:سوال نمبر175
۔اناجیلِ مقدس میں لکھا ہے: تمھیں چاہیے اپنے بھائی کو معاف کرو، ستتر ستتر دفعہ، سات مرتبہ۔
اس سے تو وہ شہ پاکے میرے خلاف گناہ کا جرم کرنے سے کبھی باز نہ آئے گا، کیا کہتے ہیں آپ؟
جواب:
۔انجیلِ پاک مقدس متی رسول کی مندرجہ ذیل آیات کے حوالے سے سوال کِیا گیا ہے:
تب پطرس نے پاس آ کر اُس سے کہا کہ اے خداوند کتنی دفعہ میرا بھائی میرا گناہ کرے اور مَیں اُسے معاف کروں۔ کیا سات دفعہ تک؟
یسوع نے اُس سے کہا، مَیں تجھ سے یہ نہیں کہتا کہ سات دفعہ بل کہ سات دفعہ کے ستّر بار تک۔
مقدس متی…22,21:18
صحیح قلبِ ماہیت وہی ہے اگر اپنے کیے پر تاسّف کے ساتھ سچے دِل سے کوئی توبہ کرے اور اس کا مصمم ارادہ بھی ہو کہ وہ اپنی اصلاح کر کے اپنے اندر تبدیلی لے آئے گا تا کہ آیندہ کِسی تقصیر کا مرتکب نہ ہو۔ یہ ہے سچی توبہ۔ جب کوئی کِسی کے خلاف پاپ کا ارتکاب کرتاہے، اسے مالی، ذِہنی یا جسمانی گزند پہنچاتا ہے تو ایسے ظاہر یا چھپے زخم جو کِسی کی ذات پر لگتے ہیں وہ محض توبہ سے مند مل نہیں ہو سکتے۔ نقصان کا پہیا اُلٹا گھمانا پڑتا ہے، قیمت چکانا پڑتی ہے، ممکنہ حد تک تلافی کرنا پڑتی ہے تب جان چھوٹے گی۔ جہاں تک مادّی و مالی نقصان پہنچائے جانے کی بات ہے اس کی تلافی قصوروار کے مالی وسائل سے ہی ممکن بنائی جائے گی تا کہ جس پر زیادتی کی گئی اس کا مالی نقصان پورا ہو جائے۔
جس کے خلاف خطا کا ارتکاب کِیا جائے اس کی ذات پر بہت گہرا گھاو لگتا ہے، ایسے گھاو اس کے اندر پلنے والے محبت کے جذبات کو بھی گھایل کر دیتے ہیں۔ انھیں دیس نکالا دے کر ان کی جگہ نفرت اور دُشمنی کے جذبے قبضہ جمانا شروع کر دیتے ہیں۔یہی اصل اور بہت بڑا نقصان ہے جو گنہگارشخص کِسی کو پہنچاتا ہے۔ محبت والے جذبات محبت بھری عنایات سے ہی بحال ہو سکتے ہیں۔ صدق دِلی سے معاف کر دینے کی التجائوں سے، عاجزانہ منت و زاری سے اور میل ملاپ، مصالحت کے لیے برادری، دوستوں اور دوسرے معززین کے جرگے اس کے درپر لے جانے سے جس کا دِل دُکھایا ہوتا ہے، اسے نقصان پہنچایا ہوتا ہے۔ ایسا نہ کِیا گیا تو بیشک پہنچائے گئے گزند کی آئی ایم سوری والی کتنی بھی لیپا پوتی کی جائے، اس سے پُوری نہیں پڑے گی، زخموں پر کھرنڈ آنے کے بجاے وہ نت تازگی پکڑنے لگیں گے اور ان سے خون رِستا رہے گا، مند مل کبھی نہ ہوں گے اور دوبارہ نقصان پہنچانے والے کے ساتھ محبت و احترام کا رِشتہ قائم نہ ہو سکے گا۔
یہ دیکھ لیں کہ گناہوں کی معافی، تبھی ممکن ہو سکتی ہے، عفوو درگذر نصیب ہو سکتا ہے جب اس معافی مانگنے کے عمل کو خلوصِ دِل کے ساتھ افسوس اور معاف کیے جانے کی درخواست کے ذریعے لجاجت کے ساتھ نیک نیتی سے روا رکھا جا رہا ہو۔ ہاں یہ معاف کر دینے والے کی بڑائی ہو گی کہ وہ معافی قبول کر لے۔
اور اگر وہ ایک دِن میں سات بار تیرا گناہ کرے اور سات بار تیرے پاس پھر آ کر کہے کہ مَیں توبہ کرتا ہوں تو اسے معاف کر۔
مقدس لوقا…4:17
اسے معاف کر دینا جسے اپنی غلط کاری پر پشیمانی نہیں، اس سے مصالحت دُور از کار عمل ہے۔ اگر اس کو معافی دے دی گئی، توبہ قبول کر لی گئی یہ تو اس کے گناہوں کو استقلال دینے والی حرکت کہلائے گی وہ شیر ہو جائے گا اور خطا پر خطا کرتا چلا جائے گا۔ وہی بات ہو جائے گی۔
جامِ مے توبہ شکن ، توبہ مری جام شکن
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
اس کے باوجود، صلہ رحمی یہی ہے کہ جس کے خلاف گناہ کا، زیادتی کا ارتکاب کِیا گیا وہ اس انتظار میں نہ بیٹھا رہے کہ اس کا گنہگار آئے اور عفو و درگذر کا خواہاں ہو بل کہ اسے چاہیے وہ اپنے اس ارادے کا کھلے عام اظہار کر دے کہ وہ تو خود بھی اسے معاف کر دینے کا آرزو مند ہے۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
یہی الٰہی صفت ہے، اس پر عمل کرنے والے انسان بھی عظیم ہیں، ہر اچھے کام کا بدلہ خدا مہربان کے پاس ہے۔
معافی تلافی، مصالحت و میل ملاپ صلح جُو انسانوں کے لیے خصوصی عوامل ہیں تا کہ سب لوگ مل جل کر، اتفاق و محبت سے جو دن زندگی کے ہیں ہنسی خوشی جِییں۔ایک دوسرے کو سُکھ پہنچائیں، دُکھ نہیں۔ اپنی ذات سے بڑھ کر دوسرے کے فائدے کا سوچیں، نقصان کا نہیں۔گناہ، کِسی بھی نوع کے ہوں، انسانی رِشتوں کوکبھی نہ بھر سکنے والے زہرآلود زخم دیتے ہیں۔ خدا بھی ایسی انسانی حرکتوں پر ناراض ہوتا ہے۔ اس سے تعلق قائم رکھنے کے لیے اس کی خفگی سے بچنا چاہیے۔ گناہوں سے توبہ اور اس سے مغفرت کا طلبگار رہناچاہیے، اسی میں ہماری عافیت ہے۔ ہماری ہی بھلائی کے لیے خداوندِ عظیم و جلیل نے مصلوب ہو کر ہماری نجات کا سامان کِیا تھا۔ اس کفارے کا ہم بدلہ چُکا سکیں، اتنا ہی کافی ہے گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں، ظلم و زیادتی سے باز آجائیں، ہماری وجہ سے کِسی کو نقصان نہ پہنچے۔ مقدس خداوند یسوع مسیح سب سے محبت کرتا ہے، محبت کا جواب اپنی محبت سے ہی دے دیں، اس سے محبت، خدا باپ سے محبت، خدا کی مخلوق سے محبت۔ اسی میں ہماری مکتی ہے، کِسی سے بھلائی کرنا گویا اپنے آپ سے بھلائی ہے۔ پوری انسانیت سے بھلائی ہے۔ محبت سب کا حق بھی ہے اور سب پر فرض بھی۔ یہی مسیحیت کا عظیم پیغام ہے جس کے ہم پرچارک ہیں۔ ہمارے لبوں پر ہر دم جاری رہنا چاہیے، مَیں نے تمھیں معاف کِیا، مَیں نے تمھاری زیادتیوں سے درگذر کِیا، جائو تمھیں معاف کِیا۔
حتمی تجزیہ یہی ہے کہ معافی طلب کرنا اور معاف کردینا انسانی وصف ہے جو خدا نے ہماری فطرت میں شامل کر رکھا ہے۔ اس پر اگر ہم عمل پیرا ہوں گے تو ہ بخشش کرنے میں دیر نہیں کرتا وہ غفور بھی ہے اور رحیم بھی…
یہ کیوں ایسا کہتا ہے؟ کفر بکتا ہے۔ گناہ کون معاف کر سکتا ہے سواے ایک یعنی خدا کے۔
مقدس مرقس…7:2
خدا کی مغفرت سے ہمارے اعمال پر پانی نہیں پھر جاتا، ہمارے گناہوں کی سلیٹ پوری یا آدھی صاف نہیں ہو جاتی، اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے تب وہ ہماری طرف، گنہگاروں کی طرف رحمت کی نظر کرتا ہے اور ہماری ساری تقصیروں، خطائوں، گناہوں کے باوجود خدا اپنی بخشش و عطا، اپنی کریمی، مہر و محبت سے ہمیں نوازتے ہوئے بخش دیتا ہے۔ خداوند یسوع پاک کی قربانیوں و سفارش اور روح القدس کی شفاعت ہماری ساری بگڑی صورتِ حالات سنوار دیتی ہے اور خدا قادرِ مطلق ہمیں اپنے جلال میں معاف کر دیے جانے والوں، مغفرت پانے والوں، مکتی دیے گئیوں میں شامل کر دیتا ہے۔
(حوالہ بالغوں کے لیے کیتھولک مسیحی تعلیم کی کتابII،"Life in Faith"۔ صفحہ89…)