German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

فیلپیوں کے نام مقدس پولوس کے خط میں مندرجہ ذیل اندراجات سے آپ کیا مراد لیتے ہیں
فلیپوں۲: آیت ۶ 
”....کیوں کہ اُس نے خدا کی ذات میں ہو کر خُدا کے برابر ہونا غنیمت نہ جانا۔“
اِسی طرح مقدس یوحنّا کی انجیل پاک میں وارد ہوا ہے 
مقدس یوحنّا ۱: ا تا ۱۳ آیات
ابتدا میں کلمہ تھا
اور کلمہ خدا کے ساتھ تھا۔
اور کلمہ خدا تھا۔
یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔
اسی سے سب کچھ پیدا ہوا۔
ایک بھی چیز جو پیدا ہوئی
اُس کے بغیر پیدا نہ ہوئی۔
اُسی میں زندگی تھی
اور زندگی انسانوں کا نُور تھی
اور نُور تاریکی میں چمکتا ہے۔
اور تاریکی نے اُسے قبول نہ کِیا
ایک آدمی آ موجود ہُوا خدا کی طرف سے مُرسل
جس کا نام یوحنّا تھا۔
یہ شہادت کے لیے آیا کہ نُور کی شہادت دے،
تا کہ سب اُس کے وسیلے سے ایمان لائیں۔
وہ خود تو نُور نہ تھا
لیکن نُور کی گواہی دینے کےلیے آیا تھا۔
حقیقی نُور وہ تھا
جو ہر انسان کو منوّر کرتا ہے،
جو دنیا میں آتا ہے
وہ دُنیا میں تھا
اور دُنیا اُسی سے پیدا ہوئی
اور دُنیا نے اُسے نہ پہچانا۔
وہ اپنی مِلک میں آیا
اور اُس کے اپنوں نے اُسے قبول نہ کِیا۔
لیکن جتنوں نے اُسے قبول کِیا
اُس نے اُنھیں اقتدار بخشا
کہ خدا کے فرزند بنیں۔
یعنی اُنھیں جو اُس کے نام پر ایمان لاتے ہیں۔
وُہ خون سے نہیں
نہ جسم کی خواہش سے
نہ آدمی کے ارادے سے
بل کہ خدا سے پیدا ہوئے“


:جواب

دو آرا کے درمیان والی بات تھی، بہت ہی نازک، بہت ہی اہم اور فیصلہ کن۔ فیلپیوں کے نام خط کی ان آیاتِ مقدسہ نے میری تمام تر توجُّہ، غور و فکر اور ذہنی اُپج کو اس نکتے پر مرکوز کر دیا کہ واقعی خدا بھلا خدا کیسے ہے: خدا کو اعلان اور دعوے نہیں کرنے پڑتے اور اپنی خدائی کو کسی پر بھی زبردستی مسلط نہیں کرنا پڑتا۔ اسے اپنی قدرت کے کرشمے دِکھا کر اپنا آپ منوانے کی کیا ضرورت، چار دانگِ عالم میں اسی کے کرشمات ہی تو ہیں کہ کاروبارِ ہستی کو قرار حاصل ہے۔ اسی کے الوہی نظام کے تحت ہونیاں انہونیاں، اور انہونیاں ہونیاں ثابت ہوتی رہتی ہیں۔ وہی سب کچھ کہ جو تھا، جو ہے، جو ہو گا، اس کا خالق و مالک ہے، سبھی کچھ اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ وہ اپنے پہچانے جانے کا، اپنی معرفت کے لیے کسی کا محتاج نہیں۔ ایسی اسے کوئی احتیاج لاحق ہے نہ ہی پروا۔ کوئی اسے مانے اس کی اپنی بھلائی ہے، نہ مانے تو خدا اس کے ماننے نہ ماننے سے بے نیاز ہے۔ ڈر، خوف، تادیب و سزا کے جکڑ بندوں میں کس کر بھلا اسے اپنا آپا منوانے کی کیا ضرورت۔ وہ خدا ہے، خدا بھی ایسا کہ اپنی مخلوق پر یوں سرفگن رہتا ہے کہ انھیں زمانے اور ان کے اپنے افعال کی دھوپ سے بچائے۔ وہ تو اُلفت وکرم کا سرچشمہ ہے۔ وہ لوگوں سے ملتا ہے، ان میں رہتا ہے، ان پر آسانیاں نچھاور کرتا ہے، اپنی محبّت سے سرشار فرماتا ہے، دیکھ بھال اور تحفظ سے انھیں ہر بلا سے مامون رکھتا ہے۔ اسی لیے آقاو مولیٰ سے بڑھ کے اپنے آپ کو انسانیت کی بھلائی چاہنے والا ان کا خادم کہلانا پسند کرتا ہے۔ ایسی منشا رکھتے ہوئے خدا یہ نہیں گردانتا کہ اس کی خدائی اور شانِ خدائی ایسا کرنے سے کوئی خطرے میں پڑ جائے گی یا اس کی قدرتِ خداوندی میں کوئی کمی دَر آئے گی۔ خدا کی صفاتِ کریمہ کا اظہار اشعیا نبی نے اپنے Servant Song، خادم کا گیت میں یوں کِیا ہے:
مالک خداوند نے مجھے
شاگرد کی زبان عطا کی
تا کہ مَیں تھکے ماندوں کے لیے
وقت پر کلام کر سکوں۔
وہ ہر صبح میرے کان کو جگاتا ہے
تا کہ مَیں شاگرد کے مانند سُنوں
مالک خداوند ہی نے میرا کان کھولا ہے
تو مَیں سرکش نہ ہوا اور پیچھے کو نہ لوٹا۔
مَیں نے اپنی پیٹھ مارنے والوں کو
اور اپنی گالیں نوچنے والوں کو دے دیں
مَیں نے توہین اور تُھوک سے
اپنا منہ نہیں چھپایا
لیکن مالک خداوند میرا مددگار ہے
اسی لیے مَیں شرمندہ نہ ہوں گا۔
اسی لیے مَیں نے اپنا چہرہ چقماق کی طرح کِیا
اور یہ جانا کہ مَیں رُسوا نہ ہوں گا۔
میرا ولی قریب ہے
تو کون مجھ سےجھگڑے گا؟
آؤ ہم اکٹھے کھڑے ہوں
کون مجھ پر دعویٰ کرتا ہے؟
وہ میرے پاس سامنے آئے
دیکھ! مالک خداوند میرا مددگار ہے
تو کون مجھے مجرم ٹھہرائے گا؟
دیکھ، وہ سب لباس کی طرح َگھس جائیں گے
پروانہ ان کو کھا جائے گا۔
اشعیا:۵۰ : ۴ تا ۹
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ خدا اور اس کی خدائی کا عرفان حاصل کر سکنے کی مشقت اور وہ بھی انسانی استعدادِ فہم و فراست کے حوالے سے دشوار تو کیا، قطعی طور پر ناممکن ہے۔ اس کی معرفت تو کیا حاصل ہو گی، انسان گنجلکوں میں الجھ کے خدا کے بارے میں مزید کج فہمیوں کا شکار ہوجائے گا۔ بہتر ہو گا اس کی ان صفاتِ الٰہیہ کو سمجھنے کی کوشش کر لی جائے جو اس کی خاص مِلک ہیں اور اس کی خصوصی پہچان بھی، مثلاً وہ دیالُو ہے، لے کے نہیں، وہ دے کے راضی ہوتاہے، اسے بھی جو اس سے مانگتا ہے اور اُسے بھی جو اس سے مانگنے کی توفیق نہیں رکھتا۔ اپنے ماننے والوں کا بھی وہی ربِّ اکبر ہے اور نہ ماننے والوں کا بھی۔ وہ محبِّ اعظم ہے، وہ تمام انسانوں سے بل کہ اپنی تمام مخلوق سے پیار کرتا ہے، بے پناہ پیار۔ اس کا نُور ساری کائنات کو اپنے گھیرے میں لیے ہے، وہ مجسم نور ہے بالکل اسی طرح جس طرح وہ محبّت ہے اور محبّت بھی ساری کی ساری اور سب کے لیے۔ یہی صوفیہ کہتے ہیں اور برملا کہتے ہیں، کیوں کہ محبّت ہی خدا ہے اور خدا محبّت ہے۔ وہ حاکم ہے اور حکیم بھی، رحم طلب کرنے والوں کے لیے رحم کرنے والا اور نہ طلب کرنے والوں کو رحم بن مانگے عطا کرنے والا ربِ مہربان بھی۔ یہی خدا کا لوگوس ہے، یہی اس کا کلمہ۔
اور یہ جو سینٹ یوحنّا کی انجیلِ مقدس میں رقم ہے:
“In the beginning was the Word, and the Word was with God, and the Word was God. He was with God in the beginning. Through him all things were made; without him nothing was made that has been made.”
Chapter 1:1-13
اس سے یہی منکشف ہے کہ کلمہ، کلامِ خدا، کلام مجسم ہوا اور انسان بنا۔ اس کی زندگی، دِینی خدمت اور تاریخِ عالم پر جس کے نقوش دائمی طور نقش ہیں اس یسوع المسیح کا مُردوں میں دوبارہ جی اُٹھنا کیا اس امرِ واقعی کے زندہ شواہد نہیں کہ اس کا وجود، اس کی ہستی، اس کی شناخت در اصل ہے کیا: ........ وہ ہے کُل عالم، عالمِ فنا و عالمِ بقا کو اپنے حلقے میں لیے ہوئے محبّت ہی محبّت، بے پایاں محبّت۔ تاہم، کلمہ متجسد ہونے کے ان تاریخی لمحات پر اس نے یہ طے کر لیا تھا یا نہیں مگر وہ تھا شروع سے ہی کچھ ایسا ہی یعنی اس کا کلام، شناخت، جوازِ ہستی، ریشنیلٹی محبّت پر ہی موقوف و محیط تھی، اسی سے سب کچھ تخلیق ہوا۔ ایک بھی چیز جو پیدا ہوئی، اس کے بغیر پیدا نہ ہوئی کیوں کہ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔ وہ کلمہ تھا اور خدا کے ساتھ تھا اور کلمہ خدا تھا۔

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?