مشن اورمکالمہ
مسیحی نقطہء نظر
خدمت
خُدا کی محبّت
خُدا باپ محبّت ہی محبّت ہے، سراسر محبّت۔
''جِس میں مَحَبَّت نہیں وُہ خُدا کو نہیں جانتا کیوں کہ خُدا محبّت ہے''۔
1۔مقدّس یوحنّا۔۔۔۔۔۔8:4
''اور جو محبت خُدا کو ہم سے ہے ہم نے اُسے پہچان لیا ہے اور سچ جان لیا ہے۔ خُدا محبّت ہے اور جو محبّت میں رہتا ہے وُہ خُدا میں رہتا ہے اور خُدا اُس میں''۔
1۔ مقدّس یُوحنّا۔۔۔۔۔۔16:4
خُدا ناجی کی نجات بخش محبّت عالَمِ انسانیّت پر پاک خُداوند یسُّوع مسیح میں تنزیل کے ذریعے ظاہر ہوئی اور اسی میں ہی (پاک خُداوند میں)انسانوں تک اس کا ابلاغ ہوا اور مقدّس روح الحق میں اور اسی کی کاوشوں اور مہربانیوں سے دنیا پر اس کی فعالیّت جاری ہے۔ محبّت ہے، جس کا سائبان کل کائنات پرتَنا ہے کیوں کہ محبّت خُدا، اور خُدا ہے نِری محبّت ہی محبّت۔ اور کلیسیا اس کی جیتی جاگتی علامت ہے، یُوں کہ وُہ جذبہء محبّت کو قاعدے میں لا کر سب کے لیے زندگی کے بہترین نمُونے کے طور پر پیش کرتی ہے۔ یہ مشن ہے، کلیسیا کا خاص مشن، محبّت بھرا اور محبّت کی تبلیغ کے لیے، اس کا خالق خُود خُداوند یسُّوع پاک تھا، اسی سے ہی تو محبّت کے چشمے پھُوٹتے ہیں، محبّت امن ہے اور امن اس کرّئہ ارض کی اہم ضرورت ہے، اسی محبّت سے کائنات کا نظم و انتظام قائم و جاری ہے۔ موازنہ کر دیکھیے! یہی مضمون آپ کو Ad Gentes(تبلیغ) 2،15اور 12میں ملے گا۔ حوالہ کے لیے دیکھیے گا، EN 26۔
رسالتِ کلیسیا کی ہشت پہلو کارکردگی جَوہرِ محبّت کے دلپذیر ہر رنگ میں رنگی ہے کیوں کہ خُداوند یسُّوع مسیح کے مومنین ہی کی تو کلیسیا ہے۔ اور اپنے کمانڈر یعنی اس مشن کے کرتا دھرتا پاک خُداوند سے محبّت اور اس کی خدمت کے لیے، اس کے کہے کا لفظ لفظ آگے پہنچانے کے لیے پوری لگن کے ساتھ اس کے ہر حُکم کی تابع فرماں اور رُوحُ القُدس میںمُخلص و وفاکیش ہے اور مقدّسخُداوند یسُّوع المسیح میں، محبّت میں برکت اور مقبولیت اور نشوونما کے لیے دست بہ دُعارہتی ہے تا کہ ماضی، حال اور آنے والے زمانوں تک کلیسیا کی کاوشوں سے محبّت ہر دل پر اثر پذیر رہے۔
خُداوند ذُوالجلال محبّت کو پروان چڑھانے والے کی تمجید ہو!
رُتبہء بُلند۔۔۔۔۔۔کلِیسیا کی عطا
ویٹی کن کونسل دُوُم میں پُوری تاکید سے کہا گیا کہ کلیسیا، اُمّتِ مسیح ہے۔ نمایاں مجلس پیروکارانِ مسیحیّت کی رُوحانی جماعت/ برادری اور زائرین کرام جو رُوے زمین پر ہر طرف پھیلے ہیں، ان انسانوں سے رابطے میں ہیں جن کے ساتھ وُہ زندگی کے تجربات بِلا کم و کاست بانٹتے رہتے ہیں، اُنھیں خمیر ہونا چاہیے یا سوسائٹی کا نمک۔ وُہ اِس لیے کہ مُعاشرت کی خُداوند یسُّوع مسیح میں تجدید ہونا ہوتی ہے اور اسے کایا پلٹ کے بعد خُدا کے گھرانے میں تبدیل ہوجانا ہوتا ہے۔ خُدا کی فیملی!
حوالہ کے لیے مُلاحظہ ہوLumen Gentuim(کلیسیا) 9
Gaudium Et Spec(دورِ حاضر کی کلیسیا)9اور 40
اُمّتِ مسیحی کا اپنا ایک دِینی ضابطہ ہے، اپنی شریعت ہے: ''محبّت کا نیا فرمان''، محبّت اس طرح کی جائے جس سچّائی، گہرائی کے ساتھ مقدّسخُداوند یسُّوع مسیح نے ہمارے ساتھ اختیار کی اور نبھائی اور جس کی منزلِ مُراد خُدا کی بادشاہت ہے جس کی داغ بیل یسُّوع پاک نے ڈال دی تھی۔ (کلیسیا۔9)۔
یاتری کلیسیا اپنی اصل میں مشنری ہی تو ہے۔ تبشریت اس کا خاصہ ہے۔ (تبلیغ2اور 6، 35، 36)۔ ہر مسیحی کے لیے تبلیغی خدمت اُس کا زندہ جاوید مذہبِ مسیحیّت کہ جو اُس کا اوڑھنا بچھونا ہے، اُس کی شناخت کا ایک عمُومی اظہار ہے۔
رسالت(مشن)
کلیسیا کا مشن اس کارکردگی کا مرہونِ منّت ہے جوخُداوند یسُّوع مسیح اقدس کے فرمان کی اطاعت کرتے ہوئے اور رُوحُ القُدس کے فضل، احسان اور محبّت کے طُفیل، جو وقف ہے (کلیسیا کی کارروائی) تمام کی تمام شخصیات اور عوام النّاس کے لیے۔ (تبلیغ۔5)۔
کارِ مُفَوَّضَہ ہے تو ایک، مگر اس پر عمل کرنے کے طریقے مختلف ہیں جنھیں موقع محل کی مناسبت سے آزمایا جاتا ہے۔بہ رُوے کار لانے کے لیے ان انداز کا انحصار بعض اوقات کلیسیا پر بھی ہوتا ہے اور بسا اوقات لوگوں، گروہوں اور انفرادی طور پر اس شخص یا اُن اشخاص پر ہوتا ہے جن کی طرف مشن کی توجُّہ مرکُوز ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔مناسب اور برمحل کارروائی اور اسے عمل میں لانے کے طور طریقے، کامیابی کے پُورے یقین کے ساتھ کام میں لائے جانے چاہییں تا کہ فوری پیش آمدہ موقع محل سے بہ طریقِ احسن عُہدہ برآ ہُوا جا چکے۔۔۔۔۔۔ اِس مشنری سرگرمی کا اصل اور اہم مقصد بشارت و اشاعتِ مسیحیّت ہے۔ عوام النّاس اور قوموںو گروہوں کے درمیان کلیسیا کی بُنیادیں رکھنا اور انھیں مضبُوط کرنا ہے کہ جہاں لوکائی اس کے وُجُود سے ناآشنا تھی، مذہب کے بارے میں کوری تھی یا دیگر مختلف ادیان کے درمیان ماری ماری بھٹک رہی تھی۔ اس تک انجیلی بشارت پہنچنا فلاح و بہبُودِ انسانی میں اعلیٰ ترین خدمت ہے۔ (حوالہ تبلیغ۔6)۔ اس کونسل کی طرف سے، عبارتوں کے بعض حِصّے ایسے ہیں جِن میں، زوردے کر کہا گیا ہے کہ کلیسیا کی رسالت کی ایک اہم ذِمّہ داری ہے کہ وُہ خُدا جلال والے،بزُرگ و برتر کی بادشاہت کے قیام اور توسیع کے لیے خدمات سرانجام دے اور تمام خواتین و حضرات کے سامنے اس کی اہمیت و قدر واضح کرے اور اس کی برکتوں سے آگاہ کرے۔
(کلیسیا5،9، 35۔۔۔۔۔۔ دورِ حاضرہ کی کلیسیا 39،40، 91، 92۔۔۔۔۔۔
اقومانیت (بین الکلیسیائی اِتّحاد) 2۔۔۔۔۔۔ مذہبی آزادی 14اور عامۃ المؤمنین5)
باربار کی یاددہانی
مسیحی مشن کے نوع در نوع، دِلچسپ، معقُول اور تیر بہ ہدف ڈھنگ ڈھب اور کیفیات دُوسری ویٹی کن مجلس میں بڑے پیمانے پر مذکُور ہوئے تھے۔ اس موقع پر قواعد و قوانین اور دستاویزات براے مابعد کلیسیائی تعلیم کو تیّار کِیا گیا۔ قابلِ صد احترام جناب بشپ کے سماجی انصاف پر بلائے گئے کلیسیائی نمایندوں کے مشاورتی اجلاس 1971ع اور وُہ جو تبلیغ و اشاعتِ مسیحیّت کے کام کے لیے اپنے آپ کو وقف کر چکے ہیں اُن کی اسقفی اجلاس میں نمایندگی و مشاورت 1974ع، مسیحی تعلیم بذریعہ سوالات جوابات اور مسیحی تعلیم کی ترویج کے عُلُوم اور طریقوں پر منعقدہ اجلاس 1977ع پر ہی موقُوف نہیں بل کہ تقدّس مآب پوپ پال ششم اور فضیلت مآب پوپ جان پال دُوُم کے بہُت سے مواعظ اور خُطبہ جات نیز ایشیائی، افریقی، لاطینی امریکی اسقفی کانفرنسوں میں مجلسی تعلیم و تربیت کے مختلف پہلُوؤں کو پھر سے وِزِٹ کِیاگیا۔ ان کے لیے اس اضافے پر بھی صاد کِیا گیا کہ کلیسیا کے مشن کے لازمی جُزو کے لحاظ سے اور مطلق ناقابلِ تنسیخ طور پر مجلسی تعلیم و تربیت اس سے ہمیشہ جُڑی رہے گی۔ (آرایچ15) اور اس کے ذیل میں آئے گا انسان کا پیمان و ایقان کے ساتھ وابستگی کے لیے پابند رہنے کا عمل اور انسانیت کی فلاح و بہبُود نیز نجاتِ اُخروی کے لیے کوششیں، سماجی انصاف اور مُعاشرتی ارتقا کامیاب بنانے کے لیے سر توڑ مساعی، انسانی حُقُوق کی برابری اور خاص طور پر آزادی کا حُصُول اور اس کی حفاظت کے لیے معاونت مشن کے اہم ترین نصب العین کا حصّہ ہوں گے۔ عدم مساوات اور جبر و استبداد کا شکار مُعاشرتی ڈھانچے میں اصلاح بھی مشن کے فرائضِ خدمت میں شامل ہے۔
شخصی اظہار کے سو طریقے
خدمتِ دِین و خدمتِ انسانیت، تبلیغی رسالت یعنی مشن کو ہم یُوں متعارف کروا سکتے ہیں کہ یہ ایک اپنی طرز کی واحد مگر پیچ در پیچ، اُلجھاو والی، کلیسیا کے احساس و وقُوف، شُعُور و آگاہی کی، مُمَیَّز و مُنہ بولتی حقیقت ہے۔ اس کے خاص الخاص اجزاے لازمی کا ذِکر بحث میں لایا جا سکتا ہے۔ اس کی (مشن کی) ترکیب و ترتیب مسیحی زندگی کو پیشِ نظر رکھ کے اور ہُوبہ ہُو یعنی مُطابِق اصل ہونے کی تصدیق کے ساتھ وُجُود میں لائی جاتی ہے۔ (بہ حوالہ ای این 21) او ریہ بھی اعتراف کرنے لائق امر ہے:
رسولی دلیری کے حوالے سے آیت مُبارکہ ہے:
''مگر ہم یہ خزانہ مٹّی کے برتنوں میں رکھتے ہیں تا کہ معلوم ہو کہ یہ حد سے زیادہ قُدرت ہماری نہیں بل کہ خُدا کی ہے''۔
2۔ قرنتیوں۔۔۔۔۔۔7:4
چُناں چہ وُجُودی طور پر ایک مسیحی جِس طرح نظر آتا ہے اس میں اِمتیاز ضرُوری ہے کیوں کہ مقابلۃً اِس امر کو فوقیت حاصل نہیں جو اُس نے اپنے بارے میں پیمان باندھا ہے۔ نسلِ انسانی کی خدمت کے لیے اس اک عزمِ راسخ، وابستگی، اسی کام کے لیے اپنے آپ کو سِپُردگی میں دے دینا، مُعاشرتی بہبُود و ارتقا کے لیے اُس کا ایڑی چوٹی کا زور لگانا، بھُوک اور افلاس کے خلاف جنگ آزما ہوجانا اور ان تمام متعلقہ وُجُوہ کے خلاف محاذ کھول لینا کہ جن سے سماجی ناانصافیوں، غربت، بھُوک، ننگ، بد امنی اور مُعاشرتی بُرائیوں کو ذرا بھی شہ ملتی ہو ایک اچھّے مسیحی مبلّغ (مشنری) کی ترجیحات ہیں۔ اور ایک آدابِ عبادت کے مُطابِق لطوریائی زندگی بھی تو ہوتی ہے۔ ستایشِ ربّی، مناجاتِ خُداوند، دُعائیں، عبادتِ الٰہی، غور و فکر، استغراق، ولولہ انگیزی و فصاحت یعنی صحیح و واضح شواہد و شہادتیں پیش کرنا اور وُہ بھی رواداری سے مُتَّصِف جاندار قسم کے تعلُّق واسطوں رابطوں کے ذریعے اپنے سچّے خُدا مہربان کی مدد، برکت، کرم اور فضل کے ساتھ۔ اس کا احسان ہے ہم پر کہ اپنی بادشاہی میں ہمیں لے لینے کی دعوت آج بھی موجُود ہے۔ وُہ ہمیں اپنے جلال، اپنی بزُرگی اور عظمت کی پناہ میں لے لینا چاہتا ہے:
'' اور وُہ رسُولوں کی تعلیم اور اِختلاط میں اور روٹی کے توڑنے اور دُعا کرنے میں قائم رہے''۔
رسولوں کے اعمال۔۔۔۔۔۔42:2
(مندرجہ بالا آیات اور اس سے آگے جو آیات ہیں ان سے استفادہ کِیا جا سکتا ہے۔)
مُکالمہ بھی ایک اہم خدمت ہے جسے رسالت میں خاص مقام حاصل ہے۔ مُکالمہ کے لیے مسیحیوں کو موقع نصیب ہوتا ہے کہ دیگرمذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ اُن کا انٹرایکشن ہو، اُنھیں دُوسرے مذاہب کی رسُوم و روایات اور اُن کے رواجوں سے آگاہی ملتی ہے اور یُوں ایک دُوسرے کو اچھّی طرح جاننے سمجھنے کے بعد سچّائی کی طرف منزل مارتے سَمے اپنائیت کا احساس مہمیز بنتا ہے۔ غیریت و بیگانگی اور تعصّب و نفرت سے جان چھُوٹ جاتی ہے۔ مُکالمہ بین المذاہب کی یوں جب پذیرائی ہو گی تو دِلچسپی اور توجُّہ مُثبت سمت مرکُوز رہنے کے سبب مُشترک افکار و اغراض والے مُعاملات بِہ سے بہتر اور بہتر سے بہترین تعلقات کو فروغ دینے میں مُمِد و معاون ثابت ہوں گے۔ انجامِ کار، منادی ہے اور مسیحی تعلیم جس کے ذریعے بڑی بالغ نظری کے ساتھ انجیلِ مقدّس کی بشارت سے دِل و دماغ منوّر کیے جا سکتے ہیں۔ تب سنہری اِتّفاق میسّر آتا ہے کہ حیاتِ انسانی کے لیے اس کے منطقی نتائج، ثمرات اور ماحصل اور ثقافتی زندگی کا تجزیہ کِیا جا سکے۔ مسیحی رسالت مجموعی طور پر ذِکر کردہ تمام عناصر کا مُکمَّل احاطہ کرتی ہے۔
یہ تو سبھی کا فرضِ منصبی ہے
ہر مقامی کلیسیا مشن کی مجموعی صُورتِ حالات پر نظر رکھنے، اس کی دیکھ بھال اور اس کی مُعاونت کرنے کے لیے ذِمّہ دار ٹھہرائی گئی ہے۔ مزید یہ کہ ہر مسیحی اپنے عقیدے اور بپتسمہ کی برکت سے کِسی حد تک پابند بھی ہے کہ کلیسیا کے مشن میں مقدُور بھر نُصرت کرے۔نُصرت کے لیے بہُت سے شُعبے ہیں جِن میں ایسے حالات پیش آ سکتے ہیں کہ مشنریز کے ساتھ ساتھ دیگر مسیحی مومنوں سے بھی تعاون کی ضرُورت پڑ جائے۔ خُدا کے اُمّتیوں، اُس کے خاص کرم کیے گئے بندوں کی حیثیّت جو برادری میں ہے او رکِسی بھی فرد کا اپنا جذبہء روحانی جوش میں آ سکتا ہے اور وُہ اپنی شخصیّت کی کرشماتی مُنفرد صلاحیت جو عطیہء خُداوندی ہوتی ہے اس کو بہ رُوے کار لاتے ہوئے دیگر مسیحی بھائی بہنوں کو مائل کر سکتا ہے کہ وُہ بھی اپنی سَکَت مُطابِق مشن کی اِستعانت پر آمادہ ہو جائیں۔۔۔۔۔۔ دامے، درہمے، قدمے، سُخنے۔ نیّت ہو تو مُعاونت کی ہزار راہیں، مُبارک اجر کمانے کے اَن گِنَت راستے۔
مُقدّس یُسُّوع المسیح کے نُقُوشِ قدم اور منزل
پُرتقدیس حیاتُ المسیح کلیسیائی مشن کے تمام اجزا، تمام عناصر کا مرقّع ہے۔ انجیلِ مُقدّس میں کہِیں خُداوند یسُّوع پاک اپنے مشنِ خُداوندی میں چُپ چاپ مصرُوفِ عمل نظر آتا ہے، کہِیں جُہدِ مُسَلسَل میں سرگرم، کہِیں معبُودِ حقیقی کی عبادت میں مُستغرق اور کہِیں خُدا کی بھیڑ یں اکٹھّی کر کے اُن سے ہمکلام، کہِیں تبلیغِ دِینِ الٰہی میں کوشاں تو کہِیں یہُودیوں اور غیر یہُودیوں سے مُکالمہ کرتے نظر آتا ہے۔ ساتھ ساتھ اپنے حواریوں کی تعلیم و تربیت بھی جاری ہے تا کہ مُستقبل میں اُن کے کاندھوں پر جو رسالت کی ذِمّہ داریاں پڑنے والی ہیں ان کی خُوش اُسلُوبی سے ادائی پر وُہ سُرخرُو ہو سکیں۔ وُہ جانتا تھا کِس کا کیا حشر ہونا ہے اور کِس کی قِسمت میں کتنا کتنا اجرِ عظیم ہے۔ مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کاکلامِ پاک، اُس کا الٰہی پیغام غیر مُنفک ہے اس کے افعال، کردار اور اعمال سے۔ اُس نے جو کہا، وُہ کر بھی دِکھایا۔ اُس نے خُدا اور اُس کی بادشاہی کی نِدا بُلند کی اور اِس صداقت کو فقط زبانی کلامی لوگوں کے سامنے پیش نہ کِیا بل کہ اپنے کار ہاے نُمایاں کو اپنا گواہ بنایا اور عملی طور پر تبلیغ کے وُہ نمُونے پیش کیے جِن سے مُتاثّر ہو کر مسیحیّت پھیلی اور آج بھی پھل پھُل رہی ہے۔ اس نے انکار و اختلاف برداشت کِیا، ناکامیوں پر صبر کِیا، مُشکلات، دُکھ، تکلیف کا سامنا کِیا، صلیب کی شان بڑھائی اور فتح بھی حاصل کی، دوبارہ کی زندگی اسی کی سرخروئی کا انعام تھا۔ بامُرادی، کامیابی و کامرانی کی سدا بہار نشانی۔ جو جو کچھ اس پر گذرا اسی کا صدقہ ہے کہ خُدا نے اپنے آپ کو اپنی خلقت پر ظاہر کِیا، اسی کا فدیہ ہے کہ پاکخُداوند یسُّوع مسیح کی ساری اُمّت آخرت میں نجات سے متمتّع ہو گی۔
(حوالہ کے لیے مُلاحظہ فرمائیے ای این6تا 12)۔
دُنیا میں کائنات میں، جو کُچھ بھی ہے وُہ اُس کی محبّت کا ہی اِظہار و اعلان ہے۔
''کیوں کہ خُدا نے دُنیا کو ایسا پیار کِیا کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تا کہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بل کہ ہمیشہ کی زندگی پائے''۔
مُقدّس یوحنّا۔۔۔۔۔۔16:3
پاشویہ کے ذیل میں درج ہے:
''عیدِ فصح سے پہلے یسُّوع یہ جانتے ہوئے کہ میرا وُہ وقت آ پہنچا ہے کہ دُنیا سے رِحلت کر کے باپ کے پاس جاؤں۔ جب کہ اپنوں کو جو دُنیا میں تھے پیار کرتا تھا اُنھیں آخر تک پیار کرتا گیا''۔
مُقدّس یوحنّا۔۔۔۔۔۔1:13
''اے پیارو! آؤ ہم ایک دُوسرے سے محبّت رکھیں۔ کیوں کہ محبّت خُدا سے ہے اور جو محبّت رکھتا ہے وُہ خُدا سے پیدا ہُوا ہے اور خُدا کو پہچانتا ہے۔ جِس میں محبّت نہیں وُہ خُدا کو نہیں جانتا کیوں کہ خُدا محبّت ہے۔ خُدا کی محبّت اِس سے ہم پر ظاہر ہوئی ہے کہ خُدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دُنیا میں بھیجا ہے تا کہ ہم اس کے ذریعہ سے زندگی پائیں۔ محبّت اس میں نہیں کہ ہم نے خُدا سے محبّت رکھی بل کہ اس میں ہے کہ اُس نے ہم سے محبّت رکھی اور اپنے بیٹے کو بھیجا تا کہ ہمارے گُناہوں کا کفّارہ ہو۔
اے پیارو! جب کہ خُدا نے ہم سے ایسی محبّت رکّھی تو چاہیے ہم بھی ایک دُوسرے سے محبّت رکھیں۔ خُدا کو کبھی کِسی نے نہیں دیکھا، اگر ہم ایک دُوسرے سے محبّت رکھیں تو خُدا ہم میں رہتا ہے اور ہماری وُہ محبّت جو اُس سے ہے ہم میں کامل ہو گئی ہے۔ ہم اسی سے جانتے ہیں کہ ہم اُس میں رہتے ہیں اور وُہ ہم میں۔ کیوں کہ اُس نے اپنی رُوح میں سے ہمیں دِیا ہے۔ اور ہم نے دیکھ لیا ہے اور گواہی دیتے ہیں کہ باپ نے بیٹے کو اِسی لیے بھیجا ہے کہ دُنیا کا نجات دہندہ ہو۔
جو کوئی اقرار کرے کہ یسُّوع خُدا کا بیٹا ہے خُدا اُس میں اور وُہ خُدا میں رہتا ہے۔ اور جو محبّت خُدا کو ہم سے ہے ہم نے اُسے پہچان لیا ہے اور سچ جان لیا ہے۔ خُدا محبّت ہے اور جو محبّت میں رہتاہے وُہ خُدا میں رہتا ہے اور خُدا اُس میں۔ اس سے محبّت ہم میں کامل ہو گئی ہے کہ ہم عدالت کے دِن خاطر جمع ہوں کیوں کہ جیسا وُہ ہے، ویسے ہی ہم بھی اس دُنیا میں ہیں۔
محبّت میں ڈر نہیں ہوتا بل کہ کامل محبّت ڈر کو باہر نکال دیتی ہے کیوں کہ ڈر میں سزا ہے۔ مگر جو ڈرتا ہے اُس میں کامل محبّت نہیں ہوتی۔ پس ہم محبّت رکھتے ہیں کیوں کہ اس نے ہم سے پہلے محبّت رکھی''۔
1۔ مقدّس یوحنّا7:4تا 19
تمام مسیحیوں کو چاہیے کہ اپنی زندگیاں محبّت میں ڈھالیں: ''اِسی سے انھیں معلُوم ہو جائے گا تم سب میرے شاگرد ہو کہ تم ایک دُوسرے سے محبّت کرتے ہو''۔
دورِ آغازِ کلیسیا اور مسیحی مشن
نئے عہد نامہ میں مسیحی مشن کی مُکمَّل تصویر پیش ہوئی ہے مگر قدرے فرق کے ساتھ۔ خدمات و عبادات کی بھی بہتات ہے اور کارکردگی و فعالیّت پر بھی زور کثرت سے ہے۔ جذبہء روحانی، مُنفرد صلاحیّتیں، کرشمات، شخصی کشش، رہبری کی صلاحیت، جوش، جذبہ اور حمایت کے لیے آمادگی اِسی قسم قسم کی ترغیبات ہیں اور بہُت ہیں جِن کی مدد سے کلیسیائی مشن تکمیل کو پہنچتے ہیں۔
''۔۔۔۔۔۔ اور خُدا نے کلیسیا میں بعض مقرّر کیے ہیں۔ اوّل رسُول، دُوُم نبی، سِوُم مُعلِّم، پِھر معجزوں کی قُدرت، پِھر نعم الشفا، نعمِ امداد، نعم حُکُومت۔ زبانوں کی کثرت۔
کیا سب رسول ہیں؟ کیا سب نبی ہیں؟ کیا سب معلّم ہیں؟ کیا سب معجزے دِکھا سکتے ہیں؟ کیا سب کو نعمتِ اِشفا حاصل ہے؟ کیا سب طرح طرح کی زُبانیں بولتے ہیں؟ کیا سب ترجمان ہیں؟''۔
1۔ قرنیوں۔۔۔۔۔۔28:12تا30
''اُسی نے بعض کو رسول اور بعض کو نبی۔ بعض کو مبشّر اور بعض کو چرواہا اور معلّم مقرر کر کے دے دیا تا کہ مقدّسین خدمت کے کام میں کامِل بنیں او رمسیح کا بدن بنایا جائے''۔
افسیوں۔۔۔۔۔۔11:4اور 12
(مسیح خُداوند نے اپنی کلیسیا کے لیے کیا خوب سچّے چرواہوں اور اساتذہ کی قائم مقامی ٹھہرائی تا کہ ایمان دار لوگ گُمراہ نہ ہوں بل کہ اپنی نجات کا کام سلامتی کے ساتھ کریں)
''پس ہم اُس فضل کے مُوافق جو ہمیں دیا گیا ہے الگ الگ نعمتیں رکھتے ہیں۔ پس اگر کِسی کو نبوّت مِلی ہو تو وُہ اسے ایمان کے اندازے کے مُطابِق استعمال میں لائے''۔
اسی طرح:
''اگر ناصح ہو، تو نصیحت میں۔ اگر مُہتَمِمِ خیرات ہو، تو صاف دِلی میں۔
اگر مُقتدی ہو، تو سرگرمی میں۔ اگر راحِم ہو، تو خُوشی میں''۔
رومیوں۔۔۔۔۔۔8:12
مُقدّس پولوس رسول نے برملا کہا ہے کہ خُدا کی طرف سے رسالت کی خدمت اختیار کرنے کا جو خاص بُلاوا تھا اس میں تخصیص کر دی گئی تھی جس کی بِنا پر اسے اعلان کرنا پڑا کہخُداوند یسُّوع مسیح نے اُسے بپتسمہ دینے کے لیے نہیں بل کہ ''خوشخبری'' کی منادی کے لیے بھیجا ہے۔
''۔۔۔۔۔۔کیوں کہ مسیح نے مجھے بپتسمہ دینے کو نہیں بل کہ انجیل سُنانے کو بھیجا ہے، مگر کلام کی حکمت سے نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ مسیح کی صلیب بے تاثیر ہو''۔
1۔ قرنتیوں ۔۔۔۔۔۔13:1
یہی تو وجہ رہی کہ رسولوں، نبیوں اور مُبشّروں کے پہلُو بہ پہلُو جمیعت کے لیے خدمات اور کارہاے جمیلہ کی ادائی کے لیے بعض لوگوں کو بھی مامُور کِیا گیا جو بے چاروں، مُصِیبت کے ماروں کے کام آتے رہے۔ خاندانی جھگڑے ہوتے ہیں، گھر گرھستی کے بکھیڑے ہوتے ہیں، میاں بیوی کی چپقُلشیں، اولاد کے جھمیلے، انھیں سُلجھانے، جلتی پر تیل نہیں پانی ڈالنے، سمجھانے بُجھانے والا بھی تو کوئی ہو۔ چُناں چہ منتخب لوگ اپنی صلاحیتوں کے جادُو ایسی مُہِمّات میں جگاتے نظر آتے ہیں۔ مبتدیوں کی تربیت کرنے والے ہوتے ہیں، ناظمین اور سردارِ اعلیٰ ہوتے ہیں اور ان کے لیے آگے خادمانِ خُدا کے خادم، مبتدی، احکام کی پابندی کرنے والے، بھلائی کو آگے پھیلانے والے بھی ہوتے ہیں۔ دیے سے دیا جلتا ہے۔ حُکم ماننے والے تبھی ہوتے ہیں جب حُکم چلانے والے بھی موجُود ہوں۔ فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی سب کے لیے سوسائٹی کی فلاح و بہبُود کی خاطر مُفوِّضہ کام ہوتے ہیں جنھیں پُورا کرنا ہوتا ہے۔ یہ فرائض پُورے ہوں اور پورے ہوتے نظر بھی آنے چاہییں تا کہ دیکھنے والوں کے دِلوں میں بھی ہِمّت، شوق، جذبہ پیدا ہو کہ کام آئے دُنیا میں انساں کے انساں۔ مقدّس خُداوند یسُّوع المسیح کے بندہ و رسول شمعون پطرس کا پہلا خط جو غیر اقوام کے درمیان بُود و باش رکھنے پر مجبور مسیحیوں کو ارسال کِیا گیا تھا، اس میں ایسی ایسی کیفیات و حالتِ زار کو قلم زد کِیا گیا تھا جو آج کل کے مسیحیوں کو درپیش صُورتِ حالات پر اِس قدر مُنطبق ہوتی ہیں کہ ہم ورطہء حیرت میں رہ جاتے ہیں، خط میں مقدّس رسول نے کہِیں ہمِیں سے ہی تو خطاب نہیں کِیا؟ اس چٹھّی کا ایک پیراگراف تقدُّس مآب پوپ جال پال دُوُم نے 1979ع میں انقرہ کی کیتھولک مسیحی برادری کے سامنے دِلوں کو چھُو لینے والے انداز میں پڑھ کر سُنایا تھا۔
''۔۔۔۔۔۔ بل کہ خُداوند مسیح کو اپنے دِلوں میں مقدّس سمجھو۔ او رجو کوئی تم سے اس اُمید کی دلیل پُوچھے جو تم میں ہے تو اُسے جواب دینے کے لیے ہمیشہ تیّار رہو۔ مگر یہ فروتنی اور خوف کے ساتھ ہو اور نیّت نیک رکّھو تا کہ وُہ جو تمھیں بدکار جان کر تم کو بُرا کہتے اور تمھارے مسیحی نیک چلن پر لعن طعن کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ شرمندہ ہوں''۔
1۔ پطرس۔۔۔۔۔۔15:13، 16
مسیحیوں اور دُوسرے مذاہب کے پیروکار ہم وطنوں کے ساتھ بہتر تعلُّقات کی اُستواری کے لیے یہی سنہری اُصُول ہیں جنھیں اپنانے کی سفارش تقدُّس مآب پوپ نے بائبل مقدّس کے حوالے سے کی۔ ''کشادہ ضمیری'' اس ایٹم کا نیوکلیئس ہے۔
مُقدّسوں کی حیاتِ طیّبہ
مسیحی رسالت (مشن) کی تارِیخ یُوں تو بہُت سی مثالوں سے اَٹی پڑی ہے لیکن کِسی جماعتِ مسیحی مبلّغین کی اوسط کارگزاری سے مُقدّس فرانسس آف اسیسی کی طرف سے اخذ کردہ مستند معیار و قواعد جِن کی تفصیل اُس نے 1221ع میں "Regola non Bollata"کے ذریعے ہم تک پہنچائی وقیع، اہم اور معنی خیز ہے۔ راہبانہ گھرانوں کے برادر مبلّغین جو ربّانی ترغیب کے زیرِ اثر مسلمانوں کے قُرب و جوار میں منڈلاتے منڈلاتے اپنے اوصافِ حمیدہ کے ذریعے اُن کے دِلوں میں گھر کر لینے والی سرسوں تھالی میں جما دِکھاتے ہیں، ان کے بارے میں مقدّس فرانسس نے کہا ہے کہ ایسے برادرز مسلمانوں کے ساتھ روحانی ووِجدانی رابطہ قائم کرسکنے میں دو تدابیر میں سے ایک عمل میں لا سکتے ہیں۔ پہلی تو یہ کہ بحث مباحثہ میں نہ پڑ جائے۔ ردّ و قدح، اختلافِ راے، دلیل و تکرار دِلوں کے ٹیڑھا پن کی طرف دھکیلنے والی دلدلیں ہیں جو بچانے والے کو بھی اپنے اندر دھنسا لیتی ہیں۔ سچّے مذہب سے دُوری اور گُناہوں کی چلچلاتی دُھوپ میں حرص و ہوس کی تپتی ریت پر ننگے پاؤں چلتے بھٹکے ہوئے راہبوں کے لیے خُدا کے آسرے کا سائبان اور اُس کی محبّت کی چھاؤں اور مزید کرم یہ کہ اُس کی بے بہا رحمت تپتے ریگزار کو گُل و گُلزار بنا دے تو مشنریز کا کام آسان ہو جائے بس اپنا عقیدہ دُرُست اور مضبُوط، کردار میں بُلندی، گُفتار میں شیرینی، انسانی ہمدردی، خدمت کا جذبہ اور خُدا ہے محبّت، محبّت خُدا ہے پر یقین پُختہ کرنے کی دیر ہے سامنے والا آدمی اگر انسان ہے تو ایمان کا اقرار کر لے گا، مومن مسیحیوں میں ایک اور اچھّے مسیحی کا اضافہ ہو جائے گا۔ دُوسری صُورت یہ ہے کہ جب یہ رسالتی خادم دیکھیں کہ منشا و مرضیِ مولا شاملِ حال ہے تو خوشنودیِ خُداوندی کے لیے انھیں چاہیے کہ کلامِ خُدا مقدّس بائبل کی تلاوتِ پاک سے بھلے فولاد کو بھی پگھلائیں، آیاتِ مقدّسہ کوئی سُنے اور اُس کا دِل نہ پسیجے، یہ تو کہِیں لِکھّا ہی نہیں۔ کلامِ مقدّس میں بڑا اثر ہے۔ ہماری اس صدی نے بہُت کُچھ ابھی سے دیکھ لیا، حتّٰی کہ یہ بھی کہ پاکخُداوند یسُّوع مسیح کی اُمّت میں روز بہ روز نمایاں اضافہ نوشتہء دیوار ہے۔ خُدا کی نمایاں خُصُوصیات و صفات پر ایمان کا اقرار، گواہی و تصدیق، خُدا کے بے عیب ہونے کا یقین مشن کی کارگُزاریوں سے مستحکم ہو چلے ہیں۔ اسلامی دُنیا میں خُصُوصی طور پر مشنریوں کا دائرئہ عمل وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ وُہ خدمت کرتے ہیں مقدّس رُوحُ الحق میں پاک خُداوند کی برکت پاتے ہیں۔ جناب چارلس ڈی فوکاؤلڈ نے کامل انکسار، سُکُون و صبر اور دِھیرے دِھیرے، بِلا شور و غوغا اور بِلا بُلند و بانگ دعووں کے مفوّضہ خدمت جاری رکّھی۔ خُدا میں توحید کے اقرار کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو اتّحاد با خُدا کی آفاقی دعوت دی، غریبوں، مسکینوں، ناداروں، بے کسوں، مجبوروں کی رفاقت حاصل کی اور سب کو عالمگیر اخُوّت و برادری میں ایک کر لیا۔
یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبّت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
احترامِ آزادیِ ضمیر
مسیحی مشن کے لیے ضرُوری ہے کہ اس کے اقدامات انسان کی آزادی کے محور کے گِرد بہ صد احترامِ جذبہء آزادی گردش کرتے رہنا چاہییں۔ یہی سبب تھا، ویٹی کن مجلس دُوُم نے اِس امر کی توثیق کرتے ہوئے لازم کر دیا کہ ہر شخص کی سچّی نعمتِ آزادی کی قدر کی جائے اور اسے فروغ دینے میں فرد کی مدد کی جائے زورآوری، جبری دباو وُہ چاہے بالخُصُوص مذہبی حلقوں کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو، قابلِ استرداد ہی ہو گا۔ کونسل نے عُجلت کے ساتھ کُل کلیسیا کے لیے وثُوق کے ساتھ دعویٰ سے یہ اعلان کرنے کا فرض ادا کر دیا جو بتقاضاے وقت ناگُزیر تھا کہ مقدّسخُداوند یسُّوع مسیح ضیاے حیات ہے، زندگی کا نُور ہے، جیون کی جوت ہے۔ پاپائی ایمان داری ووفاداری اور استحکامِ ہِمّت، حوصلہ و بُردباری کے ناتے، جب کبھی موقعے کی نزاکت تقاضا کرے، اپنا خون بھی بہا دِکھانے کا کارنامہ ادا کرنا دینا انھی کی صفت ہے جِس سے پاک خُداوند میں وُہ مُتّصف ہیں۔
(حوالہ مذہبی آزادی۔14)۔
تاہم، صداقت جو ہے، اُسے ایسے انداز سے کھوجنا چاہیے کہ وقارِ انسانیت کِسی طور مجروح نہ ہونے پائے، تلاشِ حق کے دوران آدمی کی سماج داری طبع پر بھی حرف نہ آئے۔ آزاد جُستجو ہونی چاہیے۔ مُدّعا کے حُصُول کے لیے تعلیم، ہدایات، ابلاغیات اور مُکالمے سے مدد لینی چاہیے۔ سچّائی تک پہنچنے کے دوران لوگ ایک دُوسرے کو تفصیل سے بتاتے رہتے ہیں کہ کیوں کر کِسی نہ کِسی حد تک اُن کی رسائی صداقت تک ہوئی بھی، اور جتنی اُنھوں نے دریافت کر لی، وُہ کیسے کی! اپنا تجربہ دُوسروں کو بتاتے ہیں تا کہ اُن کے تجربہ اور محنت کو سامنے رکھ کر وُہ بھی جو حق کے جویا ہیں، حق تک جا پہنچیں۔ سچّائی، حق سچ کی تلاش اور اُس تک جا پہنچنا ہی انسان کی منزلِ مُراد ہے۔ اس پر مُستزاد یہ کہ جب سچ انسان پر کھُل جائے، حق کی منزل بندہ پا لے تو پِھر ثابت قدم رہنا، حق کے ساتھ وابستہ رہنا، اسی وابستگی و لگن کے ساتھ ازلی ابدی سچ کے ساتھ جَمے جڑے رہناانسان کی اپنی شخصی، ذِہنی رضامندی پر مُنحصر ہوتا ہے۔
(حوالہ ڈی ایچ۔3)
مذہبی عقائد، افعال و اعمال کے فروغ اور دِینی طریقِ زندگانی پر عمل کرتے ہوئے فرد کو چاہیے کہ اپنے ایسے کِسی فعل سے باز رہے، یا ایسی ترغیب جو سِفلی پن کے زُمرہ میں آتی ہو اور کِسی بھی مسیحی دِینی خادم کے شایانِ شان نہ ہو اس سے اِجتناب برتنا چاہیے۔ خُصُوصاً اِس صُورت میں جب غریب غربا اور چِٹّے اَن پڑھ، الف کو کِلّا جاننے والوں سے سابقہ پڑا ہو۔ بہُت محتاط ہونے کی ضرُورت ہے۔ وُہی بات نہ ہو جائے۔۔۔۔۔۔ نیکی برباد، گُناہ لازم۔ جبر و استبداد کا شائبہ تک آپ کی تبلیغ میں نہ جھلکے۔ اِس قسم کے افعال، افعال بھی نہیں، کہنا چاہیے کہ ایسی حرکات کہ جِن سے روکا جا رہا ہے اگر کِسی سے سرزد ہوئیں تو یہ دُوسروں کے حُقُوق روندنے والا جُرم سمجھا جائے گا اور اپنے بھی حق کو غلط طور پر استعمال کرنے والا خادم بندہ، پاکخُداوند یسُّوع مسیح کے سامنے جوابدہ ہو گا۔
(ڈی ایچ۔۔۔۔۔۔4)
تکریمِ آدمیّت
سب کے احترام و تکریم کی خاصیّت عصرِ حاضر کی کلیسیا کے مشنری کردار کی ہُو بہ ہُو تصویر ہونی چاہیے۔ (دیکھیے ای ایس۔ 77، اے اے ایس 1964ئ، صفحات 642تا 643، ای این 79اور 80، آر ایچ 12)۔انسان اور اس کی زندگی کا طرزِ عمل وُہ پگڈنڈی ہے جِس پر کلیسیا کو اپنا مشن بخُوبی جاری رکھنے کے لیے چلنا ہی چلنا ہوتاہے۔ (آر ایچ۔۔۔۔۔۔14)۔ یہ اقدارِ اعلیٰ جو کلیسیا ہمیشہ سے ہی اپنے اتالیق مقدّس خُداوند یسُّوع مسیح سے سیکھتی چلی آ رہی ہے، ان کے ذریعے عامۃ المومنین مسیحیوں کی رہبری کرنی چاہیے کہ وُہ بھی دُوسروں کی ثقافت میں موجُود اچھّائیوں کا پُوری محبّت سے احترام کریں۔ اپنے اپنے مذہب کے ساتھ دُوسروں کی وفاداری بشرطِ اُستواری کی قدر اور تحسین کریں۔ اس کا مطلب ہے کہ لازماً ہر اُس ذِی رُوح کی تکریم کی جائے کہ مقدّس رُوحُ الحق کی پھُونک جِس میں پھُونکی گئی، اس کی پاک مرضی و منشا کے مُطابِق۔
سب کی عزت، سب کا احترام سب آدمیوں پر فرض ہُوا۔
(آر ایچ 12، بموازنہ ای این 79)۔
کرسچن مشن اور احترام و محبّت، خُداوندی مرکّب ہیں، انھیں علیحدہ نہیں کِیا جا سکتا۔ دُوسروں سے عقیدت و اُلفت، ان کا احترام، ان سے محبّت، اِس حقیقت کا واضح ثُبُوت ہیں کہ مسیحی مشن کی نِگاہوں میں مُکالمے کو ترجیحی مقام اور درجہ
حاصل ہے، جو کل بھی تھا اور آج بھی ہے، آیندہ بھی جاری رہے گا۔
II۔ مکالمہ
(الف) بُنیاد
مُکالمہ لمحہء موجُود میں تزویراتی مصلحت کوشی کے نتیجہ میں پروان ہرگز نہیں چڑھتا بل کہ عِلَّل و معلُول، مُسلسل غور و فکر، تجربہ اور انہماک کے ذریعے اس کا قیام و فروغ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ گاہے بگاہے پیش آنے والی مُشکلات بھی آسانیوں کی اُنگلی پکڑ لیتی ہیں، یعنی
مُشکلیں اِتنی پڑیں کہ مجھ پر کہ آساں ہو گئیں
مُکالمہ۔۔۔۔۔۔ذاتی احتیاج و مُعاشرتی تقاضے
انسانوں کے لیے خیر خواہی کے جذبات پالے رکھنے کے سبب کلیسیا کی طرف سے مُکالمہ کا سدا خیر مقدم کِیا گیا ہے۔ سبھی امن سے رہنا چاہتے ہیں، سبھی کے ہی کُچھ خواب ہوتے ہیں
یہ الگ بات کہ تعمیر کی توفیق نہ ہو
ورنہ ہر ذہن میں کُچھ تاج محل ہوتے ہیں
کھونے کی نہیں، کُچھ پانے کی تمنّا ہوتی ہے جو اِن سُہانے سپنوں کو آنکھوں میں بسائے رکھتی ہے۔ بے چین سا کیے رکھتی ہے ہردم۔ بل کہ اس سے بھی ایک جست آگے یہ کہ ان آرزُوؤں کو مہمیز لگ جاتی ہے جب فرد کو اِس حقیقت کا احساس ہو جائے کہ اُس کے اِدراک میں بہُت کُچھ سما چُکا ہے اور ابلاغ کی کوششیں رایگاں نہیں جانے دی گئیں۔ ہر بندہ اپنے آپ کو ایک ذِمّہ دار شہری منوانا چاہتا ہے، اس کے لیے تگ و دو بھی کرتا ہے۔ ویسے بھی معزز کہلوانے کے لیے یہ نفیس سا شارٹ کٹ ہے۔
عُلُوم الانسان کا وتیرہ ہے کہ وُہ خُصُوصی طور پر زور دے کر باور کراتے ہیں کہ مُکالمہ بین الافراد جب ترتیب پاتا ہے تو فرد کو اپنی خامیوں خُوبیوں کی حد معلُوم ہو جاتی ہے اور ان ممکنات کا بھی پتا چل جاتا ہے جِن سے گُذر کر ان میں کمی یا بیشی کی جا سکتی ہے۔ اپنی صلاحیتیں ترازو میں ڈالنے والی بات ہوتی ہے۔ معلُوم ہو جاتا ہے کہ کِس قدر ہم سچّائی کی تہہ تک پہنچ پاتے ہیں، حقائق و حقیقت سے کِس قدر ہم بہرہ ور ہو سکے تھے، یا بھلا ہمیں تمام و کمال سچّائی تک رسائی حاصل بھی ہے یا بس اندھیرے میں لاٹھی گھمائے پھرتے ہیں۔ البتّہ یہ جان کاری ضرُور ہو جاتی ہے کہ دُوسروں کی اُنگلی پکڑ کر یا اُن کے نقشِ قدم پر چل کے یا دُوسروں کے تجربات سے فائدہ اُٹھا کے یا کم از کم ان کی گردِ راہ کا پیچھا کرتے اصل منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔ خامیوں پر قابُو پایا جا سکتا ہے اور خُوبیوں کو اُجالا جا سکتا ہے۔ دو طرفہ اثباتی اقرار، ایک دُوسرے کی اصلاح، عقیدوں پر باہمی تبادلہء خیالات دونوں ساتھیوں کو ایسے مُکالمہ تک کھینچ لاتے ہیں جسے بالغ نظری بطور رہنما میسّر ہوتی ہے اور جو فرد کی فرد کے ساتھ گہری رفاقت پر منتج ہوتی ہے۔ دِینی تجربات جِن سے آئے روز گُذرنا پڑتا ہے، مذہبی مشاہدات جِن کے لیے آنکھیں کھُلی رکھنا پڑتی ہیں دونوں کو تطہیر کے عمل سے گُزارا جاتا ہے، یُوں خُدا اور بندے میں روحانی رُوبرُوئی کا بھرپور و مستحکم رِشتہ قائم ہو جاتا ہے۔
انانی ملاقات، رُوبرُوئی، بشری مسائل، مصائب سے مجادلے کے لیے اور ان کے جو ممکنہ حل ہیں اُن کی دریافت کے پیچھے جو حرکی قُوّت ہے وُہ ہم مسیحیوں کی سَکَت اور صلاحیتوں کا رُخ اُس طرف موڑتی ہے جدھر ضرُوری ہو جاتی ہے کہ ہم دُوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی بھی بات سُنیں، اور سمجھنے کی کوشش کریں جو بات وُہ ہمیں سمجھانا چاہتے ہیں۔ ہمیں چاہیے اُنھیں ہم وُہ توجُّہ دیں جِس کا وہ لوگ استحقاق رکھتے ہیں۔ تا کہ خُدا مہربان کے ان انعامات سے ہم مسیحی سرفرازی پائیں۔ وُہ انعام اس کے پاس بے اَنت، بے حساب ہیں اور بانٹنے میں بھی وُہ سخیوں کا سخی اور جگ داتاؤں کا اَن داتا ہے، مالک ہے کُل جُود و سخا کا۔
مُعاشرتی و مجلسی، ثقافتی و تہذیبی انقلاباتِ زمانہ ہیں کہ جِن سے انسانیت دوچار ہوتی چلی آرہی ہے۔ یہ انقلابات صفحہء تاریخ پر نقش ہیں۔ یہ تبدیلیاں آتی ہیں تو آتی بھی مع اپنی جبِلّی بے چینیوں اور فطری کٹھنائیوں کے ہیں اور اس امر کی شہادت دیتی ہیں کہ انسانی مُعاشرے کے سبھی طبقات کا ایک دُوسرے پر انحصار بڑھ رہا ہے، گلوبل ولیج جُوں جُوں سُکڑ رہا ہے تُوں تُوں یہ انحصار مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اور بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، زندگی کا اہم ترین جُزو ہے نا!۔۔۔۔۔۔ لازم ترین عُنْصُرِ حیات ہے۔ اگر اکٹھے رہنا ہے۔ ساتھ جینا ہے، ساتھ مرنا ہے انسانی سماج کے ارتقا کے لیے، انسانی اقدار کی جِلا کے لیے اور اہم ترین بات یہ کہ امن اور امان کے تقاضے پُورے کرنے کے لیے۔ انسانی روابط، آپس کے پیار محبّت، تعلُّقات اوریکجہتی کے لیے تو۔۔۔۔۔۔مُکالماتی اندازِ صُلح جُوئی کو بہ ہر صُورت، بہ ہر قیمت اپنے آپ پر لاگُو کرنا ہو گا۔ اسی میں سب کی بہتری ہے۔ دِین، دُنیا، آخرت کی بہتری۔
خُد اباپ پر صائِب اعتماد
کلیسیا کو مُکالمہ کی خدمت خاص طور پر اِس لیے بھی سونپی گئی کہ اس کے ایقان و ایمان میں امن، برداشت، محبّت اور بُرائی کا بدلہ بُرائی سے نہ دینے کو فوقیّت حاصل ہے۔ پاک تثلیث کے مُعتقدانہ بھیدوں میں سے یہ انکشاف تو اب بھید نہیں رہا کہ ہمیں خُداوند خُدا پاک کی جھلک، اس کا جلوہ دِکھائی دے سکتا ہے،مسیحیوں کو شراکت کی زندگی نصیب ہو سکتی ہے اور وُہ اِس پر یقین رکھتے ہیں کہ احسان کا بدلہ احسان اور مُکالمہ کے ذریعے ایک دُوسرے کے مذہب میں موجُود اچھّی باتوں پر تبادلہء خیال ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
خُداے ذُوالجلال جو مہربان ہے، کریم ہے، سب کا باپ ہے، مقدّس باپ۔ اسی سے ہماری توقّعات وابستہ ہیں اور وقت و فاصلوں کی حدود سے ماورا، ہماری نیّت ہمارے ارادوں میں اُس کے لیے محبّت موجُود ہے اور اس کی محبّت ہمارے مسام مسام میں سرایت کر چُکی ہے۔ کائنات اور تارِیخِ کائنات پر ایک چھچھلنی سی نِگاہ دوڑائیے ہر طرف آپ کو اس قادرِ مطلق کی بخششوںکی فراوانی نظر آئے گی، چار سُو اسی کی نعمتیں بکھری ملیں گی۔ عظیم خُدا کے اپنی مخلُوق پر احسان ہی احسان ہیں۔ ہر محسوس و موجُود، ہر سرگذشتِ وارداتِ قلبی، اسی کی بے پایاں محبّت کے حصار میں ہے۔ بظاہر بدی کے جبری آثار چھائے نظر آنے کے باوُجُود، انفرادی مثالیں بھی ہیں اور اجتماعی طور پر بھی لوگوں کی زندگی میں گردشِ حالت کا آنا جانا بس لگا ہی رہتا ہے۔ کبھی کے دِن بڑے، کبھی کی راتیں۔ زمانے کا چکر ہر شخص کی زندگی میں پڑ کے ہی رہتا ہے۔ کبھی نہ کبھی اکیلے دکیلے اور کبھی سب ہی لوگوں کو حالات کے نشیب وفراز سے گُذرنا پڑ جاتا ہے، ایسے میں فضلِ الٰہی کی قُدرت، ربّی طاقت کا سائبان ہوتا ہے جو بندے کو اپنی امان میں لے لیتا ہے۔ انسان کو رفعت و سربُلندی مِلتی ہے جو اسے اخلاقی پستی سے نکال کر راہِ نجات پر گامزن کرتی ہے۔ شُکر ہے خُدااقدس کا، پاکخُداوند یسُّوع مسیح کا، رُوحُ القُدس میں ہر مُحسنِ انسانیت کا! کلیسیا کے فرائض میں شامل ہے دریافت کرنا اور پِھر اُسے لائم لائٹ میں لے آنا، مُکمَّل، ساری کی ساری، وُہ تونگری، دولت، خزانے، تُحفے اور نعمتیں جو خُدا باپ کی مخلُوق میں موجُود ہیں، نظر نہیں آتیں، آتی بھی ہیں پر اُنھیں جنھیں وُہ مالک، خالق، پالنہار دِکھلانا چاہتا ہے یا عطا کرنا چاہتا ہے۔ یہ تاریخ ہے۔ خُدا کے جلال، اس کی بزُرگی، اس کی عظمت کے شایانِ شان ہے کہ پاک یوخرست کی برکتیں سمیٹ لیں اور بس، اس کے ساتھ ایک اور مُبارک مقصد بھی جُڑا ہے، خُدا باپ کے فضل، اس کی نعمتوں، اس کے فیض کی جہان بھر میں تقسیم کے چرچے چار دانگِ عالم میں پھیلی نسلِ انسانی تک پہنچا دینے کا فریضہ بھی ہمیں نے نبھانا ہے، تا کہ شُکر گزاری عام ہو، وُہ عام تب ہو گی جب خلقت کے علم میں آجائے گا، یہ نعمتیں خُدا مہربان، کرم کرنے والے کا عطیہ ہیں۔
خُدا بیٹا جو خلقت میں موجُودو مُتحد ہے
مقدّس خُدا بیٹے میں ہمیں الٰہی حکمت اور کلمہ (خُدا کے کلام) سے نوازا گیا۔ پہلے سے ہی ان نعمتوں کا حامل تھا وُہ اور زمان و مکان کے آغاز سے بھی پہلے اس کی ہستیِ لازوال موجُود اور قائم تھی۔ پاک خُداوند یسُّوع مسیح ہی خُدا کا کلام ہے جو اہلِ دِل کو بصیرت اور روشن خیالی عطا کرتا ہے۔ اس میں نمایاں طور عیاں ہے سرِّ ربّانی بھی اور انسانی بھید بھی۔ (بحوالہ آ ریچ 8، 10، 11، 13 )۔ وہ شفیع ہے، نجات دہندہ ہے۔ ہر انسانی مُلاقات میں، خاص فضلِ ربّی کے ساتھ موجُود ہوتا ہے، ہم پر خُود غرضی کا جالا تن جانے سے پہلے ہی اسے تارتار کردیتا ہے اور ہمیں اِس لائق بناتا ہے کہ ہم آپس میں پیا رکا رشتہ قائم اور مضبوط کریں۔ جیسے اس کی اپنی محبّت ہمارے لیے دائم قائم ہے۔
تقدُّس مآب جناب پوپ جان پال دُوُم نے فرمایا:
آدمی۔۔۔۔۔۔ کوئی بھی آدمی، وُہ کیسا ہی کیوں نہ ہو، کِسی بھی استثنیٰ کے بغیر، ہر آدمی کے گُناہوں کی تلافی، کفّارہ اور پِھر نجات یسُّوع پاک کے ذِمّہ ہے۔ چوں کہ خُداوند موجُود و مُتّحد ہے آدمی کے ساتھ، ہر آدمی کے ساتھ، کوئی بھی آدمی مستثنیٰ نہیں، وُہ بھی نہیں جسے گُناہ، عذاب، نجات کا پتا ہی نہیں، روزِ عدالت اس کی نجات بھی اسی نجات دہندہ نے اپنے ذِمّہ لے رکھی ہے۔
مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح جس نے ہمارے لیے، ہم سب کے لیے صلیب پر جان دے دی، اور پِھر سارے عالمِ انسانی کے لے وُہ مُردوں میں سے دوبارہ جی اُٹھا، وُہ تمام انسانوں کی ضرُورتیں پُوری کرنے والا، مُرَبِّی ہے۔ ایک ایک آدمی کا پالنہارہے، ہر آدمی کا۔ وُہ سب کے ذہنوں کو صیقل کرتا ہے، اُجاگر کرتا ہے، ضیا بخشتا ہے۔ اس کے نُور کا آبشار جاری ہے۔ وُہی اپنے بُلائے گئے انسانوں کو اِس قابل بناتا ہے، سمجھ عطا کرتا ہے، توانائی بخشتا ہے کہ وُہ اس کے کہے پر عمل کر سکیں۔
(حوالہ۔آرایچ13)۔
تدبیر گر رُوحُ القُدُس کارساز
خُدا رُوحُ الحق اقدس میں ہمارا عقیدہ ہمیں اِذن بخشتا ہے کہ ہم زندگی، اُس کی رمق، حرکی قُوّت اور ہدایت یافتہ، اصلاح شُدہ نئی زندگی کا ادراک کریں (کلیسیا۔4) ۔ رُوحُ القُدُس لوگوں کے خیر و شر کے احساس کی گہرائی میں اُتر کر اپنا کام کرتا ہے اور دلوں کے خُفیہ راستوں پر جو صدق سچّائی تک پہنچتے ہیں وُہ اُن لوگوں کے ہمراہ ہوتا ہے (تا کہ بھٹک نہ جائیں)۔
(حوالہ ''دورِ حاضر کی کلیسیا'' جی ایس 22۔)
رُوحُ القُدُس کے کاموں میں یہ بھی شامل ہے کہ وُہ اَسراری بدن یعنی کلیسیا کی ظاہری حدودِ اختیار سے باہر بھی سرگرمیِ عمل میں پیش پیش رہے۔ (آر ایچ6، ایل جی 16، جی ایس 22اور اے جی 15سے بھی استفادہ کیجیے)۔
مُقدّس رُوحُ الحق عمل قبل از وقت کی صفت و قُدرت رکھتا ہے۔ چُناں چہ کلیسیا کی راہ کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے ساتھ ساتھ چلتا ہے، اس پر بھی کلیسیا شک میں رہتی ہے، غور کرتی ہے یہ کوئی شیطانی چال اور مکر تو نہیں۔ بر انگیختہ ہو کر امتیاز قائم کرتی ہے اور جب تک اس پر واضح نہ ہو جائے وُہ کِسی کی بھی موجُودگی کا شائبہ تک قُبُول کرنے کے لیے تیّار نہیں ہوتی۔ جب تک یقین نہ ہو جائے کہ وُہ مُقدّس رُوحُ الحق ہی ہے وُہ کیسے کِسی کی رہ نمائی اور رہبری تسلیم کر لے۔ اور جب اُس پر واضح ہو جائے کہ رُوحُ القُدُس ہی ہے تو وُہ اپنے سِیس نوا دیتی ہے ایک مؤدّب و حلِیم خادم کی طرح اور محتاط و سنجیدہ شریکِ کار بن جاتی ہے۔
توسیعِ بادشاہتِ خُداوندی
خُدا کی بادشاہی تمام انسانوں کی منزلِ مُراد ہے۔ کلیسیا کو اِس کے لیے وہ مقام حاصل ہے جو بیج کو ہوتا ہے، اِس لیے کلیسیا ہی اِس بادشاہت کے لیے اس کا نُقطہء آغاز ہے۔ (حوالہ ایل جی 5اور 9)۔ بادشاہی کی طرف جو شاہراہ جاتی ہے اس پر سفرکی ابتد کلیسیا کے آغازِ کار کے زمانہ سے ہی ہو گئی تھی، کلیسیا کہ بندگانِ خُدا ہے، تمام عالمِ انسانیت کے ہمراہ اس نصب العین کے حُصُول کے لیے ابد تک اپنی کوششیں جاری رکھے گی تا کہ خُدا کی بادشاہی قائم ہو اور عدالت کے دِن کی شُرُوعات ہوں۔
یہ بڑا اہم فرض ہے،گُناہ اور بدی کے خلاف سرتوڑ کوشش کلیسیا کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔ صرف کوشش پر بات ختم نہیں ہو جاتی، اصل بات تو بُرائی اور گُناہ کو زیر کرنا، ان پر فتح پانا، ان کا قلع قمع کرنا ہے۔ اور۔۔۔۔۔۔ اس کی ابتدا اپنی ذات سے کرنا سب سے بڑی بات ہے اور یُوں اَسرار و رموزِ مقدّس صلیب کو گویا سینے سے لگا لیا جاتا ہے جو مومن مسیحیوں کا ہی کام ہے اور باقیوں کو دعوتِ عام ہے۔ خُدا کی بادشاہی کی خاطر کلیسیا کے لیے صحیح اور واضح سمت کا تعیُّن ہوتے ہی جب تک مقصد پا نہیں لیا جاتا سفر جاری رہتا ہے تمام انسانوں کی دُرُست اور مخلصانہ رفاقت میں جیسے مقدّس باپ خُدا ذوالجلال ولاکرام میں سب بھائی بھائی ہوں، اُس کے بیٹے۔ پاکخُداوند یسُّوع مسیح مقدّس کلیسیا کے لیے ضامن ہے اور دُنیا کے لیے اسی کی ضمانت قُبُولِ بارگاہِ ایزدی ہے، قیامت بس آنے ہی والی ہے۔ وقت اور تاریخ کے لیے آخری صفحات گنے جا چکے ہیں، طے ہیں۔ (حوالہ ایل جی 48)۔ اِس لیے فیصلہ صادر ہونے کے بعد کلیسیا کو لیس کِیا جا چُکا ہے اور عمل کے لیے اسے گرین سگنل دے دیا گیا ہے تا کہ خُداوند پاک یسُّوع مسیح میں مسلسل آگے بڑھنے والی اور تکمیلِ جُملہ اُمُور ممکن بنانے والی کامیابیاں حاصل ہو جائیں۔ وقت بہُت کم ہے اور کام بھی بہُت پڑا ہے۔
اِبتدا ہو چُکی، بِیج بو دیے گئے
کشف و بصیرت کے استقرا سے نتیجہ اخذ کِیا گیا اور اس کی بِنا پر دُوسری ویٹی کن کونسل کے فضیلت آباے کلیسیا نے راغب ہو کر اس کی توثیق کر دی کہ غیر مسیحیوں کی مذہبی روایات میںبھی ایسے عناصر موجُود ہوتے ہیں جِن کا خمیر سچّائی اور بھلائی سے اُٹھا ہو۔ (بحوالہ تربیتِ قسیسی: کاہنانہ تربیت۔16)، قدر و قیمت میں اعلیٰ باتیں جِن کا تعلُّق دِین سے بھی ہو سکتا ہے اور انسانی مُعاشرت سے بھی (حوالہ دورِ حاضر کی کلیسیا۔ 92)، سوچ بچار کی داغ بیل، غور و فکر دھیان گیان کے بیج (حوالہ تبلیغ آرٹیکل 18)، صداقت و راستی اور ربّی فضل کے اوصاف و انعام (تبلیغ/ اے جی/ آرٹیکل 9) پاک کلمہ کے بیج، وُہ شُعُور جو مقدّس رُوحُ الحق میں آگے دان کِیا گیا۔ (اے جی۔11اور 15)، سچّائی کے نُور کی شُعاعیں جِن سے تمام عالم بشریّت منوّر ہوا (دیکھیے دیگر مذاہب کے ساتھ کلیسیا کے تعلّقات/ NAآرٹیکل 2)، صریح اور واضح مجلسی اظہار کے مُطابِق یہ اقدار انسانیت کی عظیم مذہبی روایات کے تحت محفُوظ چلی آ رہی ہیں۔ اِس لیے مستحق ہیں کہ ان پر توجُّہ دی جائے اور مسیحی بھائی بہن ان کی قدر کریں کیوں کہ وُہ اِس لائق ہیں کہ ان کے بارے میں اچھّی راے قایم کی جائے۔ اتنی اچھّی اچھّی باتوں، اوصافِ حمیدہ، اخلاقی محاسن والے مذاہب کے ماننے والوں کی جو روحانی میراث ہے وُہی کھری دعوت ہے کہ ان کے ساتھ بہتر طور مُکالمہ کی نیُو رکھی جا سکتی ہے۔ (نوسترا ایتات2اور 3، آدجینتس11)، دورانِ مُکالمہ صرف وُہی باتیں ہی موضُوع نہ بنیں، جِن پر ہمارا اِتّفاق ہو چُکا ہو، وُہ موضُوع بھی گُفتگُو کا حصّہ بن سکتے ہیں جِن پر ہمارے یا اُن کے تحفُّظات ہوں۔ بات نیّت کی ہے، راس فضا کی ہے اور ایک دُوسرے کے لیے نفرت سے خالی، برادرانہ جذبات کی۔ پاکخُداوند یسُّوع مسیح کی برکت اور وسیلے سے کامیابی ہمارا مقدّر بنے، آمین! جلال باپ اور بیٹے اور رُوح القُدُس کا ہو، جیسا کہ ابتدا میں تھا، اب ہے اور ہمیشہ رہے گا! آمین
خُلُوصِ نِیّت اور مُکالمہ
سیکنڈ ویٹیکن کونسل کی طرف سے قدر و منزلت سے معمُور جو نتائج اخذ کیے گئے، دیانت دارانہ ذمّہ داری اور ٹھوس ضمانت کی ہامی بھری گئی وہ اس کی مندرجہ ذیل تفصیل سے مترشح ہے:
۔۔۔۔۔۔نیز یہ کہ اس پوزیشن میں ہو سکتے ہیں کہ مقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کے حُضُور مفید اور بارآور گواہی دے سکیں، مسیحیوں کو وقت اور اس میں موجُود دُوسرے لوگوں سے کٹ کر نہیں رہنا۔ ایک ہی مُعاشرت ہے تو سبھی نے مِل جُل کر رہنا ہے اِس لیے سب انسانوں کی تکریم، سب سے اُلفت مسیحیوں کو اپنے اُوپر لازم کرنی ہو گی۔ اپنے قول و فعل کے ذریعے اعتراف و اقرار کرنا ہو گا کہ وُہ جِس سوسائٹی میں رہ رہے ہیں، گُذر بسر کر رہے ہیں خُود بھی تو اسی کا حصّہ ہیں، ثقافتی و سماجی زندگی میں وُہ سب کے ساتھ ایک جیسا برتاو رکھتے ہیں کیوں کہ اسی سماج اور اسی تہذیب کا وُہ بھی تو لازمی جُزو ہیں اور بڑی فراخ حوصلگی کے ساتھ کہِیں اُن کے ساتھ وُہ شامل ہیں، کہِیں اِن کی تقاریب میں وُہ کشاں کشاں چلے آ رہے ہیں۔ ان کے عِلم میں ہونا چاہیے کہ کیا کُچھ ہے جو وُہ ایک دُوسرے کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں۔ خیالات سے لے کر غمی خوشیوں اور پُر خُلُوص برادرانہ تعلُّقات تک سب کُچھ۔ چُناں چہ اُنھیں اچھّی طرح جان لینا چاہیے ایک دُوسرے کی مذہبی اور مخصُوص ثقافتی روایات کیا کیا ہیں اور کیسی ہیں، اُنھیں مناتے ہوئے جب دُوسرے بھی ان کے ساتھ شریک ہوں تو باعثِ مسرّت ہو گا یہ اندازِ شمولیت۔ اور ضرُوری ہے کہ مُبارک بیج جو مقدّس مجسّم کلمہ کی برکت سے بوئے گئے ان کی تعظیم و تکریم سے غافل نہیں رہنا چاہیے کہ مذہبی و ثقافتی زندگی کی جو رُوح ہے وُہ انھی سے قائم ہے۔۔۔۔۔۔خُداوند یسُّوع پاک ہی کلمہ ء خُدا ہے مجسّم۔ اِس لیے اس کے سب شاگردوں کو چاہیے ان لوگوں کے خُوب شناسا ہو جائیں جِن کے بیچ وُہ خُود بھی رہ رہے ہیں، ان سے رابطے اُستوار کریں اور مخلصانہ، سنجیدہ اور پُر صبر و برداشت مُکالمہ کے ذریعے بہُت کُچھ سیکھیں اور سکھائیں۔ مُکالمہ ہی ان پر منکشف کرے گا ان تمام نعمتوں اور خزانوں کو جو فیّاض و کریم خُدا نے قوموں میں تقسیم کر رکھے ہیں، ان قوموں میں جِن سے یہ دُنیا آباد ہے۔ یہی وُہ لمحات ہیں جِن میں ان خزانوں پر چکا چوند روشنی انھیں ڈال لینی دیجیے۔ یہ چکا چوند، یہ نُور کی کرنیں انجیلِ مقدّس سے پھُوٹ رہی ہیں، وُہ آزاد ہو جائیں گے اور پاک انجیل کی روشنی میں وُہ خُدا کی بادشاہی کی طرف لپکیں گے۔ اس خُداے واحد لائقِ سجدہ کی بادشاہی کی طرف جو ہمارا، آپ کا، سب کا نجات بخش ہے۔
(حوالہ تبلیغ اے جی11، تقابلی جائزہ اے جی 41، اور اے اے، عامۃ المومنین۔۔۔۔۔۔14اور 29)
ب۔اقسامِ مُکالمہ
زمانہء حال کے تجربات کی روشنی میں یہ بات پایہء ثُبُوت کو پہنچی کہ ایک آدھ نہیں بل کہ ایک سے بڑھ کر ایک ذریعہ ہے جو مُکالمے پر ابلاغ کی رفعتیں آسان کر سکتا ہے۔ اہم ترین اور مثالی اقسام سات ہیں باری باری ہم ان کی تفصیل میں جائیں گے۔ یہ قسمیں ایک دُوسرے سے مُمَیَّز و مُمتاز بھی ہیں اور غور سے دیکھیں تو سات کی سات ایک دُوسرے سے ربط میں بھی نظر آئیں گی۔
مُکالمہء حیات
سب باتیں ایک طرف، ایک سیدھی سادی سی سچّی کھری حقیقت آپ کو بتائیں! یہ مُکالمہ مُکالمہ بہُت ہو رہا ہے، مُکالمہ ہے کیا؟ تجربہ و مُشاہدہ کی روشنی میں آداب و سلیقہ شعاری کا خاص خیال رکھتے ہوئے قُدرتی انداز قائم رکھنے کا نام مُکالمہ ہے، عُرفِ عام میں اِسے فن کاری کہتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مُکالمہ رویّوں کی سائینس ہے۔ ہِمّت، حوصلے اور جذبے کے ساتھ یہ حیات بخش توانائی ہے جو کِسی کے طرزِ عمل کی نوک پلک سنوارتی اور اُسے راہ پر ڈالتی ہے۔مُکالمہ دلالت کرتا ہے دُوسروں کے بارے میں فکر و تشویش، اُن کی بہتری کے لیے نیک تمنّاؤں کی، ان کے لیے احترام کی، اُن کی تواضع، خاطر مدارات، مہمان نوازی کی۔ مُکالمہ کے رسیا اصحاب ایک دُوسرے کی شخصیّت مجرُوح نہیں ہونے دیتے، گُنجایش مُہیّا کرتے ہیں کہ ایک دُوسرے کے اسالیبِ اظہار کو اپنے استحسان سے اعتماد کی دولت سے مالا مال کریں۔ ایک دُوسرے میں پائی جانے والی اعلیٰ قدروں کی حوصلہ افزائی کریں۔ ڈائیلاگ یعنی مُکالمہ معیار بھی ہے اور مُکمَّل مثال بھی۔ ہر مسیحی مشن کے مُکالمہ کے مخصُوص خدّو خال ہوتے ہیں اور اس کا اپنا ایک ڈھب ہوتا ہے۔ اس کی ہر ہیئت پر اس کی اپنی ہی چھاپ ہوتی ہے۔ بھلے کوئی محض حُضُور بالحقیقت کی بات کرے، اور گواہی کی، خدمت کی یا براہِ راست انجیلِ پاک کی منادی کرتا پھرے یا عقیدے کا اعلان کرے۔
(سی آئی سی787نمبر ایک)
مشن کی قُوّتِ مدرکہ، اس کے معانی، مفہُوم جو ایسی مُکالماتی رُوح، اس کے جوہر میں گُندھے ہوئے نہ ہوں، تو وُہ قُوّت اصل انسانیت کے تقاضوں پر پُورا نہیں اُترسکتی، چُناں چہ انجیلِ مقدّس کی مُبارک تعلیمات کی بھی نفی کر رہی ہوتی ہے۔
ڈائیلاگ۔۔۔۔۔۔ اوڑھنا بھی، بچھونا بھی
مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کا ہر نام لیوا، انسانی پیشہ ورانہ صلاحیّت اور مسیحی طلب، بلاہٹ یعنی بُلاوے کے سبب اُسے یہی حُکم دیا گیا کہ ڈائیلاگ کی حیثیّت قائم رکھے، مُکالمے کو متحرک رکھے، زندگی میں یہی اس کے ہر روز کا معمُول ہونا چاہیے۔ اس میں یہ کوئی وزن دار بات نہیں کہ مومن مسیحی اکثریت میں ہونے یا اقلیّت میں ہونے کے جواز کے پیچھے اپنی تن آسانی ڈُھونڈتا پھرے، حُکم حُکم ہے اور اس کی بجا آوری، تعمیل، ہر مسیحی پر واجب۔ جِس ماحول، وسیب، مُعاشرت میں وُہ رہتا ہے یا جہاں بسلسلہء روزگار موجُود ہے، دفتر، فیکٹری یا کوئی کاروباری مسکن، اپنے گھر میں ہے یا خاندان میں، جہاں اور جیسی بھی زندگی بسر کر رہا ہے وہاں وہاں مثلاً سماجی سرکل میں، تعلیمی اداروں میں، آرٹ کی دُنیا میں، معیشت و معاش کے پُولز میں، اور ہو سکتا ہے کہ موصُوف سیاسیات کے بازی گر ہوں، جو بھی ہوں، جہاں بھی ہوں، مسیحی ہیں تو ان پر فرض عائد ہوتا ہے کہ کلامِ مُقدّس کی آیت آیت کی تبلیغ کرتے پھریں، دِین کا پرچار ان پر لازم ہے۔ گنہگاروں کو راہِ نجات کی طرف بُلائیں، دِینِ مسیحی کو جاننے، سمجھنے اور اس کے رنگ میں رنگے جانے کی دعوت دیں۔ یُوں مُکالمہ کلیسیائی مشن کی غیر معمُولی قُوّت آفرینی میں اپنا مقام بنا سکتا ہے، اور اس کے لائق بھی ہے۔
مُکالمہ۔۔۔۔۔۔ عملی جہت
مُکالمے کی ایک سطح اور بھی ہے۔ عملی سطح۔ دُوسروں کے ساتھ اِتّحادِ کار قائم کرنے کی سطح، جو کہا جائے کرکے بھی دِکھایا جائے تا کہ وُہ تمام مقاصد حاصل کرلیے جائیں جِن کے لیے مُشترکہ کوششیں کی جا رہی تھیں۔ مثلاً انسان کی آزادی اور مُخلصی بھی۔ انسانی ترقّی، سرفرازی، انسانی حُقُوق کا تحفُّظ، انسان دوستی کے لیے مربُوط کوششیں، مُعاشرتی و معاشی سدھار اور خارزارِ سیاست سے متعلّقہ اُمُور میں شامل دُنیا میں امن، خوشحالی، تعلیم و صِحّت اور انصاف کی تحصیل۔یہ سب ایسے فطری تقاضے ہیں جو انسان کو اب نہیں تو کِس صدی میں میسّر آئیں گے؟ انسان کو تابکاری چھتریاں اور تباہیاں پھیلانے والے بم نہیں چاہییں۔ اُسے پُرسُکُون ماحول، نکھری نکھری فضا اور بارُود کی بدبُو سے معرّا صاف تازہ لطیف ہَوا چاہیے جس میں دم لے سکے۔ اس پس منظر والے مُکالمے کو آج کل بین الاقوامی تنظیمات کے ایجنڈے میں خاصی پذیرائی حاصل ہے جہاں مسیحی برادری اور دیگر مذاہب کے برادران مِل بیٹھتے ہیں اور اِس نہج کے مسائلِ گیتی پر فی الحال بڑی سیر حاصل گُفتگُو کرتے ہیں۔ کچّے پکّے عملی اقدام بھی اُٹھائے جاتے ہیں۔ گونگلوؤں پر سے مٹّی جھاڑنے والی بات ہے نا!! مگر ہے تو سہی۔یہی غنیمت ہے۔ دُنیا اور دُنیا میں بسنے والے لوگوں نے پلٹ کے اِس طرف دھیان تودیا۔ اِس دور کی اہم ضرُورت پر محنت، وقت، سرمایہ صَرف کرنا تو شُرُوع کر دیا نا۔۔۔۔۔۔ کامیابی پاکخُداوند یسُّوع مسیح کے ہاتھ ہے۔ جِس قوم کو اپنی حالت آپ بدلنے کا خیال آجائے، آج تک نہیں ہُوا کہ اُس قوم کی حالت خُدا نے بدلی نہ ہو۔
ایک اکیلا، دو گیارہ
رفاقت و شراکتِ کار کا میدان بہُت وسیع تو ہے ہی۔ خاص طور مسلمانوں کے ضمن میں سیکنڈ ویٹی کن کونسل نے انھیں اور مسیحیوں کو ترغیب دیتے اور تلقین کرتے ہوئے تاکیداً کہا ہے کہ۔۔۔۔۔۔
''ماضی کو یکسر فراموش کر دو''۔ تلخ ہوں یا شیریں تمام چشیدہ ذائقے بھُلا دیے جائیں۔ کونسل نے ان سے توقّع ظاہر کی کہ دونوں مِل کر سماجی انصاف، اخلاقی اَقدار، امن، اظہار کی آزادی، مذہبی آزادی، بندے کی غلامی سے آزادی کی نشوونما، ترویج و ترقّی اور جبر کی طاقتوں کے خلاف ان کا دفاع کریں گے۔
(حوالہ کے لیے دیکھیے'' دُوسرے مذاہب کے ساتھ کلیسیا کے تعلُّقات'' این اے3، ''تبلیغ'' (اے جی)11، 12، 15اور 21)۔
اِسی موضُوع پر تقدُّس مآب جناب پوپ پال ششم کے خطابات ہیں خُصُوصاً Ecclesiam Suamمیں(اے اے ایس56، 1964ع، صفحہ655) اور جناب تقدُّس مآب پوپ جان پال دُوُم نے مُختلف مذاہبِ عالم کی سربرآوردہ شخصیات اور نمایندگان سے بڑی مفید مُلاقاتیں کیں۔ بڑے بڑے مسائل اور اُلجھنیں کہ انسانیت نکّو نک ہو چُکی ہے جِن سے، وُہ مسیحیّت کی طرف دیکھنے میں حق بجانب ہے کیوں کہ سمجھتی ہے اگر مسیحی برادری ہِمّت کرے، تعاوُن پر آمادہ ہو جائے، تو اپنے عقائد اور مذہبی تعلیمات کی کُمک سے، دُوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ان بڑے بڑے مسائل میں گھیرنے والوں اور انسانوں کو اُلجھنوں کے اُلجھاوے میں بے بس کر دینے والوں کا مَکُّو ٹھپ سکتی ہے۔ مسیحیّت خون کے دھبّے خون سے نہیں دھوتی، انھیں محبّت، مفاہمت ، اخلاص اور حُسنِ سُلُوک کے پانی سے دھوتی ہے۔
جب ماہرین خُصُوصی مُکالمہ کرتے ہیں
کِسی کے لیے بھی بھلا وُہ اجلاس غیر نفع بخش اور تقریبِ مُکالمہ دِلچسپی سے خالی کیسے ہو سکتی ہے جہاں بولنے، بات چیت کرنے والے، خرد بانٹنے والے خواتین و حضرات بڑے بڑے جیّد خُصُوصی ماہرین کرام دِینی مُعاملات پر اپنی گرفت کے باوصف، آمنے سامنے ہوں۔ گیرائی و گہرائی ان کے موضُوع کا جُزوِ لاینفک ہو، مندُوبین اپنے اپنے مذہبی ورثہ سے مالا مال ہوں اور مزے کی بات یہ کہ فنِّ مُکالمہ میں اپنی مہارتِ تامّہ ایسے مسائل و مراحل پر آزمانے والے یہ نابغہء روزگار لوگ جانتے ہیں ان مصائب، ان مُشکلات کے ساتھ انسان کا اِٹ کھڑکّا اُس وقت سے جاری ہے جب سے اِس دھرتی پر اس نے پہلا قدم رکھّا تھا، یہی وجہ ہے کہ ان مراحل کو آسان بنانے اور مسائل کا حل تلاش کرنے کا سوچ بچار کرنے اور ان سے نمٹنے کے عملی اقدامات سامنے لانے کی تگ و دو میں انسان دِن رات ایک کیے رہتے ہیں وُہ محبّت ان مسائل کا بُنیادی حل، اور نفرت سے مُکمَّل پرہیز پہلا مرحلہ بتاتے ہیں، مزید تحقیق و جُستجُو آخری خبریں آنے تک ابھی جاری ہے۔ آج کی اِس دُنیا میں حلِّ مُشکلات کی اہمیّت پہلے سے کہِیں زیادہ ہے، دیر کی گُنجایش نہیں، خلقت چاہتی ہے نتائج برق رفتاری سے سامنے آئیں، ورنہ ڈیزی کٹر بموں سے
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
ایسی ہی صُورتِ حالات ہے جِس میں مُکالمہ کی افادیّت مُسلَّم قرار پائی ہے۔ ایسا مُعاشرہ، ایسی سوسائٹی جِس کے اندر مُختلف لسانی، مُعاشرتی اور ثقافتی و معاشی مفادات موجُود ہوں اور آپس میں مِل کر مجمُوعی ترقّی بھی کر رہے ہوں تو ایسی مُعاشرت میں مُکالمہ کے مشن کا آغاز ہونا بہتر نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ اس میں مُختلف النّوع روایات اور گونا گُوں نظریات بیک وقت چل، پل اور بڑھ رہے ہوتے ہیں اور دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ بعض اوقات دُوسروں کی شراکتیں اور رفاقتیں بھی کِسی حد تک جلد ان کے شاملِ حال ہوجاتی ہیں۔ ایسا مُکالمہ عُمُوماً تبھی مقبُول و بارآور ہوتا ہے جب جِس کے ساتھ مُکالمہ کِیا جانا مقصُود ہو دُنیا کے بارے میں اُس کا وِژن، تصوُّرات خیالات نظریات پر اُس کی اپنی راے واضح ہو، اِبہام کا شکار نہ ہو۔ اسی طرح یہ بھی کہ اپنے مذہب پر وُہ صادق اور ثابت قدم ہو اور اس پارٹنر کے اعمال کا دارومدار اُس کے عقیدے کی پُختگی پر ہو اور اسی سے وُہ حوصلہ پاتا ہو۔
مُکالمہ۔۔۔۔۔۔ اور ایک دُوسرے کے بارے میں شُد بُد
مُکالمہ کے لیے جو اس قسم کا مِل بیٹھنا بل کہ جو گھُل مِل جانا ہوتا ہے، ساتھی ساجھی ایک دُوسرے کو بہتر طور جاننے، سمجھنے لگتے ہیں، ایک دُوسرے کی روحانی اقدار کی تحسین، جمالیاتی حِسّ اور ثقافتی پہچان کا استحسان کرنے لگتے ہیں۔ عام لوگوں میں بھی شراکت اور سنگت راہ پانے لگتی ہے۔ (حوالہ کے لیے مُطالَعہ کیجیے نوستر ایتات / این اے1/ یعنی ''دیگر مذاہب کے ساتھ کلیسیا کے تعلُّقات'')
مسیحی دوست، معزّزین، مقدّسین دُوسروں کے ساتھ مِل کر نئے سرے سے مُقدّس اناجیلی عقائد کی پُر جوش تبلیغ کر سکتے ہیں جو ایک دُوسرے کی ثقافت پر بھی نمایاں تاثُّر چھوڑے گی۔ (ای این18تا 20 اور پھر 63مُلاحظہ فرمائیے)
مذہب کے آئینے میں مُکالمے کا عکس
مُکالمہ اپنی اصل میں ایک معُتدل سُوچ اور رویّوں کا نام ہے۔ یہ وُہ طرزِ عمل ہے جو درگُذر، برداشت اور رواداری کے جذبوں کو توانا کرتے ہوئے عدل، انصاف اور مساوات پر مبنی مُعاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ ریاست کے ہر باشندے کو بِلا تمیز رنگ، نسل، مذہب، برادری نہ صِرف یکساں مقام دینے کی راہیں منوّر کرتا ہے بل کہ مُکالمہ مملکت کے ہر فرد کو انفرادی نشوونما، اجتماعی ترقّی اور مذہبی اُمُور میں برابری کے مواقع فراہم کرنے کی ضرُورت پر زور دیتا ہے اور عوام النّاس سے مسلسل رابطہ میں رہنے اور عِزّت و تکریم، احترام و اُلفت سے ان کے ساتھ پیش آنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
مُکالمہ میں وُسعت کے ساتھ گہرائی بھی بہُت ہے۔ وُہ اشخاص جِن کی جڑیں مذہبی رسوم، رواجوں اور روایتوں ریتوں میں مضبُوط ہو چُکی ہوتی ہیں وُہ اپنے اپنے تجربات اور آپ بیتیاں سُنا سُنا کر دُوسروں کو معلُومات بھی فراہم کر سکتے ہیں اور ان سے استفادہ کا موقع بھی۔ مثلاً دُعا و عبادات و شکرانہ ادا کرنے کا طریق اور ان کی ادائی کے سمے قلبی واردات اور جذباتی کیفیات۔ گیان دھیان میں حالتِ استغراق۔ عقیدے سے وابستگیاں اور ربّی آزمایشیں۔ فرائضِ خدماتِ کلیسیا، مندر، مسجد، گردوارہ نیز بدھوں، اسرائیلیوں اور آتش پرستوں کے معبد سے روشناسی۔ تلاشِ قُربِ قائم بِالذّات، اُس واحد معبُودِ برحق، قادرِ مُطلق تک رسائی کے لیے ریاضت و جُستجُو کی تفصیلات و تاثُّرات وغیرھُم۔ مُختلف مذاہب کے لوگ مسیحی نصب العین مُکالمہ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے اپنے مُشاہدات، تجربات و خیالات کا تبادلہ ایک دُوسرے کے ساتھ کر سکتے ہیں، اور یہاں تک بھی جا سکتے ہیں کہ اِتّفاق و محبّت اور بھائی بندی کے ساتھ سر جوڑ لیں اور ان طریقوں، وسیلوں، ذریعوں، واسطوں پر غور کریں جو معبُودِ حقیقی کی رضاجُوئی میں مُمِد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
مُکالمے کی قسم باہمی فیصلہ کے تحت ایک دُوسرے کے لیے درس و تدریس کا درجہ رکھتی ہے اور تربیّت، سکھلائی و ہُنر آموزی نیز دِین، دُنیا، آخرت کی بہتری پر منتج ہوتی ہے جس کا سہرا سب کے ثمر بار تعاوُن کو جاتا ہے جِس کے ذریعے اعلیٰ ترین اقدار کی بِنا ڈالنے میں اعانت کو سرفرازی، تقویت و حوصلہ مندی مِلتی ہے۔ اور انھیں محفُوظ و مامُون رکھنے کا عزم بڑھتا ہے۔ انسان کے روحانی آدرش بھی تقدیس و برکت پاتے ہیں اور ان پر عمل کرنے والوں کو آسمان پر ارفع درجات سے نوازا جاتا ہے۔
توقّعات کے عین مُطابِق یہ مُکالمہ ہی ہے جو یہ بُلند حوصلگی عطا کرتا ہے کہ بِلا اندیشہ ہاے دُور دراز مُکالمے کے ساتھی ایک دُوسرے کو کھُل کے بتاتے ہیں کہ وُہ جِس دِین پر ایمان لا چکے ہیں اُس کو اختیار کرنے کے لیے اُن کے سامنے کیا کیا جوازات، حقیقتیں اور صداقتیں موجُود تھیں۔ بعض اوقات بہ نظرِ غائر دِکھائی دینے والے اختلافات، عمیق تفاوُتِ عقائد، ایسا بھی ہُوا ہے کہ مُکالمہ قائم کرنے میں رکاوٹ نہیں بنے۔ ان امتیازات و اختلافات کو بصد انکسار و عاجزی خُدا بھروسے پر چھوڑ دینا چاہیے۔
''۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ اگر ہمارا دِل ہمیں الزام دے تو خُدا تو ہمارے دِل سے بڑا ہے اور سب کُچھ جانتا ہے''۔
1۔ مُقدّس یُوحنّا۔۔۔۔۔۔20:3
یہی مناسب وقت ہے جو گُذر رہا ہے، بہترین موقع ہے جو سامنے ہے۔ مسیحیوں کو چاہیے، جاگ جائیں، سب کی بھلائی کے لیے، سب کی نجات کے لیے انھیں کی ہمدردی میں، بقیدِ حیات، وُجُودی طور، آزما دیکھنے کی اپنی وفادار و مومن مسیحی پیشکش کا سب کے سامنے اعادہ کریں کہ آؤ اے انسانو! خُدا کے مُقدّس کلام کے جوارِ رحمت و بخشش میں آجاؤ۔ خُداوندِ پاک یسُّوع المسیح تمھارا مُکتی داتا ہے اور تم سب سے، ہر محبّت کرنے والے سے بڑھ کر، میرا مسیح خُداوند محبّت کرتا ہے، بے حد و بے حساب!!
اے رُوح القُدُس! آ !!
اپنے ایمانداروں کے دِلوں کو بھر دے
اور ان میں اپنی محبّت کی آگ بھڑکا
مسیح ہمارے خُداوند کے وسیلے سے
آمین!
III۔ مُکالمہ اور رسالتِ مسیح کے تتبُّع میں رسالت
مُکالمہ اور رسالت کے مابین تعلُّقات کی ایک وسیع عملداری قائم رہی ہے۔ ہم چند ایسے پہلُوؤں پر اظہارِ خیال کی کوشش کریں گے کہ جو عصرِ حاضر میں دیکھا جائے تو بڑے برمحل ہیں اعتراضات، نئے مسائل اور سُوالات جو آئے روز اُٹھتے رہتے ہیں اُن کی مناسبت سے۔
(الف) خدمتِ تبلیغ اور تبدیلیِ مذہب
دعوتِ تبدیلیِ مذہب
دُوسری ویٹی کن مجلس کی رُو سے مشنری آدرش میں تو دُوسروں کی (اُن کی بھلائی کے لیے) تبدیلیِ قلب ہی مقصُود و مطلُوب ہے۔ تا کہ غیر مسیحیوںمیں بھی تبدیلیِ قلب ہو اور وہ پاک خُداوند یسُّوع مسیح کی طرف رجوع لائیں رُوحُ القُدُس کے مُقدّس عمل سے رُوحِ پاک اُن کے دِل کھول دے گا تا کہ فراخ قلبی سے وُہ خُداوند سے علاقہ جوڑے رکھیں''۔ (بحوالہ اے جی 13، سی آئی سی 787نمبر2)۔ رہی مُکالمے کی بات تو اِس ضمن میں عرض ہے کہ مُکالمہ جومسیحیت کے ماننے والوں اور دُوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان چل رہا ہوتا ہے، اِس سلسلے میں سچّی بات تو یہ ہے کہ ایسی شہادتوں اور ایسے واقعات و مراحل سے پہلُو تہی کِسی کے بس میں نہیں، دعوتِ دِین کے مواقع قدم قدم پر سامنے آتے ہی رہتے ہیں چُناں چہ مسیحی دِین میں داخل کرنے کا روحانی طریقِ کار یہاں بھی عمل میں آجاتا ہے۔ یہ طریقِ کار ہمیشہ سے موجُود رہا ہے۔
بائبل مُقدّس کے طرزِ کلام اور مسیحی روایات سے شہادت مِلتی ہے کہ خُداوند خُدا کی طرف عاجز و مُنکسر، متاسّف و تائب و مُعترف دِل کی مراجعت کا عمل ہی اپنا دِین بدلنے کی ترغیب دیتا ہے اور بندہ اپنی زِندگی خُداوندِ قُدُّوس کے لیے وقف کر دینے، اس کی سِپُرداری میں دے دینے پر کھُلے دِل سے تیّار ہو جاتا ہے۔ یُوں تبدیلیِ مذہب یعنی مسیحیت کا پیروکار بن جانے کی دعوت تمام لوگوں کو پُوری استقامت، ثابت قدمی سے جاری و ساری رہتی ہے۔ جب تبلیغِ دِینِ مسیحی ابھی جاری ہوتی ہے، اس دوران اپنی سمت دُرُست کرنے کے لیے، اپنی پُرانی روحانی یا مذہبی عقیدتوں والی صُورتِ حالات سے موقع مِل جاتا ہے کہ فیصلہ کو مستحکم کر لیا جائے کہ فوری کنارہ کشی اختیار کر لینی ہے۔ دیکھیے، ایک مثال سے خود ہی اندازہ کیجیے، یہ وُہی بات ہے کہ ایک محدُود قسم کی محبّت میں گرفتار رہنے کے بجاے حضرتِ دِل ''بھُڑک'' کر کائناتی محبّت کی وسعتوں کے حوالے اپنے آپ کو کرتے ہوئے ایک نئی، وسیع، آزاد محبت سے آپ کو سرشار کر دے۔ خُداے رحیم کریم کی طرف سے ہر مُعتبر بلاہٹ بندے کے اپنے آپ پر غالب آنے کی حامل ہوتی ہے۔ ایک اور نئی زندگی انسان کی مُنتظر ہے، مگر اس کے مرنے کے بعد۔ جنّت میں جانے کے سب خواہشمند ہیں، مرنا کوئی بھی نہیں چاہتا۔ مر کے ہی نئی زندگی ملے گی۔ پاشکائی بھید کی قُوّت آفرینی سے یہی مترشّح ہے (حوالہ کے لیے مُلاحظہ ہو جی ایس22)۔ ادھر بھی توجُّہ رہے حُضُور کہ یہ بھی ہے، مسیحیّت میں داخل ہونے کا مُبارک عمل سرفرازی پانے والا عمل ہے۔ بندہ نئے سرے سے اپنا آپ مُکمَّل دریافت کرتا ہے۔ سلیٹ صاف ہو چُکی ہوتی ہے اور فضلِ ربّی سے اُسے نئی شناخت مِلتی ہے۔ مسیحیّت اختیار کرنے والا زیرو میٹر مسیحی بن جاتا ہے۔ اس صاف سلیٹ کو اِس دُنیا میں گُناہوں سے آلُودہ نہیں ہونے دے گا، مُقدّس رُوحُ الحق کی مدد سے آخرت میں سُرخرُو ہو گا۔
(آر ایچ 12)۔
دعوتِ تبدیلیِ مذہب کے لیے احترامِ ضمیر و احساسِ خلقت ضرُوری ہے
دُوسروں کو تبدیلیِ مذہب پر راضی کرنے، مسیحیّت کی طرف راغب کرنے کے لیے جو انداز اختیار کِیا جائے وُہ ضمیر کے آئین کے تابع ہو ''کِسی کو بھی کِسی قیمت پر اپنے ضمیر کے خلاف کوئی سودا کرنے پر مجبُو رنہیں کرنا چاہیے۔ اپنے ضمیر کے مُطابِق اپنے ارادے سے وُہ جو عمل کرنا چاہتا ہے اس میں کِسی کو کِسی قسم کی ممانعت کرنے کی اجازت نہیں۔ خُصُوصاً مذہبی مُعاملات میں کوئی جبر نہیں کوئی اِکراہ نہیں!''
(ڈی ایچ 3)
دعوتِ دِینِ مسیحیت بوسیلہء حیات بخش رُوحُ القُدُس
کرسچن منظر نامہ میں جو دِکھائی دیتا ہے وُہ یہ ہے کہ تبدیلیِ مذہب کا اصل کارساز مسیحی خادمِ دِین یعنی ا نسان ہے نہیں، یہ کام تو رُوحُ القُدُس کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ کِسی کو ایمان کی دولت سے مُتموّل کرنا تبلیغی خدمت سرانجام دینے والے مسیحی خادمانِ دِین کی حکمت پر میسّر نہیں، خُدا کی قُدرت پر مُنحصر ہے۔ '' یہ مُقدّس رُوحُ الحق ہی ہے جو بندے میں یہ میلان پیدا کرتا ہے کہ وُہ خوشخبری کا اعلان کرے اور اس کے ضمیر کی گہرائی میں اُتر کر وُہ مُقدّس رُوح الحق یہ شُعُور اور فہم اسے عطا کرتا ہے کہ وُہ بندہ کلمہء نجات کی دِل سے پذیرائی کرے''۔ (ای این 75) یہ رُوحُ القُدُس ہی ہے جو دِلی حرکت و ارادوں کا احاطہ کرتا ہے اور فیصلہ دیتا ہے کہ اُس بندے کے دِل میں مقدّس خُداوند یسُّوع المسیح پر ایمان اوراُس پر تکیہ کو جگہ ملے:
''اور میرا کلام اور میرا وعظ آدمی کی حکمت کی لُبھانے والی باتوں سے نہ تھے بل کہ وُہ رُوح اور قُدرت سے ثابت ہوتے تھے''۔
1۔ قرنتیوں کے نام۔۔۔۔۔۔4:2۔
مسیحی کون ہے؟ وُہ جو مسیحی مومن ہوتا ہے نا وُہ تو بس ایک آلہ ہے خُداے لم یزال کے ہاتھ۔ مسیحی۔۔۔۔۔۔ خُدائی خدمتگار ہے۔ خُدا کے ساتھ اس کے کاموں میں اُس کا ''کاماں''۔
''کیوں کہ ہم خُدا کے ساتھ کام کرنے والے ہیں۔ تُم خُدا کی زراعت اور خُدا کی عمارت ہو''۔
1۔ قرنتیوں۔۔۔۔۔۔9:3۔
باہمی تمنّاے ترقّی و عُرُوج اور برکتِ تبدیلیِ مذہب
جِس کِسی کے ساتھ مُکالمہء بین المذاہب کی ریت پُورے خُلُو ص کے ساتھ کوئی بھی مسیحی نبھا رہا ہو تو عُمُوماً اس کے معصُوم دِل میں یہ تمنّا پُوری توانائی کے ساتھ پَل رہی ہوتی ہے کہ وُہ اپنے ساتھی غیر مسیحی کے ساتھ، اپنے وُہ تجربات جِن کا تعلُّق ذاتِ خُداوندی سے ہے، بِلا کم و کاست شیئر کرے۔۔۔۔۔۔
''پولوس نے کہا: چاہے قریب ہو چاہے بعید۔ خُدا کرے کہ صِرف تُو ہی نہیں بل کہ سب جو میری سُنتے ہیں آج میرے مانند ہو جائیں سواے ان زنجیروں کے''۔
رسولوں کے اعمال۔۔۔۔۔۔29:26 ۔
(اور ای ایس46)۔
اور اِس حقیقت سے بھی مفر نہیں کہ غیر مسیحی بھائی بھی بدلے میں اپنے مذہب کے بارے میں بہُت سی باتیں اپنے مسیحی برادر کو بتانا پسند کرے گا اور یُوں تبادلہء خیالات جاری رہ سکتا ہے جو قدُرتی امر ہے۔
ب۔مُکالمہ براے قیامِ بادشاہیِ خُداوند ِخُدا
خُدا کے روڈ میپ کو شرکاے مُکالمہ آگے بڑھاتے ہیں
مُقدّس رُوحُ الحق کے انسانوں کے ساتھ خاص فضل کے ہوتے ہوئے رحم و کرم کرنے والا خُدا اپنی ہستیِ الٰہی سے لوگوں کے ساتھ موافقت پیدا کرنے اور قائم رکھنے سے کبھی اُوب نہیں جاتا۔ کلیسیا مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کے وعدے کے بھروسے سے مُطمئِن ہے کہ اُسے زنہار مُقدّس رُوحُ الحق کی رہنمائی و نگہبانی اتمامِ صداقت کے لیے تمام زمانوں میں جاری رہے گی۔۔۔۔۔۔
''لیکن جب وُہ یعنی رُوحُ الحق آئے گا تو وُہ ساری سچّائی کے لیے تمھاری ہدایت کرے گا، کیوں کہ وُہ اپنی طرف سے نہ کہے گا، لیکن جو کُچھ سُنے گا وُہی کہے گا۔ اور تمھیں آیندہ کی خبر دے گا''۔
مُقدّس یُوحنّا۔۔۔۔۔۔13:16۔
یہی سبب ہے، انفرادی سطح پر، اجتماعی لیول پر لوگوں کے ساتھ اور اُن کی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے ان لوگوں میں زیادہ گھُل مِل کر کلیسیا مسلسل رابطے میں رہتی ہے اور اسے ادراک ہے کہ ہر انسانی جمعیّت، برادری، کالونی، من حیث القوم اچھّائی اور سچّائی کے جوہر سے خالی نہیں۔ کلیسیا خبردار و محتاط بھی ہے، جانتی ہے کہ ہر قوم و مِلّت اور اُمّت کے لیے ہمیشہ سے قادرِ مُطلق، علیم و خبیر کا اپنا ایک مہر و محبّت بھرا پلان ہر زمانہ میں موجُود رہا ہے جِس پر اس کے حُکمِ مُحکم سے سرگرمی کے ساتھ عمل ہوتا آیا ہے ۔۔۔۔۔۔
''اور بنی نوعِ انساں کی ہر ایک قوم کو ایک ہی اصل سے پیدا کِیا کہ تمام رُوے زمین پر بسیں اور اُن کی میعادیں اور سکُونت کی حدود معیّن کیں تا کہ خُدا کو ڈُھونڈیں شاید کہ ٹٹول کر اُسے پائیں، اگرچہ وُہ ہم میں سے کِسی سے دُور نہیں''۔
رسُولوں کے اعمال۔۔۔۔۔۔26:17، 27۔
گویا قوم معرفتِ حق کی تلاش میں نکل کھڑی ہو۔ اور وُہ تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب تر ہے، پِھر کیسے ہو سکتا ہے کہ جوئندہ جو ہے وُہ یابندہ نہ ہو۔ چُناں چہ کلیسیا اکیلے دم نہیں بل کہ سب کو ساتھ لے کر اس ربّی پلان کی تکمیل میں جوق در جوق ان کو شریک کرتے ہوئے خُدا زندہ و قائم کے لامحدُود ہونے کی صفت کو تسلیم کرتی اور کرواتی ہے، اور گُوناگُوں الٰہی حکمت کی قدر و منزلت کا اِدراک و اعتراف کرتی بھی ہے اور سب سے کرواتی بھی ہے، نیز بھانت بھانت کی ثقافتوں اور تہذیبوں میں بشارتِ مسیحیّت کی اشاعت کی خدمت میں شریک رہ کر اپنے حصّے کا حقِّ استعانت ادا کرتی رہتی ہے۔
(ای ایس18تا 20)۔
تعاون براے فروغِ عالمگیرامن
ہمارے خیالات و تصوُّرات کے پنچھی آزاد پَوَن میں اُڑان بھرتے ہوئے ان لوگوں کے سروں پر منڈلانے لگتے ہیں جو خُداے واحد کی معبُودیت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو نادر مذہبی اعتقادات و برکات اور انسانیت کے علمبردار قیمتی عناصر کی قدر اور ان کا احترام کرتے ہوئے انھیں اپنی روایات کی پٹاری میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم آپس میں ایسے مُکالمے کا آغاز کریں، دوستانہ اور ڈھکا چِھپا نہیں۔۔۔۔۔۔ برادرانہ اور کھُلا ڈُلا ڈائیلاگ، بے تکلُّف مُکالمہ جو ہم سب کو بے تاب کر دے کہ ہم مُقدّس رُوحُ الحق سے ترغیب و وجدان پُورے یقین و خُلُوص کے ساتھ، جان و دِل اور حاضر دماغی سے قبول کرلینے کی سعادت پا لیں اور پھر اپنی تمام صلاحیتوں اور تمام تر توانائیوں کو مجتمع کر کے ان کا پُورا پُورا حق ادا کردیں۔ ایسے بابرکت اور نتیجہ خیز مُکالمے کی آرزُو اِس لیے ہے کہ مناسب ہدایت کے ساتھ صحیح سمت بڑھائے گئے ایسے مُکالموں کے ذریعے جو حق سچ کی طرف محض بھرپور محبّت اور انمول خُلُوص کی چھاؤں میں رہنمائی کر رہے ہوں ان بادلوں کی چھایا کے نیچے سب کو پناہ لینے کی دعوت ہوتی ہے۔ سب کو۔ صدائیں دی جاتی ہیں، باہر کوئی نہ رہے!
مُکالمہ۔۔۔۔۔۔ ایک آس، اک اُمِّید
مُکالمہ تو اب ایک طرح سے آس اُمِّید کا سرچشمہ ثابت ہو چُکا ہے دو طرفی قلبِ ماہیت سے گُذرنے والوں کی رفاقت کے لیے مُکالمہ حقیقت میں ایک اہم چیز بن چُکا ہے۔ رُوحُ القُدُس اُس وقت تک رہنمائی کرتا رہتا ہے، تلقین و ہدایت سے سرفراز کرتا رہتا ہے جب تک خُدا کی تدبیر، اس کا عزم اِرادہ، اس کی سکیم پر عمل ہوتا رہے، فرد کی تاریخ میں بھی اور نسلِ اِنسانی کا جو معلُوم ریکارڈ ہے اس میں بھی حتّٰی کہ فرزندانِ خُداے لم یزال جنھیں گُناہوں نے بکھیر دیا ہے، مُنتشر کر رکّھا ہے، ان میں پِھر ملاپ ہو جائے۔ فرزندانِ خُداوند شِیر و شکّر ہو کر پِھر سے ایک ہو جائیں۔۔۔۔۔۔
''اور نہ صِرف اُس قوم کی خاطر بل کہ اِس لیے بھی کہ وُہ خُدا کے پراگندہ فرزندوں کو جمع کرکے ایک کر دے''۔
مُقدّس یُوحنّا۔۔۔۔۔۔52:11۔
تحملِ خُداوندی کی موافقت و تقلید
وُہ دِن! خُدا ہی بہتر جانتا ہے اُن دنوں کے بارے میں، جو طُلُوع ہونے والے ہیں، کُچھ بھی اُس کی دسترس سے، اُس کی قُدرت سے باہر نہیں۔ سنّاٹوں کا رسیا، پُراَسرار رُوحُ القُدُس وُہ جو مُکالمے کے راستے کھولتا ہے فرد کے لیے اور افراد کے لیے بھی تا کہ مِل کے، اِتّفاق سے، وُہ غلبہ پا لیں نسلی تعصُّب کے عفریت پر، مُعاشرتی و سماجی اُونچ نیچ پر اور مذہبی و فرقہ وارانہ منافرت پر اور پِھر وُہ دِن آجائیں جب باہمی خیر سگالی، بہتری، ترقّی و خوشحالی کے زمزمے چاروں طرف پھُوٹ بہیں۔ جِس عرصہء حیات میں ہم سانس لے رہے ہیں وُہ خُدا تعالیٰ کے صبر، ضبط، سُکُون اور تحمل سے مُعَنوَن و موسُوم ہے، کلیسیا کے ضمن میں اور مسیحی برادری و آبادی کے لیے بھی۔خُداوند قُدُّوس کو تو کوئی بھی اپنے دباو میں نہیں لا سکتا نا، کِسی کی کیا بساط اور کیا اوقات کہ خُداوندِ خُدا کی مرضی و منشا سے ہٹ کے وہ اسے مجبور کرسکنے کی ہِمّت رکھتا ہو کہ اسے جو کرنا ہے، جلد سے جلد کر دِکھائے۔ اُس نے تو لمحہ لمحہ بل کہ ثانیہ ثانیہ اور مزید بل کہ ثانیے کے ہزارویں لاکھویں حصّے کو بھی ایک تعیُّن کے تحت تخلیق کر رکھّا ہے۔
بات وُہی ہے کہ اکیسویں صدی کی سُندرتا میں پلنے جوان ہونے والی نئی انسانیت کو موقع مِلنا چاہیے کہ نظّارہ کرے جب کلیسیا مسیحی نُور کی کرنیں پھیلا کے ہماری دُنیا ہی نہیں کُل کائنات منوّر کر دے، صبر وتحمل اور سُکُون کے ساتھ جو انتظار کرے ان بیجوں کے پھُوٹنے کا جنھیں آنسوؤں کی آبیاری سے نمُو کنار کِیا گیا ہو اور اعتماد ہو کہ خُدا کا بول بالا کرنے والی فصل سر اُٹھائے گی، لہلہائے گی اور پک کر ایک عالم کو خوشحال کر دے گی۔۔۔۔۔۔
''اِس لیے اے بھائیو! خُداوند کے آنے تک صبر کرو۔ دیکھو کسان زمین کے قیمتی پھل کی اُمِّید سے صبر کرتا ہے جب تک کہ پہلا اور پچھلا مینہ برسے۔ سو تم بھی صبر کرو۔ اور اپنے دِل کو مضبوط رکھو۔ کیوں کہ خُداوند کا آنا نزدِیک ہے''۔
یعقُوب۔۔۔۔۔۔7:5اور 8۔
تمثیلِ تُخم۔۔۔۔۔۔
''اور اُس نے کہا خُدا کی بادشاہی ایسی ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں بیج ڈالے۔ اور رات کو سوئے اور دِن کو اُٹھے۔ اور بیج اُگے اور بڑھے، اور وُہ جانے بھی نہ کہ یہ کیسے ہوتا ہے۔ زمین خُود بہ خُود پھل لاتی ہے۔ پہلے پتّی پِھر بال میں پُورے دانے۔ اور جب پھل پک جاتا ہے تو وُہ فوراً درانتی لگاتا ہے، کیوں کہ کاٹنے کا وقت آ پہنچا''۔
مُقدّس مرقس۔۔۔۔۔۔26:4تا 29۔
اس کے بعد، اُس نے کہا کہ ہم خُدا کی بادشاہی کو کِس سے تشبیہ دیں، یا کِس تمثیل سے اُسے بیان کریں۔ تب رائی کے دانے کی تمثیل دی گئی+
(کرسچن نقطہء نظر کے لیے ضروری موادSecretariatus Pro Non Christians ویٹی کن سٹیٹ:The Attitude of The Church Towards The Followers of Other Religions. Reflections and Orientations on Dialogue and Mission.پینتیکوست1986ع۔ صفحات 9تا 22سے بشکریہ اخذ کِیا گیا)۔
مسلم زاویہء نِگاہ
۔مُکالمہء بین المذاہب اور اسلام
گذشتہ صدی میں انسان ایٹم بم کو پھاڑ سکنے میں کامیاب ہو گیا۔ اور اِس صدی نے بڑے پیمانہ پر ہم آہنگ ہر طرح کے نظام ہاے فکر وعمل کو بھی پارہ پارہ ہوتے مُلاحظہ کِیا۔ کثیر النّوع ثقافتوں سے مفر کی گُنجایش کم کم ہی دِکھائی پڑتی ہے۔ ان کے محرکات والا پہیّا اب پیچھے کو نہیں گُھمایا جا سکتا۔اسلام کِسی بھی اور آئیڈیالوجی سے ہٹ کر اس تحریک کا محض ایک خاموش تماشائی بنا نہیں رہ سکتا۔ ایسا کرے گا تو بے رحم تنقید کی زد میں آئے گا، اس پر اُنگلیاں اُٹھیں گی اور وہ ہاہاکار مچے گی کہ رہے نام اللہ کا! عصرِ حاضر سے کٹ کر تو نہیں رہا جا سکتا نا۔۔۔۔۔۔
1۔ مُکالمہ اور وحیِ الٰہی
کشف و الہام مُقتضی رہے ہیں کہ مسلمان اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم عامۃ النّاس کے ساتھ مذاکرات کی پہل کریں اور بائبل مُقدّس کے مذاہب پر ایمان لانے والوں (اہلِ کتاب) کے ساتھ خُصُوصی طور پر مُکالمہ کا آغاز کریں۔
رسالتی خدمت والوں کے فرائضِ منصبی بھی ہماری نظر میں ہیں، پوری عقیدت و یقین کے ساتھ جن کا حوالہ دینا مقصود بھی ہے کیوں کہ اس سے اغماض نہیں برتا جا سکتا بل کہ ہمیں چاہیے کہ اس پر بحث و تمحیص کی جائے کیوں کہ اس سے مذہبی ہم آہنگی اور باہم رواداری نیز احترامِ آدمیت کے وصف کو مزید تقویت ملنے کے ساتھ ساتھ دُوسروں کے عقائد کے ضمن میں برداشت کا مادّہ پیدا ہو گا۔ خُدا رحمن، رحیم، قادرِ مُطلق خود فرماتا ہے:
''بے شک، تمھارا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے اُن لوگوں کو جو اُس کے صراطِ مستقیم سے بھٹک چکے ہیں۔ اور اُن کے بارے میں بھی اللہ کو مطلق عِلم ہے جنھیں ہدایت مِل چُکی ہے (اور وہ سیدھی راہ پر چلنے والے ہیں)۔'' القرآن
2۔مُکالمہ اور راستے کے پتھّر
ماضی کی تکلیف دہ میراث
پِھر تو وہی بات ہے نا، کوئی یہ بھی پُوچھ سکتا ہے کہ کیا حالات اب بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں جیسے کبھی ہُوا کرتے تھے؟ افسوس! ماضی نے بہُت خسارے میں رکھا، اِتنا کہ، بے بس ہی کر دیا ہمیں۔ اِتنی یاوہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا! توبہ توبہ! اِتنی غلط بیانی؟ تحقیری رویّے، دُشنام بازی، اِس قدر بُرا برتاو!!! آخِر کیوں؟ ہمارے ہی ساتھ ایسا کیوں ہُوا؟ ایسا بھی کیا کہ انکساری پر زورآوری چھا گئی! شاید، اس کا ممکنہ جواب یہی ہے۔ لوگوں کی زندگی اِتنی بھی سادہ و آسان کبھی نہ تھی، ہمیں محتاط جائزہ لینا ہو گا اُس اندوہ گیں ماضی کا جو ہمیں ترکے میں ودیعت ہُوا، تا کہ مستقبل میں پِھر نہ اُن ہی غلطیوں کو دُہرانے بیٹھ جائیں۔ ماضی سے سبق حاصل کرنا ضروری ہے، اور پِھر اُسے نہ بھُولنا، زیادہ ضروری۔ وقتِ موجُود میں اسلام نے اپنا جو چہر ہ دُنیا کے سامنے رکھا ہے وہ شدّت پسندی اور تشدُّد کی حوصلہ افزائی کرنے والا ہے۔ مُکالمے کے اوصاف و ثمرات اسے چھُو کر بھی نہیں گذرے، بظاہر تو یہی معلُوم ہوتا ہے۔ اِسی نکتہء خاص کا ہم مختصر مختصر جائزہ لیتے ہیں، تا کہ اُلجھاو، سُلجھاو کو پہنچے۔
اوّل اوّل تو یہ تاکیداً عرض کر دوں یہ طاقت ہی تھی جس کے بَل پر بعض ممالک، شہروں اور اُن کے بند قلعوں کے دروازے کُھلوائے گئے تھے، لیکن یہ کبھی نہیں سُنا کہ کہِیں بھی اسلام مفتُوحِین پر زبردستی تھونپ دیا گیا، رعایا کو بالجبر مسلمان کر لیا گیا۔ نہ نہ نہ نہ۔ خُدا جھُوٹ نہ بُلوائے، نہ ایسا کہِیں پڑھا، نہ سُنا۔ ہمیں اُس دور کے عالمی حالات کو کھنگالنا ہو گا صفحہء ہستی پر جب اسلام کا ظہُور ہُوا، دیکھنا ہو گا تاریخ کِس نہج پر رواں دواں تھی۔ قیصر و کِسریٰ کی سلطنتیں اُس وقت کی سُپر پاور تھیں۔ اپنا اپنا اقتدارِ اعلیٰ اُس دور کی دُوسری قوموں سے زبردستی منوانے کے لیے دونوں سر توڑ کوشِش میں لگی رہتی تھیں۔ بزورِ بازُو اپنی سلطنت کی حُدُود دُور تک پھیلانے میں کِسی کو عار محسوس نہ ہوتی تھی۔ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس، جسے کمزور پاتی اُسے سینگوں پر رکھ لیتی تھی۔ دُوسروں کو اپنے جبر کا تختہء مشق بنائے رکھو ورنہ دُوسروں کی جفاکاریاں سہنے کو اُس کے سامنے گریہء مسکین بنے رہو۔ دُوسروں کی ہڈّی پسلی ایک کر دو، نہیں تو ''گِدَّڑ کُٹ''سہنے کے لیے خود ہر دم تیّار رہو۔ ہمیں بھی تبھی سے یہ سبق ازبر ہے کہ تمام جنگیں حق بجانب تھیں، اگر نہیں تھیں، تو اُنھیں حق بجانب ثابت کرنے میں کیا دیر لگتی ہے۔رُوحِ عسکری ہی اُن زمانوں میں غالب تھی اور افسوس کہ غالب آج بھی ہے، ہاہا!! اپنے اِس افتخار پر قائم نظر آتی ہے کہ شوکت و سطوت کے لیے آج بھی جنگیں ہی شریفانہ اور پُروقار ذریعہ ہیں جس پر انانیت راج کرتی ہے۔ کیا آپ نے غور کِیا کبھی؟ ضرور غور کِیا ہو گا اُن جدید انقلابی تحاریک کے بارے میں جو مختلف نسلوں کی جھولیاں خوشیوں اور خوشحالی سے بھر بھر دیتی ہیں اور اگر کِسی نے ان کی چڑھائی کی راہ میں روڑا بننے کی ذرا بھی کوشِش کی تو اعلان ہوجاتا ہے کہ اِس ''اگر کسی'' کی فنا کا تو بگل بجے ہی بجے۔
ایک طے شدہ وقت پر ظہُورِ اسلام ہُوا، اور اِس کے لیے خاص ایک مُلک چُنا گیا۔ اس نے اپنی ایک تاریخ بنائی۔ ایک خاص انداز میں زندگی کا چولا پہننے والوں کا مذہب بنا اور قانُونِ اِمکانات کے تابع رہا۔ اس کے طبعی مزاج سے لگّا کھاتا تھا یا نہیں، اپنے زمانے کے حساب سے چلنا اس کے لیے ضروری ٹھہرا۔ٹرین تو حرکت میں تھی ہی، بس دوڑ کے اسے پکڑنا اسلام کا کام تھا، جو اس نے کر دِکھایا۔ یہ ہے بھی حقیقت! مسلمانوں کی مذہبی کتاب میں ایک سے زیادہ آیات ہیں جن میں جنگ آزما ہونے کی اُنھیں ترغیبات دی گئی ہیں، شہادت کے رُتبہء عظیم اور شہیدوں کے لیے جنّت کا وعدہ، خُدا کی راہ میں جِدّوجُہد کرنے والوں کے لیے انعام ہی انعام کی نویدِ عام۔تاہم یہ ضرور ہے اس جنگ و جدال کو ہی واحد حل نہیں کہا گیا۔ جب تمام کوششیں، تمام حل ناکام ثابت ہوں تو آخری حل تلواریں نیام سے باہر لانے کوبتایا گیا۔ اور اِس کے لیے بھی مادّی و اخلاقی اقدار مقرر کر دی گئیں جن کی پاسداری کو لازم ٹھہرایا گیا۔ ان پر ظاہر ہے کِسی کو بھی اعتراض نہ تھا۔ یہ بات واضح کر دینی اہمیت میں مقدّم تر ہے کہ ایسی آیاتِ قرآنی جو جنگ کے لیے آمادہ اور ولولہ تازہ کرتی ہیں لازمی طور ان کا اطلاق مخصُوص حالات پر مبنی ہوتا ہے جن کا تعلُّق اُن خاص اِمکانات سے ہوتا ہے جوناگہانی صُورتِ حالات کے ہی تابع ہوتے ہیں جنھیں ماضی کے کھاتے میں تو ڈالا جا سکتا ہے مگر آج کے ماحول میں ان کی پذیرائی خاصا مشکل بل کہ ناممکن کام ہے، کیوں کہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جن سے ہماری اُمِّیدیں بندھی ہیں۔
ضمانت امنِ عالم کی نہتّے لوگ ہوتے ہیں
جہاں فوجیں نہیں ہوتیں وہاں جنگیں نہیں ہوتیں
دِل میں اُتر جانے والے لافانی الٰہی پیغام کی رُوح اسی میں موجُود ہے کہ ہم احترام و شائستگی کے ساتھ اپنا ہاتھ اپنے پیارے ہمساےے کی طرف بڑھائیں۔ اِس کی اہمیت ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں۔ یہ تو ایک گہرا اور ہر دم تازہ رہنے والا جذبہ ہے جسے آج ہمیں پِھر سے کھوجنا پڑے گا تا کہ آپس کے مُکالمہ کی داغ بیل پڑنے کی بند راہیں کُھل جائیں اور ایک دُوسرے کے بارے میں ساری کج فہمیاں خاک میں مِل جائیں کہ ماضی میں ہماری صلح، ہمارے امن، ہمارے بھائی چارے، ہماری دوستی اور ہماری محبت کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ تھیں، بڑا خطرہ ہے کہ یہ رُکاوٹیں آج بھی ہمارے جذبہء خیر سگالی کے سامنے سدِّ سکندری بن سکنے کی مُکمَّل خباثت رکھتی ہیں کیوں کہ وقتِ موجُود میں اِن رُکاوٹوں کے علاوہ بھی کتنی ہی مُشکلات ہیں جو ہمارے نمٹنے کے لیے چیلنج بن کے سامنے کھڑی ہیں۔ جس راہ کے ہم راہی ہیں اس راہ میں پھُول بھی ہیں، کانٹے بھی، رفاقتیں بھی ہیں، مخالفتیں بھی۔
یہی کہا تھا مری آنکھ دیکھ سکتی ہے
تو مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہر نابینا
حالیہ دُشواریاں
ماضی میں جو رہن رکّھا تھا اُس پر قرض تو بے باق ہو چُکا مگر پِھر بھی بعض مُشکلات ابھی باقی ہیں جن کے حل کی تلاش ہے۔ خیر اندیشی اپنی جگہ، مسائل تو موجُود ہیں اور وہ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہے۔ اصل دُشواریوں کو خاص طور پر دھیان میں رکھتے ہوئے شُرُوعات کرنا ہوں گی۔ مثلاً بڑا مذاق ہے شریکِ مُکالمہ شخصیات میں اور چلی آ رہی متعلقہ روایات کے معیار کے تفاوت میں کہ ان کو بھی مختلف درجوں پر مَس کِیا جا رہا ہے۔ مستقبل قریب میں سامنے نظر آنے والی رُکاوٹ کا یہی سب سے بڑا پہاڑ ہے جس کو کاٹ کر راستہ بنانا ہے اور بِلا شُبہ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ بھلے بہترین اُفتادِ مزاج، دُنیا بھر کی برکتیں اور نیک تمنّائیں کام کر رہی ہوں فی الفور تو رزلٹ نہیں دیا جا سکتا۔ یہ جادُو کی چھڑی نہیں کہ بس گُھمائی اور کام آسان۔ کہنے کا مطلب یہ ہے جناب کہ اِس کام یعنی مُکالمے کے لیے کہاں سے آئیں گے اِتنی اہلیت رکھنے والے اور پُوری استعداد و قابلیت کے حامل لوگ جو شرکت کریں اور مطلُوبہ نتائج بھی برآمد کر لائیں۔ ماڈرن اسلام کا بیشتر تعلُّق مربُوط ہوتا ہے کم ترقی یافتہ غیر موروثی زون سے۔ یہ کمزور ارتقا نہ صِرف مادّی بل کہ دانش ورانہ سطح پر بھی ضرر رساں ہوتا ہے۔ یہ حقیقت کہ ذِہن میں دو چار بلند مرتبہ مفکّرین کے نام ضرور آجاتے ہوں گے کہ اتنا بھی قحط الرّجال برپا نہیں، مگر دو ایک نام ور شخصیات آپ کے کام کی موجُود بھی ہوں تو اِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔صُورتِ حالات تو جُوں کی تُوں ہی رہی نا۔ یہ استثنا بس اُصُول کی خانہ پُری ہے۔ چُناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ (جناب کارنیلے سے معذرت کے ساتھ) یہ تو مُکالمے کو رِسک میں ڈالنے والی بات تو ہے ہی کہ اس کو دِی اینڈ لگ جائے یعنی ختم شُد، مگر یہ بھی آپ کو بتا دیں کہ مُکالمہ کرنے، سنبھالنے اور نتیجہ پر پہنچانے والوں کی کمیابی یہ نتیجہ سامنے لا سکتی ہے کہ اِس نیک کام کا آغاز ہی کھٹائی میں جا پڑے۔ اُصُولوں اور طریق ہاے طرزِ نظر کی کیسی بھی مُشکلات سے کہِیں بڑھ کر ایک حقیقت یہ بھی ہے جو اِس ہچکچاہٹ کا بھی پتا دیتی ہے، وہ ہے محتاط طبعی، عدم اعتماد، بھروسا نہ ہونا، اور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرح سے طاری ذِہنی و روحانی بانجھ پن بھی اثر انداز ہے، حال آں کہ توقّع اور اُمِّید سے زیادہ کوششیں بھی کر کے دیکھ لی گئیں اِس مُکالمہ بین المذاہب کے لیے اور یہ بھی ایک اور حقیقت ہے کہ اِس سلسلے میں پہل ہمیشہ مسیحیوں کی طرف سے ہوئی۔ اُنھوں نے ہی اِس مسیحی، مسلم مُکالمہ کی بِنا ڈالی۔
ایک اور ایسا فیکٹر ہے جسے نظرانداز نہیں کِیا جا سکتا۔ وہ ہے مذہبی نظریات و اُصُول و معتقدات کا غیر مساوی ارتقا و فروغ۔ مسیحی علم معرفتِ الٰہی میں مستفید ہو سکنے کا جوہر موجُود ہے۔ دُوسرے جو دانش ورانہ نظام ہیں جب بھی وہ ان کے رُوبرُو آتا ہے تو ان سے استفادہ کرنے سے نہ جھجکتا ہے نہ تنگیِ داماں کی شکایت کرتا ہے بل کہ جھولی بھر لیتا ہے۔ یہ جو تعقّلی نظام ہیں اِن میں جو خطرناک ترین تھے بالآخِر کرسچن تھیالوجی کی مناسب نشوونما کے اچھّے مقصد میں مددگار ثابت ہوئے جب کبھی مسیحیت کے یہ مذہبی نظریات و معتقدات تنقید و ہمسری کے دباو میں آئے۔ انجامِ کار ایسا دباو، نفع بخش دباو ہی نکلا۔ یُوں اسے اپنی اقدار کا اصل اِدراک ہُوا۔ اسے تسلّی بخش جوابات اور حل سُوجھے، ترمیم و تصحیح کے لیے بہُت زیادہ کوشِش سے کام لینے پر آمادہ ہُوا جس کے دوران بہُت اہم پیش رفت ہے کہ ایسے عناصر سے مالا مال ہو گیا جو مطابقت رکھتے ہیں اس کی داخلی فطری قُوّت سے۔
پس، فکرِ مسیحی ایک تسلسُل کے ساتھ جاندار بننے اور تقویّت پانے میں مصروفِ عمل رہا کیوں کہ اس کی وابستگی جو خالص و اطہر اور روایت میں اِنتہائی قابلِ اعتبار تھی اس کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ اِسے قُوّت بھی پہنچائی جا رہی تھی۔
خالص و اطہر ترین اور انتہائی قابلِ اعتبار روایت سے جُڑا ہوا فکرِ مسیحی کہ جب اس کی حفاظت کی جا رہی تھی اور اس کی اس روایت سے وابستگی کو مضبُوط بنانے کی کوشِش جاری تھی اس کا نتیجہ تھا کہ مسیحی فکر ایک تسلسُل کے ساتھ جاندار بنتا چلا گیا اور تقویّت پانے کا یہ عمل آج بھی جاری ہے کیوں کہ مسیحیت اسلام کی طرح کوئی جامد مذہب ہرگز نہیں۔ بل کہ ہر آن متحرک روایات کا فعال مذہب ہے۔ اس نے ہر زمانے کے مُطابِق اپنے آپ کو ڈھال لینے میں دیر کم ہی کی ہے۔ اس نے اپنی ترقی کی ایک سمت مقرر کررکھی ہے اور اس کا سفر زِنہار جاری رہتا ہے۔ انیسویں صدی سے اب تک مسیحی تفکّر کی جُملہ کوششیں، ہِمّت اور محنت موجُودہ وکونسل کو توڑ دِیے جانے کا سبب بنیں۔ ایسا کر دِکھانے میں چھوٹا بڑا کِس حد تک ایک ناٹک کھیلا گیا، بہُت سوں کی دِل شکنی ہوئی اور بہُت سوں کے لیے یہ سوہانِ رُوح مستقل ایک بُحران کی شکل اختیار کر گیا۔ اس کا ایک مثبت نتیجہ بھی سامنے آیا کہ اِس سب کُچھ کے بعد کلیسیا نے اِرادے کی پابندی پکڑی، مطلُوبہ صلاحیتوں سے لیس ہوئی اور مُکالمے کے لیے ہر دم تیّار۔ ہر مذہب، مسلک، فرقہ، جماعت، ان کے خیال و عمل اور عقیدہ و فلسفہ اور سائینسی طریق و قواعد جو اُن کے طرزِ عمل کے انضباط کے لیے استعمال ہوئے ان سب کے بغور مُطالَعہ کے بعد ماہرانہ قابلیت والے لوگ کلیسیا متعارف کروا سکتی ہے جو مُکالمہ کی راہیں ہموار کرتے ہوئے وہ نتائج سامنے لا سکتے ہیں جو ایک دُوسرے کو سمجھنے اور ایک دُوسرے کے مذہب، فرقہ، مسلک کا احترام کرنے کے فیصلہ پر انجام پذیر ہوں۔
کلیسیا کی ایسی سعیِ بے نظیر کے مقابل اسلام نے آج تک کیا کِیا ہے؟ دُن:یا کے سامنے ایسے دِینی فلسفے کا پرچار کِیا گیا جِس کے نمُو کا عمل بارھویں صدی میں ہی دم توڑ گیا۔ اس جمُود کے طاری ہو جانے کے بعد مسلم الٰہیات کا رابطہ واسطہ دُنیا سے بتدریج کٹتا چلا گیا۔ صدیوں پر صدیاں بیتتی چلی گئیں اس کے سامنے نہ کوئی مسائل سر اُٹھا سکے نہ کوئی آزمایش ہی آئی، راوی چَین لکھتا رہا۔ اسے کوئی مجبوری نہ تھی کہ بڑی بارِیک بینی سے تحقیق کرتا پھرے کہ کائنات کے بھید کیا ہیں یا خُدا کے بارے میں اسے کوئی جستجو ہو کہ اس گنجھلدار بُجھارت کے گُنجھل ہی کبھی کھول کے دِکھائے۔ اس کا مُلّا تو لٹھ لے کے کھڑا ہو جاتا ہے کہ نہ نہ نہ، اللہ تعالیٰ کے بارے میں کوئی سُوال نہیں کرنا۔ عامیاں دا کیہ کم، خاصاں والے مسئلے پُچھّن۔ یہ مذہب ہی وقت کے کولڈ سٹوریج میں چلا گیا۔ آنے والے وقتوں میں تاریخ کے طلباے علم جب مِٹ جانے والے مذاہب کے بارے میں ریسرچ کِیا کریں گے تو ان میں ایک موضوع ہو گا۔۔۔۔۔۔ اسلام، جسے مُلّا نے منجمد کر دیا۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ ''نہضہ'' اُنیسویں صدی کی نشاۃ الثانیہ، وقُوع پذیر ہوئی۔ یہ کوئی منفی تحریک نہیں تھی، پِھر بھی اسلامی اقدار و عقائد تاریخ کے مارچ کا ساتھ دینے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اسلام کے عُرُوج کے زمانوں کا پاسنگ بھی اس مذہب کا مقدّر نہ بن سکا۔ سوادِ اعظم نے لکیر کا فقیر بنے رہنے کی روِش نہ چھوڑی۔ سامنے ایک طویل سفر اور منزل دُور ہے اور۔۔۔۔۔۔
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
کا سبق اسلام کے کرتا دھرتاؤں نے جو بزعمِ خود آج اس کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں کبھی کا۔۔۔۔۔۔آؤٹ آف کورس۔۔۔۔۔۔ قرار دے کر ماضیِ بعید کی کامیابیوں، کامرانیوں پر تکیہ کیے بڑی بڑی بُلٹ پرُوف گاڑیوں میں آ، جا میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کُچھ شک نہیں یہ ایک زندہ مذہب ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ زوال کی نذر ہو چُکا ہے، ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اپنا عُرُوج کھو چُکا ہے، قائم نہیں رکھ سکا۔ تحریک تیاگ کر مُلّا مسجد اورمدرسہ کی تکون میں فریز ہُوا پڑا ہے۔ اِسی لیے مُلّا ملٹری مارشل لا کی تثلیث اسے راس آتی ہے اِس لیے بہُت مرغُوب ہے۔ اچھّی بات اسلام کی یہ ہے کہ اس کا سفر رُکا نہیں، جیسے تیسے، گِرتے پڑتے رینگتے، جاری ہے۔
اُٹھدے بہندے، بہندے اُٹھدے، اَسِّیں آواں گے کدے شہر تیرے
اگر ہم ایسی دُشواریوں پر قابُو پانا چاہتے ہیں جن سے ذِہنی تحفُّظات اور عدم اعتماد کو شہہ ملتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ انھیں عامۃ النّاس کے بھی علم میں لے آئیں۔ اس میں نہ کوئی تکلّف برتا جائے، نہ پردہ رکّھا جائے، نہ ہی کِسی کمزوری کا اِظہار کِیا جائے۔ بِلا کم و کاست سب کُچھ ٹیبل پر آجائے۔ ہاں، ایک بات اور۔۔۔۔۔۔ اگر ایک فریق میں احساسِ برتری اُچھل اُچھل پڑتا ہو اور دُوسرا احساسِ کمتری کا شکار ہو تو ان کے مابین مفیدِ مطلب مُکالمہ شُرُوع نہیں ہو سکتا۔
3۔ اسلام اپنی مشکلات اور پریشانیوں پر غلبہ ضرور حاصل کرے
آپ کو یاد ہو گا ہم نے شدّو مد سے اِس امر کی اہمیت بیان کی تھی کہ کامیاب مُکالمہ کے لیے ضروری ہے برابری کی سطح پر اس کا آغاز کِیا جائے لیکن جاری صُورتِ حالات میں ایسا ہو نہیں رہا۔ مُکالمے کے ترازو میں فریقین کے پلڑے برابر برابر نہیں ہیں۔ کِسی بھی غلط فہمی کے زعم میں اسلام کو سزاوار نہیں کہ وہ برتری یا کمتری، کِسی بھی قسم کے احساس کی دُم پکڑے، مسیحیوں سے مُکالمہ کرنے آجائے۔ مسیحیت تو مسیحیت کِسی بھی مذہب کو اپنے والے سے کمتر نہیں گرداننا چاہیے۔ عصرِ حاضر میں سرحدیں مسام دار ہو چُکی ہیں۔ انسانی روابط روکے نہیں جا سکتے۔ گرویدہ کر لینے والے دلکشی و دلفریبی کے لوازمات کو پنچھی، ندّیا اور پَوَن کے جھونکوں کی طرح کوئی بھی سرحد نہیں روک سکتی۔ کتابیں، میگزین، فلمیں، ویڈیو، ٹیلی وژن، فیس بُک، ٹوئٹرز، مختلف ویب سائٹس وغیرہ، وغیرہ اور مزید وغیرہ مثالیں ہیں، آپ کے سامنے۔ شور و شغب، شورشوں، ہنگاموں، مقابلوں اور فتنوں فسادوں سے بھری اِس دُنیا میں تنہائی، علیحدگی پسندی، دیوانے کے خواب سے بڑھ کے اور کوئی بھی چیز نہیں۔ نسلِ انسانی تو اس دم نَوبلُوغت کے ایک نئے بُحران سے گذر رہی ہے۔ اس انقلاب کے عمل اور ردِّ عمل سے بچا جا سکے، ایسا ممکن ہی نہیں۔ درس و تدریس کو جس طرح جمہوری رنگ دیا جا رہا ہے، عوامی بنایا جا رہا ہے۔ سُوچ و فکر کے معیار میں رفعت پیدا کرنے، زندگی کے بدلتے سنورتے انداز کا معیار مزید بلند کرنے میں سکُولوں سے لے کر یونی ورسٹیوں تک کی تعلیم بڑا نُمایاں کِردار ادا کر رہی ہے اور عصری تقاضوں کے مُطابِق تمام قدروں میں تبدیلی نظر آنے لگی ہے، مگر ہمہ گیریت کے بغیر ایسی تبدیلیاں جب کہِیں، کِسی وقت وقُوع پذیر ہونے لگیں تو مہلک بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ مسلمان ایسے 'متعدی مرض' میں کبھی نہیں پکڑے جکڑے گئے نہ ہی احتیاطی تدابیر کے تحت بے چاروں کو کبھی حفاظتی ٹیکے لگے ہیں۔ ویسے بھی مذاہب آج کل سماجی حقیقت کے بجاے شخصی مُعاملہ بننے کے ساتھ ساتھ شُعُوری سطح کی ذِمّہ داری کی ذاتی شکل اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ مذہب ایک پرائیویٹ مُعاملہ بن جائے۔ الٰہیاتی مذاہب کے لیے یہ لمحہء فکریہ ہو گا۔ کِسی بھی مکتبہء فکر کے ساتھ، بغیر استثنا و استخراج، اس صدی میں بھی اسلام نشاۃ الثانیہ سے گذرتے ہوئے مُکالمہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا، تنگ نظری کا شکار رہتا ہے، اور اپنے ماننے والوں کی روحانیت کو جِلا نہیں بخشتا، ان تمام اقدار سے کہ جو اگلے وقتوں میں دی گئی گواہی سے متصادم نہیں۔ اسلام انجذاب سے پہلُو تہی اختیار کرتا ہے تویہ نوشتہء دیوار سمجھے کہ زمین پر اسے جس مقصدِ مامورہ کے لیے اُتارا گیا اس میں فیل ہو جائے گا۔ پٹڑی سے اُترے ہوئے اسلام کا نظارہ یونی ورسٹیوں، تعلیمی اداروں اور دِینی درسگاہوں میں بِلا تخصیص کِیا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں میں یہ تبدیلی نمایاں ہے اور خاطر خواہ ترقّی پذیر، خوشحال طبقات میں نمایاں تر۔ اسلام کے باب میں ایک پھیکی پھیکی سی اُنسیت اگر ہے بھی تو وہ اثر آفریں ثقافتی ورثے کے طورپر ہے جو دادا پردادا سے ہوتا ہُوا اُن تک پہنچا اور اب بطور لیبل ان پر بہ ہرحال چسپاں تو ہے۔ (اتنا بھی درخورِ اعتنا سمجھتے ہیں، مہربانی ہے ان کی!)۔ آخِر میں یہ ہم عرض کر دیں کہ ماننے والوں، نہ ماننے والوں، ایمانداروں اور ایمان سے خالی لوگوں، مذہب پرستوں اور مذہب گریزوں الغرض ایسے ہمہ قسم لوگوں سے مُکالمے کی صبر آزما مہم تمام اختلافات و تفاوت کے ہوتے ہوئے اس لمحہء موجُود میں ہیئت کی ناہمواریوں اور عدم مساوات کے باوُجُود جب اس سب کُچھ پر ٹھنڈے دماغ سے غور کِیا جاتا ہے تو مُکالمہ کی یہ مُہِم کم خطرناک نظر آتی ہے بہ نسبت بندوں کے اپنے رویّوں میں سخت بے لچک ثابت ہونے کے۔ پِھر تو حد ہی ختم ہو جاتی ہے جب یہی لوگ سرحدوں کا دفاع کرنے کے لیے جان پر کھیلنے پر آمادہ نظر آئیں، او روہ بھی آج کی دنیا میں کہ جب سرحدیں قصہء پارینہ لگنے لگیں۔ یہ تو کہنا پڑے گا کہ موجودہ عہد سے مطابقت نہ رکھنے کی تاریخ سے چُوک ہو گئی۔
4۔ شرائط مُقدّم براے مُکالمہ
اظہر من الشمس ہے کہ مُکالمہ کا عمل میں آنا کتنا بھی ممکن نظر آ رہا ہو، اسے اپنی منطقی تکمیل تک پہنچانا کارِ دارد والی بات دِکھائی دینے لگتا ہے۔۔۔۔۔۔
ہزاروں لغزشیں باقی ہیں لب تک جام آنے میں
ہمیں چاہیے کہ ہم پکّے پیریں، حُدُو و قیُود مقرر کر دیں، شرائط لاگُو کر دیں، پیرامیٹرز طے کر دیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے فریقین اِس پوزیشن میں آجائیں کہ مُکالمہ کو ہرممکن طور کامیاب بنانے میں قدم آگے بڑھا سکیں اور وہ جانبین کے لیے مساوی طور پر سُود مند ثابت ہو سکے۔۔۔۔۔۔۔ اِس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں ان زہریلے رویّوں سے احتراز کرنا ہو گا جو غلط فہمیوں کو بڑھاوا دینے والے خود کفیل ذرائع ہیں، اُمِّید توڑنے اور مایُوسیاں پھیلانے میں یکتا ہیں، اور خطرناک بات یہ ہے کہ تلخیاں پیدا کر دِکھانا جن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ان رویّوں کا تعلُّق اس اُفتادِ طبع سے ہے جو بحث و نزاع کو جنم دیتی ہے۔ ایسے رویّوں سے پرہیز لازم ہے جو مصالحت، مروّت، حُسنِ اخلاق اور آسُودگی پر سڑک کُوٹنے والے انجن کی طرح پِھر جاتے ہیں اور بورڈ لگا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔آگے سڑک مرمّت کے لیے بند ہے، معذرت!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ''معذرت'' کے ساتھ اچھّا بھلا جاری مُکالمہ ''مرمّت'' کے بعد بند ہو جاتا ہے۔
راوی اختلافی مسائل و اختلافِ راے سے پرہیز لکھتا ہے
ازمنہء وسطیٰ میں مناظرانہ رُجحان نے وہ وہ نقصانات پہنچائے ہیں کہ رہے رب کا نام! نہ صِرف مادّی طور پر بل کہ ایسے شعبہ ہاے زندگی میں بھی جن کا واسطہ اخلاقیات اور فہم و ادراک سے تھا ان پر بھی اس مناظرانہ رُجحانِ غالب نے اپنے منحوس پر پھیلائے رکھے، خامیاں مبالغے کے ساتھ ہجویہ انداز میں اُچھالی جاتی رہیں، بطلان، دروغ بافی، کِسی کو دھوکا دینے کے لیے غلط بیانی سے کام لینا، الزام تراشی،بُہتان باندھنا فُنُون کا درجہ اختیار کر گئے جن کے ماہرانہ خواص کی رونمائی آج بھی وقفوں وقفوں سے جاری ہے۔ صداقت کے نام پر خباثت پھیلائی جاتی ہے۔ سچ پر جھُوٹ حاوی ہو گیا، حق و صداقت اور شیطنت میں پہچان مشکل ہوگئی۔ ایک بِھڑ نے کاٹا، پُورے چھتّے کو ہی آگ لگا دی۔
ڈبلیو منٹگمری واٹ نے دُرُست کہا کہ جب کوئی کرسچین یا مسلم یہ ٹھان ہی لے کہ دُوسرے کے مذہب، شخصیات یا پیروکاروں پر کیچڑ اُچھالنا ہی اُچھالنا ہے اور ایک دُوسرے کے خلاف جانے والے نکات جمع کرنے ہی کرنے ہیں تو یقین مانیے اِس میں بوری نہیں، بورا بھر کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ حرکت آپس کے مُکالمہ کو نقصان پہنچائے گی، فائدہ نہیں۔ ادب و احترام، رواداری سے کام لیں گے تب بات بنے گی (''یہ اسلامک ریویلیشن ان دی ماڈرن ورلڈ'' ایڈنبرگ، 1969ع، ایس121سے پیش کِیا گیا اقتباس تھا)۔
ہمارے لیے احتیاط لازم ہے۔ خبردار ہو کے ہمیں چاہیے کہ اِس نو سرے اژدہے یعنی ایسی دُشواری و عذاب میں گُندھی بلا جس کے کئی ماخذ ہیں اور اس کا خاتمہ بھی خالہ جی کا باڑا نہیں، پورے حواس جمع کر کے، ہِمّت اور دلیری سے اس کا خاتمہ کر دیں۔ دُوسروں کے مذاہب میں کیڑے نکالنے والے اس عفریت کو پُوری مُعاشرتِ انسانی سے جب نیست و نابُود کر دیں گے تب صلح، امن، رواداری اور خیر سگالی کی فضا پیدا ہو گی۔ پہلے سے سرگرم مناظرانہ جذبات کو انٹارکٹیکا کی برفوں تلے دفن کرنا ہو گا۔ ٹھنڈا ہونا ہی ان کی فنا ہے۔
مُکالمہ سرزمینِ احتیاط و گرمجوشی و خُلُوص ہے۔ ہمیں ہر ایسے سُوچ اور ایسی ریشہ دوانیوں کو ترک کرنا ہو گا ماضی میں جن کی وَجہ سے باہمی ربط و مصالحانہ گُفتگُو کو نقصان پہنچتا رہا اور معقُولیت کے خلاف گُناہ کی حد تک ارتکاب جاری رہا۔ مُکالمہ کرنا فضُول میں وقت برباد کرنے، موقع ضائع کرنے کے مترادف ہو گیا کیوں کہ کھُلے بندوں یا من مندر کے نہاں خانوں میں یہ کوششیں کی جاتی رہیں کہ دُوسروں کو اُن کے دِینی عقائد سے بد دِل کر کے اپنے مذہب کے پیروکار بنا لیا جائے۔ مخاطبین پر مُکالمے کا یہ خطرناک استعمال دِینی و اخلاقی، آئینی و قانونی لحاظ سے ہر مُعاشرے کی نِگاہ میں جُرم ٹھہرا۔ اور اِس طریقِ مُکالمہ کی حمایت کرنے والے عُذرِ گُناہ، بد تر از گُناہ کے مرتکب ثابت ہوئے۔ مُکالمے کے ضمن میں یہ تصوُّر باندھنا کہ اس کے ذریعے اپنے دِین میں دُوسروں کو داخل کرنے کا ایک نیا حربہ ہاتھ آگیا، اور یہ قیاس کر لیا جائے کہ کِسی کے یقینِ کامل، حق سچ کی شناخت اور اُس کے مضبوط عقیدے کی مُکالمہ کر کے بُنیاد ہی کھوکھلی کی جا سکتی ہے، تو جانِ من یہ پینترا تو مناظرہ کہلائے گا، مُکالمہ نہیں۔ اور تب دیر نہ لگے گی اور ہم سب اپنے آپ کو ان حالات و حادثات کا شکار بنا دیں گے جن سے ہم تمام مذاہب والے قرونِ وسطیٰ میں سامنا کرتے رہے بل کہ یہ کہنا چاہیے کہ جن کے نتائج ہم بھُگتتے رہے تھے اوربھُگت رہے ہیں۔نہ کبھی کِسی مذہب کو شکست ہوئی اور نہ ان کے ماننے والوں نے کبھی ہتھیار ڈالے۔ وِن وِن کی پوزیشن رہی۔ ہمیں مُکالمے کو داو پیچ، شاطرانہ چالوں اور منافقانہ حربوں کا نشانہ نہیں بننے دینا۔ خُلُوصِ نیّت، ایمان داری اور پیار محبّت کے ساتھ مِل کر جینے کی آسان راہیں تلاشنے والا لائحہء عمل اپنانا ہو گا۔ اِسی لیے
ہم نیک و بد حُضُور کو سمجھائے دیتے ہیں
بدل گئے محاذ
ایمان لانے والوںکو چاہیے کہ اِس حقیقت کو سمجھیں، پلّے ہی باندھ لیں کہ کلاسیکی عہد سے نشاۃ الثّانیہ تک کا زمانہ اب تک بہُت بدل چُکا ہے۔
اُٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
فرقہ وارانہ دراڑیں اپنا کام دِکھائے چلی جا رہی ہیں اس کے باوُجُود پہلے کی طرح مختلف مذاہب کے درمیان خُطُوطِ تقسیم وَہِیں کے وَہِیں نہیں پڑے ہوئے بل کہ ان خُطُوط نے اپنی سمتیں معقول حد تک بدل لی ہیں۔ خُدا کے بارے میں مافی الذّہن میں اختلافات کے نتیجہ میں مخاصمت کے ضمن میں بھی دُنیا میں بہُت کمی آگئی ہے اور اس پر بھی اعتراضات خال خال ہی اُٹھتے ہیں کہ پُوجا پاٹ، مَتھّا ٹیکی، عبادت و طاعت کے طریق جُدا جُدا کیوں ہیں۔ اب اس کی جگہ ایک اور ہی قسم کی تفریق اُبھر آئی ہے۔ فریقین میں یہ فرق ہے کہ ایک گروپ ہاتھ پاؤں مسلسل مارے جا رہا ہے کہ کِسی نہ کِسی طرح اِنسان کو اپنی منزلِ مُراد مِل جائے۔ اگر مِل جائے تواس میں ذاتِ خُداوندی کا کِسی قسم کا کوئی عمل دخل نہ ہو، انسان کو اپنی کوشش، محنت اور منصوبہ بندی سے کامیابی حاصل ہوئی ہو۔ اس گروپ کا ذِہن خُدا کے تصوُّر سے خالی ہے۔اور دُوسرا گروپ وہ ہے جس نے اپنا مستقبل خُدا کے ہاتھوں میں تھما رکھا ہے۔ اُنھیں خُدا پر بھروسا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اگر پتّا بھی درخت پر ہِلتا ہے تو اُسی کے حُکم سے ہِلتا ہے۔وہی بہتری کرے گا، سب کی بہتری۔ تفاوت کی ان کے درمیان پھیلی گہری خلیج تو بڑھے گی ہی کیوں کہ اِنھوں نے تو خُود سِپُردگی کے عالم میں آنکھیں مُوندے مُوندے، بِلا امتیاز، اندھا دُھند اپنے اپنے مذہب کی اساطیری زنبیل میں اپنا آپ ڈال دیا ہے۔ اِس خطِ تقسیم کے دُوسری طرف وہی پہلے والے لوگ ہیں جو یقین کیے بیٹھے ہیں اُس پر جسے وہ سچ مانتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ناقابلِ پیمایش، اتھاہ اور بے کراں سچ(۔۔۔۔۔۔)۔
محض دلیلوں سے بھی مذہب کبھی بدلے ہیں
اور یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ دنیا کے جتنے بھی بڑے بڑے مذاہب ہیں اور جو اپنے فروغ و نشوونما میں بھی ایک دُوسرے کے ہم پلّہ ہیں وہ بھی عقائد کی تبدیلی پر مائل کرنے میں یُوں شاید ہی کبھی کامیاب رہے ہوں کہ تبلیغِ نو اعتقادی اور بحث و مناظرے کے بل پر لوگوں کو اپنے مذہب پر لے آئیں۔ ایسی کوئی مہارت اُن کے اس کام نہ آئی کہ ایک دِین چھوڑ کے دُوسرا اختیار کرنے کا عمل کوئی بھی فرد اختیار کر لے۔ کارلو کوچِیولی جس نے ''رمنٹ دی دِیو'' لکھی تھی وہ مسیحیت سے پِھر کر یہودیت میں جا شامل ہُوا۔ ایڈتھ سٹائن نے یہودیت سے توبہ کی اور مسیحیت پر ایمان لے آئی۔۔۔۔۔۔مگر قسمت تیرے کھیل نرالے! بُنیادی طور پر تو وہ یہودی تھی نا، یہودی خاندان!، اسی کی پاداش میں اُس کی زندگی کو آؤ شوٹس جرمن کیمپ میں بھڑکتی بھٹّیوں کے شعلوں نے نگل لیا۔ ازابیلے ایبیرہارٹ نے لومبر شود دے لسلام میں پناہ تلاش کی۔ اس کی بھی تربیت اس کے برعکس تھی جو اُس نے کر دِکھایا۔ زیادہ محنت و توجُّہ طلب اور زیادہ اُلجھی اُلجھی مشکلات اور صُعُوبتوں سے اٹی طویل روحانی مسافت والی آخری منزلِ مُراد جو ہوتی ہے اسی کے یہ سب راہی تھے جنھیں گہرے احساسات کے بھرپور مخصوص کڑے نفسیاتی طور منفرد ڈرامے کا اہم کِردار نصیب ہُوا۔ ایسی منازل کے راستے اُنھوں نے خُود چُنے۔
فریضہء رسالتی خدمت
لیکن جناب! اس پر بھی ذرا سا غور کہ تبدیلیِ مذہب کی منزلِ مقصود تک کِسی کو پہنچانے کی راہ میں نئے مذہب کی قُبُولیت سے پہلے پُرانے مذہب سے بددِل کروانے کے پڑاو سے بھی گذرنا ہوتا ہے جو بڑاضروری اور کٹھن مرحلہ ہوتا ہے، ان پر جو لوگ ابھی پُوری طرح اس کی عملداری میں داخل نہیں ہوئے ہوتے۔ تو کیا یہ خُدا کی طرف سے کِسی پیشہ (دعوتِ دِین) کو اختیار کرنے کی روحانی طلب والے اور سب کی نجات کے قائل لوگوں کا دُوسروں کو تارکِ ایمان ہونے پر آمادہ کرنے کا فعل اُن کے اپنے آدرش سے ٹکرانے کے مساوی نہیں؟ اس کے ماضی سے اغماض برتنا نہیں؟ رسالتی خدمت کے فرض کی ادائی پر اس سے حرف نہیں آئے گا کیا؟ یہ ٹھیک وہی لمحہء فکریہ ہے جب ہمیں عزم کرنا ہو گا کہ ابہام یعنی گول مول بات کرنے سے ہمیشہ اجتناب برتنا ہے اور دو ٹوک الفاظ میں اصل مقصد بیان کرنا ہے۔ ہمیں، ہم سب کو، اپنے مشن میں مخلص ہونا پڑے گا اور کامیابی حاصل کرنے کی لگن اور کارکردگی کو مہمیز لگانا ہو گی تا کہ دُوسرے اندیشے سے بھی باہر آجائیں۔ وہ اندیشہ، وہ خطرہ ہے بے جا مروّت کا، اُوپر اُوپر کی سطحی مصالحت کا۔
کوئی بھی ہو، خواہ دِین دار خواہ بے دِین، اسے کوئی حق نہیں کہ مُعاملے کو وقتی طو پر رفع دفع کرنے کی خاطر ہی سہی، اپنے مضبوط عقیدہ یا دُوسری صُورت میں اپنے یقینِ کامل سے خواہ مخواہ کی بے وفائی کرے۔ اپنے نظریات کے رِسک پر کِسی کو کوئی سمجھوتا بازی زیب نہیں دیتی۔ یہی ارتقا کا ناقابلِ اعتراض قانون ہے اور صداقت تک رسائی کے لیے اُٹھنے والے اقدام کا علامتی قدم ہے۔ علاوہ ازیں، سچّا عقیدہ اور پُختہ یقینِ کُلّی جو کِسی کے جیون میں رچ بس گئے ہوں ان پر گُفت و شنید بدمزگی ہی پیدا ہونے کا سبب بنے گی۔ اور یہ جو ایک انتہا سے جھُولا لے کر دُوسری انتہا کو چھُونے والی حکمتِ عملی ہے، عجیب سی ہے، جس میں بہ ہر صُورت، بہ ہر قیمت یہ نتیجہ اور یہ کامیابی حاصل کرنا مقصُود ہو کہ مصالحت اور بھائی چارے کی صاف شفّاف پُربہار فضا پیدا ہو جائے، بھلے دِلوں کے موسم بدلیں نہ بدلیں۔ مبہم سی بات ہے۔
سمجھوتوں پر مبنی آشتی پذیر مصالحانہ حل جو نہاں خانوں میں، اندر ہی اندر، امتزاجِ ضِدّین ہوتے ہیں۔ یُوں جانیے مذاہب میں کٹّڑ، مخالف، اَن مِل اُصُولوں یا گروہوں کی براے نام سی کوشِش ہوتی ہے مگر وہی بات کہ مصالحت کی اصل رُوح کہِیں پنپتی نظر نہیں آتی۔ خیالات کی پراگندگی (انتشار) جلد سب کیے کرائے پر پانی پھیرنے کا مُوجب بنتی ہے۔ ہم جس ذوق شوق، تندہی، خُلُوص اور نیک ارادوں کے ساتھ مُکالمے کو رواج دینے کے حق میں ہیں اور جیسا مُکالمہ چاہتے ہیں کہ کامیابیوں سے ہمکنار ہو، وہ کِسی پالیسی کا شاخسانہ نہیں۔ مَیں آپ کو یقین دِلاتا ہُوں کہ اِس بھلے کام کے پیچھے امنِ عامہ ہے کوئی چالاکی ہوشیاری نہیں۔ نہ کوئی ایسی مذہبی حکمتِ عملی کہ دُنیا کو مسیحی بنا لیا جائے نہ ہی سیاسی مصلحت کوشی کہ چاردانگ عالم میں صلیبی راج قائم ہو جائے۔ اور۔۔۔۔۔۔ نہ ہی مفاہمت میں مہارت کے فن کی کوئی ایسی مشق کہ جس کے زور پر وہ تمام نتائج حاصل کر لیے جائیں جو صرف اپنے ہی مفاد میں ہوں۔ اِین چیزے دیگر است۔ یہ تو ضروری، لازمی اور سب کے لیے بھلے کی بات ہے۔ لوگوں میں ایک دُوسرے کے لیے، ایک دُوسرے کے مذہب کے لیے، اپنے میں برداشت پیدا کرنے والی بات ہے۔ جیو اور جینے دو کے مقولے پر عمل کرنے کی بات ہے۔ پیار، محبت، رواداری اور بھائی بندی کو ہوا دینے کی بات ہے تا کہ دُنیا میں امن ہو، ترقّی ہو، خوش حالی ہو۔ اور اس کے حُصُول کے لیے مُکمَّل نیک نیّتی اور خُلُوص درکار ہے۔اور اس کا پھل پانے کے لیے کانٹے بچھانے کی نہیں، پھُول کھلانے کی ضرورت ہے۔ آدمی کو انسان بننے کی ضرورت ہے۔ جارحانہ خیالات اور وقتی سمجھوتوں کی نہیں، پایدار امن، اتفاق، یگانگت، اخوّت، محبّت اور بھائی چارے کی ضرورت ہے۔ دُنیا در اصل گلوبل ولیج ہے، اس میں بسنے والے بِلا شُبہ رشتہ دار۔
رسالتی خدمت کے کیا تقاضے ہیں، اِس بارے میں تجزیہ کرنے بیٹھیں تو معلوم ہو گا کہ پُختہ عقیدوں سے ٹکراتی ہوئی دلیلیں دے کر تبلیغ براے نو اعتقادی اندھے کے ہاتھ میں لاٹھی تھمانا ہے۔ رسالتی خدمت کو مناظرے کے کھنگروں سے دُور ہونا چاہیے۔ اگر اِس نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو یہ خدمت لازمی طور محتاط کُشادگی اور چوکس صاف دِلی سے ہمساےے کو رام کرتی نظر آتی ہے۔ صداقت و دیانت، حق سچ، راستی و اصلیّت کے لیے تلاشِ مُسلسل اور مذہبی اقدار کا عُمُق اور علی التّواتر انجذاب اپنے آخری آخری تجزیہ میں رسالتی خدمت کا شاہدِ نقطہء عروج قرار پاتا ہے۔ ایسی ادائیِ فرض عربی زُبان کی اصطلاح جہاد سے کِسی طور کم نہیں۔۔۔۔۔۔ جی جہاد۔۔۔۔۔۔ جہاد کا ذِکر سُنتے ہی لوگ ممکن ہے چونک اُٹھّیں، اُن کے ذِہن کے پردئہ سیمیں پر ماضی کی مُقدّس جنگوں کی فلم اور پِھر مستقبل کی لڑائیوں کے فلیش فارورڈ بھی چلنے لگیں۔کیوں کہ اِس لفظ (اسم) کے ساتھ منسُوب نہ جانے کیوں جنگ و جدال کے سِوا بظاہر اور کُچھ نہیں۔ مناسب ہے مَیں وضاحت کر دُوں، الفاظ اور زُبان کی ساخت و معانی (علمِ صَرف) کے لحاظ سے اور اساسی طورپر بھی جہاد کا لڑائی بھڑائی سے تعلُّق واسطہ ہے ہی نہیں۔ حربی متعلقات کو مختلف نام دینے میں عربی زُبان کا ہاتھ ذرا بھی تنگ نہیں، مترادفات، ہم معنی الفاظ اِتنے کہ عقل دنگ رہ جائے۔ اگر مسلمانوں کی مُقدّس کتاب القرآن میں جہاد کا ذِکر محض کافروں کے خلاف جنگ کے معنی میں استعمال کِیا جانا مقصُود ہوتا، پِھر تویہ ایک لفظ ہی کیا عربی زُبان وسیع، فصیح، بلیغ ہی ایسی ہے کہ پلک جھپکتے میں سامنے اِتنے الفاظ ہاتھ باندھے خُود آن کھڑے ہوتے کہ انتخاب آسان نہ رہتا۔ آغازِ اسلام کی شاعری کبھی کھنگال کے تو دیکھیے، الفاظ اور مترادفات کا اظہار بوکھلا کے رکھ دے گا۔ اس شاعری میں عربی النّسل قوم کے سنہری دِنوں کی تعریف کے پُل باندھے گئے ہیں۔ جزیرہ نماے عرب کے ان باشندوں کے وہ سنہری ایام العرب بھی کیا تھے، فارغ البالی کے زمانے تھے، وقت گزاری کے لیے اُن کا پسندیدہ مشغلہ تھا ایک دُوسرے کو چیر پھاڑ کے رکھ دینا، اس شغل کے لیے بہانے بھی بہُت تھے حوصلہ، افزا قصیدے اور ہِمّت بڑھانے والی رجزیہ شاعری کے بھی طومار بندھے تھے۔ اپنوں کی تعریف اور دُشمنوں کی ہجو میں ایک ہی مطلب کے سو سو بل کہ اِس سے بھی زیادہ الفاظ۔۔۔۔۔۔ استعمال کرنے والے کو بڑا شاعر سمجھا جاتا تھا۔ تلوار کو یا گھوڑے کو عربی میںکیا کیا نام دیے گئے ہیں، گننے والا تھک جائے، نام ختم ہونے کا پلّہ نہ پکڑائی دیں۔ اِس لیے مَیں نے جو عرض گزاری وہ غلط نہ تھی۔ جنگ، خون خرابے، لڑائی جھگڑوں کے لیے عربی میں سیکڑوں الفاظ جہاد کی تو بات ہی الگ ہے۔ فطری و بُنیادی طور پر فی الحقیقت یہ ایک نقطہء عروج ہے۔ انتہا ہے اس جدوجہد کی جو خالص اللہ کے لیے، فی سبیل اللہ، اُس کی راہ میں، اس کی منشا کے مُطابِق، اُس کی خُوشی کے لیے کی جاتی ہے۔ احادیث و سُنّتِ پیغمبرِ اسلام کی روشنی میں یہ بات یُوں صاف ہو جاتی ہے کہ اس جِدّوجُہد کی شفّاف، درجہء کمال کو پہنچی ہوئی اور ثمر آور شکل ہے۔۔۔۔۔۔ جہادِ اکبر، جس کی جلوت ضمیر کی خلوت میں کارفرما ہے۔ خُلاصہ یہ کہ جہاد نام ہے خیر و شر کے احساس کا۔ ماں باپ کی خدمت، تحصیلِ علم، انسانیت کی بہتری کے لیے دِن رات ایک کر دینا، یہ سارے اعمال جہاد فی سبیل اللہ کے ذیل میں آتے ہیں۔
اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ رسالتی خدمت کی نفیس و عُمدہ ترین جو شکل ہے وہ ''گلِّیں باتیں'' نہیں بل کہ عملی زندگی کا نمُونہ پیش کر کے گواہ بنائی جاتی ہے۔ ایسی ہی مثالی خدمت ثُبُوت بن جاتی ہے اُس بلند اخلاقی کا جو فاتحِ عالم تصوُّر ہوتی ہے۔ گُفتار نہیں، کِردار و اعمال سے مُتاثّر کرنے والی رسالتی خدمت۔۔۔۔۔۔ مُقدّس رسالتی خدمت ہی مطلُوبہ نتائج سامنے لا سکتی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ جدید ذِہنی و فکری اُپج کے ساتھ اس کی خُوب بنتی نظر آتی ہے۔ چُناں چہ کِسی کی دِینی وابستگی و مذہبی عقیدے کو بدل کر دُوسرا راستہ اختیار کروانے کے عمل کی بھی حاجت نہیں رہتی کیوں کہ۔۔۔۔۔۔
شنیدہ کَے بود مانندِ دیدہ
قرآنِ شریف میں پیغمبرِ اسلام کو یاددہانی کروائی گئی ہے:
إِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللَّہَ یَہْدِیْ مَن یَشَاء ُ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْن
ترجمہ:''آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بل کہ اللہ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خُوب آگاہ ہے''۔
(سورۃ القصص، آیت56)
اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر نبی پاکؐ پر واضح کِیا کہ آپ کا کام صرف تبلیغ و دعوت اور رہنمائی ہے۔ لیکن ہدایت کے راستے پر چلا دینا، یہ ہمارا (خُداکا) کام ہے، ہدایت اُسے ہی ملے گی جسے ہم (خُداوندِ قُدُّوس) ہدایت سے نوازنا چاہیں نہ کہ اُسے جسے آپ ہدایت پر دیکھنا پسند کریں۔
در حقیقت جہاں تک مُقدّس رسالتی خدمت کا تعلُّق ہے، ہمارا فریضہ سمجھیے ادھر ہی انجام پا چُکا جب ہم نے دِین اپنانے کی دعوت دی، اپنے قول و فعل کی گواہی کے ساتھ۔ جو ہم نے کہا، وہ ہم میں نظر بھی آیا۔ بس، ہمارا کام ختم۔ آگے خُدا کے چاہے کی بات ہے۔ وہ چاہے بے شک کِسی کی کایا ہی پلٹ دے، نہ چاہے تو لوگ چِکنے گھڑے کے گھڑے ہی رہیں۔
وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَاء عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْْکُمْ شَہِیْداً
ترجمہ:''اور اسی طرح ہم نے تمھیں عادل اُمّت (اُمّتِ معتدل، درمیانی اُمّت) بنایا ہے تا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول تم پر گواہ ہو جائیں۔۔۔۔۔۔''۔
(سورۃ البقرۃ:143)
(وسط کے لُغوی معنی تو درمیان کے ہیں لیکن یہ بہتر اور افضل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مقصد اِس کا یہ ہے کہ تم لوگوں پر گواہی دو۔ سورۃ الحج:آیت78میں آیا ہے :''رسول تم پر اور تم لوگوں پر گواہ ہو''۔ وسط کے ایک معنیاعتدال کے بھی کیے گئے ہیں، یعنی اُمّتِ معتدل یعنی افراط و تفریط سے پاک۔ عادل اُمّت اِس لیے کہ مسلم عقیدہ کے مُطابِق روزِ قیامت یہ اُمّت گواہی دے گی عدل کے ساتھ)۔
صحیح، امکانی طورپر مسلم تھیالوجی (وحی پر مبنی اسلامی دینیات) کے رسالتی خدمت والے باب پر حزم و احتیاط اور پوری صداقت سے دھیان دیا جائے تو مسلمانوں کو بھی دُوسروں کے حُقُوق کا احترام کرنے والوں کی صف تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ یہی بات خُود مسیحیوں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے، وہ بھی انسانی حُقُوق کے چیمپیئن بن سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔
شہادت قُبُول کر کے تو سب سے عظیم شہادت مسیحیّت سے بڑھ کے کِس نے دی! انسانی حُقُوق کے احترام والی شِق دُوسرے ادیان پر بھی اسی طرح لاگُو ہوتی ہے جس طرح دِینِ مسیحی کے پیروکاروں پر، اور مذہبِ اسلام کے ماننے والوں پر۔ لہٰذا ایک کی بقا میں دُوسرے کی بقا ہے جینے مرنے کا ساتھ ہے، کاروبارِ حیات میں پُورا تعاون ضروری ہے۔ خُودی سے دُوری اختیار کرکے نہیں اور نہ ہی اپنے اِذعانِ مستحکم سے دست برداری کا کڑوا گھُونٹ پی کر، ایسا ہو جائے تو کامیابی ممکن ہے۔۔۔۔۔۔ صرف ممکن ہی نہیں بل کہ نتیجہ خیز اور سود مند بھی ہے۔ چُناں چہ جب دونوں انتہاؤں یعنی مناظرانہ تبلیغ کے انگ والی اور میانہ روی یعنی بین بین راہ اختیار کرنے والی، مراد یہ کہ کِسی بھی سمجھوتے پر لچک دِکھانے والی اور صلح جُوئی اور بُردباری پر راضی بہ تعاون دونوں سے اگر اجتناب کِیا جائے گا تو رسالتی خدمت کے تفویض کردہ فرض کی تعمیل میں سقم دِکھائی دینے لگے گا۔ اس انتہائی مُقدّس کام کی تکمیل میں مشکلات اور رکاوٹیں سر اُٹھاتی رہتی ہیں، انھیں کچلنا، ان کا حل سامنے لانا، اقدامِ اوّل کا درجہ رکھتا ہے۔ یہِیں سے جہاد فی النّفس کی شُرُوعات ہوتی ہیں۔ نیکی اور اچھّائی کے لیے رشک و مسابقت کے سُود مند رُجحان کا آغاز ہوتا ہے۔ نفس کا یہ جہاد مائل بہ انحطاط ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ ساری تپسّیا باطنی رنگ میں اخفا اختیار کر لے یا اس پر جمُود طاری ہونے لگے اور رسالتی خادم خُودی کے فلسفے کی گُتھّیاں سُلجھانے میں مُنہمِک ہو کر، اپنی رفعتوں کی تلاش میں، دُوسروں کو بھُلا بیٹھے۔ اپنی تو خُود ی بلند کر کے، اپنے من میں ڈُوب کر، خُود غرضانہ طور اپنا سُراغِ زِندگی تو پا لے، آسُودگی و طمانیت کی اپنی منزل تو چھُو لے، مگر دُوسرے اس کی بے اعتنائی کا شکار ہو جائیں۔ نہ نہ، بڑا سنبھل سنبھل کے قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ رسالتی خدمت کی اس اسائنمینٹ کے لیے خُود سِپُردگی شرطِ اوّلین ہے۔ یہ تو دُوسروں کی بھلائی کے لیے اپنا سب کُچھ وار دینے والی سعادت ہے۔ اِس جہاد کو تو ہر آن بطور گواہ سامنے رکھنا چاہیے، حواس کی بے قراری کے ساتھ ساتھ صاف دِلی و کُشادگی سے معمور متلاشی رُوح اور مائل بہ جُستجُو عزائم کے ثُبُوت کے طور پر۔ یہ وہ سطح ہے جس پر آ کر مُکالمہ اِس قابل ہو جاتا ہے کہ فیصلہ کے نزدِیک تر ہو جائے۔ خیالات کے تبادلہ کی دوطرفہ کوشِش اور پِھر اس کے نتیجہ میں باہمی مفاہمت کی صِحّت بخش فضا پیدا ہوجائے تو اس میں رچتے بستے ہی۔۔۔۔۔۔
منزل کی طرف دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے
والی کامیابی و کامرانی مِل جائے گی روح کے حوالے سے اشاراتی یا سِرّی خُصُوصیات جنھیں مذہبی حیثیّت حاصل ہو چُکی ہو ان کا دباو اور روشن خیال و دانش ورانہ ماحول اپنے خواص کے بینر تلے ہرگام پر مُمِد و معاون ثابت ہوں گے تا کہ جو حاصل حُصُول وُصُول ہُوا اُسے کبھی کھویا نہ جا سکے اور وہ مذہبی اقدار کی سُوجھ بُوجھ پر مدار کے باوصف گہرے اور پایدار رِشتے میں پروئے رکھنے میں مصروفِ عمل رہے۔
نہیں ہے نااُمّید اقبال اپنی کِشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہُت زرخیز ہے ساقی
حرکت جمود توڑ دیتی ہے۔
بخشش کے سو بہانے
بخششِ اُخروی کا کریمانہ سُلُوک اِس بات کی دلیل ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ الفاظ کا ہیر پھیر ایک طرف، حق سچ، سیدھی سیدھی بات کہ انسان کی مُکتی کے لیے ایک نہیں، کئی ایک راہیں، کئی ایک سبیلیں ہیں۔ صوفی شاعر، خُدا کے برگزیدہ بندے نے کیا خوب فرمایا ہے، ذرا غور تو کیجیے:
اُٹھ فریدا! سُتّیا، توں میلا ویکھن جا
جے کوئی بخشیا مِل جاوی
تے آپ وی بخشیا جا
یہ بھی بخشش کا ایک ہزار ایک واں حیلہ بہانہ یا جواز ہے۔ اگر ایک اور ہی زاویے سے دیکھیے گا تو یہ ایک ایسا عُقدہ معلُوم ہو گا جس کی کُشائی والی رمز کا سِرا ہاتھوں سے چھُوٹ چھُوٹ جاتا نظر آئے گا۔ ماضی کے تلخ و شیریں دونوں طرح کے اثرات کا وزن ایسی صورتِ حالات میں دُون سوایا ہوتا دِکھائی دینے لگے گا۔ معدُودے چند صُورتوں کے استثنا کے بعد، معرفتِ حق کی رُو سے، مذہب پر عقلی بحث کرنے کے طریقِ کار کے لحاظ سے عرض ہے کہ تمام مذاہب کے مُسلّمہ اعترافات کے ان طریقہ ہاے کار کا انحصار بدیہی حقیقت پر ہوتا ہے جن کا اظہار مختلف انداز میں کِیا جاتا ہے جیسے ''کلیسیا سے ماورا مُکتی کا کوئی تصوُّر نہیں'' ہر مذہب کے اپنے دائرئہ عمل میں دین داروں کے جس گروہ کو مُکتی سے فیضیاب ہونا ہوتا ہے، اس کی تعداد کا شمار محدُود تر کر دیاجاتا ہے ان کے بعض مروّجہ بدعات میں ملوّث ہونے کی بِنا پر کہ جنھیں مذہب نے مسترد کر رکھا ہوتا ہے۔ ایسے تمام دِین داروں کو مُوردِ عذابِ ابدی ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات پایہء انجام کو پہنچتی ہے کہ بعض چُنیدہ ہستیوں کو چھوڑ کر خلقت کی باقی بہُت بڑی گنتی کے لیے جہنّم کا عذاب ان کا مُقدّر بن سکتا ہے۔
تمام مذاہب کا اعلان تھا اور آج بھی اعلانِ عام ہے۔۔۔۔۔۔ خُدا عادل ہے، ترس کھانے والا، مہربانی کرنے والا اور محبّت کرنے والا۔ اسے اپنے بندوں سے لازوال پیار ہے! جی ہاں، اس باب میں، لازم ہے کہ افعال اور اعمالِ مذاہب کے نظریاتی پہلپو پر ہم نظرِ ثانی کریں۔ ضرورت ہے کہ تھیولاجیکل نِکات کو رِی وزٹ کِیا جائے تا کہ ذِہنی صلاحیتوں میں ایک طرح کی بُنیادی تبدیلی کارفرما ہو۔ کھُلے ذِہن کے ساتھ، عدم اعتماد سے گُریزاں ہو کر ہمیں مُکالمہ کرنا چاہیے، مگر ہم نہیں کر سکیں گے اگر آغازِ کار میں ہی ہم نادر شاہی فرمان جاری کر بیٹھے کہ یہ قانونِ مطلق ہے کہ دُوسرا فریقِ مُکالمہ تو جائے ہی جائے دوزخ میں۔ اس سزا کے لائق محض اِس لیے ہے کہ دوسرا وہ اپنے عقیدے پر پُختہ ہے، سرِ مُو اِدھر اُدھرنہیں سرک سکتا۔ بس، امن و آشتی، بھائی چارے اور برداشت کے جو تھوڑے بہُت امکانات مُکالمہ کے ذریعے پیدا ہو بھی سکتے تھے تو اب نہ ہوں گے۔ اس سُوچ پر قدغن لگانا ہو گی۔ ہم انسان ہیں، درندے نہیں کہ جب چاہا پنجوں میں سے ناخن نکال لیے، جب چاہا انھیں اندر چِھپا لیا۔
ناخن تراشنے ہوں گے!
جہاں تک تو کلیسیا کا تعلُّق ہے، ویٹی کن مجلسِ دُوُم، 1962ع تا1965ع کے بعد سے واقعات کا یکے بعد دیگرے نُمایاں ظہُور اِس بات کا ثُبُوت یوں فراہم کرتا ہے کہ مجلسِ دُوُم میں مسلمانوں کے بارے میں خُصُوصی طور پر واضح کِیا گیا کہ کلیسیا انھیں بھی قدر و احترام کی نِگاہ سے دیکھتی ہے کیوں کہ وہ خُداے واحد کی عبادت کرتے ہیں جو زندہ ہے اور تحمّل والا ہے، رحم و کرم والا، فضل اور برکت دینے والا، قادرِ مطلق ہے۔ آسمان اُس نے بنایا، زمین اُس نے بچھائی۔۔۔۔۔۔ مشیّتِ الٰہی کا پتا چلتا ہے، کبھی نہیں بھی چلتا۔ جلی ہو یا خفی، کُچھ بھی ہو، خشُوع و خضُوع، عجز و انکسار اور دِل وجان سے اطاعتِ خُداوندی ہر مرد و زن پر لازم ہے۔ سب کارخانہء قدرت اُس کے حُکم سے چل رہا ہے۔ وہی مالک ہے۔ جو کرتا ہے وہی کرتا ہے اور جو وہ کرتا ہے، وہی بہتر ہوتا ہے۔ یہی ایمان ابراہیم کا تھا جو خُدا کا کامل اطاعت شعار بندہ تھا۔ یہ ابراہیم وہی برگزیدہ انسان ہے جسے مسلمان نبی مانتے اور اس سے آگے چلی پیغمبروں کی لڑی کی بِنا پر اس کو زبردست تعظیم دیتے ہیں اور اس پر درود بھیجتے ہیں۔ مسلمان مُقدّس یسُّوع مسیح کو خُدا تو نہیں مانتے مگر خُدا کے محبوب پیغمبر کے طور پر اس کی بھی بہُت تعظیم و تکریم بجا لاتے ہیں۔ مسلمان اسے رُوح اللہ کہتے ہیں۔ مُقدّسہ ماں مریم کے لیے بھی، بطورِ خُداوند یسُّوع پاک کی کنواری ماں مُقدّسہ ان کے دِلوں میں بڑی عقیدت ہے۔ بسا اوقات مُقدّسہ کو وسیلہ بنا کر خُدا سے اپنے لیے دُعائیں مانگتے ہیں۔۔۔۔۔۔ پس، وہ بھی ایک ہی خُدا کی پرستش کرنے والے ہیں۔ اُسی کو مُجِیبُ الدُّعا سمجھتے ہیں، وہی ان کا معبودِ حقیقی ہے۔ اُسی کی خُوشنُودی حاصل کرنے کے لیے صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور اُسی کی رضا کے لیے صوم و صلوٰۃ کی پابندی کرتے ہیں، مَنّت کے اور نفلی روزے بھی رکھتے ہیں۔ انفرادی، خاندانی اور مُعاشرتی سطح پر بلند اخلاقیات سے مرصّع زندگی بسر کرنے کے قائل ہیں اور اِسی تگ و دو میں لگے لگے زِنہار اپنے مولا کے تابع رہتے ہیں۔
صدیاں بھری پڑی ہیں اُن تاریخی واقعات سے کہ جن کی صُراحی سے مسلمانوں اور مسیحیوں کے پیمانوں میں قطرہ قطرہ عناد و فساد اور جُرعہ جُرعہ جنگ و جدل کے حوادث اکثر ٹپکتے رہے، ویٹی کن کونسل نے سب سے پُرزور فرمایش کی کہ ماضی کا ہر تُرش و تلخ فراموش کرتے ہوئے آپس میں افہام و تفہیم پیدا کریں، نئے دور کے نئے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے باہمی مفاہمت اور ایک دُوسرے کے مذہب اور ذات کے بارے میں بہتر سُوجھ بُوجھ حاصل کرنے کے لیے خُلُوصِ نیّت، صبر و برداشت، حلیمی و بُردباری کے ساتھ ساتھ استقامت سے کوششوں کا آغاز کریں اور ہمیشہ انھیں جاری و ساری رکھیں۔ مساعیِ جمیلہ میں تعطل نہ آنے دیں۔ ہِمّتِ مرداں، مددِ خُدا۔ گلے شکوے دُور ہو جائیں گے، خیر سگالی اور بھائی چارے کی فضا قائم ہوگی اور میرے خُداوند خُدا نے چاہا تو امن کی فاختہ خوشحالی کی نغمہ سرئی کرے گی۔ ''دیگر مذاہب کے ساتھ کلیسیا کے تعلُّقات3'' دستاویز میں طے پا چکا ہے:
''کُل انسانیت کے نام پر، مسلمانوں اور مسیحیوں کو سبب و محرّکِ مشترک اپنا لینا چاہیے تا کہ سماجی انصاف، اخلاقی اقدار، امن و آزادی کی حفاظت اور فروغ کے لیے اپنا کِردار ادا کرتے رہیں''۔
(نوسترا ایتات3)
اِسی جوش اور جذبے کے ساتھ جی سی اناوتی نے کہا کہ جہاں تک نجاتِ اُخروی کا تعلُّق ہے اس کے بارے میں آپ کو بتادیں کہ بہُت پہلے ہی تسلیم کر لیا گیا تھا کہ دِینی لحاظ سے جو دو باتیں مُقدّس پولوس نے ناگُزیر کہہ کر بتائی تھیں وہ دونوں کی دونوں اسلام میں بدرجہء اتّم موجُود ہیں۔ جناب اناوتی نے مزید یہ بھی کہا کہ جب مَیں کِسی مسلمان سے ڈائیلاگ کرنا چاہوں میرے لیے کیوں یہ فعل ضروری سمجھا جائے کہ مُکالمہ شُرُوع ہونے سے پہلے مَیں اُسے سیدھا سیدھا جہنّمی سمجھوں کیوں کہ وہ مسیحی نہیں، مسلم ہے۔ غیر مسیحی، یعنی پکّا دوزخی۔ اس کے برعکس اچھّی بات تو یہ ہو گی کہ مَیں اُسے یقین دِلاؤں کہ بھائی جی! ایسی بھی صُورتِ حالات موجُود ہے جس کے تقاضوں پر پُورا اُترنا آسان ترین ممکنات میں سے ہے اور اس کے تحت اسے بھی نجات مِل سکتی ہے باوُجُودے کہ وہ ایک راسخ العقیدہ، مومن مسلمان ہے۔ جی سی اناوتی نے آخر میں ایک سُوال کا جواب معلُوم کرنا چاہا ہے۔ سُوال ہے کہ۔۔۔۔۔۔ کیا ہم کوئی بہتر طریقہ نہیں آزما سکتے جس کے ذریعے بامقصد، سُودمند اور کامیاب مُکالمے کا آغاز ممکن بنایا جا سکے؟
شاید آپ گہرے سُوچ میں اُتر گئے۔ نہ نا! مشکل میں نہ پڑئیے۔ ننھّا سا حل سامنے کی بات ہے۔تیر بہدف حل۔ نیّت۔ نیّت ٹھیک ہو تو ہر کام آسان ہو جاتا ہے۔ خُلُوصِ نیّت پر مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کی برکت شاملِ حال رہتی ہے۔
کوئی کُچھ بھی سُوچے کُچھ بھی سمجھے، بالکل ہی اس کے برعکس، اسلامی دُنیا میں ذِہنی رویّے مسلمانوں کے بھی کُچھ زیادہ مختلف نہ تھے۔ قرونِ وسطیٰ کے اسلامیان غیر مسلموں کو کافر و مشرک سمجھتے تھے اور کفّار و مشرکین کو بِلا شُبہ دوزخ کا ایندھن۔ مُسلّمہ مُروّجہ طریق پر صحیح العقیدہ عالمِ دِینِ اسلام امام غزالی ( 1111ع۔1058ع) کو سُنّی مکتبہء فکر کے مسلمان حُجّۃ الاسلام مانتے ہیں، اُنھوں نے اپنی کتاب ''فیصل التفرقہ'' میں اِس بات کا اثبات کِیا ہے کہ بعض صُورتوں میں، بعض حقائق کے تحت کہ جن میں فوقیت حاصل ہے سچّائی و بے ریائی کو اور کھری، شفّاف، دیانتدارانہ زندگی کو کہ ان کے ہوتے ہوئے غیر مسلموں کو بھی اجرِ نجات مِل جانا قرینِ قیاس ہے۔ اِسی طرح قریب قریب عصرِ حاضر میں نہضہ کے ایک عالمِ دِینِ الٰہی عبدوہ محمد (1905ع۔1849ع) نے بھی مِلتی جُلتی راے کا اِظہار کِیا تھا جس وقت وہ قرآنِ مجید کی دُوسری سورۃ کی آیت62کی تفسیر بیان کر رہے تھے۔ آیت مبارک:
إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَالَّذِیْنَ ہَادُواْ وَالنَّصَارَی وَالصَّابِئِیْنَ مَنْ آمَنَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُون
ترجمہ:''مسلمان ہوں، یہودی ہوں ، نصاریٰ ہوں یا صابی ہوں، جو کوئی بھی اللہ پر اور قیامت کے دِن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے اُن کے اجر اُن کے رب کے پاس ہیں اور اُن پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اُداسی''۔
(صرف یہود ہی نہیں، مسیحی اور صابی بھی اپنے اپنے وقت میں جنھوں نے خُدا پر اور یومِ عدالت پر ایمان رکھا اور عملِ صالح کرتے رہے، وہ سب نجاتِ اُخروی سے ہمکنار ہوں گے۔ نجاتِ اُخروی میں کِسی کے ساتھ امتیاز نہیں کِیا جائے گا۔ وہاں بے لاگ فیصلہ ہو گا، چاہے مسلمان ہوں یا رسولِ عربیؐ سے پہلے گذر جانے والے یہودی، مسیحی اور صابی وغیرہُم)۔
بہ ہر کیف یہ ناممکن تو ہے ہی نہیں، نہ مذہبِ اسلام میں، نہ مسیحیت میں اور نہ ہی مرکزی دھارے میں موجُود کِسی اور مذہب یا عقیدے میں کیوں کہ ان کی مذہبی کتابوں کے جو متن ہیں اُن کی بُنیاد پر اور یہاں تک کہ الٰہیات کی رُو سے بعض قدیمی روایات کی مدد سے بھی اِس ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے کہ مطلوبہ صراحت کے ساتھ ایسی الٰہیاتی فلاسفی سامنے لائی جائے جس پر ایک حد تک راہِ نجات میں تکثیریت کی گُنجایش چھوڑی گئی ہو اور سو باتوں کی ایک بات کہ خُدا کی کرم نوازیاں، مہربانیاں، اس کا فضل، اس کا انعام اور اُس کی کِرپا کو چھلکنے سے بھی بھلا کوئی روک سکا! یہی تو اُس کے الٰہی عدل و انصاف کی علامت ہے، انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کی اور مِہر، محبّت اور احسان کی بھی روشن تر علامت۔۔۔۔۔۔ کلیسیا کی کڑی حُدُود و قیود، ضابطوں اور اُصولوں سے ماورا۔ تمام انسانوں کو رنگ، نسل، زُبان، مذہب، فرقہ، سماجی اُونچ نیچ اور اقلیّت و اکثریت کے ترازُو میں نہ تولا جائے۔ تعصُّب سے پاک ذِہن و دِل رکھنے والوں، نفرت سے پاک خیر سگالی اور انسانی ہمدردی پر محمول جذبات و احساسات رکھنے والوں، خود غرضی سے پاک مثالی ہمسایگی والے باہمی لحاظ و مروّت، پیار محبّت اور اتّفاق و قرابت کی لڑی میں پرُوئے ہوئے بھاگوانوں کی قدر و منزلت کرنا ان کے لیے دیدہ و دِل سرِ راہ بچھانے اور انھیں سر آنکھوں پر بِٹھانے میں پہل کرنا اور ان خُوش نصیبوں کی تقلید سے اپنے بھی نصیب سنوارنا ہم سب اپنا وتیرہ بنا لیں تو پُوری انسانی سماج، ہماری قدریں، ہماری مُعاشرت، رُسُوم و رواج، روایات اور رِیتیں صیقل ہو ہو کر اِتنی نکھر جائیں گی کہ یہ پُوری دھرتی سُدھر کر سُندر لگنے لگے گی، کہنے والے بے اختیار کہہ اُٹھیں گے۔۔۔۔۔۔
گر یہ دُنیا ہے تو اے میرے خُدا
کتنی دلکش تیری جنّت ہو گی !
جزا و سزا میں وہ اُوپر والا مُکمَّل مختار و مقتدر ہے۔ ہم نے اُس کے فیصلوں، اُس کے انصاف، اُس کے رحم و کرم کے آگے سیس نوا رکھے ہیں۔ ہماری کیا مجال کہ خُداوندِ خُدا اقدس و ارفع کے فرامین سے ذرا بھی سرتابی کریں۔ اُس کی دانش۔۔۔۔۔۔ عظیم دانش۔۔۔۔۔۔ کے سامنے سب ہیچ ہے۔ ہمیں زیب نہیں دیتا کہ اس کی منشا، مشیّت، اس کے فیصلوں، اس کی قدرت، اس کے اختیار پر معمولی سی بھی چوں چراں کریں۔ اُس کی دین، ربّی دین، نرالی ہے۔ کم و بیش کا حساب وہی جانتا ہے، اس لیے جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے۔ آقا و مالک ہے۔ رزق روک بھی سکتا ہے۔ ہم کون بولنے والے۔ ہماری بساط ہی کیا، اوقات ہی کیا۔ بس ہمیں تو یہ مان، یہ بھروسا ہونا چاہیے کہ ہمارا خالق بھی تو وہی ہے نا، خالق ہے تو رازق بھی وہی ہے۔ وہ رازق ہے تو غم نہیں، حیلہ ہم کریں گے، تنگی وہ دُور کرے گا۔
وہی کُشادگی عطا کرنے والا ہے۔۔۔۔۔۔ خُد اباپ میں خُدا بیٹا، مُقدّس یسُّوع مسیح، سب کا پالنہار
مالی دا کم پانی لانا، بھر بھر مشکاں پاوے
تے مالک دا کم پھَل پھُل لانا، لاوے یا نہ لاوے
5۔ مکالمہ۔۔۔۔۔۔ قصد و مقاصد
قصد
ہو سکتا ہے کل کلاں کوئی یہ سُوال اُٹھائے،وُہ بھی اُس وقت جب متذکرہ کٹھنائیاں دُور کی جا چُکی ہوں، حالات قابُو میں آتے نظر آنے لگے ہوں حتّٰی کہ مطلُوبہ بُنیادی شرائط پر بھی پُورا اُترا جا چُکا ہو تب، جی ہاں تب، پُوچھنے والا پُوچھ سکتا ہے: کیا ابھی بھی مُکالمہ کرنے کا کوئی تُک ہے؟ ہے کوئی گُنجایش باقی؟ بچی ہے ابھی بھی کوئی غرض و غایت جسے مُکالمہ پُورا کرے؟۔۔۔۔۔۔
جی۔۔۔۔۔۔ اِس کی ضرُورت موجُود ہے، پہلے سے کہِیں زیادہ۔ تُک ہے تو زور دیا جا رہا ہے، گُنجایش ہے اور بہُت ہے۔ مذاہب کے مابین مفاہمت، مصالحت، ہم آہنگی درکار ہے۔ ایک دُوسرے کو، اِک دُوجے کے مذہب کو برداشت کرنے کی غرض و غایت موجُود ہے، امن، پیار، بھائی چارہ، ہمساےے کے حُقُوق، انسانی حُقُوق کے لیے بہُت کام کرنے کی ضرُورت ہے۔ خُود غرضی سے پاک، بے لوث، قطعی غیر مشرُوط، خُدا کے نام پر، عبادتِ الٰہی اور ربِّ اکبر کی کلیسیا کی خدمت کے لیے اِتّحادِ کار درکار ہے۔ مطلب یہ کہ دِین کی خدمت کے لیے، خُدا کی حمد و ستایش کی خاطر اور صدق و صفا یعنی سچّائی کے عمل سے گذرنے کے لیے سب کو شریکِ کار ہونا پڑے گا۔ اگر صاف شفّاف، کھری، اِطمینان بخش اور پُرسُکُون فضا نصیب ہو گی تو بغیر استثنا ہر مذہب کا ہر بندہ سُودمند طور سے مُکالمہ میں شامل ہو سکتا ہے۔ نہ کوئی روک نہ کوئی ٹوک، نیّت سے مُراد۔ یہاں پہنچ کر ہم کِسی دھوکے میں نہ رہیں۔ سیدھی سی بات ہے، اگر مُکالمہ کے فوائد، اس کے ثمرات سب تک برابر برابر نہیں پہنچ پاتے تو پِھر لکھ لیجیے! ایسا مُکالمہ یا تو شُرُوع ہی نہیں کِیا جا سکے گا، شُرُوع ہونے سے پہلے ہی اس کا ذِکر اذکار تک زُباں کی نوک پر کبھی نہیں لائے جانے کا پابند کر دیا جائے گا، یا پِھر درمیان میں ہی کہِیں مُعلّق رہ کر ناکامیوں نامُرادیوں کا ابدی اشتہار بن جائے گا۔ کوئی بھی سماج جو اپنے آپ کو خطرات میں گھری محسوس کرتی ہے وہ ضابطے تشکیل دیتی ہے، رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے۔ ایک طرح سے دانش ورانہ تحفُّظ کے نظام میں پناہ تلاش کرتی ہے۔ دیکھا جائے تو ماننا پڑے گا کہ تحفُّظ کا معاشی نظام جو ازل سے اس کے متقابل ہے اس جیسی کامیابی تو اسے حاصل نہیں ہوتی لیکن اِس کے باوُجُود مستقل طور پر کِسی نہ کِسی طریقے سے رواج تو پا ہی لیتا ہے کیوں کہ ڈھکی چِھپی اور بعض اوقات کھُلی ڈُلی آشیرباد اسے ضرُور حاصل ہوتی ہے، مذہب کی آشیرباد۔ تباہی سے دو چار ہونے کا شدید خطرہ جب لاحق ہو تو نفع نقصان کی پروا نہ کرتے ہوئے دُوسروں کے ساتھ تمام روابط منقطع کر کے سب سے الگ تھلگ ہو کر لوگ جسے محفُوظ جگہ سمجھتے ہیں، دُور وہاں جا بیٹھتے ہیں، سمجھتے ہیں پانی سر سے گذر گیا۔ اندریں حالات خطرے سے اپنے آپ کو بچانے کی قدیم زمانے والی جبلّت چارج سنبھال لیتی ہے۔ یہی انسان کا بچاو ہے۔
بر خلاف اِس کے، اعتماد کی فضا طاری ہو تو افکار و خیالات پُوری آزادی سے ہر طرف گردش کررہے ہوتے ہیں، اگر انھیں سرماےے میں بدل کر مناسب سرمایہ کاری کر لی جائے تو سب کے لیے زائد از توقّع منافع کی صُورت میں ان کی واپسی ہوتی ہے۔ چُناں چہ کِسی بھی مُکالمہ کے دوران جو اولیں شِست ہمیں باندھنی ہوتی ہے، وہ ہوتی ہیں وہ رکاوٹیں، قدغنیں جنھیں عُبُور کر کے خُدا کے ذِکر کو دُنیا میں بلند کرنا، عام کرنا ہوتا ہے تا کہ تمام انسانوں کے لیے۔۔۔۔۔۔ ''دِلاں وِچ رب وسدا''۔۔۔۔۔۔ والی صُورتِ حالات بن جائے۔ اِس صُورتِ حالات کو ممکن بنانے میں سب سے زیادہ مدد ایک دُوسرے کے ساتھ افکار و نظریات پرآزادانہ تبادلہء خیال سے مِلتی ہے۔
وُہ بڑے بڑے، پہاڑ آسا مسائل جن کا ہمیں سامنا رہتا ہے اور جو بعض اوقات ہمارے وُجُود، ہمارے جینے مرنے، ہماری زِندگی کے مقصد کو بھی چیلنج کر دیتے ہیں۔ تمام انسان، ان کے خاندان، مُعاشرت سب کُچھ ان کی زد میں ہے۔ چاہے اُن کا زاویہء نِگاہ مادّی ہو یا روحانی، اُنھیں کُچھ نہ کُچھ تو ضرُور اس سے حاصل کرنا ہوتا ہے اس تقابُل سے، اس موازنے سے جو اپنے اپنے مسائل اور ان کے اپنے جو پسندیدہ حل ہوتے ہیں ان کے درمیان، اور جہاں تک ممکن ہو سکے کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مسائل ان کے مسائل سے مِلتے جُلتے ہیں تو اپنے حل بھی اُن کے حلوں سے ہم پلّہ ہوں۔ اُنھیں ہم آہنگ کرنا، ربط میں لانا ضرُوری ہے، مسائل ملے ہیں تو انھیں حل کرنے کے وسائل بھی پاک خُداوند یسُّوع مسیح نے ہی عطا کرنے ہیں۔ اِس پرلے درجے کی اِنتہا، جو ہمیں تقسیم کرتی ہے، اس سے بِھڑ جانا کُچھ ایسا مُشکل و ناممکن بھی نہیں، ہم ایک دُوسرے کی طرف دوستی کا، اُلفت کا، خُلُوص کا ہاتھ بڑھانے میںدیر کیوں کر رہے ہیں۔ دِل کو دِل سے راہ ہوتی ہے۔ تب بھی جب اُمنگ، احساس و فکر کی تحریک، راستہ تبدیل کرجانے والے لوگ اصل راہ سے ہٹانے والے ذرائع یا پِھر ناموافق، بے محل و بے آہنگ ذریعوں سے حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ جی سے جی ہوتی ہے۔ جی کریں گے کِسی کو تو ہمیں بھی جی ملے گی اُس کی طرف سے۔ کب تک کوئی مُنہ پھُلائے رہے گا۔ جب کہ ہمارا انگ انگ پُکار رہا ہو۔۔۔۔۔۔
ظالم تُو میری سادہ دِلی پر تو رحم کر
رُوٹھا تھا تجھ سے آپ ہی اور آپ ہی من گیا
ثقافتی وحدت کو پروان چڑھانا، زوردار تحسین و آفرین کا عجیب و انوکھا مظہر ہے جو ہمارے ہی وقتوں میں ممکن ہُوا ہے۔ اس کی خیر و برکت ہے کہ انسان ایک دُوسرے کے قریب آتے جا رہے ہیں، قریب تر، اور طبقاتی مساوات کے فیُوض سے بھی سرشار ہیں۔ او رجو ہمارے زمانے کے نازُک ترین مسائل ہیں ان پر ایمان والے اور ایمان سے عاری لوگ بے شک الگ الگ اپنی جو راے رکھتے ہیں، رکھتے رہیں مگر ایک بات ضرُور ہے، آپس میں انھوں نے بطور مُتّفقین یا مخالفین بحث و مباحثہ اکثر چھیڑا ہوتا ہے۔ اگر لڑائی جھگڑے سے پرہیز کر لیا جائے تو وہ بحث مباحثہ اُن کی گُفتگُو کہلائے گی اور وُہ ہمیشہ مفید ہی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔ یہی مُکالمہ ہے۔
وسیع النّظری کی شاندار تربیت ہے جو دُوسرے کا نقطہء نظر سُننے اور اپنے طرزِ فکر سے اُسے مطلع کرنے پر محمول ہے۔ اچھّی بات یہ ہے کہ دُوسرے کا پوائنٹ آف وِیُو سُننے کی مشق تو ہوئی۔ مختلف نِکات سے واسطہ تو پڑا۔بات سے بات چلی، آگے بڑھی۔ کبھی تحمّل پیدا ہُوا، کبھی پاش پاش ہُوا، کُچھ تو ہُوا، حرکت میں برکت۔ دِین داروں کے لیے آسانی کی راہ نکلی، خُدا کی تمام تر خُوشنُودی، کامل رضامندی کے لیے اِتّفاق کر کے وہ معاملات پر بحث و گُفتگُو کے لیے فیلڈ میں آئے اور یُوں جب مُکالمہ کے لیے مناسب فضا بننے لگی، تب معلُوم ہُوا سب ایک ہی بولی بول رہے ہیں۔ امن کی بولی، ایک دُوسرے کے احترام کی بولی، پیار محبّت اور خیرسگالی کی بولی۔ اِسی بات کو پرکھیے، بھلا کوئی وَجہ ہے کہ ''دُوسرے مذاہب کے ساتھ کلیسیا کے تعلُّقات''۔۔۔۔۔۔ کلیسیا کی طرف سے پیش کردہ اس دستاوزیر پر غور کرنے کی ضرُورت سے جی چُرائیں اور اس میں اُٹھائے گئے سُوالات کے بارے میں جوابات تک پہنچنے کی زحمت ہی گُوارا نہ کریں۔ ہم آپ کو یاد دِلاتے ہیں، اس دستاویز میں کون کون سے سات سُوالا ت ہیں:
1۔ انسان کیا ہے؟
2۔ زِندگی کیا ہے، کیوں ودیعت کی گئی؟
3۔ نیکی بدی، گُناہ ثواب، اچھّائی بُرائی، یہ کیا ہیں؟
4۔ ملال وآزُردگی، رنج و افسوس، صُعُوبتیں اور کلفتیں۔۔۔۔۔۔ انھیں کیوں پیدا کِیا گیا؟ اِرادہ و مقصد؟
5۔ سچّی خُوشیوں تک پہنچنے کی منزل کِن راہوں سے گذر کر پائی جا سکتی ہے؟
6۔ موت کی کیا اصل ہے؟ موت کے بعد یومِ عدالت چہ معنی دارد؟ گور و کفن۔۔۔۔۔۔ اور اس کے بعد بھی مکافاتِ عمل، عذاب، تلافی؟
7۔ آخرالامر، اس بیان سے باہر بھید کی حقیقت کیا ہے جو ہمارے وُجُود کو نگل جاتا ہے؟ ہماری آفرینش کا سبب؟ دُنیا میں آنے سے پہلے ہم کہاں تھے، کِس مقام سے آئے؟ یہ سفرِ حیات ہمیں پہنچائے گا کہاں؟ ہم کِدھر سے آئے کِدھر کو جانا ہے؟
ایک یا دو مجالس کے لیے یہ سُوالات موضُوعِ سُخن بن سکتے ہیں بہتر ہو گا ایسی مجالس کا انعقاد کِیا جائے اور ان میں تمام مذاہب کے نمایندگان کو شرکت کی دعوت دی جائے۔ اِس امتیاز کو بھی ہٹا دیا جائے کہ شریک مذاہب کی اپنی کوئی کتاب یا صحائف بھی ہیں یا نہیں۔ تضادات و تصادُم سے بچنے کے لیے اچھّا ہو گا کہ مدعوئین میں گوناگوں یعنی متنوِّع نقطہ ہاے نِگاہ رکھنے والے خواتین و حضرات کو ترجیح دی جائے۔ مُورّخین، فلسفی اور ڈاکٹر صاحبان کے باقاعدہ اجلاس ساری دُنیا میں ہوتے رہتے ہیں۔ بھانت بھانت کی آرا رکھنے والے مومنینِ مذاہب کو اگر ایک چھت تلے جمع کر لیا جائے تو کیا ہی بات ہے۔ وہ مسائل جو آئے روز ہمارا مُنہ چِڑاتے رہتے ہیں اور ہم ان سے نبٹنا چاہیں، ان کی طرف بڑھیں تو وہ ہماری دست اندازی سے بچ کر، ہمیں غَچّا دے کے ہماری دسترس سے باہر کہِیں چِھپ جاتے ہیں، ان مسائل کو کان سے پکڑ کر اپنے ساتھ لائے ہوئے روشنی کے میناروں کی چکا چوند میں یہ اصحاب ہمارے سامنے لاکھڑا کر سکتے ہیں۔ مسائل جب یُوں انگُوٹھے کے نیچے ہوں تو ان کے حل کُچھ ایسی دُور کی بات نہیں رہتی۔ ایسی میٹنگ مہینے میں ایک بھی ہو جائے تو کیا کہنے، فائدے ہی فائدے۔ اور پِھر یہ اکٹھ تو بہانہ بھی بن سکتے ہیں اس عمل کا کہ لوگ ایسی مفیدِ مطلب بات چیت سے مانُوس ہونے لگیں۔ دِینی عُلما کرام کی دِلچسپی بڑھے گی بل کہ مُقدّس کلیسیا کے چوپانی عہدے دار اور خدمت گار بھی اس موقع سے مستفید ہو سکیں گے جس کے سبب دُوسرے مذاہب کے علما ، رہنما اور عام پیروکاروں سے نہ صِرف مُلاقات بل کہ تسلّی بخش انٹر ایکشن بھی ممکن ہو سکے گا۔ دُوسرے گرجا گھروں سے آئے ہوئے مختلف نظریات و عقائد والے منتظمین و رہبران کے ساتھ مِل بیٹھنے اور مشترکہ مسائل پر بات چیت کا موقع بھی مِلتا رہے گا۔ ایک دُوسرے سے جان پہچان، ایک دُوسرے کو بہتر طور سمجھنے جاننے بل کہ ایک دُوسرے کی بات بھی سمجھنے جاننے میں آسانی پیدا ہو گی۔ حُجّت بازی کی اِس دُن:یا کہ جس میں ہم رہتے ہیں اِس میں کِسی بھی مذہب کے حال مست لوگوں کی اپنی حال مستی بالکل ایسے ہے جیسے موت کی آسانی کے لیے مورفیا کی زائد از ضرُورت خوراک لے لی جائے۔ تا کہ سُکُون ہو۔۔۔۔۔۔ جینے میں نہیں، مرنے میں۔ (جب موت ہی آگئی تو پِھر آسانی کیا اور سُکُون کیا)۔
۔۔۔۔۔۔ہم بجا طور کہہ سکتے ہیں کہ ابلاغ کے لیے یقینی امکانات ہمیشہ موجُود رہتے ہیں اور ایک دُوسرے کے ساتھ اپنی اپنی آرا، افکار و اعتقادات اور مُکالمے کی تھیم پر تبادلہء خیالات کِیا جا سکتا ہے۔ اصل کام تو ان امکانات کا تلاش کرنا ہوتا ہے اور اِس کھوج کے بعد ان سے استفادہ کرنا۔ مذاہب کی الٰہیات ان کی دینیات کا عِلم، مذہبی اخلاقیات و دینیات کے مُعاشرتی پہلُو کہ جن کا تعلُّق براہِ راست ان عُقدوں سے ہے جو اب تک نکتہ وروں سے کھُل نہیں سکے۔ ہم تا حال ان سے نبرد آزما ہیں۔ انھیں وا کِیا جا سکتا ہے بشرطے کہ وہ لوگ شریکِ عمل ہو جائیں جو اِس یقین کی دولت سے مالا مال ہیں کہ انسانوں کا مقررہ انجام پاک خُداوند کی ہی مصلحت و مشیّت کا نتیجہ ہے۔ ایساہوتے ہی یعنی ان ہستیوں کی شمولیت کے طُفیل کامیابی یقینی ہے اور یہ سُرخرُوئی تبھی حاصل ہو گی جب ایسے لوگوں کو بس دُور سے ہی سلام کر دیا جائے جو اِرد گِرد منڈلاتے رہتے ہیں، ہر آن دستیاب ہوتے ہیں اور اِس فلسفہ کے قائل ہوتے ہیں کہ انسان تو بس چند ہی روز کی مار ہے اور حیات و موت کے درمیانی وقفے کو اِسی پیمانے سے ماپتے ہیں اور یہ بھی کہ سب کُچھ جو دُنیا میں ہے وُہ اس کی حریصانہ لپیٹ میں ہے۔ وُہ اس انتہا پر ہے جہاں اسے اپنے دندانِ آز سے آگے کُچھ نظر نہیں آتا۔ ایسے دعوے داروں کو یہ دُنیا جو خُداوندِ قُدُّوس کی جانتے بُوجھتے کی گئی تخلیق ہے اِسے تسلیم کرنے والا نوالہ بھی گلے میں پھنسنے لگتا ہے۔ کائنات اور انسان کو سمجھتے ہیں کہ ضرُورت کے تحت، بس سب کُچھ خُود رَو پودوں کی طرح یکے بعد دیگرے ظاہر ہوتا اور نشوونما پاتا چلا گیا۔ ارتقا کے اِس عجوبے کو ڈارون ازم کہا گیا ہے۔ چُناں چہ جب مُکالمے میں سے اِس چیز کو ہم خارج کر دیں جو اسے بھٹکا کر بے کار قسم کے دلائل میں اُلجھا دے تو یہ مشق کھوکھلی اور بے فائدہ ہر گِز نہ کہلائے گی بل کہ بہ درجہ ء غایت عمِیق اور بامقصد و سُودمند کوشِش کا نام پائے گی۔
وقت و حالات کے بہاو کے ساتھ بہنے اور بے پتوار ڈولنے والی ہماری یہ دُنیا جسے نئے مُعاشرتی ڈھانچے مرغُوب ہیں، جن پر وہ اپنی ثقافتی عمارتیں کھڑی کر لینا چاہتی ہے، اقدار کے نئے معیارات اپنا لینے کو اس کا من کرتا ہے اور عصری تقاضوں کا ساتھ دیتے ہوئے جب وہ مقبُول رنگوں میں رنگ جانا چاہتی ہے تو اسے سب سے بڑی کُمک اخلاقی اُصُولوں کے وسیع دائرئہ اختیار سے مُہیّا ہوتی ہے تا کہ مُکالمے کو محفُوظ اور لا محدُود مضبُوط بُنیادیں مُیسّر آجائیں۔ دُنیا کے محرُوم و مُحتاج طبقات اور بے کس و بے بس کر دیے گئے انسانوں کے لیے جلال والے خُداوند خُداے اقدس کا کیا پیغام ہے؟ وُہ پیغام، وہ فرمان جو ان بے چاروں کا واحد سہارا و آسرا ہے اور اسی پر ان کا سارا تکیہ ہے اور اس الٰہی پیغام کے مخاطب لوگ بِلا امتیاز سب کے سب ہیں، سب، محمود و ایّاز، حاکم و محکُوم، مقتدر و نادار، ظالم و مظلُوم، غاصب و محرُوم کر دیے گئے سب کے سب، حتّٰی کہ وہ بےگانگی و برگشتگی کا رویّہ اختیار کیے ہوئے لوگ بھی جواس سے پہلے ایسے ہرگِز نہ تھے، بس خُدا کے حُضُور ان کی گرمجوشی اور محبّت میں سرد مہری آگئی اور بھٹک گئے وہ لوگ، دِین سے پِھر گئے، دھوکا کھا گئے، فریب میں آگئے۔ خُداوند پاک کا خطاب ان سے بھی ہے جنھوں نے پیشانیاں گھِسا لیں، گھُٹنے تڑوا لیے یا فرشی سلاموں اور قدم بوسیوں میں عُمریں گُزار دیں۔ اُس کا کلام گداگروں سے بھی ہے، لجاجتیں کرتے، عاجزیاں کرتے اور ہاتھ پھیلائے بھیک منگوں کے لیے بھی اس کا پیغام عام ہے۔ وہ جو سدا کے باغی ہیں، بے ادب، گُستاخ، منتقم اور لڑاکے ہیں، اُس کی بارگاہ میں بھی اور اس کے مُقدّسین کے حُضُور بھی واہی تباہی بکتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وُہ جو دُوسروں کے دِین کی مذمّت میں لگے رہتے ہیں اور اس دِین و مذہب کے پیشواؤں کے حق میں بے جا الفاظ استعمال کر کے پیروؤں کے دِل دُکھاتے ہیں اور۔۔۔۔۔۔ وُہ جو یہ سب کُچھ نہیں کرتے، ان کے لیے بھی یعنی خُداوندِ یسُّوع مسیح کا کلام سب کے لیے ہے، سب پر اُس کے پاک کلمہ کی آبرُو رکھنا فرض ہے، فرضِ اوّلین ہے۔ بے شک۔ وُہ مُقدّس، اس کا کلام بھی مُقدّس، وُہ سب کا خیر خواہ، اُس کے کلام میں بھی سب کی بھلائی، مومن کے لیے اور کافر کے لیے بھی۔ رِزق دِیندار کو بھی دیتا ہے، بے دِین کو بھی۔ ہے نا سب سچ؟ ایسا ہی ہوتا ہے نا؟ اب آپ پر واضح ہو گیا ہو گا کہ ڈائیلاگ کیوں ضرُوری ہے، بِلا امتیاز مُکالمہ ہونا چاہیے، سب کے ساتھ، دُوسروں کی بات سُننا چاہیے، تحمّل سے، پیار سے، ہمدردی اور مروّت سے، اپنی بات سمجھانا چاہیے، نیک نیتی، خُلُوص سے اور دُوسروں کی بہتری مدِّ نظر رکھتے ہوئے اور یہ تب ہی ہوگا جب دُوسروں کو اپنے سے بہتر سمجھیں، (کوئی مسئلہ ہو تو برابر تو سمجھ ہی سکتے ہیں نا؟) مقصد کوئی مقابلہ، مناظرہ نہیں، بس ایک دُوسرے کی اچھّائیوں کا، نیکیوں کا، حُسنِ اخلاق کا اقبال کرنا ہے اور وُہی بات،
میرا پیغام محبّت ہے جہاں تک پہنچے
''دِلاں وِچ رب وسدا''۔۔۔۔۔۔ ایسا ہو تو واقعی اِن سات سُوالوں کے جوابات آپ کی آنکھوں کے سامنے تیرنے لگیں گے۔ وہی سات سُوال جو ابھی آپ کے سامنے اُٹھائے گئے تھے۔ کِسی بھی مذہب کے مُعاملات و محاکات''دِلاں دے سودے'' ہی ہوتے ہیں، اور ان کے لیے رب کو دِلوں میں بسانا پڑتا ہے۔ اجازت دیں تو اسے ''وارداتِ قلب'' کا نام دے دُوں!
مقصدِ مُکالمہ
گو کہ مُکالمہ کی سُود مندی اس کی گُنجایش فی زمانہ خاصی محدُود ہوتی چلی جا رہی ہے لیکن اس کی ضرُورت اور اس کے مقاصد کا کوئی انت نہیں۔ یہ تو لوگوں کو جھنجوڑنے کی ایک سبیل ہے اور انھیں پھُرتی سے کام لینے پر آمادہ کرنے کی سعی بھی اسے کہہ سکتے ہیں تا کہ اپنے ذاتی اُصُول و فروع کی دلدل میں ہی نہ تمام عُمر دھنسے رہیں، باہر نکلیں اور مُکالمے کے فیُوض سے مستفیض ہوں۔ اِس میں کوئی دو آرا نہیں کہ لازمی طور پر یہ حق ہر ذی بشر کو حاصل ہے کہ زیرِ بحث مسئلہ پر دی گئی کِسی کی راے کو تسلیم کر لے یا اسے قُبُول کرنے سے سراسر انکار کر دے۔ ایسا کرنے کے لیے اُس کے پاس اس وقت کوئی جواز نہیں ہو گا جب اُس نے یہ تکلُّف ہی نہ کِیا ہو کہ دُوسرے کے نُقطہء نظر کو تولتا، سمجھنے کی کوشِش کرتا، جاننے کی تکلیف کرتا کہ وہ کہنا کیا چاہتا ہے۔ اُسے تو چاہیے تھا، تفصیل طلب کرتا، وضاحت سے شاید بات صاف ہو جاتی۔ عقلِ کُل تو کوئی انسان نہیں ہوتا، سمجھنے سمجھانے کی گُنجایش تو موجُود رہتی ہے۔ کِسی کے سامنے اپنے مذہب کے محاسِن رکھنے سے پہلے ہی یعنی کِسی کو اپنے نُقطہء نِگاہ کی طرف متوجِّہ اور مائل کرنے کے آغاز میں ہی اگر نظر آنے لگے کہ مقابل شخص یا خاتون سے مُکالمہ کرنا گویا بھینس کے آگے بِین بجانا ہی ثابت ہو گا اور ساری محنت رایگاں چلی جانے کا احتمال پُختہ ہوتا نظر آنے لگے، وُہی فیصلے کی گھڑی ہوگی، مُکالمے کی ریاضت کو فُل سٹاپ لگانے کے بجاے میرے حُضُور! کہِیں بہتر ہو گا کہ اگر آپ محسوس کرچکے ہیں کہ آپ کی بات اس چِکنے گھڑے پر بُوند ثابت ہو گی تو اس چِکنے گھڑے کو ہی بولنے دیجیے، کان دھر کے اُس کی ہی بات سُن لیجیے، اُس کی حوصلہ افزائی کیجیے تا کہ اُس کا ہی نُقطہء نظر سامنے آجائے۔ پتا تو چلے وُہ بات کیا کہنا چاہتا ہے۔ بات چل پڑے تو بات سے بات نکلتی چلی آتی ہے، پتا بھی نہ چلے گا اور آپ مُکالمے کی پہلی سیڑھی عُبُور کر چکے ہوں گے۔ اپنے ذاتی تجربہ کی بِنا پر مَیں ایک راز کی بات میں آپ کو شریک کر لُوں؟ وہ بات مسلمانوں پر تو بڑی ہی جم کے صادق آتی ہے، ذرا نزدِیک ہو جائیے، بات یہ ہے کہ ویسے تو اوروں پر بھی یہ بات ٹھیک ہی ہے، مگر مسلمانوں کے بارے میں تو مَیں وثُوق سے کہہ سکتا ہُوں کہ ایسی باتیں، اکثر تو نہیں۔۔۔۔۔۔ بعض اوقات وُہ باتیں جو بہُت ہی خطرناک لگ رہی ہوتی ہیں اور انھیں چھیڑتے ہوئے ڈر لگتا ہو، اُنھیں زیرِ بحث لانے کو سو مرتبہ سُوچنا پڑتا ہو، اگر بر سبیلِ تذکرہ موضُوع کا حصّہ بن ہی جائیں تو اُس وقت خُوش گوار حیرت ہوتی ہے، جب وہی باتیں مُکالمے کے اچھّے مقصد میں اِنتہائی مفید و مددگار ثابت ہونے لگیں۔
قدرتی امر ہے، ایسا تبھی ہوتا ہے جب تبدیلیِ احساسات، ایک اچانک اور شدید جذباتی ردِّ عمل کے تحت ان عوامل پر اثر انداز ہوں جن کی بُنیاد مضبُوط اور معقُول دلائل، حقائق اور شہادت پر نیز خبردار و ہوشیار ضمیر پر ہو۔ ورنہ تو بس ایک ہی حل باقی بچے گا، وُہی، بتدریج مُکمَّل ٹُوٹ پھُوٹ اور پِھر اَڑ اَڑ دھڑام، اس دیمک خوردہ عمارت کا آن کی آن میں انہدام ہو جائے گا۔ مُکالمہ صاحب کہِیں ڈُھونڈے سے بھی نہ ملیں گے۔ اسلام کی موجُودہ صُورتِ حالات میں تو ایسے خطروں کے خدشات کِسی لمحہ بھی حقیقت کا رُوپ دھار سکتے ہیں۔ان کا تدارک یقینی بنانے کی اشد اور فوری ضرُورت ہے۔ نہ اسلام اور نہ ہی کوئی اور مذہب کہ جس کا خُدا پر ایمان جُزوِ لازم ہے، اُس کے پاس اِس سے علاوہ اور کوئی چارہ ہی نہیں کہ وُہ آگے بڑھے اور اپنی پُوری صلاحیتوں، استعدادِ کار اور جذبہء ایمانی کے ساتھ اس چیلنج کا مردانہ وار سامنا کرے۔
جس کے نام پر یہ عمل ہو گا، وُہی اسے کامیاب و کامران کرنے والا ہے(۔۔۔۔۔۔)
چُناں چہ ایک نئی تاویل کی ضرورت ہے، ایسی کہ جو ماضی کی افادیتوں سے مُنہ نہ موڑے اور مُثبت پیش رفت جاری رکھے۔ ایسی تفسیر کو مُہِم جوئیانہ پیمانے پر اور بالخصوص ہنگامی بُنیادوں پر عمل پذیر ہو جانا چاہیے۔ ایک دُوسرے کے ساتھ اپنے اپنے نِکاتِ استدراک و استدلال کا تبادلہ وقت کی اہم ضرُورت ہے۔ تازہ تر اور جدید ترین معیاراتِ تصوُّر و اُسلُوب کے مُطابِق مُکالمہ کی حیثیت و ضرُورت بڑھ گئی ہے۔ تا کہ ان دنوں عام ہوتے تشکیک کے رُجحانات کا مدلّل صفایا ممکن بنایا جا سکے۔یہ آج کے تمام مذاہب کا مسئلہء لا ینحل نہیں، مسئلہء حل طلب ہے۔ جسے ترجیح کے ساتھ، تسلّی بخش طور پر حل ہونا چاہیے۔ جوش کے ساتھ ذِہنی و جذباتی زرخیزی کا موسم طُلُوع ہوتے ہی مُکالمہ مسلمانوں کو جھنجوڑ کر ہوشیار کر دینے والا اہم کِردار ادا کر سکتا ہے۔ ورنہ تو وُہ صدیوں کی چادر اوڑھے کب سے گہری نیند سو رہے ہیں۔ان کی تاریخ کا یہ ڈرامائی سُقم ہے کہ اس بھروسے پر آنکھیں مُوندے پڑے ہیں، گویا ہر طرف ''سب اچھّے کی آواز ہے''۔ بے خبر لیٹے، سمجھتے ہیں وُہ ہر بلا سے محفُوظ ہیں۔مُکالمہ ہی یہ ساری کج فہمیاں دُور کر سکتا ہے۔ اور الٰہی پیغام کی طرف انھیں دوبارہ ہمہ تن گوش کر سکتا ہے۔ خُداوندِ قُدّوس کا پاک کلمہ سرمدی، ازلی ابدی، لافانی تو ہے ہی، اس پر مسلمانوں کو پُختہ یقین ہے، تو پِھر لازماً اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ یہ مُقدّس کلمہ، پاک پیغامِ ربّانی گو کہ زمان و مکان میں آشکار ہے لیکن تمام زمینی و خلائی خواص سے ماورا بھی ہے۔ ہمیشہ اور ہر جگہ قابلِ فہم بھی، حسبِ حال ہے، ہمیشہ نیا کلام، تازہ پیغام ہوتا ہے۔ اِس لیے اس کا ادراک کرنا انسانی فرائض میں شامل ہے۔ اس پر واجب ہے کہ جانے، جب جان جائے تو مانے، اس کا یقین کرے، اس پر ایمان لائے اور عمل کرے۔۔۔۔۔۔ سُکُونیاتی طور پر نہیں، اَن تھک محنت کے ذریعے، امکانی باطنی قُوّت اور خُصُوصیات و صفات کے مجموعے کے وُجُودی جواز کے طور پر۔
یہ کوئی ایسی بھی آرزُو نہیں کہ محرّک بہ انقلاب ہو۔ ماضی میں بہُت سے مفسّرین اِس نوع کی تمنّا کا اظہار برملا طورکر چکے ہیں۔ قرآنی آیات کے انتہائی گہرے مطالب نے انھیں اپنی گرویدگی کے حصار میں لے لیا اور سونے پر سُہاگا یہ کہ سرخوشی اور جوش سے مملُو قُوّتِ لا یمُوت سے لسانی تعصبات اور رکاوٹوں کو پہلے ہی ہلّے میں قرآن نے پرے دھکیل دیا تھا۔ عصرِ حاضر کی عطا فہم و ادراک تک رسائی کی جس نعمت سے انسان آج مالا مال ہے وُہ اِس اہم ضرُورت کو سامنے لاتی ہے کہ اب قت آگیا، یہی وقت ہے کہ، ابھی اِسی لمحہء موجُود میں خُدا قادرِ مُطلق کی باتوں پر کان لپیٹ کر سو رہنے کے بجاے فوراً غور کرنا شُرُوع کر دیا جائے۔ اُس کی اطاعت، اُس کی بندگی اُس کے احکامات کی تعمیل، اُس کی حمد و تمجید اور اُس کا شکر ادا کرتے رہنا ہر لمحے کا ناگُزیر تقاضا ہے، اور اسے بہ ہر صُورت، بہ ہر قیمت پُورا کرنا ہم پر فرض ہے۔
ذِہنی کرب کے ساتھ جذبات و احساسات کی اثر پذیری سے باخبر رہتے ہوئے اور اِن بھلے وقتوں کی سوغات سُوال جواب کی کُرید اور بے صبری و بے کلی کا پُورے تحمّل سے تسلّی بخش اُپائے کرتے ہوئے احتیاط و عملی خرد مندی اور جُرأت سے شہہ پا کر جدید دور کے عالِم فاضل مفسّرین کی ناقدانہ تشریح و تفسیر والی ماڈرن کشتی کو اب پِھر سے خُدا شان والے کی معرفت کے بے کنار سمُندر میں اُتارنے کی ضرُورت اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ بشرطے کہ دُنیا اور دُنیا والوں کی طرف سے خُدا کے بارے میں خیالات، دھیان گیان، مشغُولیتِ عبادت، توفیقِ دُعا اور شکرانہء خُداوندی کو دِل سے محو نہ کر دیا گیا ہو۔ اُس کی موجُودگی، اُس کی عملداری انسانی زِندگی کی اقلیم پر پُوری طرح چھائی رہے، یہی انسانیت کے لیے مُقدّس خُداوندِ یسُّوع مسیح کی برکت اور خُداوند خُدا کا فضلِ عظیم ہے۔ مگر یہ نعمت تب ہی ہاتھ آئے گی جب بین المذاہب مُکالمہ کے لیے فضا ہموار نظر آ رہی ہو گی۔ اس میں شرکت کی دعوتِ عام سب کی حوصلہ افزائی کرتی دِکھائی دینے لگے گی۔۔۔۔۔۔ ایمان والوں کی حوصلہ افزائی بھی اور ایمان سے پیدل، لوگوں کی ہِمّت افزائی بھی۔
6۔ ہم اور ہماری وُسعتِ نِگاہ
کُشادہ دِلی، وسیع النّظری اور بے تعصّبی و غیر جانبداری کے جذبے سے جاری رکھی گئی ایسی تحقیق و جُستجُو جو چِھپ چِھپا کے بھی نہیں، سرِ عام کی گئی، کیا کہہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ہمیں کہاں پہنچائے گی؟۔۔۔۔۔۔ یہ تو کارنامہ ہے، کارنامہ جسے آئے روز ہم نے سرانجام دینا ہی دینا ہے۔ مُکالمے کے پیچ در پیچ راستوں کے اختتام پر کیا ممکن ہے کہ ہم مذہبی یگانگت و اِتّحاد کی منزل پا لیں گے؟ (۔۔۔۔۔۔)
وُہ تو سب بجا، جو ہُوا سو ہُوا، مگر ہمیں تو سامنا ہے نا اِدراک سے ماورا مشیّتِ ایزدی کے اَسرار و رمُوز کا، اور پِھر ہماری کیا مجال، کیا اوقات، کہ الٰہی بھیدوں کی رمزیں پہچان سکیں۔ اپنی ہی ذات شناسی کر لیں بڑی بات ہے!
اپنے من میں ڈُوب کر پا جا سُراغِ زِندگی
تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
ہمیں تو چاہیے اپنے اندر پلتے اختلافِ راے اور تفاوُت، اندر بیٹھ کے کچوکے دیتی ناانصافیوں اور نزاعی صُورتِ احوال کا اقبال کر لیں۔ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دُوسرے کی بڑھ چڑھ کے رِیس کرتے ہوئے، صِحّت مند مقابلہ اور ہمسری کے شوق شوق میں اس مدّت کی طنابیں کھینچ کر اپنے درمیان ادرک کے پنجوں کی طرح بڑھتی پھیلی نا اِتّفاقیوں و ناچاکیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں تا کہ ہماری آزمایشوں اور مصائب کے دِن ختم ہوں اور ہم بھی سب انسان مِل کر اس چار روزہ زِندگی میں امن، امان، پیار محبّت اور سُکھ کے دِنوں اور آرام و سُکُون کی راتوں کو اپنے ہاں مہمان کر سکیں۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہوں کہ دِل ٹَوٹے ٹَوٹے ہونے سے بچا لیں تو بُغض، کینے، فساد، تلخیاں، شکر رنجیاں سب کو ختم کرنا ہو گا۔ مُکالمے سے بھی کُچھ زیادہ توقّعات باندھنے کے بجاے، جائز جائز مطالبات کی سیڑھی اُترنا ہو گا۔ تبھی تلخیوں اور سرد مہریوں سے جان چھُوٹ سکتی ہے، دو طرفہ دِل شکنیوں سے بچ سکتے ہیں۔ ہمیں مُکالمہ کے محاسن تلاش کرنے ہیں، انھیں اپنانا ہے اور اِرتقا پذیری کے فاسٹ ٹریک پر آگے ہی آگے بڑھانا ہے۔ آندھی آئے یا طُوفان، موسم قہرمان ہو یا مہربان، آگے بڑھا ہُوا قدم، بس ہم نے پیچھے نہیں ہٹانا۔ ہماری عُمر کُچھ بھی ہو ولولے تازہ رکھنے ہیں، زِیستِ مُستعار کے دِن کتنے بھی کم بچے ہوں عزم کو جوان رکھنا ہے۔ بریں ہنگام ہمیں کِسی سراب کے چکر میں نہیں آنا۔ جو جو احتیاط اور حفظِ ماتقدم کے تحت اقدام ہم کر سکتے ہیں کر لیں، لوگوں کی باتیں تو پِھر بھی سُننا پڑیں گی، ناموافق باتیں، جتنے مُنہ اُتنی باتیں۔ ایسا ہوتا ہے، ہوتا چلا آیا ہے، کامیاب انسان اپنی دُھن میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے لیے ہر سنگِ میل پر لکھّا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ بڑھے چلو! ماضی یُوں لگتا ہے جیسے کل ہی تو گذرا تھا۔ یاد ہے نا، ہم نے کِسی کے ہاتھ میں جادُو کی چھڑی کبھی نہیں دیکھی۔ نہ ہی کِسی بوتل کے جِنّ نے دُھواں چھٹتے ہی کبھی پُوچھا۔۔۔۔۔۔ ''ہو ہو ہو ہا ہاہا۔۔۔۔۔۔ کیا حُکم ہے میرے آقا؟'' کوئی اُسے کیا حُکم دیتا، اُسے تو ہُو ہاہا کر کے بچّوں کو ڈرانے کے علاوہ اور آتا ہی کیا تھا۔ غلط فہمیوں سے جان جادُو کی چھڑیوں سے نہیں چھُڑائی جا سکتی اور نہ ہی کوئی جِنّ دُنیا اور دُنیا میں بسنے والے انسانوں میں کوئی انقلابی تبدیلی لا سکتا ہے۔ اب نہ کوئی ہُو ہا ہُوہا کرنے والے جِنّ کہِیں بچے ہیں، نہ بوتلیں۔ جو کرنا ہے خُود کرنا پڑتا ہے۔
مُکالمہ ثابت قدمی اور برداشت کا ایک لا مُتناہی سلسلہ ہے۔ یہ ہمیں ایک دُوسرے کے قریب لانے، نفرتیں مٹانے اور تعصّبات و اختلافات کا درجہء حرارت کم کرنے کا سامان مُہیّا کرتا ہے۔ بے اعتنائی و بے قدری کے رویّوں اور مُعاندانہ و مخاصمانہ اِخفا کی رازداریوں کو بے لوث دوستی، کھری اور خالص ہم خیالی و بھائی بندی میںبدل کے رکھ دیتا ہے باوُجُودے کہ ہم کتنے بھی مختلف العقیدہ لوگ ہوں جو مُکالمہ میں شامل تھے، ہم روزری کے مختلف دانے سہی مگر دھاگا تو ایک ہی ہے نا جس میں پرُوئے ہوئے ہیں۔
مُکالمہ کا مقصد یہ نہیں کہ بالضّرُور مُشترکہ و مُتّفقہ حل کی یافت ہی ممکن ہونا چاہیے۔ کم سے کم اس سے یہ کام لیا جا سکتا ہے کہ اس کے ذریعے کِسی سُودمند سمجھوتے پر مفاہمت اور ایکے تک ضرُور پہنچا جائے تا کہ میل جول بڑھے۔ مُکالمے کا مرکزی کِردار ہی یہی ہے کہ غلط فہمیوں، شکوک و شبہات اور دُوریوں کی دُھول صاف کر کے اور بات چیت کو مفاہمانہ فضا میںآگے بڑھنے کا موقع مُہیّا کرے۔ تا کہ مُکالمہ کے شرکا کامیاب تبادلہء خیالات کرتے ہوئے بہتر افہام و تفہیم کے ذریعے ایک دُوسرے کے لیے احترام، قدر و منزلت اور رواداری کے جذبات کو تقویت پہنچائیں۔ ورنہ تو وُہ ہمیشہ کی طرح اب بھی اپنی ہٹ پر اَڑے رہتے، اور اپنے ناقابلِ تغیّر مضبُوط و مستحکم عقائد کے جکڑ بند سے باہر نہ آنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے۔ باہر آنے پر اُنھیں کوئی مجبور بھی نہیں کر رہا۔ مُکالمے کے لاؤڈ سپیکر سے یہی پیغام جا رہا ہے کہ تمام دروازے مضبُوطی سے بند کرنے میں ہی نہ لگے رہو۔ گھر میں کھِڑکیاں اور روشن دان بھی ہیں۔ روشن دانوں سے تازہ ہَوَا کے جھونکے اندر آنے دو اور کھِڑکیوں سے سر باہر نکال کر امن سے جینے اور محبّت سے زِندگی کرنے کی شیتل پھوار سر، آنکھوں، پیشانی، ہونٹ اور رُخساروں پر پڑنے دو۔ خُود جیو اور دُوسروں کو جینے دو۔
ابدی شہنشاہ یسُّوع مسیح کی نُورانی بادشاہت ہماری منزلِ مُراد ہے، اس تک پہنچنے کے لیے روشنیوں اور خیر و برکت کا طویل فاصلہ کہکشاں در کہکشاں ہم نے طے کرنا ہے۔ راستہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا، اس کا دُوسرا سرا مُقدّس خُدا باپ نے بھید کے پردوں میں اوجھل کر رکھا ہے۔ (۔۔۔۔۔۔)
حوالہ جات و اقتباسات کے لیے مُلاحظہ فرمائیے:
Mohamed Talbi, Islam and dialogue. Some reflections on a current topic
(translated by L. Marchant)
Encounter (Documents for Muslim-Christian Understanding)
Piazza S. Apollinare, 49.
Roma - Italy
I-00 186-
Nos. 11-12 January-February1975
اِس آرٹیکل کے خالق، تاریخ دان ہیں۔ اپنے اختتامی کلمات میں یہی بات اُنھوں نے اپنے قارئین کی یاددہانی کے لیے گوش گزار کر دی ہے۔ آپ تیونس یونی ورسٹی میں صدر شعبہء تاریخ ہیں۔
Islam ed Dialogue reflexions sur un theme d actualite
Tunis Maison Tunisienne del Edition 1972 55p
(تحریف و تالیف کے ساتھ جو ترجمہ آپ کے زیبِ نظر ہے اس کے لیے بُنیاد اصل مقالے کے حتمی ورژن نے فراہم کی)۔