:سوال نمبر124
۔خدا کو پچھتاوا بھی ہو سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے
تخلیقِ کائنات کے دِلچسپ جرم پر
ہنستا تو ہو گا آپ بھی یزداں کبھی کبھی
جواب:۔غالباً پرانے عہد نامہء اقدس کو حوالہ بنا کر یہ سوال اُٹھایا گیا ہے۔ جیسے تکوین۔۔۔۔۔۔5:6اور6:۔
اور خُداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی شرارت بہت بڑھ گئی اور اُس کے دِل کے خیالات کا تصور ہر وقت بدی کی طرف مائل ہے، تو وہ زمین پر انسان کے پیدا کرنے سے پچھتایا اور دل میں غمگین ہوا۔
خدا لا تبدیل غیر متبدّل ہے۔ پچھتانے اور غمگین ہونے سے مبرّا ہے۔ ایسے الفاظ کے استعمال کا یہ منشا ہے کہ آدمی لوگ اپنے گناہوں کی خرابی اور کثرت سے اپنے خالق کی نظر میں ایسے قابلِ نفرت ہوئے کہ اس کی مرضی اُن کے ہلاک کر دینے کی ہوئی۔
یہ ''پچھتاوا'' یا جیسا کہ اسے ''تاسُّف'' بھی سمجھا جاتا ہے اور اسے ''پشیمانی'' سے بھی تعبیر کِیا جاتا ہے، یہ ایک انسانی طریقِ کار ہے جو خُدا کے اس تقدس کا اظہار کرتا ہے جو گناہوں پر اس کی خفگی، اس کا غصہ بڑھا دیتا ہے۔
اور وہ جو اسرائیل کی عظمت ہے جھوٹ نہیں بولے گا، او رنہ پشیمان ہو گا۔ کیوں کہ وہ انسان نہیں کہ پشیمان ہو۔
1۔ سیموئیل۔۔۔۔۔۔29:15
یہ انتباہ ہے، اس اصطلاح کے بہت ہی لغوی معانی کی طرف عقل دوڑانے کے خلاف۔ زیادہ تر تو خُدا کے ''پچھتاوے''، اس کے ''دلگیر ہونے''، ''متاسّف'' ہونے یا ''پشیمانی'' کی بات کرنا اس حوالے سے بھی ہے کہ یہ اس کی آزُردگی، اس کی نفرین، اس کے غصہ کا اظہار ہے جو دھیرے دھیرے اس کے رحم کے زور سے ڈھیلا پڑتے پڑتے ان حوالوں کو بھی پیچھے چھوڑ گیا جن میں ایسی حرکتوں پر ڈرایا جاتا تھا، خوفناک ردِّ عمل کا اظہار کِیا جاتا تھا۔ اس کی کریمی سب عاصیوں کے عصیاں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ مندرجہ ذیل سے فیض حاصل کیجیے:
شاید کہ وہ سُنیں اور اُن میں سے ہر ایک اپنی بُری راہ سے باز آئے تو مَیں بھی اُس بدی سے رُک جاؤں جو مَیں ان کے بُرے اعمال کے باعث اُن سے کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
اِرمیا۔۔۔۔۔۔3:26