German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر148

۔کیا مسیحیوں کی وفات کے بعد اُنھیں غسل دیا جاتا ہے اور میت کو کفن بھی پہنایا جاتا ہے نا؟

 

جواب:۔کوئی مسیحی جب اس جہانِ فانی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آنکھیں مُوند لے تو اسی لمحے سے ہی اس کے نئے دن کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ بے خبری کی لمبی نیند درمیانی وقفہ ہے نئی ابدی زندگی کی شروعات کا۔۔۔۔۔۔ اس دنیا میں آ کر جب اس نے اپنی آنکھیں کھولی تھیں تو مقدس بپتسمہ کی سعادت پاتے ہی یہاں بھی اس کی نئی مسیحی زندگی کی اسی روز تکمیل پذیری شروع ہو گئی تھی۔ استحکام میں مسح قطعی شراکت تھی اس تمثال خُداوند یسوع مسیح کی جو خُدا بیٹا ہے، جسے پاک مسح (تیل ملنا) تفویض ہوا تھا مقدس روح الحق سے۔ اور شراکتِ مسیح بادشاہ کی عید کہ جس کی وقت سے پہلے تعمیل ہوئی، پاک یوخرست میں۔ جب کہ متوفی کے لیے آخری رسوم میں اس کی تطہیر ضروری قرار پائی تا کہ شادی کے جوڑے/ عروسی لباس یعنی بیاہ والے کپڑے اسے پہنائے جائیں۔ اور وہ آگے پیش آنے والی دائمی زندگی کو یوں خوش آمدید کہے۔ (CCC 1682)

مقدس کلیسیا ماں کی مثال ہے جو متبرک اشیاے رسوم یعنی ساکرامینٹ کی موافقت میں ہر مسیحی کو اپنے بطن میں سنبھالے رکھتی ہے حتّٰی کہ اس کی زمینی یاترا کے لیے آمدپر بھی اس کے سفر میں آخر تک اس کے ساتھ ساتھ رہتی ہے، ماں جو ہوئی بچے یا بچی کو اکیلا کیسے چھوڑ سکتی ہے۔تب تک اپنے بچوں کا ہاتھ تھامے رکھتی ہے، ساتھ نہیں چھوڑتی جب تک اس کا ہاتھ مقدس و ارفع خُدا باپ کے اُلُوہی ہاتھ میں نہ دے دے۔ جا بچہ اب تیرا اللہ ہی بیلی، والی! اسے تسلّی ہوتی ہے کہ شافعِ محشر روح القدس میں خُداوند پاک یسوع مسیح اس کی ہر مشکل، ہر منزل آسان کروا لے گا۔ خُدا باپ کو سپردگی، خُداوند یسوع میں دنیا اس امید میں ہے کہ میت کا بیج افلاک پر جلال، بزرگی، عظمت میں پھلے پھولے گا۔

یونہی مُردوں کی قیامت ہے۔
فنا کی حالت میں بویا جاتا ہے،
فنا کی حالت میں جی اُٹھتا ہے۔
ذِلّت کی حالت میں بویا جاتا ہے،
عظمت کی حالت میں جی اُٹھتا ہے۔
کمزوری کی حالت میں بویا جاتا ہے،
تقویت کی حالت میں جی اُٹھتا ہے۔
نفسانی جسم بویا جاتا ہے،
روحانی جسم جی اُٹھتا ہے۔
اگر نفسانی جسم ہے، تو روحانی بھی ہے۔

1۔ قرنتیوں۔۔۔۔۔۔42:15تا 44

یہ قربانی، یہ نذر شایانِ شان منائی جاتی ہے پاک یوخرستی قربانی میں۔۔۔۔۔۔ مرحوم یا مرحومین کے لیے اقدس قربانی۔ اقدس یوخرستی عبادت سے پہلے بھی ربی برکتیں ہی برکتیں اور بعد میں بھی یوخرستی رحمتیں ہی رحمتیں شاملِ حال ہوتی ہیں۔(CCC 1683)

لازم ہے کہ مرنے والوں کے جسموں کا یعنی میت کا کامل الٰہی محبت میں احترام کِیا جائے اس عقیدئہ واثق اور خُدا جلیل و عظیم سے آس لگا کر کہ مُردوں میں سے سب نے مقدس خُداوند یسوع مسیح کی طرح زندہ ہونا ہے۔مُردوں کی تجہیز و تکفین رحمت کے جسمانی کاموں میں شامل ہے:

اور بہت دِنوں کے بعد ایسا ہوا کہ انمسَّر بادشاہ مر گیا تو ا س کا بیٹا سیخیرِب اس کی جگہ بادشاہ ہوا جو بنی اسرائیل سے متنفر تھا۔ اور طوبت ہر روز اپنے تمام گھرانے میں گشت کِیا کرتا اور اُن کو تسلی دیا کرتا اور اپنے مال سے اپنی وسعت کے موافق ہر ایک کی غم خواری کِیا کرتا تھا۔ تو وہ بھُوکوں کو کھانا کھلایا کرتا اور ننگوں کو کپڑے پہنایا کرتا اور مُردوں اور مقتولوں کو بڑی خبرداری سے دفن کِیا کرتا تھا۔

جب سیخیرِب بادشاہ یہودہ کی زمین سے واپس آیا، اُس آفت سے بھاگ کر جو بہ باعث اُس کی کُفرگوئی کے خُدا نے اس پر بھیجی۔ اور اپنے غُصّے کے باعث بنی اسرائیل میں سے بہتوں کو قتل کرنا شروع کِیا تو طوبِت ان کی نعشوں کو دفن کِیا کرتا تھا۔

طوبیاہ۔۔۔۔۔۔18:1تا 21

میت کو عزت و احترام سے دفنانا گویا خُدا باپ کے بچوں کو تکریم دینا ہے۔ یہ فرزندان ربِ اکبر ہیکل ہیں روح القدس کا (CCC 2300)

موت کا سبب معلوم کرنے کے لیے موت کے بعد ان کی چیر پھاڑ او رمعاینہ، پوسٹ مارٹم، از رُوے اخلاق اجازت دیے جانے کے ذیل میں آتا ہے اور اس کے لیے قانونی احتساب اور سائینٹفک تحقیق و تفتیش کا جواز بھی موجود ہے۔ مرنے کے بعد انسانی اعضا کو بِلا قیمت دے دینا، عطیہ کر دینا، مقررہ اصول و قواعد کے مطابق جائز اور ایک حد تک قابلِ ستایش فعل ہے۔ نعش کو جلا کر راکھ کر دینے کے عمل کی کلیسیا نے مشروط اجازت دے رکھی ہے۔ مُردے جلانے کی نوبت یوں پیش نہیں آنا چاہیے کہ وہ دوبارہ اُٹھائے جانے کے مسیحی عقیدہ سے متصادم ہو جائے۔ اس عقیدے کی نفی غلط بات ہے۔ یہ قیاس کرنا کہ مُردہ جل کر راکھ ہو گیا، راکھ منتشر ہو گئی، مٹی، ہوا یا پانی میں مل گئی، گُم ہو گئی، کیوں کر یکجا کی جائے گی اور جسم میں کیسے ڈھل سکے گی، اور پھر اس جسم میں جان پڑے گی اور مردہ پھر سے زندگی پا لے گا، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ جب کچھ بھی نہیں تھا تو خُدا، قادرِ مطلق نے ہی اسے تخلیق کِیا تھا۔ اس خالقِ کائنات کے سامنے کیا مشکل ہے، طے ہے جسے اُس نے پیدا کِیا ہے، اس نے مرنا ہے، جو مُردہ ہو گیا اس نے دوبارہ زندہ ہونا ہے۔ پانی، ہوا، مٹی سب اس کی طاقتیں ہیں، جو بکھرا ہے اس خُداے لم یزال کی قدرت اور حکم سے پلک جھپکنے کے بھی ہزارویں، لاکھویں پل میں سب اکٹھا ہو جائے گا، سب کچھ اس کے قبضہء قدرت و قوت میں ہے۔ وہ موت دیتا ہے، زندگی بھی اسی نے ہی دینی ہے، دوبارہ کی زندگی، لافانی زندگی۔

( CCC 2301)

مجموعہء قوانینِ کلیسیا کے تحت 1964عیسوی تک کیتھولک مسیحیوں کے لیے مُردے کو چتا سپرد کرنے کی سخت ممانعت رہی۔ یہ پابندی اتنی قواعدِ ایمان و اصولی عقائد کی بِنا پر نہ تھی جتنی بعض مسیحی حلقوں کی طرف سے اس ردِّ عمل کی بِنا پر جاری رہی جس میں وہ کہتے تھے کہ یہ مذہب مخالف بدعت ہے مُردوں کے جلائے جانے کے خلاف اُنھوں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا تھا اور مشہور کر دیا کہ یہ مذہب مخالف عمل ہے اور جس نیتِ بد سے مردہ جسم کو جلایا جاتا ہے انسانیت کی تذلیل اور انکارِ روزِ عدالت ہے اور ایسی حرکت سے حرمتِ دین پر حرف آتا ہے، جو کُفر ہے۔ چناں چہ بہت غور و خوض کے بعد، بہت سے جوازات کو ثِقہ قرار دیتے ہوئے، ان حلقوں کے ردِّ عمل میں کیتھولک مسیحیوں کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے پیشِ نظر قدغن سے مبرا کر دیا گیا اسی شرط کے ساتھ کہ مُردوں کو جلانے سے مقصود دِین کی نفی ہرگز نہ ہو بل کہ ایمان پختہ ہو کہ مُردوں کو دوبارہ جِلایا جائے گا۔

اس عقیدت کے ساتھ فوت شدہ لوگوں کی قبروں کو مسیحی اپنی بساط مطابق سجاتے سنوارتے ہیں تا کہ مرحومین سے ان کی محبت اور ان کی یاد دِلوں میں ہمیشہ تازہ رکھنے کے پسماندگان کے جذبات کا اظہار ہوتا رہے۔ چپکے سے موت کی گود میں جا سونے والوں کی محبت اور عقیدت میں اکثر عیدوں اور تیوہاروں پر مرحومین کی یادوں کی شمعیں جلانے وارث ان کی قبروں پر جا کرحاضری دیتے ہیں۔زندگی میں اُنھوں نے پیار کی جو کلیاں کِھلائیں اسی پیار، محبت اور دلبستگی کے پھول ان کی قبروں، دنیا میں ان کے آخری گھر پر نچھاور کرتے ہوئے اس یقین کو پکّا کرتے ہیں کہ دُور چلے ہو مگر دِل سے دُور نہیں، داغِ مفارقت دے گئے مگر آنکھوں میں آج بھی اسی طرح بستے ہو، تم نے گھر نہیں لوٹنا۔ مگر ہم تمھارے گھر زندگی بھر آتے رہیں گے، اسے سجاتے رہیں گے، پیار کی شمعیں یہاں روشن کرتے رہیں گے، تم کَن انکھیوں سے بھی نہ دیکھ سکو، تمھاری یادوں کی خوشبو میں بسے اپنی محبت کے بُوقے تمھاری قبر کی صلیبوں پر رکھنے برابر آتے رہیں گے، ان معصوم بچوں کے ساتھ جنھیں نہ تم نے دیکھا نہ اُنھوں نے تمھیں دیکھا، وہ بھی تو تمھاری فیملی ہیں جس طرح تم ہمارے اور ہم سب تمھارا خاندان ہیں۔ یہ جو شمعیں ہم نے جلائی ہیں یہ تمھاری وفات اور ہمارے غم کی وہ شمعیں ہیں جن سے مقدس خُداوند یسوع مسیح کے دوبارہ زندگی، دوبارہ ملاقات اور روزِ آخرت کے پیغامِ ابدی کی پُرتقدیس کرنیں پھوٹتی ہیں۔ پوری مسیحی برادری اس امید پر زندہ ہے کہ ایک نہ ایک دن ہم نے بھی اس موت کی وادی میں اترنا ہے اور ہم سب کو خُداوند یسوع مسیح پاک نے دوبارہ اپنے جلال میں اُٹھا بٹھانا ہے۔ وہ جن سے بے حدو حساب محبت کرتا ہے، ان کو موت کے حوالے کر کے کیسے فراموش کر سکتا ہے۔ خُدا باپ میں وہ ہمارا پیارا بھائی ہے، ہمیں اپنے پیار کی حدّت والے قرب سے کیوں کر دُور رکھے گا۔ لوگ قیامت سے خوفزدہ ہیں، ہمیں ا س کا انتظار ہے، آئے اور ہم اپنا سر پاک یسوع کے قدموں میں جا رکھیں۔ اس نے ہماری محبت میں جان دی، اس کی محبت میں ہم اپنی زندگیاں وارنے کو تیا رہیں۔
مرنے والوں کی تعظیم تو ہمارے دِلوں کا قیمتی اثاثہ ہے، قبرستانوں کی بھی ہم مسیحی تکریم کرتے ہیں۔ یہ تو خُداوند کریم کی وہ جاگیر، سرزمین ہیں، جہاں مومنین کے اجسام دفن ہیں، جن میں جب زندگی کے آثار موجود تھے تو ان کو وہ مقام حاصل تھا کہ وہ روح القدس کا ہیکل کہلاتے تھے۔ وہ بہ نفسِ نفیس ان میں رہتا تھا۔ اسی لیے یہ گورستان اپنی فضا، وسعت اور تعمیر و ترتیب میں تقدیس و توثیق کرتے ہیں اس ایقان اور عقیدے کی۔۔۔۔۔۔ کہ خُداوند اقدس یسوع مسیح تمام نسلِ انسانی کا مکتی داتا مُردوں میں زندہ جی اُٹھے گا۔

(Catholic Adult Catechism, Vol. II: Living in Faith, p. 313f.)


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?