:سوال نمبر169
۔تو کیا واقعی جناب پوپ بینی ڈکٹ مکالمے کے حق میں ہیں یا یہ سمجھاجائے کہ درپردہ انجیلی بشارت دینے اور تبلیغِ مسیحیت کے لیے مسلمانوں پر مکالمے کی حکمتِ عملی آزمانے میں دلچسپی رکھتے تھے؟
جواب:
۔آپ کے سوال کے جواب میں مناسب یہی ہے کہ تقدس مآب جناب پوپ بینی ڈکٹ سولھویں کے 20اگست2005عیسوی والے خطاب سے چند اقتباسات بطور نظیر پیش کروں جن کا اظہار انھوں نے ورلڈ چرچ ڈے کے موقع پر اسلامی دنیا سے آئے ہوئے مسلم مندوبین کے سامنے کولون میں کِیا تھا…
عزیز دوستو! میرے دِل کی گہرائیوں میں اپنے ہمہ گیر معانی کے ساتھ یہ بات جاگزین ہے کہ آپ کو اور ہمیں چاہیے کہ منفی قسم کے دباو کے سامنے مغلوب نہ ہوں۔ بل کہ ایک دوسرے کا احترام، مشترکہ ذمہ داریوں اور مفادات سے پیدا ہونے والی اقدار اور باہمی مصالحت و امن امان کے جذبات اور مساعی کو استحکام دیں۔
ہر فرد، بشر کی زندگی مقدس و معظم ہے جس کا تقدس دست اندازی یا بے حرمتی سے پایمال نہیں کِیا جا سکتا، مسیحی ہوں یا مسلم دونوں اقوام کو انسان کی عظمت کے پاس لحاظ کو باہم استقلال دینا چاہیے۔ بنیادی اخلاقی اقدار کے لیے خدمات انجام دینے کی خاطر اگر ہم یکمشت، یک جان ہو کر کام کریں تو اس کارِ خیر کے لیے ہمارے سامنے بہت وسیع گنجایش اور مواقع موجود ہیں۔
انسان کا ذاتی تشخص، اس کا وقار اور اس کے انسانی حقوق کا تحفظ جب ہمارے ذہنوں میں اُجاگر ہو جائے تو یہ ادراک ہمیں مزید قوتِ مدرکہء محرکہ مرحمت کرے گاجو نمایندگی کرے گا ہمارے اس مقصدِ عظیم کی جس کا نتیجہ ہو گا سماجی ہم آہنگی کے لیے ہماری سنجیدہ جدوجہد اور اس میں کامیابی اور یہ خوشی کہ ہماری نیک نیتی سے کی گئی ان تھک کوشش رایگاں نہ گئی۔ اس پیغام کا ابلاغِ بِلا امکان غلطی و مغالطہ ہمیں خاموش مگر واضح تر ضمیر کی آواز جو ہمارے دِل، دماغ، کانوں اور فہم میں گونجی اس سے ہو جائے گا۔ اس مبارک پیغام پر بھرپور توجہ دینا ہو گی، جب اثر کر جائے تو اسے دوسروں میں بھی عام کرنا ہو گا تا کہ ان کے خفتہ ضمیر بھی جاگیں۔ اگر اس پیغام کی دستک لوگوں کے ذہن و دل کے دروازوں پر نہ پہنچی، اس دستک کی گونج سے ان کے بہرے کان بے خبر رہے تو دنیا وحشت و جہالت اور نئی بربریت کے ہولناک اندھیروں میں گِھر جائے گی۔
صرف یہی راستہ ہے کہ انسان کی ذات کے نیوکلیئس کی پہچان پیدا کر لی جائے تو اس مطلوبہ منزل تک یقینی رسائی ہو جائے گی جو آپس میں بنیادی افہام و تفہیم اور مصالحت و محبت کی منزلِ مقصود ہے، جو تہذیبی تصادمات سے ہمیں بچا کے کامیابی و کامرانی کے زینے طے کروا سکتی ہے اور انتشار پیدا کرنے والے، تفرقہ ڈالنے والے نظریاتی عوامل کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔
[…] ماضی کے تجربات کے پیشِ نظر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ شومیِ قسمت، مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان تعلقات اکثر باہم دوستانہ مراسم کے دائرے میں نہیں رہے۔ دونوں مذاہب کے درمیان خوںریز جنگوں کے واقعات کی تفصیلات سے تاریخِ عالم کے صفحوں پر صفحے بھرے پڑے ہیں، دونوں ہی فریق خدا کے نام پر، اس کے دین کو بچانے کی خاطر جنگ آزما رہے۔ اور اس خام خیالی میں رہے جیسے دشمن سے لڑنا اسے ہلاک کر دینا خدا کی نظر میں بڑا پسندیدہ عمل قرار پاتا ہو گا۔ مسلم ہوں یا مسیحی دونوں انسان تھے، انسانوں کے قتلِ عام پر بھلا وہ خوش ہوتا ہو گا؟ اس قبیل کے افسوناک واقعات کو کیا یاد کرنا، یاد کریں تو شرمندگی ہی ہوتی ہے کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، جو قتل و غارتگری کے بازار گرم کیے گئے، سب کے لیے مذہب کا نام ہی استعمال ہوا۔ انسان انسان کا خون بہائے، مذہب تو اس کی نفی کرتا ہے، مسیحیت بھی اسلام بھی۔ امن کے شہزادے نے کتنی جنگیں لڑیں؟ ایک بھی نہیں۔ ماضی سے جو ہمیں سبق ملا اس کی مدد سے آیندہ ایسی غلطیوں کے ارتکاب سے ہمیں باز آنا ہو گا۔ رات گئی بات گئی۔ دِن کے اجالے نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ ہمیں مصالحت، امن اور محبت کی راہوں کے راہی بننا ہو گا۔ یہی از بس ضروری ہے۔ ہمیں مذہبی تعصبات سے کنارہ کشی اختیار کر کے ایک دوسرے کے ساتھ بالاحترام افہام و تفہیم پیدا کرنا ہو گی تا کہ مل جل کرپوری ہم آہنگی اور خیر سگالی کے جذبات کے ساتھ انسانی معاشرت کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا اپنا انفرادی اور من حیث القوم کردار نبھادکھائیں۔ اپنی اپنی شناخت بھی قائم رہے اور ہمارے درمیان برادرانہ اتحاد بھی مضبوط ہو۔ بھلا سوچیں، بھلا کریں، بھلا کرنے کی ترغیب دیں۔ چار روزہ زندگی ہے، بھلا اسی میں ہے کہ بھلے انداز سے اسے بسر کریں۔ مذہبی آزادی کا تحفظ، آج کی صورتِ حالات میں، مدامی طور پر لازم ہے اور اقلیتوں کا پاس لحاظ رکھنا، انھیں عزت دینا بہترین تہذیب و تمدن کی نمایاں علامت ہے۔
اس سلسلے میں یہی مناسب ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ خیر سگالی والے تعلقات اُستوار رکھنے کے معاملے پر آباے ویٹی کن کونسل ثانی نے جو کچھ کہا ہے اسے فراموش نہیں کِیا جانا چاہیے:
کلیسیا مسلمانوں کا احترام کرتی ہے۔ وہ بھی ایک خدا کی عبادت کرتی ہیں جو زندہ ہے، قائم، لافانی ہے، رحم و رحمت والا اور قادرِ مطلق ہے، ارض و سما اور ان میں جو کچھ ہے سب کا خالق ہے مالک ہے۔ اس نے آدم زادوں کو یہ شرف بخشا کہ اُن سے خود کلام کِیا۔ اس کے الٰہی احکام، براہِ راست یا بالواسطہ، معلوم نامعلوم، بجا لانے میں حتی المقدور اس کے بندے خوشی خوشی کوشاں رہتے ہیں، بعینہٖ ویسے ہی جیسے ابراہیم اس کا تابع فرمان رہا اور مسلمان بھی نبی ابراہیم کی تقدیس کرتے ہیں، اپنا ناتا اسی سے جوڑتے ہیں، اس کی نسبت سے اپنے آپ کو ملتِ ابراہیمی سے معنون کرتے ہیں…گو کہ صدیوں کی دُھول نے بر بِناے اختلافِ عقیدہ معتد بہ ان بن اور عناد کے جھکڑ چلا چلا کر مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان ماحول کو گرد گرد کیے رکھا مگر اب کونسل نے حریف گروپس سے پُرزور اپیل کی ہے کہ ماضی کی گرد جھاڑکے، منہ میں آئی ریت اُگل کے، سب تلخیاں ذہنوں سے کھرچ کھرچ کر صاف دِلی سے فرداً فرداً اپنے آپ کو ایک دوسرے کا عادی بنائیں، آپس میں پُرخلوص سمجھوتا پختہ کریں، ایک ساتھ جینے مرنے کی قد رپہچانیں، مِل جُل کر سماجی انصاف اور اخلاقی اقدار کو تقویت دیں، امن و امان اور سب کے لیے بے خوف و خطر آزادی کے حالات پیدا کریں۔ اسی میں سب کے لیے بہتری ہے، پوری انسانیت کی توقیر اور فلاح ہے اس میں۔ امن ہوتو قومیں ترقی کرتی ہیں ان کا وقار بڑھتا ہے، ملکوں کو خوشحالی اور استحکام ملتا ہے۔ ان کی ساکھ بڑھتی ہے۔
(دیگر مذاہب کے ساتھ کلیسیا کے تعلقات کا اعلان نمبر3)
(Declaration Nostra Aetate, n. 3)
میرے عزیز مسلم دوستو!
ہم مسیحیوں کی نگاہ میں تو سیکنڈ ویٹی کن کونسل کا آپ کے ساتھ مکالمے کا وچن توعین میگنا کارٹا (Magna Carta… انسانی حقوق اور آزادی کے منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ ہماری دعوت پر یہاں تشریف لائے بالکل اسی جذبے کے ساتھ جس کی آپ کی خلوصِ نیت کے ساتھ آمد سے توثیق ہو گئی […]
تعلیم و تعلم وسیلہ ہوتے ہیں حق و صداقت کی پہچان کے، یقینِ کامل کے ساتھ اپنے پیش کردہ دلائل سے دوسروں کو قائل کرنے یا دوسرے لوگوں کی طرف سے اطمینانِ کُلی سے دیے گئے نکات سے خود قائل ہونے کے عمل سے گذرنے کے، تا کہ باہمی افہام و تفہیم کو جِلا ملے اور اس جِلا کے لیے تعلیم ہی زمین ہموار کرتی ہے۔ یوں اصل حالات و حقائق کا ابلاغِ دو طرفہ جاری رہتا ہے۔ الفاظ میں بڑی تاثیر ہوتی ہے، ذہنی تربیت کا کام انجام دیتے ہیں، وعدوں کا، پختہ ارادوں کا لبادہ اوڑھ لیں تو اٹل ہو جاتے ہیں نیک نیتی انھیں دل پذیر بنا دیتی ہے۔ سبھی انسانوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ نئی نسل کی اسی نہج پر پرداخت کریں۔ آپ سب لوگ اس فریضے کو صدقِ دِلی اور توانا سپرٹ کے ساتھ نبھا سکتے ہیں۔ میں تشکر کے ساتھ اس کا اعتراف کرتا ہوں اور آپ کے جذبوں، ولولوں، احساسات کا استحسان کرتا ہوں۔ میری آپ سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ بے اعتنائی، سردمہری، جانبداری، بے جا حمایت و فرقہ پرستی اور تعصب کی ہوا بھی آپ کو لگنے نہ پائے۔خوف و ہراس، یاس و قنوطیت پر غالب آئیں، ان کے مغلوب نہ بنیں۔ ہمیں خوش امیدی، رجائیت کی وہ فصل کاشت کرنا ہو گی جس کے لیے ہر موسم اس کی بوائی کا موسم ہوتا ہے۔ مسلمان کیا اور مسیحی کیا، ہم سب کو متحد ہو کر وقتِ موجود کی ہر منفی للکار کا مردانہ وار مقابلہ کرنا ہو گا۔ہمیں حالات کے جبر کے سامنے سینہ سپر ہونے کے لیے ہر لحظہ مستعد رہنا ہو گا۔ ہم علیحدہ علیحدہ نہیں ہم سب ایک ہیں اور اس اکائی میں ہم کِسی کو بھی رخنہ ڈالنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اتفاق میں برکت ہے، نفاق میںہلاکت۔ بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمہ پسند ناپسند پر موقوف ہرگز نہیں، یہ وقت کی ضرورت ہے اس کا ہمیں ادراک ہونا لازم ہے۔ اس میں ترویج ہونا چاہیے۔ یہ اختیاری معاملہ نہیں، استقراری صورتِ حالات ہے۔ استقلال کے ساتھ اسے آگے بڑھانے کی احتیاج سے غافل رہنا وارا ہی نہیں کھاتا۔ مسیحیوں اور مسلمانوں کو خصوصی طور پر مکالمے کی قدر، قیمت اور اہمیت ہر آن مدِّ نظر رکھتے ہوئے اسے آسان اور مفیدِ مطلب بنانا ہو گا، اسی میں انسانیت کی بقا ہے۔ یہی بقاے حیات کا لازمہ ہے۔ یہ ضمیر کی آواز ہے جس پر کان دھرے بغیر چارہ نہیں۔ ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کے تحفظ کا اسی پر دارومدار ہے۔ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ دنیا کے کونے کونے سے آئے ہوئے نوجوان یہاں موجود ہیں۔ کولون کے یہ مہمان عینی گواہ ہیں ہمارے مقاصد و عمل کے اتحاد کے، ہم خیالی و بھائی چارے کے اور اس اُنس و پیار کے جس کا ملنا ہر انسان کا بلا تفریق، بلا شرط حق ہے۔ محبتیں بانٹنے کے لیے ہی اس مادر گیتی پر مسیحیت کا نزول ہوا تھا۔
معزز و عزیز ترین مسلم دوستو! دل کی اتھاہ گہرائیوں سے میری دعا ہے کہ رحمت و رحم و برکتوں سے نوازنے والا اور تلطف کرنے والا خدا جل جلالہ‘ اپنے کرم سے روشن خیالی اور بصیرت سے آپ کو مالا مال کرے اور آپ کا حامی و ناصر ہو!
خداوندِ امن و آشتی ہمارے حوصلے بلند رکھے!تقویت ودیعت کرنے اور ہماری آسیں، امیدیں، آشائیں پوری کرتے ہوئے ہمیں اپنی سیدھی راہ پر رواں دواں رکھے اور دنیا کے ہر خطرناک موڑ پر ہماری حفاظت کرے!
(صداے مجمع… آمین!)