German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر114

۔محبت اور برداشت اسلام میں اجازت ہے کہ اہلِ کتاب (یہود اور نصاریٰ) سے شادی بِلا جھجک کر لی جائے۔ پر مسیحیت دوسرے مذاہب کے پیروکاروں میں شادی سے منع کرتی ہے۔

کیا یہی ہے آپ کا محبت، پیار، چاہت جتانے کا آئیڈیا اور یہی وہ رواداری، تحمل، بے تعصّبی، بُردباری اور برداشت مسیحی دنیا جس کا پرچار کرنے میں آگے آگے رہتی ہے؟

 

جواب:۔زمانہء حال میں نہ صرف یہ بپتسمہ یافتہ لوگ یعنی تمام مسیحی اصحاب، چاہے ایک دوسرے سے بعض عقائد میں اختلاف رکھتے ہوں، بہت سے دیگر مذہبی فرقوں سے بے شک دِینی تعلُّق ہو ان کا، صورتِ حالات ایسی بن گئی ہے کہ ان سب مسیحیوں کو اکٹھے رہنا اور کام کرنا پڑتا ہے۔ ایک ہی شہر میں ان کی بود و باش ہوتی ہے۔ علاقہ، دیار، سرزمین، برِّاعظم یہاں وہاں کہِیں بھی ہر جگہ رہن سہن اکٹھا ہے۔ نتیجہ یہ کہ پرانے وقتوں والی پابندیوں، سختیوں میں خاصی لچک عصرِ حاضر کا تقاضا بن گئی ہے چناں چہ کیتھولک مسیحیوں اور بپتسمہ پائے دیگر غیر کیتھولک مسیحیوں کے درمیان شادی بیاہ، رشتوں کا لین دین اب عام ہوتا جا رہا ہے، بل کہ معاملہ بہ اِیں جا رسید کہ بپتسمہ سے محروم اقوام اور کیتھولکس بھی آپس میں رشتہ داریاں مضبوط کر رہے ہیں، مختلف مذاہب کے لوگوں میں رشتہ کرنا بتدریج رواج پاتا جا رہا ہے۔ مسیحیوں کے مختلف فرقوں کے درمیان جب شادی کا بندھن قائم ہونا طے پانے لگے تو ہر پہلو سے احتیاط کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، شادیوں کے اس خلط ملط سے معاشرتی مسائل میں کمی نہیں آ رہی بل کہ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ زندگی میں ایک دوسرے کو شراکت دینے والے ہر پارٹنر کو خاص توجُّہ دینے اور محتاط رویّہ اپنانے کی ضرورت ہے، کل جن مسائل نے سر اُٹھانا ہے اُنھیں آج صاف کر لینا چاہیے۔ اس سلسلے میں گرجا کے خادمین و ہادی صاحبان کے احسن کردار میں زیادہ ذمہ داریاں شامل ہو جاتی ہیں۔ کلیسیا کی طرف سے بھی وقتاً فوقتاً شرائط اور ہدایات جاری ہوتی رہتی ہیں۔ ان کا مقصد شادی میں روڑے اٹکانا نہیں بل کہ ازدواجی رشتوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہوتا ہے اس لیے ان پر استقامت کے ساتھ عمل اپنا اور آنے والے بچوں کا مستقبل سنوارنے پر منتج ہوتا ہے۔ اور جب مسیحیوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں میں شادی کا سوچ عملی رُخ اختیار کرنے لگے تو احتیاط کی حاجت دو چند ہو جاتی ہے۔

آغبائیٹ ہِلفے نمبر172(Arbeitshilfe Nr 172)میں"Christen und Muslime in Deutschland"یعنی ورکنگ میٹیرئیل نمبر712میں ''جرمنی میں مسیحی اور مسلمان'' مضمون کے تحتwww.dbk.de/Schriften/Arbeitshilfenدینی اُمور کے فیصلوں کے لیے اراکینِ کلیسیا کی جرمن جنرل کونسل (مجلس) ایسے مسئلے مسائل، اعتراضات، سوالات اور تجاویز پر غور کرتی ہے جو اس وقت سامنے آتے ہیں جب کیتھولک مسیحیان مسلمانوں میں شادیاں کرتے ہیں (بحوالہ نمبر370سے 401اور صفحات186تا200)۔ پس ، مسیحی شریکِ حیات کے لیے بڑا ضروری ہے کہ اسے اسلامی شریعت میں اسلامی مسیحی شادیوں اور خاندانی رسوم اور کنبہ کے طریقِ زندگی کے بارے میں تمام جزئیات سے شناسائی حاصل ہو۔ اپنے دینی احکامات کا تو ہم فرض کر لیتے ہیں کہ اُسے پتا ہے، اسلامی شرعی قوانین جو اس شادی کے متعلق ہیں ان کا بھی اسے لازماً علم ہونا چاہیے۔

1۔ اسلامی قانون مسلمان مرد کی مسیحی خاتون سے شادی کی اجازت تو دیتا ہے، مگر مسلمان بی بی اور مسیحی شخص کے مابین اس رشتے کے قائم ہونے کے حق میں نہیں۔ اس قانون کی اس سرنامہ پر فخریہ اساس قائم ہے کہ دِینِ اسلام کے ماننے والے ازدواجی زندگی اور خاندانی رہن سہن میں اپنے رسولؐ کی سُنّت سے عملی رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ آخری کتاب، آخری شریعت، آخری اُمّت اور آخری مذہب ہونے کے سبب حتمی طور پر مُکمَّل، جائز و دُرُست دِین پر ہیں ان کے دِین کو سب ادیان پر فوقیت حاصل ہے اور خُدا تعالیٰ کے ہاں بھی اس آخری امت کو خیر الامہ کا مقام حاصل ہے۔ اور یہ کہ جب میاں بیوی میں کوئی اختلافات یا تنازعات پیدا ہوں تو دستِ بالا خاوند کو حاصل ہو گا۔ روایتی نقطہء نظر یہی سامنے آیا ہے کہ مسلم بیوی صرف مسلمان کی بیوی ہوتی ہے کِسی مسیحی کی نہیں ہو سکتی (مسیحی مرد کو اسلام قبول کرنا پڑے گا)۔ خاندان میں یہ بات تو صدیوں سے تسلیم شدہ ہے کہ مرد کو برتری، اثر اور فوقیت حاصل ہوتی ہے،مرد اگر مسیحی ہو تو اس کی وجہ سے مسیحی کلچر، مسیحی مذہبی آثار اور مسیحی عناصر بیوی، بچوں اور آیندہ نسلوں پر چھائے رہیں گے، اسلام خطرے میں پڑ جائے گا۔ انسانی اقدار پر مبنی معاشرے میں ترکی کا سیکولر فیملی لا تو مسیحی مرد اور مسلم بی بی کے مابین رشتہء ازدواج میں منسلک ہونے کے معاہدہ کی بخوشی اجازت دیتا ہے، تاہم ترک عوام میں ایسی شادیوں کی حوصلہ افزائی کی ریت ابھی اتنی پیدا نہیں ہوئی بل کہ یہ مخالفت ذہین و متین سیاستدانوں پر مشتمل حزبِ اختلاف کی نظر اندازیوں اور واجبی تنقید کو بھی یہی سمجھتی ہے کہ گونگلوؤں سے مٹّی جھاڑی جا رہی ہے۔

2۔ مسلمانوں کے حساب سے مسلم مرد کی اولاد پیدایش کے اعتبار سے مسلم ہی ہوگی چاہے اُنھوں نے جنم بطنِ مسیحی مادر سے ہی کیوں نہ لیا ہو۔ اسلام میں والدین کا فرض ہے کہ بچوں کی نگہداشت و پرداخت اور تعلیم و تربیت بہ ہر طور دِینِ اسلام کے مطابق ہی انجام دیں۔ مسیحی بیوی کو اپنے دِین پر قائم رہنے کی اجازت ہے مگر اسلام اولاد کو مسیحی بنانے کے عمل کی نفی کرتا ہے۔ شرعی قوانین مسلم شوہر کو اپنے اِن قوانین کی حفاظت اور ان پر ثابت قدمی سے عمل کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ معروضی طو رپر مسیحی بیوی اگر بچوں کو مسیحیت کی طرف مائل کرنا چاہے تو یہ عمل متضاد و ناموافق ہو گا اور شادی خانہ آبادی اس سٹیج پر جب کہ بچے بھی ہو چکے ہوں تب بھی ڈراپ سین سامنے لا کر بربادی پر انجام پذیر ہو سکتی ہے۔ بچوں کی مسیحی تعلیم و تربیت ماں کے دِین کا بھی اہم جزو ہے مگر ناقابلِ حل مشکلات و مسائل زندگی اجیرن کر سکتے ہیں، خود بچوں پر عمر کے ساتھ ساتھ بدترین اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔ معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی الجھنیں بڑھیں گی۔ ضروری اور فوری سفارش کی جاتی ہے کہ بچوں کے مستقبل کے بارے میں نکاح سے پہلے ہی سب کچھ طے کر لیا جائے، ہر معاملہ شرط شرائط آئینے سی صاف اور شفاف صورت سامنے رکھ کر دیانتداری سے طے کر لی جائیں۔ سب کے علم میں ہو کہ بچے کِس دین کے سایہ میں پلیں گے۔ ان کی تعلیم و تربیت دنیاوی دینی کے وجوب ولزوم کی طے شدہ پابندی کا اعلان و اقرار پورے خلوصِ نیت سے کرنا ہو گا تا کہ آیندہ کی زندگی اور ساتھ دونوں فریق کا پُرلطف رہے اور بچوں کا مستقبل محفوظ۔

3۔ مسلم مسیحی شادی کی گرہ بندھنے سے پہلے ان سوالات کو سامنے رکھ کر سب کچھ پکا پکا طے کر لیا جائے:

٭کیا مسلم شوہر کی مسیحی بیوی کو اپنے مذہب کے مطابق رسوم و عبادات کی آزادی میسر ہو گی؟ اپنی مذہبی برادری سے وابستہ رہنے کی بھی اس کو اجازت ہو گی یا نہیں؟

٭سسرال میں اس بات پر کِسی کو اعتراض تونہ ہو گا کہ مسیحی خاتون اپنی ذات کے لیے مسیحی علامات اور لکھی چھپی چیزیں اپنی عبادت کی جگہ یا اپنے کمرے میں کہِیں نمایاں طور پر آویزاں کر لے یا عقیدت سے سجا لے۔

٭کھانے پینے، حرام حلال کے ضمن میں اسے اجازت ہو گی کہ وہ اسلامی ضابطوں کے خلاف بھی عمل کر سکے؟

٭ کیا اس سے یہ توقع باندھ لی جائے گی اور اسے اس پر پورا بھی اُترنا ہو گا کہ دلھن بن کر جب وہ اسلامی گھرانے میں آجائے گی تو اسے اسلامی مذہبی آداب و رسوم کے مطابق طہارت، پاکیزگی، صفائی ستھرائی کے تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔ خواتین کے ایامِ حیض کے دنوں کے شرعی مسائل کی پابندی، نفاس کے مسائل، نجس چیزوں کو پاک کرنا، غسلِ جنابت وغیرہ کے بارے میں جاننا سیکھنا ہو گا۔

تاریخ شاہد ہے کہ مختلف مکتبہء فکر کے مسلمان علما و رہنماؤںنے درج بالا ان سوالوں اور دوسرے کئی نکات کے مختلف ہی جوابات سے نوازا ہے۔مسیحی خاتون جو مسلمان مرد سے شادی کی ہاں کیے پھرتی ہے اسے چاہیے کہ ازدواجی زندگی پر اپنے ہونے والے شوہر کے جملہ خیالات و نقطہ ہاے نظر کی پوری پوری جانکاری حاصل کرے، دونوں مستقبل کے منصوبوں پر ایک دوسرے کو شامل کرتے ہوئے ان کی تفصیلات طے کریں۔ دُولھا کے عزیز و اقارب کے خیالات جاننا بھی بہت ضروری ہے تا کہ شادی کے بعد ان کی طرف سے اڑچن پڑنے کا احتمال شادی سے پہلے ختم کر لیا جائے۔ ایک دوسرے کے مذہب کے احترام پر زور دیا جائے۔ ہر طرح کے تعصب سے پرہیز کِیا جائے۔ سب انسان ہیں کسی کو بھی اپنے سے کمتر نہ سمجھا جائے۔ جس گھر میں مسیحی خاتون گھر والی بن کر جا رہی ہے وہاں زندگی کے طور طریق، روز مرہ کے اصول اپنانے کی کوشش کرے، جیسا دیس ویسے بھیس میں ڈھل جانے کی کوشش کرے۔ ایک زندگی گزارنی ہے اور اکٹھے گزارنی ہے،ا چھی ہی گذرے، بہت سی چیزیں کامن ہوتی ہیں۔ اچھے مسیحی کی طرح دُلھن کو چاہیے کہ سب کے دِل موہ لے، مومن مسیحی بن کر اپنے لیے احترا م کے جذبات دوسروں کے دلوں میں اُبھارے، اپنے دین کی اچھائیوں کا تاثر اپنے اچھے اعمال سے دوسروںپر قائم کرے۔


4۔ مسیحی خاتون کو اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ جب وہ مسلم خاندان میں بیاہ کر جائے گی تو اپنے خاوند کے فوت ہو جانے کے بعد وراثت میں اس کے بچوں اور بچوں کے بھی بچوں کا تو حصہ ہو گا مگر ترکے میں خود اسے کچھ نہیں، بس حوصلہ ملے گا۔ اس سے بڑی ایک اہم حقیقت جس کا اُسے سامنا کرنا ہو گا وہ یہ ہے کہ اس کے ذہن میں رہے یہ بات کہ اس کا مرد کِسی بھی وقت دوسری شادی کر سکتا ہے، یہ اس کا شرعی حق ہے۔ مسیحی بیوی پر سوت آجانے کی تلوار ساری زندگی لٹکتی رہے گی۔

5۔ کِسی بھی مسیحی خاتون کے لیے از بس اس کے فائدے میں ہے کہ کِسی مردِ مسلمان سے شادی کے فیصلہ سے پہلے اس بات کو اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ سب کچھ ویسا نہیں ہے جیسا نظر آتا ہے۔ شادی کے سوچ سے لے کر، طے پا جانے اور بعد میں اس کے پکّا ہونے اور شادی خانہ آبادی بننے اور اس خانہ آبادی کو مینیج کرنے میں بڑی دُر گھٹنائیں آتی ہیں جنھیں پاؤں تلے مسلنا ہوتا ہے۔ اپنوں میںشادیاں ہوں تب مشکلات کی چٹانوںکاسامنا ہوتا ہے، غیر مذہب والوں میں شادی کر بیٹھیں تو کٹھنائیوں کے پہاڑ رُوبرُو ہوتے ہیں جن کو سر کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے۔ اور تو اور اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کرنے کی منزلیں بھی سوچ سمجھ کے پانے کی حکمتِ عملی بنانا پڑتی ہے، ہیئر سٹائل، نیل پالش، پہناوا، دوپٹّا، عبایا، حجاب حتّٰی کہ فیملی پلاننگ تک دُوسروں کی مرضی مشوروں کو صائب ماننے والی صورتِ حالات کا آئے روز سامنا ہوتاہے۔ اپنی فیملی کی خواتین سے ایسے معاملات پر نمٹنے اور گھر آئی مسیحی دُلھن کی آزادیوں خودمختاریوں میں دخل درمعقولات کے انداز بڑے مختلف ہوتے ہیں۔ عام حالات میں، اپنی اپنی کمیونٹی میں، ہر روایتی ساس کو شیشے میں اُتارنے کی ضرورت ہوتی ہے، مسیحی خاتون مسلم مرد سے بیاہ کر جب اُس کے گھر جاتی ہے تو جلد ہی اُسے احساس ہوتا ہے کہ یہاں تو سسُّو ماں والے ''محبت بھرے اختیارات'' گھر کی ہر خاتون سنبھالے بیٹھی ہے، حتّٰی کہ مردوں اور لڑکوںبالوں نے بھی بڑے اباؤں والے انداز اپنا رکھے ہیں۔ چھوٹے دیوروں، بھابیوں، دیورانیوں وغیرہ والے پنجابی لوک گیت، بولیاں، ٹپے، سب قصہء پارینہ ہو گئے۔ صدیوں کے راستے میں ہی کہِیں گُم ہو گئے یا پھر ماضی کے پنگوڑوں میں جا سوئے ہیں۔ جاگیں کیسے، نہ ڈھولک، نہ وٹے، نہ تالیاں نہ ڈُومنیاں اور نہ دریسیں نہ جھُومر۔ اِس لیے ہم خبردار کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔''مشتری ہوشیار باش!''۔

آپ جرمنی میں ہوں، برطانیہ، سپین، اٹلی، کِسی بھی مغربی ملک میں ہوں یا کہِیں بھی، میاں بیوی ہر جگہ سُکھ چین آرام، مذہبی آزادی اور سماجی احترام میں کمی، کہِیں بہت کمی اور کہِیں بہت ہی زیادہ کمی کا شکار، کِسی نہ کِسی صورت، ضرور رہیں گے اس لیے ''ویلنے وچ بانہہ دین توں پہلاں'' یعنی شادی سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لیں۔ مثلاً فرض کریں بدیسی خاتون ہے اور شادی کے بعد ایک روز خاوند کے وطن(فرض کر لیجیے پاکستان) آ جاتی ہے، مکھیاں، مچھر، گرمی، گرد اور گندگی اس کا پہلا تعارف ہو گا اور یہ بڑا مستقل مزاج تعارف ہے، صدیوں سے جاری اور اب تک اس میں کمی نہیں آئی بل کہ اس پہلے پہلے تعارف میں گرمجوشی بڑھی ہے۔ ایئر پورٹ یا بندرگاہ پر ہی خاتون کو پتا چل جائے گا یہاں کچھ بھی ملاوٹ سے پاک نہیں، صاف ستھرا مصفّا و شفاف پانی تک ملنا مشکوک ہے، حفظانِ صحت کا محکمہ تو ہے مگر وہ اپنا ہی تن دُرُست رکھنے پر قانع ہے۔ زندگی بچانے کی دوائیں تک نمبر دو ہیں، یہاں آنے والی خاتون کو اپنا مذہب بچانے کے بھی لالے پڑے رہیں گے، اس کو اپنی شخصی آزادی، پاسپورٹ کی طرح مسلم خاوند اور اس کی فیملی کے پاس گروی رکھ دینا ہو گی۔ شوہر پھر بھی کچھ لحاظ کر لے تو کر لے، آخر باہر رہ کر آیا ہے، مگر معاشرہ اس خاتون کو نہیں بخشے گا، جب کہ اندر ہی اندر اس سے مرعوب بھی ہو گا اور رشک بھی کر رہا ہو گا۔ خود تو ہماری خواتین کو میم بنے رہنے اور مَیم کہلوانے کا ہر دم انگڑائیاں لیتا شوق ہے جو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے مگر ایک مسلم مرد کی مسیحی بیوی چاہے وہ گوری ہو یا کالی یا پردیس گئی ہوئی ہمارے خطے والی، یعنی ایشیا نژاد، اس کی چال ڈھال رفتار، بات چیت سلیقہ، طور اطوار، لباس، شخصیت کا نکھار، رکھ رکھاو، خیالات و افکار مذہب سے لگاو (واجبی ہو یا گہرا، جیسا بھی ہو بات تو غیر مذہب کی ہے، بھلے وہ اہلِ کتاب ہو) ان سب باتوں پر ہمارے مرد اور خواتین نے آبزروریٹریز قائم کر رکھی ہوتی ہیں اور ہر کوئی ہر دم دُوربین فٹ کیے بیٹھا نظر آتا ہے۔ لینز فوکس کرنے کی بھی فرصت نہیں ہوتی، بڑی بوڑھیاں اور قبروں میں پاؤں لٹکائے بزرگ خوردبینوں تلے گھر آئی سہاگن کے کردار میں کیڑے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ شادی سے پہلے جو فیصلہ آپس میں صلح صفائی سے طے کرنا چاہیے تھا، اب شکررنجیوں کے بعد اس پر غور شروع ہوتا ہے اور ایک دن سرتاج کے وطن آئی چڑیا واپس اپنے دیس اُڑن چھُو ہو جاتی ہے کیوں کہ اسے یہاں پہنچ کر نہ کہِیں کھیت نظر آیا تھا نہ دانہ، نہ حوصلہ تھا، نہ ہی کِسی نے ہمت بڑھائی، وہ پھُر سے بغیر کچھ چگے بغیر اپنے بچوں کو ساتھ لیے پرواز کر گئی، بچوں نے بھی خُدا کا شکر ادا کِیا اور واپس جا کر اپنے ساتھ بیتے لطیفے دوستوں کو سناتے پھرے۔ اچھے لوگ بھی موجود ہیں، اچھی باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں، اچھی مثالیں بھی زندہ اور قائم ہیں۔ ایسے بھی خواتین و حضرات ہیں جو کبھی پاکستان آئے اور اسے ہی اپنا وطن بنا لیا، لوٹ جانے کا کبھی سوچا بھی نہ۔۔۔۔۔۔ (دِل ہی دِل میں کہنا پڑتا ہے، بڑی ہمّت ہے اُن کی!)۔

دیسی ہو یا بدیسی خاتون، مسیحی ہو اور وہ بھی کیتھولک،تو مسائل دُگنا ہو جاتے ہیں۔ مسلم سوسائٹی میں اس کے بارے میں کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا۔ ہم اس پر اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

ہوتی آئی ہے کہ اچھّوں کو بُرا کہتے ہیں

درخواست ہے کہ مسیحی دُلھنوں پر مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہوجانے کا دباو اب ختم کر دیا جانا چاہیے۔ برداشت اور رواداری کے ساتھ وفاداری کی صفت بہ رُوے کار لاتے ہوئے بے شک اپنا مذہب چھوڑئیے مت، یہ بھی تو ہے کہ دوسروں کا مذہب چھیڑئیے مت۔ خاتون کا اپنا جو وطن ہے وہاں اُسے اپنا مذہب چھوڑئیے مت اور دوسرے کا مذہب چھیڑئیے مت والی سہولت میسر ہے۔ ادھر یوں ہوتا ہے کہ مسلم اکثریت والے ممالک میں بہت حد تک ایک دوسرے پر معاشی انحصار نہ ہونے، میاں بیوی کی ایک دوسرے پر محتاجی نہ ہونے بل کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی صورت میں میاں بیوی اور بچوں کا اکٹھے رہنا کہ آزاد و خودمختار بھی ہوں اپنے مرکز سے بھی جدا نہ ہوں یعنی اپنی فیملی کے نیوکلیئس سے جُڑے ہوں، یہ اصول ابھی تک ان ممالک میں مقبولیت تو دُورکی بات ہے قبولیت بھی حاصل نہیں کر سکا۔ (البتہ ماڈرن ترکی کا کیس دوسرا ہے۔ وہ ویسے بھی آدھا یورپ میں ہے آدھا ایشیا میں۔ ) ان مسلم اکثریت والے ممالک میں رائج ہے کہ سب مل کر ایک کنبے کی صورت میں بود و باش رکھیں۔ ماں باپ بیوی بچے، بہن بھائی، آگے ان کے بچے اور کئی صورتوں میں دادا، دادی، نانا، نانی سب جوائنٹ فیملی سسٹم کا اٹوٹ انگ ہوتے ہیں۔ اس کے فائدے بھی ہیں، نقصانات بھی۔ فائدے کم اور فی زمانہ خسارے زیادہ ہیں اور ایشیا میں ایسی کامل مثالیں عام ہیں۔

ایسی شادیوں کے جراثیم بل کہ آج کے دور میں تو کہنا چاہیے ایسا وائرس پھیلنے سے پہلے، کافی پہلے، غور و خوض کے بعد، اپنے اپنے حالات کے پیشِ نظر، موزوں ترین اور پختہ فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ شادی کے بعد جوڑے نے کہاں، کِن حالات میں رہنا ہے۔ کوئی لگی لپٹی نہ رکھی جائے کیوں کہ اسی فیصلے پر آیندہ کے دُکھوں سُکھوں کا دارومدار ہے۔ اگر وسیع القلبی اور روشن خیالی کا اظہار ممکن بنایا جا سکے تو فیصلہ کچھ یوں سامنے آنا چاہیے کہ دُلھن کو وہ ازدواجی زندگی ملے جس میں ناروا طور پر اور ناقابلِ برداشت حد تک اس پر ایسا جبر نہ ہو کہ اسے ویسا نہ کرنا پڑے جیسا کرنے کے اس نے خواب دیکھے تھے بل کہ اسے دباو میں آ کر وہ کرنا پڑے اور ویسا ہی کرنا پڑے جیسا دوسروں کی مطابقت پذیری میں کِیا جا سکتا ہو۔ خُدا کرے ہم اپنی بات صحیح طور سمجھا پائے ہوں!

6۔ اسلامی شرعی قوانین کے مطابق شادیوں کے دونوں امیدواران کے لیے کچھ چیزیں ایک دوسرے کے اُلٹ ہیں۔ ایک کے حقوق دوسرے کے فرائض ہیں اور دوسرے کے حقوق فریقِ اوّل کے لیے فرائض کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس لیے نہ دوسرے کے حقوق عورت کے لیے ضرر رساں ہیں اور نہ اس کے اپنے فرائض اس کے ساتھ کوئی بے انصافی ہیں۔ہاں، یہ ضرور ہے کہ اسلامک جورس پروڈنس میں اور مسلم روایات میں بیوی کی قانونی حیثیت ازدواجی معاملات میں خاوند کے مقابلے میں کمزور تر رہی ہے۔۔۔۔۔۔

مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔
پس نیک، فرماں بردار عورتیں خاوندکی عدم موجودگی میں بہ حفاظتِ الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں۔ اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمھیں خوف ہو اُنھیں نصیحت کرو، اور اُنھیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور اُنھیں مار کی سزا دو، پھر اگر وہ تابعداری کریں تو اُن پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے۔

القرآن۔۔۔۔۔۔34:4

ان آیات میں عورت کی ذمہ داری مرد پر ڈال دی گئی ہے۔ اس کا فرض ہے کہ بیوی بچوں کے نان و نفقہ کا بندوبست کرے۔ اور بیوی کی نافرمانی کی صورت میں اسے سمجھانے کے لیے سب سے پہلے پند و نصیحت کا نمبر ہے، دوسرے نمبر پر اُس سے عارضی علیحدگی ہے جو سمجھدار عورت کے لیے بہت بڑی تنبیہ ہے۔ اس سے بھی نہ سمجھے تو ہلکی سی مار کی اجازت ہے لیکن یہ مار وحشیانہ اور ظالمانہ نہ ہو جیسا کہ جاہل لوگوں کا وتیرہ ہے۔ اس ظلم کی اجازت کِسی مرد کو نہیں دی گئی۔ اگر بیوی اصلاح کر لے تو پھر راستہ تلاش نہ کرو یعنی مار پیٹ نہ کرو، تنگ نہ کرو یا طلاق نہ دو، گویا طلاق بالکل آخری مرحلہ ہے جب کوئی اور چارئہ کارباقی نہ رہے۔ نہ اپنی زندگی برباد کرو، نہ عورت کی اور بچے ہوں تو نہ ان کی۔ ازدواجی زندگی میں زن و شوہر کو حسنِ سلوک کا پابند کِیا گیا ہے۔ مسلمان ہوں یا مسیحی سلوک پر تحسین یا سرزنش کے لیے کتابِ مقدس کی، اس مضمون پر، محض ایک آیت کافی نہیں۔ ٹھیک ہے شریعت خاوند کو سزا کا حق دیتی ہے، یہ روایت سی چلی آ رہی ہے، تھوڑا یا بہت ہر معاشرہ مارپیٹ سے خالی نہیں۔ مسلمان ہوں، ہنود و یہود ہوں، مسیحی ہوں کوئی ہوں سب کے ہاں مارپیٹ ہے، یورپ امریکا میں بھی روز کِسی نہ کِسی گھر سے مار کھائی بیبیاں بلائی گئی پولیس کا اپنے دروازے پر انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔ بہ ہر حال، ہلکی پھلکی مار والی موسیقی حق ہے جو دیا گیا ہے، حکم نہیں جس کی تعمیل ضروری ہو، مارپیٹ، تشدُّد اب ختم ہو جانا چاہیے۔ اصلاح، مفاہمت، مکالمہ کو رواج دیا جائے۔ دَھیں پٹاس کی نوبت ہی نہیں آنی چاہیے چہ جاے کہ اب شوہر بھی بیویوں کے ہاتھوں پٹنے لگے ہیں۔ شرم کے مارے نہ پولیس بلاتے ہیں نہ کِسی کو بتاتے ہیں۔

7۔ گو معاشی مسائل نے اور معاشرتی گمبھیرتا ؤں نے زمانے کے حالات خاصے بدل دیے ہیں، پھر بھی اسلامی قوانین مرد کو یہ حق دیتے ہیں کہ بیوی کی آنیوں جانیوں پر نظر رکھے اور وہی طے کرے کہ کہاں اُسے جانا چاہیے کہاں نہیں۔ وہ جاب کے سلسلے میں بھی اُسے باہرجانے سے منع کر سکتا ہے تا کہ گھر گرھستی اور ننھے بچوں کے لیے کام کاج میں ہرج نہ آئے۔ خاوند جب باہرکے سارے کام خود نبیڑ آتا ہے تو وہ بیوی کے باہر نکلنے، جھانکنے پر بھی قدغن لگانے میں دیر نہیں کرتا۔ کئی کٹھور قسم کے شوہر دساور سے لائی گئی بیویوں کو بھی اپنے وطن جانے سے روک دیتے ہیں۔ اپنے نزدیکی عزیز واقارب، ماں باپ، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں سے بیوی کے میل ملاقات کی اجازت کے سلسلے میں اسلامی شرعی عدالتوں کے قاضی صاحبان کے اپنے اپنے فیصلے ہیں جو ایک دوسرے سے لگّا نہیں کھاتے، بالآخر انگریز کے عطا کردہ قانون کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔

8۔ اب آئیے، دیکھتے ہیں طلاق کے بارے میں اسلامی قانون کیا کہتا ہے۔ میاں بیوی کے تعلقات،ا س میں رخنہ پڑنے کے حالات، وجوہ اور پھر طلاقِ بائن ہو جائے تو بچوں کی تحویل کے معاملات، مختصر یہ کہ ان سب اُلجھنوں سے کیوں کر نمٹا جا سکتا ہے اور اس کے اثرات فرد پر اور معاشرے پر کیسے کیسے مرتب ہوتے ہیں، ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ شریعتِ محمدی بچوں کو باپ کے سپرد کرنے کے حق میں ہے۔ اسلامی قوانین تومطلقہ ماں کو اپنے بچوں کی ملاقات کی اجازت دینا بھی جائز نہیں سمجھتے۔ جب کہ یہ تو بلوغت تک بچوں پر ماں کا حق ہے، بالغ ہونے کے بعد اولاد کچھ بھی فیصلہ کر سکتی ہے۔ اس شریعت لا کے تحت طلاق کے بعد ماں سے بچے چھین لیے جاتے ہیں۔ جرمن عدالتیں بچوں کی کسٹڈی ماں کو دے تو دیتی ہیں مگر بہت سی شرائط عائد کر کے اور فریقین سے وعدے لینے کے بعد۔ بہ ہر صورت کہنا بھی پڑتا ہے کہ اگر کوئی جرمن خاتون کِسی مسلمان مرد سے جو کِسی اور ہی ملک کا باشندہ ہو اُس سے شادی کر لینے پر رضامند ہو تو ایسے فیصلے پر عمل سے پہلے اُسے چاہیے کہ وہ ان نافذ قوانین کا، کہ جن کے تحت شادی مؤثرہوتی ہے اور جو اس کے ہونے والے خاوند کے وطن میں رائج ہیں، بہتر طور مطالعہ کر لے،معلومات حاصل کر لے یا ضروری شُد بُد ہی حاصل کر لے تا کہ بوقتِ ضرورت کام آئے۔ اسے چاہیے کہ بہ اصرار نکاح کو قانونی/ کلیسیائی اعتبار سے تسلیم کرنے کروانے اور ایجاب و قبول اور تقدیس کرنے کے عمل کی سنجیدگی کے ساتھ رسم ادا کرتے ہوئے شادی کو جرمن آفس میں رجسٹرڈ کروائے۔ خُدا نہ کرے کہ ایسی کوئی ضرورت پیش آئے، خُداناخواستہ اگر کبھی طلاق کی نوبت آگئی، تو رجسٹری آفس کا ریکارڈ اس کے بہت کام آئے گا۔

جہاں تک شادی کا طریقِ کار اور ازدواجی کیتھولک قوانین اور ضوابط کا تعلُّق ہے، اس سلسلے میں مندرجہ ذیل نِکات کی طرف، آپ کی توجُّہ چاہیے۔

1۔ کیتھولک کلیسیا کے نزدیک شادی کیا ہے؟ میاں بیوی کے مابین تا حیات محبت بھرے سنگم کا نام شادی ہے۔ جس کا منتہاے مقصود دونوں شرکاے زندگی کی فلاح و بہبود، ایک فریق کا فیملی وے میں آجانا جسے بڑی بوڑھیاں شرما شرما کے کہتی ہیں دُلھن کا پاؤں بھاری ہو گیا، اور پھر فریقین جب والدین بن جاتے ہیں تو پھر بچوں کی پرورش ان کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ یہ جو شادی کا انسٹی ٹیوشن ہے اس کے نمایاں اوصاف اور خاصیتیں نمبر ایک وفاداری، نمبر دو وفاداری، نمبر تین وفاداری۔۔۔۔۔۔ علیٰ ہٰذاالقیاس وفاداری ہی وفاداری بشرطِ اُستواری۔ اس مقدس رشتے کے درمیان بس موت ہی حائل ہو سکتی ہے یا پھر بے وفائی و بد نیتی دراڑیں ڈال سکتی ہے۔ وہ بھی در اصل موت ہی کی بگڑی شکل ہیں۔ ہاں، یہ بھی باور کروا دیں کہ یہ بداعمالیاں شاذونادر ہی جنم لیتی ہیں۔

مسیحیوں میں صحیح و جائز شادی ایک طرح کا مقدس ساکرامنٹ ہے۔ غیر مسیحی سے کِسی مسیحی کی۔۔۔۔۔۔ ''آئی ڈُو، آئی ڈو''۔۔۔۔۔۔ ''ہاں جی، ہاں جی'' ، ''مَیں ایسا ہی کروں گا''۔۔۔۔۔۔ غیر ساکرامنٹی عقد ہے۔ مختلف مذہبوں کا اختلاط۔

2۔ کیتھولک کلیسیا جس شادی کو اپنا وثوق عطا کرتی ہے اس کے دونوں پارٹنر چرچ میں سب کے سامنے ایک دوسرے کو قبول کر کے پوری آزادی سے میاں بیوی کہلوانے کے حقدار بن جاتے ہیں، سمجھو سب رکاوٹیں پھلانگ آئے۔ گاڑی کے پیچھے جسٹ میریڈ یا نیو لی ویڈکی تختی آویزاں کر کے سارے شہر، قصبے یا گاؤں کے چکر لگاتے ہیں، کنواروں کے دِل جلاتے ہیں اور وہ پھر بھی اُنھیں خوشیوں، سہانے مستقبل اور خوشحالی کی دعائیں دیتے ہیں، جو ضائع نہیں جاتیں کیوں کہ اگلے سال ان میں سے کِسی کی دُلھن اپنی سہیلیوں سکھیوں کی طرف وارے ہوئے پھول اُچھال رہی ہوتی ہے اور دُولھا میاں جو اب کنوارے نہیں رہے، باقی کنواروں کے لیے ''نیولی میریڈ'' لکھوا کے کار کا پیٹرول جلانے نکل جاتے ہیں جب کہ گھر والے ''بُور کے لڈُّو'' بانٹ رہے ہوتے ہیں۔

3۔ حقیقت حقیقت ہوتی ہے اور اُسے جھُٹلانا رات کو دِن اور دِن کو رات کہنے کے مترادف ہوتا ہے۔ شادی کی رات رات اور دِن دِن تبھی ہے جبھی اپنے مذہب پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہنے کے لحاظ سے اور آنے والے اپنے بچوں کے عقیدہ و ایمان کی حفاظت اور اس کے استحکام کی خاطر مسیحیت کے کیتھولک پیروکاوں کا واقعی اپنی ہی تیار کردہ اوکھلی میں سر آجاتا ہے اور موسلوں کے ڈر سے وہ فکر مند اور پریشان پریشان نظر آتے ہیں، جب وہ اس مسئلہ سے دوچار ہو کر گھبرا اُٹھیں کہ ان کی ''ہاں'' جس شادی پر منتج ہو گی اس کے عہد کے تحت ساری عمر اکٹھے بتانا ہو گی اس شریکِ حیات کے ساتھ جو مسیحی المذہب نہیں، کیتھولک مسیحی نہیں، بالکل ہی کِسی اور مذہب یا فرقے کا پیرو ہے۔ اُس وقت اور وقت کے عین اُس لمحے اولاد کا دِین، ان کا مستقبل ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن کر خطرے کی لال بتّی کی طرح جلنے بجھنے لگے گا۔
احساسِ ذمہ داری کے تحت اپنے مسیحیوں کے لیے ان کا مذہب بچانے کے لیے پیداشدہ تحریک کے جذبات اور احساسات کے حوالے سے کیتھولک کلیسیا مان گئی اور اس نے مشروط منظوری دینا گوارا کرلی کہ مسیحیت اور دیگر بہت سے مذاہب ایسی شادیوں کے خلاف سدِّ سکندری چُن دینے کے لیے متحدہو جائیں۔ طے پایا کہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں میں شادی کی منظوری پر صرف اس صورت میں ہمدردانہ غور کِیا جا سکتا ہے جب نکاح کی مذہبی تقریب منانے سے پہلے پہلے کلیسیائی قانون سے اسے استثنا کی درخواست دے کر باقاعدہ منظوری لے لی گئی ہو۔

4۔ کلیسیائی قانون کے تحت شادی میں کِسی قسم کی اڑچن، رکاوٹ آنے سے بچنے کے لیے دو شرائط کا پورا ہونا بہت ضروری ہے۔ کیتھولک امیدوارِ شادی کی طرف سے اپنے مذہب پر ثابت قدم رہنے کا وعدہ اور ہر ممکن کوشش کی یقین دہانی کرائی جائے کہ بچے لازمی طو رکیتھولک مسیحی عقیدہ پر بپتسمہ لیں گے اور کیتھولک کلیسیا میں ہی ان کی پرورش اور تربیت ہو گی۔ مسلم ساتھی کو اس وعدے اور یقین دہانی سے باخبر رکھا جائے تا کہ وہ اندھیرے میں نہ رہے۔ کوئی اعتراض نہ ہو، شرائط مان لینے والی رمز ہے۔ شادی کے سلسلے میں کلیسیا کی جو تعلیمات ہیں اور اس رسم کی ادائی کے لیے جو آداب مقرر ہیں ان کے بارے میں بھی مسلم فریق کو مُکمَّل آگاہ کِیا جائے۔ کیتھولک فادرصاحب کے علم میں ہونا چاہیے کہ شادی پر آمادہ مسلم فریق پر بھی کچھ پابندیاں ہوں گی کہ وہ اپنے مذہب کا وفادار رہے اور بچوں کی تربیت کے سلسلے میں مذہب کے معاملہ میں ان کا دفاع کرنا بطور فرض اس کی ذمہ داری ہو گی۔ اس کی اس تمنا کو چیلنج نہیں کِیا جا سکتا کہ بچے کے کانوں میں پہلی آواز اذان کی پڑے۔ معاملات کی ان پیچیدگیوں سے احسن طور عہدہ برآ ہونے کی ضرورت ہے۔ ور نہ الجھاو آ سکتے ہیں جو زندگی کی گردشوں کو دعوت دے کر سکھ کی نیندیں حرام کر دیں گے۔ جو طے ہونا ہے شادی سے پہلے، وہیں، تبھی اور سب کے سامنے طے ہو جائے۔ اکثرکہہ دیتے ہیں کہ آنے والے کل تک سب کچھ دھیرج دھیرج ٹھیک ہو جائے گا، مگر وہی بات کہ کل کِس نے دیکھا، جو ہونا ہے آج ہو ۔

5۔ کیتھولک اور مسلم میرج پارٹنرز کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات ممکنہ طور جلد سے جلد تر اور شادی کی تقریبات کے آغاز سے بہت پہلے خیرسگالی کے جذبات کے ساتھ شروع کر کے انجام تک پہنچا دیے جائیں۔ کِسی فریق کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ نہ اُٹھایا جائے۔ افہام و تفہیم سے کام لیا جائے۔ وقت کی کمی اور اس کی نزاکت کِسی فریق پر دباو کے لیے بہانہ ہرگز نہ بنائی جائے۔ تحمل کے ساتھ فریقین کو ٹھنڈے مزاج سے سوچنے، غور کرنے، فیصلہ پر پہنچنے کا موقع دینا واجب ہو گا۔ گُڑیا گڈّے کا بیاہ نہیں، د وانسانوں کی زندگی اور آیندہ نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔

کیتھولک شادیوں کے کچھ دینی لوازمات ہیں جنھیں پورا کرنا لازم ہوتاہے۔ شادی کے سلسلے میں بعض اصول و قواعد کیتھولک مسیحیوں اور مسلمانوں کے ہاں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مسلمان ایک سے ز یادہ شادیاں رچاسکتے ہیں، مسیحیت ایک شوہر ایک بیوی پر قانع ہے۔ طلاق اور علیحدگی کے مسائل، ازدواجی زندگی میں روزمرہ کے کام، دفتر، کاروبار، ملازمت، گروسری، بچوں کے دودھ اور خوراک کا بندوبست، خاتونِ خانہ کے گھرگرھستی کے بکھیڑے، ساس نند بھابیوں کی چخ چخ اور بیویوں کی مصروفیات، چہرے کی لیپا پوتی ، خاوند کا استقبال، بڑے بچوں کی دیکھ بھال، معصوم ننھے بچوں کی نگہداشت و پرداخت، میکا، میکے والوں سے تعلقات، خاطرداری۔۔۔۔۔۔ یہ ساری باتیں شادی کی تیاریوں کے دوران ہی طے ہو جانا چاہییں اور وہ بھی ''ابھی نہیں تو کبھی نہیں'' کی بنیاد پر، ورنہ اپنی ہی دنیاوی اور مذہبی زندگی کے علاوہ دونوں خاندانوں کی دینی دنیاوی اُخروی زندگیاں بھی اجیرن ہو جائیں گی۔

6۔ ایسے کِسی غیر مسیحی کے ساتھ جس کا خُداوند کریم کی ذاتِ اقدس پرپکّا ایمان ہو پاک کلمہ کی سروس میں شادی ہو سکتی ہے۔ عبادات، تلاوت، حمیدہ گیت، ایسے ادا کیے جائیں جو ایسے ہی مواقع پر ملتی جلتی صورت میں غیر مسیحی فریق کے مذہب میں بھی روا سمجھے جا سکیں، اگر وہ ساتھی مسلمان ہے تو ان دعاؤں، تلاوت، عبادت اور حمد و ثنا والے گیتوں کو وہ سمجھ سکے اور پھر کوئی ریزرویشن نہ ہونے کی صورت میں سب کے ساتھ ان کی برکت میں ہم آواز بھی ہو جائے، یوں دُولھا دُلھن اور ان کے خاندان سبھی ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ جائیں گے۔

7۔ شادی کی تقریب منعقد کرنے کے لیے کیتھولک کلیسیا کی طرف سے خاص صورتِ حالات میں شریعتِ مسیحی سے قدرے احتراز کا اجازت نامہ اگر دیا جا چکا ہو، تب کیتھولک قاعدہ و معیار کے مطابق تمام رسوم، ظاہر ہے پورے طور، ادا نہیں کی جائیں گی، اسی طرح کیتھولک اور غیر مسلم شریکِ حیات بننے کے خواہشمندوں میں شادی طے پا سکتی ہے، کورٹ میرج کے ذریعے بھی اور نکاح رجسٹرار کے دفتر میں بھی۔

کلیسیائی قوانین کے مطابق شادی سے استثنا کے بعد اگر امیدوارانِ شادی نے رجسٹری آفس سے رجوع کرنے کو ترجیح دینی ہو تو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ کیتھولک کلیسیا کے قوانین کِسی بھی اور طریقہ سے یہ تقریب انجام دیے جانے کی صورت کی قطعاً حوصلہ افزائی نہیں کرتے اور نہ ہی اسلامی شریعت ایسی شادی اسلامی روایات کے مطابق قرار دیتی ہے۔اسلام میں بھی کورٹ میرج کا طریقہ مقبول نہیں۔

اور جب نکاح کامعاہدہ طے پاتا ہے

1۔ طلاق ولاق مسیحیت میں ہے ہی نہیں۔ اس حقیقت کے علی الرغم کیتھولک فہم، سوجھ بوجھ کے مطابق اور خاتون پارٹنر کے ایما پر مذہبوں کے اختلاط پر ہونے والی شادی کے بارے میں اگر یہ مطلوب ہو اور ہونا بھی چاہیے کہ اس کا آغاز خوشیوں سے ہوا ہے تو انجام بھی بخیر ہو، پھر تو سمجھداری کی بات یہ ہوگی کہ دُلھن نکاح نامہ اور اس میں درج کروائی جانے والی شرائط پر خاص توجُّہ مبذول رکھے جو رواجی ہے، خاص طور پر اسلامی شادیوں میں تو سب کچھ گواہوں، وکیلوں اور نکاح خواں (رجسٹرار) کی موجودگی میں تمام شرائط تحریراً فارم نکاح کی ہر پرت پر آجاتی ہیں۔ اور پھر نکاح فارم (نکاح نامہ) بوقتِ ضرورت بڑے کام کی چیز ثابت ہوتا ہے۔ نفاق کی صورت میں جب آخری حل طلاق ہو تو ممکنہ نتائج کی شدت میں کمی لانے اور اس ناپسندیدہ عملِ طلاق کی تلافی کے طور پر نکاح نامہ اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

2۔ رواجاً و روایتاً شادی کے اسلامی معاہدہ میں برّی، جہیز اور حق مہر کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ حق مہر معجل اور غیر معجل دونوں صورتوں میں ادا کِیا جاتا ہے اوریہ ادائی نقد رقم، زیور یا جایداد کے کاغذات کے ذریعے کرنا ہوتی ہے۔ بعض خواتین تکلف یا شرم شرما میں معاف بھی کر دیتی ہیں جو غلط ہے، حق سے دستبرداری کا فعل ہے۔ اور اس معافی و عافی کی شرعی کوئی حیثیت نہیں۔ فوری ادا کرنا، ثواب ہے۔ حجلہء عروسی سے باہر آنے سے پہلے پہلے طے شدہ رقم دُلھن کے حوالے کر دی جانا چاہیے۔ یورپ میں رہنے والی مسیحی خواتین جن کو ان مسئلوں کی آگاہی نہیں، وہ معاہدہ میں رقم کی گئی آفر اکثر ٹھکرا دیتی ہیں۔ ذاتی طور پر علم سے قطع نظر فوری جذباتی فیصلہ کے زیرِ اثر کہتی ہیں کہ جب ایک دوسرے کو قبول کر لیا، شریکِ حیات ہی بن گئے تو پیسا ویسا چہ معنی دارد، اصل چیز تو میاں بیوی کے درمیان اُنس، پیار و محبت اور ایک دوسرے کے درد کی سانجھ اور آپس میں خوشیوں کی بانٹ اور وفاداری ہے وہ قائم رہنی چاہیے۔ دولت تو آنی جانی ہے، محبت کے سوا سب کچھ فانی ہے۔ محبت دولت نچھاور کر سکتی ہے، دولت سے محبت نہیں خریدی جا سکتی۔ سب بجا، مگر حق مہر تو حق ہے، اس کی ادائی اس لیے نہیں ہوتی کہ دُلھنیں کوئی بکاؤ مال ہیں ، خُدا سب کو اپنی امان میں رکھے اگر کبھی خاتون کو بُرے وقتوں کا سامنا آجائے، میکے گھر بیٹھنا پڑ جائے تو حق مہر کی رقم، کاٹنے کو دوڑنے والے سیاہ دِن کاٹنے میں ضمانت بن کے آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ اسلامی شریعت میں تو یہ بُرے دِن یعنی طلاق والی صورتِ حالات بیویوں سے پوچھے بتائے یا کِسی سمجھوتے کے تحت تو آتی نہیں۔ یہ تو مرد کو اجازت ہے وہ اس اجازت کا استعمال صحیح یا غلط کِسی بھی موقع پر، کِسی بھی وجہ سے کر سکتا ہے۔ اس استعمال کو روکنے کے لیے پاکستان میں ثالثی عدالتیں قائم ہیں مگر وہاں بھی تو اسّی فی صد مرد کی ہی شنوائی ہوتی ہے۔ گزارہ الاؤنس، بچوں کے اخراجات، عورت کی دوسری شادی تک اس کے نان و نفقہ، خرچہ کابندوبست اور اس کی قسم کی بہت سی سہولتیں ہیں جو مطلقہ عورت اور اُس کے بچوں کو قانوناً اور شرعاً ملنی چاہییں مگر۔۔۔۔۔۔ موئے دیندے نیں۔۔۔۔۔۔ پی جانے کے سو طریقے۔

3۔ ایسے ہی خدشات و مشکلات کے سدِّ باب کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ دُلھنوں کو چاہیے حق مہر زیادہ سے زیادہ، جتنا ممکن ہو زیادہ، لکھوائیں۔ ورنہ کل کلاں کہنا پڑے گا کہ جب بویا ہی کچھ نہیں، تو کاٹیں گے کیا۔ بیویوں کے فائدے میں رہے گی یہ بات، اگر ہماری ہدایات کے مطابق عمل کریں گی تو ایسے خاوندوں کے لیے طلاق کا اعلان کرنے سے پہلے پہروں بیٹھ کے سوچنے کا مقام آجائے گا کہ طلاق کی صورت میں اتنی بڑی رقم وہ لائیں گے کہاں سے، لے بھی آئیں تو ادا کرتے وقت دل پر ہاتھ نہیں پڑے گا کیا؟ ایک موقع اور دینے کا سوچیں گے، سمجھانے بجھانے، عزیزوں، دوستوں، رشتہ داروں کو بیچ میں ڈال کے ٹوٹتا گھر نئے سرے سے بسانے کے منصوبے بنائیں گے، ہو سکتا ہے کالی گھٹائیں چھٹ ہی جائیں۔ سوکنوں سوتوں کی مصیبت سے بچنے کے لیے یہ شروع میں ہی طے کر لیا جائے کہ خاوند صاحب دوسری شادی کرکے سوتن مسیحی بیویوں کے سر پر نہ لا بٹھائیں گے بھلے شریعت اُنھیں کھلی ڈُلی اجازت دے، مشروط دے یا نہ دے۔ ملکی قانون بھی پہلی بیوی سے اجازت کی شرط پر دوسرا بیاہ رچانے کی چھٹی دیتا ہے۔

4۔ ہم مسیحیوں کے بھلے میں یہ سفارش کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ شادی کے معاہدہ میں بعض دوسری شقوں کو بھی ضرور شامل کِیا جائے۔ عبادت کے لیے مسیحی بیوی کو گرجا گھر جانے کی اجازت اور سہولت بہم پہنچانا۔ گھر پر پاسٹر صاحبان کی طرف سے ماس/سرو س کا انعقاد۔ محترم فادرز یا قابلِ احترام سسٹرز کے وعظ و نصیحت اور دیکھ بھال و رہنمائی پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ پیرش تقریبات اور تیوہاروں میں شمولیت۔ اپنی مسیحی فیملی اور برادری کی مذہبی رسوم، ریتوں رواجوں کے مطابق ان کے ہاں یا ان کے ساتھ شمولیت و مذہبی آزادی۔ خاوند کے وطنِ مالوف اور اس کی سماجی و معاشی حیثیت کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس کی طرف سے یہ اجازت معاہدے میں شامل کر لینی مفید ہو گی کہ غیر ملکی بیوی طے شدہ مدت کے بعد اپنے ملک جا سکے تا کہ اپنے عزیز و اقارب اور خونی رشتوں سے مِل آیا کرے۔ یہ تحریری اجازت بھی ہو کہ اگر بیوی خود بھی ملازمت کرنا ضروری سمجھے تو کر سکے۔

5۔ ترکی کے علاوہ کِسی بھی اور اسلامی ریاست کے مسلمان مرد سے شادی کے معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے بدیسی مسیحی خاتون یہ تسلی ضرور کر لے کہ طلاق کی صورت میں بچے کِس کے حوالے ہوں گے۔ وہ بات ہونا چاہیے جو مسیحی ماں کو منظور ہو۔

6۔ ہم خاص طور سے اِس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یہ ہر مسیحی خاتون کے لیے حفظِ ماتقدم کی اضافی کڑی ہے جب شادی کا معاہدہ یوں طے پا رہا ہو کہ اسلامی شرعی قوانین کی رُو سے وہ جائز قرار دیا جا سکتا ہو اور ہماری مسیحی بہن، بیٹی، ملک تُرکی کو چھوڑ کے باقی مسلم ممالک میں سے کِسی مملکت کے مرد سے شادی پر بغیر جبر و اکراہ رضامند ہو اور بھلے یہ شادی جرمن رجسٹری آفس میں انجام پا رہی ہو نکاح وہیں رجسٹرڈ ہو اور کلیسیائی قوانین کے تحت ایسی تقریب کو استثنا بھی حاصل ہو یا مسلمان ساتھی کی طرف سے شادی کی مذہبی رسوم و طریقِ کار کو قبول کر لیا گیا ہو اور حالاتِ حاضرہ کا تقاضا پیشِ نظر ہو کہ جہاں شادی طے پائی رہنا بھی وہیں ہے دونوں کو، خاوند کے اصل ملک جا کے رہنے کا فی الحال کوئی منصوبہ نہ ہو۔۔۔۔۔۔ ایسی صورت میں ہمارا پُرخلوص، ہمدردانہ، مشفقانہ مشورہ یہی ہو گا غیر متوقع طور پر کچھ بھی پیش آ سکنے کی صورت میں اپنے، اپنے مستقبل بل کہ حال کے بھی دفاع کی گنجایش رکھنے سے لاتعلق نہ رہیں۔ شاید خاوند کو، یا میاں بیوی دونوں کو شوہر کے وطن جا آباد ہونا پڑے۔ ایسی صورت میں خُدا نہ کرے، کب اور نہ جانے کیا کیا انہونیوں کو ہونیوں کی شکل میں دیکھنا پڑ سکتا ہے، تب وہ شرائط کام آئیں گی جو حفظِ ماتقدم کے طور پر معاہدئہ شادی کا حصہ بنائی گئی تھیں۔

جب حالات ایک مرتبہ بگڑیں تو اکثر یہی دیکھا ہے کہ پھر بگڑتے ہی چلے جاتے ہیں۔ یہی دیکھ لیجیے، مسیحی زوجہ نے پوری توجُّہ اور تسلّی سے میرج کانٹریکٹ یا نکاح نامہ فارم مُکمَّل کروایا، مُکمَّل کِیا کروایا ایک اہم شق سہواً رہ گئی۔ غور کیجیے، جرمنی میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہاں مسلم مسیحی شادی ٹوٹ جاتی ہے، تعلقات ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم۔ ''شوہرِ نامدار'' بچوں کو اغوا کر لیتا ہے یا کروا لیتا ہے۔ ماں پریشان حال، تڑپتی، فریاد کرتی، قانون کی دہلیز پر جا سرپٹکتی ہے۔ بچے شوہر کے دیس پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ ملک ملک کا قانون فرق ہوتاہے۔ اغوا کے جرم کا ''جواز'' یہ بنایا جاتا ہے کہ حرماں نصیب ماں کی جنم بھومی میں بچوں کی اسلامی نہج پر پرورش و تربیت ناممکن تھی، انھیں زبردستی مسیحی بنا لیا جاتا اس لیے اسلامی تعلیم و تہذیب میں طاق کرنے کے لیے انھیں مسلم اکثریتی ملک میں بلوالیا گیاہے۔ خاوند والے ملک میں تو بیوی کی حمایت کے دلائل کمزور پڑ جائیں گے، اسلام کو خطرے سے بچانے کے لیے خاوند کے اقدام کو مناسب ثابت کرنے کے لیے اپنے ملک، اپنی عدالتوں اور اپنے آئین و قانون کے تحت انصاف و عدل برقرار رکھتے ہوئے بھی ایک سے ایک لوہا دلیل موجود ہوتی ہے کہ بچوں کا ایمان ان کا مستقبل بچایا جائے۔ چناں چہ بدیسی بیوی کا ہی کیس کمزور پڑے گا، جو مطلقہ بھی ہے اور بچے ورغلائے بھی جا چکے ہیں۔ اب سے بلوغت اور بلوغت کے بعد تک ان کے ذہنوں میں مشرق مشرق ہے کے سہانے سپنے مچلتے رہیں گے۔ ایسے بھی کیس ہیں کہ بچے بالآخر امریکا ہی لوٹے، گو ماں کیس جیت گئی لیکن

ہر چہ دانا کند ، کند ناداں
لیک بعد از خرابیِ بسیار

(کند: کرتا ہے۔ لیک: لیکن ۔ بعد از: کے بعد۔ بسیار: بہت)

البتہ وہ بچے عام طور پر ٹِک جاتے ہیں جن کی مائیں ایشیا نژاد مسیحی یورپی، امریکی خواتین اور باپ ایشائی مسلم ہوتے ہیں۔ بچوں کی کسٹڈی لینے کے لیے مصدقہ نکاح نامہ اور اس کی نقل غیرملکی مسیحی ماں کے پاس ہونا ضروری ہے جس میں خاوند نے اقرار کِیا ہو کہ بچوں کی تحویل کی صورت میں جرمنی کی عدالتوں کے کسٹڈی قوانین کی تعمیل کی جائے گی۔

7۔ شوہر کے وفات پا جانے کے بعد مسلم لا کے مطابق یہ ہے کہ مسیحی بیوی کو وراثت میں ٹکا بھی نہیں ملتا۔ بیوگی کا داغ ورثے میں باقی ہے۔ اس لیے مسیحی خاتون ہوش کے ناخن لیتے ہوئے بھرپور کوشش کرکے نکاح نامہ کی یہ شق جزوِ لاینفک بنوائے کہ وراثت سے محرومی کا یہ اسلامی قانون یا اس کے وارث نہ ہونے والی اس شق کا اطلاق اس پر نہ ہو گا۔ بصورتِ دیگر سچوئیشن کی نزاکت کو یوں سہارا دیا جا سکتا ہے کہ شوہر اپنی طرف سے جو وصیت نامہ تیار کروائے اس میں اپنے بچوں کی ماں یعنی اپنی بیوی کے لیے بھی ترکہ میں بہت کچھ، مناسب حد تک بہت کچھ، چھوڑ جائے اور ممکن ہو تو نکاح نامہ میں بھی اس با ت کا ہمیشگی اقرار و حوالہ درج کروا دیا جائے۔

8۔ غیر مسیحی خاوند کو جتنا باندھا جا سکتا ہو، باندھ لیا جائے، یہ باندھنا آیندہ کی خوشگوار زندگی کا ضامن عمل ہو گا۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے وفادار رہیں گے، ایک بہت کچھ دے کر، دوسرا بہت کچھ لے کر۔ ایک محسن اور نیک نیت، دوسرا احسان مند اور مطمئن دونوں میں اعتماد اور ایک دوسرے پر بھروسے کا رشتہ مضبوط ہو گا۔ تاہم، ایک اہم مسئلہ اور بھی ہے جس پر آنکھیں بند نہیں رکھی جا سکتیں۔ وہ گنجھلدار معاملہ ہے۔ میرج کانٹریکٹ بھی فائنل ہو گیا، گُڈ! نکاح نامہ میں احتیاط و تحفظ کی تمام شرائط پر سمجھوتا ہو گیا، خوب! لیکن اس کی کیاگارنٹی ہے کہ اُس کے سرتاج کے اپنے ملک کی عدالتیں اُسی مقدمہ پر جو اُس (زوجہ محترمہ ) نے وہاں آ کے کھڑا کِیا ہے، اس کے حق میں جائیں گی۔ یا اس کے لیے نرم گوشہ رکھیں گی؟ قانون تو قانون ہے، جو سب کے لیے برابر ہے۔ چاہے بچوں کی حوالگی و کفالت کا کیس ہو یا حقِّ وراثت کا مقدمہ، انصاف تو اُسے ملے گا مگر اس کے اپنے ملک کے قانون کی پیروی میں نہیں، خاوند کے ملک کے دستور و قانون کے مطابق۔ ایڈووکیٹس، وکلا، سارا زور لگا دیں گے کہ فیصلہ محترمہ کے حق میں ہو، انسانی حقوق کی انجمنیں، عورت کے تحفظِ حقوق کی این جی اوز، سوشل میڈیا اور اِس ملک کی مائیں بہو بیٹیاں سب اپنے اپنے پلیٹ فارم سے خاتون کی حمایت پر کمر بستہ ہو جائیں گی۔ مسیحی غیر ملکی خاتون کے حق میں بہت شور مچائیں گی، مگر قانون تو قانون ہے، وہ تو نہیں بدل سکتیں نا۔ مذہبی، سماجی، معاشی پس منظر، بچوں کی بہبود ان کا مستقبل اور ایسے دیگر بہت سے جوازات خاتون کو اس کا حق دِلانے میں کامیاب بھی ہو سکتے ہیں، نہیں بھی۔

تحویل و ولایت والے مقدمات میں بطورِ خاص مذہبی تنظیمیں اور مسلم ممالک میں عوام اس مطالبے پر عدالتوں کے باہر اور سڑکوں پر آجاتے ہیں کہ بچے ان کے اپنے ملک کے فریق کی کسٹڈی میں دیے جائیں۔ ایشیائی عدالتوں کے لیے تو مسئلہ بن جاتا ہے، بعد میں سیاسی دباو بھی کِسی نہ کِسی طور آ موجود ہوتا ہے، یورپ و امریکا کے سفارتخانے بھی حرکت میں آجاتے ہیں، قانون کی کتابوں کا ورق ورق اس طوفان کی زد میں آ کر پھڑپھڑانے لگتا ہے، حکومت تک مصیبت میں آجاتی ہے۔ ہر لحاظ سے ہر طرف رخنہ پڑ جاتا ہے۔ مشکل فیصلے کا جو پہاڑ ہے وہ اسلامی جمہوریاؤں اور مسلم اکثریت کی آبادیوں والے ممالک میں سر کرنے کے لیے شعوری نہ سہی، لاشعوری، تحت الشعوری خانوں والے کوہ پیمائی کے آلات اچھل اچھل کر باہر آنے لگتے ہیں کہ فیصلہ اس حقیقت کو سامنے رکھ کر سنایا جائے کہ مسلمان بچوں کے ایمان کو بچانا ہے، ضروری ہے کہ ان کی پرورش و نگہداشت، تعلیم و تربیت اسلامی معاشرے میں ہو، اس لیے انھیں ''کافر معاشرے'' میں واپس نہ بھیجا جائے، خراب ہو جائیں گے، اسلام خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس لیے مسیحی ماں کو نہیں، مسلم باپ کو بچے ملنے چاہییں۔ وہ اس کے ساتھ اس کی سرپرستی، شفقت و محبت میں رہیں یا باپ کے رشتہ داروں میں پلیں بڑھیں۔ اس صورت میں کہ باپ نے بچوں سے دُور پھر دیارِ غیر میں کمائی کرنے بھاگنا ہو۔ ایسے باپ کے لیے عدل اپنا ترازو کیوںکر سنبھالے گا؟ سنبھال بھی سکتا ہے۔


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?