German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر18

کیا طلاق کو آپ مسیحیوں کے لیے واقعی شجرِ ممنوعہ قرار دیا گیا ہے؟ اگر مہر و مَحَبّت جب دو جیووں کے درمیان ازدواجی زندگی میں کِسی بھی سبب گھٹتے گھٹتے نہ ہونے کے برابر رہ جائے تو عُمرِ مستعار کے باقی مہ و سال ایسی صبر آزما صُورتِ حال کا جبر سہتے ہوئے پِھر بھی اکٹھے رہ کر گزارے جا سکتے ہیں بھلا؟ اگر مسیحیت میں میاں بیوی کے مابین طلاق منع کی گئی ہے، تو.... یہ کیا طلاقیں امریکا اور یورپ میں دھڑا دھڑ دی جا رہی ہیں؟ خبر اخبار اور سروے بتاتے ہیں ثانیوں کے وقفوں میں وہاں شادی یا منگنیاں پٹ سے ہر روز ٹوٹ رہی ہیں، وجہ؟

 

جواب:۔ دینیاتِ مسیحی تو پابندیِ عہدِ وفاداری کی تکمیل کو ازدواجی مَحَبّت کے لیے لازم و ملزوم قرار دیتی ہے۔ جس پر دولھا اور دلھن دونوں کو قائم رہنا ہوتا ہے۔ مسیحیت کا تو سبق ہے دولھا ہو کہ دلھن دونوں خُود سِپُردگی کے عالم میں وفاداری، ایمانداری اور جاں نثاری کے عزم پر عُمر بھر قائم رہیں۔ حالات چاہے بگڑ جائیں یا سنور جائیں، موافق یا ناموافق کُچھ بھی ہو جائے، بھلے ٹائم ہوں یا کڑا وقت دونوں پابندی کا عہد کرتے ہیں کہ ایک دُوسرے کا ساتھ دیں گے۔ دونوں دو تن مگر یک جان رہتے ہیں۔ چھاﺅں ہو یا دھوپ دونوں نے اکٹھے سہنا ہوتی ہے۔ ایسا سُلُوک اور ایسی رواداری پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں دونوں کے احساسِ ذِمّہ داری کے لیے جسے دونوں مل کر نِبھاتے ہیں۔ اور یہ باہمی اتفاق و فرض شناسی کی خوب صُورت علامت ہے۔ یُوں ان جوڑوں کی بساط میں ہوتا ہے کہ اس کی درک رکھیں کہ کب، کہاں او رکتنا سہارا دینے والے خُدا کا سنِبھالا چاہیے۔ ظاہر ہے، بے حد، بے حساب۔ بھلائی تو خُداوند سے جتنی مانگی جائے کم ہے۔ وُہ ازدواجی زندگی جو ایک دُوسرے کے ہمراہ دونوں نے دیانتداری اور وفاداری سے بسر کی ہو، ایسی شادی تو برکت و جلال والے خُدا کے ہاں اطہر و شفاف قرار پاتی ہے۔ کِسی بھی اگر مگر، لیکن ویکن کے بغیر اس قادرِ مطلق کی طرف سے ہاں ہی ہاں ہوتی ہے ایسے لوگوں کے لیے دُنیا میں خُداوند یسُّوع مسیح کے وسیلے سے انوارِ رحمت و برکت کی چھتری سی تان دی جاتی ہے جس کے سبب دُنیا میں امن اور لوگوں پر سلامتی جاری رہتی ہے۔

کیتھو لک مسیحیوں کے ایمان مُطابِق متبرک شادی کا بندھن (عقد نکاح) نُمایندگی کرتا ہے ایک طرح سے خُداوند یسُّوع مسیح پاک کی مَحَبّت و شفقت کی جو اس کی کلیسیا اور اس کی امت کے لیے ہر لحظہ جاری ہے۔ غور فرمائیے!

"اور مسیح کے خوف سے ایک دُوسرے کے تابع رہو۔ بیویاں اپنے شوہروں کی ایسی تابع رہیں جیسی خُداوند کی۔ کیوں کہ شوہر بیوی کا سر ہے جس طرح مسیح کلیسیا کا سر ہے۔ اور وُہ بدن کا بچانے والا ہے۔ پس جس طرح کلیسیا مسیح کے تابع ہے اسی طرح بیویاں بھی ہر بات میں اپنے شوہروں کے تابع ہیں۔

اے شوہرو! اپنی بیویوں کو پیار کرو جیسا مسیح نے بھی کلیسیا کو پیار کیا اور اس کی خاطر اپنے آپ کو حوالے کر دیا۔ تا کہ اس کو کلمے کے ساتھ پانی کے غسل سے صاف کر کے مُقدّس کرے۔ اور خُود اپنے واسطے ایک جلالی کلیسیا پیدا کرے جس میں داغ یا شکن یا اس قسم کی کوئی چیز نہ ہو بل کہ پاک اور بے عیب ہو۔ چاہیے کہ اسی طرح شوہر بھی اپنی بیویوں کو اپنے بدن کے مانند پیار کریں۔

جو اپنی بیوی کو پیار کرتا ہے وُہ اپنے آپ کو پیار کرتا ہے۔ کیوں کہ کِسی نے اپنے جسم سے کبھی دُشمنی نہِیں کی، بل کہ وُہ اسے پالتا پوستا ہے جیسے کہ مسیح بھی کلیسیا کو۔ کیوں کہ ہم اس کے بدن کے اعضا ہیں۔

اس لیے مرد اپنے باپ اور اپنی ماں کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے مِلا رہے گا۔ اور وُہ دونوں ایک تن ہوں گے یہ ایک بڑا بھید ہے۔ یعنی مسیح اور کلیسیا کی نسبت۔

بہرحال تُم میں سے بھی ہر ایک اپنی اپنی بیوی کو اپنے مانند پیار کرے اور بیوی اپنے شوہر کا ادب کرے۔"

افسیوں کے نام....21:5تا33 

 خُداوند یسُّوع مسیح نے اپنا آپ اپنی کلیسیا کو دے دیا، اپنی امت کے لیے اپنے آپ کو قربان کر دیا، وُہ انھی کے لیے اِنسان بن کر آیا، انھیں کے لیے جان واری اور سب کے گُناہوں کا کفارہ ادا کر کے پِھر مردوں میں سے زندہ اُٹھ کھڑا ہُوا۔ شادی کے انسٹی ٹیوشن کو سمجھنے کے لیے اسی بھید سے مدد لی جا سکتی ہے اور مُقدّس رسوم (ساکرامینٹ) میں سانس لیا جاسکتا ہے۔ شادی بھی پاک مسیح کی پیروی کا ہی ایک ذریعہ ہے۔

مسیحی ازدواجی جوڑے جانتے ہیں کہ وُہ مَحَبّت و وفاشعاری کی گانٹھ میں پکے پکے بندھے مسیحی کلیسیا کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور اپنے اس مُقدّس یوخرستی بیاہ میں ہی اس طاقت و ہمت کے جویا ہیں جس کے بل بوتے پر وُہ وفاﺅں میں مخلص رہنے کے اپنے وعدے وعید کمزور پڑنے یا برباد جانے سے بچا سکتے ہیں۔ کیوں کہ یہ ریشمی ڈوری جس میں وُہ بندھے ہیں بُودی ہرگز نہِیں کہ یہ باہمی اعتماد اور بھروسے کی ڈور ہے۔ مگر خلوصِ نِیّت شرط ہے۔ تاہم ناکامی کے احتمال، احساسِ جُرم اور مَحَبّت کے جذبات میں سرد مہری کے عود کرآنے کو بھی رد نہِیں کِیا جا سکتا۔ ہے تو اِنسان خطا کا ہی پُتلا نا! لیکن مسیحیوں کو یہ آزادی بھی نہِیں کہ اسے ہی جواز بنا کر ازدواجی وفا داری کو اپنے تئیں مسترد کر بیٹھیں۔ حتّٰی کہ اگر میاں یا بیوی شادی کے بندھن کوتوڑ بھی دے تو بات ادھر ہی ختم نہِیں ہو جاتی۔ یہ کوئی گُڑیا گڈے کا بیاہ نہِیں۔ دوسرا فریق تو ابھی بھی ساتھ نِبھائے چلے جانے کا پابند ہے۔ علیحدگی ہی آخِری حل نہِیں ہوتا، ابھی رِشتہ پورے طور ٹوٹا نہِیں، بچایا جا سکتا ہے۔ کوشِش تو ہو سکتی ہے نا جی۔ میاں روٹھ گیا، بیوی منا سکتی ہے۔ بیوی ناراض ہو تو میاں اُسے گھر واپس لا سکتا ہے۔ خُداوند یسُّوع مسیح کے تواتر میں پا کر صلیب سے اپنا حق ادا کرتے ہوئے اپنی تنہائی، اپنے بے یارومددگار ہونے پر شُعُوری اور مخلصانہ طور پر یہ اس سے مثبت طریقے سے نمٹنے کے لیے عہدہ برآ ہو، ہُوا جا سکتا ہے۔ ملاپ مشکل تو ہو سکتا ہے، ناممکن نہِیں۔

مسیحی ازدواجی زندگی اور فیملی نیٹ ورک کے بارے میں جمہوریہ جُرمنی میں اسقفی حلقوں کے کلیسیائی امور کے لیے ہونے والے مشترکہ مشاورتی اجتماع میں کہا گیا کہ:

"اپنے زندگی بھر ساتھ نِبھانے کے قول و قرار پر دولھا مَحَبّتِ خُداوند یسُّوع مسیح کو بیچ میں لے آتا ہے، جس سے لاتعلُّق وُہ زنہار نہِیں ہو سکتا۔"

حوالہ رومیوں کے نام....35:8

پس کون ہم کو مسیح کی مَحَبّت سے جدا کرے گا؟ مصیبت یا تنگی یا ظلم یا قحط یا عریانی یا خطرہ یا تلوار؟

اپنی شریکِ حیات سے دِلی لگاو اس کے روز مرہ کا معمول بن جاتا ہے۔ یہ بے ایمانی اور بے وفائی نہ کرنے کی قسم جو پوری زندگی پر محیط ہے، موعودہ مسیحی زندگی کا اِظہار ہے.... خُداوند یسُّوع مسیح کے قبر سے اُٹھنے کے جلوس کی گواہی در اصل احاطہ کیے ہوئے ہے دُوسرے میرج پارٹنر کے ساتھ نئی زندگی کی شُرُوعات کا۔ ایک پارٹنر دُوسرے پارٹنر سے اس لیے توقع باندھ لیتا ہے کہ اسے خُدا بڑی شان والے پر بھروسا ہے اور جو چیز انھیں تھامے ہے، انھیں حوصلہ دیتی ہے وُہ ہے خالص مَحَبّت اور صرف مَحَبّت اور پاک یسُّوع مسیح کی ہی مَحَبّت میں عہدِ نکاح کے ہنگام دونوں نے ایک دُوسرے کو قُبُول کِیا تھا اور عُمر بھر ساتھ نِبھانے پر ہاں کہی تھی۔

بحرانوں اور ناکامیوں، نامرادیوں کے وقت ہی بندے کو کِسی رُوحانی راہنما کی برادرانہ استعانت درکار ہوتی ہے۔ جی جناب!

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?