:سوال نمبر142
۔مسیحیت میں خاندان کو کیا اہمیت حاصل ہے؟
جواب:۔فطرت کا طے شدہ قاعدہ ہے، خاندان کی انگنائی میں ایک ننھا سا پھول کھلتا ہے،ا س کی ملکوتی نگاہیں جن چہروں پر دنیا میں وارد ہوتے ہی پڑتی ہیں وہ اس کے ممّی، بابا ہوتے ہیں۔والدین کی خوشیاں اور محبت اس کو بارش کی کومل پھوار بن کے گدگدا رہی ہوتی ہیں، زندگی کی چیخ، پالنے کی نیند، پھر کِلکاریاں، آغوں آغوں اور پھر ایک دِن اس کے معصومیت بھرے پیارے الفاظ مَم مَم، اَم اور اماں، با۔۔۔۔۔۔با اور پھر یہی نونہال، نوجوان بن کے ایک دِن پورا انسان بنا سامنے کھڑا ہوتا ہے، ماں باپ کی خوشیاں دیدنی اور دعائیں چھتر بن کے اس پر تنی رہتی ہیں تا کہ زمانے کی دُھوپ اور تیز و تند موسم اس کا بال بھی بیکا نہ کر سکیں۔ ماں باپ نے اسے چلنا سکھایا تھا، بڑا ہو کے وہ ان کی لاٹھی بن جاتا ہے۔ تب بھی والدین کی محبت اور ان کی دعائیں اس کا سب سے بڑا سہارا ہوتی ہیں جو اس کی ترقی، کامیابیوں اور کامرانیوں کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہیں۔ ہمت والے مردوں کے ماں باپ جلد بوڑھے نہیں ہوتے۔ نانی نانا، دادی دادا خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہوتے اور پھر پرنانی پرنانا، پردادی پردادا بنتے ہی ان کی کمان کمریں پھر سے تن جاتی ہیں، جھکے کندھے سیدھے ہو جاتے ہیں، اسی طرح چل سو چل، ادرک کے پنجوں کی طرح گھر گھرانوں میں اور گھرانے خاندانوں میں پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ یہ ماں باپ کا پیار ہوتا ہے جو بچوں کو اعتماد دیتا ہے اور کارزارِ ہستی میں وہ پالے پہ پالا مارے چلے جاتے ہیں۔ جو بندہ ان تجربات سے نہیںگذرا ہوتا وہ دوسروں پر بھروسا کرنے سے عاری رہتا ہے،وہ نہ کِسی کو پیار دے سکتا ہے اور نہ کِسی کی محبت اس کی زندگی میں رس گھول سکتی ہے۔ کلّہے رُکھ تیز آندھیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے، جڑ سے اکھڑ جاتے ہیں، کلّہا بندہ بھی زمانے کی گھمن گھیریوں میں پھنس کے رہ جاتا ہے یا یوں سمجھیے اکیلا انجن ہے جو ریلوے لائنوں پر بھاگا پھرتا ہے، قدرت نے کانٹا بدل دیا، مُڑ گئے، نہ بدلا، سفر جاری، جب تک دم خم ہے دوڑ جاری، پھر اللہ بیلی۔
دوسروں سے پیار محبت کرنے والے ہی خُدا کی اس منشا پر پورے اترتے ہیں جیسا وہ اپنی خلقت کو دیکھنا چاہتا ہے خُدا کے ایسے لوگوں کی قدر بڑھتی ہے، مرتبے بلند ہوتے ہیں۔ خُدا تو خود محبت ہی محبت ہے،ا س نے عورت ہو یا مرد، انسان کو اپنا ہی عکس بنایا ہے۔ خُدا کو بڑا ناز ہے اپنی تخلیق پر،ا سی لیے مخلوقِ انسانی اسے بہت پیاری ہے۔
اور خُدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کِیا، خُدا کی صورت پر اس نے اس کو پیدا کِیا، نر و ناری، اُن کو پیدا کِیا۔
تکوین۔۔۔۔۔۔27:1
جب مرد اور عورت کی ملاقات ہوتی ہے، پیار اُن کے اندر ہمکنے لگتا ہے، ایک دوسرے کے بغیر جینا دُوبھر لگنے لگتا ہے، گھٹنوں کے بَل جھک کے ''کُڑی دی'' ہاں کروائی، انگوٹھی پہنائی، منگنی اور شادی کے بیچ والا زمانہ (کچھ دِن، مہینے، سال بھی ہو سکتے ہیں!) جی ہاں، یہ عرصہ سپیشل ٹائم کہلاتا ہے، مستقبل کی منصوبہ بندیاں اور شادی خانہ آبادی کی حسبِ حیثیت تیاریاں کی جاتی ہیں، خوشحالی کی زندگی میں مقدور بھر آسانیاں پیدا کرنے اور پاکدامنی کے درس اور وفاداری، دیانتداری کی تدریس و تلقین شروع ہوجاتی ہے، بڑی بوڑھیاں اور ایک زمانہ دیکھے ہوئے بزرگ بہت سی کام کی باتیں سمجھاتے ہیں۔یہ گریس پیریڈ بھی ہوتا ہے، رعایتی مدت جس میں خوش اسلوبی اور سگھڑاپے کے گُر سیکھے جاتے ہیں۔ حقوق و فرائض کے سبق دہرائے جاتے ہیں تا کہ شادی شدہ زندگی پیار، محبت، امن، سکون اور راحت میں گذرے، خاندان پھلے پھولے، دودھوں نہاؤ پوتوں پھلو کی دعائیں مستجاب ہوں۔ ازدواجی زندگی، کامیاب ازدواجی زندگی کے ساکرامینٹ میں دونوں شادی کی گرہ میں بندھنے کا خوش دلی سے اثبات کرتے ہیں، زندگی بھر دیانتداری کے ساتھ وفادار رہنے کا عہد کِیا جاتا ہے۔یہ پہلی اور آخری ہاں ہو تی ہے جس پر شادی انجام پاتی ہے۔ اک ذرا سی ہاں اور عمر بھر کا خوشگوار بندھن اوراس بندھن کے کبھی نہ ٹوٹنے کی دعائیں ساری زندگی پیچھا کرتی رہتی ہیں۔نو بیاہتاؤں کی آپس کی محبت میں داخلی طور ایک تبدیلی آتی ہے اور دونوں کی محبت خُدا کی محبت میں تحلیل ہوجاتی ہے تا کہ نوبیاہتا جوڑے ایک دوسرے کو بدلے میں خُدا کی محبت کا تحفہء انمول دیں، ایک دوسرے کو تحریم و تکریم دیں۔ الٰہی محبت کے طفیل ایک دوسرے کی تقدیس کا وسیلہ بنیں۔ کیوں کہ ان کی انسانی محبت، انسان کی محبت نہیں رہی، یہ اب خُدا کی محبت ہے جو انسان سے انسان کو ہے۔
(حوالہ کے لیے دیکھیےCCC. 1639-1642)
قوم، برادری، ناظرین حاضرین کے سامنے نوبیاہتا جوڑا عہدِ وفا دُہراتا ہے، کلیسیا کمیونٹی جس کے گواہ ہوتے اورنمایندگی کر رہے ہوتے ہیں اور پریسٹ یا ڈیکن کے سامنے وعدے کی صورت وفاؤں کا عزمِ صمیم دولھا دُلھن دونوں دُہراتے ہیں جس کی وہ توثیق کرتے ہیں۔ قسیس یا شماس کلیسیا کے نمایندہ کے طو رپر شادی پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے اور برکتوں اور خوشحالی کی دعا دیتا ہے۔ کلیسیا اور مقدس خُداوند یسوع مسیح کی محبتِ لازوال کی شراکت روح القدس میں نیک دعاؤں اور تمناؤں کی برکت بھری چھاؤں بن کر خوش نصیب جوڑے کو ودیعت ہوتی ہے۔
(حوالہ کے:CCC-1624)
خداوند پاک یسوع مسیح ایک ایسے خانوادے میں پلا بڑھا جسے مقدسہ مریم اور یوسف کی وجہ سے نمایاں علامتی حیثیت حاصل تھی۔ برکت و تقدیس کی تخصیص منسوب تھی اُس سے۔ پاک خُداوند نے اپنے آپ کو اپنے شاگردوں پر اپنا اصل جوہرِ الوہی تب آشکار کِیا جب اس نے جمہور میں اپنی زندگی کا آغاز کِیا اور شادی کی ایک ضیافت میں ا س کا پہلامعجزہ سامنے آیا۔
اور تیسرے دن قاناے جلیل میں بیاہ ہوا اور یسوع کی ماں وہاں تھی۔ اور یسوع اور اس کے شاگرد بھی اس بیاہ میں بلائے گئے تھے۔ اور جب مَے گھٹ گئی تو یسوع کی ماں نے اُس سے کہا کہ ان کے پاس مَے نہیں رہی اور یسوع نے اُس سے کہا: اے خاتون! مجھے اور تجھے کیا۔ میرا وقت ہنوز نہیں آیا۔ اُس کی ماں نے خادموں سے کہا، جو کچھ یہ تم سے کہے وہ کرو۔ اور وہاں یہودیوں کی رسمِ طہارت کے لیے پتھر کے چھے مٹکے دھرے تھے جن میں دو دو یا تین تین بت سماتے تھے۔ یسوع نے اُن سے کہا: مٹکوں میں پانی بھر دو۔ سو انھوں نے اُن کو لبا لب بھر دیا۔ اور اُس نے اُن سے کہا کہ اب نکالو اور میرِ ضیافت کے پاس لے جاؤ۔ اور وہ لے گئے۔ جب میرِ ضیافت نے وہ پانی چکھا جو مَے بن گیا تھا اور نہ جانتا تھا کہ یہ کہاں سے آئی ہے (مگر خادم جنھوں نے وہ پانی نکالا تھا، جانتے تھے) تو میرِ ضیافت نے دولھا کو بلایا اور اس سے کہا کہ ہر شخص پہلے اچھی مَے خرچ کرتا ہے او رمعمولی اُس قت جب کہ سب پی چکیں مگر تُو نے اچھی مَے اب تک رکھ چھوڑی ہے۔
نشانوں کا یہ شروع یسوع نے قاناے جلیل میں کیا اور اُس نے اپنا جلال دِکھایا اور اس کے شاگرد اُس پر ایمان لائے۔
مقدس یوحنا۔۔۔۔۔۔1:2تا11
قانا والے اس معجزہ کو کلیسیا نے بہت وقیع قرار دیا ہے کیوں کہ کلیسیا باور کرتی ہے کہ وہاں پاک خُداوند کی موجودگی اور معجزہ کی رونمائی شادی کی فضیلت پر تصدیق اورا ستحکام کا ساکرامینٹ دیتی ہے۔ چناں چہ اس نے اس منادی کی روایت قائم کی کہ ہر شادی مؤثر قرار پانے کی یہ علامتِ یقینی ناقابلِ تردید ہے کہ ہر ایسی تقریب میں مقدس خُداوند یسوع مسیح کی خود بہ نفسِ نفیس تشریف آوری ضرور ہوتی ہے۔ (CCC.1613)۔ یہ بڑے راز کی بات ہے جسے مَیں خُداوند یسوع پاک اور مقدس کلیسیا سے معنون سمجھتا ہوں۔
یہ ایک بڑا بھید ہے یعنی مسیح اور کلیسیا کی نسبت۔
افسیوں۔۔۔۔۔۔32:5
اپنے آپ کو ایک دوسرے کو سونپ دینا، ایک دوسرے کے لیے وقف کر دینا، ایک دوسرے کا شریکِ حیات بن جانا، وہ بندھن ہے جو الٰہی مہر ہے۔ زن و شوہر یک جسم و یک روح ہو جاتے ہیں۔ شِیر و شکر۔ نہ شِیر علیحدہ کِیا جا سکے اور نہ شکر۔ یوں ان کی تکمیل ہو جاتی ہے اور پھر مسرتیں ہی مسرتیں۔
زوجین کے مابین محبت کا یہ وصف رہا ہے کہ میاں بیوی کا پیار طبعی اختلاط، جسمانی ملاپ اور فطری ہم آہنگی سے بھی آگے کی کوئی چیز ہے، جو جسمانی طور پر ایک ہونے کی حالت یا حقیقت کے تحت صلاحیتِ تولید کی نمُو کا باعث بنتا ہے۔ ازدواجی بندھن ایک نئی زندگی کو جنم دیتا ہے۔ زن و شوہر ماں اور باپ بن جاتے ہیں۔ زندگیاں بڑھتی ہیں، ان میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہر معصوم بچہ خُدا کا آسمانی تحفہ ہوتا ہے اور الٰہی مشن کا خاص مقصد و مقصود بھی۔ اسی لیے اس بات کو خاص اہمیت حاصل ہے کہ میاں بیوی پروردگارِ حقیقی کے روبرو ذہن و من کو صاف شفاف رکھیں، آئیں بائیں شائیں نہ کریں، بچوں کی تعداد کے بارے میں ان کا شعور واضح ہونا چاہیے، ان کی پرورش، نگہداشت و پرداخت کے لیے ربِّ اکبر ہی مددگار و کارساز ہے اس پر بھی پختہ یقین ہونا چاہیے۔ بچے کے ساتھ ایک پیٹ لگا ہے تو کھانے کمانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے دو ہاتھ بھی عطا کیے ہیں۔ اسی طرح یہ ہربچے کا حق ہے جس کا احترام کِیا جائے کہ وہ کِسی گھر گھرانے میں جنم لے، اس کا یہ حقِّ ربّی انسان کون ہوتا ہے کہ چھینے۔۔۔۔۔۔ ہر فیملی میں شادیاں کیوں طے کی جاتی ہیں؟ شادی، خانہ آبادی تبھی قرار پاتی ہے جب بچے آنگن میں کِلکاریاں بھرتے پھریں۔ ہر آنے والا بچہ اُمّتِ مسیحی میں اضافہ ہے۔ مصنوعی امتناعِ حمل یعنی دانستہ تدابیر کے ذریعے دفعِ حمل کا عمل منع ہے۔ البتہ خاندانی منصوبہ بندی کے لیے احتیاطی تدابیر پر کوئی قدغن نہیں۔ عارضی پرہیز بہترین تدبیر ہے۔
اختلاط، رشتے کی استواری، استحکام و استقلال، زچگی سے بے خوفی شادی کے لازمے ہیں۔ ''کثیر الازدواجی'' اور ''شادی کی اکائی کا میل یعنی ہم آہنگی'' دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جس جوڑے کو خود خُدا نے آسمان پر جوڑا، طلاق اسے علیحدہ کر دیتی ہے۔ ضبطِ تولید، بچے پیدا کرنے سے انکار شادی شدہ زندگی کے لیے اس تحفہء عظیم سے محرومی ہے، جسے اولاد کہتے ہیں۔ بچے تو ویسے بھی میاں بیوی میں اتفاق و محبت اور تعلقات میں پختگی کے لیے قدرت کا عطا کردہ سیمنٹ ہوتے ہیں۔ (CCC 1664)
شادی عمر بھر نباہنے کا اقرارِ واثق ہے جس کا دُولھا بھی پابند ہوتا ہے، دُلھنیا بھی۔ یہ ہار جیت کا بھی کنٹریکٹ نہیں۔ خوشحالی اس کا نتیجہ ہوتی ہے یا تباہی و بربادی۔ تنکا تنکا جوڑ کے گھر گھروندا بنتا ہے جان بوجھ کے تو دونوں نہیں چاہتے جس کے لیے اتنی محنت کی، مشقت اُٹھائی وہی تِنکا تِنکا ہو جائے۔ یہ گڑیا گڈے کا بیاہ نہیں، دو انسانوں کے مابین خُداوند کریم نے رشتہ قائم کِیا ہوتا ہے، اسے توڑنے والا گناہ کماتا ہے:
سو وہ اب دو نہیں بل کہ ایک تن ہیں۔
مقدس مرقس۔۔۔۔۔۔9:10
شاید بعض لوگوں کو یہ الفاظ گراں گذریں کہ اس سب کچھ کے باوجود گارنٹی کوئی نہیں کہ خُدا کی بنائی یہ نصیبوں والی جوڑی کیسے کیسے نصیبوں سے دوچار رہے،خوش نصیبی خوش فہمی بھی ثابت ہو سکتی ہے، شادی ناکامی میں بھی بدل سکتی ہے۔ انسان ہے تو خطا کا پُتلا نا۔ دونوں سے یا دونوں میں سے کِسی ایک سے غلطی ہو سکتی ہے، بنا بنایا معاملہ ہی چوپٹ ہو سکتا ہے، اور تو اور کوئی پھاپھا کُٹنی ہی تِیلی لگا جائے، کیا کہہ سکتے ہیں۔ یا پھر کوئی موذی مرض، طویل صبر آزما بیماری یا ایسے حالات سر اُٹھا لیں جن کے آگے انسان بے بس ہو جاتا ہے، ایسا ہو جائے تو محبت برف بن کے بتدریج پگھلنا شروع کر دیتی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ جو ایک دوسرے کو دیکھے بِنا ایک پل بھی نہ رہ سکتے تھے وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں رہتے، کیوں کہ وہ بات ہوجاتی ہے کہ
وہ بھی آنکھیں دِکھا رہے ہیں ہمیں
جن کو آنکھوں میں ہم نے پالا ہے
کھچاو، کشیدگی روز بہ روز بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ڈور زیادہ تن جائے توٹوٹ بھی سکتی ہے اور بندہ کٹی پتنگ کی طرح اِدھر اُدھر ڈولنے لگتا ہے۔
بلا شبہ ازدواجی ساکرامینٹ اپنی تقدیس میں گذرے بھلے وقتوں کی مسرت و انبساط بھری محض ایک یاد ہی نہیں ہوتی بل کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیشہ پہنچ میں رہنے والا برکت اور فضلِ ربّی ہے، جو بے ثمر نہیں رہ سکتا۔ یہ فیضانِ الٰہی کا وہ چشمہ ہے جو کبھی سوکھتا نہیں، جاری رہتا ہے مرتے دم تک، جو جتنا چاہے فیض اُٹھا لے۔ زوجین کے پلے جب بھی یہ بات پڑ جائے، اپنی اپنی رنجشوں والی سلیٹ صاف کر یں اور خوش خطی میں اس پر ''آئی لو یو'' لکھیں اور نئے سرے سے ایک دوسرے کو پیش کر دیں۔ خاوند یا بیوی میں سے کوئی چِٹّا ان پڑھ ہو تو دوسرا فریق اسے پڑھ کر سنا دے بل کہ ازبر کروا دے۔ اگر دونوں پڑھے لکھے ہوں تو یہ شعر ان کے تعلقات میں احیاء کا سبب بن سکتا ہے، دونوں ایک دوسرے کو ایس ایم ایس کر سکتے ہیں۔
ظالم تُو میری سادہ دِلی پر تو رحم کر
روٹھا تھا تجھ سے آپ ہی اور آپ من گیا
دوسری طرف سے اگر شان میں کسر محسوس نہ ہو تو یہ ایس ایم ایس بنتا ہے۔
تُو کھنچا مجھ سے مگر مَیں تیری راہوں کے لیے
پھُول چُنتی رہی ، چُنتی رہی ، چُنتی رہی
اس کے بعد انٹرنیٹ پر چیٹ شروع اور پھر دونوں علیحدگی پسند واپس شریکِ حیات بن جائیں کہ دونوں حیات ہیں۔
اگر پھر بھی بات نہ بنے، تو کوئی بات نہیں، دنیا میں ایسی بہت شادیاں ہیں جو ناکام ہو گئیں۔ بس مسیحی اس بات میں پکے ہیں کہ بات میں سے بات نکال لیتے ہیں کہتے ہیں، چلو جو ہوا سو ہوا، جیون ساتھی گیا (یاگئی)، اس کی محبت بھی گئی سو گئی، خُدا کی محبت تو قائم ہے، مقدس خُداوند یسوع مسیح کی محبت اور اس کی مقدس کلیسیا کی محبت کا ساتھ تو ہمیشہ کا ہے نا، یہی کافی ہے۔ ہاں، ایک بات سے ہم ابھی سے خبردار کر دیں، دوسری شادی جُوے شیر لانے والی بات ہے۔ دونوں زندہ ہوں تو منع ہے۔ (CCC 1649-1651)
تاہم، ایسے کِسی عمل کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ثبوت کا ہونا ضروری ہے اور اس کے لیے ترکِ تعلقات یا تنسیخ کے ضمن میں باقاعدہ ایک طریقِ کار ایک مستحکم و فعال کلیسیائی نظام موجود ہے جو تصدیق کرتا ہے کہ شادی جس انجام کو پہنچی اس کا جواز درست بھی تھا یا نہیں۔ شادی مؤثر قرار دینے کی خاطر ایک حلف لیا جاتا ہے:
مَیں آپ کو اپنی بیوی(اپنے خاوند) کے طور پر قبول کرتا (کرتی) ہوں۔
خلوصِ دِل سے ایک دوسرے کو اپنانے کے بعد آج سے ایک دوسرے کا ہمیشہ ساتھ دیں گے اور اس بندھن کو خوش اسلوبی سے نبھائیں گے۔
ایک دوسرے کا پاس، احترام کریں گے
کیسے بھی حالات ہوں، اچھے، بُرے، امیری میں، غریبی میں، بیماری میں، صحت و تن درستی میں ہم شریکِ حیات رہیں گے
ہمارا یہ وعدہ تب تک راسخ رہے گا جب تک موت ہمیں ایک دوسرے سے جدا نہکر دے۔
اگر دونوں ہی اس عہد پر قائم رہے تو ستّے ای خیراں، ورنہ۔۔۔۔۔۔
ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تُو نہ مَیں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تُو نہ مَیں