:سُوال نمبر65
۔قُربِ قیامت کے ہنگام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دُنیا میں دوبارہ آمد کے بارے میں مسیحی نُقطہء نظر کیا ہے؟ تو کیا وُہ تمام انسانوں کی طرف مبعُوث ہو کر تشریف لائیں گے یا دُنیا میں ان کا بارِ دیگر ورُود بھی فقط مسیحیوں کے لیے وقف ہوگا؟ جزاو سزا کے لیے انصاف کا ترازُو کیا واقعی ان کے ہاتھ میں ہو گا؟ مسلم عقیدہ ہے کہ وہ حاکم و عادل بن کر نُزُول فرمائیں گے۔
جواب:۔اس کا تسلّی بخش جواب تو خُود مسلمانوں کے ہاں بھی موجُود ہے۔ اجازت دیجیے کہ ان اکتبہ کے ذریعے کہ جنھیں اسلام میں مرکزی مقام حاصل ہے: کتاب اللہ اور احادیث کی کُتُب۔۔۔۔۔۔ متعلّقہ کوائف انھی کتابوں سے اخذ کر کے پیش کیے جائیں۔
اسلامی درس و تدریس میں خُداوندِ پاک یسُّوع مسیح کے بارے میں ذِکر کہ حشر کے نزدِیکی زمانہ میں وہ ایک بار پِھر دُنیا میں ظاہر ہو گا، القرآن کی سورۃ 4کی آیت 159میں موجُود ہے:
''اور کوئی اہلِ کتاب نہیں ہو گا مگر اُن کی موت سے پہلے اُن پر ایمان لے آئے گا اور وہ قیامت کے دن اُن پر گواہ ہوں گے''۔
بہتر تفہیم کے لیے اس سے پہلے کی آیات کو بھی ساتھ جوڑ کر مفہُوم تک رسائی حاصل کرنا مفیدِ مطلب رہے گا۔
القرآن4:157
''۔۔۔۔۔۔اور یُوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا۔ حال آں کہ نہ تو اُنھوں نے اسے قتل کِیا نہ سُولی پر چڑھایا بل کہ ان کے لیے ان (عیسیٰ) کا شبیہ بنا دیا گیا تھا۔ یقین جانو کہ (حضرت) عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کرنے والے اُن کے بارے میں شک میں ہیں، اُنھیں اس کا کوئی یقین نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے، اتنا یقینی ہے کہ اُنھوں نے اُنھیں قتل نہیں کِیا''۔
اِسی طرح القرآن۔۔۔۔۔۔4:159جس کا ترجمہ دیا جا چُکا ہے، اس پر ایک مرتبہ اور غور کیجیے۔ اس کی تفسیر کے لیے ا۔ث۔ خُوری کی دیئر قرآن۔ عرابِش۔ ڈرائیٹچ۔ اوئی برز اُنٹ وِس، کومنیتار۔۔۔۔۔۔ جلد5گیوترِزلوہ، 1994ع، ایس257ایف۔
القرآن۔۔۔۔۔۔4:159(158) کی رُو سے:
'اہلِ کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو عیسیٰ پر موت سے پہلے ایمان نہ لا چکے'۔ قَبْلَ مُوْتِہٖ میں ''ہ'' کی ضمیر کا مرجع بعض مفسرین کے نزدِیک یہودیوں کے علاوہ اہلِ کتاب مسیحی بھی ہیں۔ مطلب یہ کہ ہر یہُودی و مسیحی موت سے قبل خُداوندِ یسُّوع مسیح پر پختہ ایمان لا چُکا ہو گا۔ لیکن مسلم سلف اور اکثر مفسّرین کے نزدِیک اُس کا مرجع ہمارا خُداوندِ پاک یسُّوع مسیح ہے۔
'اہلِ کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو(حضرت) عیسیٰ پر موت سے پہلے ایمان نہ لا چکے'۔ قَبْلَ مُوْتِہٖ میں ''ہ'' کی ضمیر کا مرجع مسلم اسلاف اور اکثر مفسّرین کے نزدِیک ہمارا خُداوندِ یسُّوع مسیح مُقدّس ہے اور دیگر مفسّرین کے نزدِیک اس کا مرجع یہُودی اور مسیحی اہلِ کتاب ہیں۔ ہر یہودی اور مسیحی اپنی موت سے قبل خُداوندِ پاک یسُّوع مسیح پر پختہ ایمان لا چُکا ہو گا کیوں کہ وُہی اصل مسیحا ہے، المسیح، خُدا کی طرف سے بھیجا ہُوا۔ (یہ حوالہ اہلِ یہود کی طرف ہے۔ القرآن۔۔۔۔۔۔4:157 پر ایک مرتبہ اور غور کیجیے)۔۔۔۔۔۔ اور وُہ خُدا کا بیٹا نہیں بل کہ خُدا کا خادم ہے۔ یہ قرآنی حوالہ مسیحیوں سے متعلّق ہے۔ حوالہ کے لیے دیکھیے:
القرآن۔۔۔۔۔۔4:171اور 172ترجمہ یہ ہے:
''اے اہلِ کتاب! اپنے دِین (کی بات) میں حد سے نہ بڑھو اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو مسیح (یعنی) مریم کے بیٹے عیسیٰ (نہ اللہ تھے اور نہ اُس کے بیٹے بل کہ) اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ (بشارت) تھے جو اُس نے مریم کی طرف بھیجا تھا اور اس کی طرف سے ایک روح تھے تو اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور (یہ) نہ کہو (کہ اللہ) تین (ہیں اس اعتقاد سے) باز آؤ کہ یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔ اللہ ہی اکیلا معبود ہے اور اس سے پاک ہے کہ اس کے اولاد ہو جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور اللہ ہی کارساز کافی ہے۔ مسیح اس بات سے عار نہیں رکھتے کہ اللہ کے بندے ہوں اور نہ مقُرب فرشتے (عار رکھتے ہیں) اور جو شخص اللہ کا بندہ ہونے کو موجب ِ عار سمجھے اور سرکشی کرے تو اللہ سب کو اپنے پاس جمع کر لے گا''۔
ایسا ہوتا ہے یا تو زِندگی کے آخری آخری لمحوں میں، جب زِندگی کی دہلیز پار کر جانے والے کی رُوح قبض ہو کر فرشتوں تک پہنچنے والی ہوتی ہے یا پِھر موت کے بعد، مگر تب بہُت دیر ہو چُکی ہوتی ہے۔
مفسّرین کی وُہ جو پہلی والی کی گئی تفسیر ہے۔ ''موت سے قبل'' الفاظ والی، اس کا استعمال مُقدّس خُداوند خُدا یسُّوع المسیح کی ذاتِ مُبارک کے لیے کِیا گیا ہے۔ مطلب ہے کہ اس سے پہلے پہلے کہ یسُّوع پاک کا انتقال ہو جائے، یہاں موقع محل، وقت جو بتانا مقصُود ہے، قیامت کی ہلچل بپا ہونے سے عین پہلے کا ہے جب پاک خُداوند دُنیا میں دوبارہ آ چُکا ہو گا، اس زمانے کی ان آخری ساعتوں میں تمام یہُودی اور مسیحی خلقت میں جس جس کا تارِ سازِ حیات ابھی بج رہا ہو گا وُہ مُقدّس یسُّوع پاک پر صدق دِلی سے ایمان لے آنا چاہیں گے۔ آگے خُداوندِ پاک کی مرضی ہے قُبُول کرے کرے، نہ کرے نہ کرے۔
روزِ قیامت جب مُردے پِھر سے اُٹھائے جائیں گے وُہ اُن کے خلاف خُود گواہ ہو گا۔
القرآن۔۔۔۔۔۔2:۔143
''اور اِس طرح ہم نے تم کو مُعتَدِل قوم بنایا ہے، تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسُول تم پر گواہ رہیں، اور تم جس پر پہلے تھے اُسے تو ہم نے صِرف اِس لیے قبلہ مُقرر کِیا تھا کہ یہ جان لیںکہ کون رسُول کی پیروی کرتا ہے اور کون اُلٹے پاؤں پھِر جاتا ہے۔ ہمارا ایسا کرنا، ہدایت یافتہ لوگوں کے سوا، سب کو بھاری پڑا۔ اﷲ کی شان نہیں کہ تمھارا ایمان اکارت کر دے۔اﷲ تو تمام انسانوں کے لیے مہربانی ہی مہربانی ہے، رحمت ہی رحمت ہے ''۔
القرآن۔۔۔۔۔۔16:89
''ذرا اُس دِن کا تَصوُّر تو کرو جس دِن ہم ، ہر قوم میں سے، اُس کے خلاف ، گواہ کھڑا کریں گے، اور تم کو اُن گواہوں پر گواہ کے طور پر لائیں گے کہ ہم نے تم پر ایسی کتاب نازل کی ہے، جس میں ہر شے کا تفصیلی بیان ہے، اور یہ ، اﷲ کے اطاعت گُزاروں کے لیے، ہدایت، رحمت اور خُوش خبری ہے ''۔
اور آگے 16:84تک
'' اور جس دِن ہم ہر قوم میں سے گواہ کھڑا کریں گے تو اُس دِن بے ایمانوں کو ہر گز مُہلت نہ دِی جائے گی، اور نہ ہی اُن کی توبہ قُبول کی جائے گی ''۔
چُناں چہ خُداوندِ یسُّوع مسیح اقدس یہُودیوں کے خلاف گواہی دے گا جنھوں نے اس پر ایمان لانا قطعاً ضرُوری نہیں سمجھا تھا۔ خُداوند ان مسیحیوں کے خلاف بھی گواہ ہو گا جن کا اعتقاد اُس پر ڈانواں ڈول تھا یا وُہ سیدھے راستے سے بھٹکے بھٹکے ہی رہے۔ غلط عقائد کے غلط ہی نتائج سامنے آتے ہیں۔
اسلامی خیالات و روایات و عقائد کے مُطابِق (احادیث کے لحاظ سے مگر ثقہ اور ضعیف مِلی جُلی ہیں۔ تمام کے تمام مسلمان انھیں معتبر بھی نہیں سمجھتے کیوں کہ سینہ بہ سینہ اور روایت در روایت چلیں اِس لیے کمی بیشی کا احتمال موجُود ہے) بہ ہرحال، روایت کیے گئے خیالات کے مُطابِق جب انسان اپنی چار آخری منازل، یعنی (1) موت(2) عدالت(3) بہشت اور (4) دوزخ کے قریب بل کہ اپنے انجام کے قریب تر پہنچ چُکا ہو گا تو ہمارا خُداوند یسُّوع مسیح اقدس آسمان سے زمین پر اُترے گا اور سیدھا ارضِ مُقدّس پہنچے گا۔ مسلم عقیدے کے مُطابِق وُہ سر تا پا صادق و مومن مسلمانِ کامل ہو گا۔ وُہ اپنے دُشمنوں کو تہہِ تیغ کر دے گا اور اپنے مخالفین و منکرین کا صفایا۔ پاک مقام یروشلم میں نمازِ صبح ادا کرنے کے لیے مومنین کی صف میں کھڑے ہو کر امامِ صلوٰۃ کی اقتدا میں دو فرض نمازِ فجر ادا کرے گا۔ اسلامی شریعت کے خلاف چھوٹی بڑی ہر غلطی مٹا دے گا۔ خلافِ شرعِ اسلام ہر فعل کا فاعل گردن زدنی ہو گا۔ خنزیر مار ڈالے گا۔ اسلام کو چھوڑ کر باقی نئے پُرانے تمام ادیان کی علاماتِ مذہبی کو کعبہ سے بُتّوں کی طرح صاف کر دے گا۔ ان سے متعلّقہ نشانات غائب اور تعمیرات ملبے کا ڈھیر کر دی جائیں گی۔ مُسلّمہ مُروّجہ راسخ اسلام کے برعکس جو کُچھ بھی کہِیں نظر آیا ہمارا، سب کا خُداوندِ خُدا اُسے ملیا میٹ کر دے گا۔ نہ کہِیں کوئی مُقدّس صلیب نظر آئے گی، نہ ہی کہِیں کوئی گرجا گھر دِکھائی دے گا اور نہ صومعہ (یہُودی عبادت گاہ)۔ وہ یہُود و نصاریٰ کے خلاف اہم گواہ ہو گا اور جنھوں نے بھی اسلام قُبُول نہیں کِیا ہو گا وُہ ان مسیحیوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کر دے گا۔ وُہ رُوے زمین کے امیروں، صدور اور تمام بادشاہوں کا شہنشاہ ہو گا۔ وُہ صفات میں صادق، عادل، مُنصف اور عظیم منتظم ہو گا اور اُسی کے دم اور دبدبے سے مادرِ گیتی پر چہار سُو امن ہی امن چھا جائے گا۔ کہتے ہیں کہ وہ عرصہ 40سال پر محیط ہو گا۔ دُوسرے پیغمبرانِ عظّام کی طرح ہر رُخ سے انھی جیسا ہی ہو گا، انسانوں میں انسان، شادی کرے گا اور صاحبِ اولاد بنے گا۔ اسلامی حلقوں میں یہ بھی روایتِ عام ہے کہ جب دُنیا سے اُس نے پردہ کرنا ہے تو مدینہ منورہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مُبارک پہلُو میں دفن ہو گا جہاں دو خلفاے راشد حضرت ابوبکر اور عمر پہلے سے مدفون ہیں۔ اور پھر۔۔۔۔۔۔ وہ گھڑی آجائے گی جس میں قیامت نے برپا ہوجاناہے۔ اسی کا نام روزِ حساب ہے۔ فرشتوں کے لکّھے پر پکڑے جانے کا دِن۔ اچھّائیوں، بُرائیوں، نیکیوں بدیوں، صبر اور ظُلموں کے تُلنے کا یومِ حشر۔
بے زُبانوں کو زُبان اور جانوروں کو قوّتِ گویائی ملے گی۔ یونیورس کے چیف جسٹس کی سپریم کورٹ آف دی سپریم کورٹس یعنی عظیم ترین عدالتِ انصاف لگے گی۔ کون خلقت کی وکالت کرے گا! یہ اُسی عادل و قادرِ مُطلق نے فیصلہ سُنانا ہے۔ اُس کی منشا و مرضی کے بغیر کِسی کی کیا مجال کہ وہاں میدانِ عدالت میں پر بھی مارے۔ ہاں یہ ہے کہ اپنی اُمّت کا رکھوالا، اپنے پیروکاروں کا آقا و مولا یسُّوع المسیح القُدُّوس اُس روز سب کا وکیل ہو گا، سب کا کارساز۔ اس برکتِ خاص کا بس وُہی حامل ہو گا، خُداکے فضل کی اُس پر بارش ہو گی۔ مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآنِ پاک اُسے خُدا کے بہُت ہی برگزیدہ بندوں میں شُمار کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین ہستی، اس جہان میں بھی اور جہانِ آخرت میں بھی۔
ترجمہ حاضر ہے۔۔۔۔۔۔ القرآن۔۔۔۔۔۔3:45
'' جب فرشتوں نے کہا : اے مریم ! اﷲ تم کو اپنی طرف سے ایک کلمے کی خُوشخبری سُناتا ہے جس کا تعارف ہو گا مسےح ''عیسیٰ ابنِ مریم'' اور جو دنیا و آخرت میں سُرخرو ہو گا، اور اُس کا شمار اﷲ کے نزدیکیوں میں ہو گا ''۔
مزید برآں یہ بھی کہ یومِ عدالت، ترازُو کے نیچے اہلِ کتاب پر مستند شہادت مُقدّس ابنِ آدم کی ہو گی، قرآن جسے ابنِ مریم اور رُوحُ اللہ سے مخاطب کرتا ہے۔
القرآن۔۔۔۔۔۔4:159
''ایک بھی اہلِ کتابِ سابق ایسا نہ بچے گا جو اپنی موت سے پہلے عیسٰی پر ایمان نہ لے آئے گا۔ اور قیامت کے دن وہ اُن کے خلاف گواہ ہوگا ''۔
قُربِ قیامت کی ایک نشانی یہ بھی احادیث میں آئی ہے کہ دُنیا پر اس کا ایک بار پِھر نُزُول ہو گا۔ دیکھیے ابنِ کثیر کی تفسیر القرآن، جِلد اوّل، صفحات547تا552۔
پہلے بھی بیان کِیا جا چُکا ہے، ماضی اور زمانہء حال میں اب تک امام ابنِ کثیر کی روایت کی گئی احادیث پر مسلمانوں کے تحفُّظات ریکارڈ پر موجُود ہیں۔ امام (1300ع میںپیدا ہُوئے اور 1373ع میں وفات پا گئے۔ یہ دورانیہ بھی قابلِ غور ہے) یہ چودھویں صدی تھی جس میں راویں کی چین تک پہنچنے کی وہ کوشِش کرتے رہے۔ اُن کی جمع کی ہُوئی حدیثوں کے الفاظ و کلمے متنازع فیہ دلائل کی معیت میں کہ جو تدوینِ احادیث کے طے شُد ہ اُصُولوں سے ٹکراتے ہیں، ایک خاص علاقہ میں خاص وقت کے دوران بحث اور مناظروں کے شائقین میں مقبُولیتِ عام اختیار کیے رہے ہیں۔ ان کا مخصُوص ذائقہ محمد عطاء ُ الرحیم اور احمد تھامسن کی مشترکہ کاوش ''یسُّوع المسیح۔۔۔۔۔۔ پیغمبرِ اسلام'' میں چکّھا جا سکتا ہے۔ یہ لندن میں طٰہٰ پبلشرز نے 1996ع میں چھاپی۔ آپ اپنے مُطالَعہ کے دوران صفحہ271سے 278تک موضُوعِ بالا کے متعلّقہ مواد سے مستفید ہو سکتے ہیں۔