:سُوال نمبر44
۔اگر وُہ دُرُست ہے جو مَیں سمجھا پایا ہوں، تو وُہ یہ ہے کہ پروٹسٹنٹ لوگ تو اس عقیدہ پر ایمان رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آپ کے سارے گُناہ معاف کر رکھے ہیں اور اُنھوں نے آپ سب کو آسمان کی بادشاہی کی نوید بھی دی ہوئی ہے۔ گویا اِس کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ اب تو آپ جتنے گُناہوں کا چاہیں ارتکاب کر لینے میں آزاد ہیں، کھُلی چھٹی جو مرضی کرتے پِھریں۔ پرلے درجے کے راکشس بن جائیں، تو بھی چلے گا۔ آپ کی تو مُکتی ایڈوانس میں ہو چُکی؟ کیا واقعی مَیں صحیح سمجھ سکا ہُوں؟ تو کیا تمام مُقدّس انجیلوں میں ایسی تعلیمات موجُود ہیں؟ عقل نہِیںمانتی، آپ کیا عقیدہ رکھتے ہیں، ایسا ہی ہے کیا؟ لگتا ہے آپ سے خطا ہوگئی، واقعی؟ کیوںکر ممکن مان لیں کہ مُقدّس کتابوں میں ایسے کِسی مذہب کو متعارف کروایا گیا ہو جو اُلٹا گُناہوں کے مرتکب ہونے کی حوصلہ افزائی کر رہا ہو؟ آپ کیا کہتے ہیں؟.... (خوب! آپ نے مسیحیت قُبُول کی، آپ کی نجات پکّی ہُوئی۔ خُدا کا خاص فضل تحفہ ہے آپ کے لیے۔ یہی بات ہے نا! خُداوند تعالیٰ کی طرف سے بخشے گئے آپ، اب مزید آپ کو کُچھ کرنے کی ضرُورت نہِیں، مخلصی ہو گئی۔ یہ الٰہی نعمت ہے جو فقط اُمّتِ مسیح ؑ کے لیے وعدہ کی گئی۔ نیک اعمال کے تکلف میں کوئی پڑے نہ پڑے، جنّت اُس کی ہُوئی۔ یہ آپ کے اعمال کا نتیجہ نہِیں، اس کا انعام ہے، اس لیے کُچھ زیادہ اِترانے کی بھی ضرُورت نہِیں)....حوالہ....افسیوں کے نام8:2 اور 9
جواب:۔کلامِ مُقدّس کے حصہ عہدِ جدید میں خبردار کِیا گیا ہے کہ اس کی ایسی تعلیمات میں صریح غلط فہمیاں پیدا ہوتے رہنے کا احتمال ہمیشہ موجُود رہے گا۔ مَیں چاہوں گا کہ آپ مُقدّس رسُول پولوس کے خطوط کا ضرُور سنجیدگی سے مطالعہ کیجیے، مثلاً
رومیوں....12:5
رومیوں....23:6
غلاطیوں3151:6
ایک اور بھی مُبارک نام ہے جن کا کیتھولک مسیحی کلیسیا میںاحترام موجُود ہے اور اس کے خط کو وقعت حاصل ہے، اس نے ایسی غلط فہمیوں کا کھُل کر سدِّ باب کِیا ہے۔ آپ کے استفادہ کے لیے حوالہ ہے:
یعقوب....14:1 تا 26
دُوسرے رسُولوں کے خطوط کی طرح خطوطِ عام میں یعقوب کے آخِری خطوط بھی اپنی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس نے ایسی پیدا کی گئی کج فہمیوں او رغلط تاویلات کو کُلیةً قابلِ استرداد قرار دیا ہے۔
بائبل مُقدّس کی ایسی تعلیمات جن سے غلط فہمیاں پیدا ہُوئیں یا آگے چل کر مزید کے پیدا ہونے کا امکان ہو ان کے بارے میں کلیسیا کی کونسلوں کا فرض ہے کہ صحیح سمت رہنمائی کرتے ہوئے ایسی آیاتِ مُقدّس کو عام فہم بنائیں تا کہ لوگ گمراہی سے بچیں۔ نہ صرف یہ کہ کتابِ مُقدّس کے اقتباسات سامنے لا کر لوگوں کی غلط فہمیاں دور کی جائیں بل کہ علمِ الٰہیات کی مدد اور حوالوں سے ان کی تشفّیِ مزید عمل میں لائی جائے تاکہ سب کی اصلاح اور فلاح کا کام انجام کو پہنچے۔ کلیسیا کے لیے دُوسری ویٹی کن کونسل میں طے کیے گئے قواعد و عقائد کے اصول و ضوابط کہ جن کا ذکر ہم کرنے والے ہیں یعنی لومِن جینسیوم (ایل جی) 40 کے حوالے سے کہ اس میں بات کی گئی ہے گُناہ سے اجتناب اور نیکی کرنے کی خاص توفیقِ ربّی کے بارے میں، اور ایمان اور نیک اعمال کے بارے میں نیز تطہیر و تقدیس(تزکیہءباطن)کو بھی موضوع بنایا گیا ہے:
پاک خُداوند یسُّوع مسیح کہ غیب کی بات بتانے والا رہبر و معلم ہے اور اکمل و زندہ مثال ہے سب کے لیے، اُس نے رُوحانی، ساکرامینتی و تقدس والی زندگی اپنانے کی ہدایت بخشی اپنے حوّاریوں یعنی شاگردانِ رشِیدکو۔ اطہر و مطہر حیات اسی کا سوچ تھا، اسے اپنانے اور کمال تک پہنچانے کے لیے اسی کی اپنی ہستی ہی آپ اس کی نظیر بنی۔ اسی لیے کہا گیا کہ تُم بھی کامل ہو اپنے اکمل آسمانی باپ کی طرح:
حوالہ ....مُقدّس متی....48:5
.....وہ جو اتباعِ خُداوند یسُّوع مسیح کرتے ہیں اُنھیں یہ اکملیت کا درجہ اُن کے ایمان و عمل سے نہِیں ملتا البتہ خُداے واحد و پُرجلال و قدرت کے اپنے مُقدّس ارادے سے بطور مُفت فضل کے عطا ہوتا ہے، کیوں کہ ایمان کے اصطباغ سے متمیز و متمول ہوتے ہی وُہ سیدھے سیدھے خُدا کے بیٹے بن گئے اور الٰہی ذات کا حصہ بن جانے کی برکت اُنھیںنصیب ہُوئی.... خُوش قسمتی سے وُہ متبرکین میں بھی شمار ہونے لگے۔ یہ جو الٰہی نعمت بخشی گئی، اُنھیں چاہیے کہ اس پاک و احسن طرزِ حیات میں، پاکبازی و پرہیزگاری میں کمی نہ آنے دیں، بلکہ اس میں رچے بسے رہیں۔ یہ تو خُدا کا خاص انعام ہے، اس کی قدر اور اس کی حفاظت کریں، مُقدّس رسُول نے اُنھیں تلقین کی ہے زندگی گزاریں مگر مُقدّسوں کی طرح:
حوالہ....افسیوں....3:5
اور خُدا کے چنیدہ، مُقدّس و پیارے ہونے کے ناتے رحمدلی اختیار کریں، التفات، عاجزی، حلیمی و انکساری اور صبر و برداشت اپنا شیوہ بنائیں:
حوالہ.... کلسیوں....12:3
اور ہمیشہ کے لیے اپنی پاک صاف زندگی میں ثمرِ رُوح القدس پائیں:
حوالہ....غلاطیوں....22:5
رومیوں....22:6
چوں کہ دیکھا جائے تو ہم واقعی خُدا اور خُداوند قُدُّوس کی ناراضی مول لینے والے، اس کے خطاکار بندے ہیں، لمحہ بہ لمحہ لغزشیں ہم سے کِسی نہ کِسی طور سرزد ہوتی ہی رہتی ہیں، اِنسان جو ہوئے، خطا کے پُتلے:
حوالہ....یعقوب....2:3
ہم اِنسان خُداوند خُدا کی رحمتوں، مہربانیوں، برکت اور فضلِ مسلسل کے ہمیشہ ہمیشہ محتاج ہیں، ہمیں عبادت سے چُوکنا نہِیں چاہیے اور دُعاﺅں میں بھولنا نہ چاہیے کہ......
ہم تیرے مقروض ہیں خُدایا، ہمارے قرضے معاف کر دے، آمین
حوالہ....مُقدّس متی....12:6