German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر63

سائینس اور مُقدّس اناجیل اپنے اپنے نُقطہء نظر کے تحت ایک دُوسرے سے متصادم تو نہیں؟ سائینس کے بارے میں اناجیل کیا راے رکھتی ہیں؟ کیا مُقدّس بائبل کِسی طور عالَمِ انسانیت کی سائینس تک رسائی میں مُمِد و معاون ہو سکتی ہے؟

 

جواب:۔ اِس سُوال کے جواب کے سلسلے میں عرض ہے کہ ایک تو مجبوری ہے کہ اس کے طویل و مدلّل جواب کی یہاں اِس کتاب میں سرِ دست گُنجایش نہیں اِس لیے موضوع کو گزند پہنچائے بِنا پوری کوشِش ہو گی کہ تسلّی بخش مگر اختصار پر محیط عرضداشت پیش کی جا سکے۔ دُوسری بات یہ ہے کہ ہم موضُوع کی وضاحت کے لیے کیتھولک مسیحی تعلیم کی کتاب سے متعلقہ حوالوں پر اکتفا کریں گے۔ اِس کتاب کو کلیسیا کی طرف سے استناد حاصل ہے: 

2293۔بُنیادی سائینسی تحقیق اور اس کے ساتھ عملی و اخلاقی کھوج کے نتیجہ میں یہ اہم حقیقت کُھل کر سامنے آتی ہے کہ انسان کی آئے روز کی ایجادات پر عملداری اور تسلط مُسلّمہ ہے۔ جب انسان کی خدمت اور اسے آسایشیں و سہُولیات فراہم کرنے میں سائینس اور صنعت و حرفت اپنا کردار ادا کرتی ہیں اور خلقت کے مُکمَّل ارتقا کو آگے بڑھاتی ہیں جس سے سب کو فوائد بہم ہوں تو ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ تو قیمتی خزانے ہیں جو انسان کو مُیسّر ہیں۔ البتّہ، زِندگانی۔۔۔۔۔۔ موجُودِ حقیقی کے مطلب کو مُنکشف کرنا تو ان کے بس میں نہیں، نہ ہی اب تک کی انسانی ترقی، اصل منزل کو پا لینے کے شروع سے آخِر تک کے مدارج علم میں لا سکتی ہے۔ سائینس و ٹیکنالوجی کو تو ذی بشر کے لیے مقسُوم کر دیا گیا ہے۔ ان کا آغاز بھی نُصرتِ الٰہی سے اس نے کِیا، اس کی نشوونما اور ترقّی بھی اس کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ انسان کی ذات میں ، اس کی ہستی میں اور اس کی اخلاقی اقدار میں سائینس اور ٹیکنالوجی کو اپنے مقاصد اور استعمال کے لیے دلائل و علامات کا کھوج نصیب ہوتا ہے اور اپنی حدُود و قیود کے بارے میں آگاہی حاصل ہوتی ہے۔

2294۔ یہ دعویٰ نہیں، سراب ہے کہ سائینٹفک ریسرچ اور اس کے اطلاق میں اخلاقی غیر جانبداری کا مُکمَّل لحاظ رکھا گیا ہوتا ہے۔ جب کہ اس کے رہنما اُصُول بھی اِس کی تکنیکی استعدادِ کار گزاری پر دلالت نہیں کرتے اور یہ اُصُول اس کے نتیجے کی طرف بھی کوئی اشارہ نہیں کرتے کہ یہ نفع مزید چند مخصوص لوگوں کو پہنچانے میں نمایاں کردار کرتی ہے بھلے دُوسروں کو تَل دیا جائے، اِن دُوسروں کے مفادات اُن مخصوص لوگوں کے فائدے پر چاہے قُربان ہی کیوں نہ کرنا پڑ جائیں۔ بل کہ اس سے بھی بدتر یہ کہ اس کے رہنما اُصُولوں کا استنباط فکر و عمل کے رائج نظام، مُراد غالب لائحہء حیات، سے بھی نہیں کِیا جا سکتا۔ سائینس اور صنعت و حرفت، ٹیکنالوجی اپنی نوعِ خاص میں متقاضی ہوتی ہیں کہ اخلاقی پرکھ کی بُنیادی کسوٹی کی غیر مشروط قدر کی جائے اور جو معیار طے پائے اُس کا احترام کِیا جائے۔ سائینس و ٹیکنالوجی کو ذاتِ بشری کی خدمت میں اِستادہ رہنا چاہیے۔ انسانیت کی فلاح مشن ہونا چاہیے، تباہی و بربادی نہیں۔ا نسان کے حُقُوق کا تحفُّظ اس کی کارگزاری ہونی چاہیے، ایسے حُقُوق کا جو اور کِسی کو منتقل نہیں کیے جا سکتے۔ گھُٹّی میں پڑی وہ سچّائی اور انسانی اخلاقیات کی جُزوِ لازم اچھّائیوں کو گزند نہیں پہنچنا چاہیے اور یہ سب کُچھ خُداوندِ خُدا کی منشا اور اس کے ارادوں کی عین مُطابقت میں ہونا چاہیے۔

2295۔ تحقیق و جُستجُو کے لیے انسانوں کو تجربات کی نذر قطعاً نہ کِیا جائے۔ اس کو اپنے تجربوں کا نشانہ بنانا انسانِ عظیم کی سراسر توہین ہے۔ انسانوں کی ہلاکت و بربادی کے لیے کوئی قانونی جواز کہِیں بھی موجُود نہیں۔ انسان کی عظمت، اس کے وقار سے ہرگِز نہ کھیلا جائے۔ ایسی کِسی حرکت کا اخلاقی جواز نہ کبھی تھا، نہ ہے، نہ کبھی ہو گا۔ زیرِ تجربہ شخص کی امکانی رضامندی بھی اِس بات کی دلیل نہیں کہ سب ٹھیک ہو گیا۔ اس کے باوُجُود بھی اگر کوئی صُورت نکال لی گئی تو یہ اخلاقی دیوالہ پن کی کریہہ مثال ہو گی (کوئی اور راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ ہر جاندار رحم کا مستحق ہے) مفروضوں اور تجربات کی زد میں لیے گئے شخص کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ (اُس کی زِندگی سے اوروں کی زِندگیاں بھی وابستہ ہوتی ہیں۔ا گر وہ رضاکارانہ طور پر آمادہ ہُوا ہے تو بھی غلط ہے۔ یہ کیا بات کہ کِسی کوبچانے کے لیے کِسی اور کو مار دیا جائے) کوئی نہ بھی مرے اِس بات کی کیا ضمانت کہ زیرِ تجربہ شخص جسمانی و نفسیاتی سطح پر بھی ویسا ہی رہے گا جیسا تجربے سے پہلے وہ تھا۔ (رِسک رِسک ہی ہوتا ہے اور انسانی غلطی سرزد نہ ہونے کا مطلق دعویٰ کوئی سائینس دان، کوئی انجینئر، کوئی ٹیکنالوجسٹ نہیں کر سکتا، اٹل بات ہے) ایسے تجربات انسانی وقار سے مُطابقت نہیں رکھتے۔ ایسے کاموں کی نہ تو شخصِ مذکور (سبجیکٹ) کو اجازت دینی چاہیے، نہ اُس کے کِسی ترجمان یا وارث کو یہ حق استعمال کرنا چاہیے۔

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?