:سُوال نمبر93
۔اس میں کیا مصلحت تھی کہ جناب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے پیغام اور اپنی تعلیمات کواحاطہء تحریر میں لانے کی تلقین نہ فرمائی؟
جواب:۔ دونوں سُوالوں کا جواب حاضر ہے:
(1) ہماری اس شایع شُدہ کتاب کے پہلے باب کا بغور مُطالَعہ کرنے کی سفارش کے بعد عرض ہے کہ کلامِ مُقدّس، کلمہ، خُدا کا کلام(بائبل مُقدّس) کی تفصیل جب ذِہن میں سما جائے تو سُوال نمبر60کے جواب میں اسی کتاب کا صفحہ7بھی قابلِ توجُّہ پائیں گے آپ، کیوں کہ اس موضُوع پر گُفتگُوکی گئی ہے کہ ایک انجیلِ مُقدّس کے بجاے چار چار انجیلیں کیوں دُنیا میں موجُود ہیں۔ مزید ہمیں جو کُچھ کہنا ہے مندرجہ ذیل ہے:
یہ سُوال کہ کیا وَجہ تھی جو مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح نے اپنا مُبارک پیغام اور انسانیت کی بھلائی کے لیے عام کی گئی تعلیمات کو تحریر میں لانے پر اِصرار و اِہتمام نہ کِیا، ذِہن کو اِس لیے کھُد بُداتا ہے کہ ہمارے سامنے کلاسیکل اسلامی تعلیمات کی جامع شکل مُسلمانوں کی مذہبی کتاب القرآن میں دستیاب ہو جاتی ہے:
''اے مسلمانو! تُم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اُتاری گئی اور جو چیز ابراہیم، اسمٰعیل، اسحق، یعقُوب اور اُن کی اولاد پر اُتاری گئی اور جو کُچھ اللہ کی جانب سے مُوسیٰ اور عیسیٰ اور دُوسرے انبیا دیے گئے (اُنھیں جو کُچھ مِلا)۔ ہم ان میں سے کِسی کے درمیان فرق نہیں کرتے، ہم اللہ کے تابع فرمان ہیں''۔
القرآن۔۔۔۔۔۔136:2ویں آیت
بعض نمایاں ترین نبیوں پر صحائفِ آسمانی کا خُدا کی طرف سے براہِ راست نُزُول ہُوا۔ قرآن بتاتا ہے جیسے نبی مُوسیٰ کو توریت کی الٰہی کتاب مِلی، نبی عیسیٰ کو انجیلِ پاک اور آخر میں پیغمبرِ اسلام حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پر قرآن اُترا (سب نبیوں پر خُدا کی سلامتی ہو!)
چُناں چہ اس قرآنی عقیدے کی رُو سے جیسے ہی کلامِ خُدا ان پیغمبروں کے دِل و زُبان سے ہوتا ہُوا ہونٹوں سے ادا ہوتا فوراً اسے چمڑے کے سکرول (فرمان) پر یا کِسی مخطُوطہ کے انداز میں احاطہء تحریر میں لائے جانے میں کوئی کوتاہی یا غفلت نہ برتی جاتی تھی، پُوری پُوری احتیاط عمل میں لائی جاتی تھی کہ سطر بہ سطر، جُملہ بہ جُملہ وُہی مُقدّس کلام محفُوظ کِیا جائے جو اُوپر سے ابھی ابھی اُترا تھا۔ بِلا حُجّت یہ تاویل دو آرا کی حامل ہے:
پہلی یہ کہ ان نبیوں کو بِلا شک و شُبہ، حقیقتاً خُدا سچّے کا کلامِ پاک اپنے اصل متن، اصل الفاظ میں ہی وحی کِیا جاتا تھا۔
دُوسری بات یہ کہ جو کُچھ ان پیغمبروں نے زُبان سے ادا کِیا یعنی جِس کے بارے میں اُنھیں یقین و اعتبار ہوتا تھا کہ یہ خُدا کا کلامِ اقدس ہی ہے وُہ اُسی لمحے اس کی کتابت کروا دیتے تھے، حرف بہ حرف، لفظ بہ لفظ۔ اور قرآنِ پاک کی حفاظت کا ذِمّہ تو بقول مسلمانوں کے خُدا نے لے رکھّا ہے۔ اِس لیے خُدا کے فرمائے اور کاتبین کے لِکّھے میں کوئی رد و بدل یا سہواً تبدیلی آ ہی نہ سکتی تھی۔
تاہم ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اب یہ مؤرّخین اور محقِّقین کی ذِمّہ داری ہے کہ وُہ اپنے نتائج سے دُنیا کو آگاہ کریں کہ اس ساری تفصیل کے بارے میں وثُوق کے اعتبار سے کیا مُعتبر ہے کیا نہیں۔
بارِیک بیں ادبی قبیلے کے غیر مسیحی محقِّق اور دقیقہ رس قبیل کے مسیحی مُحقِّقین کے درمیان خُداوند پاک یسُّوع ناصری کے بارے میں مُکمَّل اِتّفاقِ راے پایا جاتا ہے کہ اُس نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کِیا کہ کلامِ مُقدّس کی عبارت خُدا نے اُس پر اِلہام کی، وُہ تو خُدا کے پاس پہلے سے ہی موجُود ہے۔ اسلامی روایات میں کہا جاتا ہے کہ لوحِ محفُوظ میں سب کُچھ پہلے سے لکھ دیا گیا تھا۔ محقِّقین کے مُطابِق نہ تو خُود پاک خُداوند نے اپنے طور پر اور نہ ہی اپنے حواریوں کے توسّط سے جو پیغام اپنی اُمّت تک پہنچایا اور جِس کا کامل ابلاغ بھی ہُوا اُسے کِسی ایک کتاب میں محفُوظ کر لینے کا حُکم دیا، نہ یہ کہا کہ شریعتِ مسیحی کو کتابی شکل دے دی جائے۔ خُداوند کا تو کلام ہی ایسا تھا کہ دِل و دماغ پر چھا جاتا تھا، صداقت کے جویا اس پر ایمان لے آتے تھے، بے راہ، سیدھی راہ دیکھ بھال کے بھی بھٹکے رہتے تھے۔
بڑی ہی چھان پھٹک والی تحقیق کے بعد جو عام توافق پیدا ہُوا اس لحاظ سے ذرا تصوُّر میں تو لائیے کہ مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کے پیغامات و فرمُودات کے شایانِ شان اور پُرکشِش تاثُّر قائم کرنے والی تحریروں کا طریقِ کار، بل کہ مناسب ہو گا کہ یہ کہا جائے کہ تخلیقی عمل سے مُتّصف تصنیفات ایک نظم کے تحت جب یکجا کی گئیں تو وُہ معیار میں کلیسیا کے لیے مثالی درجہ کے مُقدّس نوشتوں کی حیثیت اختیا رکر گئیں۔ اس کی آسان مثال ہمیں بائبل مُقدّس کے نئے عہد نامہ میں مِلتی ہے۔ اس عام اِتّفاقِ راے کے بارے میں کیتھولک مسیحی ماہرِ علمِ الٰہیات اوٹو ہیرمَن پیش کی بات پر کان دھرنا ہوں گے:
مُقدّس صحیفوں کا تو خُود خُداوند نے بھی حوالہ دینے میں کوئی باک نہیں رکّھا، شریعت کا بھی اس نے حوالہ دیا اور اِس سلسلے میں انبیا کا بھی۔۔۔۔۔۔ انجیلِ مُقدّس متّی سے اقتباس ہے:
''انہی دو حُکموں پر تمام تورات اور صحائفِ انبیا کا مدار ہے''۔
مُقدّس متّی۔۔۔۔۔۔40:22
پاک خُداوند یسُّوع مسیح کے دیے گئے عقائد و ارشادات براے تعلیم و تربیتِ مسیحیاں کے مُطابِق جِن میں خُدا کا کلمہ موجُود ہے۔ بمُطابِق مُقدّس یوحنّا۔۔۔۔۔۔
''ابتدا میں کلمہ تھا
اور کلمہ خُدا کے ساتھ تھا
اور کلمہ خُدا تھا''۔
مُقدّس یوحنّا۔۔۔۔۔۔1:1
اور ان میں مشیّتِ ایزدی کا بھی اظہار ہے۔ جو بھی بیتی اُس کے ( خُداوند یسُّوع مسیح ) کے ساتھ وُہ وُہی کی وُہی تھی اور تورات پاک والی کہانیوں سے ہٹ کے کوئی بات نہ تھی اور نبی مُوسیٰ کے کلمات اور دُوسرے نبیوں کے پرچار پر بھی اس سے مُختلف نہ بیتی تھی۔ پہلے تو لوگ قداس پاک (عبادت) میں اس کا ذِکر کرتے تھے، دُوسرے مذہبی ذِکر اذکار میں بھی خُداوند یسُّوع مسیح کا کلام، اس کا فرمایا، عبادت کا حصّہ ہوتا تھا، مگر سب کُچھ زبانی دُہرایا جاتا تھا۔ پِھر بعد میں جو اس نے بولا تحریر میں لایا جانے لگا، پہلے تھوڑا، پِھر بہُت اور پِھر بہُت ہی بہُت۔ جو کلمات یسُّوع پاک نے ادا کیے اور جو کُچھ اُس نے ایمان لانے والوں سے فرمایا، سب لِکّھا پڑھا جانے لگا۔ بالآخِر باصلاحیّت لکھنے والوں اور علمِ معرفتِ الٰہی کے ثقہ عالم فاضل لوگوں نے اس کام کو سنبھال لیا، کہانیاں، واقعات، خُدائی کلمات اور ان کی تفسیریں جب اکٹھّی ہو کر ایک ساتھ ترتیب میں آگئیں تو کہانیوں کو تسلسُل اور تکمیل مِل گئی اور یہ مُرکّب بعد میں انجیلِ مُقدّس کہلایا۔ سب سے قدیم کاوش جو تھی اس کی پہلی سطر تھی:
''یسُّوع مسیح اِبنِ خُدا کی انجیل کا شُرُوع''۔
انجیلِ مُقدّس مرقس۔۔۔۔۔۔1:1
مزید ان میں مُختلف رسُولوں کے چوپانی خُطُوط بھی شامل کر لیے گئے، مشنریوں اور راہبانہ جماعتوں کے رہنما سرداروں، خُصُوصاً مُقدّس پولوس رسُول کا نام پیش پیش رہا۔
پس، کتابوں کا یُوں ایک نیا مجمُوعہ وُجُود میں آگیا جو نیا عہد نامہ کہلایا۔ بالکل اسی طرح جیسے پُرانے عہد نامہ سے استفادہ کرتے ہُوئے بنی اسرائیل نے گُذرے حالات و واقعات کی تاریخ کے آئینے میں اپنے ماضی کی تصویر دیکھی اور اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے یہ سیکھا کہ خُداے لم یزال کے ساتھ گہرے قُرب والے رِشتے میں ہی اُن کے ایمان کی جڑیں پیوست ہیں، ویسے ہی مسیحی قوم نے بھی نئے عہد نامہ کی تلاوت اور اس کے فیضان سے اِس بات پرایمان پُختہ کِیا اور یہ سیکھا کہ خُدا جلال والے کی حتمی اور تغیر ناپذیر قُربت و محبّت تمام نوعِ بشر کے ساتھ اپنے مُقدّس بیٹے یسُّوع مسیح میں ہے جو مصلُوب ہُوا اور پِھر جی اُٹھا۔ چُناں چہ عہد نامہ جدید انجیلِ مُقدس ہے، عین اسی طرح مُقدّس جس طرح عہد نامہ عتیق یعنی تورات مُقدّس ہے۔ انجیلِ مُقدّس میں تورات پاک کی کہِیں نفی نہیں کی گئی۔ اس کی آیات پر بھی ہم ایمان رکھتے ہیں۔ ہمارا اورقومِ یہُود کا وُہی ایک خُدا ہے بنی اسرائیل میں جِس کی عملیت پر اور جِس کے خُداوند یسُّوع پاک میں ظاہر ہونے پر ہمارا یقینِ مُحکم ہے۔دونوں مُقدّس عہد نامے (عتیق و جدید) مِل کر بائبل مُقدّس کی تشکیل پر منتج ہوتے ہیں، پہلا عہد نامہء الٰہی ہے اور دُوسرا الٰہی میثاقِ عملدرآمد ہے۔ مُکمَّل کلامِ اقدس جو ہے وُہ کلیسیا اور کلیسیائی و مذہبی نظریات و تعلیمات پر ایمان کا منشُورِ تاسیسی ہے۔ یہ سُوال کہ آیا بائبل مُقدّس پراعتقاد رکھ سکتے ہیں یا نہیں، اِس کا جواب تو دیا جا چُکا۔ اِس پر تو کلامِ مُقدّس نے خُود ہی تشفّی کروا دی۔ ہم بائبل پر ایمان رکھتے ہیں کیوں کہ اِس کتابِ مُقدّس کا ورق دعوت دیتا ہے کہ آؤ میری تلاوت کرو، مَیں حق ہُوں، آفاقی سچ ہُوں، سطر سطر بُلاتی ہے کہ آؤ میری طرف آؤ، میرے لفظ لفظ کی سچّائی پر ایمان لے آؤ۔ حقیقت آپ کو بتائیں کہ بائبل مُقدّس کے بغیر ہم کہاں کے کرسچین کیوں کہ اس کے بغیر ایمان کی دولت ہم کہاں سے لائیں گے، تہی دامن کے تہی دامن رہیں گے، ایمان و یقین میں کورے، نِرے کورے۔ یہ تو وُہی بات ہو جائے گی کہ ہم اپنی کِسی محبُوب شخصیّت کو دیکھیں اور دیکھتے ہی پُوچھیں کہ کیا مُجھے اس شخصیّت پر پیار نچھاور کرنے کی اِجازت مِل سکتی ہے؟ بھائی جی! سیدھی سی بات ہے، اگر ہمیں کِسی سے محبّت ہے، تو سادہ سی، سیدھی بات ہے کہ بس محبّت ہے۔ ہمیں کوئی اچھّا لگتا ہے تو بس لگتا ہے۔ اب ہم پُوچھتے تو نہیں پھریں گے، لوگو! بتاؤ، ہمیں اجازت ہے کہ ہم بھی کِسی سے اپنی اُلفت کااظہار کر سکیں، اسے اپنا لیں، اس سے بے پناہ پیار کریں۔ بائبل مُقدّس بھی ہماری پہلی اور آخری محبّت ہے۔ اس پر ہمارا عقیدہ، ہمارا یقین، ہمارا بھروسا انتہائی مستحکم، بہُت ہی پُختہ ہے، اس کا لفظ لفظ ہمارے ایمان کا حصّہ ہے۔ جِس کا نتیجہ بل کہ ثمر یہ ہے کہ ہم خُدا پر ایمان رکھتے ہیں، بس مانتے ہیں، ذِہن و دِل سے اُسے اپنا خُدا مانتے ہیں۔ بائبل مُقدّس نے ہمیں اِس حد تک قائل کر لیا ہے کہ ہمیں کِسی سے پُوچھتے پھرنے کی ضرُورت نہیں کہ۔۔۔۔۔۔ جناب! اجازت ہے ہم اس پر ایمان لے آئیں!
بائبل مُقدّس۔۔۔۔۔۔انسانی تصنِیف و تالیف
ہم بجا طور جاننا چاہتے ہیں کہ جو کُچھ بائبل مُقدّس میں لِکّھا ہے کیا واقعی ایسا ہی ہُوا ہو گا جیسا ہم نے پڑھا ہے۔۔۔۔۔۔ وُہ تما م مُحیر العُقُول کہانیاں قصّے جِن میں تاریخ کی روش اور معمُولات میں خُداوندِ قُدُّوس کی طرف سے کرشماتی عمل دخل بل کہ ایک طرح کی مداخلتِ خُداوندی کے احوال درج ہیں۔بائبلی تنقید لکھی سُنی ہم تک پہنچتی رہتی ہے، بائبل مُقدّس سے متعلّقہ دقیقہ رس تنقیدی مواد سوشل میڈیا کے ذریعے سبھی کو اپ ڈیٹ کہہ لیں یا پولیوٹ سمجھ لیں، کرتا رہتا ہے۔ ایک تقابلی جائزہ پرنٹ میڈیم اور الیکٹرانک میڈیم کے ذریعے اکثر منظرِ عام پر رہتا ہے کہ کتابِ مُقدّس میں دی گئی کہانیوں کو دُوسرے ذرائع سے اخذ کردہ بائبلی دور اور ماحول کے پس منظر میں پرکھا جائے۔ نتیجہ؟۔۔۔۔۔۔ نتیجہ کنفیوژن ہے، ایسا ہو سکتا ہے، نہیں بھی ہو سکتا۔ حقائق ہیں، نہیں، من گھڑت لگتے ہیں۔ وہی بات کہ۔۔۔۔۔۔
بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستاں کے لیے
بزُرگانِ دِین کی سوانح اور روایتی کہانیاں تاریخِ عالَم(اس وقت کے عالَم) میں ضم کر دی گئی ہیں۔ تا کہ بات میں وزن، قول میں اثر اور داستان میں دِلچسپ موڑ سامعین، ناظرین، قارئین کو پہلُو نہ بدلنے دے، ہمہ تن متوجِّہ رکھے۔ اور ان قصوں کو ایک طرح سے دِینی و مذہبی حکایات کا رنگ دے کر زُود اثر کر دیا گیا۔ سب سچ ہے۔ عام انسانوں کے لیے ذرا ڈھنگ سے سچ بولا گیا ہے۔ دروغِ مصلحت آمیز نہیں، راستی کو ہی بنا سنوار سجا کے پیش کِیا گیا ہے۔
اب ذرا آگے بڑھتے ہیں۔ چند ضرُوری مُعاملات ہم چاہتے ہیں آپ کے ذِہنِ رسا تک پہنچائیں۔ بائبل مُقدّس خُدا کے کلامِ پاک پر محمول ہے۔ بشری الفاظ نے مگر اسے اپنی لپیٹ میں لے رکّھا ہے۔ ہے تو خُدا بزُرگ و برتر کاہی کلمہ کلام، ادا اِسے انسانوں کے لیے، انسانوں ہی کی زبان میں کِیا گیا ہے۔ پُوری سنجیدگی سے اس مُقدّس کتاب کے بارے میں کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ لکھّے جانے کی حد تک یہ ضرُور انسانی کارنامہ ہے۔ مُقدّس انسانوں کا لِکّھا کلامِ خُدا ہے۔ انسان سے جو اس کی نسبت ہے اس سے انکار نہیں، بل کہ وُہ انسان کا رُوحُ القُدُس میں اعزازِ پاک ہے۔ اس لیے یہ انسانی تصنیف و تالیف ہے، تخلیق نہیں۔ اس کے لکھنے والے فرزندانِ عصر، اپنے دور کے اہم سپُوت تھے۔ جِس زمین کے بیٹے تھے، وہیں کی زُبان میں اُنھوں نے بائبل مُکمَّل کی۔ وُہی زُبان سب بولتے سمجھتے تھے جو بائبل مُقدّس کی زُبان تھی۔ عبرانی ماحول میں عبرانی میں لِکّھی گئی، یُونانی دور میں زُبان بھی یُونانی استعمال ہُوئی۔ آج بھی تو یہی کُچھ ہو رہا ہے، مُلک مُلک میں وہاں کے ماحول کے مُطابِق، جو جو زُبانیں بولی جا رہی ہیں، ان میں کلامِ اقدس کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اس زمانے کے اوریجنل رائٹرز نے اپنی اپنی کتاب اسی طرزِ ادب میں لِکّھی جِس میں دُوسرے مصنّفین دیگر کتابیں لکھ رہے تھے۔ اِس لیے مُقدّس بائبل تلاوت کرنے والوں کو یہ کتاب اجنبی نہیں بل کہ اپنی اپنی سی لگتی تھی اور جِس کا وُہ مُقدّس کلام تھا، وُہ بھی اپنا اپنا لگنا قُدرتی امر تھا۔ بہ نسبت آج کے، اُس زمانے میں کہانیوں والی کتابیں زیادہ مقبُول تھیں چُناں چہ بائبل کے اقدس لکھاریوں کو بھی اپنی بائبل میں کہانیاں شامل کرنے میں برکت نظر آئی، اِس اعتراف میں بھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ایسا بھی ہُوا ہوگا کہ بعض داستانیں فوری موقع پر ہی ایجاد کر لی گئی ہوں گی تا کہ جو وُہ کہنا چاہتے تھے، مثالوں کے ساتھ بہتر طور دِین داروں تک پہنچے۔ یہ بات تو بہ ہرحال طے ہے ان مُقدّس کتابوں کے لکھنے کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا کہ لوگوں میں خُدا پر ایمان مزید پکّا ہو۔ اور اس پر ایمان لانے والوں میں برکت ہو اور لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں خُدا کی سیدھی راہ اپنائیں۔ اور امرِربّی، خُدا کی رضا کا بول بالا ہو۔ اب یہ سب کُچھ جان سمجھ کر کون، کِس بات پر ششدر رہے گا، جب پُرخُلُوص تعبیر و تشریح اور مُستَنَد رپورٹنگ ایک دُوسرے میں گھُل مِل کر ایک ہو چُکی ہیں، آج کا نقّاد اِسی فیصلے کی منادی کر رہا ہے۔
نہ ہی یہ بات کِسی حیرانی کا سبب ہے کہ کتابِ مُقدّس میں مذہبی باتوں کے علاوہ اور بھی بھانت بھانت کا مواد شامل ہے۔ مثلاً کائنات کیسے بنی، تخلیقِ کائنات پر سیر حاصل گفتگو موجُود ہے۔ جو پیدا ہُوا ہے اسے فنا کیوںکر اور کیوں؟ کب کے بھی علامتی اشارے ہیں۔ دُنیا نے ایک روز ختم تو ہونا ہے، وغیرہ۔ ہاں، بائبل لکھنے والوں نے خُدا کے کلامِ مُقدّس کو سِپُردِ قلم کِیا، وُہ کوئی اِس ماڈرن دور کے سکُول کی نصابی کتاب نہیں لکھ رہے تھے، جِس میں حالات، واقعات کا اپنا ایک تسلسُل ہوتا ہے جِس سے باہر نہیں جایا جا سکتا۔ مُقدّس مصنّفین نہ ہی کوئی معرُوضی اخباری رپورٹ ہی لکھنے پر مامُور تھے، نہ ان کا مطمحِ نظر پولیس ضمنی لکھنا تھا۔ شاید بعد میں لکھتے بھی مگر اُس زمانے میں ایسا کوئی دستور نہ تھا۔ نہ اخبار، نہ ٹی وی نہ چھاپہ خانے نہ کمپیوٹر، آسمان سے بھی لکّھے ہُوئے فرامین بل کہ کندہ کیے ہوئے احکام پتھر کی سلیٹوں پر اُترتے تھے۔ اگر بائبل مُقدّس کے لکھاریوں کو کوئی بتاتا کہ آپ نے تو وُہ کہانیاں یا تذکرے جو تاریخی ہوں یا نہ ہوں مگر ان کی توثیق میں کارِ دارد والی بات ہو اور وُہ زمانہء سابق سے روایتاً مشہُور بھی ہوں اور لوگ باگ انھیں حقیقت تسلیم کرنے لگے ہوں یا آپ نے اپنے قلم کے زور سے تسلیم کروا لیا اور بائبل مُقدّس کا حصّہ بنایا تو اب آپ بھی مشہُورِ زمانہ افسانوی کردار ہونے کا تمغا حاصل کر چکے ہیں، تو اِس ساری تعریف میں جو اندر ہی اندر ٹیڑھ پن چِھپا ہے اس کا اِدراک کرتے ہُوئے وُہ مُقدّسین کہہ سکتے ہیں کہ کیوں، آخر کیوں؟ کِس لیے یہ تنقید؟ اور ہم اسے تنقید سمجھیں ہی کیوں؟
خُداے عظیم و برتر کا کلمہ مُبارک، اس کا کلامِ پاک اگر کہِیں مِل سکتا ہے تو وُہ صِرف بائبل مُقدّس کے اقدس اوراق میں موجُود ہے، اور کہِیں نہیں۔ کہِیں بھی تو نہیں۔ اپنے اس خاص دور میں جب الٰہی کلام تحریر کِیا جا رہا تھا، ثابت ہے اِس بھاری اُلُوہی بوجھ کی یہی الکتاب ہی متحمّل ہو سکتی تھی۔ اور اگر یہ مُقدّس کتاب بہُت سی باتوں میں اُس زمانے کی قدروں اور اُس وقت کے ڈِکشن سے ہٹ کے ہوتی تو پِھر ہمارا، اعتبار، یقین، ایمان اس پر قائم نہ رہ پاتا،اِس لیے کہ اس نے کہِیں موجُود ہی نہ ہونا تھا۔ اپنے اپنے عہد کی بات الگ الگ ہوتی ہے، اُس زمانے کے لوگوں کے یا تو سروں پر سے گُذر جاتی یا پِھر وُہ اس سے اپنا کوئی ناتا نہ جوڑ پاتے، کُچھ اور ہی طرح کی اجنبی اجنبی سی لگتی، اس کی حفاظت، اسے سنبھال سنبھال رکھنے کو، ان کا دِل ہی نہ آمادہ ہوتا، ککھ پلّے نہ پڑے تو اسے چُوم چُوم کون رکّھے اور کیوں رکّھے۔ وُہ تحریر مقبُول ہوتی ہے، جِسے آسانی سے پڑھا جا سکے، سمجھا جا سکے، اپنے قریب کی چیز لگے۔ اگربائبل پاک کے مصنّفین کہ ہمیشہ رُوحُ القُدُس کا عطا کردہ خاص کشف جِن کے شاملِ حال رہا ہوگا، ہماری صدی کے سٹائل میں پاک خُدا کا اقدس کلام لکھنے بیٹھ جاتے تو اپنے اپنے ماحول اور زمانے کے رواجوں مُعاصر ادب کے تقاضوں کے تحت الٰہی باتیں پوری طرح نہ اُن کے پلّے پڑتیں اور نہ ہی پلّے پڑوانے کا شوق ہی ان میں سرایت کرتا۔ انھیں کتابِ مُقدّس سے کوئی علاقہ نہ ہوتا، الفاظ، جُملے، تراکیب، ضرب الامثال، محاورے، زبان کی ساخت اور اُٹھان، سُوچ کے انداز اور فکری سطح سے اُٹھتا ہُوا خیالات، احساسات اور جذبات کا طرزِ بیان ابلاغ و ادراک کے آپس میں ہی جھگڑے پیدا کر دیتا، پِھر تو گُذرے زمانوں کے لوگ اس کتاب کو کُتُب خانے کی آخری تاریک سیم زدہ کوٹھڑی میں پہنچا دیتے اور کُچھ پتا نہیں اتنا تردُّد بھی کرتے یا نہیں، نہ کوئی سنبھال دیکھ بھال، نہ لکھنا لکھانا نہ ذِکر اذکار، ترجمے تو پِھر کوئی کیا کرتا، زُبانیں کلامِ مُقدّس کے تراجم سے محرُوم ہو جاتیں، مُقدّس بائبل کہِیں پہنچتی ہی نہ تو تلاوت سے کوئی کیوںکر فیضیاب ہوتا۔ ہماری صدی اُترتے اُترتے پتا چلتا تورات، انجیل، بائبل نام کی الٰہی کتابیں کہِیں موجُود ہیں، نہ کوئی ان کے نام سے واقف ہے۔ بابل اورنینوا کے بارے میں تو جاننے والا کوئی مِل ہی جاتا، بائبل اقدس کا کوئی نام لیوا چراغ لے کر ڈُھونڈنے سے بھی نہ مِلتا۔ چُناں چہ یُوں ایک معقُول ترین وَجہ سے ہم آگاہ ہوتے ہیں اور پتا چلتا ہے کہ خُداوندِ قُدُّوس کا پاک کلام انسانی کاوشوں کی چھاپ لگ کے کیوں منظرِ عام پر آیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج بائبل مُقدّس ہی وُہ کتابِ اقدس ہے جو دُنیا بھر میں پڑھی جاتی ہے اور سب کتابوں سے زیادہ پڑھی جاتی ہے جِسے مسیحی بھی تلاوت کرتے ہیں اور بہُت سے غیر مسیحی بھی اس کا گہرا مُطالَعہ کرتے ہیں۔
ہمیں! شکوہ سنج و شکایت کُناں نہیں، احسانمند و شُکر گُزار ہونا چاہیے کہ بہُت بعد کے زمانوں میں ہم نے آنکھ کھولی اور نئے زمان و مکان اور ان کا عُرُوج ہمارے حصّہ میں آیا۔ اس کا نزدِیک ترین ثمر یہ ہے کہ ہم کلامِ اقدس کے تراجم عصری زُبانوں میں کرنے کا فیض پا رہے ہیں اور یہ برکات بھی ہمیں نصیب ہیں کہ جدید سے جدید ڈکشن میں مصدّقہ تراجم کے علاوہ مُقدّس بائبل کے ابواب اور آیاتِ مُبارکہ کی تفسیر، تشریح، تصریح کی سعادت سے بھی بہرہ ور ہیں اور دُوسروں کو بھی بہرہ ور کرنے، ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے اور پوری طرح ان کے فہم میں لا سکنے کی الٰہی توفیق سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔
(مزید استفادہ کے لیے رجوع فرمائیے:
Kleines katholisches Glaubensbuch. Topos Taschenbuch no. 29; 13. Edition. 1992.)
مُقدّس نوشتہ جات، مُتبرّک صحائفِ انبیا اور اقدس اکتبہ جو صدیوں سے چلے آ رہے ہیں ان کی تشریح نئے سے نئے اوقات و حالات کے پیشِ نظر کرنے میں کلیسیا کو مُقدّس رُوحُ الحق کی موعُودہ رہنُمائی کے ذریعے بہُت آسانی رہی ہے۔ کیتھولک مسیحی فہم و اِدراک کے مُطابِق رُوحُ القُدُس مجسٹریم (Magiste'r / ium)یعنی کلیسیا کے تعلیم دینے کے اختیارات کے بِرتے پر اور بشپ آف روم جو کہ سینٹ پیٹر مُقدّس پطرس کا جانشین مانا جاتا ہے اور تمام دُوسرے بشپ صاحبان کے ذریعے کلیسیا کی حفاظت کرتے ہُوئے اسے مذہب اور اخلاقیات کی تعلیم میں کِسی بھی طرح کی لغزش یا بُنیادی قسم کی غلطیوں سے بچاتا ہے۔