German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر147

۔مسیحیت اجازت دیتی ہے کہ مسیحی لوگ ہماری مساجد میں عبادت کر لیا کریں؟ پوپ صاحب نے تو دورئہ استنبول کے موقع پر ایسا کر دِکھایا تھا۔ یوں تو نہیں کہ اُنھوں نے ایسا مروّت مروّت میں کِیاہو؟ خیر سگالی کے طور پر؟

 

جواب۔۔۔۔۔۔
ہم دُعا لکھتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا

آپ کے سوال میںمعلومات حاصل کرنے کا عمل، مقصد کم اورشک شُبہ کا عنصر نمایاں نظر آیا اس لیے ہم نے آپ کے تفننِ طبع کے لیے درج بالا شعر کی طرف آپ کی نگاہِ ملتفت کی خاطر ناچار سامانِ زحمتِ فکرِ مہیا کر دیا، معذرت قبول فرمائیے۔

آمدم برسرِ مطلب، عرض ہے کہ یہ ہم بھی نہیں جانتے جناب تقدس مآب پوپ بتاریخ30 نومبر2006عیسوی جب نیلی مسجد، استنبول پہنچے تو اُنھوں نے اپنی دعائیہ عبادت میں جو خیالات، احساسات، جذبات کے کلمات آہستگی میں، بہ زبانِ بے زبانی، خشوع و خضوع سے ادا کیے وہ سُنے بھی جا سکے یا نہیں۔ بہ ہر صورت، مسیحی بھی مسلمانوں کی طرح لطوریائی طرزِ عبادت و دُعا یعنی آپ کے ہاں کی باجماعت ادائیِ نماز کی طرح، دوسری غیر رسمی عبادات میں جیسے آپ کی نفلی عبادات ہوتی ہیں، بڑا فرق کرتے ہیں، یعنی انھیں جداگانہ حیثیت دیتے ہیں۔ یعنی اکٹھے ادا کی جانے والی کلیسیائی عبادتوں اور خُدا کے گھر (مسجد) میں ادا کی جانے والی عبادتوں اور اجتماعی دعاؤں میں امتیاز برتا جاتاہے بمقابلہ فرداً فرداً، اپنے اپنے طور ادا کردہ عبادتوں اور دعاؤں کے۔ غیر رسمی عبادت و دعائیں تعریف و تمجیدِ خُداوندی، شکر گزاری اور دوسروں کے لیے دعاے خیر اور خُدا کی بارگاہ میں التجا کے لیے مخصوص ہوتی ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ استنبول میں اس خاص موقع محل کی مناسبت سے تقدس مآب پوپ نے خُداوند یسوع مسیح کے پاک دِل کے توسط سے دِلوں میں رحم و کرم اور محبت ڈالنے والے خُدا قادر و مہربان کی حمد و ستایش کی ہو گی کیوں کہ وہ اس وقت سلامتی کے مذہب اسلام کی ترجمانی کرنے والی مسجد میں اس کے لطیف ذوق میں گُندھے پُرجلال فنِ تعمیر سے مسحور ہو کر اس کے رعب و دبدبہ کو تحسین و احترام آمیز نگاہوں سے دیکھ رہے ہوں گے۔ مَیں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اُنھوں نے میزبانوں کی وسیع القلبی، فراخ ذِہنی، گرم جوشی سے معمور رواداری، جذبہء خیر سگالی اور اپنے پُرتپاک خیر مقدم پر خُداے لم یزال کے حضور شکرانہ ادا کرتے ہوئے دونوں مذاہب کے پیروؤں کے درمیان بہتر افہام و تفہیم پیدا ہونے کی دعا کی ہو گی۔ خُدا معبودِ حقیقی کے لیے مسلمانوں کی پُرجوش عقیدت و تعظیم کو سراہا ہو گا۔ مسلمانوں اورمسیحیوں کے لیے ایک دوسرے کو جاننے سمجھنے، پُرانی بوسیدہ کدورتوں کو ختم کرنے، باہم دوستانہ مراسم قائم کرنے، ایک دوسرے کے مذہب کا بل کہ تمام مذاہب کا احترام کرنے، باہمی ذمہ داریوں کا ادراک کرنے اور خُدا خالق و مالک کی مشیت کے عین مطابق خُدا کی تخلیق کردہ اس دنیا میں امن، محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم دائم رکھنے کی گڑگڑا گڑگڑا کر دعا مانگی ہوگی۔

تقدس مآب پاپاے اعظم کی تقلید میں تمام مسیحیوں پر لازم ہے کہ وہ بھی اپنی عبادتوں، دعاؤں میں اس جذبے کو تازہ و توانا رکھیں جب بھی ان کا کِسی مسجد میں جانا ہو یا ایسے اجتماع میں شرکت کا موقع ملے جہاں مسلم دوست اپنی عبادتوں یا دعاؤں میں مصروف ہوں۔ ایسے خاص مواقع پر مسیحی بھی اپنے مسلمان دوستوں، پڑوسیوں، رفقاے کار اور شناساؤں کے عقب میں ادب لحاظ سے کھڑے ہوں یا احترام کے ساتھ چپ چاپ بیٹھ سکتے ہیں تا کہ ایک مخلص آبزرور کے طور پر ان کی شمولیت کا مسلم برادران استحسان کریں۔ عیدِ سعید کے تیوہار پر اُنھیں عید مبارک کہنا، گلے ملنا جذباتِ خیر سگالی کو تقویت دینے والی بات ہے۔ ان کی حوصلہ افزائی ہو گی تو وہ بھی کرسمس، ایسٹر کی تقاریب میں شرکت پر خوشی خوشی آمادہ ہوں گے۔ ہم سب کا خُدا ایک ہے، بھلے اس کے بارے میں ان کے مذہبی عقائد تمام کے تمام وہ نہیں ہیں جو ہم مسیحیوں کے ہیں۔ ان کے عقیدے اُن کے عقیدے ہیں، ہمارے عقائد ہمارے عقیدے ہیں۔ خُدا ہم دونوں کا ایک ہی ہے، واحد و اَحَد۔ تحمل اور برداشت کرنے کی عادت پکی کر لی جائے تو مصالحت کی راہ نکل سکتی ہے۔ اپنا مذہب چھوڑو نہیں، دوسروں کا مذہب چھیڑو نہیں۔ منزل سب کی ایک ہی ہے۔ ہم سب اسی ایک خُدا کی عبادت کرتے ہیں۔ وہی معبودِ حقیقی ہے، اسی نے یہ کائنات بسائی، خلقت تخلیق کی، ہم سب اسی کی صنّاعی کا کرشمہ ہیں۔ ہم سب انسان برابر ہیں۔ ایک ہی خُدا کی مخلوق ہیں۔ خُدا ہر جگہ موجود ہے چاہے مسجد ہو، مندر ہو، گُردوارہ ہو یا گرجا گھر ہر جا خُدا موجود ہے۔ تمام مذاہب اسی کی طرف گیان دھیان مبذول کرواتے ہیں۔ فرق ہے تو فقط تعلیمات کا فرق ہے، ان کا رنگ اپنا اپنا ہے۔


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?