:سوال نمبر121
۔کیتھیڈرل سینٹ پیٹر کی تعمیر خیرات وعطیات سے مُکمَّل ہوئی تھی۔ کیا اب بھی مسیحیوں کے گناہ عطیات و خیرات کی بنیاد پر (بدلے میں)معاف کرنے کا رواج جاری ہے؟
جواب:۔دونوں سوالوں کا جواب حاضر ہے:
دونوں سوال سنگین غلط فہمی کا شاخسانہ ہیں۔ گناہ اور پاداش میں بنیادی فرق جو کلیسیا قائم رکھتی ہے اُسے درخورِ اعتنا سمجھا ہی نہیں گیا۔
مختصراً ہم آپ کو بتا دیں کہ کلیسیا کے اصول و قواعد کن کن بنیادی عناصر کا احاطہ کرتے ہیں۔ وہ ہیں۔۔۔۔۔۔(1) گناہ، (2) وہ عمل جس میں توبہ، اعترافِ گناہ، عقوبتِ نفس کی مختلف سزائیںہیں، (3)اور مصالحت، گناہوں کا کفارہ، تطہیرِ نفسی۔
کیتھولک کلیسیا کی مسیحی تعلیم کی کتاب میں اس موضوع کالُبِّ لباب پیش کِیا گیا ہے۔ اگر اس مضمون کی تفصیل دیکھنا ہو تو:۔۔۔۔۔۔www.vatican.vaپر دی جا چکی ہے۔
آپ کی سہولت کے لیے چند اقتباسات مندرجہ ذیل ہیں:
1485۔۔۔۔۔۔۔ اور اس روز ہفتہ کے پہلے دن شام کے وقت جب اس جگہ کے دروازے جہاں شاگرد جمع ہوئے تھے، یہودیوں کے خوف سے بند تھے۔ یسوع آ کر بیچ میں کھڑا ہو گیا اور اُن سے کہا: تمھیں سلامتی حاصل ہو۔۔۔۔۔۔
مقدس یوحنّا۔۔۔۔۔۔19:20
۔۔۔۔۔۔اُس نے یہ کہہ کر اُن پر پھُونکا اور کہا: تم روح القدس لو۔ جن کے گناہ تم معاف کرو، ان کے معاف کیے گئے ہیں۔ جن کے گناہ تم قائم رکھو، اُن کے قائم رکھے گئے ہیں۔
مقدس یوحنّا۔۔۔۔۔۔22:20اور23
1486۔۔۔۔۔۔ بپتسمہ لینے کے بعد سرزد ہونے والے گناہوں پر معافی ایک مخصوص ساکرامنٹ دینے کے بعد دی جاتی ہے۔ اس مقدس ساکرامنٹ کے مختلف نام ہیں۔۔۔۔۔۔ دِینِ مسیحی میں داخل ہونے کا ساکرامنٹ، اعترافِ گناہ کا ساکرامنٹ، اعتراف کے بعد گناہوں کے کفارہ کا ساکرامنٹ یا فدیہ کے بعد مخلصی و مصالحت کا پاک ساکرامنٹ۔
1487۔۔۔۔۔۔وہ جو انسان کو خُدا کا بیٹاہونے کا تمام مخلوقات میں ارفع ترین مقام عطا کِیا گیا ہے، اس کے گناہوں میں ملوث ہوتے ہی وہ رتبہء عالی، وہ توقیر انسانیت ہی فقط مجروح نہیں ہوتی، عظمتِ خُداوندی اور محبتِ ربی پر بھی حرف آتا ہے، حتّٰی کہ مقدس کلیسیا کی روحانی رفعتیں بھی لہو لہو ہو جاتی ہیں۔ چہ جاے کہ چرچ کی اینٹ اینٹ کو ایک ایک مسیحی بتایا گیاہے!! یہ ہے شانِ مومن جسے گناہوں سے دوری دوام بخشتی ہے۔
1488۔۔۔۔۔۔مذہب کی نگاہوں میں کوئی بھی برائی کراہت و قباحت میں جرمِ گناہ سے بڑھ کر کریہہ و قبیح نہیں۔ گناہوں کا انجام جتنا تباہ کن گنہگار کے خود اپنے لیے اور اس کی وجہ سے کلیسیا کے لیے بل کہ کُل عالمِ انسانیت کے لیے ہے، اس کی برابری کوئی بربادی، کوئی تباہی نہیں کر سکتی۔
1489۔۔۔۔۔۔اجزاے پاک۔۔۔۔۔۔ پاک روٹی، پاک مَے میں شراکت۔۔۔۔۔۔ مقدس عشاے ربانی کی سعادت، برکت اور فضل بعد از ارتکابِ گناہ کھو چکنے پر واپسی کا عمل محض خُداے مہربان و عظیم کی بخشی ہوئی خاص توفیق اور اس کی محبت و حمایت کا تحفہء خاص ہے جو انسانوں کے لیے عام او رمسیحیوں کے لیے خاص ہے کیوں کہ کُل عالم کا رب بہت رحم کرنے والا اور بھٹکی ہوئی بھیڑوں پر ترس کھانے والا ہے۔ وہ پروردگارِ حقیقی واقعی بہت ہی بخشنہار ہے۔ اس کے اس بے بہا فضل و کرم سے خود کو بھی متمتع کرنا چاہیے اور دوسروں کے بھی متمتع ہونے کی تمنّا اور دعا کرنی چاہیے۔
1490۔۔۔۔۔۔خداوند تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ جو واپسی کی تحریک پیدا ہوتی ہے جو گنہگاری سے پارسائی میں روحانی تبدیلی کے سبب سے (مسیحیت قبول کرنے کے لیے تبدیلیِ مذہب بھی اسی زمرہ میں آتی ہے) اور پچھتاوے اور توبہ کی طرف رجحان بن جانے کی وجہ سے شدت اختیار کرتی چلی جاتی ہے وہ مشروط ہوتی ہے گناہ کرکے بعد میں پچھتاوا، رنج اور افسوس و ندامت محسوس کرنے، دِل میں گناہ سے شدید نفرت کا اُبال پیدا ہونے کے ساتھ۔ لیکن ''سو گلّاں دی اِکّوئی گل'' یہ کہ خُدا کی طرف واپسی تبھی مقبول و ممکن ہے جب پختہ ارادہ ہو کہ اب گناہوں کی طرف واپسی کبھی نہ ہو گی، وہ صورت ہر گز نہیں کہ
جامِ مے توبہ شکن ، توبہ میری جام شکن
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
آیندہ کے لیے کانوں کو ہاتھ!! زمانہء حال میں ہونے والی ماہیتِ قلب ہو، باطن کی تبدیلی ہو یا مذہب کی، اس کا تعلُقِ خاص ماضی اور مستقبل سے ہی بنتا ہے اور اسے تقویت خُدا کریم کے رحم اور اس کی رحمت سے ملتی ہے۔ اور اس سے بندھی آس کبھی نراس نہیں ہوتی۔
1491۔۔۔۔۔۔گناہ کی معافی کے لیے رومن کیتھولک مسیحی مذہب کا عشاے ربانی، توبہ یا اعتراف کا ساکرامنٹ اپنی اصلاح کے عزم کے ساتھ اپنے گناہوں پر اظہارِ رنج و افسوس کرنے والے کی نیت اور ارادے پر منحصر ہے اور مشروط ہے کاہن کی طرف سے گناہوں کی معافی کے اعلان کے ساتھ۔
تائب و نادم ہونے کے بظاہر تین اعمال ہیں۔۔۔۔۔۔ گناہوں سے سچی توبہ اور آیندہ ان کا ارتکاب نہ کرنے کا وعدہ۔۔۔۔۔۔ گناہوں کا اقرار یعنی محترم کاہن کو گناہ کر بیٹھنے کی پوری جانکاری دینا۔۔۔۔۔۔ تلافی یعنی گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کا حوصلہ و نیت اور شراکت براے تلافی۔
1494۔۔۔۔۔۔اعتراف سُننے والا ریورنڈ فادر بعض ایسے اعمال کی پابندی تجویز کرتا ہے جن سے نادم ہو کر تائب ہونے والے کی تسلّی و تشفّی ہو سکے اور اسے گناہوں کے بوجھ سے ہلکا ہوتے چلے جانا محسوس ہونے لگے، یا بطور کفارہ عقوبتِ نفس کی بھی سفارش کر سکتا ہے اور بطور کفارہ ریاضت کا بھی کہہ سکتا ہے۔ یوں گناہ سے پہنچنے والے ہر طرح کے نقصان کا بھی اُپائے ہو جائے گا اور وہ صفات جو کبھی عادت بن گئی تھیں اب دوبارہ عود کر آئیں گی جو مقدس خُداوند یسوع المسیح کے شاگردوں کے شایانِ شان ہوتی ہیں۔
1496۔۔۔۔۔۔اعتراف و توبہ کے ساکرامنٹ کے باطنی اثرات مندرجہ ذیل ہیں:
۔۔۔۔۔۔خدا رب الافواج سے پرانا تعلُّق رشتہ، وابستگی پھر سے قائم کرنے پر خلوصِ نیت سے آمادگی جس سے توبہ کرنے والے اور گناہ کا کفارہ، فدیہ ادا کرنے والے کوکامل امید ہو کہ اس کے منفعل ہونے پر اسے ربی فضل کی نعمت پھر نصیب ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔کلیسیا سے مصالحت
۔۔۔۔۔۔ جس سزا کے لیے انتہائی سنگین کفارہ جواز بنے اُس پر ملنے والی دائمی سزا، اور عذاب میں چھُوٹ۔
۔۔۔۔۔۔گناہوں کے سبب عقبیٰ میں جو ہو گا سو ہو گا، دنیا میں ملنے والی سزا میں معافی یا کم از کم تخفیف (رعایت)
۔۔۔۔۔۔ضمیر کا اطمینان و راحت، امن و سکون اور روحانی تسلّی و چین آرام
۔۔۔۔۔۔ مسیحی نبرد آزمائی، مجادلوں مقابلوں کے لیے تقویتِ روحانی
گناہوں کی معافی کے لیے عشاے ربانی کے ساتھ مستقل جُڑی ہوئی کلیسیائی اصولوں اور قواعد کی دینی تعلیم ہے اور اس سے نتھی غفران ہے یعنی کیتھولک چرچ میں گناہوں سے توبہ کے بعد دنیاوی سزا سے معافی یا جزوی معافی۔ بالغوں کے لیے مسیحی تعلیم کی کتاب کے 1985عیسوی کے ایڈیشن جرمن بشپس کانفرنس، میں اس کی تشریح کر دی گئی ہے۔
اسی طرح کی معافی گنہگار کا حق نہیں، یہ تو خُداوند پاک یسوع مسیح کا لطف و کرم ہے جس سے وہ اپنے مسیحیوں کو سرفراز کرتا ہے اور کچھ معاملہ اسی طرح کا بھی ہے کہ
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر کو گنہگار ہوں ، کافر نہیں ہوں میں
کفر سے باز رہنے والے اپنے ماننے والوں، اپنے چاہنے والوں کو پاک خُداوند بے یارو مددگار، بے کس و بے بس بھی تو نہیں نا چھوڑسکتا۔ دعا یا عمل سے معافی پانا کیا ہے؟ یہ در اصل ایسے گناہوں کی جزا کے لیے سزا ہے جو دنیوی حیثیت سے محدود وقت یاعارضی طور پر دی جاتی ہے اس گناہ پر یعنی قانون و شرع کی خلاف ورزی، اخلاقی اقدار کے منافی غلطی کے ارتکاب پر حقیقی یا خیالی ذاتی ذمہ داری کے خیال سے ندامت یا گناہ کا احساس بھی عاصی کوہو تو ایسی قصورواری، ایسی تقصیرِ انسانی معاف بھی ہو سکتی ہے۔ چناں چہ پریسٹ صاحبان معافی کا اعلان کر دیتے ہیں کیوں کہ اُنھیں اندازہ ہو چکا ہوتا ہے کہ مرتکبِ خطا میں اصلاح کی طرف ذاتی طور پر روحانی تبدیلی آ چکی ہے۔ ان کا تجربہ اورمشاہدہ بتاتا ہے کہ واقعی وہ بے حد پشیمان ہے۔ اور وہ گھناؤنے گناہ پر ملولِ خاطر ہے اور بہت افسردگی کے تحت عقوبتِ نفس کی ساکرامنٹ کا طلبگار ہے۔ غفرانِ کُل یعنی کامل معافی کی صورت میں پاک شراکت بھی اسے دی جا سکتی ہے۔اور وہ لوگ جو ایسے اعمال سے نصرت حاصل کرتے ہیں، جیسے۔۔۔۔۔۔ دعا و ریاضت، زائر کلیسیا کی زواری، توکلیسیا کی طرف سے اس اختیارِ مفوضہ پر کہ روحانی یا مقدس فدیہ جو خُداوند یسوع پاک، کنواری مقدسہ مریم اور مقدسین کے لامحدود استحقاق کے نام سے اس فنڈ میں جمع کروا دیا گیا ہو تو رومن کیتھولک کلیسیا مستوجبِ سزا کو معافی دلانے کے لیے تصرف کرنے کی مجاز ہے، اس کے تحت تائب کو غفران سے ہمکنار کر دیا جاتا ہے۔
جو اب تک یہ ہم درج بالا سطور میں اپنا مافیہا بیان کرنے کی کوشش کر چکے ہیں، پوری طرح آپ کے فہم کے در پر دستک دینے میں ناکام رہا ہو تو آپ کی دلجمعی کے لیے ہم عرض کردیں کہ یہ جو چرچ ڈاکٹرین ہے اور جو پریکٹس ہے انڈلجینس کی آج کے زمانے میں، آج کے حالات کے پیشِ نظر ویسے بھی سمجھ جانا، ان کا ادراک کر لینا، قطعاً بھی آسان نہیں رہا۔ مسیحی عقیدہ و مذہبی اصولوں کی اساس کے بارے میں پوری طرح جاننے کے لیے ضروری ہے اس کے حقیقی پس منظر سے پہلے اچھی طرح واقف ہوا جائے اور اس کی تاریخی روٹس (جڑوں) کے حوالے سے تحقیق شدہ سیاق و سباق سے بھی پوری پوری شناسائی ہو، تب بات بنے گی۔
موٹی موٹی سی بات یہ ہے، کلیسیا کے ایامِ آغاز سے ہی یہ جو گناہِ بے لذت ہوتا ہے یا گناہِ لطف زا، جو بھی ہو، ہوتا تو گناہ ہی ہے نا، اس کا سرزد ہونا، پھر اس پر ندامت محسوس کرنا، کیتھولک گرجا گھر میں آکر اسے آشکار کرنا،ا عتراف کرنا، توبہ کرنا، آیندہ کبھی کِسی بھی گناہ میں ملوث نہ ہونے کا پختہ ارادہ کرنا اور پھر اس توبۃ النصوح کے پیشِ نظر کلیسیائی اصولوں کے تحت معافی پانا، یا سزا میں رعایت حاصل کرنا جسے جزوی معافی کہتے ہیں، یہ سب کچھ کِسی نہ کِسی شکل میں موجود رہا ہے۔ جس طرف سوال میں اشارہ ہے اس پر ہم کہہ سکتے ہیں، البتہ پبلک سیل(Public Sale) میں توبہ تلافی سولھویں صدی میں عام ہوئی کیوں کہ وہ اوورآل بڑا کڑکی کا زمانہ تھا اور فنڈز کی بہت ضرورت تھی۔ آپ نے بس اعتراض کے شوق میں بات پکڑ لی، ورنہ غیر مقلدین جو کلیسیا کے مروجہ اصولوں سے انحراف کرتے تھے، انگلستان کے پروٹسٹنٹس منحرفین نے تو مذہبی سے زیادہ اس معاشی مہم کے ذاتی ایثار کو ترجیح دینے کے نام پر تضحیک شروع کر دی او رپھر1672عیسوی میں ہی اس نیک نیتی پر مبنی مہم نے کمزور پڑنا شروع کر دیا۔ اُس معافی تلافی اصول کے چند انفرادی پہلو بھی سامنے آئے جن کی الف لیلیٰ خاصی طویل ہے۔ ابتدائی کلیسیا کی پہلی چار صدیوں میں مسیحیت سے وفادار مومنوں کی التجا تھی جس نے مرکزی کردار ادا کِیا کیوں کہ ان مسیحیوں نے مدتوں ظلم و ایذارسانیوں اور مصیبت و ابتلا کے دُکھ سہے تھے۔چوں کہ قدیمی کلیسیا میں دنیاوی سزا کا غُفران کلیسیا کی طرف سے مقررہ سزا پر ہی جاری ہوتا تھا، اس لیے ایک طویل مدت سو سے پانچ سو دن تک کا عقوبتِ نفسی کا حکم فادر صاحب دے سکتے تھے کیوں کہ انھیں اس کا اختیار حاصل تھا اور یہ معافی تلافی جس شکل میں آج نظر آتی ہے اس کی ابتدا گیارھویں صدی میں ہو چکی تھی۔ قرونِ وسطیٰ کا شروع شروع کا جو زمانہ ہے اُس میں گناہ سے توبہ کے بعد دنیاوی سزا سے معافی، غفرانِ کُل یا جزوی غفران اکثر ان اعمال کو دیکھ کر ملتا تھا: پرہیزگاری و پارسائی کے اعمال مثلاً صلیبی جنگوں میں دامے، درہمے، قدمے ، سخنے شمولیت، متبرک مقامات کی یاترا، مخصوص دعائیں، ریاضتیں۔۔۔۔۔۔ نیک افعال۔۔۔۔۔۔ انھی میں بخرئہ خورد کی پوری معافی، جوبلی کے سال میں عام معافی، سالِ غفران (سالِ جشن) پر ہر 2نومبر کو یومِ کُل ارواح پرکیتھولک چرچ میں ایماندار مرحومین کی یاد میں منائے جانے والے دن پر معافی شامل ہے۔
کلیسیا کی طرف سے دنیا میں لاگو کی جانے والی سزا پر گنہگار کو اس میں تخفیف یا کلیۃً معافی کی رعایتِ خاص کے ڈانڈے کلیسیائی ضروریات پوری کرنے والی مالی امداد سے ملائے جاتے رہے ہیں۔ اسے گناہ بخشوانے کا ایک طرح سے فدیہ سمجھا جاتا تھا جو عام اعانت و عطیات سے ہٹ کر تھا۔ اور قرونِ وسطیٰ میں تو اس کے خلاف بہت ہی ضرررساں قسم کی شکایات پیدا ہونے لگیں جن کی وجہ سے سولھویں صدی کی تحریکِ اصلاحِ کلیسیا کا آغاز کرنے میں اسے مہمیز لگ گئی۔ کلیسیا کا وقار بچانے کے لیے 1545عیسوی تا1563عیسوی کے دور میں کونسل آف ٹرینٹ کے ذریعے دنیاوی سزا پر معافی یا رعایت کی اس شرع میں بنیادی تبدیلیاں کرتے ہوئے اس قانونِ عفو و درگذر میں ضروری اصلاح کر کے جملہ اعتراضات و شکایات کا ازالہ کر دیا گیا۔ اس رعایت کو ختم نہ کِیا گیا کیوں کہ کونسل سمجھتی تھی کہ گناہوں سے توبہ تلافی اور معافی کا یہ طریق تو مسیحیوں کے لیے کِسی نعمت سے کم نہیں۔ا س سے مسیحیوں پر گناہوں سے نفرت اور ان کی اپنی ذاتی اصلاح کے دروازے کھلتے ہیں۔ چناں چہ کونسل نے اس انسٹیٹیوشن کی افادیت سے انکار کرنے والوں کی بہت حوصلہ شکنی کی اور ان کی بھی مذمت کی جو لوگ کلیسیا کو اس کے اس حقِّ معافی سے محروم کیے جانے پر تُلے ہوئے تھے۔ اُنھیں در اصل اُس سپرٹ کا ادراک نہیں تھا جو اِس حق کے استعمال کے پیچھے کام کر رہی تھی۔ اس لیے عاصیوں کے لیے اعتراف، توبہ، معافی و رعایت کی مسیحی کارروائی جاری رکھی گئی۔ جس نے گناہوں کو راز رکھا، ان پر اتراتا رہا، سمجھو گوڈے گوڈے گناہوں میں دھنس گیا۔ جو نادم ہوا، شرمندہ اور متاسّف ہو کر گرجا گھر آگیا، توبہ تائب ہوا، انڈلجینس اس پر واجب ہو گئی، وہ یوں واپس گیا جیسے آج ہی پیدا ہوا، نیکیوں اور اصلاح کی نئی زندگی اسے مبارک! علاوہ ازیں، چرچ کو بھی چاہیے ہتھ ہولا رکھے۔ کونسل آف ٹرینٹ بجا طو رپر توقع رکھتی ہے کہ کلیسیا کی طرف سے غفران کے سمے اعتدال کی راہ اپنائی جائے گی۔اس کا اپنا طویل تر دورانیے کا ایک ریکارڈ ہے، قبول کی گئی روایات کی رُو سے غفران کے سمے اعتدال کی راہ اپنائی جائے۔ مگر کلیسیا مالی فوائد حاصل کرنے کی ہر کوشش ترک کردے کیوں کہ ناسمجھوں نے اب بدنامی کے تیر برسانے شروع کر دیے ہیں اور ان کے ترکش بعض اپنوں نے بھی تھام رکھے ہیں۔ یہ جو ڈاکٹرین آف انڈلجینس ہے یہ ایک طرح کی مصالحت ہے، سمجھوتا ہے۔ بندے کا گناہ کے ارتکاب کے بعد کا پچھتاوا اور اس میں جھلکتا اخلاص دیکھ کر اسے کیے کی تھوڑی بہت سزا یا اس کے سچے دل سے توبہ تائب ہونے کی اس کی نیت سے مطمئن ہو کر معافی بھی دی جا سکتی ہے، مُکمَّل یا جزوی غفران۔ در اصل یہ عمل موجودہ زمانے کے این آر او کے نزدیک کی کوئی شے ہے۔ جس میں اعتراف، آیندہ را احتیاط کا وعدہ، کچھ نہ کچھ وصولی، سزا یا رعایت اور پھر ForgiveاورForgetوالا معاملہ طے پا جاتا ہے۔ دوسروں کو بھی کان ہو گئے اور بندے کی بھی اصلاح عمل میں آگئی۔ یہ ڈاکٹرین سو فی صد ''گُڈ''بھی نہیں ہے اور سو فی صد ''بیڈ'' بھی نہیں۔ اسی لیے اس عقیدے کی بہت دھیان کے ساتھ، اچھی طرح، چھان پھٹک کی گئی اور اسے عصری مذہبی تقاضوں کے عین مطابق ڈھالا گیا اور پھر 1967عیسوی کے سال تقدس مآب جناب پوپ پال ششم کے رسولی دستور (آئین) میں کھلے اعلان کے ذریعے تجدید کی حامل اس ڈاکٹرین کو لوگوں کے علم میں لایا گیا۔ معافی کے اس مبارک عمل میں پھر سے نئی روح پھونک دی گئی۔ معافی بعد خطا کا جو عقیدہ ہے اس کی بہتر اور گہری سُوجھ بُوجھ کے لیے پہلے اتنا سمجھ لینا بہت ضروری ہے ، چوں کہ یہ گناہوں سے معافی کے لیے بنیادی کردار ادا کرتا ہے اس لیے اس عقیدے اور اس کے اصولوں کو جاننے سے پہلے، یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ گناہ کے دو طرح کے نتائج ہوتے ہیں جن کا گنہگار، خطاکار کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پہلا نتیجہ اور اس کا خمیازہ یہ ہے کہ بندے کا اپنے خُدا کے ساتھ جو تعلق واسطہ ہے وہ بھی خُدا ہی کا خاص عطیہ ہے جو گناہ سرزد ہوتے ہی واپس لے لیا جاتا ہے۔ خُدا کی رفاقت سے عاصی بندہ محروم کر دیا جاتا ہے۔اِس کا مطلب سیدھا سیدھا یہی ہے بندے سے اس کی حیاتِ ابدی چِھن گئی۔ گناہ کا اگلا وار خُدا اور انسان کے درمیان محبت بھرا جوشیریں رشتہ قائم چلا آرہا ہوتا ہے وہ اسے کاٹ کے اس میں زہر بھر دیتا ہے اور جب اس پر بھی اس کا جی نہیں بھرتا تو گناہ اس زندگی کو گھائل کر دیتا ہے جو بڑے امن پریم اور خوشحالی کی زندگی تھی جو انسان اپنی انسانی برادری میں ہنستے گاتے بسر کررہا تھا یعنی وہی بات ہو گئی کہ
نہ خُدا ہی ملا ، نہ وصالِ صنم
نہ ادھر کے رہے ، نہ ادھر کے رہے
یہ اُخروی اور دنیاوی عقوبتیں خارج سے، خُدا کی ہدایت یا فرمان بموجب نہیں بل کہ داخلی سطح پر گناہ کی طینت کے عین مطابق ہیں۔ گناہوں کی معافی اور بارگاہِ خُداوندی سے رفاقت کی بحالی عطیہء مشروط ہے گناہ کی ابدی عقوبت میں چھُوٹ یا کمی بیشی کے ساتھ۔ لیکن وہ جو عارضی دنیوی عقوبت ہے وہ تو قائم ہے اور وہ بھگتنا پڑے گی۔ دُکھ، درد، آلام، مصیبتیں اگر صبر شکر کے ساتھ سہہ لیں، بندہ ہر طرح کی آزمایشوں امتحانوں میں سُرخُرُو رہے تو وہ دِن بھی آجاتا ہے جب انسان چاہتا ہے کہ آئی کا مقابلہ سکون اور ہمت کے ساتھ کرے، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دے۔ در اصل یہی وہ مقام ہے جب ایک مسیحی بندہ سارا زور لگا کر پوری محنت اور جانفشانی کے ساتھ اپنے ذِہن و دِل کو ضرور راضی کر لیتا ہے کہ آخرت کی بھلائی کے حصول کی خاطر دنیا میں کڑی سے کڑی سزا کو بھی اپنے گناہوں کی معافی کے لیے فضلِ ربّی جان کر قبول کر لے اور اپنی دعاؤں التجاؤں مناجات اور عبادت کے ذریعے اور کفارے کے طور پر ریاضت یا عقوبتِ نفس سے حوصلہ پا کر اپنی پرانی گناہوںمیں لتھڑی جُون ہی بدل ڈالے اور ایک نئی صاف ستھری شخصیّت اوڑھ لے۔
۔۔۔۔۔۔ کہ تم کو اگلے چلن کی اُس پرانی انسانیت کو اُتارنا چاہیے جو گمراہ کرنے والی شہوتوں سے بگڑ جاتی ہے اور اپنی عقل کی نسبت نیا بننا چاہیے اور اِس نئی انسانیت کو پہننا چاہیے جو خُدا کے مطابق حقیقی صداقت اور پاکیزگی میں پیدا ہوئی ہے۔
افسیوں۔۔۔۔۔۔22:4تا24
ہر مسیحی کے لیے کلیسیا ایک اور راستے کی نشاندہی بھی کرتی ہے جس پر چل کے وہ کلیسیائی برادری میں شامل ہو جاتا ہے۔ کلیسیا کی برادری ہی در اصل جمیعتِ ایمانداران ہے جسے پاک خُداوند یسوع مسیح کے وسیلے سے نعمتِ فضل میں شراکت نصیب ہے۔ وہ مسیحی جو گناہ سے پاک ہو جانا چاہتا ہے اور خُدا کے فضل و کرم اور عنایتِ خاص سے تقدس کے چھتر تلے آجانے کا متمنی ہے، اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھے۔ وہ تو خُداوند کے بدن مبارک کا ہی ایک حصہ ہے۔ مقدس ماس کا ناخن ہے، جدا نہیں۔ خُداوند یسوع پاک میں تمام مسیحی مل کر سماجی ہم آہنگی پر مشتمل ایک بہت بڑی برادری تشکیل دیتے ہیں۔ اگر ایک ساتھی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو تمام مسیحیوں کو اس کا درد محسوس ہوتا ہے۔
اگر ایک عضو کچھ دُکھ پاتا ہے تو سب اعضا اس کے ساتھ دُکھ پاتے ہیں اور اگر ایک عضو عزت پاتا ہے تو سب اعضا اُس کے ساتھ خوش ہوتے ہیں۔
1۔ قرنتیوں۔۔۔۔۔۔26:2
نجات کے لوازمات، مکتی کے سامان کا یوں آپس میں دِلچسپ ترین تبادلہ جسے خُداوند یسوع اقدس اور اس کی کِرپا اور اس کے رحم و کرم کی بدولت، مقدسین کے وسیلے سے ہمیں مِلا یہ کلیسیا کا خزانہ ہے جس کے ہم مسیحی بھائی بہنیں امین ہیں۔ کلیسیا کے ذریعے گنہگاروں کے لیے مغفرت تلاش کی جاتی ہے اور وہ اس طاقت کے ایما پر جو اُسے خُداوند یسوع مسیح کی طرف سے دان ہوئی ہے، اُسے بِنا بنا کے پکڑ دھکڑ، فدیہ، معافی کا اختیار رکھتی ہے، اس لیے فرداً فرداً ہر مسیحی کے حق میں فوری مداخلت کرتے ہوئے روحانی یا مقدس فنڈ جو یسوع المسیح اقدس، مقدسہ کنواری ماں مریم اور تمام مقدسین کے لامحدود استحقاق کے نام سے جمع ہوتا رہتا ہے، کلیسیا ان مسیحیوں کے لیے ان کے استحقاق کے مطابق اس کے منہ کھول دیتی ہے تا کہ ان کے لیے بدلے میں دنیاوی سزا میں کمی بیشی یا معافی، جیسی بھی صورت ہو، اس کا اعلان کر سکے۔ کلیسیا محض ان مسیحیوں کی استعانت کے بدلے ان کی مخلصی کی اتنی سی اعانت پر ہی اکتفا نہیں کرتی بل کہ ان کے لیے مہمیز کا فریضہ ادا کرتی ہے تا کہ ان میں تیزی آجائے اور ان اعمال کی وہ سبک روی سے تعمیل کریں۔ اور وہ اعمال ہیں۔۔۔۔۔۔ عبادت، دعا، خُداپرستی۔۔۔۔۔۔ اعترافِ گنہ کے بعد توبہ اور توبہ کے بعد لاگو ہونے والے کفارہ کی ادائی ۔۔۔۔۔۔ الٰہی محبت اور الٰہی محبت کے باوصف اس کے مستحق بندوں میں تقسیمِ خیرات، نیکی کے افعال اور کلیسیا کی خدمت۔ مرحوم مومنین کے گناہوں کا بھی کفارہ ادا کِیا جا سکتا ہے تا کہ جن گناہوں کے وہ مرتکب ہوئے ان سے وہ پاک ہو جائیں اور مقدسین کی برادری میں انھیں بھی رفاقت نصیب ہو جائے۔ ہم ان کے لیے غفران کی سبیل کر سکتے ہیں۔ یہ مُردوں کا زندوں پر حق ہے تا کہ دنیا میں ملنے والی دِینی سزا جو ان کے عصیان کی پاداش میں اُنھیں ملنی ہی ملنی تھی اس میں معافی، کمی یا تلافی ہو جائے (حوالہ کیٹکزم آف دی کیتھولک چرچ)
کیٹکزم آف دی کیتھولک چرچ (کیتھولک کلیسیا کی مسیحی تعلیم کی کتاب) سے چند مزید حوالے اور اقتباسات درج ہیں:
مقدسوں کی رفاقت/شراکت
1474۔۔۔۔۔۔وہ کرسچین جو خود کو اپنے گناہوں سے پاک کر لینے کا متمنی ہو وہ کبھی یکہ و تنہا، بے یار و مددگار نہیں رہ سکتا کیوں کہ خُدا کے فضل، توفیق اور محبت کی نصرت سے ہی تو وہ اطہر ٹھہرا۔ خُدا کے ہر فرزند، ہر بچے کی زندگی مقدس خُداوند یسوع میں شامل ہے اور تعجب خیز مگر لائقِ تعریف انداز میں منسلک ہے اپنے تمام مسیحی بھائیوں کی حیات میں، اور ایسا ہو سکنے میں مُمد و معاون خُداوند یسوع پاک کی ذاتِ اقدس ہے، اسی لیے یہ ملاپ، یہ اتحادِ مافوق الفطرت مقدس مسیح کے اسراری بدن کی بدولت ہے جس سے اس مسیحی کی کایا پلٹی اور اُس کا وجود پیکرِ ذاتِ عرفانی میں ڈھل گیا۔۔۔۔۔۔ حوالہ مقدس پال ششم۔
1475۔۔۔۔۔۔مقدسین کی رفاقت میں مسیحی کی شراکت کے ساتھ ہی الٰہی محبت کا ایک دائمی واسطہ تعلُّق وجود میں آجاتا ہے، مسیحیت کا دم بھرنے والے ان مومنوں کے درمیان بھی یہ رشتہ موجود ہوتا ہے جو اپنے ہمیشہ کے مسکن، آسمانی گھر پہنچ چکے ہوتے ہیں اور اس مقامِ اعراف پر جہاں موت کے بعد ارواح اپنے قابلِ عفو گناہوں سے پاک کی جاتی ہیں اور اُن تمام گناہوں کی سزا بھگتتی ہیں جن کا کفارہ ادا نہیں کِیا گیا، وہ بھی پہنچ چکے ہوتے ہیں جو کفارے یا فدیے کی برکت سے فائدہ نہ اُٹھا سکے۔ اور ان کے لیے بھی محبتِ ربی کا سدا رواں چشمہ انتظار میں ہوتا ہے جو ہنوز مقدس زیارتوں کے سفر میں ہوتے ہیں۔ ان سب کے درمیان ہر آن اچھی باتوں کا خاصا تبادلہ چلتا رہتا ہے۔ نیکیوں کے اس حیرت انگیز لین دین میں ہر ایک مسیحی کا تقدس دوسروں کو فائدہ تو پہنچاتا ہے لیکن اس نقصان سے بچائے رکھتا ہے جو کِسی بھی ایک مسیحی کے گناہ کے سبب دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہو۔ مقدسین کی رفاقت کو جب حصولِ مقصد کا ذریعہ بنایا جائے تو اپنے گناہوں پر پشیمان اور اس توبہ تائب مسیحی کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ اُسے بِلا تاخیر مؤثر تطہیر سے گزارا جائے تا کہ اپنے گناہوں کی سزا کے عمل سے فارغ ہو کر وہ پاک صاف ہو جائے۔
1476۔۔۔۔۔۔یہ جو روحانیت کے سامان ہیں اور جو مقدسین کی رفاقت کے فیض سے مسیحی قوم کو حاصل ہوتے ہیں ہم انھیں کلیسیا کا اثاثہ، اس کا خزانہ کہہ سکتے ہیں۔ اس خزانے میں جو کچھ ہے اسے ہم مادی جمع تفریق کے اسباب میں نہیں گِن سکتے۔ یہ وہ اثاثہ ہے ہی نہیں جو صدیوں تھیلیاں بھر بھر جمع کِیا جاتا رہا ہو اور خزانے کا منہ لبالب بھر چکا ہو اور دنیاوی مال و متاع اکٹھا کرنے کی حرص کے طعنوں والی چادر لوگوں نے مقدس کلیسیا پر تان دی ہو۔ نہیں بھائی نہیں! ما ل و زر ہو ایک طرف اور خُداوندکی رضا دوسری طرف، تو کون کم نصیب دنیاوی عارضی نعمتوں کی طرف لپکے گا۔ وہ تو گھاٹے کا سودا ہو گا۔ خُدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے بعد والی نعمتیں تو سدا بہار نعمتیں ہیں، اگلے جہان تو ہیں ہی ہیں، اس جہانِ فانی میں بھی میسر آ سکتی ہیں۔ وہ جسے دیتا ہے بے بہا دیتا ہے، جب چاہتا ہے چھین بھی لیتا ہے مگر آخرت کی نعمتیں ہمیشہ جاری رہنے والی ہیں۔ اب آپ کا دل قبول کر چکا ہو گا کہ مقدس کلیسیا حرص، طمع، لالچ، تمنّاے سیم و زر سے بے نیاز ہے۔ اس کے مختلف فنڈز میں جو عطیات، مالی خیرات، فدیے اور رقوم جمع ہوتی ہیں وہ کلیسیا کے خزانے کی طرف راہ نہیں پاتیں۔ کھُوہ دی مٹّی کھُوہ نوں ای لگدی اے۔ا نسانوں سے قبول کِیا گیا پیسا انسانیت کی ہی فلاح و بہبو دپر خرچ ہوتا ہے۔ کلیسیا کا اصل خزینہ تو لامحدود مذہبی اقدار ہیں، اُمّتِ مسیحی کے قابلِ قدر، احسن جذبات و احساسات کے انبار ہیں، کلیسیا کے خُدّام اور خُدّام الخُدّام کی خدمتوں، ریاضتوں اور کارکردگیوں، کامیابیوں، کامرانیوں اور کارناموں کے شاہکار ہیں، کلیسیا کی طرف سے طالبانِ علمِ دینی و دنیاوی کو اس دولت سے سرشار کرنے کا انتظام و انصرام کا شعار بھی اس کے خزانوں کا ہی کمال ہے۔ اسی لیے کلیسیا کو اطمینان ہے کہ اس کے خزانے کا سوتا نہ کبھی سوکھ سکتا ہے اور نہ کبھی خود خزانے میں کوئی لوٹ کھسوٹ مچ سکتی ہے۔ اس خزانے میں کبھی کمی نہیں آ سکتی، جو خُدا باپ کی بارگاہ میں خُدا بیٹے کی صلاحیتوں اور کاوشوں میں برکت و رحمت کا اظہار ہے۔ کلیسیا کا خزانہ، دولتِ خُداداد، پاک خُداوند میں مقدسین کے لامحدود استحقاق کا فیضان ہے جو جاری ہے اور سدا جاری رہے گا۔ کُل انسانیت کو جو نک کی طرح اپنے ساتھ چمٹے گناہوں سے چھٹکارا مل جائے گا اور انعاموں میں سب سے بڑا متبرک انعام اسے عطا ہو گا ۔۔۔۔۔۔ خُدا باپ کے ساتھ رفاقتِ اعلیٰ کا انعام!! مقدس خُداوند یسوع المسیح میں جو خود جان کا فدیہ دے کر ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کر گیا، اس کی ہی وجہ سے رہائی کا اجر، صلے ثواب اور حوصلے قائم ہیں اور ان کی اثر پذیری کا عمل ختم ہونے میں نہیں آتا۔
(بحوالہ تقدس مآب پوپ پال ششم)
اس کا مطلب ہے کہ یہ جو شکایت تھی اور تکلیف سی محسوس کی جا رہی تھی کہ خطاکار کی خطاؤں پر معافی اگر وہ خُدا اور خُداوند کے نام پر، مقدسین کے نام پر خیرات جمع کروا دے یا مخلصی کے لیے چندہ دے دے، مالی استعانت کردے تا کہ وہ رقم نیک مقاصد کے لیے، انسانی فلاح و بہبود کے لیے، رفاہی کاموں کے لیے استعمال کی جا سکے، ان سے بھی کینن لا کے تحت مخلصی پالی گئی۔ مخلصی، کونسل آف ٹرینٹ 1545-63عیسوی کے تحت تو پکّی پکّی ۔
جہاں تک جوبلی ایئر2000عیسوی کا تعلق ہے۔ کلیسیا کی طرف سے اس دوران میں مسیحی دینیات اور گناہوں پر مشروط معافی ناموں پر عمل کے ضمن میں اس کلاز سے استفادہ کِیا گیا جس کا حوالہ ہے پاپائی فرمان کے تحت یادگار تقریبات براے عظیم جوبلی سال 2000عیسوی خُدا کے جسدِ انسانی میں متجسد ہونے کے مبارک دِن کے طور پر، 29نومبر1998عیسوی کے حوالے سے جرمن بشپس کانفرنس: بمطابق پاپائی فرمان 136جس میں تفصیلی طور پر اس سب کچھ سے آگاہ کِیا گیاہے۔ اس موضوع کے ایک پیراگراف کا حوالہ آپ کے لیے باعثِ اطمینانِ قلب و ذہن ہو گا:
گناہوں سے شرمساری و نفرت پر عفو، درگذر کے عقیدہ اور اس کے اصول و ضوابط سب سے پہلے یہ سبق دیتے ہیں کہ آقا و رب، پروردگار و مربی خُداوند کریم سے یکسر منہہ موڑ لینا بہت ہی افسوسناک، گستاخانہ و تلخ بات اور صریح بے ادبی ہے۔۔۔۔۔۔
بے شک تیری خباثت ہی تیری تادیب کرے گی۔ اور تیری سرکشی تجھ کو سزا دے گی۔ پس، جان لے اور دیکھ کہ تیرا خُداوند اپنے خُدا کو چھوڑنا شرارت اور تلخی ہے اور کہ میرا خوف تجھ میں نہیں (یوں خُداوند رب الافواج کا فرمان ہے)۔
نبی ارمیا۔۔۔۔۔۔19:2
جب انھیں غفران مل جاتا ہے۔ کامل یقین و ایمان والوں کو سمجھ آجاتی ہے کہ گناہوں میں ملوث ہونے سے جو برائیاں وہ اپنے پلے باندھ چکے ہیں وہ اپنے زور، اپنی کسی صلاحیت یا کِسی اپنی تدبیر سے تو انھیں اچھائیوں، نیکیوں میں بدلنے سے رہے، بل کہ ان کے تو گناہوں کی پاداش ان کے علاوہ خود ان کے اپنے سارے معاشرے کو بھگتنا پڑگئی ہے۔ اسی لیے جھنجوڑ جھنجوڑ کے وہ اپنے آپ کو آمادہ کر رہے ہوتے ہیں کہ کِسی طرح وہ انکساری اور حلیمی کے اپنے اوصاف تلف ہونے سے پہلے بچا لیں کہ جن سے خُدا کو راضی اور اس کے بندوں اور اپنے ہمسایوں کو خوش رکھ سکیں۔ اتنا بھی ہو جائے تو سمجھو بہت کما لیا۔
آخری بات، مقدسین سے شراکت کے بارے میں سچی بات یہ ہے کہ یہ سعادت مسیحیت کے پیروکاروں کو خُداوند یسوع پاک سے ملائے رکھتی ہے، اُسی کے سایہء داماں کے ساتھ ساتھ جوڑے رکھتی ہے اور اس کا فیضان ہے کہ پھر سب آپس میں بھی جُڑے رہتے ہیں اور اس سے یہ بات بھی کھل کے سامنے آجاتی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک دوسروں کے کِس قدر کام آ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ زندہ لوگوں کی مدد کو کون لپکتا ہے اور فوت ہو جانے والوں کے لیے بخشش کے سامان کون کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور سب سے بڑی جو برکت و فضیلت والی بات ہے وہ یہ ہے کہ مالکِ ارض و سما، اوپر آسمانوں میں رہنے والے عظیم و برتر خُداوندِ خُدا مقدس باپ کے ساتھ دِل سے اتحاد و رفاقت کا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی معراجِ انسانیت ہے۔
عقیدے کے ان جوازات کو معتبر گردانتے ہوئے اور کلیسیا کی اندرونی بصیرت اور مادرانہ وجدان کی ترجمانی کرتے ہوئے۔۔۔۔۔۔ ''مَیں (پاپاے روم) یہ حکم صادر کرتا ہوں کہ جوبلی کی تمام تر تقریبات کے دوران تمام مومنین، مستعدی و نیک نیتی کے ساتھ، دنیا کی نسبت خُدا پر توکّل کرتے ہوئے اس کے عطا کردہ تحفہء غفران سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی سعی کریں تا کہ زیادہ سے زیادہ مسیحی اپنے گناہوں سے پاک ہو سکیں''۔
(پاپائی فرمان کے ساتھ جملہ ہدایات منسلک ہیں)