German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

سوال نمبر299:۔

روح انسان میں کب سے موجود ہوتی ہے یا کس سٹیج پر آتی ہے؟ روح اور کلبوت کا کیا قصہ ہے؟ کیا حمل قرار پاتے ہی روح انسانی جسم میں آ موجود ہوتی ہے؟ یا اس سے بھی پہلے؟ یہی بتایا جاتا ہے کہ روح ہے کوئی غیر مرئی، غیرفانی قسم کی کوئی چیز۔ اس کی کیا اصل ہے؟

 

جواب:

۔جب ہم روحِ انسانی کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہ بات واضح ہو جائے کہ ہماری اس سے مراد کیا ہے۔ اس کے لیے ایک یونانی فلسفیانہ اصطلاح موجود ہے جسے مسیحی علماے الٰہیات نے قبول کِیا ہے اور اس سے استفادہ  کرتے ہوئے وہ اسے غیرمعمولی طور پر  خاص اور بے مثال بتاتے ہیں یعنی مادّی جسم کا ایسا منفرد جزو جس پر انسانی حیات کا انحصار ہے، تمام سطح پر بات کریں تو اسے جان بھی کہہ سکتے ہیں کیوں کہ یہ وہ جوہرِ خاص ہے جس سے زندگی مربوط ہے۔ یہ منبع ہے شعور و احساس کا، زندہ ضمیری اور قوتِ ارادی کا۔ عام تصور یہی ہے کہ انسان کی حیات و ادراکیات، تصورات اور اعمال کی اصل روح ہی ہوتی ہے جس کو انسان کے مادّی جسم سے بالکل الگ ایک وجود تسلیم کِیا جاتا ہے۔ یہ انسان کا روحانی حصہ ہے جو جسمانی حصے سے الگ وجود رکھتا ہے۔ یہ وہ مایۂ حیات ہے جو انسان کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہےگا۔ لافانی ہے۔ مسیحی علمِ الٰہیات کے مطابق یہ خدا یا خدا کی الوہیت ہے جو انسان میں منکشف ہے۔

ارسطو نے تو سبزیات، حیوانیات اور انسانی ارواح کا بھی ذِکر چھیڑا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسانی روح تو ایسے طرح دار پہلو کی حامل ہے جو ہم انسانوں کو باقی تمام خدا کی مخلوقات سے ممیّز کرتی ہے۔ روحِ انسانی ہی تو اصل علل ہے جو اپنے معلول خاک کے پتلے میں زندگی کی رمق جاری رکھتی ہے۔ حیاتِ انسانی کا اہم ترین سبب ہے۔ روح جب انسان کا جسم چھوڑ جاتی ہے تو انسان مُردہ قرار پاتا ہے، موت ہے ہی روح کا قفسِ عنصری سے پرواز کر جانا۔

روح نہ وقت کی اسیر ہے نہ مقام کی غلام، اس لیے ہم  اس کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ امر ہے۔ وقت کی قید سے آزاد ہے، جو غیر فانی ہے وہی روحانی و جاودانی ہے۔ اس کا وجود مرئی نہیں غیرمرئی ہوتا ہے۔ اس میں روحانیت ہوتی ہے، مادّیت نہیں۔ روح کے انہی دائمی اور روحانی خواص سے ہمیں حوصلہ ملتا ہے کہ دائم قائم خدا اور نجات و دوامِ زندگی کے داتا کے ساتھ اپنا عمیق رشتہ پختہ تر کیے رکھیں، مکمل استقلال کے ساتھ۔ یہی ہمارے نسلِ انسانی سے جڑے رہنے کا، خواہ وہ مرد ہوں یا خواتین، خاص مضبوط وسیلہ ہے۔ اسی لیے ہماری دعا ہوتی ہے:

عالمِ بالا پر خدا کی تمجید ہو اور زمین پر نیک ارادے کے آدمیوں کے لیے امن!

یہی وہ اہم ترین خاصہ ہے جو ہم خدا سے شیئر کرتے ہیں اور اسی تتبع میں ایک دوسرے کے ساتھ، اور ایک دوسرے کے حق میں بھی۔ یہ صفاتِ الٰہیہ ہیں جن میں سے بعض اس نے انسانوں کو بھی ودیعت کر دیںِ تا کہ ہم ایک دوسرے میں بانٹتے رہیں۔ کیوں کہ یہ وہ صفات کا خزانہ ہے جو بانٹنے سے کم نہیں ہوتا اور نہ بانٹنے سے بڑھتا نہیں۔

روح ہی ہے جو ہمیں اس لائق بناتی ہے کہ دنیاوی زندگی میں خدا کے محبوب خادم ثابت ہونے کے لیے اپنی زندگیوں کو دائمی، بنیادی و مرکزی برتاو، رجحانات و اختیار کے سانچے میں ڈھالتے ہوئے پورے استقلال کے ساتھ اس کے راہی بن جائیں جس کی منزل اس عالی شان مرتبہ کا اصل حصول ہے جو ہمیں ہمیشگی والی اُخروی زندگی میں خداوند کے وعدے کے عین مطابق خدا کے بیٹے اور بیٹیاں کہلوانے کا استحقاق عطا کرتا ہے۔ چناں چہ یہی اس کا مفہوم ہے جس کے ذریعے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اس سے کیا مراد ہوتی ہے جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ روح کو فنا نہیں جہاں تک ہماری عقل کی پہنچ ہے، یہی بات سمجھ آتی ہے کہ ہمارے فانی ابدان کو زندگی عطا کرنے والی روح کہیں اور پہلے سے ہی موجود ضرور ہوتی ہے۔ روح ہی زندگی ہے اوراس کا پرواز کرجانا، جسم چھوڑ جانا،موت۔ ہم اپنے اس امکانی ردِّ عمل سے بھی آنکھیں نہیں چُرا سکتے جو حیرت انگیز مخفی نتائج سامنے لا سکتا ہے۔ اگر ہم خداداد پوزیشن، مقام جو خدا کی طرف سے ہمیں کائنات بھر میں بخشا گیا کہ ہم بطور آیندہ کی حیاتِ دائمی کے حاملیں ہیں، علمبردار ہیں اس سے منکر ہو جائیں۔

بعض مسیحی دانش وروں نے بڑے کام کی بات کی ہے کہ یہ جو روح ہے یہ شرارِ نورِ خدا ہے جو ہم میں سے ہر انسان کے اندر موجود ہے اور ہم اس گمبھیر تاریکی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں جو اس وقت سب کچھ تاریک تر کر دے گی جب ہم خدانخواستہ اس رشتے، اس تعلق والے شرارے کو جو خدا کو ہم سے اور ہمیں خدا سے جوڑے رکھتا ہے بجھا بیٹھیں۔ خدا ہی ہے جو منبعِ نور ہے اور اسی سے شرارِ حیات پھوٹتا ہے۔

انسانی روح جسم میں کب حلو ل کر جاتی ہے اس کے بارے میں شاید ہی کوئی کچھ بتا سکے۔ زندگی کا یہ تحفۂ نادر ہے اور اس کے  لیے ہم سال کو یوں بھی دہرا سکتے ہیں کہ ”انسانی زندگی کی ابتدا کب ہوتی ہے؟“ یونانی فلسفی ارسطو نے اپنے زمانے کے محدود وسائل پر مکتفی اپنے مشاہدات سے یہی راے قائم کی تھی کہ حمل ٹھہرنے کے لگ بھگ چار ماہ کے دوران روح جسم میں سرایت کر جاتی ہے۔ استقرارِ حمل کے بعد کے ان ایک سو بیس دنوں کو اس نے ”روح کے عمل دخل“ کے دور سےموسوم کِیا۔ یہی وہ عرصہ ہے جس میں جنین تکمیل پا چکا ہوتا ہے اور بطنِ مادر میں ماں کو اپنے بچے کا اس کے اپنے طور پر ہلنا جلنا محسوس ہونے لگتا ہے۔ حیاتِ انسانی کے آغاز والے اسی اشارے، اسی نشانی کو عصرِ جدید تک علمِ الٰہیات کے ماہر مسیحی علماے دِین اور سائینس دانوں نے انسانی زندگی کی ابتدا تسلیم کیے رکھا۔ جب ماڈرن زمانے میں علمِ سائینس میں ترقی ہوئی اور انسانوں پر نئی نئی حقیقتیں منکشف ہوئیں تو پتا چلا کہ روح والی اس گتھی کو سلجھانا اتنا بھی کوئی آسان عمل نہیں جتنا سمجھ لیا گیا تھا۔ ارسطو کا سوچ یہیں تک محدود رہا کہ مرد ہی فعال شریکِ کار ہوتا ہے۔ زرخیزی والے بیج اس فاعل ساتھی کے ذریعے مفعول خاتون تک پہنچتے ہیں۔ گویا اسی کھیتی میں اس بیج کی نشوونما، پرورش ہو گی۔ مفعول فاعل کاکردار اداکرنے کےلیے فعال ہوجائے گی۔ جدید جینیاتی سائینس نے بآسانی واضح کر دیا کہ بچے کی جینیاتی استواری میں دونوں ساتھی (مرد اور عورت) برابر کا کردار ادا کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ اہم جینیاتی اتحاد آگے چل کر ایک یا ایک سے زیادہ انسانی جانوں کا جوازِ وجود بنا۔ در اصل یہ جینیٹک پیکج تو موجود ہی اس وقت سے تھا جس لمحے حمل ٹھہرا تھا۔ا سی لیے بعض دانش وران کے نقطۂ نظر سے یہی تو وہ لمحہ ہے جب حیاتِ انسانی شروع ہوتی ہے۔ المختصر یہ کہ ہم خاص طور پر ہستیِ انسان کی بات کر رہے ہیں نا، تو پِھر یہ بھی ہے کہ یہی وہ لمحۂ خاص ہے جب لافانی روح انسان کے اندر آ موجود ہوئی حمل قرار پانے کا سمے ہی محفوظ ترین آپشن کی نمایندگی کرتا ہے کیوں کہ یہی وہ جلدترین اور ممکنہ گھڑی ہے جس میں انسانی زندگی شروع ہو سکتی ہے۔ لیکن داغے گئے سوال کا الجھاو تبھی سلجھاو اختیار کر سکتا ہے جبھی ہم یہ غور کر چکیں اور مان چکیں کہ فرٹیلائز ہو چکے بہت سے انڈے ایسے ہوتے ہیں جو عورت کے جسم میں وجود تو پاتے ہیں مگر ان کی قسمت میں انسان کے طور پر تجسیم پانا نہیں لکھا ہوتا، ضائع ہو جاتے ہیں۔ دیگر علما و محققین نے اپنے اس نتیجے کی طرف توجُّہ دِلائی ہے جو مبنی ہے آگے چل کر یعنی بعد میں سامنے آنے والےلمحات کے متعلق جب حقیقی انسانی زندگی کا آغاز ہوتا ہے اور یہ کاروبارِ عملی حیات رِحم کی اندرونی تہہ میں مضبوط گھیراو کے درمیان تخمِ زائیدہ کے جِلا پانے پر محمول ہے یا خلوی تقسیم پر، یعنی وہ دورانیۂ تخم ریزی جو ابتدائی تشکیل کا مگر عارضی واسطۂ نمو پذیری ہو۔ (صرف اسی سٹیج پر ہم جان سکتے ہیں کہ زچہ کے پیٹ سے پیدا ہونے والے انسانی بچوں کی تعداد ایک ہو گی یا ایک سے زیادہ)۔ ہمیں یہ جانکاری بھی اسی مرحلے پر ہوتی ہے کہ رحمِ مادر سے الوداع ہونے کے بعد آزاد و خودبیں حیاتِ انسانی کب ممکن ہو گی۔ اور انسان دنیا کی کھلی فضا میں سانس لے رہا ہو گا۔

اس بنیادی نقطہ میں سائینسی پیچیدگیاں بھی الجھاو پیدا کرنے سے محترز نظرآتی ہیں کہ حیاتِ انسانی کا یہی تو وہ انوکھا انسانی رُخ ہے جسے ہم ”روح“ سے تعبیر کرتے ہیں جو انسانی زندگی کی دلیلِ معتبر ہے اور خداوندِ قدوس کے ساتھ ہمارا رشتہ پیوستہ، مستقل اور جاودانی رکھنے کا اصل واسطہ اور سبب ہے۔

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?