:سُوال نمبر41
ازمنہءوسطیٰ کی صلیبی جنگوں میں حصہ لینے والوں نے معصوم عوام الناس کے سفاکانہ قتلِ عام پر کمر کیوں کِسے رکھی؟ تحمل و بُردباری اور خُدا کے لیے مہر و مَحَبّت کے نام پر یہ کیا ظلم تھا جو روا رکھا گیا؟
جواب:۔ ہم اپنی گفتگو کا آغاز ایک مختصر سی توضیح سے کرتے ہیں جو اُن مذہبی جنگوں کے بارے میں ہے، یورپ کے مسیحیوں نے جو11ویں اور 13 ویں صدی کے دوران مسلمانوں سے بیت المُقدّس حاصل کرنے کے لیے لڑیں۔ مُقدّس سرزمین کی خاطر برپا ہونے والی ان جنگوں پر لُڈوگ ہاگمین نے تفصیل سے خامہ فرسائی کی ہے:
عالمی مذہب قرار دینے کے لیے عقیدئہ تثلیث: ہیر ڈیر پاکٹ بک ایڈیشن1729ع کے لگ بھگ چھپا۔ فرائی بُرگ:1191صفحات126۔
سال971ع میںجب ترکوں نے یروشلم فتح کر لیا، تو زیارتوں کے بعد واپس آنے والے زائرین نے بہُت دردناک اور پریشان کر دینے والی سچی جھُوٹی داستانیں مشہور کیں۔ مثلاً عقیدت کے ہر دینی کام میں روڑے اٹکائے گئے، نئے حُکمرانوں نے انھیں اذیتیں پہنچا پہنچا کر ان کا قافیہ تنگ کیے رکھا۔ ایسی خبروں کا تو فوری اثر ہوتا ہے اور جذباتی رد عمل سامنے آتا ہے۔ بادشاہ بیسی لیس ....سیزر الیکسیئس اول1118-1081ع نے تقدس مآب پورپ اربن دوم1099-1088ع سے مدد کے لیے فوری رابطہ قائم کیا کیوں کہ اب قسطنطنیہ پر بھی خطرے کے بادل منڈلانے لگے تھے۔ جب مُقدّس پوپ کی طرف سے عالمِ مسیحیت کو بلاوا پہنچا کہ وُہ آگے بڑھیں اور مشرق میں مسیحی لوگوں کی مدد اور مُقدّس سرزمین کو مسلمانوں کے پنجے سے چھڑانے کے لیے تعاون کرنے نکل پڑیں تو اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ 27 نومبر1095د کی کلیرمونٹ کلیسیائی مجلس نے جنگی بنیادوں پر کارروائی مکمل کی جس کے نتیجے میں عوامی تحریک کے شعلوں کو ہُوا ملی اور وُہ ممالک جو بحیرئہ روم اور جنوبی یورپ کے مشرق میں واقع تھے وُہ تو متحد تھے ہی، اب مغربی نصف کرہ کے مسیحی بھی ایسے ایک مُٹھ ہوئے کہ قریباً دو صدیوں تک ان کا اتحاد پارہ پارہ نہ ہو سکا۔ ان ممالک کی سرحدیں ہی بس ایک دُوسرے سے ملی جلی نہ تھیں بل کہ دلوں اور مذہبی جذبات کا ملاپ بھی ایک سا تھا۔
یہی رضاے خُداوندی ہے آخِری سردھڑ کی بازی لگانے کے لیے جنگی نعرہ بنا۔ صلیبی تحریک کی رہنمائی اور کمان پاپاے اعظم نے اپنے مُقدّس ہاتھوں میں لے لی۔ تمام مذہبی قوتیں بھی حرکت میں آگئیں۔
جس مقصد کے لیے سبھی اُٹھ کھڑے ہوئے تھے جلد ہی پسِ پشت چلا گیا۔ جو ہُوا سوچ کے برعکس ہی ہُوا۔ مسیحی اقتدار دوبارہ قائم و مستحُکم کرنے کی تمام کوشِشیں مکمل کامیابی کی بیل نہ بن سکیں کہ منڈھے چڑھتیں۔ مُقدّس سرزمین پر مسیحی فتح و کامرانی کے پِھریرے بس تھوڑی مدت ہی لہرائے۔ مجموعی نتیجہ یہی تھا کہ فتح میں بھی شکست مقدر ہُوئی۔ اس تحریک کے پیچھے جو قوتِ محرکہ تھی، وُہ آغازِ جنگ میںسراسر مذہبی تھی مگر جنگی حرص و جنون، جوش و جذبہ اور شوقِ مہم جوئی کی لپیٹ میں آتی چلی گئی اور جلد دُھندلا کر مبہم ہو گئی۔ جو کُچھ بچا وُہ کیا تھا؟ وُہ خون کی پیاس تھی، وُہ لوٹ مار، چھینا جھپٹی، زور آزمائی تھی اور قتل و غارت کا گرم بازار تھا۔ اِنسان کو اِنسان قتل کرنے لگا۔ مسیحی مسلم تعلُّقات شدید دباو کا شکار ہو گئے۔ جنگ آزما صلیبی مسیحیوں کے خلاف ایک سے اغراض و مقاصد، دفاع اور عمل کا ہلالی اتحاد قائم ہو گیا۔ یہ کُبّے کو لات پڑنے والی بات تھی، مسلمانوں کی آپس کی نااتفاقیوں چپقلشوں اور ریشہ دوانیوں والا کُب سیدھا ہو گیا۔ ادھر مشرقی کلیسیائیں مزید تلخ تر ہو گئیں، باہم اتحاد کے لیے یونیئن کے قیام کی کوشِشیں بھی بے نیلِ مرام رہیں۔ مغربی اور مشرقی کلیسیاﺅں کے درمیان پھُوٹ چُکی دراڑ اور بھی گہری ہو گئی، اگرچہ قسطنطنیہ میں لاطینی سلطنت کو1204ع سے1261ع تک کا، کم سہی، مگر اقتدار مل تو گیا تھا۔
جُرمنی کے شہر مائینٹس مینز کے مشہور و معروف ایک کیتھیڈرل اور عجائب گھر میں سنہ 2004ع میں ایک معیاری، متاثر کردینے والی انتہائی تحقیقی اور بہُت حد تک مستند نمایش کا اہتمام کِیا گیا جس کا ٹائٹل تھا....نووار اِز ہولی.... کوئی جنگ مُقدّس نہِیں ہوتی۔ یعنی.... مذہب نہِیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا۔ اُس نمایش کے افتتاح کے موقع پر کہا گیا:
صلیبی جنگوں کی تاریخ کو بڑا ہی مثالی بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ مذہبی و سیاسی مفادات کی خاطر ریاست اور چرچ کی طرف سے جیسے بھی، جس طرح سے بھی فائدہ اُٹھانے کے مواقع سے گویا بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے جاتے رہے۔
کمزوروں کے محافظ سورماﺅں اور حسنِ اخلاق کے جوہر سے تقویت یافتہ دلیری کو رومانی استحسان کے آئینے میں دیکھنے والی انیسویں صدی نے صلیبی جنگیں لڑنے والوں کے ’کارناموں‘ کو بڑا کر کے دیکھنے کے لیے محدب عدسے ہاتھوں میں تھام لیے، ان جنگجووں کی صفات کو بڑی بڑی اشکال میں دیکھا گیا مثلاً ان کی بہادری، جوانمردی، شریف النفسی اور خُدا ترسی۔
اس طرز کے سوچ کی نُمایندگی سپیّر کے کیتھیڈرل کی چھت پر نقش کی گئی تصویروں سے ہوتی ہے جن میں برنارڈ آف کلائرواﺅکس کو دکھایا گیا ہے موصوف ایسے دینی مبلغ تھے جن کا کام ہی صلیبی جنگوں کے لیے مسیحی دُنیا کو اُبھارنا تھا۔ چھت بھری پڑی ہے تعریفی و اہم تاریخی جنگی واقعات و مناظر کی رومان پرور تصویر کشی سے۔ حال آں کہ تاریخ کی ایسی تفسیر کا حقیقت سے دور دور کا بھی واسطہ نہِیں ہوتا۔
خونیں صلیبی جنگوں کو فتوحات کی سنگدلانہ جنگوں سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جن کا نتیجہ بد نصیبی و بربادی اور مصائب و آلام کا پھیلنا تھا۔
لیکن یہ بھی مدِّنظر رہے کہ 1095ع سے جن مسیحیوں نے صلیب کو عَلَم بنایا اُنھوں نے اسی زمانے کی اقدار کے مُطابِق عمل کِیا تھا، ہمارے لیے واضح طور پر آج بھی ان کا ادراک کرنا جوے شیر لانے کے مترادف ہے۔ کُچھ بات سمجھ آتی ہے، کُچھ نہِیں بھی آتی۔ صلیبی جنگجووں کے نزدِیک یہ معرکے اس لیے تھے کہ مُقدّس سرزمین کو کافروں کے غاصبانہ قبضے سے چھڑوایا جائے اس لیے یہ جنگ فرض تھی، دیندارانہ و منصفانہ تھی اور سراسر راست اقدام تھا۔ اور جناب پاپاے وقت کے ذریعے خُدا نے خُود اس کی اجازت دی تھی۔ صلیب خُدا کے لیے اُٹھائی گئی تھی۔
اچھّے نتائج کی اُمِّید اور کارفرما مصلحتوں پر مبنی اس جنگ آزمائی کے فوائد بے شمار تھے جو گنوائے جا رہے تھے، بڑا چرچا تھا صلیبی ’کارناموں‘ کا۔ کُچھ بھی ہو، ماننا پڑے گا کہ صلیبی جنگوں کے لیے جو نصب العین تھا وُہ ہشت پہلو ہوتا چلا گیا، اس لیے اپنے اپنے مقاصد اور اپنے اپنے مفاد حاصل کرنے کے لیے حکومتیں اور کلیسیائیں اس جنگ میں کود پڑیں۔ چُناں چہ بہُت جلد توقعات،واقعات و حالات جو رُخ اختیار کرتے چلے گئے اس کے گہرے اثرات تاریخ پر مرتب ہوئے۔ غلطیوں اور گُناہوں کے ارتکاب سے آلودہ ان خونریزیوں نے تاریخ کے چہرے پر وُہ وہ داغ دھبّے لگائے جنھیں دھونا، صاف کرنا، صدیوں ممکن نہ بنایا جا سکا۔ ہزاروں لاکھوں افراد ان جنگوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ یہ بھی ہُوا کہ دُنیا دو کُروں میں بٹ گئی۔ مشرقی مسلم دُنیا اور غربی مسیحی دُنیا۔ اسی کے عواقب کبھی نہ کبھی،کہِیں نہ کہِیں، تہذیبوں کی جنگ کے نام سے اب بھی سر اُٹھا لیتے ہیں۔ یہی بات اچھّی نہِیں۔
رومن کلیسیا نے اس تبدیلیِ حالات و صُورتِ حالات میں مرکزی کردار ادا کیا تھا، یہی سبب تھا، تقدس مآب پوپ جان پال دوم نے یونان میں2001ع کے ماہ مئی کی پانچ تاریخ کو برملا طور اُن کردہ گُناہوں پر معافی چاہی کہ جو رومن کیتھولک چرچ کے فرزندان و دختران سے جنگی جرائم کے طور پر سرزد ہوئے تھے۔ اپنے خُطبہ میں تقدس مآب دِل سے معذرت خواہ ہوئے۔ مشرقی آرتھوڈوکس مسیحیوں کے خلاف دانستہ یا نادانستہ زیادتیوں پر جو صلیبی جنگوں کے دوران ان پر دہرائی گئیں ، ان پر بھی معافی طلب کی گئی۔ اس سلسلہ میں مقد س پوپ نے خصوصی طور پر فتحِ قسطنطنیہ کا حوالہ دیا جو صلیبی جنگجووں نے 1204ع میں حاصل کی، جیسے بھی حاصل کی، اس کے بعد بھی وُہ جو کُچھ کرنے سے باز نہ آئے، اس سب کُچھ پر معذرت چاہی۔ ہزار سال سے بھی اُوپر گُذر گئے، تب سے اُس دِن تک کی اس لمبی مدت کے بعد کِسی بھی تقدس مآب پوپ کا یونان کی سرزمین پر یہ پہلا تاریخی دورہ تھا۔ کیوں کہ آثار پیدا کیے جا چکے تھے اور برف.... پگھل رہی تھی۔
اپنی پہلی اپیل کے اگلے ہی دِن،6 مئی2001ع کو پاپاے اعظم مُقدّس باپ ملک شام کی اُموی جامع مسجد دمشق تشریف لے گئے۔ اُنھوں نے آس جتائی کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے دینی رہنما اور معلمین حسنِ اخلاق، احترام اور مَحَبّت کے ناتے بطور اِنسانی برادری ایک دُوسرے کے ساتھ پرامن رہنے پر جنگ کے بجاے قابلِ قدر مکالمے کے لیے اپنے اپنے عظیم مذہب کی نُمایندگی کریں گے، اب سے انھوں نے مضبُوط لہجے میں اُمِّید ظاہر کی کہ آیندہ ایک کمیونٹی دُوسری کمیونٹی سے تعاون کرے گی، ایک دُوسرے کا لحاظ اور ایک دُوسرے کا احترام کریں گے، تصادم والی روایت قصہءپارینہ بنا دیں گے۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ پاپاے اعظم مسلمانوں کی مسجدوں میں گئے اور خیر سگالی کی خُوشبوئیں چھوڑ آئے۔
صلیبی جنگوں سے منسوب ناانصافیوں اور جفاکاریوں پر کیا گیا اعترافِ عام، معافی کے لیے اپیل اور یہ اقبال کہ ان زیادتیوں کے لیے کِسی حد تک کلیسیا بھی موردِ الزام ٹھہرتی ہے، یہ فراخ دلی اور انفعال متقاضی ہے کہ حوصلہ مندی کا جواب بھی حوصلہ مندی سے ہی ملے تا کہ خیر سگالی اور مستقبل کے تعلُّقات میں خلوص، مَحَبّت اور رواداری پیدا ہو جائے۔ یہ ایک خُدا شان والے کو ماننے والے تینوں بڑے مذاہب.... مسیحیت، یہُودیت اور اسلام کے لیے ٹاسک ہے، چیلنج ہے، جسے اُنھوں نے نے نِبھا بھی دکھانا ہے۔ یہی ہولی فادر جی کی تمنّا، اُمِّید اور خُوش فہمی بھی ہے۔
گذشتہ سطور میں جس نمایش کا ذِکر کِیا گیا تھا یہ باتیں اسی کی تعارفی تقریر کے بعض حصّے ہیں جو یہاں نقل کیے گئے۔ کوئی جنگ مُقدّس نہِیں ہوتی۔
تقدس مآب پوپ جان پال ثانی نے جوبلی سال2000ع کے روزوں والے پہلے اتوار جو12 مارچ2000ع کو پڑتا تھا اُسے عام معافی کا مسیحی دن قرار دے دیا۔ خُدا کی برکات کہ سنہ 2000ع وُہ تقدیس والا اور مُبارک سال تھا جس میں تمام اِنسانِیّت بالخصوص مسیحی دُنیا ناصرت کے باسی خُداوندِ خُدا پاک یسُّوع مسیح کے دو ہزارویں یومِ ولادت کی عید منا رہی تھی اور کل عالَم تیسری ہزاری میں داخل ہو چکا تھا۔ اس اتوار کو اپنے مُبارک انجیلی خُطبہ میں تقدس مآب پوپ نے بشارت دی
www.vatican.va/holy-father/john-paul-ii/homilies/d
ocuments/hf-ip-ii-hom-20000312-pardon-en.html
اقدس خُداوند یسُّوع مسیح کے حضور کہ جس نے اپنی بے پایاں مَحَبّت کے باوصف ہماری تقصیریں اپنے سر لے لیں، ہم تمام مسیحیوں کا فرض ہے کہ پوری باریک بینی سے ہم اپنے احساسِ خیر و شر کا، اپنے اپنے ضمیر کا جائزہ لیں۔ عظیم جوبلی کی خاص بات جس کا مَیں نے اپنے الفاظ میں یُوں ذِکر کیا کہ یہ تو تطہیرِ قوتِ حافظہ پر منتج تھی۔
تجسدِ خُداوندی....مسیح خُداوند کی اسراری حقیقت جو ہمارے لیے بھید ہے۔ پاپائی فرمان، حاشیہ نمبر11
مُقدّس پطرس کے تسلسُلِ رسالت سے نسبت کے ناتے، مَیں نے چاہا کہ رحمت کے سالِ سعد میں کلیسیا جسے قُدُّوس القُدُّوسین میں توانائی، قدرت و اختیار حاصل ہے اور جو عظیم ترین و اعلیٰ ترین خُداوندِ خُداکی مُبارک تر عطا ہے، اس کلیسا پر واجب ہے کہ گڑ گڑا گڑگڑا کر اس کے حضور التجا دُعا کرنے کے لیے اس کے سامنے دو زانو ہو جائے اور گُناہوں کی معافی کے لیے ملتجی ہو، ان گُناہوں کی معافی کے لیے جو ماضی میں ہوئے تھے اور اب بھی دخترانِ و پسرانِ کلیسیا سے سرزد ہو رہے ہیں....ایضاً
آج ایامِ صیّام کا پہلا اتوار ہے۔ مَیں نے برمحل جانا کہ کلیسیا کا رُوحانی اکٹھ ہو میرے مُقدّس رسُول پطرس کے جانشین کے ارد گرد، اور ہم مِل کر الٰہی عفوو درگُذر کے لیے دُعا میں التجا کریں ان کے حق میں جو خُداوند خُدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ آئیے! ہم دل گردہ دکھائیں اور سب کو معاف کر دیں۔ دُوسروں کو بھی موقع دیں کہ وُہ بھی جِگرا دِکھائیں اور ہم سب کو معاف کر دیں!
دِل کی سلیٹیں صاف ہی اچھّی لگتی ہیں۔
ہمیں معاف کر دینا چاہیے اور معافی مانگ لینی چاہیے! سب تعریفیں خُدا کے لیے ہیں جس نے رحم سے معمور اپنی مَحَبّت کے ناتے بیج بوئے، آبیاری کی اور کلیسیا میں ایسی تقدیس والی فصل تیار کر دی جو شوق، جوش اور سرگرمی سے اس کا دِین پھیلانے والوں پر مشتمل تھی اور وُہ نابغہءروزگار فادرز اور سسٹرز مذہبی کارہاے مفوضہ پر پورے اُترے۔ یہی کلیسیا کے بیٹے اور بیٹیاں کہلائے۔ خُداوند پاک اور ہمسایوں کے لیے انھوں نے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ ان کی قدر افزائی ہم پر لازم ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار نہِیں کہ انجیلِ مُقدّس کے بارے میں بعض ہمارے برادران ایسے بھی ہیں جو خُود عقیدہ میں کمزور ہیں اور بد اعتقادیاں پھیلاتے بھی رہتے ہیں۔ خُداوند یسُّوع پاک انھیں ہدایت دے، دُوسری ہزاری سے ہی ان بھائیوں نے بھٹکنا شُرُوع کر دیا تھا۔ یہ جو مسیحی برادری میں تقسیم در تقسیم در آئی ہے ہمیں اس پر ندامت کے ساتھ معافی مانگنی اور توبہ کرنی چاہیے۔ اس تشدّد کے ضمن میں جو اپنی طرف سے اس لیے آزمایا گیا کہ مقصد سچّائی کا بول بالا کرنا تھا۔ یہ دُوسروں کو بزعمِ خویش راہِ حق پر لانے کی نیک دِلانہ جارحیت تھی۔ اور ایسی زیادتیوں پر بھی خُدایا معافی! خُدایا معافی! بنتی ہے جو دُوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف اِس لیے برتی گئیں کہ زبردستوں کی نِگاہوں میں یہ زیردست بدگُمانی کے مرتکب تھے، معاندانہ اور مخاصمانہ جذبات رکھتے تھے۔ ایسے موقعوں پر وُہی انصاف کا طالب، وُہی منصف وُہی وکیل اور وُہی سزا دینے والا یا جلاد ہوتا ہے۔
آئیے! ہم اعتراف کریں، بل کہ اقبال، بطور ایک سچّے او رکھرے مسیحی کے ہماری کُچھ تو ذِمّہ داریاں تھیں، عصرِ حاضر میں پھیلی برائیوں کے تدارک کے لیے، خُود برائی کرنے اور کرنے نہ دینے کے سلسلے میں ذِمّہ داریاں....کیا ہم مسیحی ان ذِمّہ داریوںکو بجا لانے پر پورے اُترے؟ ابھی بھی پنجابی زبان میں وُہ جو کہتے ہیں....ڈُلّے بیراں دا کجھ نہِیں وگڑیا....چک کے تے چھابے وچ انھیں ڈالا جا سکتا ہے۔ دہریت کے خلاف ہم کمربستہ ہو سکتے ہیں۔مذہبی بے اعتنائیوں کے مرتکب افراد کو راہِ راست دِکھُلا سکتے ہیں، وُہ نہ مانیں ہم تو کوشِش کر دیکھیں نا، ہم پرچار کر سکتے ہیں کہ کِسی ریاست کا کوئی مذہب نہِیں ہوتا، رہبانِیّت کے بجاے دُنیاوی زندگی کو ترجیح دینے والوں کے ساتھ مُکالمہ کر سکتے ہیں، اخلاقی لوازمے سجھانے میں ہم اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، حقوقِ زیست کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف آواز اُٹھا سکتے ہیں، ایسے بھی ممالک ہیں اور بہتیرے ہیں جہاں غریب کو انصا ف نہِیں ملتا، بنیادی حقوق سے وُہ بالکل محروم ہیں، ان سے مسلسل بے التفاتی برتی جاتی ہے۔ ان کی مدد کے لیے ہم اُن افراد، اداروں اور مقتدر شخصیات، این جی اوز اور دینی رہنماﺅں کو جھنجوڑ اور جگا سکتے ہیں۔ اپنے اپنے حصے کا کردار، بساط بھر، ہم سب کو ادا کرنا ہے اور یہ ذِمّہ داری اِنسانی فریضہ سمجھ کے ہمیں نِبھانی ہے۔
ہم انتہائی عاجزی و انکساری سے معانی کے خواستگار ہیں اگر ان درج بالا برائیوں میں ہم یا ہم میں سے کوئی بھی مسیحی کِسی طور، کِسی قدر ملوث رہا ہو۔ اس سے بڑھ کر اور کون سا گُناہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے ایسے اعمال یا کِسی عمل کی وجہ سے کلیسیا کا تابناک چہرہ داغدار ہو جائے! معافی، صد ہزار معافی!!
انھی لمحاتِ انفعال میں، جب کہ ہمیں اپنے گُناہوں کا اعتراف ہے، کیوں نہ ہم دُوسروں کے وُہ ظلم جو اُنھوں نے ہم پر ڈھائے لگے ہاتھ انھیں بھی معاف کر دیں۔ وُہ بھی، ہماری طرح، اِنسان ہی ہیں۔ خطائیں اِنسانوں سے ہوتی ہیں۔ خطاﺅں کا وُجُود ہے تو معافیاں بھی اِسی لیے موجُود ہیں۔ خطا ہی نہ ہو تو معافی کِس بات کی۔
تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے، بارہا ہم مسیحی بہُت کٹھنائیوں سے گُذرے۔ مسیحیت کے پیروکار ہونے کی وجہ سے جبر، جور اور جفاکا شکار رہے ہم، ایذائیں برداشت کیں، سب مذہب کے نام پر ہُوا۔ جن پر ایسا اندھیر ٹوٹا، اُنھوں نے ستم پروروں کو معاف کر ہی دیا نا!....ہمیں بھی بڑا دِل دِکھانا چاہیے۔ ہم لے سکتے ہیں، مگر نہِیں لیں گے برائی کا بدلہ۔ چُناں چہ ہم نے معاف کِیا، سب کو معاف کر دیا۔ چرچ کو آج بھی احساس ہے اور اس نے ہمیشہ سے ہی اخلاقی طور پر اپنے آپ کو محسوس کِیا ہے۔ بُرے وقتوں اور گُذرے سانحات کی یادوں کے چرکے، داغ دھبّے سب اپنے ذِہن و دِل سے دھو دھو ڈالے ہیں جو اسے بُغض و عداوت پا لے رکھنے اور انتقام لینے پر ورنہ سدا اُکساتے ہی رہتے۔ یُوں، جوبلی جو ہے نا وُہ یُوں سجھیے، بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا، بڑے کام کا موقع ہاتھ لگنے والی بات ہے۔ تبدیلیِ شہر کو چھوڑ کر راہِ خیر اختیار کرتے ہوئے ہمیں انجیلِ مُقدّس کی طرف پورے انہماک سے جھک جانا نصیب ہو سکتا ہے۔خُداوند مہربان نے ہماری خطاﺅں کو معاف کردینے کی ہماری التجا قُبُول کر لی، اس کا یہ خاص فضل رہنمائی کرتا ہے اس مصمم ارادے کی طرف کہ ہم بھی اپنے بھائی بہنوں کی خطائیں، ان کی زیادتیاں معاف کر دیں اور سب کی طرف امن اور صلح کی جھنڈی لہرانا شُرُوع کر دیں۔ جنگ بندی نہِیں، جنگ کا ہی قلع قمع کر دیں۔