:سُوال نمبر49
۔کیا ان مسلمانوں کو جو عیسائیت قُبُول کر لیں قدرے ترجیحی سُلُوک کا استحقاق دیا جاتا ہے؟
جواب:۔مسیحی قوم اس گلوب پر جہاں کہیں بھی آباد ہے، اُنھیں ایسی صُورتِ حال کا سامنا ہو جب کوئی مسلمان اپنے ارادے کا اِظہار کرتے ہوئے کہے کہ وُہ بلا جبر و اکراہ، بخوشی مسیحیت اختیار کرنا چاہتا ہے تو مسیحیوں کا فرض بنتا ہے کہ اس بالغ و مختار کے ارادے کو اہمیت دیتے ہوئے اس کا محتاط اور مخلصانہ طو رپر جائزہ لیں۔کلیسیا کی طرف سے اُنھیں ہدایات ہوتی ہیں کہ پورے انہماک سے اچھّی طرح پتا کریں کہ مسیحیت اختیار کرنے کے خواہشمند مسلم خواتین و حضرات کہیں کِسی اندرونی یا بیرونی دباو، جبر یا لالچ کے تحت تو ایسا نہِیں کر رہے۔ ایسا کھوج لگائیں کہ کیا واقعی ان کی یہ تحریکِ تبدیلیِ مذہب مسیحی تعلیمات سے متاثر ہو کر پیدا ہُوئی ہے اور وُہ ان تعلیمات کی پیروی کے شوق میں خُداوند مسیحِ اقدس کے پیروکاروں میں شامل ہونے کے متمنّی ہیں۔ یہ احتیاطی تدابیر اس لیے روا رکھی گئی ہیں کہ مسیحی سماج ایسے موقعوں پر کِسی قسم کا ترجیحی سُلُوک، مادّی تحریص، زبردستی یا ایسا کوئی حربہ استعمال کرنے کی مذموم و معتوب حرکات پر نہ اُترآئے۔ وُہ لوگ جو دِینِ مسیحیت میں اپنے باضابطہ شمول کا ارادہ رکھتے ہوئے مسیحی تعلیمات جان، سمجھ کر مُقدّس بپتسمہ کی منزل تک پہنچنے والے ہوں، مسیحیوں کی ایسی کِسی معیوب حرکت سے جس کا اُوپر کی سطور میں ذکر آ چکا ہے ان میں سے کِسی ایک یا سب کی وجہ سے تمام نیکیاں برباد ہو جائیں گی اور گُناہ پلّے پڑ جائیں گے۔ غریب نومسیحیوں کی ایک آزادی و اختیار والی اعلیٰ قدروں کی بے حُرمتی بل کہ پایمالی ہو جائے گی۔ اور سارے کا سارا یہ عمل نِیّت کے اخلاص کی پاکیزگی آلودہ کر دیے جانے کے مترادف قرار پائے گا۔
دِینِ مسیحی میں باضابطہ دُخُول کی رسومات کے آخِر پر بپتسمہ دیے جانے کی نوبت آتی ہے۔ طالبانِ دِینِ مسیحی کی مسیحیت میں باضابطہ و باقاعدہ شرکت ممکن بنانے کا پُورا عمل اور بپتسمائی رسوم کی تیاریوں کا مکمل پیکیج بپتسمہ سے پہلے مسیحی تعلیم و تربیت کا دورانیہ کہلاتا ہے جسے کیٹیچومینیٹ
بھی کہہ سکتے ہیں اگر یہ لفظ زبان پر چڑھ جائے تو۔(Catechumenate)
پاک بپتسمہ کے لیے تیاریوںکی مدت کہ جسے لفظ کیٹیچُومی نیٹ سے موسوم کِیا جاتا ہے وُہ کیٹیومین (اُمِّیدوارِ مسیحیت) کو اس لائق بنانے کے لیے ہے کہ وُہ خُدا پاک کے انعامِ اُخروی نجات پر اپنے حصہ کی ذِمّہ داری قُبُول کرنے کی ہامی بھر سکے اور پوری طرح سوچ سمجھ کر کیے گئے تبدیلیِ مذہب کے فیصلے کی پختگی و تکمیل کے لیے مسیحی برادری میں اپنے ایمان و اتحاد کے بِرتے پر شامل ہو جائے۔ یہ مسیحی بُودوباش میں عملی طور سے داخل ہونے کی سعد ابتدا ہے، مقلدین اسی طریقہ سے پاک خُداوند یسُّوع مسیح سے جو خُداوند خُدا ہے ، اس کے ساتھ اپنا ناتا جوڑتے ہیں۔ نو مسیحی بھائی کہ جو ابھی کلیسیائی رُکنِیّت کے دائرے میں داخلہ یا شمولیت سے پہلے مسیحی مذہب کی بنیادی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور ہو رہے ہوتے ہیں اُنھیں متعارف کروا یا جاتا ہے مُکتی کے فضل سے کہ جو ابھی بھی تشریح طلب ہے اپنی پُر اَسرارکیفیت کی وجہ سے اور یہ مکتی حاصل ہوتی ہے مُقدّس اناجیل میں بتائے گئے اسالیبِ زندگی کی پیروی کرنے سے اور مُقدّس رسوم اور ان کا طرزِ عمل اختیار کرنے اور تسلسُل قائم رکھنے سے مذہبی زندگی میں بتدریج داخل ہوتا ہے، رسومِ لطوریا، مقررہ طرزِ عبادت کی بھی درجہ بہ درجہ جانکاری ملتی ہے اور مَحَبّت بھرے خُدا کے لوگوں، مہر و مروّت والی اُمتِ مسیح سے دھیرے دھیرے مکمل آشنائی حاصل ہو پاتی ہے۔
حوالہ....کیتھولک کلیسیا کی مسیحی تعلیم کی کتاب....1247-1248
مسیحیت کی مبادیات سیکھنے والے کلیسیا سے تو منسلک ہو ہی چکے ہیں۔ خانہءخُدا، گرجا سے بھی ان کا رِشتہ جُڑ گیا، دینی زندگی میں بھی ان کو شمولیت مل گئی ، مسیحی زندگی میں گھُلنے ملنے لگے اور ان کی آشاﺅں، اُمِّیدوں اور مَحَبّت میں حصہ دار بن گئے۔
آدجینتیس....تبلیغ14۔
مَحَبّت اور خصوصی توجُّہ کے ساتھ مادرِ کلیسیا نے اُنھیں اپنائیت کے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔(ایل جی....14) اور (کیتھولک کلیسیا کی مسیحی تعلیم کی کتاب....1249)