:سُوال نمبر26
۔رُوحُ المُقدّس کی مسیحی تصریح و توضیح کے بارے میں ایک سُوال ہے، اگر جواب سے ممنون فرما سکیں تو عرض یہ ہے کہ صاف طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ راسخ العقیدہ کلیسیا اور رومن کیتھولک چرچ اِس بارے میں مُختلف عقائد رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے رومن کیتھولک چرچ مُصِر ہے کہ رُوحُ المُقدّس باپ اور بیٹے سے صادر ہُوا۔ راسخ العقیدہ کلیسیا کا کہنا ہے رُوحُ المُقدّس محض باپ سے مشتق ہے۔ عقیدہ کی یُوں تفریق و تقسیم نے اصل اُصولِ دین کے بارے میں1054 عیسوی سے بہُت سی آویزشوں کو جنم دے رکھا ہے۔ راسخ العقیدہ چرچ کا تو دعویٰ ہے کہ انجیل مُقدّس اُن کے موقف کی تائید کرتی ہے.... مگر جب وُہ وکیل آئے گا جسے مَیں تُمھارے لیے باپ کی طرف سے بھیجوں گا، یعنی رُوح الحق جو باپ سے مشتق ہے، تو وُہ میری گواہی دے گا......
مُقدّس یوحنا....26:15
اب فرمائیے، انجیل پاک سے آپ توجیہ سامنے لا سکیں گے؟ وُہ تو کُچھ اور کہہ رہی ہے۔
جواب:۔بنیادی طور پر وُہ جو رُوح ہوتی ہے وُہ توریت پاک اور انجیل مُقدّس کی روایت کے مُطابِق ہَوا ہے جس نے زمین کو گھیرے میں لے رکھا ہے، پون ہے جو حق کو باطل سے الگ کرنے والی ہے اور طوفانی ہُوا ہے، زندگی کی علامت ہے، دمِ الٰہی ہے۔ یُوں نفسِ الٰہی طوفان ہے اور وُہ پھونک ہے جس سے زندگی کا دارومدار ہے۔ یہی وُہ قدرت ہے جو تخلیق کرتی ہے، نصرت عطا فرماتی ہے، سہارا بنتی ہے اور حامی و ناصر ہونے کی صِفَت رکھتی ہے، اس کا فیض سب کے لیے ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ تاریخ میں اپنے عمل دخل سے اسے نئے موڑ سے آشنا کرتی ہے اور نئے سرے سے اسے بناتی ہے اور جِلا بخشتی ہے۔ کلامِ مُقدّس کے عہدِ عتیق کی رُو سے مقدم طور رسُولوں اور نبیوں کی وساطت سے اقانیمِ مُقدّس کے تیسرے اقنُوم رُوحُ المُقدّس نے اپنے کارہاے مفوضہ انجام دیے۔ دینِ مسیحی کے عقائد کے تتبُّع میں ہم مانتے ہیں کہ رُوحُ المُقدّس نے پیغمبروں کے ذریعے کلام کِیا۔ مُقدّس توریت میںرُوحُ المُقدّس سے توقع کا اِظہار کِیا گیا تھا، اس سے آس باندھی گئی تھی کہ اِختتامِ زمانہ پر وُہ تجدیدِ عظیم کو وُجُود میں لائے گا اور جذبات کے پُرجوش اِظہار میں رُوح پھونکتے ہوئے یروشلم کو نئے سرے سے مُقدّس کِیا جائے گا۔
حوالہ....مُقدّس نبی یوئیل....1:3 اور 2
غیب کے عِلم سے آشکار کرتے ہوئے کلامِ مُقدّس کے عہدِ جدید میں اِختتامِ زمانہ کے بعد کے آغازِ نو کو خُداوندِ پاک یسُّوع مسیح کے نزول سے تعبیر کِیا گیا ہے۔ اس کے ظہور و نفوذ کو شُرُوع سے ہی قدرت و طاقت رُوحُ القدّس کا ساتھ میسر رہا، وُہی اس کی تقویت کا سبب بنا رہا۔ مُقدّس یوحنا اصطباغی نے جب پاک خُداوند کو اصطباغ دی۔
حوالہ....مُقدّس مرقس....10:1
اس کی بشارت میں
حوالہ....مُقدّس لُوقا....18:4
جب خُداوند جنگ آزما تھا بھوت، پریت، عفریت کے خلاف
حوالہ....مُقدّس متّی....1:4 اور28:12
اور صلیب پر جب وُہ قربانی دے رہا تھا اُس وقت....
حوالہ عبرانیوں کے نام....14:9
اور اُس وقت بھی رُوحُ القُدس پاک خُداوند یسُّوع مسیح کے ساتھ تھا جب وُہ پِھر جی اُٹھا
حوالہ.... رومیوں کے نام....4:1اور....11
المسیح جو اسم مُبارک ہے یہ عبرانی زبان سے انگریزی لفظ میسایاسے اردو زبان میں المسیح یا مسیح ترجمہ ہُوا، یہ اسم پاک ابتداً تو لقب ہی تھا۔ خُداوند یسُّوع مسیحا ہے اور مسیح۔ مسیح مسح سے نکلا ہے۔ یعنی خُداوند یسُّوع مسیح جسے رُوحُ القُدس نے مسح دیا۔ مُقدّس خُداوند یسُّوع رُوحُ القُدس کا حمال نہِیں ہے کہ دُوسرے نبی، رسُول اور پیغمبروں کی طرح پاک رُوح سے پیغام لے کر آگے جا پہنچائے۔ اس کے اندر تو خُدا کی رُوح موجُود ہے۔ وُہ سو فی صد اِنسان ہے اور سو فی صد خُدا۔ مردوں میں سے جی اُٹھنے والا پاک خُداوند مبداے الٰہی رُوح ہے اور دُوسرے تمام رسُولوں کو رُوحُ القُدس سے فضل ربی سرفراز کرتا ہے۔ اور وُہ وُہی ہے جو اسے اپنی پینتیکوستل کلیسیاﺅں میں بھیجتا ہے
حوالہ....رسولوں کے اعمال....32:2 اور 33
رُوحُ القُدس کا بھیجا جانا یاد دہانی ہے اس سب کُچھ کی جو خُداوند یسُّوع پاک نے کہا اور جو کہا اس پر عمل بھی کر دِکھایا۔ یُوں کامل صداقت کے ابلاغ تک ہماری رہنمائی ہو سکتی ہے
حوالہ....مُقدّس یوحنا....26:14 اور16,13:16
خُداوند یسُّوع مسیح چرچ میں موجُود ہوتا ہے اور پوری دُنیا میں بھی:
حوالہ....2 قرنتیوں کے نام....17:3
چُناںچہ معلوم ہُوا کہ یہی جواز ہے جس کے تحت مُقدّس رُوح کو خُداوند یسُّوع مسیح کی رُوحِ مُبارک کہا جاتا ہے:
حوالہ.... رومیوں کے نام....9:8/فیلپیوں کے نام....19:1
اور رُوحُ القُدس کو مُقدّس بیٹے کی رُوحِ پاک سے بھی موسوم کِیا جاتا ہے:
حوالہ.... غلاطیوں کے نام6:4
رُوح الحق کو مذہب کی رُوح بھی کہا جاتا ہے:
حوالہ....2قرنتیوں....13:4
اور رُوحُ القُدس کے ذریعے اس عقیدہ پر ہمارا ایمان قائم ہے کہ پاک یسُّوع مسیح ہی ہمارا آقا، مولا اور خُدا ہے:
حوالہ1 قرنتیوں:3:12
اور شکر گزاری بجا لا سکتے ہیں۔ اباّ....فادر....اپنے باپ کی:
حوالہ....رومیوں....18:5/غلاطیوں ....6:4
مُقدّس باپ اور مُقدّس بیٹے کی طرف سے نئے جیون میں دان کی ہُوئی الٰہی توفیق ہے رُوحُ القُدس ۔ خُداوند قُدُّوس نے پاک رُوحُ القُدس سے ہمیں کیا سرفراز کِیا، گویا خُود خُدا مہربان ہی ہمیں مِل گیا۔ اِسی لیے ہم سدا اس کی تمجید کرتے ہیں۔ رُوحُ القُدس کی صُورت میں جو ہمیں گریس عطا ہُوئی اس کی بدولت ہمیں خُدا پاک میں رفاقت نصیب ہُوئی، ہم اس کے ہونے میں شامل ہو گئے، اس نے ہمیں اپنے ہی بچے بنا لیا:
حوالہ....رومیوں....14:8/غلاطیوں....6:4
یہ بس اِسی لیے ممکن ہُوا کہ پاک رُوحُ القُدس خلق کِیا گیا وُہ کوئی پیدا کِیا گیا انعام نہِیں وُہ تو فضلِ الٰہی ہے جس میں خُدا اپنی ہست میں ہماری نیست کو بھی شامل فرما لیتا ہے۔ یہ اُس کا فیضانِ مَحَبّت ہے۔
ہمارے دِل پاک رُوحُ القُدس کے ہیکل ہیں، ان میں مَحَبّتِ خُداوندی رُوحُ القُدس کے ذریعے چھلکا دی گئی ہے۔ ہم میں ا س کی آمد ہُوئی تو ہمارے نصیب جاگے۔
حوالہ....رومیوں....5:5
تاہم یہ امرِ واقعہ ہے کہ رُوحُ القُدس محض عطاے ربی ہی نہِیں، عطا سے سرفراز کرنے والا بھی وُہی ہے۔ وُہ صرف توانائی نہِیں جس کے ذریعے سے تبدیلی لائی جا سکتی ہو وُہ تو بذاتِ خُود انقلاب ہے۔ وُہ کِسی کو تقدیروں کے بدلنے میں اپنا آلہءکار نہِیں بناتا، وُہ تو خُود تقدیر ہے۔ مالک و مختار۔ وُہ کوئی چیز یا صفت نہِیں۔ وُہ زندہ و قائم ہستی ہے اور مُقدّس اقنُوموں میں تیسرا پاک اقنُوم۔ اس کا اپنا ایک تشخص ہے، وُجُود ہے۔ وُہ نعمتوں کو تقسیم کرنے والا ہے، اپنی مرضی سے جسے جو دے، دے، دے دے:
حوالہ1 قرنتیوں....11:12
وہ سکھاتا ہے، ذِہن نشین کرانے پر اُسے قدرت حاصل ہے:
حوالہ....مُقدّس یوحنا....26:14
وہ کلام کرتا ہے اور مومن مسیحی کی دُعاﺅں اور عبادتوں میں شامل ہو جاتا ہے:
حوالہ....رومیوں....26:8،27
اور اپنی نافرمانیوں سے پاک یسُّوع کے برّے اسے دُکھ بھی دیتے ہیں:
حوالہ....افسیوں....30:4
اور خُداکے رُوحُ القُدس کو رنجیدہ نہ کرو، جس سے تُم پر مخلصی کے دن کے لیے مہرہوئی ہے۔
چوتھی صدی عیسوی میں تو ہر طرف ایک غلغلہ سا ہی مچ گیا۔ اس ایک سُوال زیرِ تبصرہ سے کئی سُوالات نے جنم لیا اور مُختلف تنازعات نے جڑ پکڑ لی۔ بعض لوگ یہ مانتے تھے کہ تیسرا مُقدّس اقنُوم فرشتے ہی کی کوئی قسم ہے جو دُوسرے اقنُومِ مُقدّس کا بس تابع و فرمان بردار ہے، بعض اِس نظریے کے قائل تھے کہ بیٹا اور رُوحُ القُدس نہ صِرف کہ باپ سے منبثق ہیں بل کہ اس کے تابع بھی ہیں۔ تین آباے کلیسیا یعنی مُقدّس بیزل(سنہءمسیح300 تا379) ، نازیان زِس کے مُقدّس فادر گریگوری (329 تا389) اور مُقدّس گریگوری آف نقائیہ (قریباً330 تا395) کے پیروکاروں نے اِس مسلک کا علم بلند کیے رکھا۔ ان کے مُطابِق بات یہ ہے کہ اگر رُوحُ القُدس کوئی ایسی ہستی نہِیں ہے کہ اس کاربوبیت سے دُور کا بھی واسطہ ہو، جیسے مُقدّس باپ اور مُقدّس بیٹے میں اُلُوہیت موجُود ہے اور اِسی لیے وُہ ایک ہیں، واحد، پِھر تو یہ بات ہے کہ رُوحُ القُدس کے بس سے باہر ہے کہ وُہ ہمیں خُدا میں رفاقت عطا کر سکے او رہم خُداوند قُدُّوس کی زندگی میں داخل ہو پائیں۔ چُناں چہ ایسے ہی تضادات و تنازعات کے مدِّ نظر کلیسیا نے دُوسری جنرل کونسل، قسطنطنیہ کونسل (381) کی رُوداد کو مِن و عَن تسلیم کر لیا کہ رُوح الحق خُدا ہے، صفاتِ اُلُوہیت کی ماہیت کے لحاظ سے۔ وُہ ہمارے لیے مُبارک تحفہ، نعمتِ غیر مترقبہ اور بخشش خاص ہی محض نہِیں بل کہ ہمیں زندگی کاغٹ بخشنے والا بھی وُہی ہے۔ خُدا باپ اور خُدا بیٹے کے ساتھ ساتھ وُہ عبادت کے لائق اور لائقِ جلال و تمجید ہے۔ اسے جلال دینا، اس کی ستایش کرنا ہم پر لازم ہے۔ رسُولی عقیدہ مرتب کرنے والی نقاوی کونسل325 میں واضح کِیا جا چکا ہے:
رُوحُ القُدس میں ہمارا ایمان ہے کہ وُہ خُدا ہے، زندگی بخشنے والا
رُوحُ القُدس نہ صرف باپ سے بل کہ بیٹے سے بھی صادر ہوتا ہے۔
باپ اور بیٹے کے ساتھ اس کی ہم پرستش کرتے ہیں اور اسے جلال دیتے ہیں
بیٹے سے بھی، کہ الفاظ مشہور فیلیو کوے "Filioque"ہیں۔ لاطینی زبان سے اردو ترجمہ بنے تو اس کا مطلب ہُوا بیٹے سے بھی، عقیدئہ قسطنطنیہ (موجُودہ استنبول) پر مبنی اصل مسودے میں اِن الفاظ کا اضافہ نہِیں کِیا گیا تھا۔ مذہبی اصولوں پر ہدایت و تلقین کے تحت یہ الفاظ ملک سپین میں پانچویں سے ساتویں صدی تک خوب رواج پا گئے۔ لیکن عقیدئہ مسیحیت میں کامل طور پر انھیں گیارھویں صدی میں کہیں جا کے رومن کیتھولک چرچ نے درجہءقُبُولیت دیا۔ ان اضافی الفاظ کے سبب رومن کیتھولک اور راسخ العقیدہ کلیسیاﺅں میں اختلافات کی خلیج مزید گہری ہوگئی۔ آرتھوڈوکس جس اصطلاح پر زور دیتے ہیں، وُہ ہے.... باپ سے بیٹے کے ذریعے.... واضح طور پر ان کا اس پر اصرار ہے کہ وُہ خُود باپ ہی ہے جس سے سب کُچھ کا آغاز ہوتا ہے، سب کُچھ کا منبع فقط وُہی مُقدّس ذاتِ خُداوندی ہی ہے۔مگر رومن کیتھولک چرچ اور دُوسری مغربی کلیسیائیں پوری شدت سے مُصِر ہیں کہ بیٹا بھی وُہی ہستی ہے جیسی ہستی خُدا باپ کی ہے اس کا ہمسر ہے وہ۔ دونوں بل کہ تینوں ایک خُدا میں برابر ہیں۔ جہاں تک تو بنیادی عقیدے کی بات ہے وہاں مشرقی اور مغربی کلیسیاﺅں میں کوئی خاص اختلاف نہِیں۔ فرق بس یہی ہے کہ دونوں اپنی اپنی مُختلف دِینی اصطلاحیں اور گرائمر کی تراکیب استعمال کرتی ہیں اِس لیے ان کے خیالات کی پرچھائیاں بھی الگ الگ سی نظر آتی ہیں۔ رومن کیتھولک دِینِ مسیحی کی رُو سے تو اظہر من الشمس ہے یہ بات کہ ان کا پُورا پُورا ایمان ہے اس حقیقت پر کہ بھلے ایک دُوسرے کے خلاف طرح طرح کے اعتراضات کو خواہ کتنی بھی ہُوا دی جاتی رہے، لیکن کلیسیاﺅں میں نفرت و علیحدگی کی دراڑ پڑے ایسا کبھی نہِیں ہو سکتا۔ مُقدّس تثلیث پر سب کا ایمان پکا ہے۔ تینوں مُقدّس اقانیم پر سب واری ہیں اور ان کے ایک ہونے پر سب ایک ہیں۔
مشرقی و مغربی کلیسیاﺅں کو منسلک رکھنے کے لیے ایک دُوسرے کے ساتھ چپکائے رکھنے والی جو گوند ہے وُہ مسیحی عقائد ہیں جو اِس امر کے مظہر ہیں کہ پاک رُوحُ القُدس کوئی رنگین خواہشات کے کاغذ میں لپٹا ہُوا الٰہی تحفہ نہِیں بل کہ وُہ تو الٰہی فضل ہے بل کہ وُہ فضل کی بھی انتہا ہے اور اُس اِنتہا کا اپنا ایک وُجُود ہے کیوں کہ زندگی اور اس کے بھیدوں کی تکمیل کی شُرُوعات ہی پاک خُداوند میں رفاقت اور اس کی مُقدّس حیاتِ جاودانی میں شراکت اور خُداوند خُدا کی برکت سے اس کے بھیدوں کا رازداں بننے سے ہوتی ہے۔ تاہم مُقدّس رُوح صرف فضلِ ربّانی ہی نہِیں، وُہ اس کی توفیق بخشنے والا سخی اَن داتا بھی ہے۔ اِنسان کی حیاتی بھی اُسی کی دین ہے۔ زندگی کی رمق، چمک دمک وُہی لایا، اسی کی عطا ہے جو رُوحُ القُدس ہے، پا ک اور افضل۔ جس طرح باپ سے بیٹا ہے، خُدا باپ ہی خُدا بیٹے کا سبب ہے، اور جس قدرت و طاقت اور کائنات کا وُہ مالک ہے، وُہی سب کُچھ اُس کے مُقدّس بیٹے کی مِلک ہے۔پس اسی طرح مُقدّس باپ اور پاک بیٹے میں کوئی فرق نہِیں۔ وُہ باپ اِس لیے ہے کہ کوئی اُس کا بیٹا ہے، وُہ ہے تو وُہ ہے اور وُہ ہے، تو وہ۔ دونوں ایک ہیں۔ وُہ خالِق ہے، مالِک ہے، رازِق ہے، وُہی خُدا ہے۔ چُناںچہ خُدا باپ اپنے مُقدّس بیٹے سے آگے بھیجتا ہے اپنی حیاتِ الٰہی ساری کی ساری اور اپنی کُل ہستیِ مُطلق، اور پِھر ایک ساتھ ان سے صادر ہوتا ہے رُوحُ القُدس، جس کو رُوحُ الحق بھی بائبل میں کہا گیا ہے۔ مُقدّس رُوحُ القُدس کو جو مِلا براہِ راست خالص پاک خُدا باپ اور مُقدّس خُدا بیٹے سے مِلا۔اِس لیے رُوحُ القُدس ہمارے لیے خُداوند یسُّوع مسیح کی جوش مارتی رحمت و برکت کا وُہ سرچشمہ ہے جس سے باغِ ہستی کو سیرابی ملتی ہے۔ وُہی حیات کا منبع ہے۔جینا اُسی کے دم سے ہے کیوں کہ وُہی پاک رُوح ہے۔ حیاتِ نَو کے لیے یہ ایک موثِّر اور تخلیقی قُوّت ہے جو برسرِ کار ہے اور اسی کا کرشمہ اور قدرت ہے کہ اِنسانِیّت اور کائنات یومِ عدالت کے آتے آتے ایک بالکل ہی بدلی ہُوئی شکل اختیار کر چُکی ہو گی، بہتر ہی کیا؟، بہترین۔
مقُبُولِ عام ایک لاطینی مذہبی گیت ہے....آ، آ اے خالقِ رُوح.... بارہ صدیوں سے اس خوب صُورت حمد(ہائیم) میں اقدس رُوح کی جانب سے عطا کردہ حیاتِ اِنسانی کی کیا قدر و قیمت ہے، شیشہ ہو جاتی ہے:
حوالہ کے لیے ملاحظہ فرمائیے....آ اے خالقِ رُوح۔
پُورا گیت
کوئی بھی کلیسیائی مجلس، کوئی مبشر، مناد، کِسی بھی اُستاد کی مسیحی تعلیم، اُصولی، عصری یا زاہدانہ الٰہیات اگر کہیں کہ وُہ کِسی بھی طور اس سے بہتر اِظہار کر سکنے کی استطاعت رکھتے ہیں جتنا اس حمدیہ گیت کا مصرع مصرع عمدگی سلیقہ اور احسن طریقہ سے وضاحت کُناں ہے تو اِعتبار شک رسید ہو جائے گا۔ مختصر یہ کہ اسی ہائیم سے پتا چلتا ہے کہ کیا مُراد ہوتی ہے جب ہم حمد سرا ہوتے ہیں ان الفاظ کی برکت کے ساتھ،جیسے.... ترجمہ ایک بند))
زِیست کہ بخشی ہے تُو نے
وہ امانت ہے تری
تُو ہے خُداے زندگی
! رُوحُ القُدس
اے پاک رُوح
پیار کی دولت ہمیں
کردے عطا!
رُوحُ الامیں!
رُوحِ خُدا
........