:سُوال نمبر54
۔میری فہم کے مُطابِق مسیحی مذہب میں بھی خُودکُشی گُناہِ کبیرہ ہی قرار دیا گیا ہے۔ خُود کُشی کے مُرتکب شخص کی تجہیز و تکفین بھی مسیحی رواج، دُعا اور رسُوم کے تحت ادا نہیں کی جاتیں، صاف انکار کر دیا جاتا ہے یا تھا۔ اور یوں متوفّی کو مسیحی قبرستان سے باہر ہی کہِیں دبا دیا جاتا ہے یا دبا دیا جاتا تھا۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ کیسے ہُوا کہ ایک جرمن چانسلر کی زوجہ ہَنّے لورل کول نے اِس کے باوُجُود کہ خُود کُشی کی تھی، پِھر بھی مسیحی تجہیز و تکفین کی حقدار ٹھہریں ؟
جواب:۔سی آئی سی۔۔۔۔۔۔ لا بُک آف دی کیتھولک چرچ جو 1917ع سے 1983ع تک کے حالات و ضوابط کے لحاظ سے دُرُست تھی، اِس کے مُطابِق خُودکُشی کرنے والوں کو مسیحی تدفین سے محروم رکّھا جاتا تھا۔ ایسے لوگوں کو دِین اور پُوری قوم کے گُنہگاروں میں شُمار کِیا جاتا تھا، اُن کے لیے ''پبلک سِنرز'' کی اصطلاح عام تھی۔
جب کیتھولک کلیسیا کے قوانین کی نئی کتاب: سی آئی سی 1983ع (کینن1184)، کہ پہلی کتاب کے قواعد کو جدید یعنی تازہ ترین شکل دی گئی تھی، اُس میں،چھپ کر سامنے آئی تو معلُوم ہُوا کہ اِس قبیل کے لوگوں (خُود کُشی کرنے والوں) کی تدفین کے باب میں میرٹ پر پرکھنے کے لیے ایک کسوٹی قائم کر دی گئی جو لازمی انفرادی تشخیص پر مبنی تھی۔ یہ فیصلہ کرنے کے لیے آیا متوفّی کی آخری رسُومات مسیحی طرز پر ادا ہوں گی یا یہ فرض کر لیا جائے کہ اگر ایسا کِیا گیا تو عامۃُ النّاس میں، ایک طرح کی بے کلی، تردُّد اور بے چینی پھیل جائے گی، اس کے لیے ضروری قرار دیا گیا کہ یوں مرنے والے یا مرنے والی کے معلُوم ذاتی حالات سے جانکاری حاصل کی جائے اور متعلقہ پیرش کے ارکان سے بھی معلُوم کِیا جائے کہ اُن کی دِینی، مُعاشرتی و اخلاقی ضمن میں متوفّی کے بارے میں کیا آرا ہیں۔ آخری فیصلہ کے لیے ان سے بھی مشورہ کِیا جائے۔ اگر مسیحی تدفین پر اِتّفاق ہو تو مقامی پیرش آخری رسُومات کی عبادت و خدمت برادرانہ مَحَبّت اور احترام کے ساتھ سرانجام دے گی۔ مذہبی حدُود و قیود و صُورتِ حالات کہ جس کا سامنا ہے اس کے پیشِ نظر پیرش بل کہ بہتر ہو گا کہ مقامی بشپ صاحبان اور پیرش پریسٹ سب مِل کر فیصلہ کریں کیوں کہ اِس بارے بعض اختیارات کلیسیا کی طرف سے اُنھیں حاصل ہیں۔
خُودکُشی کے ذیل میں اب ہم کلیسیا کی جس فکر و تشویش کا حوالہ دینے چلے ہیں وہی پس منظر بنتا ہے نئے اُصُول و قواعد کا جو اِس مسئلہ کا احاطہ کرتے ہیں۔ ایسی خُودکُشی جو دیدہ و دانستہ کی گئی ہو اور جس میں عقل پر اِرادے کو فوقیت حاصل ہو بھلے اس کی وَجہء تحریک ایسی ہو جس کے پیچھے اعلیٰ سُوچ ہی کیوں نہ کارفرما ہو، اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ اسے حق بجانب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آمادگی و آزاری، خُود تشخیصی خُودکُشی، کہ بِلا جبر و اکراہ اور خُود غور و خوض کے بعد فیصلہ کِیا گیا ہو اور اپنے اختیار آزادی کی شہادت فراہم کرنا، خُود مختاری کو ثابت کرنا مقصُود ہو تو اسے اپنی نوع کے اعتبار سے سیدھے سیدھے انسان کے لیے خُدا کے اثباتِ جلی کی۔۔۔۔۔۔ الٰہی ہاں کی، اور انسان کی اشرف المخلوقاتی کی صریح نفی ہے، سراسرانکار ہے، کُفر ہے۔ یہ اپنے آپ کو اپنے پیار سے محروم کر دینا ہے۔ زِندگی کی تمنّا اور قُدرت کی نعمتوں سے مُنہ موڑ لینے والی حرکت ہے۔ خُودکُشی کرنے کا سُوچ، فیصلہ اور عمل فی الحقیقت اُن فرائض اور ذِمّہ داریوں سے فرار حاصل کرنا ہے جو انسان پر لاگو ہیں، واجب ہیں۔ یہ اپنے آپ سے، دُوسروں سے، عزیزوں، دوستوں، مَحَبّت کرنے والوں، ہمسایوں سے بے انصافی ہے، انصاف کا قتل ہے، انسانیت کی توہین ہے۔
زِندگی ایک بار مِلتی ہے۔ یہ رضاکارانہ خُودکُشی کوئی قابلِ تعریف بات ہرگز نہیں۔ نہ ہی کوئی ایسی بات ہے کہ اس پر اِترایا جائے۔ آپ اِس پر فتح نہیں حاصل کرتے، ہار مان لیتے ہیں۔ خُود مر کے اپنے گھر والوں کو، عزیزو اقربا کو اور دوستوں، چاہنے والوں کو زندہ درگور کر جاتے ہیں، آپ کا ذِکر بھی طعنہ بنا دیتی ہے دُنیا۔ اِسی لیے مسیحیّت مذہب کے مدار پر قائم زِندگی کے مقابلے میں خُودکُشی سے موت کو ہیچ سمجھتی ہے اور خُودکُشی کو قابلِ مذمّت و نفرین قرار دیتی ہے۔ ہمارا مذہب ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری زِندگی میں یہ نہیں تو دیگر، کیسے بھی حالات ہوں خُدا کا قُرب ہمیں باربار نصیب ہو سکتا ہے، خُدا سے مایُوس نہیں ہونا چاہیے۔ بھلے بعض حالات اور دُشواریاں ہمیں کبھی اکیلا کر دیتی ہوں، ہم اکیلے نہیں ہوتے، وُہ ہمارے ساتھ ہے، ذرا رجُوع تو کرو خُدا کی طرف، اُس سے دُور نہ ہو۔ وُہ پِھر تمھیں پا لیتا ہے۔ تم، ہی ہو جو بھُول جاتے ہو کہ وُہ سب کُچھ کر سکتا ہے۔ اُس نے عِزّت دی ہے تو بھرم بھی وہی رکھے گا، مُشکلات دی ہیں تو آسانیاں بھی وہی بخشے گا، اگر ناکامیاں، نامُرادیاں، پریشانیاں ہماری راہ کے کانٹے ہیں تو گُل و گُلزار بنانے والا بھی تو وہی ہے۔ وُہ ہے نا! ہم مایُوس کیوں ہوں۔ دُنیا کی، دُنیا والوں کی بے وفائیوں، بے اعتنائیوں، بے مروّتیوں اور ناقدریوں نے اگر یلغار کر دی ہے تو ہم ان کے سامنے ڈٹ کر تو دیکھیں، اُس مہربان خُدا کے ہم سے بے حد و حساب مَحَبّت کرنے والے عظیم خُدا کے لشکر کیسے ہو سکتا ہے کہ ہماری مدد کو نہ آئیں اور ہماری خُوشحالیاں پِھر بحال نہ کر دیں! اُمِّید پر دُنیا قائم ہے۔ مایُوسی گُناہ ہے۔ خُداوندِ پاک یسُّوع مسیح پر بھروسا بجا ہے۔
فلسفیانہ بحث و نکتہ سنجی کو اگر مارجن دیا جائے تو ہم پر واضح ہو گا کہ شخصی آزادی، اور اپنے ہاتھوں، اپنی رضا سے، اپنی موت کو گلے لگانے کے فعل کے لیے صحیح یا حق بجانب ہونے کا جواز یا جو معقُولیت خُودکُشی کرنے والے کے پیشِ نظر ہوتی ہے، وُہ شُعُوری اظہار ہے اس آزادانہ اور رضاکارانہ طور موت کی گود میں بے باکانہ جھُول جانے کا۔ ایسے کِسی دِینی مُشکل مسئلہ پر غور کرتے ہُوئے اس کے نتائج کی روشنی جب اِس انوکھے جان لیوا کھیل کے عوامل و عواقب پر ڈالی جاتی ہے تو جو بات چمک کے سامنے آتی ہے وُہ ہوتی ہے کہ بُنیادی طور پر اِس فعلِ قبیح کے مُمکنات کو یکسر رد بھی نہیں کِیا جا سکتا۔ آغازِ مسیحیّت کے مہ و سال میں دِینی پاسبانوں کی اپنی حقیقت نظری کے مُطابِق اُن مسیحیوں کو کہ جنھوں نے قُدرتی موت پر خُودکُشی کو ترجیح دی جنازہ، تجہیز و تکفین وغیرہ کے لیے ٹکا سا جواب دے دیا جاتا تھا۔ اِس قماش کے گُنہگاروں کے گورستان ہی جُدا ہو گئے۔ یہ انکارو وَجہء انکار کیتھولک کلیسیا کے قوانین کی نئی کتاب میں جگہ نہیں پاسکے۔ اِس لیے کہ یہ ثابت کرنا بڑا مُشکل بل کہ نامُمکن ہے کہ خُودکُشی کے عمل میں ایسی موت اِختیار کرنے والے نے کب کِیا، یا کِیا بھی کہ نہیں، یہ اعلان جس میں اس نے اپنی ذات کی نفی کی ہو اور خُدا جلال والے کی ہستی کا انکار کِیا ہو! وہ ہستی جو تھی، ہے اور رہے گی۔ اور یہ بھی کہ کلیسیا خُودکُشی کے پاپ کی مذمّت کرتی ہے، اس کی نہیں جس سے خُودکُشی کا ارتکاب ہُوا ہو۔ کیوں کہ یہ تصدیق نہیں کی جا سکتی کہ جب اُس سے یہ خُودکُشی والا فعل سرزد ہُوا تو اُس کی دماغی کیفیت کیا تھی، ذِہنی طور پر وُہ نارمل تھا یا نہیں۔ اپنی مرضی سے اُس نے خُودکُشی کی یا اُسے خُودکُشی پر مجبور کِیا گیا۔ اِسی طرح کی اور بھی کافی اڑچنیں ہیں جن کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے۔
اِس ساری صُورتِ حالات کو ذِہن میں رکھتے ہُوئے اقدامِ خُودکُشی کے بارے میں جو حالیہ تحقیق سامنے آئی ہے، اس کے نتائج کلیسیا نے بہ صد فراخدلی قُبُول کر لیے ہیں۔ اِس جدید تحقیق سے مشاہداتی و تجرباتی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ خُودکُشی ذِہنی بالیدگی کے دوران اس کے ارتقائی دور کی بس آخری سٹیج ہوتی ہے اور وُہ بڑی مضبوطی سے جُڑی ہوتی ہے اُس شخص کے ذِہنی کنٹرول کی روک، اس کی پابندی کے ساتھ۔ بس وہیں رُک کر اُس نے فقط ایک ہی نُقطے پر آ کر رُک جانا ہوتا ہے۔کِسی بھی مسئلہ کے ایک سے زیادہ حل ہوتے ہیں، مگر اُس شخص کو فقط ایک ہی حل سُجھائی دیتا ہے، خُودکُشی۔ یہ جو آخری سٹیج ہے وُہ کیا ہوتی ہے؟ یہ زِندگی کے بے بس کر دینے والے شدید بُحران کا اِظہار ہے یا پِھر نچلے درجے کی خُودپسندی۔ اَکَل کھرا پن۔ اپنے سِوا اور کوئی نظر ہی نہیں آتا۔ بہُت سے لوگ جو آتما ہتّیا کر لیتے ہیں، یہ عمل لگتا ضرُور ہے مگر ان کا اختیارانہ عمل ہوتا نہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو غیر معمُولی صُورتِ حالات کے جالے میں اُلجھا پاتے ہیں کہ جس میں اُن کا ہر سُوچ، ہر حرکت، ہرتدبیر اُنھیں خُودکُشی کی طرف ہانک لے جاتا ہے کیوں کہ ہر سُوچ ہر سُوچ نہیں ہوتا، ایک ہی سوچ ہوتا ہے، ہر حرکت در اصل ایک ہی حرکت ہوتی ہے اور ہر تدبیر اصل میں ایک ہی تدبیر ہوتی ہے۔ خُودکُشی، خُودکُشی، خُودکُشی۔ اِسی کارن، جو کوئی بھی اپنی جان پر کھیل جاتا ہے یا اقدامِ خُودکُشی کرتا ہے، اگر عِلّت سے معلُول کا پتا چلایا جائے تو اپنے اس عمل کی ساری کی ساری ذمّہ داری اکیلے اُسی پر ثابت نہیں ہوتی۔
مزید تفصیل کے لیے مُلاحظہ فرمائیے ''بالغوں کے لیے مسیحی تعلیم کی کتاب''، جِلد دُوُم، Leben aus dem Glauben، فرائی بورگ،1995ع، صفحہ282 تا 284۔