:سوال نمبر296
?مذہبی اعتبار سے بہشت میں شادی شدہ جوڑوں کے بارے میں کیتھولک مسیحیوں کے کیا تصورات ہیں
جواب:
۔پہلا جواب تو وہی ہے جو خود مقدس خداوند یسوع مسیح نے بالصراحت ارشاد فرمایا تھا..... مقدس انجیل متی میں منقول ہے:
”اسی دِن صدوقی جو قیامت کے منکر ہیں اس کے پاس آئے اور اس سے سوال کیا کہ اے اُستاد! موسیٰ نے کہا تھا، اگر کوئی بے اولاد مر جائے تو اُس کا بھائی اُس کی بیوی سے بیاہ کر لے۔ اور اپنے بھائی کےلیے نسل پیدا کرے۔ پس ہمارے درمیان سات بھائی تھے، پہلا بیاہ کر کے مر گیا اور اس سبب سے کہ اُس کی اولاد نہ تھی۔ اپنی بیوی اپنے بھائی کے لیے چھوڑ گیا۔ اسی طرح دوسرا اور تیسرا بھی ساتویں تک۔ سب کے بعد وہ عورت بھی مر گئی۔ پس وہ قیامت میں ان ساتوں میں سے کس کی بیوی ہو گی؟ کیوں کہ وہ سب کی رہ چکی تھی۔ یسوع نے جواب میں اُن سےکہا کہ تم نوشتوں اور خدا کی قدرت کو نہ جانتے ہوئے غلطی پر ہو۔ کیوں کہ قیامت میں لوگ نہ بیاہ کریں گے، نہ بیاہے جائیں گے، بل کہ آسمان پر خدا کے فرشتوں کے مانند ہوں گے۔ اور مُردوں کی قیامت کی بابت خدا نے جو تمھیں فرمایا تھا، کیا تم نے وہ نہیں پڑھا؟ کہ مَیں ابراہیم کا خدا اور اسحٰق کا خدا اور یعقوب کا خدا ہوں۔ وہ مُردوں کا نہیں بل کہ زندوں کا خدا ہے۔ لوگ یہ سن کر اُس کی تعلیم سے دنگ رہ گئے“۔
مقدس متی.....23:22تا33
”پھر صدوقی جو قیامت کے منکر ہیں اُس کے پاس آئے اور انھوں نے اُس سے سوال کر کے کہا کہ..... اے اُستاد! ہمارے لیے موسیٰ نے لکھا ہے کہ اگر کسی کا بھائی مر جائے اور بیوی بے اولاد چھوڑ جائے تو اس کا بھائی اس کی بیوی کو لے تا کہ اپنے بھائی کے لیے نسل پیدا کرے۔
سات بھائی تھے پہلے نے بیوی کی اور بے اولاد مر گیا۔ تب دوسرے نے اُسے لیا اور مر گیا اور اس نے بھی اولاد نہ چھوڑی اور اسی طرح تیسرے نے۔ بل کہ ساتوں ہی بے اولاد مر گئے اور سب کے پیچھے وہ عورت بھی مر گئی۔
پس قیامت میں جب وہ جی اٹھیں گے وہ اُن میں سے کس کی بیوی ہو گی؟ کیوں کہ وہ ساتوں کی بیوی رہ چکی تھی۔ یسوع نے اُن سےکہا، کیا تم نوشتوں اور خدا کی قدرت کو نہ جانتے ہوئے غلطی پر نہیں؟ کیوں کہ جب مُردوں میں سے جی اٹھیں گے تو لوگ نہ بیاہ کریں گے نہ بیاہے جائیں گے بل کہ آسمان پر فرشتوں کے مانند ہوں گے۔ اور کیا تم نے مُردوں کی قیامت کے بارے میں موسیٰ کی کتاب میں جھاڑی کے ذکر میں نہیں پڑھا کہ خدا نے اُس سے مخاطب ہو کر کس طرح کلام کیا کہ مَیں ابراہیم کا خدا اور اسحٰق کا خدا اور یعقوب کا خدا ہوں۔ وہ مُردوں کا نہیں بل کہ زندوں کا خدا ہے۔ پس تم بڑی غلطی پر ہو“۔
مقدس مرقس.....18:12تا27
آیت نمبر۲۵ پر خصوصی توجہ فرمائیے۔ اوپر، اس کے الفاظ نمایاں کیے گئے ہیں۔
”تب اُن صدوقیوں میں سے جو قیامت کے منکر ہیں بعض نے پاس آ کر اُن سے سوال کر کے کہا کہ اے استاد، موسیٰ نے ہمارے لیے لکھا ہے کہ اگر کسی کا کدخدا بھائی بے اولاد مر جائے تو اس کا بھائی اس کی بیوی کو بیاہ میں لے۔ اور اپنے بھائی کے لیے نسل پیدا کرے۔ پس، سات بھائی تھے۔ پہلے نے بیوی کی اور بے اولاد مر گیا۔ پھر دوسرے نے۔ اور تیسرے نے بھی اسے لیا اور اسی طرح ان ساتوں نے۔ اور سب بے اولاد مر گئے۔ آخر کو وہ عورت بھی مر گئی۔ پس قیامت میں اُن میں سے وہ کس کی بیوی ہو گی کیوں کہ وہ ساتوں کی بیوی رہ چکی تھی۔ یسوع نے اُن سے کہا کہ اِس عالَم کے فرزند تو بیاہ کرتے اور بیاہے جاتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اِس لائق ٹھہریں گے کہ اُس عالَم اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے شریک ہوں، وہ نہ بیاہ کریں گے اور نہ بیاہے جائیں گے۔کیوں کہ وہ پِھر مرنے کے نہیں۔ اس لیے کہ وہ فرشتوں کے مانند ہوں گے اور قیامت کے فرزند ہو کر خدا کے بھی فرزند ہوں گے۔ اور مُردوں کی قیامت کے بارے میں موسیٰ نے بھی جھاڑی کے ذِکر میں اشارہ کِیا۔ چناں چہ وہ خداوند کو ابراہیم کا خدا اور اسحٰق کا خدا اور یعقوب کا خدا کہتے ہیں۔ مگر خدا مُردوں کا نہیں بل کہ زندوں کا خدا ہے۔ کیوں کہ اس کے نزدیک سب زندہ ہیں۔ تب بعض فقیہوں نے خطاب کر کے کہا کہ اے اُستاد! تُو نے خوب کہا۔ بعد اس کے کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ اُس سے کوئی اور سوال پوچھے“۔
مقدس لوقا.....27:20 تا 40
(اس انجیل پاک کی ۳۴ویں آیت پر غور کی ضرورت ہے، جو اوپر نمایاں کی گئی ہے۔)
ازراہِ مہربانی، تمام اناجیلِ مقدسہ میں عنوان ”قیامت کا سوال“ کے تحت متعلقہ آیاتِ مبارکہ کی تلاوت کا فیض حاصل کیجیے۔ خداوند یسوع پاک نے اس نظریہ کی نفی کی ہے کہ مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد بھی ازدواجی رشتے صائب و قائم رہیں گے۔ خداوند نے تو واضح فرما دیا کہ مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد لوگ نہ بیاہ کریں گے، نہ بیاہے جائیں گے، آسمانوں پر وہ بھی فرشتوں کے مانند ہوں گے۔ (حوالہ کے لیے دیکھیے مقدس متی..... 30:2۲)
۱۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ بہشت کو ہم اپنے تخیل میں کیسا دیکھتے ہیں تو اس کی وضاحت آپ کو ”موت (روح کی جسم سے علیحدگی)“ .... ”روزِ عدل (الٰہی عدل)“ اور ”دائمی (غیرفانی) زندگی“.... کے عنوانات کے تحت 11. The Christian View (۱۱۔ مسیحی نقطۂ نظر) میں مل جائے گی۔ اس میں مرقوم ہے کہ اسرائیلیوں کے انبیا اور مقدس یوحنّا(Saint John)جو کہ روزِ عدالت نبی ہوں گے، یہ سب مقدسین کنایۃً اور استعاروں میں اس کیفیت کی شرح بیان کرتے رہے ہیں کہ یہ آخرت کی حیاتِ نو ہو گی کیسی۔ انھوں نے عدن، فلک یا عرشِ بریں کا تذکرہ یوں نہیں کِیا کہ جیسے یہ کوئی جگہ ہو گی، کہیں بادلوں کے دُور پرے، کہیں بہت اوپر۔
در اصل جہاں خدا ہے، وہی بہشت ہے، آسمان ہے، عرشِ بریں ہے۔ وہیں خدا کے ساتھ اُس کی جوارِ رحمت میں لوگ رہتے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے اُس کے ساتھ۔ کیوں کہ وہ اُسی کے اپنے بندے اور اُسی کی محبوب خلقِ عظیم ہیں۔
وہ دنیا، خطاکاری کا مُرقّع وہ پُرانی دنیا جس کا آدمیوں نے حلیہ ہی بگاڑ دیا قصۂ پارینہ ہوئی۔ ایک نئی زمین انسانیت کا مسکن بننے والی ہے۔ یہ زمین، یہ انسانوں سے آباد نئی دنیا بالکل ویسی ہی ہو گی جیسا خدا پُرجلال و عظمت نے چاہا ہو گا کہ وہ ہو۔ مُردوں میں سے جی اُٹھنے والے خداوند المسیح کے انوار و فیوض سے منوّر و درخشاں و تاباں دنیا۔
خوشا یہ دنیا! جس میں لوگ، خداوند خدا کے اپنے لوگ، اس کی قرابت میں رہیں گے، دائمی طور پر خوش و خرم، خداوند قدوس کے وژن کے عین مطابق۔ وہ خود مجسم نور ہی ان کی روشنی ہو گا اور وہی اُن کا سبب و افتخارِ زیست ہے اور سدا کے لیے ہے۔ ان چاند، ستاروں اور سورج کی محتاجی سے کلیتاً بے نیاز ہو جائے گی خدا کی خلقت۔
نئے یروشلم میں مٹّی، چُونے، پتّھر کے مکانات نہیں، اور وہ ہیکل اور معبد بھی نہیں جہاں خدا کو تلاش کِیا جاتا رہا۔ حسرت رہتی تھی کہ اس کی بارگاہ میں باریابی ہو اور اُس کا دیدار نصیب ہو۔ اب ہمہ دَم خدا کی حضوری مقدر ہو گی، وہ تو رہتا ہی لوگوں کے بیچ ہو گا، سامنے، قریب تر، ان کے عین درمیاں۔ اور ایک نئی ثمربار زمین ان کی منتظر ہو گی جس کا عکسِ منوّر مقدس بائبل میں جا بہ جا مذکور ہے........ وہاں کے ریگزاروں میں بھی چشمے پھوٹ رہے ہوں گے۔ وہاں کے لہلہاتے پھل دار پودے اور جھومتے جھامتے درخت سال میں بارہ بارہ مرتبہ انواع و اقسام کے پھل دیا کرتے ہیں۔ وہ تو ہے ہی ایسی دنیا جس میں کسی مخلوق کو دوسری مخلوق سے کوئی خطرہ درپیش نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ بھیڑیے میمنوں کے پاس لیٹے محوِ استراحت ہوں گے۔ یہاں نہ کوئی ظالم ہو گا نہ مظلوم۔ تمام مخلوق خوش باش، بے خطر زندگی بسر کرتی رہے گی ہمیشہ ہمیشہ۔ بچہ سانپ کے بِل میں ہاتھ ڈالے گا، سانپ اس معصوم کے ننھے ننھے ہاتھ کو چُوم لے گا، ڈسے گا نہیں۔ حوالہ........
”بھیڑیا برّے کے ساتھ رہےگا اور چیتا حَلوان کے ساتھ بیٹھے گا اور بچھڑا اور شیر بچہ اکٹھے بسیں گے اور ایک چھوٹا بچہ اُن کی ہدایت کرے گا۔ گاے اور ریچھنی اکٹھی پھریں گی اور اُن کے بچے اکٹھے رہیں گے اور شیر بَیل کی طرح بھوسا کھائے گااور شیرخوار بچہ افعی کے بِل کے پاس کھیلے گا اور دُودھ چھڑایا ہوا لڑکا اجگر کے سوراخ میں اپنا ہاتھ ڈالے گا“۔
اشعیا.....۶:۱۱،8،7
لوگ جان جائیں گے کہ یہ ہوتی ہے تکمیل و معراجِ انسانیت جو خاص انعامِ خداوندی ہے۔ اس نئے جہان میں نہ تو کوئی وبائیں پُھوٹیں گی نہ بیماریاں ہوں گی، نہ موت کا خوف ہو گا نہ اکلاپے کا ڈر، نہ اُداسیاں اور غم نہ آنسوؤں کے سوتے، نفرتیں اور حقارتیں غائب، دشمنیاں اور مخالفتیں مفقود اور جبر و استبداد ملیا میٹ۔
آخرت کی ہمیشگی والی زندگی کی یہ جانکاری جاودانی لہربن کر رومن کیتھولک عقیدے میں رواں دواں ہے۔ کاتھولک مسیحیوں کا ایمان ہے کہ جنھیں مکتی، داتا کی مکتی نصیب ہو گئی وہ پاک خداوند یسوع مسیح میں خدا مہربان و قادرِ مطلق کی بخشی ہوئی محبّت بھری زندگی کا انعام پا لیں گے اور احسان مندی کے ساتھ شکرانہ گزارتے ہوئے ازدواجی تعلقات میں ملوث ہونے سے ماورا ہو کر آسمانوں پر اُس خزاں سے ناآشنا پُر بہار حیاتِ ابدی کے مزے لینا شروع کر دیں گے جس کا انسانی تصوُّر احاطہ کر ہی نہیں سکتا۔ لامحدود و خوشگوار اور بھرپور زندگی!!!