:سُوال نمبر38
بائبل شریف میں ایسے کِس بادشاہ کے احوال مذکور ہیں کہ جس نے خواب میں ایک مُورتی کو دیکھا، جس کا سر خالص سونے کا تھا، اس کا سینہ اور اس کے بازو چاندی کے تھے، مجسمے کا شکم اور اس کی رانیں تانبے کی، ٹانگیں لوہے کی اور اس کے پیر کُچھ لوہے کے اور کُچھ مٹی کے تھے۔ یہ تفصیل ہم نے توریت شریف میں........
حوالہ....دانیال....32:2 اور 33
سے لی ہے۔
دانیال میںجن4 بادشاہتوں کا ذکر ہے، اُن کے بارے میں آپ بتائیں گے کچھ؟ کیا ویسا ہی ہُوا، جیسا دانیال نے اپنی پیشین گوئی میں بتایا تھا؟
جواب:۔ بائبل مُقدّس میں عہدِ عتیق کے ذیل میں موجُود دانیال کی کتاب کے مندرجات کی تقسیم دو لحاظ سے ہو سکتی ہے:
1۔حکایتی حصہ.... جس میں یہ بیان کِیا گیا ہے کہ دانیال اور اس کے ساتھیوں حنن یاہ، میشائیل اور عَزریاہ پر بابل کے بادشاہوں کے ہاتھوں گُذری تو کیا گُذری۔
جیسے شاہ بابل نبو کدنصِّر کے ہاں
حوالہ.... دانیال....1تا 4
بال طشعربادشاہ کے ہاں کیا پیش آیا
حوالہ.... دانیال....5
اور بادشاہ دارا مادی کے حضور ان پر کیا بیتی
حوالہ.... دانیال....6
دارا شاہِ مادائی و فارس تھا۔
دانیال اور اُس کے ساتھیوں نے وُہ کھانے کھانے سے انکار کر دیا تھا جن میں گوشت مطہر و پاک نہ ہو۔ حرام گوشت کی تو بطور نُقَل موجُودگی بھی انھیں گوارا نہ تھی.... ہاں، ساگ پات سبزیاں انھوں نے اُوپر والے کا نام لے کر کھائیں! اور ساتھ ہی زندان کی ہُوا بھی۔
حوالہ....دانیال....1
کلدانیوں کے بادشاہ نبو کدنصّر کے خواب کی تعبیر بتانے میں دانیال کامیاب رہا.... حوالہ.... دانیال....2
بادشاہ نبوکد نصر کا دیوانہ پن اور دیوانگی میں جانوروں سے قربت بل کہ جانوروں میں جانور ہو کر گھاس چرنے لگتا۔
حوالہ.... دانیال....4
مافوق الفطرت تحریریں جنھیں ایک اِنسانی ہاتھ نے ظاہر ہو کر دیوار پر لکھا ۔منا، ثقل اور فرس۔ یہ واقعہ بال طشعر کی ضیافت کے موقع پر پیش آیا۔
حوالہ.... دانیال....5
یہ تمام وقوعے اور یہ بھی کہ شیروں کے گڑھے میں دانیال پر کیا گُذری، اس کے خُدانے اسے بچا لیایا بھوکے شیروںنے چیر پھاڑ ڈالا؟ جو ہُوا، اس کی تفصیل موجُود ہے۔
دانیال....باب6 میں
2.ایک سلسلہءکشف تھا جو دانیال پر وا ہُوا.. دانیال عرف بال طشعّر نے شاہ بال طشعر کا دور بادشاہت دیکھا۔
حوالہ....دانیال....7 اور 8
مادیوں کی نسل کے شاہ دارامادی کے دور کا سامنا کیا۔
حوالہ.... دانیال....9
اور شاہِ فارس کورُش
حوالہ....دانیال....10 تا 12
تمام کشف جو تھے ان کے ذریعے دانیال نے یہُودیوں کے مستقبل کے بارے میں قدرت کی بتائی ہُوئی تمام پیشین گوئیاں عام کر دیں۔ اس کی کتاب کے چند آخِر والے ابواب میں مکاشفاتی مواد کو بھی طشت از بام کیا گیا ہے۔ اگر روایتی پرکھ کے تحت غور کیا جائے تو پتا چلے گا کہ دانیال نے اپنی کتاب چھٹی صدی قبل مسیح میں لکھی تھی جب وُہ خُود جلاوطن ہو کر ملک بابل میں سر چھپانے کے آسرے ڈھونڈتا پِھرتا تھا۔ یہ ایک بڑی وجہ تھی کہ جس کے تحت اُس کو مُقدّسین میں شمار کرنے سے گریز ہی کیا گیا۔ کتاب کے مواد میں بہتیری تاریخی اغلاط موجُود ہیں جن کی بِنا پر اسے مستند کتاب کا درجہ دینا محال نظر آتا ہے اور پِھر ملک بدری کے دوران کیوںکر سکون سے بیٹھ کر کتاب پہ کام کیا جا سکتا ہے۔ سو مسائل، سو گنجھلیں، سو مصائب، فکرِ معاش غیر مُتعلّقہ حالات کا سامنا اور پِھر کتاب کے لیے عرق ریزی، وُہی مرزا غالب والی بات کہ
تنگ دستی اگر نہ ہو غالب
تن دُرُستی ہزار نعمت ہے
متن میں عقیدے سے متعلُّق صُورتِ حال اور زبان جو استعمال کی گئی ، اس میں بعض یونانی الفاظ بھی شامل ہیں۔ اور یہ حقیقت بھی سامنے کی بات ہے کہ بائبل مُقدّس کے پرانے عہد نامہ کی مستند فہرست میں دانیال کی کتاب کو جو حیثیت دی گئی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب مصنف کے دعوے کے برعکس کافی بعد کے کِسی سال لکھی گئی۔ جدید دور کے تجزیہ نگاروں اور جید مفسرین نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ یہ کتاب 168 اور165 قبل مسیح کے درمیان کہِیں ورطہءتحریر میں آئی ہو گی۔ مفروضوں پر اگر کان دھر لیے جائیں، تو ہر بات قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے کہ یہُودی النّسل دانیال (بال طشعر) کے سامنے کتاب لکھتے سمے جو مقصد پیش پیش تھا، وُہ یہ تھا کہ جب اہلِ یہُود پر خُدا کی زمین تنگ کی جا رہی تھی، ان پر ایذا رسانی کے بند کھول دیے گئے تھے، دانیال نے ضرُوری جانا کہ مصیبت کے مارے یہُودیوں کے زخموں پر پھاہا رکھنے کے لیے، ان کی ہِمّت بندھانے کے لیے، انھیں سہارا دینے کے لیے اور اُنھیں تقویت پہنچانے کے لیے قلم اُٹھایا جائے، کتاب لکھی جائے کہ مظلوم یہُودیوں کی ڈھارس بندھے۔ ستم پرور کون تھا؟ وُہ انتیوکس ایپی فانس تھا 175 تا 163 قبل مسیح ملک شام کا بادشاہ رہا۔ اس پر بھی توجہ رہے کہ دانیال کی کتاب کے سیکشن4:2 سے 7 اور 28 میں خُداوند پاک یسُّوع مسیح کی مادری زبان ارامی سے کام لیا گیا ہے نہ کہ عبرانی سے۔
انجیلِ مُقدّس، نئے عہد نامہ میں محض ایک ہی اقتباس ہے جس میں دانیال کا حوالہ دیا گیا ہے۔ وُہ بھی انتہائی وحشت ناک حقارت کے سیاق و سباق میں، بس۔
حوالہ....دانیال....27:9
بحوالہ....مُقدّس مرقس14:13 اور آگے بھی
لیکن کتاب میں درج تعلیمات کو نئے عہد نامہ میں قُبُول کرتے ہوئے ان میں بہتری بھی لائی گئی اور مُختلف جگہوں پر ان کے حوالے موجُود ہیں۔ مثلاً اِبنِ آدم کی ترکیب
حوالہ.... دانیال....13:7
اسی طرح خُدا کے فرشتوں پر ایمان کہ جو بنی نوعِ بشر اور خُدا ماوراے اِدراک ہستیِ مطلق کے درمیان واسطہ ہیں، ذریعہ ہیں، پُل ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دانیال کی کتاب میں مُردوں کا حشر میں جی اُٹھنے پر موقوف عقیدہ، یہ بھی کلامِ مُقدّس کے عہدِ جدید میں شامل ہے۔
حوالہ....دانیال....2:12
اختصار کے ساتھ اگر ہم دانیال کا جائزہ لیں
حوالہ....دانیال....29:2 تا 45
تو یہی پلّے پڑتا ہے کہ اس حصہءکتاب میں تمثیلات سامنے آتی ہیں۔ بڑی بڑی تاریخی بادشاہتوں ، ملک بابل کی نئی بادشاہت، مادیان کی، فارس اور یونان کی بادشاہ جہاں کا ولی عہدِ سلطنت سکندرِ اعظم تھا، جس نے ایشیائی ممالک کو زیر کیا تھا اور اب وہاں تخت نشینی کے لیے لڑائیاں لڑی جا رہی تھیں، سب کے درمیان پُراسرار سلسلہءبادشاہت کے لیے مار دھاڑ کا بازار گرم تھا، محلاتی سازشیں عام تھیں۔ گُذرے زمانوں کے علمِ قیاس آرائی یا غور و فکر کے عمل بموجب دُنیا کے مُختلف ادوارِ تاریخی کے بارے میں یہی کہا گیا کہ یہ تمثیلیں کیا تھیں، گویا الفاظ میں تصویر کھینچ دی گئی ہو اور اُن تصاویر کے رنگ اور قدر گردشِ روز و شب سے پھیکے پڑتے چلے گئے، گرتی ہُوئی قیمت والی دھاتوں کی طرح۔ یہی تنزل برپا ہُوا
تو پایانِ کار نتیجہ یہ نکلا کہ خُداوند یسُّوع مسیح کے ظہورِ ثانی کے ساتھ ہی مسیحی دور کا آغاز ہو گیا۔ زمین پر موجُود تمام حکومتیں ڈھیر ہو گئیں، نئی بادشاہت پھلنے پھولنے اور پھیلنے لگی۔ یہ ذاتی بادشاہوں پر دائم قائم بادشاہ جلال والے خُدا پاک کی دائمی بادشاہت تھی۔
حوالہ....مُقدّس متی....17:4
مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح نے اپنے آپ کو اِبنِ آدم بتایا ہے۔
حوالہ....دانیال....13:7
حوالہ....مُقدّس متی....20:8
خُداوند مُقدّس نے اپنے بارے میں کونے کے سرے والے پتھّر کا بھی کنایہ استعمال کیا ہے
دیکھ مَیں صیہُون میں ایک پتھّر رکھتا ہوں
جو منتخب اور کونے کا سِرا اور قیمتی ہے
اور جو کوئی اس پر ایمان لائے
وہ ہرگز شرمندہ نہ ہو گا
پس وُہ تُمھارے واسطے جو ایمان لائے ہو عزت کا باعث ہے
مگر جو ایمان نہِیں لاتے اُن کے لیے
جوپتھّر معماروں نے رد کِیا۔ وُہ کونے کا سِرا اور ٹھیس لگنے کا پتھّر
اور ٹھوکر کھانے والی چٹان ہُوا
پس....وہ کلام پر ایمان نہ لاکر ٹھوکر کھاتے ہیں اور
اسی کے لیے وُہ مقرر بھی ہوئے تھے
1۔پطرس۔6:2،7
داﺅد بادشاہ کی زبور(مزامیر) میں تو شُرُوع سے ہی اس کونے کے سرے والے پتھّر کو خُداوند یسُّوع مسیح کی ترکیب کو سراہا نہِیں گیا۔
حوالہ....مزمور22:118
حوالہ....مُقدّس متی....42:21 تا 43
حوالہ....مُقدّس لُوقا....17:20 اور 18
پتھّر کے اس کنایہ کے ذریعے صاف طور کہا گیا کہ یہی پتھّر پہاڑیوں سے جب لڑھکتا ہے تو وُہ اس سب کُچھ کو تباہ کر دیتا ہے جس سب کُچھ پر وُہ آن گرے
نوشتوں میں آیا ہے
جو پتھّر معماروں نے رد کیا
وہی کونے کا سِرا ہو گیا
یہ خُداوند کی طرف سے ہُوا ہے.... اور ہماری نِگاہوں میں تعجب خیز ہے
اشعیا:16:28
دانیال کے دُوسرے باب کا بھی ایک احوال ہے،
دانیال....39:2،44 اور 45
........