:سوال نمبر109
۔بدعتوں کی روک تھام، تفتیش اور سزائیں نافذ کرنے کے لیے تیرھویں صدی میں قائم کی گئی عدالت کو ہم مسیحی رواداری، تحمل و برداشت اور اس پر فریفتگی کی مثال قرار دے سکتے ہیں؟
جواب:۔اس سوال کے مناسب جواب کی خاطر بطور حوالہ ہم ''کاتھولیشن ایرواخزینن۔ کاٹے چِسمُس'' والیوم2 ''لیبیں آؤس دیم گلاؤ بین''۔ (فرائی بورگI۔ بی آر: ہیر ڈیر، 1995، صفحات202،203 اور 204) کیتھولک مسیحی تعلیم کی کتاب براے بالغان،"Life in Faith"جس کی ناشر جرمن کلیسیائی نمایندوں کی کلیسیائی امور کے لیے مشاورتی مجلس ہے، اُس سے ہم اقتباس نقل کرنا چاہیں گے۔
خدا کا نام استعمال کرتے ہوئے طاقت کا غلط استعمال
خدا جلال و جمال والے کے نام کو بٹّا لگانے، اس کی بدنامی و رسوائی کی خاطر اور ناجائز فائدہ اُٹھانے کے لیے خُدا کے نام کے غلط استعمال کے ان حربوں کو دیکھا جائے تو یہ سراسر بنامِ خُدا بے حرمتی کا ظلم کمانے والی بدترین حرکت ہے۔ تاریخی پس منظر پر چھچھلتی سی نگاہ دوڑائیں تو بہتیرے ہولناک سے سین آنکھوں کے سامنے سے گذریں گے جہاں یہ کہہ کر کہ ''یہ خُدا کی جانب سے ہے'' بڑے بڑے مہیب کام دِکھائے جا رہے ہوں گے۔ حتّٰی کہ کلیسیا کے براق لباس پر بھی اس کی گرد کہِیں نہ کہِیں ضرور جمی ہوئی نظر آئے گی۔ اقتدار و اختیار کی حرص کا پھندا بارہا اس کے سرپر منڈلاتا نظر آیا ہے۔ جس نے دیکھ لیا، بچ گیا، جو انجام سے لاپروارہا، اس نے بھُگتا۔ آج کل بھی کیا ہو رہا ہے، نوشتہ بردیوار ہے، ویسے تو کلیسیا انسانی حقوق کے تحفُّظ کی علمبرداری میں قریباً سرخیل ہونے کا کردار نبھا رہی ہے، لیکن ماضی کے اس بھاری بوجھ تلے دبے دبے اُسے اس خمیازہ کا آج بھی سامنا ہے جو نتیجہ ہے تیرھویں صدی تا انیسویں صدی والی عدالتِ احتساب کی سرگرمیوںکا جو کیتھولک کلیسیا بدعتیوں اور ملحدوں کی بازپرس اور ان کو سزا دینے کے سلسلے میں پوری تن دہی اور پوری سختیوں سے روا رکھتی تھی۔
عدالتِ احتساب، اُس کے قیام، اس کی کارکردگی کے بارے میں ہمیشہ ہی غلط قیاسات نے اس کا قافیہ تنگ کیے رکھا، اس کے منشاے قیام پر بھی بدگمانیوں کی گرد جمی رہی۔ آج تک اس ادارے کی پان پت اتاری جا رہی ہے۔ اس عدالت کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ اس عقیدے کی حفاظت کی جائے کہ کائنات اور اس سے بھی آگے اور اس سے پہلے اور بعد میں بھی ہمیشہ ہمیشہ ایک ہی ذات تھی، ہے اور موجود رہے گی اور خُدا میں توحید کے اقرار کے گِرد حفاظتی حصار تعمیر کر دیا جائے جس میں بدعتیں اور بے دینی کوئی رخنہ نہ ڈال پائیں۔ بارھویں صدی کے عرصہ میں بڑی سرمستانہ اور ''انقلاب انقلاب'' کا شور مچانے والی تحاریک جن کا کیتھولک عقیدے سے دُور کا بھی واسطہ نہ تھا، ان سے مسیحیت کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ مثلاً کتھارزم والے بزعمِ خود مذہب کے ''مصلحین'' کا فرقہ جنھیں بعد میں شدید عقوبتیں بھی احتساب عدالت کے فیصلوں کے تحت جھیلنا پڑیں۔ ''متطاہرین'' کی یہ آندھی فرانس کے قصبہ البی سے اٹھی، کتھاریوں کی آف شُوٹ یہ جماعت جس میں بعض لوگ بس نام کے مسیحی تھے، روکھی سوکھی کھانے والے اور محتاط الخوراک لوگ، پرہیز گاری کا بڑا دعویٰ رکھتے تھے۔ ان کا نظریہ تھا کہ کائنات اُلُوہیت کے جلووں یا قوت و قدرت کے مظاہر کی تخلیق ہے۔ وہ غناسطیت کے پرچارک تھے۔ گیارھویں بارھویں صدی کے سالوں میں سرگرم رہے۔ بدعتیں رواج دینے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اپنے گیٹ اپ سے دوسروں کو مسحور کر لیتے تھے۔ بدعتیوں کی اس تحریک کودبانے میں مسیحیت کو سو سال تگ و دو کرنا پڑی تب کہِیں اس فتنے سے امان ملی ورنہ انھوں نے تو ازمنہء وسطیٰ میں متوازی کلیسیا کی بنیاد رکھ دی تھی۔ 1184عیسوی میں جناب تقدس مآب پوپ لوسیئس سوم اور شاہ فریڈرک اول (باربروسا) کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت کتھاری بدعتیوں، ملحدوں کو سزا دینے پر اتفاق کِیا گیا جس کے نتیجہ میں اس سمجھوتے پر عمل درآمد شروع ہوا جو اس زمانے کے کلیسیائی اور شاہی دونوں ایوانوں میں قابلِ قبول ٹھہرا۔ دونوںہی ایک پیج پر آگئے۔ مذہبی مقتدرین کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس بدعتی فتنے کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکے لیکن احتساب عدالت سے باہر باہر نہیں بل کہ اس عدالت کی جانچ پڑتال اور اس کی طرف سے فردِ جرم لگنے اور اس کے عدل پر مبنی فیصلہ کے تحت۔ اور وہ جو سیکولر بعض دنیاوی مختارِ کُل تھے انھیں جو ذمہ داری سونپی گئی اس کا تقاضا تھا کہ مذہبی عدالت جو فیصلہ صادر فرمائے گی شاہی انتظامیہ اس پر فوری عمل کرکے مجرمان کو کیفرِ کردار تک پہنچائے گی۔اقتدارِ شاہی اپنے آپ کو کلیسیا کا محافظ قرار دیتا تھا، اسے مسیحی مذہب کے خلاف سازشوں کی بو آنے لگی تھی جس کا مطلب تھا کہ کرسچین سوسائٹی(res publica christiana)یعنی تمام مسیحی سماج خطرے کی زد میں تھی، چناں چہ صاحبانِ دنیوی اقتدار کلیسیا کی حرمت پر آنچ نہ آنے دینے کے لیے بدعتیوں کے خلاف پورے ذوق شوق اور انہماک کے ساتھ صف آرا ہو گئے۔ اور پھر انجامِ کار انھوں نے کلیسیا پر زور دینا شروع کر دیا کہ مذہبی احتساب عدالت کا دائرئہ کار بڑھایا جائے۔ بڑے بڑے جیّد علماے دِینِ الٰہی جیسے اکوائینس(1225عیسوی۔1274عیسوی) قبیل کے لوگ اپنی معرکۃ الآرا تصانیف مثلاً Summa Theologicaتک میں عقوبتوں، اذیتوں اور پھانسیوں کے لیے دینیاتی طور ان کی معقولیت و واجبیت کو اُن ڈھیٹ قسم کے بدعتیوں کے خلاف بڑھا چڑھا کر پیش کرتے رہے۔
حوالہ کے لیے دیکھیے:(S. th. II II q.11, art. 3)
بعد کے سالوں میں بعض مخصوص ممالک کے مختلف ذمہ دار و معتبر قسم کے اداروں نے جملہ بدعتیوں کے خلاف کام کرنے والی مذہبی احتساب عدالت کو بہت ہی مختلف انداز اور مقاصد کے لیے بڑے پیمانے پر ردّو بدل سے گزار کر اپنے وطن میں بھی رائج کر دیا۔ ان عدالتوں کے کٹّڑ قسم کے متعصّب حمایتیوں کے مقابلے میں خاص طور پر اس زمانے کی ساحراؤں اور جادوگرنیوں نے جب اپنی کارستانیوں کی حد کردی اور پھر ان عدالتوں کے ذریعے ان پر شامت آنا شروع ہو ئی بل کہ اس میں بھی حدود پھلانگی جانے لگیں، تو بہت سے وزن دار اور بلند آواز لوگوں نے ان محتسب عدالتوں کے بے جا استعمال کی کھلے بندوں مخالفت شروع کر دی اور یہ سلسلہ 15ویں صدی سے 18ویں صدی تک برابر جاری رہا۔ (اسی زنجیر کی آخری کڑیوں میں ایک تھے جناب یسوعی فریڈرش شپے 1591عیسوی۔ 1635عیسوی)(Jesuit Friedrich Spee [1591/1635])۔
بدعتوں کے خلاف جمائی گئی ان مسیحی احتساب عدالتوں کا المیہ رہا ہے کہ رواداری اور برداشت جو آج ہمارے ہاں آٹومیٹک طور قابلِ قبول اور رائج ہے، اُن وقتوں میں جب یہ عدالتیں لگیں اِن صفات کا اقوامِ عالم میں ہونا دُور کی کوڑی لانے والی بات تھی۔ اس زمانے کا لمحہء فکریہ صبر و تحمل کے تصور سے پیدل تھا۔ ابتدائی اور اساسی مقصد جو تھا کہ ایسی احتساب عدالتیں قاعدوں ضابطوں کی پابند ہوں گی اور بجاے خود قانون و عدل کی خود مختار اتھارٹی ہوں گی ان کا تو حلیہ ہی گھڑ گھڑا کے بگاڑا جا چکا تھا۔ وہ غریب تو زیادتیوں او ربڑے پیمانے پر عوام میں پائے جانے والے شدید اعصابی تناو کی گھمن گھیریوں میں پھنس کر ہر کِہ و مِہ کی دُشنام باری کی زد میں آگئیں او رپھر ان کے تابوت میں آخری کیل اُ س وقت ٹھکی جب بدعتوں کا قلع قمع کرنے والی ہسپانوی دینی احتساب عدالتیں اپنی توانائیاں کھوتی چلی گئیں اور ایک دن کمزوریوں، بے طاقتی کا ڈھانچا بن گئیں۔ در اصل وہ لڑائی دم توڑ گئی جس نے عوام پر ڈر خوف طاری کر کے انھیں ہذیانی کیفیت میں مبتلا کر دینے والی جادوگرنیوں کا تیا پانچا کر دینے کا مشن پورا کرنا تھا۔ احتسابی عدالتیں توڑ دی گئیں۔ (بس پُرتگال میں 1821عیسوی تک اور سپین میں1834عیسوی تک ہی اپنی کارروائی جاری رکھ سکیں)۔ بنامِ خُدا طاقت کے غلط استعمال کا کلیسیائی عدالتی باب اختتام کو پہنچا۔ چرچ نے جو رسوائی اپنے سر لی ا س کی مثالوں کی بازگشت آج بھی کبھی نہ کبھی، کہِیں نہ کہِیں سے کانوں میں واں واں واں،وانواں وانواں کرتی سنائی دے جاتی ہے۔
مسیحیوں کی خوف اور حزن و ملال بھری یادوں کے نشان ماضی کی تاریخ کے صفحاتِ سیاہ سے کب، کیوں کر اور بھلا کون مٹا سکتا ہے۔ ماضی؟۔۔۔۔۔۔ آہ ماضی!!
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب !
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
ممیز، مبنی بر حقیقت، تاریخی لحاظ سے اہم و ناقابلِ فراموش حالات و واقعاتِ ماضی کی جانچ پڑتال اور تعین بھی ماضی کی سلیٹ صاف نہیں کر سکتے، ان سوہانِ رُوح یادوں میں لتھڑے گذرے وقتوں میں کی گئی زیادتیوں اور طاقت کے غلط استعمال کے سلسلے میں کوئی کردار ادا کر سکنے میں عاجز ہیں۔ یہ غور فرمائیے نا کہ ہوا کیا؟ معتبر و اہم کیتھولک نمایندگان اور پروٹیسٹینٹ نمایندہ معتمدین، کلیسیائی منصب دار حضرات نے سحر طرازی کے ڈھونگ سے قابو کرنے والی ضعیف العمر، جوان، حسین یا ڈراؤنے گیٹ اپ والی جادوگرنیوں پر خُدا اور عدل کے نام پر آزمائی گئی ایذا رسانیوں اور وحشیانہ عقوبتوں میں برابر کا شریک ہو کر کِس انصاف کا مظاہرہ کِیا؟ بدعتیوں کے خلاف قائم دینی محتسب عدالتوں کے قاضیوں کے ساتھ وہ بھی انسانی حقوق کی تمام حدود عبورکرتے رہے۔ سچ سچ ہوتا ہے، مان لینے میں کیا حرج۔
1955عیسوی میں مؤرّخینِ مستند کے سامنے اپنے خطاب میں تقدس مآب پوپ پائیس سوم نے ایک دیانتدارانہ، دانش ورانہ گہرا اور مفصل اپنے منصب و تقدس کے شایان، تجزیہ پیش کِیا تھا جو ان تعلقات کا احاطہ کیے ہوئے تھا جو مقدس کلیسیا اور باقی دنیا کے درمیان قائم ہیں، اُنھوں نے اس تعلق کا بھی جائزہ لیا جو مذہب اور سائینسی علوم پر محیط ہے، اور اُن قاعدوں، اصولوں اور حقائق کا کہ جن کی روشنی میں صحیح فیصلہ پر پہنچا جا سکے، ان سب کا الفاظ الفاظ میں ذہنی تصور خوب صورتی سے پیش کر دیا۔
(حوالہ کے لیے ملاحظہ ہو:Acta Apostolicae Sedis XLVII, 1955, 672-682)
اس پر طرہ یہ کہ جناب تقدس مآب پوپ جان پال ثانی نے ماضی میں ہو چکے دلخراش واقعات و سانحات کی تلافی کے باب میں ایک دلیرانہ اقدام کر کے لوگوں کے دِل موہ لیے۔ اُنھوں نے گلیلیو کی سزا معاف کر کے اس کی زندگی بحال کر دی۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ یقینا۔۔۔۔۔۔
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
تیوہاری پاپائی عبادت و دعا کے دوران جو 12مارچ2000عیسوی کے دِن سینٹ پیٹرز برگ کے گرجا میں منعقد ہوئی وہاں پوپ صاحب نے اپنی پہلے سے اعلان شدہ بات دُہرائی :
اپنے اندرونی محرکات و عقائد کا عمیق ذاتی تجزیہ کر کے، روح میں جھانکتے ہوئے، احتساب بالنفس، جو اپنی تقصیر کا غیر معمولی طور اقرار کر لینے پر، کہ کلیسیا اپنی کج روش، بدمعاملگی و بداعمالی سے اپنے آپ کو نہ بچا سکی، اس صدی کے اختتام کے قریب وہ (احتساب بالنفس) تکمیل کو پہنچا: ''معافی خواستگاریِ عظیم یا مجھے اپنی خطا تسلیم''Mea Culpaیعنی I am at fault، عمل نتیجہ تھا اس عرقِ اِنفعال کا جو قطرہ قطرہ ٹپکا۔ تقدس مآب پوپ نے عفو، درگذر کی درخواست کی اُس کردار پر جو کلیسیا نے بدعتیوں او رملحدوں کو بہیمانہ سزائیں سنانے والی عدالتوں کی ہلّا شیری کر کے ادا کِیا تھا۔ کلیسیا خود بھی حصہ بنی اس سقم کا جو بدعتیوں کو زندہ جلا جلا کے ان پر توڑا گیا۔ مذہبی جنگیں بھی اِسی زُمرہ میں آتی ہیں اور بیتی صدیوں میں یہودیت مخالف ''کارنامے'' بھی۔ حوالہ کے لیے ملاحظہ ہو:
www.catholic.org.hk/document/pardon.htm
اقتباساتِ اعترافِ عظیم
اعترافِ گُناہ
اور
گُناہوں سے معافی کی عالمگیر دُعا
مقدمہ
ہزہولی نیس جناب پاپاے اعظم :
بھائیو! اور بہنو!!
آؤ نا، ہم مل کے اپنا رُخ
خدا باپ کی طرف کر لیں
جو رحمدل ہے، درمند ہے، مہرباں
غمخوار ہے، نرم دِل، ہمدرد بھی
جلد روٹھتا بھی نہیں
غصہ ور تو ہے مگر آہستہ آہستہ
پیار و پاسداری
محبت ووفاداری میں کوئی دوسرا
اس کے مساوی ہو نہیں سکتا
اس کی بارگاہ میں
ہم کہ ٹھہرے اس کے بندے
ہیں پشیماں اور تائب
ہمیں اپنے گُناہ کا اعتراف اور ہر گناہ پر
نادموں میں، شامل ہیں
نیازمندانہ خاکساری کے بدلے
ملتجی ہیں سب کے سب انساں
بخش دے رحمت کے صدقے
رحم کر
تُو ہی ہے بس مہربان
سب کے ہونٹ ہل رہے ہیں،
آنکھیںبند ہیں، ہاتھ بندھے ہیںاور
گھٹنوں کے بل جھکے، خاموش،
دعا میں مشغول ہیں
1۔ اعتراف اُن گُناہوں کا جو جانے اَنجانے میں سرزد ہو گئے
جناب کارڈینل بیرنارڈِن گانتن
ڈین آف دی کالج آف کارڈینلز
نمایندہ رومی مجلسِ اعیان:
آؤ، آؤ نا۔۔۔۔۔۔
ہم دُعا کریں
کہ ہمارے اعتراف ہاے گُناہ
ہماری توبہ
روح القدس سے ہمارے دل میں اتاری جائے گی
اور یہ کہ
ہمارے رنج و غم اور اندوہ
شعوری
اور عمیق
اور کہ جب
پچھلے گناہوں پر نظر کرتے ہیں اپنی
بہت ہی عاجزانہ
مستند و معتبر ''یادداشت کی تطہیر'' سے
راست تبدیلی کا جو ہے راستہ
اپنانا ہے۔ پابند ہیںقول کے اور فعل کے
خاموش عبادت۔ لوگ چپ چاپ
دعا میں مصروف ہو جاتے ہیں
ہز ہولی نیس، جناب پاپاے اعظم:
خداوندِ خُدا!!
زائر کلیسیا تمھاری، جس کی تُو نے خونِ فرزند سے اپنے
تخصیص کی، تقدیس کی
ہر زمانے میں
اچھّوں کو اور بُروں کو بھی، اپنی اولاد میں شمار کرتی ہے
اور مسیح کے بدن کا حصہ
تقدس میں جو نّیرِ تاباں ہیں
اور مسیح کے بدن کا حصہ
وہ بھی ہیں جو نافرمان ہیں تیرے
تیرا مذہب، تری انجیلِ مقدس، مسیحیت
ہم صدقے، ہم واری
ہم اقرار کرتے ہیں، ہم ایمان رکھتے ہیں
مگر یہ جب بھی کرتے ہیں تیری تغلیط کرتے ہیں
اور تردید کرتے ہیں
یہ بھی بچے ہیں، تیری بھولی ہوئی، بھٹکی ہوئی بھیڑیں
تو پُراستقلال ہے، وعدے کا پکّا، قول کا سچّا
تو ہے لائقِ بھروسا
چاہے ہم ہیں بے وفا،
بد عہد اور بات کے کچّے
کچھ بھی ہیں۔۔۔۔۔۔ ہیں تو ہم بندے تیرے
کر دے سب تقصیریں معاف
بخش دے سارے گناہ
تو قادر و کریم ہے!
رحمن اور رحیم ہے!
ہمیں توفیق دے
سچی گواہی دے سکیں
ہر مرد و زن کے سامنے کر دے ہم کو سرخرو
وسیلہ ہے ہماری التجا کا
تیرا بیٹا المسیح اِبنِ خُدا
سب:آمین
کوائر کا لیڈر:
اے خُداوند! ہم پر رحم کر
ہم پر رحم کر اے خُدا
خدایا رحم کر
عبادت گزاروں کی جماعت دہراتی ہے:
اے خُداوند ہم پر رحم کر
ہم پہ رحم کر اے خُدا
خدایا رحم کر
کیتھولک کلیسیا میں مقدس خُداوند یسوع مسیح کے مجسمہ والی پاک صلیب کے سامنے لیمپ روشن کِیا جاتا ہے۔
حق کی خدمت کے دوران سرزد ہو چکی
کوتاہیوں، خطاؤں اور گناہوں کا اعتراف
رومی مجلسِ اعیان(سرکردہ لوگوں کی مجلس) کا نمایندہ جناب کارڈینل جوزف راٹسٹینگر ناظم براے کارڈینل صاحبان پر مشتمل پاپائی مجلس جو خالص کلیسیائی اُمور کے تحت ایمان و تعلیم کے لیے کام کرتی ہے)۔۔۔۔۔۔
ہمارا خُداوند یسوع مسیح
نرم خُو، نرم دِل
جلد پسیجنے والے دِل کا مالک
منکسرالمزاج
بُردبار و حلیم، ہمیں اس کی پناہ
اس سے ہم دعا کرتے ہیں اور جانتے مانتے ہیں کہ
کلیسیاے مقدس کے بزرگان
اخلاقیات و مذہبِ یسوع کے نام پر
انجیلِ مقدس کے برخلاف
طرح طرح موقع بہ موقع
دفاعِ دِین اور رسموں سے اس کی
بے وفائی کر ہی جاتے تھے
سب بے صدا دعاؤں میں مگن ہیں۔
ہز ہولی نیس جناب پوپ:
سب خواتین و حضرات کے خُداوند خُدا!
تاریخ نے ایسے ادوار بھی دیکھے
جھیلے
نارواداری، تعصب، تنگ خیالی
چھا چکی تھی ہر طرف
مسیحی بھی انسان تھے، پسپا ہوئے
عدم برداشت کے جن کے دباو میں آگئے
تج دیا حکمِ الٰہی، ترک کیں دلداریاں
کلیسیا۔ دُلھن تمھاری
تھی دُہائی دے رہی دھبے لگے چہرے کے ساتھ
توبہ توبہ! رب ہمارے بخش دے!
خداوندا رحم کر، رحم کر ربا میرے
ہم کہ بچے ہیں تیرے، باپ ہے تُو، بس رحم کر اور بخش دے
سارے گناہ۔
لاج رکھ لے اے خُدا، ہم سب کے پختہ عزم کی
آبیاری ہم کریں گے
نخلِ محبت کی تیرے
پھوٹیں گی کلیاں حلیمی کی، شرافت کی، نجابت کی، صداقت کی۔
اخلاقی و عملی قوانین سے مطابقت کے ساتھ
حق و راستی کا ساتھ دیں گے
روحانی صداقت، سچ کی اپنی
نظریاتی حقیقت
برتری میں وسیع
طاقت اور اثر رکھتے ہوئے
غالب و فاتح رہے گی
خداوند میں خُدا نے مان لینا ہے
ہماری اس دعا کا لفظ لفظ
سب (مل کر ایک آواز): آمین
کورس میں: اے خُداوند ہم پر رحم کر
رحم کی ہے التجا
مقدس خُداوند یسوع مسیح کے مجسّمے والی پاک صلیب کے سامنے روشنی جگمگ جگمگ کرتی ہے۔