German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر127

۔اب بتائیے ذرا! سوال یہ ہے کہ یورپ میں بل کہ مغرب میں یہ برداشت کر لیا جائے گا اگر کوئی بگاڑی ہوئی تصویریں، خاکے بنا بنا کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرے؟

 

جواب:۔قانونی نقطہء نظر سے تو جواب ہے، ہاں، جی ہاں۔ یوں ارتکابِ توہین کی جانچ و تشخیص اس کی اخلاقی قدر و قیمت کی پرکھ بالکل ہی مختلف معاملہ ہے جو قابلِ دست اندازیِ پولیس نہیں۔ یورپ میں تو ایسا بارہا ہوا کہ کارٹون ، خاکے، فلمیں بنا بنا کے خُداوندیسوع مسیح کی شان میں گستاخی کی گئی۔ تاریخی تجربہ سامنے کی بات ہے کہ وہاں مذہب کو مخصوص طور پر لیگل کور حاصل ہے۔ لیکن حکومت کی طرف سے تحفظِ مذہب کے لیے بنائے گئے اس قانون کا استعمال غلط طور پر کِیا جاتا رہا ہے۔ اس میں جو کمزوریاں، خامیاں رہ گئیں ان کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے باربار ایسا ہوا کہ مذہب پر آزادیِ اظہارِ راے کے تبر چلائے گئے۔ در اصل اسے اظہارِ راے کی آزادی کے قانون اور سائینٹفک تحقیقات کی آزادی کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔ جناب پروفیسر محمد کالش جو یونی ورسٹی آف میونسٹر کے سکالر ہیں ذاتی طور پر ان کی راے سے مجھے اتفاق ہے، جو کچھ یوں ہے:

مذہب اور دینی جذبات کو قانون کا تحفظ فراہم کرنے سے زیادہ اور کوئی بے معنی عمل قطعاً نہیں ہو سکتا۔ اس سے تو باز آجانا چاہیے، محض اس لیے کہ باقاعدگی کے ساتھ، درست اورجامع اس کی تعریف ہو ہی نہیں سکتی اور آپ سے آپ اس کی قدر و قیمت و اہمیت کا تول من مانے انداز کی تعریف کی طرف جھک جاتا ہے۔ کِسی بھی آئینی حکومت میں قانون و آئین کے محافظ اور عدالتوں کے معاونت کرنے والے وکیل جو ہوتے ہیں ان کے نزدیک مذہب کی تعریف و توضیح میں آمریت کا مزاج رکھنا کمزور فیصلوں کی طرف مضبوط اشارہ ہے۔ حقیقت تو حقیقت ہوتی ہے اس کی کیا تشریح و تصریع، بالفرض ایسا کِیا جائے تو منظروں اور بہت سے پس منظروں سے پالا پڑ جائے گا یہاں تک کہ مختلف نقاطِ نظر اور مختلف تعریفیں سامنے آئیں گی اور کِسی کے مذہبی جذبات مجروح ہونے کی جہاں بات کی جائے گی تو فرد فرد کا نقطہء نظر مختلف پیش ہوتا نظر آئے گا۔ ایک کی مقدس گاے دوسرے کی قربانی والا ثواب بن جائے گی۔ آپ کِس پر بلاسفیمی کا فتویٰ قائم کریں گے۔فلسفیانہ سوچ یا مذہبی نقطہء نظر میں ایک اضافی نکتہ سنجی سر اُٹھائے گی۔ ایک شخص کی نگاہ میں جو بات انتہائی مہمل، قطعی نان سینس، لغویات میں سے ایک نری لغوبات ہے وہ بات دوسرے کے لیے قطعی پُرمغز، انتہائی پُرمعنی، مطلق حق سچ ہو سکتی ہے۔ سراسرصحیحِ اقدس۔۔۔۔۔۔

کِسی کی راے میں پوپ جرائم کی دنیا کا ڈان ہو، اورخاکم بدہن حضرت محمد (P.B.U.H)ایک قاتل، تو یہ اس کی راے ہے، اُس کی۔ آپ کو اپنی راے رکھنے کا اُس کا حق ''برداشت'' کرنا ہو گا۔ آپ کی اگر یہ خواہش ہو کہ جس سوسائٹی میں آپ سانس لے رہے ہیں وہ فرد کو اظہارِ راے کی آزادی کا حق دیتی ہو اور اس کے اس حق کو بھی تسلیم کرتی ہو کہ وہ آزادانہ سائینٹفک انکوائری سے بھی مستفید ہو سکتا ہو، ہم آپ کو خبردارکردیں کہ یہ آزادیاں اتنی آزادی سے بھی میسر نہیں آجاتیں۔ عین ممکن ہے آپ کو ایسے نتائج کے ساتھ کمپرومائز کرنا پڑے کیوں کہ آپ کو آپ کی خواہش کی ضد بہت لوگ ملیں گے اور وہ مخالفت کریں گے اس عالمی نقطہء نظر کی جو آپ رکھتے ہیں۔ وہی بات ہے کہ اچھے بُرے جو بھی آپ کے نظریات ہیں، اور جو آپ کے نظریات ہیں ان سے متفق ہونے کی سب پر پابندی تو نہیں۔ بعض باتیں کِسی بھی دوسرے شخص کے نزدیک بالکل نان سینسیکل ہوں گی جن پر آپ مرمٹنے کو تیار ہوسکتے ہیں کیوں کہ آپ کے لیے بہت مقدس اور مبارک ہیں وہ باتیں۔

ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں کہ کِسی عقیدہ میں جو چیز ہے اسے آپ ہدفِ تنقید تو بنا رہے ہوں لیکن عین انہی لمحات میں جس دوست سے آپ بحث کر رہے ہوں اس پر آپ یہ بھی ثابت کرنا چاہ رہے ہوں۔ اختلافات اور بحث و تمحیص کا ماحول بن چکنے کے باوجود آپ بطور انسان اس کی اپنی تحریم و تکریم میں کوئی کمی نہیں لا رہے اور آپ چاہتے ہیں کہ گفتگو میں زہر نہ گھُلے، لہجے میں تلخیاں نہ آئیں، احترامِ آدمیت قائم رہے تو پھر تنقید بھی اُس رُخ سے کی جائے کہ دوسرے کو چبھے نہ۔ یا اس کے لیے تکلیف دہ کم سے کم ہو۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد بھی یہ ذہن میں رہے کہ بحث مباحثے میں جو آویزشیں پیدا ہوتی ہیں انھیں کبھی بھی کِسی صورت میں مقدمہ بازی کی شکل اختیار نہیں کر جانا چاہیے۔ قانون دان ایسی گتھیاں سلجھانے کے معاملے میں نکُّو ہیں، پھسڈی ہیں۔ اصل میں یہ اُن کا چھابا (شعبہ) ہی نہیں۔ جب مذہب ایک طرف اور دوسری طرف آمنے سامنے سوچ، نقطہء نظر اور راے کے اظہار کی آزادی اورسائینٹفک تحقیقات کی آزادی ہوں اور تب معاملات تنازع کی شکل اختیار کرتے چلے جا رہے ہوں وہاں تو پھر جناب! سائینس اور راے کی مطلق آزادی کو بریدنگ سپیس تو ضروری ہے کہ ملنی چاہیے، بھلے اس رعایت پر مذہب کے لکیر کے فقیر اور دینی جذبات میں جکڑے پیروکار لاکھ ناک بھوں چڑھاتے رہیں۔ پابندیاں لگانے کی کوئی بھی جسارت توثیق سے خالی جانی چاہیے تا کہ جن آزادیوں کا رونا اوپر رویا گیا ہے ان کی تائید اور مضبوطی کمزور نہ پڑے۔ اگر ان آزادیوں کے آگے بند باندھے گئے تو تاریخی تجربات یہی نتائج سامنے لائیں گے کہ ایسا کرنے کے نقصانات تو بے شمارہیں، فائدہ ایک بھی نہیں۔ چناں چہ

چرا کارے کُنَد عاقل کہ باز آید پشیمانی

عقلمند کام ہی ایسا کیوں کرے کہ بعد میں اُسے پچھتاوا سمیٹنا پڑے۔

تاہم، ہر شَے کی ایک حد ہوتی ہے۔ دوسروں کے مذہبی عقائد سے ان حد بندیوں کا کوئی سروکار نہیں۔ لیکن۔۔۔۔۔۔ دوسروں کے ذاتی شرف، شخصی وقار سے ان کا بہت تعلق ہے۔ جہاں کِسی بھی مذہب کے جو بھی نظریات و عقائد ہوں، ان کے ماننے والے خواہ وہ یہودی ہوں، کرسچین یا مسلم ہوں، ہندو ہوں یا بہائی یا کوئی اور، الفاظ میں ان کی نمایندگی یا خاکوں کے ذریعے ان کی شناخت یوں ہو سکے کہ نظر پڑتے ہی وہ ایک ذات، ایک قوم کا انبوہِ کثیر نظر آنے لگیں اور پھر بھی انفرادی امتیازات سے ہٹ کر ان سے منفی خاصیات خواہ مخواہ منسوب کردی جائیں جیسے: کذب و افترا، بطلان و فریب کاری، مکاری و حیلہ بازی، حتّٰی کہ دماغ میں سمایا ہوا قتل کرنے کا سودا، تب سمجھ جائیے بات شک سے بہت بالا ہو گئی، ماننا پڑے گا کہ ان کی انسانی منزلت و عظمت، عزت و حرمت خاک میں ملائی جانے لگی ہے اور تحقیر و تضحیک کانمایندہ انھیں بنایا جا چکا ہے۔ اس لیے۔۔۔۔۔۔ اپنے مذہب اور مذہبی اعتقادات کی بنا پر کِسی دوسرے کو اس کے مذہب اور مذہبی اعتقادات کا پیروکار ہونے کے سبب مجرم ٹھہرا دینا ظلم ہو گا۔ ایساہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ کِسی بھی شخص کو مشکوک سمجھ لیا جائے کہ وہ غیر مذہب سے تعلق رکھتا ہے اس لیے خودکارانہ طور پر، خودبخود ہی، بدکار، سیہ کار، پاپی، خطاکار اور جرائم پیشہ ہو گیا۔ نہ نا۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ دیگر مذاہب میں بھی ایسے ایسے متقی، پرہیزگار، دیانتدار، ایماندار اور نیکوکار لوگ پڑے ہوتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔

دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

اس لیے کِسی بھی غیر مذہب کو خواہ مخواہ گردن زدنی قرار دے دینا، بے انصافی ہے، جہالت ہے، ظلم ہے۔ ایسا کرنے والے پر حکومتِ وقت کی طرف سے قانونی کارروائی ہونی چاہیے، فوجداری مقدمہ درج کروایا جائے جس کی شنوائی سپیشل عدالتوں کے بجاے، عام سول کورٹس میں ہو۔

[CIBEDO (Frankfurt a.Main), 1/2006 , p. 22,23]


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?