور مقدس خداوند کی رضا کے یکسر خلاف اعمال ہیں۔ مکافاتِ عمل کا پھر تو سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ اس کے برعکس، مقدسین پطرس اور پولوس رسول کی پیروی میں مقدس کلیسیائی مجلس بڑی شدت سے آرزومند ہے کہ مسیحی مومنین شد و مد سے قوموں اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ اخوت، بہترین رفاقت اور موافقت و مصالحت کے رِشتے قائم رکھیں…
اور غیر قوموں میں اپنا چلن نیک رکھو تا کہ جن باتوں کے سبب سے وہ تمھیں بدکار جان کر تمھاری بدگوئی کرتے ہیں تمھارے نیک کاموں پر دھیان کر کے اُس دِن جب اُن پر نگاہ ہو خدا کی تمجید کریں۔
1۔ مقدس پطرس…12:2
اور اس کو ممکن بنائیں کہ اپنے تئیں سب کے ساتھ پُرامن طور رہیں، سب میں محبتیں بانٹیں اور محبتیں پائیں، (14) اور ثابت کریں کہ تمام مسیحی واقعی حقدار ہیں کہ خدا باپ جو آسمانوں میں ہے اس کے سچے اور سُچّے فرزندِ ارجمند کہلائیں۔(15)
(28اکتوبر ۱1965عیسوی… اکتساب از www.vatican.va/archive/
hist_councils/ii_vatican_council/documents/vat-ii_decl_19651028_nostra-aetate-en.html)