German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر32

۔ایک زمانہ کیتھولک مسیحی لوگ لاطینی زبان میں دُعا و عبادات ادا کرتے رہے۔ ہم مسلم لوگ اب تک اسی ایک زبان یعنی عربی میں عبادت کرتے رہے ہیں، جب کہ کیتھولکس نے 1960ع سے لاطینی تیاگ دی۔ پروٹسٹنٹ مسیحیوں نے تو ان سے بھی صدیوں پہلے، غالباً سولھویں صدی میں ہی اسے ترک کر دیا تھا۔ اگر لاطینی زبان اختیار کرنا غلطی تھی، تو کیتھولک مسیحیوں نے اِتنی دیر کیوں لگائی؟ اگرلاطینی میں کوئی سقم یا ہرج نہِیں تھا، بل کہ عام اندازے کے مُطابِق وُہ تو تمام مسیحیوں میں اتحاد و یکجہتی کے لیے تقویت کا سبب تھی اور اگر یہ صحیح ہے تو پِھر بیچاری اطالوی زبان سے بے اعتنائی کیوں برتی گئی، سبب؟

 

جواب:۔ پاک خُداوند یسُّوع مسیح اور اس کے تمام شاگرد بل کہ یُوں کہنا چاہیے کہ فلسطین میں آغازِ مسیحیت کی جو سماج تھی اس کی عبادات کی زبان آرامی تھی جو خُداوند کی مادری زبان تھی اور یہ قدیم ملک آرام(عراق و شام) کی شامی اور خُداوند پاک کے زمانے کی فلسطینی زبان کا مرکب تھی۔ انجیلِ مُقدّس کی آیاتِ مُبارکہ عبرانی اور یونانی زبان میں لکھی گئیں۔ مسیحی مذہب کا انحصار اس کے معتبر و مستند ہونے پر ہے نہ کہ خاص کِسی زبان کے اختیار کر لینے یا کِسی زبان کی چھٹی کروا دینے پر۔ مسیحی عقیدہ کے مُطابِق کلیسیا کی رونقیں اور برکتیں پاک رُوح کے دم سے ہیں۔ وُہ ممکن بناتا ہے اور اتفاق و اتحاد کلیسیا کے لیے آسانیاں عطا کرتا ہے اور وُہ بھی طرح طرح کی ثقافتوں اور بھانت بھانت کی بولیوں کے حوالے سے مُختلف زمانوں اور مُختلف خطوں کے ازدحام میں کہ مسیحیت تو چاردانگِ عالم میں چھائی ہے۔ نجی دُعاﺅں میں مسیحی پیروکارہر اُس زبان میں مناجات کرتے ہیں جو اُن پر آسان ہو، اس پر عبور ہو اُن کو، اور وُہ زبان ہر دلعزیز ہو۔ مسیحی جماعت کی مشترکہ لطوریائی عبادت گزاریوں کی اور کلیسیا کی زبان بدلتے وقتوں کے تقاضوں کے عین مُطابِق زمان و مکان سے بآسانی ہم آہنگ رکھتے ہوئے اختیار کی جاتی رہی ہے۔ یہ ضرُوری بھی تھا کیوں کہ مسیحی زندگی گوناگوں ثقافتوں میں پھیل اور رچ بس چُکی ہے۔ مثلاً مشرق میں مشرقی تمدن کے مُطابِق کلیسیا میں جو زبانیں مستعمل رہیں اور اب بھی برتی جاتی ہیں، وُہ ہیں: آرامی، شامی، قطبی، حبش کی حبشی یا ایتھوپیائی، آرمینیائی، چرچ کی سلاوی زبان اور رومانیہ کی رومانیئن زبان.... اور دیگر کئی زبانیں۔

چوں کہ مسیحی لوگ اکثر غیر ملکی آبادکار تھے، عُمرانی عدل کے زیرِ اثر مقامی آبادی انھیں عذاب اور اپنے اُوپر بوجھ بل کہ چھاتی کا پتھّر سمجھتی تھی۔ اسی لیے وہاں لاطینی کو غالب زبان کا درجہ نہ مل سکا جب کہ شُرُوع کی دو صدیوں میں رومن ایمپائر(سلطنتِ روما) کے مشرقی و غربی مراکز میں مسیحیوں کی دُعاﺅں اور عبادات کے لیے کلیسیا کی طرف سے لاطینی زبان کو ہی منظوری حاصل تھی، مگر مجبوری میں یونانی کو ئنے کو ترجیح دینا پڑی۔ کوئنے یونانی بولیوں کا ملغوبہ ہے، یہ رومی اور بیلینیائی ادوار میں مشرقِ وسطیٰ میں بولی جاتی تھی۔ دُوسری صدی عیسوی کے اختتام کے قریب رِمکے رِمکے لاطینی زبان کو اس پر ترجیح ملتی چلی گئی اور تیسری صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے روم میں مسیحیوں کے سنگِ مزار(لوحِ قبر) پر لاطینی زبان میں کندہ کاری ہونے لگی۔ حتّٰی کہ چوتھی صدی کے سال مہینوں نے مقررہ طرزِ عبارت (پاک یوخرست) کو مغربی سلطنتِ روما کے قداس میں مکمل لاطینی زبان میں ادا ہوتے دیکھا۔ اور صدی کا اختتام ہوتے ہوتے ہیرونیمس بائبل مُقدّس کا معیاری ترجمہ (ورسیو ول ) ورطہءتحریر میں لے آیا۔ تیر تُولیانس (230 عیسوی)کے دلائل کے ساتھ مسیحی عقائد کے تحفظ کا علم رکھنے والے تیر طُلّیانس کے مناظرین کے زمانہ سے ہی لاطینی مسیحی ادب راہ پڑ چکا تھا اور اس کا فائدہ مسیحی دُنیا کی سیاسی فتوحات کے جلو میں لاطینی کلیسیا کے محترم فادر صاحبان نے خوب اُٹھایا۔ روم جلا سو جلا، لاطینی زبان کو کوئی سینک نہ پہنچا۔ کارولنجیوں کا دورِ حکومت شُرُوع ہُوا تو لاطینی کو ماں بولی کہنے والے لد چکے تھے۔ اس نے تصرف پذیری کے لیے اپنا دامن وسیع کر لیا۔ نتیجةً یہ اب شگفتہ خاطر اور زوردار باپ بولی بن کر نظم و نسق، انتظام و انصرام اور ثقافت کے کام آنے لگی۔ سائینس اور مصلحانہ ادب نے بھی اس نئی عالمی زبان سے علمی آبیاری کا فیض پایا۔ یورپ کی سطح پر یہ زبان موجُود تو ہے مگر لاطینی زبان سے اکتسابِ علم کرنے والے زبان دانوں کے ننھے ننھے گروہوں تک ہی غریب محدود ہو کر رہ گئی ہے اور ان میں بھی اکثریت اہلِ کلیسیا کی ہی ہے۔ تاہم اِتنا اعزاز تو اسے ضرُور حاصل ہے کہ اس زبان کی وجہ سے اتحاد مقابلةً مسیحیوں میں زیادہ پیدا ہُوا اور مغرب کی تہذیب و ثقافت سے تعلُّق واسطے مضبُوط کرنے کا احساس بھی مستحُکم ہوتا رہا۔

انجیلِ مُقدّس کے بنیادی متن اور دُعاﺅں و عبادات کے تراجم بھی آٹھویں اور پندرھویں صدی عیسوی کے درمیانی عہد میں جُرمن زبان میں ہوئے جن پر اُس دور کا مثبت اثر نُمایاں نظر آیا۔ جیسے پاک خُداوند کی دُعا، میرا ایمان (عقیدہ)، اعلانِ شادی خانہ آبادی، وغیرہ۔ مقامی بولیاں جب رواج پانے لگیں تو تحریکِ اصلاحِ کلیسیا نے سُوال اُٹھایا کہ کیتھولک مسیحی کیوں ابھی تک لاطینی زبان سے چپکے ہوئے ہیں، حال آں کہ بعض پروٹسٹنٹ علاقوں میں لطوریائی زبان ہی زبان زدِ عام و خاص تھی۔ مارٹن لوتھر کی کلیسیا والی جُرمن اور دُعاے عام کی کتاب فیم تھامس کرینمر کی انگریزی بھی انھی ایام میں تقدیس پاتی جا رہی تھیں۔ رومن کیتھولک چرچ نے تاکید و اصرار کے ساتھ مصلحین سے صاف صاف کہہ دیا کہ اقدس قربانی کے لیے صرف لاطینی زبان سے کام لیا جائے گا۔ آتے آتے اٹھارھویں صدی بھی آگئی اور لاطینی کو حُکماً یہ مقام حاصل ہو گیا کہ پاک یوخرست کی رسومات ادا کروانے میں اسی زبان سے کام لیا جائے۔ دُوسری مُقدّس عبادتوں اور خصوصاً حمد کے لیے البتہ اپنے اپنے علاقہ کی مناسبت سے وہاں کی علاقائی زبانوں کا انتخاب کِیا جانے لگا۔ جب بیسویں صدی کرئہ ارض پر طلوع ہُوئی تو مقامی زبانوں کا توتی ہر طرف بولنے لگا۔ ویٹی کن مجلسِ عامہ دُوُم(1962-65ع) کی کارروائی کے تحت اور مقررہ طرزِ عبادت میں اصلاحات کے پیشِ نظر، یوخرستی قربانی میں آداب لطوریا تک سب پر مقامی زبانیں چھا گئیں۔ لطوریائی عبادتوں کی زبان لاطینی سانچوں سے نکل نکل کر مقامی بولیوں میں ڈھلنے لگی اور ان تراجم کی کلیسیائی نظام کے تحت روم کی چرچ کونسل نے باضابطہ پرکھ پڑچول کے بعد تصدیق و توثیق شُرُوع کر دی۔

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?