:سوال نمبر301
دورِ حیاتِ محمدی میں مسیحیت کے بارے میں قرآن سے ہمیں کیا معلومات ملتی ہیں؟
جواب:
۔قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ عیسیٰ(یسوع) خدا کے پیغمبر تھے جس طرح موسیٰ، حضرت محمد اور بائیس دوسرے پیغمبران جن کے نام قرآن میں مذکور ہیں:
”اے مسلمانو! تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اُس چیز پر بھی جو ہماری طرف اُتاری گئی اور جو چیز ابراہیم، اسمٰعیل، اسحٰق، یعقوب (علیہم السلام) اور اُن کی اولاد پر اُتاری گئی اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) اور دوسرے انبیا (علیہم السلام) دیے گئے، ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے، ہم اللہ کے تابع فرمان ہیں“۔
(القرآن........136:2)
وہ اُن پیغمبروں میں سے ایک تھے جنھیں الہامی کتاب کے ساتھ مبعوث کیا گیا، وہ انجیلِ مقدس لائے شریعتِ خداوندی کو زمین پر بسنے والی اپنی اُمت پر لاگو کرنے کے لیے تا کہ شریعہ پر لوگ عمل کریں اور فلاح پائیں۔
”اور ہم نے اُن کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والے تھے اور ہم نے انھیں انجیل عطا فرمائی جس میں نُور اور ہدایت تھی اور وہ اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتی تھی اور وہ سراسر ہدایت و نصیحت تھی پارسا لوگوں کے لیے“۔
(القرآن........46:5)
یہ دو وہ عظیم اعزازات تھے جو خدا کسی بھی انسان کو اُس کی بے پایاں عظمت و حرمت بڑھانے کے لیے مرحمت فرما سکتا ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ قرآن نے خداوند یسوع مسیح کو کاذب نبی قرار دیا ہو یا انکار کیا ہو کہ ان پر الہامی کتاب، انجیلِ مقدس کا نزول ہوا جو اپنی ماہیت میں قرآنی تعلیمات و ہدایات سے اتفاق کرتی ہے۔ قرآن نے کہیں نہیں کہا کہ یہ مقدس کتاب جھوٹے عقائد کی تعلیم دیتی ہے اور لوگوں کو گمراہ کر کے اس صراطِ مستقیم سے دُور کر دیتی ہے جس کو خدا نے سُجھایا اور اس پر گامزن رہنے کی تلقین فرمائی، کیوں کہ یہی وہ سیدھا راستہ ہے جو عدن تک پہنچاتا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کی اس بات کا تعلق ہے کہ انجیلِ مقدس میں بعض نقائص اور خامیاں کمیاں دَر آئیں، سہو و فروگذاشت اور اصل متن کو توڑ مروڑ کر شکل ہی بگاڑ دی گئی تو بعد کے بعض مسیحیوں کی طرف سے عمل میں لائے گئے اس بگاڑ کی ذمہ داری خداوند یسوع مسیح کے سر تو نہیں تھونپی جا سکتی۔ چناں چہ اس قرآنی تنقید کے ذریعے ہمیں موقع ملتا ہے کہ مسیحیت کی اصل روح کو ہم پہچانیں۔ اُن غلطیوں کا محاسبہ اور ازالہ کریں جو بعد کی مسیحی نسلوں سے سرزد ہوئیں۔
مسلمانوں کی مقدس کتاب القرآن میں بھی ایسی آیات کا بس ایک ہی مجموعہ ہے جس کے بارے میں علما و فقہاے اسلامی نے بیان کیا ہے کہ یہ اس موقع پر نازل ہوئی تھیں جب حضرت محمد اور مسیحیوں کے ایک گروہ کے مابین بالمشافہ گفتگو ہوئی تھی۔
”الم۔
اللہ تعالیٰ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو زندہ اور سب کا نگہبان ہے۔ جس نے آپ پر حق کے ساتھ اس کتاب کونازل فرمایا ہے جو اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے، اسی نے اس سے پہلے تورات اور انجیل کو اتارا تھا۔ اس سے پہلے، لوگوں کو ہدایت کرنے والی بنا کر، اور قرآن بھی اسی نے اتارا، جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے کُفر کرتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ غالب ہے، بدلہ لینے والا ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ پر زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ وہ ماں کے پیٹ میں تمھاری صورتیں جس طرح کی چاہتا ہے بناتا ہے۔ اُس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ غالب ہے، حکمت والا ہے۔
وہی اللہ ہے جس نے تجھ پر کتاب اُتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے، وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور اُن کی مراد کی جستجو کے لیے، حال آں کہ اُن کی حقیقی مراد کو سواے اللہ کے کوئی نہیں جانتا، اور پختہ و مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں۔
اے ہمارے رب ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دِل ٹیڑھے نہ کر دے اور ہمیں اپنے پا س سے رحمت عطا فرما، یقینا تُو ہی بہت بڑی عطا دینے والا ہے۔
اے ہمارے رب! تو یقیناً لوگوں کو ایک دِن جمع کرنے والا ہے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ کافروں کو اُن کے مال اور اُن کی اولاد اللہ تعالیٰ (کے عذاب) سے چھڑانے میں کچھ کام نہ آئیں گے، یہ تو جہنم کا ایندھن ہی ہیں۔
جیسا آلِ فرعون کا حال ہوا، اور اُن کا جو اُن سے پہلے تھے، اُنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، پھر اللہ نے بھی اُنھیں اُن کے گناہوں پر پکڑ لیا، اور اللہ سخت عذاب والا ہے۔ کافروں سے کہہ دیجیے کہ تم عنقریب مغلوب کیے جاؤ گے اور جہنم کی طرف کیے جاؤ گے اور وہ بُرا ٹھکانا ہے۔
یقینا تمھارے لیے عبرت کی نشانی تھی ان دو جماعتوں میں جو گتھ گئی تھیں، ایک جماعت تو اللہ کی راہ میں لڑ رہی تھی اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا وہ انھیں اپنی آنکھوں سے اپنے سے دُگنا دیکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ جسے اپنی مدد سے قوی کرتا ہے۔ یقینا اس میں آنکھوں والوں کے لیے بڑی عبرت ہے۔
مرغوب چیزوں کی محبّت لوگوں کے لیے مزیّن کر دی گئی ہے، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپایے اور کھیتی، یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ آپ کہہ دیجیے،کیا مَیں تمھیں اس سے بہت بہتر چیز بتاؤں؟ تقویٰ والوں کے لیے ان کے رب تعالیٰ کے پاس جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور پاکیزہ بیویاں اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے، سب بندے اللہ کی نگاہ میں ہیں۔ جو کہتے ہیں، اے ہمارے رب! ہم ایمان لا چکے اس لیے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔جو صبر کرنے والے اور سچ بولنے والے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور پچھلی رات کو بخشش مانگنے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہلِ علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بے شک اللہ کے نزدیک دِین اسلام ہی ہے اور اہلِ کتاب نے اپنے پاس علم آ جانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بِنا پر ہی اختلاف کِیا ہے اور اللہ کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کُفر کرے اللہ اس کا جلد حساب لینے والا ہے۔ پھر بھی اگر یہ آپ سے جھگڑیں تو آپ کہہ دیں کہ مَیں اور میرے تابعداروں نے اللہ کے سامنے اپناسرِ تسلیم خم کر دیا ہے اور اہلِ کتاب سے اور ان پڑھ لوگوں سے کہہ دیجیے کہ کیا تم بھی اطاعت کرتے ہو؟ پس اگر یہ بھی تابعدار بن جائیں تو یقیناً ہدایت والے ہیں اور اگر یہ روگردانی کریں تو آپ پر صرف پہنچا دینا فرض ہے اور اللہ بندوں کو خوب دیکھ بھال رہا ہے۔ جو لوگ اللہ کی آیتوں سے کُفر کرتے ہیں اور ناحق نبیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں اور جو لوگ عدل و انصاف کی بات کہیں انھیں بھی قتل کر ڈالتے ہیں، تو اے نبی! انھیں دردناک عذاب کی خبر دے دیجیے۔ ان کے اعمال دنیا و آخرت میں غارت ہیں اور ان کا کوئی مددگار نہیں۔
کیا آپ نے انھیں نہیں دیکھا جنھیں ایک حصہ کتاب کا دیا گیا ہے، وہ اپنے آپس کے فیصلوں کےلیے اللہ کی کتاب کی طرف بلائے جاتے ہیں، پھر بھی ایک جماعت اُن کی منہ پھیر کر لوٹ جاتی ہے۔ اس کی وجہ ان کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں تو گنے چنے چند دِن ہی آگ جلائے گی، ان کی گھڑی گھڑائی باتوں نے انھیں ان کے دِین کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ پس کیا حال ہو گا جب کہ ہم انھیں اس دن جمع کریں گے، جس کے آنے میں کوئی شک نہیں اور ہر شخص کو اپنا کِیا پورا پورا دیا جائے گا اور اُن پر ظلم نہ کِیا جائے گا۔
آپ کہہ دیجیے! اے للہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزّت دے اور جسے چاہے ذِلّت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں۔ بے شک تو ہر چیز پر قادرہے۔ تو ہی رات کو دِن میں داخل کرتا ہے اور دِن کو رات میں لے جاتا ہے۔ تو ہی بے جان سے جاندار پیدا کرتا ہے اور تو ہی جاندار سے بے جان پیدا کرتا ہے۔ تو ہی ہے کہ جسے چاہتا ہے بے شمار روزی دیتا ہے۔
مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی کسی حمایت میں نہیں مگر یہ کہ اُن کے شر سے کسی طرح بچاو مقصود ہو۔ اور اللہ خود تمھیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ ہی کی طرف لَوٹ جانا ہے۔
کہہ دیجیے، کہ خواہ تم اپنے سینوں کی باتیں چھپاؤ خواہ ظاہر کرو اللہ (بہ ہرحال) جانتا ہے، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اُسے معلوم ہے اور اللہ ہر چیز پر قادرہے۔
جس دِن ہر نفس (ہر شخص) اپنی کی ہوئی نیکیوں کو اور اپنی کی ہوئی برائیوں کو موجود پا لے گا، آرزو کرے گا، اے کاش! اس کے اور برائیوں کے درمیان بہت ہی دوری ہوتی۔ اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے۔
کہہ دیجیے! اگر تم اللہ سے محبّت رکھتے ہو تو میری تابع فرمانی کرو، خود اللہ تم سے محبّت کرے گا اور تمھارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
کہہ دیجیے! کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ پھیر لیں تو بےشک اللہ کافروں سے محبّت نہیں کرتا۔ بے شک اللہ نے تمام جہان کے لوگوں میں سے آدم کو اور نوح کو، ابراہیم کے خاندان کو منتخب فرما لیا۔ کہ یہ سب آپس میں ایک دوسرے کی نسل سے ہیں اور اللہ سنتا جانتا ہے۔
جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اےمیرے رب! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے، اسے مَیں نے تیرے نام آزاد کرنے کی نذر مانی، تُو میری طرف سے قبول فرما۔ یقیناً تُو خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے۔ جب بچی کو جنا تو کہنے لگیں پروردگار! مجھے تو لڑکی ہوئی، اللہ کو خوب معلوم ہے کہ کیا اولاد ہوئی ہے اور لڑکا لڑکی جیسا نہیں۔ مَیں نے اس کا نام مریم رکھا، مَیں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ پس اسے اس کے پروردگار نے اچھی طرح قبول فرمایا اور اسے بہترین پرورش دی۔ اس کی خیر خبر لینے والا زکریا کو بنایا۔ جب کبھی زکریا ان کے حجرے میں جاتے ان کے پاس روزی رکھی ہوئی پاتے۔ وہ پوچھتے، اے مریم! یہ روزی تمھارے پاس کہاں سے آئی؟ وہ جواب دیتیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے ہے، بے شک اللہ جسے چاہے بے شمار روزی دے۔
اسی جگہ زکریا نے اپنے رب سے دعا کی، کہا کہ اے میرے پروردگار! مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تُو دُعا سننے والا ہے۔ پس فرشتوں نے انھیں آواز دی، جب کہ وہ حجرے میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، کہ اللہ تعالیٰ تجھے یحییٰ کی یقینی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے کلمہ کی تصدیق کرنے والا، سردار، ضابطِ نفس اور نبی ہے نیک لوگوں میں سے۔
کہنے لگے،اے میرے رب میرے ہاں بچہ کیسے ہو گا؟ مَیں بالکل بوڑھا ہو گیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے۔ فرمایا، اسی طرح اللہ جو چاہے کرتا ہے۔ کہنے لگے، پروردگار! میرے لیے اس کی کوئی نشانی مقرر کر دے۔ فرمایا، نشانی یہ ہے کہ تین دِن تک تُو لوگوں سے بات نہ کر سکے گا، صرف اشارے سے سمجھائے گا، تو اپنے رب کا ذکر کثرت سے کر اور صبح و شام اسی کی تسبیح بیان کرتا رہ!
اور جب فرشتوں نے کہا، اے مریم! اللہ نے تجھے برگزیدہ کر لیا اور تجھے پاک کر دیا اور سارے جہان کی عورتوں میں سے تیرا انتخاب کر لیا۔ اے مریم! تُو اپنے رب کی اطاعت کر اور سجدہ کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔
یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم تیری طرف وحی سے پہنچاتے ہیں، تُو اُن کے پاس نہ تھا جب کہ وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ مریم کو اُن میں سے کون پالے گا؟ اور نہ تُو ان کے جھگڑنے کے وقت اُن کے پاس تھا۔ جب فرشتوں نے کہا، اے مریم! اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ایک کلمے کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہے جو دنیا و آخرت میں ذی عزّت ہے اور میرے مقربین میں سے ہے۔ وہ لوگوں سے اپنے گہوارے میں باتیں کرے گا اور ادھیڑ عمر میں بھی اور وہ نیک لوگوں میں سے ہو گا۔ کہنے لگیں، الٰہی! مجھے لڑکا کیسے ہو گا!! حال آں کہ مجھے تو کسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا؟ فرشتے نے کہا، اسی طرح اللہ تعالیٰ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔ جب کبھی وہ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو صرف یہ کہہ دیتا ہے کہ ہوجا! تو وہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے لکھنا اور حکمت اور توراۃ اور انجیل سکھائے گا۔ اوروہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو گا، کہ مَیں تمھارے پاس تمھارے رب کی نشانی لایا ہوں۔ مَیں تمھارے لیے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں، پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور اللہ کے حکم سے ہی مادرزاد اندھے کو اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہوں اور مُردے کو جِلا دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھاؤ اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرو مَیں تمھیں بتا دیتا ہوں، اس میں تمھارے لیے بڑی نشانی ہے، اگر تم ایمان لانے والے ہو۔ اور مَیں توراۃ کی تصدیق کرنے والا ہوں جو میرے سامنے ہے اور مَیں اس لیے آیا ہوں کہ تم پر بعض وہ چیزیں حلال کر دوں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں اور مَیں تمھارے پاس تمھارے رب کی نشانی لایا ہوں، اس لیے تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری فرماں برداری کرو۔ یقین مانو میرا اور تمھارا رب اللہ ہی ہے۔ تم سب اُسی کی عبادت کرو، یہی سیدھی راہ ہے۔ مگرجب عیسیٰ نے ان کا کفر محسوس کر لیا تو کہنے لگے، اللہ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے؟ حواریوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ کے مددگار ہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیے کہ ہم تابع فرمان ہیں۔ اے ہمارے پالنے والے معبود! ہم تیری اُتاری ہوئی وحی پر ایمان لائے اور ہم نے تیرے رسول کی اتباع کی، پس تُو ہمیں گواہوں میں لکھ لے۔
اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ نے بھی (مکر) خفیہ تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ! مَیں تجھے پورا لینے والا ہوں اور تجھے اپنی جانب اُٹھانے والا ہوں اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں تیرے تابع فرمانوں کو کافروں کے اوپر غالب کرنے والا ہوں قیامت کے دِن تک، پھر تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے، مَیں ہی تمھارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کروں گا۔ پھر کافروں کو تو مَیں دنیا اور آخرت میں سخت تر عذاب دوں گا اور ان کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔ لیکن ایمان والوں اور نیک اعمال والوں کو اللہ ان کا ثواب پورا پورا دے گا اور اللہ تعالیٰ ظالموں سے محبّت نہیں کرتا۔
یہ جسے ہم تیرے سامنے پڑھ رہے ہیں آیتیں ہیں اور حکمت والی نصیحت ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال ہو بہ بہو آدم کی مثال ہے جسے مٹی سے بنا کر کہہ دیا کہ ہو جا! پس وہ ہو گیا۔ تیرے رب کی طرف سے حق یہی ہے خبردار! شک کرنے والوں میں نہ ہونا۔ اس لیے جو شخص آپ کے پاس اس علم کے آ جانے کے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ کہہ دیں کہ آؤ ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کو اور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو بُلا لیں، پھر ہم عاجزی کے ساتھ اِلتجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں۔
یقیناً صرف یہی سچا بیان ہے اور کوئی معبود برحق نہیں بجز اللہ تعالیٰ کے اور بے شک غالب اور حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ پھر بھی اگر قبول نہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی صحیح طور پر فسادیوں کو جاننے والا ہے۔ آپ کہہ دیجیے کہ اے اہلِ کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں۔ نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں۔ پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں۔
اے اہلِ کتاب! تم ابراہیم کی بابت کیوں جھگڑتے ہو حال آں کہ تورات و انجیل تو ان کے بعد نازل کی گئیں، کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے؟ سنو! تم لوگ اس میں جھگڑ چکے جس کا تمھیں علم تھا، پھر اب اس بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمھیں علم ہی نہیں؟ اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ابراہیم تو نہ یہودی تھے نہ نصرانی تھے بل کہ وہ تو یک طرفہ (خالص) مسلمان تھے، وہ مشرک بھی نہ تھے، سب لوگوں سے زیادہ ابراہیم سے نزدیک تو وہ لوگ ہیں جنھوں نے ان کا کہا مانا اور یہ نبی اور جو لوگ ایمان لائے، مومنوں کا ولی اور سہارا اللہ ہی ہے۔ اہلِ کتاب کی ایک جماعت چاہتی ہے کہ تمھیں گمراہ کر دیں، در اصل وہ خود اپنے آپ کو گمراہ کر رہے ہیں اور سمجھتے نہیں۔ اے اہلِ کتاب! تم (باوجود قائل ہونے کے پھر بھی) دانستہ اللہ کی آیات کا کیوں کُفر کر رہے ہو؟ اے اہلِ کتاب! باوجود جاننے کے حق و باطل کو کیوں خلط ملط کر رہے ہو اور کیوں حق کو چھپا رہے ہو؟
اور اہلِ کتاب کی ایک جماعت نے کہا، جو کچھ ایمان والوں پر اُتارا گیا ہے اُس پر دِن چڑھے تو ایمان لاؤ اور شام کے وقت کافر بن جاؤ تا کہ یہ لوگ ہی پلٹ جائیں۔ اور سواے تمھارے دِین پر چلنے والوں کے اور کسی کا یقین نہ کرو۔ آپ کہہ دیجیے کہ بے شک ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے (اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس بات کا بھی یقین نہ کرو) کہ کوئی اس جیسا دیا جائے جیسا تم دیے گئے ہو، یا یہ کہ یہ تم سے تمھارے رب کے پاس جھگڑا کریں گے، آپ کہہ دیجیے کہ فضل تو اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہے اسے دے۔ اللہ تعالیٰ وسعت والا اور جاننے والا ہے۔ وہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہے مخصوص کر لے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
بعض اہلِ کتاب تو ایسے ہیں کہ اگر انھیں تُو خزانے کا امین بنا دے تو بھی وہ تجھے واپس کر دیں اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر تُو انھیں ایک دینار بھی امانت دے تو تجھے ادا نہ کریں۔ ہاں، یہ اور بات ہے کہ تُواس کے سر پر ہی کھڑا رہے، یہ اس لیے کہ انھوں نے کہہ رکھا ہے کہ ہم پر ان جاہلوں (غیریہودی) کے حق کا کوئی گناہ نہیں۔ یہ لوگ باوجود جاننے کے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ کہتے ہیں۔ کیوں نہیں (مؤاخذہ ہو گا) البتہ جو شخص اپنا اقرار پورا کرے اور پرہیز گاری کرے، تو اللہ تعالیٰ بھی ایسے پرہیز گاروں سے محبّت کرتا ہے۔ بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ نہ تو اُن سے بات چیت کرے گا نہ اُن کی طرف قیامت کے دِن دیکھے گا، نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
یقیناً ان میں ایسا گروہ بھی ہے جو کتاب پڑھتے ہوئے اپنی زبان مروڑتا ہے تا کہ تم اسے کتاب ہی کی عبارت خیال کرو حال آں کہ در اصل وہ کتاب میں سے نہیں، اور یہ کہتے بھی ہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے حال آں کہ در اصل وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں، وہ تو دانستہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ کسی ایسے انسان کو جسے اللہ تعالیٰ کتاب و حکمت اور نبوت دے، یہ لائق نہیں کہ پھر بھی وہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ، بل کہ وہ تو کہے گا کہ تم سب رب کے ہو جاؤ، تمھارے کتاب سکھانے کے باعث اور تمھارے کتاب پڑھنے کے سبب۔ اور یہ نہیں (ہو سکتا) کہ وہ تمھیں فرشتوں اور نبیوں کو رب بنا لینے کا حکم کرتے، کیا وہ تمھارے مسلمان ہونے کے بعد بھی تمھیں کفر کا حکم دےگا؟
(القرآن1:3تا0 ۸ )
ان آیاتِ قرآنی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کانزول اس موقع پر ہوا جب مسیحیوں کا ایک گروہ جزیرہ نماے عرب کے جنوب میں نجران سے آیا اور مدینہ میں حضرت محمد سے ملاقی ہوا۔ اوائل میں لکھی گئی سیرۃ ابنِ اسحٰق میں درج ہے جو کچھ اس موقع پر پیش آیا۔ ابنِ اسحق نے بتایا ہے کہ حضرت محمد نے مسیحیوں کی اس جماعت کو مسجدِ نبوی میں ہی اپنی عبادت گزاری کی اجازت مرحمت فرمائی۔ گویا انھوں نے قبول کیا کہ یہ نصرانی بھی واحد و احد معبود خداوند تعالیٰ ہی کی عبادت کرنے والے لوگ ہیں۔ درج بالا قرآنی آیات سے عیاں یہ بات بھی ہوتی ہے کہ نجریانیوں کی ملاقات میں ایک تنازع بھی ابھر آیا جو خداوند یسوع پاک کی حیثیت و مقام کے بارے میں تھا۔ جس کی تصحیح ان نجریانیوں کے عقائد میں زیادتیوں اور حدود کو کراس کرنے سے متعلق قرآن میں کی گئی کہ وہ لوگ خداوند یسوع کو الوہیت کے درجہ پر محمول کرتے تھے۔ قرآن انھیں دعوت دیتا تھا کہ وہ خدا کے نبیِ آخرالزمان پر اور ان کے دِین پر ایمان لے آئیں۔ مباہلے کے چیلنج پر اس متنازع صورتِ حالات کا فیصلہ ہوا۔
”اس لیے جو شخص آپ کے پاس اس علم کے آ جانے کے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ کہہ دیں کہ آؤ ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کو اور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو بُلا لیں، پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں“۔
(القرآن)
”کہہ دیجیے کہ کیا مَیں تمھیں بتاؤں کہ اس سے بھی زیادہ بُرے اجر پانے والا اللہ کے نزدیک کون ہے؟ وہ جس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی اور اس پر وہ غصہ ہوا اور ان میں سے بعض کو بندر اور سؤر بنا دیا اور جنھوں نے معبودانِ باطل کی پرستش کی، یہی لوگ بدتر درجے والے ہیں اور یہی راہِ راست سے بہت زیادہ بھٹکنے والے ہیں“۔
(القرآن60:5)
ابنِ اسحٰق کے مطابق نجرانی مسیحیوں نے اس مباہلے سے پہلو تہی اختیار کر لی۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:
”پھر بھی اگر قبول نہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی صحیح طور پر فسادیوں کو جاننے والا ہے“۔
آپ کہہ دیجیے کہ اے اہلِ کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں۔ پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں“۔
(القرآن)
انھیں ان کے عابد اور عالم جھوٹ باتوں کے کہنے اور حرام چیزوں کے کھانے سے کیوں نہیں روکتے، بے شک بُرا کام ہے جو یہ کر رہے ہیں“۔
(القرآن63:5)
قرآن میں مسیحیوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور خدا کی خدائی، اس کی الوہیت میں کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں۔ اسی سیاق و سباق میں ہم بخوبی اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ یہ تو خالص فلسفہ و عقیدۂ توحید کی طرف رجوع کرنے کی بلاہٹ ہے جس کی خداوند یسوع مسیح تعلیم دیتا رہاہے اور جو اس غلو سے کوسوں دور ہے جس میں یسوع پاک کو صفتِ الوہیت، ربوبیت سے متصف کیا جائے۔ شرق و غرب میں بڑے دھارے کے جیّد مسیحی علما و دانش وران مطلقاً تغلیط کرتے ہیں کہ خدا کے یسوع میں تجسیم ہونے کے عقیدے سے یہ مراد لی جا سکے کہ مسیحی خدا کے سوا کسی اور کو معبود مانتے ہیں یا اس کے علاوہ کسی اور کو بھی عبادت کےلائق سمجھتے ہیں۔ خدا تو بس ایک ہے اور ایک ہی رہے گا۔ ایک، دو، تین میں اس کی تقسیم نہیں ہو سکتی۔ قرآن کی مقابلِ ادراک تنقید دریا کوزے میں بند ہونے کے مصداق وہ مثال ہے جو مدینہ میں نجرانی جماعتِ مسیحیان اور داعیِ اسلام حضرت محمد کے درمیان بحث و تمحیص میں سامنے آئی۔ المختصر یہ کہ مسیحی خدا کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور ربوبیت کا سزاوار خدا کے علاوہ اور کسی کو نہیں سمجھتے۔
قرآن مسیحیت کے دو اور اراکین کی صداقت کو بھی معرضِ بحث بناتا ہے۔ قرآنِ مجید میں ایسی بہت سی آیات ہیں جو اس امر پر زور دیتی ہیں کہ ”خدا کو بیٹے کی کوئی حاجت نہیں۔ اس کاکوئی بیٹا ہو اس سے وہ بے نیاز ہے“۔
”اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے“۔
(القرآن2:۱12)
”اے اہلِ کتاب! اپنے دِین کے بارے میں حد سے نہ گذر جاؤ اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو، مسیح عیسیٰ بن مریم تو صرف اللہ کے رسول اور اُس کے کلمہ (کُن سے پیدا شدہ) ہیں، جسے مریم کی طرف ڈال دیا تھا اور اس کے پاس کی رُوح ہیں۔ اس لیے تم اللہ کو اور اس کے سب رسولوں کو مانو اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں، اس سے باز آ جاؤ کہ تمھارے لیے بہتری ہے، اللہ عبادت کےلائق تو صرف ایک ہی ہے اور وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور اللہ کافی ہے کام بنانے والا“۔
(القرآن171:4)
”یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے، (نہیں بل کہ) وہ پاک ہے، زمین و آسمان کی تمام مخلوق اُس کی ملکیت میں ہے اور ہر ایک اس کا تابع فرمان ہے۔
وہ زمین اور آسمانوں کا ابتداءً پیدا کرنے والا ہے، وہ جس کام کو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، پس وہ وہیں ہو جاتا ہے“۔
(القرآن117:2-116)
مشرق ہو یا مغرب مسیحی سوادِ اعظم ”خدا کا بیٹا“ والی اصطلاح حیاتیاتی حوالے سے نہیں بل کہ خداوند یسوع مسیح کو ابنِ خدا کے لَقَب سے مُلَقَّبْ کرتے ہوئے استعمال کرتا ہے کیوں کہ اس کے پیشِ نظر پاک خداوند کا خود خدا عظیم و برتر کے ساتھ وہ تعلق، رشتہ ہے جو اپنی نوعیت میں بہت منفرد ہے اور تخلیق کے عمل میں مقدس خداوند یسوع مسیح کا وجہِ تخلیقِ کائنات ہونا دوسرا اہم سبب ہے جو مسیحی عقیدہ کی روح ہے۔
عین ممکن ہے کہ یہ جو زور دیا جاتا ہے کہ خدا واحد و احد لاولد ہے، اس کی ضرورت ”مُشرکانہ عقائد کے حامل اس خطۂ زمین کے طبقات کی وجہ سے پڑی ہو جنھیں راہ پر لانے کے لیے اس طبقے میں قرآن کی تعلیمات عام کرنے کی پہل کی گئی۔ معلوم یوں ہوتا ہے کہ قرآن کی بار بار کی یہ اصلاحی تاکید مسیحیوں کے لیے بھی اس لیے ضروری ٹھہرائی گئی کہ وہ تو ایک خدا کو ماننے والی قوم ہے اس لیے کم از کم وہ تو یوں حد سے نہ گذرے کہ یہ کہنے لگے خدا کو یہ قدرت حاصل ہےکہ اپنے لیے آپ اپنا بیٹا حیاتیاتی طور وجود میں لے آئے اور لاولد نہ رہے۔ لیکن یہ قرآنی ملامت صرف ان بعض مسیحیوں کے لیے تھی جو ایسا سوچ رکھتے تھے یا ان مشرکانہ تصورات کے لیے اپنے ذہنوں میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ اس سے ملحق مسیحیت کا ایک اور پہلو بھی ہے جس پر قرآن معترض ہے اور وہ ہے خدا کے سلسلے میں Plurality یعنی تکثیریت کا تصور جسے صراحتاً عقیدۂ تثلیث کہا جا سکتاہے۔
”وہ لوگ بھی قطعاً کافر ہو گئے جنھوں نے کہا، اللہ تین میں کا تیسرا ہے، در اصل سوا اللہ کے کوئی معبود نہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ رہے تو ان میں سے جو کُفر پر رہیں گے، انھیں المناک عذاب ضرور پہنچے گا“۔
(القرآن73:5)
”اور وہ وقت بھی قابلِ ذکر ہے جب کہ اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابنِ مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو! عیسیٰ عرض کریں گے کہ مَیں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں، مجھ کوکسی طرح زیبا نہ تھا کہ مَیں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں، اگر مَیں نے کہا ہو گا تو تجھ کو اس کا علم ہو گا۔ تُو تو میرے دِل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور مَیں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا۔تمام غیبوں کا جاننے والا تُو ہی ہے“۔
(القرآن116:5)
”اے اہلِ کتاب! اپنے دِین کے بارے میں حد سے نہ گذر جاؤ اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو، مسیح عیسیٰ بن مریم تو صرف اللہ کے رسول اور اس کے کلمہ ہیں، جسے مریم کی طرف ڈال دیا تھا اور اس کے پاس کی روح ہیں۔ اس لیے تم اللہ کو اور اس کے سب رسولوں کو مانو اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں اس سے باز آ جاؤ کہ تمھارے لیے بہتری ہے، اللہ عبادت کےلائق تو صرف ایک ہی ہے اور وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور اللہ کافی ہے کارساز“۔
(القرآن171:4)
شرق و غرب میں مذہبِ مسیحی کے جیّد علما کرام نے دو ہزاریوں سے بھی زائد عرصہ میں تو اب تک کبھی بھی ”تین خداؤں“ کے وجود کی بات نہیں کی۔ لگتا یہ ہے کہ قرآن میں تین خداؤں کے عقیدہ یا تصور کی اس زیادتی کا ذکر محض حفظِ ماتقدم کے طورپر کیا گیا ہے، تا کہ تمام مسیحی اس بارے میں محتاط تر رویہ اختیار کریں۔ تب سے اب تک مسیحیوں میں تین میں ایک اور ایک میں تینTrinitarian Monotheism کا جو عقیدہ ہے اس کے بارے میں خبردار رہنا چاہیے کہ اس بارے میں احتیاط برتنی ہے تا کہ زبان سے ایسے الفاظ کبھی نہ نکلیں جو توڑ موڑ کر کسی نہ کسی شکل میں Trinitarian Monotheism کا مطلب دینے کی رَو میںTritheism کے ساتھ خلط ملط ہو جائیں۔ دونوں اصطلاحوں میں بُعدِ مشرقین ہے۔ ایک خدا کی وحدت کی نقیب ہے اور دوسری تین خداؤں کے ہونے کا پرچار کرتی ہے۔
جہاں تک ہماری عقلِ رسا کام کرتی ہے ہم تو یہی کہیں گے کہ مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن پاک کی رُو سے حضرت محمد کے دور میں مسیحیت کا مقام و مرتبہ اور احوال یہی تھے جو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ مسیحیت بھی خدا بزرگ و برتر کو مسلمانوں کی طرح ایک ہی مانتی ہے۔ البتہ امکانی صورتِ حالات یہ بھی ہے کہ ہمیشہ کی طرح اب بھی، انفرادی سطح پر ایسے لوگ بل کہ گروہ موجود رہے ہیں جو خداوند اقدس یسوع المسیح کی جناب میں ایساعقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ خدا ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ دنیا بھر کے مسیحی دانش وران نے کبھی اس نظریے اور عقیدے کو پذیرائی نہیں بخشی۔ اس لیے نہ تو مسیحیت اور نہ ہی اسلام کا ناتہ ان چند بھٹکے ہوئے انتہاپسند لوگوں کے ساتھ جوڑا جائے۔ دنیا کے دونوں بڑے مذاہب ایسے لوگوں سے خیالات و تصورات کی مِن جُملہ طور نفی کرتے ہیں۔