German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر69

آپ کی ویب سائٹ پر باب نمبر2، بعنوان حضرت عیسیٰ المسیح علیہ السلام کی اُلُوہیت کے دُوسرے مُسلم نقطہء نظر کے سیکشن3، کی پہلی سطر میں کہا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو کنواری ماں حضرت مریم مُقدّسہ کے بطن سے تولّد ہُوئے، اُن کا کوئی بھی آدم زاد باپ نہ تھا اور آمدِ مسیح کی یہ خُوشخبری جناب یوحنّا اصطباغی نے دی، جو ایک اندازے سے حضرت یحییٰ علیہ السلام بتائے گئے۔ آپ کِس حساب سے کہتے ہیں کہ وُہ خُوشخبری سُنانے والے حضرت یحییٰ علیہ السلام ہی تھے؟ اور وُہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس پیغامِ ربّی لے کر آئے؟ جب کہ قرآن پاک کی سورۃ 3آیت39میں تو فرشتوں کا ذِکر آتا ہے جو حضرت زکریا علیہ السلام کے پا س یہ پیغامِ الٰہی لے کر حاضر ہُوئے تھے۔

 

جواب:۔ جس فقرے کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اُس میں مَیں نے یہ کہنے کی کوشِش کی ہے کہ آپ کی مُقدّس کتاب قرآن کی رُو سے عیسیٰ بن مریم کو یحییٰ بن زکریا کلمۃ اللہ بالتّجسِیم مانتے تھے۔ امکان ہے کہ غالباً مَیںنے قرآن پاک میں وارد ہُوئے متن سے کچھ بڑھ کے کہہ دیا ہے، اگر واقعی کچھ ترجمہ میں اضافہ ہو گیا ہے تو مَیں واضح کر دُوں کہ میری اصل مُراد یہ تھی کہ لفظ ''صَدَقْنَا'' مُقدّس عیسیٰ ابنِ مریم کے بارے میں اُن پر اپنے ایمان لانے کا اِقرار کِیا اور یُوں آمدِ مسیح کی اطلاع بھی اس کے ذریعے چارسُو پھیل گئی۔

اب مَیں آپ کو متوجِّہ کرتا ہُوں تیسری سورت کی آیت اُنتالیس اور اُس کی جیسے اکثر مفسرین نے تفسیر بیان کی ہے (مثلاً Tafsir al Mana R دارالفکر ایڈیشن جلد سِوُم صفحہ 297پر اِس آیت بارے کی گئی تفسیر مُلاحظہ کر لیجیے)

مَیں نے بھی نہیں کہا اور نہ ہی قرآن ہی اِسے قُبُول کرتا ہے جیسے آپ نے تحریر کِیا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام پیغام لائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف، ایسا ہی آپ نے کہا ہے نا؟۔۔۔۔۔۔ لیکن درحقیقت ایسا ہرگز نہیں، یحییٰ کا اس صداقت پرپُورا پُورا ایمان تھا کہ یسُّوع پاک ''خُدا کا کلامِ مجسّم تھا''۔

1۔تفسیر آیتِ قرآن39:3 

''قرآن اور اس کے مفسرین'' جلد دُوُم (دی ہاؤس آف عمران) البانی، سٹیٹ آف نیویارک یونی ورسٹی پریس، 1992ع، صفحات 107تا112میں جناب محمود ایم۔ ایوب نے تفصیل سے لکّھا ہے کہ اوّلین مُسلَّم شارحینِ قرآن کی کثیر تعداد نے بھی وُہی نقطہء نظر پیش کِیا ہے جس کو اپنی کتاب میں مَیں نے چھُوا ہے۔ جہاں تک 39ویں آیت سورت3میں مضمُون ہے اس کی شرح بیان کرنے والے بہُت سے شارح اور مفسرین ریکارڈ پر ہیں۔ جناب محمود ایم ایوب کے ہاں آپ کے ایسے بہُت سے حوالہ جات مِل جائیں گے، مُختلف علما نے جو تفسیریں بیان کی ہیں اُن کے بھی اور ان الفاظ کے بارے میں بھی جامع معلُومات حاصل ہو جائیں گی جو ہمارے زیرِ بحث ہیں۔

2۔پیغمبروں نے اپنے اپنے انداز و الفاظ میں آمد مسیح کی پیشگی خبر دی

مَیں فرض کر لینے میں اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتا ہُوں کہ آپ نے تورات پاک یعنی پُرانے عہد نامہ کی پہلی پانچ مُقدّس کتابیں ضرُور پڑھ رکھی ہوں گی۔آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ بھری پُری لائبریری پر صدیوں بھاری رہے یہ نوشتہ جاتِ اقدس جب کہ انھیں بہُت ہی مُختلف حالات و ادوار میں لکھّا گیا تھا۔ توریت پاک میں ہمیں انبیا کرام کی کُتُب کی تلاوت کا موقع مِلتا ہے۔ ایسے بھی بہُت نبی ہیں اور ان کی تخلیقات ہیں جِن کا ذِکر قرآن میں نہیں مِلتا۔ یہُودیوں اور مسیحیوںکے نزدِیک ان کتابوں، نوشتوں اور ان کے لکھنے والے نبیوں کو بائبل مُقدّس کا اہم ترین حصّہ مانا گیا ہے۔ یہاں، سرِ دست مَیں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا یہ بتانے کے لیے کہ صدیوں پر صدیاں گُذریں، زمانے سے کیوں کہ عہدِ عتیق کی پیغمبرانہ پیشگوئیوں اور نبوی تحریروں کو مسیحیوں نے صحیح طور پر اس تعبیر میں فوکس کِیا جِس کا نتیجہ تھا کہ اُنھیں اپنے ایمان و ایقان کی روشنی میں ناصرت کا رہنے والا پاک خُداوند یسُّوع ناصری ہی المسیح نظر آیا۔ یہُودی اعتقادات کے برعکس، مسیحی مومنین عہد نامہء قدیم اور خُصُوصی طور پر انبیا کے صحائف پر ایمان رکھتے ہیں کہ ان میں جو مستقبل کی باتیں، خبریں، خُوشخبریاں پیشگی بتائی گئی تھیں وُہ برحق تھیں۔ اُن میں بتایا گیا تھا کہ خُدا کا ممسوح آئے گا اور اس کے آنے پر حُکُومتِ الٰہی قائم ہو گی۔ وُہ آیااور خُدا کی بادشاہی ساتھ لایا۔ اِسی طرح یہُودی عقیدہ کے برخلاف مسیحیوں کا پکّا عقیدہ، پُختہ ایمان ہے کہ خُداوند یسُّوع مسیح اقدس ہی وُہ مسیحا ہے یہودی جس کے انتظار میں ہیں۔ ایسا اِس لیے بھی قابلِ قُبُول دعویٰ ہے کہ شُرُوع زمانہ میں خُصُوصاً اور بعد کی صدیوںمیں عُمُوماً مسیحیّت قُبُول کرنے والے زیادہ تر وہی لوگ تھے جو یہُودیت ترک کر کے ہی اُمّتِ مسیحی میں شامل ہُوئے۔ اِس لیے وہ جلد مان گئے کہ مسیحِ موعُود جِس کا وُہ انتظار کرتے رہے، وُہ یہی ہے جو خُدا باپ، خُدا بیٹے میں، انسانوں میں انسان بن کر آیا۔ یہُودی آج بھی اِس انتظار میں ہیں کہ اس مسیحا نے آنا ہے اور وُہ ضرُور آئے گا۔ خُداوند پاک یسُّوع مسیح کے مسیحی پُورے وثُوق سے کہتے ہیں کہ مُقدّ س یسُّوع ناصری جِسے صلیب پر کھینچا گیا، مُردوں میں پِھر جی اُٹھا، درحقیقت یہی وہ مسیحا ہے جِس کا گُذری اُمّتوں اور بنی اسرائیل کو انتظار تھا۔ مُقدّس یسُّوع المسیح ہی خُدا کا مسح کردہ ہے۔ اور یہ وُہی ہے جِس کا یہُودی اپنے مُقدّس نوشتہ جات میں موجُود پیشینگوئیوں کے تحت صدیوں سے انتظار کر رہے ہیں کہ خُدا کی طرف سے ضرُور اُس کا ورُود ہو کر رہے گا۔ بس مَیں اِتن اہی تبصرہ کافی سمجھتا ہُوں۔ زیادہ کُچھ کہنے کی نہ گُنجایش ہے نہ ضرُورت۔ اگر آپ کو مسیحی مذہب کے بارے میں کرید ہے اور جاننا چاہتے ہیں، پُوری تفصیل کے ساتھ درک حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کے اُصُول و قواعد اور عقائد کی تو بصد شوق! ہم آپ کی دِلچسپی کی قدر کرتے ہیں۔ ہماری راے ہے کہ آپ

Katholischer Erwachsenen-Katechismus: Das Glaubensbekenntnis der Kirche, hrg. von der deutschen Bischofskonferenz. Kevelaar: Butzon &Bercker, 1985, bes. pp. 60-63; 143 ff.

رچرڈ پی میک برین کی کتاب ''کیتھولکزم'' کے متعلقہ ابواب سے اِستفادہ کِیا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب نیویارک میں ہارپر کولنز پبلشرز نے 1981ع میں چھاپی تھی۔

میرا یہ بیان کہ پاک خُداوند یسُّوع مسیح کا اعلانِ آمد بطور مُکتی داتا سلسلہ وار تمام پیغمبر کرتے رہے تھے، تویہ قابلِ فہم ہونے میں بھلا کیا پس و پیش کہ یہ بھی مادرکلیسیا کے دِینِ مسیحی کے اُصُولوں میں سے ایک اُصُول اور عقیدہ ہے۔ پُرانے عہد نامہء مُقدّس میں موجُود ایسے موضُوعات کی یہُودی قوم آج بھی مُختلف ہی تاویل پیش کرتی چلی آ رہی ہے۔ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پُرانے اور نئے عہد نامہ میں موجُود کلامِ مُقدّس کے بارے میں مُسلم مفسریں و شارحین کا آج بھی کوئی باقاعدہ تبصرہ یا تفسیر موجود نہیں۔

3۔ مُقدّس یوحنّا کی انجیلِ پاک

''میری او ربہُت سی باتیں ہیں کہ تم سے کہوں مگر اب تم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔

لیکن جب وُہ یعنی رُوح الحق آئے گاتو وُہ ساری سچّائی کے لیے تمھاری ہدایت کرے گا، کیوں کہ وُہ اپنی طرف سے نہ کہے گا۔ لیکن جو کُچھ سُنے گا، وُہی کہے گا، اور تمھیں آیندہ کی خبر دے گا''۔

مُقدّس سینٹ یوحنّا۔۔۔۔۔۔12:16اور 13 

مسیحیوںکو ہمیشہ سے یہ ادراک رہا ہے کہ ان آیاتِ مُبارک کی جُوں دُوسری آیات کا رُوئے سُخن بھی پاک تثلیث کے تیسرے اقدس اقنوم کی طرف ہی رہا ہے جوپاک رُوح ہے۔ زیادہ پھیلا کے بات کرنے کا موقع ہے نہ ان صفحات میں گُنجایش ورنہ ذرا تفصیل سے اِس موضُوع کا احاطہ کرتے اور آپ کو بتاتے کہ یُونانی ورژن میں پراکلِیتوس یعنی شفیع فارقلیط کے بجاے جو اسم پیریکلیٹوس یعنی مشہورِ زمانہ ہستی کے حوالے سے مذکُور ہُوا ہے، محلِّ نظر ہے۔ Parakeletosکے بجاے Periklytosلکھّا گیا، سو یہی پڑھا جاتا رہا۔ اِس مضمُون پر تو لکھ لکھ کے کتابوں کاڈھیر لگایا جا سکتا ہے، اسے یہاں اِن صفحات میں کیوںکر سمیٹیں۔ کہاں مسیحی توضیح و تشریح کے دفتروں کے دفتر اور کہاں ہیچمدان آپ کا مسیحی خادم کرسچین ٹرال !!ہاں مَیں اِتنا ضرُور آپ کے گوش گُزار اور زیبِ نظر کرنا چاہوں گا۔ عالمی مسیحی برادری تو بس اِتنا جانتی ہے کہ فارقلیط کون تھا۔۔۔۔۔۔ فارقلیط مددگار تھا، تسلّی دہندہ تھا، اور وُہ مُقدّس رُوحُ الحق ہی ہو سکتا ہے۔ یہ اِنکشاف کہ یسُّوع مسیح پاک حق بجانب تھا کہ اپنے آپ کو ابنِ خُدا کہے اور کہلائے۔
''یہُودیوں نے اُسے جواب دیا کہ کِسی کام کے سبب سے نہیں بل کہ کُفر گوئی کے سبب سے ہم تُجھے سنگسار کرتے ہیں۔ کیوں کہ تُو انسان ہو کر اپنے آپ کو خُدا بتاتا ہے''۔

مُقدّس یوحنّا۔۔۔۔۔۔33:10 

''یہُودیوں نے اُسے جواب دیا کہ ہماری ایک شرع ہے اور اس شرع کے مُطابِق یہ قتل کے لائق ہے کیوں کہ اِس نے اپنے آپ کو خُدا کا بیٹا بنایا ہے''۔

مُقدّس یوحنّا۔۔۔۔۔۔7:19 

خُداوند یسُّوع پاک کی مُقدس خُدا باپ کی طرف روانگی سے بڑی شہادت، بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے۔

''عیدِ فصح سے پہلے یسُّوع یہ جانتے ہُوئے کہ میرا وُہ وقت آ پہنچا ہے کہ دُنیا سے رِحلت کر کے باپ کے پاس جاؤں۔ جب کہ اپنوں کو جو دُنیا میں تھے پیار کرتا تھا، اُنھیں آخر تک پیار کرتا گیا''۔

مُقدّس یوحنّا۔۔۔۔۔۔1:13 

''یسُّوع نے اُس سے کہا، مُجھ سے نہ چمٹنا کیوں کہ مَیں ہنوز اپنے باپ کے پاس اُوپر نہیں گیا۔ مگر میرے بھائیوں کے پاس جا اور اُن سے کہہ کہ مَیں اپنے باپ اور تمھارے باپ کے پاس یعنی اپنے خُدا اور تمھارے خُدا کے پاس اُوپر جاتا ہُوں''۔

مُقدّس یوحنّا17:20 

اس سے یقینا اس کی آسمانی اصل اور حسب و نسب سے آگہی مِلتی ہے۔

''۔۔۔۔۔۔مگر یسُّوع نے جی میں یہ جانتے ہُوئے کہ میرے شاگرد اِس بات پر کُڑکُڑاتے ہیں، اُن سے کہا، کیا یہ بات تمھارے لیے ٹھوکر کا باعث ہے اگر تم ابنِ انسان کو اُوپر جاتے دیکھو گے جہاں وُہ پہلے تھا۔۔۔۔۔۔''۔

مُقدّس یوحنّا۔۔۔۔۔۔62:6، 63 

(یعنی جب تم مُجھے آسمان پر جاتے دیکھو گے کیا تم پِھر ایمان نہ لاؤ گے کہ مَیں خُدا کا بیٹا ہُوں اور وُہ روٹی جو میرا گوشت ہے دے سکتا ہُوں)۔

پاک خُداوند یسُّوع مسیح کو خلقت پر ظاہر کر کے رُوحُ القُدُس اسے جلا دیتا ہے اور مُقدّس خُدا بیٹا خُود خُدا باپ کی حمد و ثنا کرتا ہے۔

''(اے باپ!) مَیں نے زمین پر تیرا جلال ظاہر کِیا ہے۔ مَیں نے وُہ کام انجام دیا جو تُو نے مُجھے کرنے کو دِیا تھا''۔

مُقدّس یوحنّا۔۔۔۔۔۔4:17 

یہ اکمل ظہُور ہے۔ یہ لائقِ ستایش خُدا باپ کی طرف سے آیا، اور جلال والے خُدا بیٹے کے توسّط سے مؤثِّر ہُوا اور خُدا باپ اور خُدا بیٹے کی بزُرگی، عظمت اور اس کا جلال ظاہر کرتے ہُوئے مُقدّس رُوحُ الحق میں تکمیل کو پہنچا۔

(بحوالہ کاتھولیشر ایرواخزینین کاٹیچزمُس۔۔۔۔۔۔صفحہ221اور اس سے آگے)

4۔القرآن۔۔۔۔۔۔سُورت61، آیت6 

''اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا (اے میری قوم!) اے بنی اسرائیل! مَیں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہُوں، مُجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی مَیں تصدیق کرنے والا ہُوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی مَیں تمھیں خُوشخبری سُنانے والا ہُوں جِس کا نام احمد ہے۔ پِھر جب وُہ اُن کے پاس کُھلی دلیلیں لایا تو یہ کہنے لگے، یہ تو کُھلا جادُو ہے''۔

پارہ28، سورۃ61، آیت6 

اس کا نام احمد ہے، احمد، بہُت قابلِ توصیف۔ یہ صِرف نام ہی نہیں، تعریف ہے اس مُبارک ہستی کی جو اسمِ بامُسمّٰی ہے۔ مسلم مُبصِّرِین، شارحین، مفسرین اسی اسم سے اسے جانتے پہچانتے ہیں۔ علمِ مناظرہ کے اسلامی ماہرین، مسیحی دعووں کے برعکس، اس تلاش میں ہی سرگرداں رہے کہ انجیلِ مُقدّس میں بل کہ پوری بائبل اقدس میں کہِیں ایسا حوالہ وُہ ڈُھونڈ نکالیں جِس میں خُداوند یسُّوع مسیح کی طرف سے مُسلم تاویل و ترجمہ کی تصدیق کی گئی ہو۔ اِس بحث طلب دلیل کے دو رُخ ہیں:1) یا تو مسیحی دِینی اکابرین نے ایسے حوالوں کو صحائف، نوشتہ جات اور کُتُبِ کلامِ الٰہی سے حذف کر دیا ہے، ایسا تو الزامات کی مَد میں ہوتا ہی چلا آ رہا ہے ۔ 2) یہ بات کہ مُسلم علما اِس بات پر جم جائیں کہ دیکھیں جی حضرت عیسیٰ رُوحُ اللہ نے اپنے شاگردوں کو پکّی نوید دی تھی کہ اُن کی مدد کے لیے میرے بعد ایک اور مددگار، راہبر، شفیع اور تسلّی دہندہ بھیج دیا جائے گا، فارقلیط ہو گا اس کا نام۔ اور یہ اسم رُوحُ القُدُس کا ہی لقب ہے۔

کلامِ مُقدّس میں رُوحُ القُدُس کی وکالت کے باب میں مرقُوم ہے:

''اور مَیں باپ سے درخواست کروں گا اور وُہ تمھیں دُوسرا وکیل بخشے گا کہ ابد تک تمھارے ساتھ رہے''۔

مُقدّس یوحنّا۔۔۔۔۔۔16:14 

(یہاں ''ابد تک'' سے مُراد ہے، دُنیا کے آخِر تک۔ رسول تو رِحلت کر گئے مگر اُن کی رسالت ہمیشہ کے لیے ہے اور وُہ کلیسیا کے اُسقفوں میں، جو رسولوں کے قائم قام ہیں، آخری روز تک رُوحُ الحق اقدس کی مدد سے قائم رہے گی)

''لیکن وُہ وکیل یعنی رُوحُ القُدُس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا، وُہی تمھیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کُچھ کہ مَیں نے تُم سے کہا ہے تمھیں یاد دِلائے گا''۔

مُقدّس یوحنّا۔۔۔۔۔۔26:14 

اندریں صورت پراکلیتوس (Parakletos)،فارقلیط، جو شافع اور کارساز ہے، یہاں فارقلیط، Periklytos = the very famous، ممدُوح بطور معرُوف و مقبُول معانی میں ارشاد کِیا گیا ہے۔ توجُّہ رہے۔


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?