German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر167

کیا مسیحی ہی بس بہشتی ہیں، باقی لوگ جہنم رسید ہوں گے؟


جواب:

۔سوالات و جوابات1 کے سوال نمبر17کے سلسلے میں ویسے تو ہم حتی المقدور تسلی بخش جواب سے عہدہ برآ ہو چکے ہیں۔ اگر جواب نمبر1کے ساتھ نمبر16منشورِ کلیسیا Dogmatic Constitution on the Church: Lumen Gentiumسے بھی استفادہ کِیا جائے تو مزید وضاحت ہو جائے گی:

16۔ مختصر یہ کہ جن لوگوں کی کِسی سبب انجیلِ مقدس تک رسائی نہیں ہو سکی کِسی نہ کِسی لحاظ سے ان کا بھی تعلق واسطہ خدا کی امت سے برابر بنتا ہے(32)۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ ہمیں ان لوگوں کو ذہن میں لانا چاہیے جنھیں عُہُود اور شریعت سے متمتع کِیا گیا اور یسوع ناصری نے انہی لوگوں کے درمیان ابن آدم ہونے کی حیثیت میں جنم لیا۔ ایک لحاظ سے وہ اس کے بزرگ اور آبا ٹھہرے…

وہ اسرائیلی ہیں تبنیت کا حق اور جلال اور عُہُود اور شریعت کا دیا جانا اور عبادت اور وُعُود انہی کے ہیں۔ ابا انہی کے ہیں اور بشریت کی نسبت المسیح بھی اُن ہی میں سے ہوا جو سب کے اُوپر ابد تک خداے محمود ہے۔ آمین۔

رومیوں…5,4:9

خداوند یسوع پاک کے آبا و بزرگ ہونے کے ناتے یہ اسرائیلی خدا کو محبوب کیوں نہ ہوں گے۔سخیوں کا سخی جب کِسی کو کچھ دان کردیتا ہے تو اُسے واپس لے لینا اس کی شانِ خداوندی کے منافی ہے۔ خداوند کا ناصرت میں جنم وہاں کے لوگوں کے لیے فقط انعامِ عظیم ہی نہیں بہت بڑا احسانِ الٰہی بھی ہے جس پر اسے پچھتاوا نہیں، نہ ہی بلاہٹ پر کوئی ملال…

وہ تو انجیل کی نسبت تمھاری خاطر دشمن ٹھہرے ہیں۔ لیکن برگزیدگی کی نسبت باپ دادا کی خاطر پیارے ہیں۔ اس واسطے کہ خدا اپنی نعمتوں اور دعوت میں غیر متبدل ہے۔

رومیوں…29,28:11

مگر خدا کی نجات بخشنے والی مشیت ان کے لیے بھی ہے جو اس کے خالق ہونے کا اعتراف کرتے ہیں، ان میں مسلمان مقدمی حیثیت رکھتے ہیں جو ابراہام والے مذہب پر ایمان رکھتے ہیں اور ہماری طرح ہی خداواحد و مہربان کی تمجید کرتے ہیں جو روزِ عدالت اپنے ربی عدل سے خلقت میں انصاف کرے گا۔خدا ان سے بھی بے خبر ہے نہ دُور، جو رات کی تاریکی میں اور دن کی روشنی میں اپنی قوتِ متخیلہ کے زور پر اس کی تلاش میں رہتے ہیں۔ نہیں جانتے کہ وہ کون ہے، ا س کا حسب نسب کیا ہے، مگر ہے، مجہول و مستور سہی، ہے ضرور۔ اُن کی قوتِ متصورہ اُنھیں بتاتی ہے کہ جو کچھ ہے اس کا خالق وہی ہے۔ زندگی، زندگی کا ہر سانس، سب کچھ اسی کی عطا ہے وہ نامعلوم ہے، اسی کی معرفت کے وہ متلاشی ہیں…

تب پولوس نے اریوس پاغُس کے درمیان کھڑے ہو کر کہا: اے اتینی مردو! مَیں دیکھتا ہوں کہ تم ہر بات میں نہایت متعبد ہو کیوں کہ مَیں نے سیر کرتے اور تمھارے معبودوں پر نظر کرتے ہوئے ایک قربان گاہ پائی جس پر یہ لکھا تھا…’’خداے مجہول کے لیے‘‘۔ پس جس کو تم بغیر معلوم کیے پوجتے ہو مَیں تم کو اُسی کی خبر دیتا ہوں۔ جس خدا نے دنیا اور سب کچھ جو اس میں ہے پیدا کِیا، وہ اس لیے کہ آسمان اور زمین کا مالک ہے ہاتھ کے بنائے ہوئے مندروں میں نہیں رہتا۔ نہ آدمیوں کے ہاتھ سے خدمت لیتا ہے۔ گویا وہ کِسی چیز کا محتاج نہیں کیوں کہ وہ تو خود سب کو زندگی اور سانس اور سب کچھ بخشتا ہے۔ اور بنی نوعِ انسان کی ہرایک قوم کو ایک ہی اصل سے پیدا کِیا کہ تمام رُوے زمین پر بسیں اور ان کی میعادیں اور سکونت کی حدود متعین کیں تا کہ خدا کو ڈھونڈیں شاید کہ ٹٹول کر اُسے پائیں اگر وہ ہم میں سے کِسی سے دُور نہیں۔ کیوں کہ اُسی میں ہم حیات اور حرکت اور ہستی رکھتے ہیں۔ جیسا کہ تمھارے شاعروں میں سے بھی بعض نے کہا ہے کہ…

ہم تو اسی کی نسل بھی ہیں

اعمال…22:17تا28

وہ نجات بخشنے والا، گناہوں کو معاف کرنے والا چاہتا ہے کہ تم انسانوں کی مُکتی ہو…

وہ چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔

1۔ تیموتاؤس…4:2

مکتی وہ بھی پا سکتے ہیں جو خداوند یسوع اقدس کی انجیلِ پاک اور اس کی مقدس کلیسیا کے بارے میں بے خبر رہے، اسی میں ان کا اپنا کوئی قصور نہ تھا، وہ تو بڑی کاوش کر کے خدا کی ذاتِ پاک کے متلاشی رہے، وہ الٰہی فضل اور مدد کے متمنی تھے کہ وہ اسے پا لیں، اور قیاس بھر اسی کی رضا حاصل کرنے کی تگ و دو کرتے رہے، یہ سوچ کے کہ وہ جس کی انھیں تلاش ہے ہم سے کِن کِن اچھے افعال کا طالب ہو گا، اپنی دانست میں انھیں جو صحیح لگا اسی پر عمل کرتے رہے۔ خیر و شر کا احساس ان کا راہبر تھا، دل کی گواہی دلیل تھی اور ضمیر ان کا محرک تھا۔ (33)۔ خدا انھیں اپنی نجات بخش نعمت سے محروم نہیں رکھتا، ربی رزاقی، الٰہی پروردگاری ان کے شاملِ حال رہتی ہے، وہ انھیں بے تقصیر قبول کر لیتا ہے، جو انجانے میں اس کی واضح معرفت کے علم کے عارف بن سکنے سے قاصر رہے۔ وہ تو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے صالح زندگی بسر کرتے رہے تا کہ اس کا فضل، رم اور برکت انھیں نصیب ہو جائے۔ ان کی نیت خالص تھی، خدا کی محبت اور حمایت انھیں تحفے میں ملی اور وہ نجات پا گئے۔ انھیں جو نعمت اور حق تک رسائی ملی کلیسیا کی نگاہ میں یہ انجیلِ مقدس کا فیض پانے کی ہی پہلی کڑی ہے۔ وہ بامراد ہوئے۔(34)۔ کلیسیا جانتی ہے یہ خدا کی دین ہے، وہی لوگوں کے دِل و دماغ روشن کرتا ہے۔ اپنی راہ انھیں صرف دِکھاتا ہی نہیں بل کہ اس پر چلاتا بھی ہے۔ کوئی سائل ہو تو سہی، خدا تو فوراً مائل بہ کرم ہو جاتا ہے، اور زندگیاں سنوار دیتا ہے۔ مگر افسوس! یہ کمبخت انسان!! کتنی جلدی شیطان کے چکمے میں آجاتا ہے۔ اس خبیث کے دِکھائے ہوئے سبز باغوں پر آن کی آن میں ریجھ جاتا ہے۔ اکثر بندوں کی عقل گھا س چرنے نکل جاتی ہے، سوجھ بوجھ سے پیدل ہو جاتے ہیں، شر اور بدی کی طاقتیں ان پر حاوی ہو جاتی ہیں، جھوٹ ان کے دِلوں میں موجزن خدا کی سچائی کو ہڑپ کر جاتا ہے، وہ بجاے اپنے خالق کے خباثتوں کے غلام بن جاتے ہیں۔ شر کو بھی خدا نے پیدا کِیا اور خیر کو بھی، دونوں کو بندے کی آزمایش بنایا اور بندہ اگر شر کا اسیر ہو تو کِس قدر افسوس کی بات ہے!

کیوںکہ انھوں نے اگرچہ خدا کو پہچانا تو بھی خدا کے لائق اس کی تمجید اور شکرگزاری نہ کی بل کہ اپنے باطل خیالات میں پڑ گئے اور اُن کے بے فہمید قلوب پر تاریکی چھا گئی۔ وہ اپنے آپ کو دانا ٹھہرا کر نادان ہو گئے اور غیر فانی خدا کے جلال کو فانی انسان اور پرندوں اور چوپایوں اور کیڑے مکوڑوں کی شبیہ میں بدل ڈالا۔ اس لیے خدا نے ان کے دلوں کی خواہشوں کے ذریعہ سے اُنھیں ناپاکی کے حوالے کر دیا ہے کہ اُن کے بدن آپس میں بے حرمت کیے جائیں۔ انھوں نے خدا کی سچائی کو جھوٹ سے بدل ڈالا ہے اور خالق کے بجاے (جو دائماً محمود ہو۔ آمین) مخلوق کی پرستش اور عبادت کی ہے۔

رومیوں…21:1تا25

اور بعض ایسے بھی ہیں جو دنیا میں آئے، خدا کے منکر ہو کر زندہ رہے اور مر گئے۔ ان کا انجام ہمیشہ کی مایوسی و ناکامی ہے۔ یہی سبب ہے خدا کوجلال دینے، اس کی تمجید کرنے اور سب کی نجات کی درخواست کرنے کے لیے، مقدس خداوند یسوع مسیح کے فرمانِ اقدس کو ذِہن میں رکھتے ہوئے کہ

اور اُس نے ان سے کہا کہ تم تمام دنیا میں جا کر ساری خلقت کو انجیل کی مُنادی کرو۔

مقدس مرقس…15:16

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?