German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

خُدا: ایک میں تین.... تین میں ایک /تثلیث

 

۱۔مسلمانوں کی طرف سے سوال یہ ہے کہ

٭کیا آپ واقعی ایک خُدا کو ماننے والے ہیں؟ 

٭کیا آپ تین خداﺅں پر ایمان رکھتے ہیں؟ 

٭اِتنے خُدا؟ بھلا کون کون سے ہیں؟ 

٭خُدا کو باپ یا بیٹا کیوںکر کہا جا سکتا ہے؟ 

۲۔مسلمانوں کی طرف سے تقابلی جائزہ 

مجملاً 

۱۔اِسلام میں وحدانیت کے عقیدے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجیے کہ 

وہ اللہ ایک (ہی) ہے۔ 

اللہ بے نیاز ہے (کِسی کا محتاج نہِیں)۔ 

نہ اُس سے کوئی پیدا ہُوا نہ وہ کِسی سے پیدا ہوا۔ 

اور 

نہ کوئی اُس کا ہمسر ہے۔ 

(القرآن، اخلاص: 1-4) 

اللہ تعالیٰ واحدہ، لاشریک ہے، حیّ وقیوم ہے، مطلق بے نیاز، نہ کِسی کا باپ ہے نہ بیٹا اور کوئی نہِیں جو اُس سے برابری کا دعویٰ کرے۔

۲۔اسلام کی رُو سے پورے وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ذاتِ الٰہی کا عرفان عام انسانوں کے بس سے باہر ہے جو باری تعالیٰ کو کسی کا باپ بتانا یا بیٹا کہنا تو وہ رشتے ہیں جو بُنیادی طور پر گوشت پوست کے تعلُّق اور واسطوں سے وابستہ ہوتے ہیں اور ایسا قیاس باندھنا الوہی اِدراک سے عاری ہونے کی دلیل ہے۔ خُدا تو انسانی فہم وادراک سے آگے کی ہستی ہے یا پھر وہی بات ہے کہ 

فِکرِ ہر کَس بقدر ِہِمّت اوست 

ان دونوں رشتوں کے استعمال کے مسیحی لوگ تو اس حد تک عادی ہوتے چلے گئے کہ وہ سٹیج آ گئی کہ اِن دونوں الفاظ کے اصل معانی تو کہِیں دُور رہ گئے، مسیحیت نے ان کے روحانی ووِجدانی مطالب پر اکتفا کر لیا۔ 

۳۔تثلیث کے بارے میں دینی توضیحات وتوجیہات جو قدرت (طبعی) اور اقنوم (شخصی) اعتقادات وخیالات پر مبنی ہیں، کِسی منطقی نتیجے پر پہنچنے کے لیے ہرگز رہنُمائی نہِیں کرتیں۔ عربی زُبان میں پرسن یعنی شخص سے مُراد جو لی جاتی ہے وہ کوئی سامنے کی شخصیت ہوتی ہے۔ انسان کے پانچوں حواس جس کی تصدیق کریں اور رہی اقنوم کی بات تو اِس اسمِ ذات کو مسیحیت کی عربی تصنیفات میں استعمال تو کِیا گیا ہے مگر عصرِ حاضر کے عربی دان یا خُود عرب اِس لفظ سے ناآشنا سے نظر آتے ہیں اور طبعی سے مُراد پیدا کی گئی صفت ہے، یعنی مخلوق ہے، خالق نہِیں۔ 

۴۔خُدا کے بارے میں مسیحی فلسفہ تثلیث سے قرآنِ پاک مطابقت نہِیں رکھتا، کیوںکہ یہ تو مسیحیوں کا صاف صاف اللہ تعالیٰ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مقدّسہ مریم ان تینوں کو خُدا مان لینے والا عقیدہ ہے اور اس خیال وایمان کی تو قرآن پاک میں مذمت کی گئی ہے، حتیٰ کہ خود پیغمبر عیسیٰ بن مریم نے یعنی قرآن اور حضرت یسوع مسیح نے بھی بالخصوص، واضح طور پر ایسا عقیدہ رکھنے کی مذمت کی ہے اور اپنے آپ کو اِس شرک سے مبرّا قرار دِیا ہے۔ 

اور وہ وقت بھی قابلِ ذِکر ہے جب اللہ فرمائے گا، اے عیسیٰ ابنِ مریم! کیا تُم نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو! عیسیٰ عرض کریں گے کہ مَیں تو تجھ کو منزّہ سمجھتا ہُوں، مجھے کِسی طرح بھی زیبا نہ تھا کہ مَیں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہِیں، اگر مَیں نے کہا ہو گا تو تجھے اُس کا علم ہو گا۔ تُو تو میرے دِل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور مَیں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اُس کو نہِیں جانتا۔ تمام غیبوں کا جاننے والا تُو ہی ہے۔ 

(القرآن، المائدہ: 116)

۵۔قرآن پاک میں روح القدس کے بارے میں مسیحیوں کے اِس عقیدے کا کہِیں کوئی حوالہ نہِیں کہ وہ بھی تثلیث کا ایک رکن ہے، تیسرا رکن 

مفصلاً 

۱۔قرآن یہود ونصاریٰ کو اہلِ کتاب بتاتا ہے۔ بے شک، لیکن قرآن کے لحاظ سے تو ایک اہم سوال اُٹھتا ہے کہ آیا مسیحیوں کو موحد قرار دِیا جا سکتا ہے یا نہِیں؟ 

مسلمان ہوں، یہودی ہوں، نصاریٰ ہوں یا صابی ہوں، جو کوئی بھی اللہ پر اور قیامت کے دِن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے اُن کے اجر اُن کے رب کے پاس ہیں اور اُن پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اُداسی۔ 

(القرآن، البقرة: 62)  

تم بہترین اُمّت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بُری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لاتے تو اُن کے لیے بہتر تھا، اُن میں ایمان والے بھی ہیں لیکن اکثر تو فاسق ہیں۔ 

یہ تمھارے ستانے کے سوا اور زیادہ کچھ ضرر نہِیں پہنچا سکتے، اگر لڑائی کا موقع آ جائے تو پیٹھ موڑ لیں گے، پھر مدد نہ کیے جائیں گے۔ 

ان پر ہر جگہ ذِلّت کی مار پڑی، اِلّا یہ کہ اللہ کی یا لوگوں کی پناہ میں ہوں، یہ غضبِ الٰہی کے مستحق ہو گئے اور ان پر فقیری ڈال دی گئی، اس لیے کہ یہ لوگ اللہ کی آیتوں سے کُفرکرتے تھے اور بے وجہ انبیا کو قتل کرتے تھے، یہ بدلہ ہے، اُن کی نافرمانیوں اور زیادیتوں کا۔ 

یہ سارے کے سارے یکساں نہِیں بل کہ اِن اہلِ کتاب میں ایک جماعت (حق پر) قائم رہنے والی بھی ہے جو راتوں کے وقت بھی کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدے بھی کرتے ہیں۔ 

 یہ اللہ پر اور قیامت کے دِن پر ایمان بھی رکھتے ہیں، بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں، یہ نیک بخت لوگوں میں سے ہیں۔ یہ جو کچھ بھی بھلائیاں کریں ان کی ناقدری نہ کی جائے گی اور اللہ پرہیز گاروں کو خُوب جانتا ہے۔ 

(القرآن،آلِ عمران: 110-115) 

پھر اُن میں سے بعض نے اِس کتاب کو مانا اور بعض اِس سے رُک گئے، اور جہنم کا جلانا کافی ہے۔ 

(القرآن،النسا: 55)  

مسلمان، یہودی، ستارہ پرست اور نصرانی کوئی ہو، جو بھی اللہ پر اور قیامت کے دِن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے وہ محض بے خوف رہے گا اور بالکل بے غم ہو جائے گا۔ 

(القرآن،المائدہ: 69) 

یقینا آپ ایمان والوں کا سب سے زیادہ دُشمن یہودیوں اور مُشرکوں کو پائیں گے اور ایمان والوں سے سب سے زیادہ دوستی کے قریب آپ یقینا اُنھیں پائیں گے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں، یہ اِس لیے کہ اُن میں علما اور عبادت کے لیے گوشہ نشین افراد پائے جاتے ہیں اور اس وجہ سے کہ وہ تکبّر نہِیں کرتے۔ 

(القرآن،المائدہ: 82) 

یا پھر یہ سوال کہ آیا وہ کافر ہیں :

بے شک وہ لوگ کافر ہو گئے جن کا قول ہے کہ مسیح ابنِ مریم اللہ ہے حال آںکہ خُود مسیح نے ان سے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمھارا سب کا رب ہے، یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے اللہ نے اُس پر جنت حرام کر دی ہے، اُس کا ٹھکانا جہنّم ہی ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہِیں ہو گا۔ 

وہ لوگ بھی قطعاً کافر ہو گئے جنھوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے، دراصل سوا اللہ کے کوئی معبود نہِیں، اگر یہ لوگ اپنے اِس قول سے باز نہ رہے تو اِن میں سے جو کُفر پر رہیں گے، اُنھیں المناک عذاب ضرور پہنچے گا۔ 

(القرآن،المائدہ: 72-73)  

اور سوال یہ بھی ہے کہ آیا مسیحیوں کو بُت پرستوں اور مُشرکین میں شُمار کِیا جائے۔ 

بے شک وہ لوگ کافر ہو گئے جن کا قول ہے کہ مسیح ابنِ مریم اللہ ہے حال آںکہ خُود مسیح نے اُن سے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمھارا سب کا رب ہے، یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے اللہ نے اُس پر جنت حرام کر دی ہے، اس کا ٹھکانا جہنّم ہی ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہِیں ہو گا۔ 

(القرآن،المائدہ:72) 

۲۔اللہ تعالیٰ کہ وہ تین ہیں قرآن پاک اِس شرک کی مذمت کرتا ہے: 

اے اہلِ کتاب! اپنے دِین کے بارے میں حد سے نہ گذر جاﺅ اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو، مسیح عیسیٰ بن مریم تو صِرف اللہ کے رُسُول ہیں اور اُس کے کلمہ (کُن سے پیدا شُدہ) ہیں جسے مریم کی طرف ڈال دِیا تھا اور اس کے پاس کی رُوح ہیں، اس لیے تم اللہ کو اور اس کے سب رُسُولوں کو مانو اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں، اِس سے باز آ جاﺅ کہ تمھارے لیے یہی بہتر ہے، اللہ عبادت کے لائق تو صِرف ایک ہی ہے اور وہ اِس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ کافی ہے کام بنانے والا۔ 

(النسا:171)  

اور پھر اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بی بی مریم کو شامل کر لیتے ہیں، ثلاثہ میں۔ 

اور وہ وقت بھی قابلِ ذِکر ہے جب کہ اللہ فرمائے گا، اے عیسیٰ ابنِ مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہہ دِیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو؟ عیسیٰ عرض کریں گے کہ مَیں تو تجھ کو منزّہ سمجھتا ہُوں، مجھ کو کِسی طرح زیبا نہ تھا کہ مَیں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہِیں، اگر مَیں نے کہا ہو گا تو تجھے اُس کا علم ہو گا۔ تُو تو میرے دِل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور مَیں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اُس کو نہِیں جانتا، تمام غیبوں کو جاننے والا تُو ہی ہے۔ 

(القرآن،المائدہ: 116)  

وہ کہتے ہیں.... حضرت یسوع خُدا ہے 

حوالہ القرآن،المائدہ: 72 اور،المائدہ: 116 

یا پھر یہ کہ خُدا کا بیٹا ہے 

حوالہ القرآن ،التوبہ :30 

قرآن عربی لفظ ابن استعمال کرتا ہے، یعنی بیٹا 

یہ صحیح واقعہ عیسیٰ بن مریم کا، یہی ہے وہ حق بات جس میں لوگ شک وشُبہ میں مُبتلا ہیں۔ 

اللہ کے لیے اولاد کا ہونا لائق نہِیں، وہ تو بالکل پاک ذات ہے، وہ تو جب کِسی کام کے سرانجام دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اُسے کہہ دیتا ہے کُن کہ ہو جا، وہ اُسی وقت ہو جاتا ہے۔ 

(القرآن ،سورة مریم:34-35)  

عربی لفظ ولد کا استعمال کِیا گیا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ خُداے واحد ویکتا نہ کِسی کا باپ ہے اور نہ ہی بیٹا۔

لم یلد و لم یولد

 

نہ اُس سے کوئی پیدا ہُوا نہ وہ کِسی سے پیدا ہُوا۔ 

(القرآن ،اخلاص:3)  

۳۔مسلمانوں کے دینی علما اور مُفسّرین نے مسیحیوں کے ہاں تصوُّرِ خُدا جلّ شانہ، کے بارے میں جو اعتقاد ہے اِس پر سیر حاصل تبصرے کیے ہیں۔ فخر الدین رازی(1149-1209ع) جو کہ قرآنِ پاک کے بہُت بڑے شارح ہو گذرے ہیں، اُنھوں نے اعتراف کِیا ہے کہ اُن کے زمانہ، قرونِ اولیٰ میں مسیحیوں نے کبھی اِس راے کا اظہار نہِیں کِیا تھا کہ بی بی پاک مریم بھی تثلیث میں شامل تھیں۔ اِس لیے قرآن مجید میں جو حوالہ ہے وہ ہو سکتا ہے مسیحیوں کے کِسی قدیم فرقے سے مُتعلّق ہو جو اب نابُود ہے، جدید دور کے اکثر علما اِس مسئلے پر علاّمہ رازی ہی کے ہم نوا ہیں۔ 

۴۔ یہ بھی ہے کہ بعض مُسلم دینی علما ودانشوروں کی طرف سے ان تینوں الٰہیاتی ہستیوں کے بارے میں بعض محیر العقول خیال آرائیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ اُنھوں نے تثلیث میں یکتائی کی جھلک دیکھی اور اقبال کِیا کہ مسیحیت تو ہے ہی توحید کی اصلی اور سچّی شکل۔ اور ایک سچائی یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت مسیحیوں کو تثلیث پرست قرار دیتی ہے۔

۳۔مسیحی تقابلی جائزہ 

۱۔خُدا 

مسیحی پکّے موحد ہیں اور عقیدہ_¿ وحدانیت کے محافظ بھی اور یہ ذِمّہ داری اُنھوں نے بنی اسرائیل سے سنبھالی، خُدا ایک ہے، اسی سیاق وسباق میں اُن کا پختہ ایمان ہے کہ خُدا کا ظہور بطور آقا ومالک، خُداوند، ربّ اور ناجی یعنی مکتی داتا دُنیا پر حضرت یسوع کی صُورت بل کہ حضرت یسوع مسیح میں ہُوا۔ خُدا نے اپنے آپ کو حضرت یسوع کے طور پر ظاہر کِیا۔ یہ موجودگی کلیتہً نہِیں، حضرت یسوع کی بشریت نے ربوبیّت کو ڈھانپا اور نہ ربانیّت نے بشریتِ مسیح کی شناخت گُم کی۔ جُزو میں کُل اور کُل میں جُزو سما گیا۔ ابتداے مسیحیت سے ہی یہ نِکات دینی عکاسی اور روحانی تجربے کو بُنیاد بنا کر عقیدہ تثلیث کی طرف رہنُمائی کرتے چلے آئے ہیں، حضرت یسوع مسیح کی تبلیغ سے انجیلِ مُقدّس کی پُرزور بشارت ہم تک پہنچی اور وہ فقط اِتنی نہ تھی کہ ہم تک یہ ابلاغ ہُوا کہ خُدا موجود ہے، واحد ہے، ایک اکیلا، اور اُسی بشارت سے ہی ہم پر کھُلا کہ تصوُّرِ خُدا کیا ہے، خُدا ہے کون؟ حضرت یسوع نے اپنے ماننے والوں کو عشقِ حقیقی سے سرشار کِیا، یہاں تک کہ بندے کو خُدا کا رفیق بنا دِیا۔ 

بارہا ایسا ہُوا کہ خُدا نے اپنے بندوں سے تخاطب کِیا، اپنے رسُولوں کے ذریعے بارہا مختلف انداز میں ہم کلام ہُوا اور آخر میں ہم سے بھی مخاطب ہُوا، اپنے بیٹے کے رُوپ میں: 

اگلے زمانے میں خُدا نے آباو اجداد سے وقت بہ وقت اور طرح بہ طرح انبیاءکی معرفت کلام کر کے، ان ایام کے آخر میں ہم ہی سے بیٹے کی معرفت کلام کِیا جسے اُس نے تمام چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جس کے وسیلے سے اُس نے عالم کو خلق کِیا۔ 

(12:1عبرانیوں)

چُناںچہ خُدا نے اپنے بیٹے کو ہماری طرف مبعوث کِیا جو ازلی ابدی کلمہ ہے کہ اسی سے ہماری زِندگیاں مُنور ہوئیں اور عقل وشُعُور اُجالا گیا۔ اِس مُقدّس بیٹے نے انسانوں میں بُود وباش اختیار کی تاکہ وہ انسانوں کو خُدا کے بارے میں وہ تمام گیان اوردھیان عطا کرے جس تک وہ خُود اپنی سعی، اپنے ذہنِ رسا سے نہِیں پہنچ سکتے تھے: 

ابتدا میں کلمہ تھا اور کلمہ خُدا کے ساتھ تھا اور کلمہ خُدا تھا۔ یہی ابتدا میں خُدا کے ساتھ تھا، اِسی سے سب کچھ پیدا ہُوا۔ ایک بھی چیز جو پیدا ہوئی اِس کے بغیر پیدا نہ ہوئی، اُسی میں زِندگی تھی اور زِندگی انسانوں کا نُور تھی اور نُور تاریکی میں چمکتا ہے، اور تاریکی نے اِسے قبول نہ کِیا۔ ایک آدمی آ موجود ہُوا خُدا کی طرف سے مُرسل، جس کا نام یُوحنّا تھا۔ یہ شہادت کے لیے آیا کہ نُور کی شہادت دے تاکہ سب اِس کے وسیلے سے ایمان لائیں۔ وہ خُود تو نُور نہ تھا لیکن نُور کی گواہی دینے کے لیے آیا تھا۔ حقیقی نُور وہ تھا جو ہر انسان کو مُنور کرتا ہے، جو دُنیا میں آتا ہے۔ وہ دُنیا میں تھا اور دُنیا اُسی سے پیدا ہوئی اور دُنیا نے اُسے نہ پہچانا۔ اپنے ملک میں آیا اور اُس کے اپنوں نے اُسے قبول نہ کِیا لیکن جتنوں نے اُسے قبول کِیا اُس نے انھیں اقتدار بخشا کہ خُدا کے فرزند بنیں۔ یعنی اُنھیں جو اُس کے نام پر ایمان لاتے ہیں وہ خون سے نہِیں، نہ جسم کی خواہش سے، نہ آدمی کے ارادے سے بل کہ خُدا سے پیدا ہوئے اور کلمہ متجسد ہُوا اور ہم میں سکونت پذیر ہُوا اور ہم نے اُس کا جلال دیکھا، باپ کے وحید کا جلال، فضل اور سچّائی سے معمور۔ یُوحنّا اُس کی بابت شہادت دیتا ہے اور پُکار کر کہتا ہے یہ وہی تھا جس کے حق میں مَیں نے کہا کہ جو میرے بعد آتا ہے وہ مجھ سے مُقدّم ٹھہرا کیوںکہ وہ مجھ سے پہلے تھا۔ اس کی معموری میں سے ہم سب نے پایا یعنی فضل پر فضل کیوںکہ شریعت حضرت موسیٰ کی معرفت دی گئی مگر فضل اور سچائی حضرت یسوع مسیح سے پہنچی۔ 

خُدا کو کِسی نے کبھی نہِیں دیکھا، خُداے مولودِ وحید جو باپ کی گود میں ہے، اُسی نے منکشف کِیا ہے۔

(18-1:1یُوحنّا)

حضرت یسوع مسیح.... جو کلام مجسم ہُوا اور انسان بنا، بندوں میں بندہ بنا کر بھیجا گیا: 

(VII:4میتھیٹیدئیس کا خط ڈائیوگنیٹس کے نام)

کیوںکہ جسے خُدا نے بھیجا ہے وہ خُدا کی باتیں کہتا ہے۔ 

(یُوحنّا 34:3) 

اور وہ انسان کی گُناہ کی غلامی اور اس کی سزا سے نجات والے کام کو جو اُس کے باپ نے اُس کے ذِمّہ لگایا اُس کی مُکمّل بجا آوری کرتا ہے 

لیکن میرے پاس جو گواہی ہے وہ یُوحنّا کی گواہی سے بڑی ہے، کیوںکہ جو کام میرے باپ نے مجھے پورے کرنے کو دیے یعنی یہی کام جو مَیں کرتا ہُوں وہ میری گواہی دیتے ہیں کہ باپ نے مجھے بھیجا ہے۔ 

(یُوحنّا 36:5) 

مَیں نے زمین پر تیرا جلال ظاہر کِیا ہے، مَیں نے وہ کام اِنجام دِیا جو تُو نے مجھے کرنے کو دِیا تھا۔ ((یُوحنّا 4:17

جس نے حضرت یسوع کو دیکھا اُس نے اُس کے باپ کو دیکھا: 

حضرت یسوع نے اُس سے کہا، اے فیلبُوس! مَیںاِتنی مُدّت سے تمھارے ساتھ ہُوں، کیا تُو مجھے نہِیں جانتا؟ جس نے مجھے دیکھا ہے اُس نے باپ کو دیکھا ہے۔ پھر تُو کس طرح کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دِکھا۔ 

(یُوحنّا 9:14)  

چُناںچہ یہی سبب تھا کہ حضرت یسوع مسیح نے احسن طور مکاشفے کی تکمیل کر دی۔ اپنے وُجُود سے اور اپنے کلام، اپنے اعمال واخلاقِ حسنہ سے، پیش گوئیوں اور معجزات سے بل کہ خاص طور پر اپنی مُدّت اور مصلُوب ہونے کے بعد مُردوں میں سے دوبارہ زِندہ ہونے کے شاندار عمل سے، حتیٰ کہ کائناتی سچّائی کا نزول زمین پر کر دِیا گیا۔ ربّانی گواہی کے ساتھ حضرت یسوع نے توثیق کر دی ظہورِ خُداوندی کے اس دعوے کی کہ خُدا ہمارے ساتھ ہے، ہم میں موجود ہے تاکہ ہم گناہوں اور موت کے اندھیروں سے باہر آ جائیں اور ہمیں وہاں پہنچا دیا جائے جہاں زِندگی کو ثبات ہے، فنا نہِیںہمیشہ کی زندگی۔

۲۔مُقدّس باپ.... مُقدّس بیٹا 

حضرت یسوع مسیح کے کارہاے نُبوّت کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت یسوع کے کِردار کی پرکھ سے اور اس کے کلام کی برکت سے رسُولوں اور مُبشرین نے جو کہ انتہائی عقیدت مند اور پختہ گواہ تھے، اُنھوں نے حضرت یسوع مسیح کے لیے جو اسمِ ذات استعمال کِیا تھا.... بیٹا.... جس سے اُس بے مثل رشتے کا اظہار مقصود تھا جو حضرت یسوع ناصری اور اُس کے درمیان موجود تھا جسے وہ اپنا باپ بتاتا تھا، اور جس کی عبادت کرتے ہوئے وہ اُسے خُدا باپ کے رشتے سے پُکارتا تھا۔ گُناہوں سے درگذر اور نجات کے ضمن میں اُن لوگوں نے حضرت یسوع مسیح میں وہ شانِ خُداوندی پائی جس کا اظہار اکثر ہوتا ہی رہتا تھا۔ پس وہ اس نتیجہ پر پہنچنے میں حق بجانب تھے کہ ابتداے آفرینش سے ہی خُدا نے امتیاز برقرار رکھا ہے جو اُس کے خالق ومالک ہونے، کائنات کی ہر شے کا منبع، ملجا وماویٰ ہوتے ہوئے بطور باپ سب کا نگہبان، سب پر مہربان ہونے پر محیط ہے نسبتاً اس کے جو مخلوق ہے، خلقت ہے اُس کی، تخلیق ہے اُس کی جو زِندگی کی عطا کے لیے مرہونِ منت ہے اپنے رب کی عنایات کا، وہ وہی ہے جو وجہِ تخلیقِ کائنات ہے، تمام مخلوقات میں سب سے پہلا ہے.... یعنی بیٹا۔ اس کا وُجُود، وُجُود میں رُوح، رُوح میں حیات، حیات میں رمق، اُپج سب باپ سے ہے اور اطاعتِ خُداوندی اور عقیدت ومحبت کی اتھاہ گہرائیوں میں وہ تعلُّق، وہ رشتہ مستور ہے جو باپ بیٹے کا ہے۔ حضرت یسوع مسیح کی اپنی تو کوئی زِندگی نہِیں، اُس کا سب کچھ خُدا سے ہے، باپ سے، کہ جو کچھ بھی وہ ہے باپ کی وجہ سے ہے۔ وہ تو پُورے کا پُورا اپنے باپ کا عکس ہے، ہوبہو وہی، جو کچھ اُس کا ہے وہ خُدا کا ہے اور خُدا جس کا آقا ومالک ہے حضرت یسوع اُس کا آقا ومالک ہے۔ 

کلام کی ماہیت، اُس کی اصلیت کیا ہے، اِس تصوُّر کو پختگی یونانی کلاسیکل سوچ کی دین ہے۔ کلمہ خُداوندی سے وہ رشتہ اُجاگر ہوتا ہے جو ذاتِ خُداوند میں باپ بیٹے کے مابین ہے، اور یہ ذہانت ہی ہوتی ہے جو کلمہ کا مافی الضمیر واضح کرتی ہے، لیکن یہ بھی ہے کہ کلمہ دانش سے بھی اوپر کی کوئی چیز ہے، مگر اُس کی توجیہ وتوضیح بھی طے ہے کہ ذہانت ودانش سے ہی ہو پاتی ہے۔ اور پھر یہ بھی اٹل ہے کہ یہ کلمہ ہی ہے جو جب حضرت یسوع مسیح کی ذات سے پھوٹتا ہے تو گوشت پوست والا انسانی رُوپ دھار لیتا ہے۔ کلام مجسم ہُوا اور انسان بنا۔ 

۳۔کلام سے رُوح تک 

مُقدّس باپ نے کلمہ تخلیق کِیا جس کا ثمر تھا بیٹا اور وہ ذریعہ بنا کائنات کی تخلیق کا، کیوںکہ خُدا کے کلام میں خلق کرنے کی قدرت موجود ہے، اِس لیے جو کچھ ہست ہے وہ اِسی قدرت کی برکت اور حُکم سے ہے۔ ہر تخلیق پر خالق کی چھاپ ثبت ہے۔ خُدا نے کلمہ ادا کِیا.... ہوجا.... اور سب کچھ ہو گیا، جیسا خُدا نے چاہا۔ چُناںچہ معرفتِ خُداوندی کے لیے خُدا کی ہر تخلیق آسان ذریعہ ہے، (اگلے وقتوں میں آباے کلیسیانے یہی بتانے کے لیے خلقت کو اِس کلمہ کے بیجوں سے تشبیہ، دی تھی جن سے ہماری دُنیا بھری پڑی ہے) اور اس تخلیق کی تکمیل راہِ خُدا کی مخلوق انسانوں سے حاصل ہوئی جنھیں خُدا نے پیدا کِیا، اپنے عکس میں اور اپنی پسند ومنشا کے عین مطابق، اپنے مانند

اور خُدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صُورت پر اپنے مانند بنائیں اور وہ سمُندر کی مچھلیوں اور آسمانوں کے پرندوں اور چوپایوں اور کُل رُوے زمین اور سب کیڑے مکوڑوں پر جو زمین پر رینگتے ہیں، حُکُومت کرے۔ 

(تکوین 26:1)  

خُدا سے اس مشابہت کا ایقان تکمیلِ انسانیت پر محمول ہُوا اور پھر اِس بھید کو پانے کی راہیں کھُل گئیں، جب کلمہ مجسم ہو گیا۔ اس کی تجسیم بطور انسان ہو گئی، چُناںچہ حضرت یسوع ذریعہ بنے اُس مستحکم رشتے کا، اُس باپ سے جو منبع ہے حیاتِ مسیح کا۔ خُداوند کا یہ عدل واحسان جس نے انسان کو راست بازی عطا کی، انسانیت میں جس سے سُدھار پیدا ہُوا وہ خُدا کے ُقرب ومحبت کا نتیجہ ہے جو انسان کے ساتھ خاص ہے، اور (حضرت یسوع مسیح کی طرح) ہم میں بھی اِس تثلیت کے تیسرے رُکن/ اقنوم رُوح القدس کے طفیل ہے۔ یہ خُداے مہربان کی محبت کی رُوح، اِس کی اصل کا صدقہ ہے کہ ہمیں مرتبہ حاصل ہُوا کہ ہم اِس مُقدّس باپ کے بچےّ بن گئے اور مُقدّس بیٹے کے بہن بھائی اور یہ مقامِ مُقدّس خُدا کے مُقدّس کلمہ کے اثر سے ہمارا مُقدّر بنا۔ مُقدّس پولوس رسُول نے ہمیں بتایا کہ رُوح القدس کی برکت ووساطت سے ہم خُدا کو ابّا یعنی باپ کہنے کے حقدار ہو گئے: 

اور کہ تم بیٹے ہو، اِس سے ثابت ہے کہ خُدا نے اپنے بیٹے کی رُوح ہمارے دِلوں میں بھیجی ہے جو ابّا، یعنی اے باپ کہہ کر پُکارتا ہے۔ 

(غلاطیوں 6:4) 

 بس ہم متبنّٰی بنائے گئے، ہم لے پالک بچےّ ہیں، خُدا کے، اور ہم حضرت یسوع مسیح کے ساتھ اُس کے ذریعے سے، اُس میں رچ بس چکے ہیں۔ 

پاک یو خرستی مناجات وعبادات وکلماتِ برکت)۔ 

۴۔مُقدّس باپ، مُقدّس بیٹا، مُقدّس رُوح القدس 

خُدا کی ایک اور امتیازی حیثیت اُبھر کر یوں سامنے آتی ہے کہ پُرانے عہد نامہ میں شروع سے ہی ایک حوالہ چلا آ رہا تھا، جو رُوح کے بارے میں تھا، رُوح کو نُمایندگی حاصل تھی، خُدا کی قدرتِ تخلیق کی، رُوح کیا ہے؟ ربّانی پھونک ہے۔ آسمانی باپ کا سانس ہے، الٰہی دم ہے، یہی وہ مُقدّس رُوح ہے جس نے نبیوں کے حوصلے بڑھائے، ربانی اثر سے اُن کی رہنمائی کی، اُن میں تحریک پیدا کی، اسرائیلیوں کو سیدھی راہ دِکھائی اور سچے خُدا کے عرفان تک بنی اسرائیل کو رسائی عطا کی اور اُس پاک رُوح نے اُن کی زِندگیاں رضاے الٰہی کے تتبُّع میں ڈھال دیں، سب کو اطاعت شعار بنا دِیا اور یہ پاک رُوح ہی کی صفتِ اعلیٰ ہے کہ تمام جہانوں کے خالق ومالک کا ایک پایدار رشتہ قائم رکھتی ہے، اُس کی مخلوق سے۔ اور اُس خالق کی تخلیق، اُس کی خلقت رُوح القدس ہی کے طفیل اپنے مالک وخالق کے سامنے راضی بہ رضا رہتی ہے۔ حضرت یسوع مسیح اُس مکاشفے، اُس انکشاف کا زِندہ ثُبوت ہیں، کیوںکہ اُن کا تو دُنیا میں ظہور رُوح القدس کی وساطت سے ہُوا اور انھی کے وسیلے سے حضرت یسوع مسیح میں انسانیت اور ربّانیت نے اکٹھے وقوع پایا۔ پاک رُوح کے اعتبار سے حضرت یسوع خُدا کا بیٹا ہے۔ لُوقا کی انجیلِ مقدّس میں تو روح القدس کو ہی حضرت یسوع مسیح کی ہر تحریک وعمل کے لیے ایک ذریعہءخاص بتایا گیا ہے، لیکن حضرت یسوع نے ہی ہمیں بتایا کہ یہ بھی اُسی روح القدس کا فیضان ہے کہ اِس سماج کی بُنیاد رکھی گئی جو حضرت یسوع مسیح کا رشتہ آسمانی باپ سے منسلک رکھتا ہے، ہر دم پیوست۔ اور وہ ایک ہو جاتے ہیں، یہی تعلُّق ربّانی تعلُّق ہے، یہی واسطہ الٰہیاتی واسطہ ہے اور یہی رشتہ آفاقی رشتہ ہے جو صِرف خُدا ہی کے اختیار وقبضہءقدرت میں ہے کہ خُدا اِسے اُستوار کر لے۔ روح القدس بھی اِسی نوع سے مُتعلّق ہے جس سے کہ مُقدّس باپ اور مُقدّس بیٹا منسوب ہیں۔ وہ اِس اشتراک کو پکا کرنے والا سیمنٹ ہے جو خُدا کی مرضی سے ہے اور یگانگت کے خُدائی اُصُولوں کے عین مطابق ہے۔ باہم دگر محبت جو مُقدّس باپ اور مُقدّس بیٹے میں موجود ہے اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت یسوع مسیح کی خُدا سے فقط نسبت ہی نہِیں درحقیقت وہ خُود خُدا ہے۔ اِسی لیے آغازِ مسیحیت سے ہی شروع شروع کے مسیحیوں کے ہاں یہی دستور تھا کہ وہ اپنی عبادات کو خُدا باپ کے لیے، خُدا بیٹے کے وسیلے سے اور خدا روح القدس کے ذریعے ادا کرتے تھے۔ ہمیں جو زِندگی بخشنے والی قدرت ہے ہم اُس کی طرف رجوع کرتے ہیں، حضرت یسوع مسیح کے وسیلے سے کہ جس کے ہم اُمّتی ہیں، اس روح القدس میں جو ہمیں بپتسمہ کے وقت اور ہمیں واپس باپ کی طرف مضبوطی سے قائم رکھتی ہے، ہمیں لگتا ہے جیسے کہ ہم بھی اُس کے متبنّٰی ، یعنی بیٹے ہی ہیں۔ خُدا باپ نے ہمیں بھی اپنا بنا لیا۔

۵۔اشتراکِ اُلفت 

روح القدس ہی وہ قانونِ باطن ہے جو مسیحیوں کی خُدا کے سیدھے راستے کی طرف رہنُمائی کرتا ہے بل کہ اُنھیںاِس راہ پر چلاتا ہے۔ وہ حضرت یسوع مسیح کے لیے زِندگی لایا اور ہمیں بھی زِندگی روح القدس سے ہی مِلتی ہے۔ مخلوقِ خُدا کو دعوت دی جاتی ہے کہ آﺅ اور مسیحیوں کی اِس برادری میں شامل ہو جاﺅ جس میں محبت ہی محبت رچی بسی ہے، جہاں محبت ہی خُدا ہے اور خُدا محبت ہی محبت۔ روح انسانوں کو اس لیے عطا کی گئی کہ وہ آزاد وخُودمختار اور ذہنی وتخلیقی اُپج رکھنے والے نُمایندے بن کر ایسے کارنامے سرانجام دیں جو کائناتی صُلح جُوئی کے لیے از بس ضروری ہیں اور سدا سے اِس فرض کی بجا آوری کے لیے انسان کو خُدا کی مدد اور اُس کا ساتھ نصیب ہے اور نصیب رہے گا۔ خُدا کے کاموں اور قُدرتِ خُداوندی کی ایکتا ہی اصل خُدائی ہے، اور یہی وہ نکتہ ہے جس کی پرکھ مسیحیوں کو مسلمانوں سے ممتاز کر دیتی ہے کہ مسیحی برادری اِس یکجہتی، اِس یگانگت کو اپنی معاشرت، اپنی سماج کا جُزوِ لاینفک قرار دیتی ہے اور ایمان رکھتی ہے کہ محبت سب کی، سب کے لیے۔ 

اِس ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے کہ انسانوں میں پیار ومحبت نشوونُما پائے، تمام قومیں ایک دوسرے کے لیے اُنس وہمدردی کے جذبات رکھیں۔ کلیسیا اِن احساسات کو بُنیادی اہمیت دیتی آئی ہے جو تمام انسانوں میں قدرِ مشترک کا درجہ رکھتے ہیں، اور اُن میں رفاقت ودوستی بڑھانے کا سبب ہیں۔ ساری دُنیا دراصل ایک ہی سماج ہے، انسانی معاشرت ایک سی ہی ہے، سبھی انسانوں کا نقطہءآغاز ایک ہی ہے۔ خُدا نے اِس نسلِ انسانی کو بنایا اور آدم کی اس اولاد کو پھیلا کر ساری اپنی وسیع وعریض زمین پر آباد کر دِیا کہ سب ایک ہیں: ۔

اور بنی نوع انسان کی ہر ایک قوم کو ایک ہی اصل سے پیدا کِیا کہ تمام رُوے زمین پر بسیں اور اُن کی میعادیں اور سکونت کی حدود معین کیں۔ 

(رسُولوں کے اعمال 26:17)   

جیسے آغاز ایک ہے تو ایسے ہی سب کا انجام بھی ایک ہی ہے.... خُدا۔ خُدا کو پا لینا ہی سب کی منزل ہے۔ اُس کی نگہبانی ونصرت کا حصول سب کا مدعا۔ اچھائیوں اور بھلائیوں کے مظاہر کی تصریح وتوضیح اور مہربان خُدا کے رحم وکرم اور نجات وبخشش کا پھیلا ہُوا، کبھی نہ ختم ہونے والا پیار ومحبت کا سمُندر جس کا قطرہ قطرہ، بوند بوند تمام انسانوں، تمام خلقت کے لیے وقف ہے: ۔

وہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک پوری طاقت کے ساتھ پہنچتی ہے اور وہ ملائمت سے ہر ایک چیز کا بندوبست کرتی ہے۔ 

(حکمت 1:8)  

تو بھی اُس نے بھلائی کر کر کے اپنے آپ کو بے گواہ نہ چھوڑا۔ چُناںچہ اُس نے آسمان سے بارش اور خوشگوار موسم عطا کیے اور تمھیں خوراک کی فراوانی اور دِل کی خوشی بخشی۔ 

(اعمال 17:14)  

وہ ہر ایک کو اُس کے کاموں کے موافق بدلہ دے گا۔ جو نیکوکاری پر قائم رہ کر جلال اور عزت اور بقا کے طالب ہوتے ہیں اُن کو دائمی حیات دے گا۔ 

(رومیوں 7-6:2)  

وہ چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔ 

( 1۔تیموتاﺅس ۔ 4:2)  

اور یہ سب کچھ اُس دِن ہونا ہے جب چُن چُن کے سبھی کو اکٹھا کر لیا جائے گا۔ جزا وسزا کے دِن، بہ روزِ قیامت۔ 

۶۔تثلیث

مسیحیت کی تو اساس ہی ایک میں تین اور تین میں ایک خُدا پر قائم ہے جو ہماری طبیعت بُتوں کی طرف مائل نہِیں ہونے دیتی، اصنام کیسے خُدا ہو سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم مسیحی لوگ ایک خُدا کے پوجنے والے ہیں، جو واحد ہے، زِندہ، حقیقی خُدا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ نوعِ انسانی میں اتحاد واتفاق کا سرچشمہ ہے۔ ہمارا خُدا اور اُسی نے نسلِ انسانی کو روح القدس کی وساطت سے یہ مرتبہ بخشا کہ اپنی ربوبیت میں ہمیں بھی اپنا رفیق بنا لینے کا اعزاز بخش دِیا۔ 

مسیح اپنے شاگردوں سے یوں گویا ہوئے

”اگر تم مجھے پیار کرتے ہو تو میرے حکم مانو۔ اور مَیں باپ سے درخواست کروں گا اور وہ تمھیں دوسرا وکیل بخشے گا کہ ابد تک تمھارے ساتھ رہے۔ یعنی روح الحق جسے دُنیا پا نہِیں سکتی کیوںکہ نہ اسے دیکھتی ہے اور نہ اُسے جانتی ہے لیکن تم اُسے جانتے ہو کیوںکہ وہ تمھارے ساتھ رہتا ہے اور تم میں ہو گا۔ 

مَیں تمھیں یتیم نہ چھوڑوں گا۔ مَیں تمھارے پاس آﺅں گا۔ 

(18-15:14مُقدّس یُوحنّا )

اُس روز تم جانو گے کہ مَیں اپنے باپ میں ہُوں اور تم مجھ میں ہو اور مَیں تم میں ہُوں۔ 

(20:14مُقدّس یُوحنّا )

حضرت یسوع نے جواب میں اُس سے کہا، اگر کوئی مجھے پیار کرتا ہے تو وہ میرے کلام پر عمل کرے گا اور میرا باپ بھی اُسے پیار کرے گا اور ہم اُس کے پاس آئیں گے اور ہم اُس کے ہاں اپنا مقام کریں گے۔ 

(مُقدّس یُوحنّا 23:14)  

پاک روح کی وساطت سے بپتسمہ کے ذریعے تمام مسیحی کلیسا کے اراکین شمار کیے جاتے ہیں اور یوں وہ اُس مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں جس پر حضرت یسوع مسیحقائم وکاربند رہے تاکہ نسلِ انسانی کو فنا کے اُس جبر سے آزادی دِلا دیں جو اُنھیں موت کے قیدی بنائے رکھتا ہے جب حضرت یسوع مسیحکی کلیسا میں ایک بار مسیحیوں کو خُوش آمدید کہہ دِیا گیا تو اُنھیں اَبَدی زِندگی سمجھو عطا ہو گئی۔ یہ ابدی زِندگی میں داخل ہونا کیا ہے؟ یہ سعادت معمولاتِ خُداوندی میں شمولیت کا درجہ رکھتی ہے، گویا ہر مسیحی خُداوند کا فرزند ہونے کا مقام پا لیتا ہے۔ گویا اُنھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حضرت یسوع مسیحکا ساتھ نصیب ہو گیا جو تحفہ عظیم ہے کہ اُنھیں مِلا۔ اور وہ حضرت یسوع کے اِس مشن میں شریک ہو جاتا ہے کہ دوسروں کو گُناہوں کے اندھیرے پن سے باہر لے جائے۔ اِسی مقصد کے حصول کے لیے ہی تو ساری جِدّوجُہد ہوتی ہے، چُناںچہ تمام مسیحی اسرارِ ربّانی کی تقدیس وتحریم میں استقامت کے طالب ہوتے ہیں اور اِس طلب کی بارآوری کے لیے رُوح القدس کی رہنمائی کے متمنّی بھی۔

اب اُس کی جو ایسا قادر ہے کہ اُس قدرت کے موافق جو ہم میں تاثیر کرتی ہے ہماری درخواست اور خیال سے نہایت ہی زیادہ کر سکتا ہے۔ 

کلیسیا میں اور حضرت یسوع مسیحمیں نسلاً بعد نسلاً ابد الآباد تک تمجید ہوتی رہے۔ آمین۔ 

(21-20:3افسیوں)

۷۔عقیدہ تثلیث کی اصل 

عقیدہ تثلیث کے ماخذ کے بارے میں جاننا از بس ضروری ہے۔ اس کے سیاق وسباق میں ایک حدِّامتیاز روا رکھی جا سکتی ہے جو اِس عقیدے کے مواد کو اِس کے ثقافتی رنگ میں رنگے جانے سے باز رکھے۔ 

(الف) اسرائیلیوں کا شُمار خُدا کے منتخب بندوں میں ہوتا ہے اور حضرت یسوع بھی اُنھی میں سے تھا۔ اُس کے سوچ، فکر اور عمل ایک خُدا کی موجودگی کے نظریے کی رُوح میں پورے طور رچے بسے ہوئے تھے: 

اور فقیہوں میں سے ایک نے اُن کا مباحثہ سُنا اور جان کر کہ اُس نے اُنھیں خُوب جواب دِیا تو پاس آ کر اُس سے پُوچھا کہ سب سے پہلا حکم کون سا ہے؟ حضرت یسوع نے جواب دِیا کہ پہلا یہ ہے ”سُن اے اسرائیل! کہ خُداوند ہمارا خُدا ایک ہی خُداوند ہے۔ پس تُو خُداوند اپنے خُدا کو اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے پیار کر۔اور دوسرا یہ کہ ”تُو اپنے ہمسایے کو اپنے مانند پیار کر“ اِن سے بڑا اور کوئی حُکم نہِیں اور فقیہ، نے اُس سے کہا، کیا خُوب اے اُستاد، تُو نے سچ کہا ہے کہ وہ ایک ہی ہے کہ اُس کے سوا اور کوئی نہِیں، اور کہ اُس کو سارے دِل اور ساری عقل اور ساری طاقت سے اور اپنے ہمسایے کو اپنے مانند پیار کرنا سب سوختنی قربانیوں اور ذبیحوں سے افضل ہے۔ 

اور جب حضرت یسوع نے دیکھا کہ اُس نے عقلمندی سے جواب دِیا تو اُس سے کہا، تُو خُدا کی بادشاہی سے دُور نہِیں، اور بعد اُس کے کِسی نے اُس سے سوال کرنے کی جُرات نہ کی۔ 

(مُقدّس مَرقُس 34-28:12)  

صِرف اور صِرف ایک خُداے لاشریک کہ تکبّر اُسی کے لائق ہے جو وہ جھوٹے خُداﺅں کے خلاف روا رکھتا ہے بائبل مُقدّس میں اِس کے بارے میں بار بار ذِکر آیا ہے۔ حضرت یسوع مسیحنے کبھی نہِیں کہا کہ وہ خُدا ہے، ہاں اپنے آپ کو خُدا کا بیٹا ضرور کہا ہے: ۔

تو پھر تم اُس سے جسے باپ نے مُقدّس کر کے دُنیا میں بھیجا ہے کیوںکر کہتے ہو کہ تُو کُفر بکتا ہے؟ اِس لیے کہ مَیں نے کہا کہ مَیں خُدا کا بیٹا ہُوں؟ 

(مُقدّس یُوحنّا 36:10)  

اور یوں بھی ہُوا کہ محض بیٹا کہہ دیا: 

میرے باپ سے سب کچھ مجھے سونپا گیا اور کوئی بیٹے کو نہِیں جانتا سواے باپ کے اور کوئی باپ کو نہِیں جانتا سواے بیٹے کے اور اُس کے جس پر بیٹا ظاہر کرنا چاہے۔ 

(مُقدّس متّی 27:11)  

حضرت یسوع مسیحنے باضابطہ طور پر اپنے آسمانی حسب ونسب کی طرف یُوں توجُّہ دِلائی کہ اپنے آپ کو بجا طور پر ابنِ انسان کے لقب سے ملقب کِیا اور اِس کا استفادہ اُس نے دانیال نبی کے رویا سے کِیا۔ (دانیال:7

اس سِلسلے میں جو بُنیادی بات ہے وہ یہ ہے کہ خدا سے حضرت یسوع مسیحکا کچھ اور ہی نوع کا رشتہ ہے جس کی رُو سے وہ اُسے ابّاکہنے کی مجال دِکھا سکتا ہے، جب کہ خُدا کا بیٹا کہلانا یا مسیحا کے لقب سے یاد کِیا جانا حضرت یسوع مسیح کے اپنے زمانہ میں اِتنی اہمیت اور قدر ومنزلت کے خطابات والقاب نہ تھے۔ دراصل لوگوں کے فہم پر پورے ہی نہ اُترے، سروں پر سے گذر گئے اور لوگ حضرت یسوع مسیحکی ذات والا صفات کا دُرُست عرفان حاصل کرنے سے محروم رہے۔ روح القدس کے بارے میں بھی حضرت یسوع مسیحنے کم ہی ذِکر اذکار کِیا، اِس کے باوجود حال آںکہ یوں بھی ہے کہ حضرت یسوع مسیح کی زِندگی کا لمحہ لمحہ قدرتِ روحِ مُقدّس کے فیضان سے خالی ہرگز نہ گذرا۔ 

(ب) اور ایسا حضرت یسوع مسیح کی آخری اذیت اور وفات نیز حیات بعد از ممات یعنی اُس کے مصلوب ہونے اور مُردوں میں سے زِندہ اُٹھائے جانے کی منشاے الٰہی کے بعد ہی اُن کے شاگرد پیروکاروں کوروح القدس کی زبردست حوصلہ افزائی پر ہی اِس کی سمجھ آ سکی کہ اُنھوں نے حضرت یسوع مسیح کے سایہ وشفقت تلے جو وقت گُزارا اور جن مشاہداتِ حق اور تجرباتِ زیست سے گذرے وہ کتنے قیمتی بل کہ انمول تھے۔ اُنھیں تو پہچان ہی اُس وقت ہوئی یہ مسیحا، زِندگی میں، اور مُردوں میں سے زِندہ اُٹھائے جانے والا ہُوبہُوحضرت یسوع ناصری کی زِندہ مثال ہے جس کے ساتھ وہ پلے، بڑھے اور جسے اُنھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے، بقائمیِہوش وحواس، صلیب پر چڑھتے دیکھا تھا۔ اُنھیں برملا اعتراف ہے کہ وہ مکتی داتا ہے، خُود خُداوند ہے اور اپنے باپ سے ایک بے مثال اور انوکھے رشتے میں منسلک ہے، جیسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ.... بیٹا ہے خُدا کا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے تثلیث پر مشتمل زُبان وُجُود میں آتی ہے اور خطاب ابنِ خُدا .... ظہور میں آتا ہے اور روح القدس کی باتیں ہونے لگتی ہیں (ربّانی سانس، خُدا کی پھونک) جس کے ہونے کو حواریوں نے بھی محسوس کِیا ہے، بے شک وشُبہ تبھی اِن رسُولوں نے اُسے حق کی روح کے نام سے پکارا۔ یوں ہم مسیحیت کے مرکزی ومحوری اقبال تک رسائی حاصل کرتے ہیں جو کھلا اعتراف ہے کہ.... خُدا باپ ہے مُقدّس باپ، بیٹا ہے مُقدّس بیٹا اور روح ہے مُقدّس روح، اور یہ ایمانی اعتراف قائم ودائم ہے، پھر اُٹھائے گئے زِندہ مسیح خُداوند کے دم قدم سے اور اس اعتقاد کی جڑیں تمام رسُولوں کے ایمان میں پیوست ہیں۔ 

(ج)کلیسا کے مُسلّمہ عقائد سے برعکس بے شُمار عقیدے تیسری اور چوتھی صدی عیسوی کے دوران مسیحیت میں راہ پا گئے۔ چُناںچہ مذہب میں پختگی لانے کے لیے اور اِس کی حفاظت کے لیے ضروری ہو گیا کہ اِن بدعتوں سے مسیحیوں کو بچایا جائے اور اِن کا ایمان خُدا کی وحدانیت، باپ بیٹے اور روح القدس کی حقیقت کی طرف مرکوز کِیا جائے۔ چُناںچہ یہ ایک عمل تھا جو بتدریج پختہ تر ہوتا چلا گیا اور اِس فارمولے پر منتج ہُوا جو 1215ع کی چوتھی لاطران کونسل میں طے پایا جس میں وضاحت کی گئی تھی اِن تینوں ہستیوں کے بیچ تو فرق موجود ہو سکتا ہے، بے شک، مگر اِن کی اخلاقیات، قدرت وصفات اور صنائع میں ایکا ہی نظر آئے گا۔ فرق نہِیں ہو گا۔ باپ.... پہلے سے موجود ہستی ہے اور سب کا نقطہءآغاز ہے، سب کی ابتدا ہے، بیٹا.... اُس کی ہستی باپ کی عطا ہے، ازل سے ابد تک۔ روح القدس کا سِلسلہ دونوں سے جاری ہے۔ 

مختصر یہ کہ مُقدّس باپ، مُقدّس بیٹے کی اور رُوح القدس کی اصل ایک ہے۔ 

۴۔مسیحی ردِّعمل 

۱۔بغیر کِسی ابہام کے یہ بات یقینی ہے کہ مسیحیوں کا خُداے واحد پر پکّا ایمان ہے۔ مستند مسیحی علماے دین کا وُثُوق کے ساتھ یہ دعویٰ رہا ہے کہ جس کِسی بھی مخلوق کا ذِکر کِیا جائے اُس کا خالقِ حقیقی محض خُدا ہے۔ بس ایک وہی واحد خُدا۔ 

۲۔پاک تثلیث خُدا کے اُن کاموں سے ربط میں ہے جو نجات سے مُتعلّق ہیں اور اُن کی اپنی ایک تاریخ ہے اور پاک تثلیث کا عمل دخل خُداوند کی اپنی زِندگی کے اندرون خانوں سے بھی اُتنا ہی قائم ہے جتنا خُود خُداوند کا۔ یہ تعلُّق اُس کی وحدانیت پر منفی طور قطعاً اثرانداز نہِیں ہوتا۔ عِلمِ ریاضی سے مدد لی جائے تو اس میں بھلا کہاں اِتنی وسعت واستعداد کہ اِس سے خُدا کی حقیقت کو پا لیا جا سکے۔ خُدا ایک ہے، اُس میں تین اقانیم ہیں، ایک خُدا.... وہی باپ ہے، بیٹا ہے اور رُوح القدس ہے اور خُداوند حضرت یسوع مسیح پورے کا پورا انسان ہے۔ مصیبت، دُکھ، تکلیف، موت سب اُس پر اپنا اثر رکھتی ہیں۔ باپ، بیٹا، رُوح القدس یہ تینوں آسمانی نام مسیحی دِین کی اساس ہیں اور شروع زمانہ سے ہی اِس ورثے کا ایک بڑا حصہ مسیحیوں تک آ پہنچا۔ تاہم اِس کے مافی الذہن کو یوں نہ لیا جائے کہ بیٹا اور رُوح القدس خُدا سے تولد ہوئے۔ تولد کا مطلب ہرگز وہ نہِیں جو انسانوں کے دماغ میں پہلے سے موجود ہے۔ اِس سے تو نہ کوئی پیدا ہُوا نہ وہ کسی سے پیدا ہُوا۔ اِس بات پر تو مسلم ومسیحی دونوں ہی متفق ہیں۔ حضرت یسوع ابنِ خُدا تو ہے، وَلَدِ خُدا نہِیں۔ خُدا کے باپ ہونے کے ایسے کِسی تصوُّر کا مُسلمان سختی سے انکار کرتے ہیں اور یہ امر مسیحیوں کو محتاط رہنے کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ خُدا کے بارے میں زُبانوں کے استعاراتی انداز سے بے خبر نہ رہیں، مسیحیت میں بھی خُدا کی ہستی ایسی ہے جسے بیان کرنا انسانوں کے بس سے باہر ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، بہ نسبت مسلمانوں کے باپ اور بیٹے کی جو اصطلاح مسیحیوں کے ہاں مستعمل ہے وہ بہُت وسیع معانی کی حامل ہے۔ خُداے واحد کو ہی باپ کہا جاتا ہے کیوںکہ جو کچھ ہے، جو کچھ بھی، وہ اُسی کے ذریعے وُجُود میں آیا، وہی بیٹا بھی ہے، کیوں؟.... کیوںکہ وہ حضرت یسوع میں موجود ہے اور اپنی قدرتِ کاملہ سے وہ رُوح القدس بھی کہلاتا ہے کیوںکہ اپنی مخلوق کو اپنا عرفان، اپنی آگہی، ادراک بھی وہی ہے جو بخشتا ہے۔ خُدا، ایک خُدا، اُس میں کوئی کجی، خامی، عیب قطعاً نہِیں، مُکمّل ہے اپنی ذات وصفات میں، ارفع واعلیٰ، سراسر محبت، پیار ہی پیار، مَن تُو شدم، تُو مَن شُدی، وہ تین میں کا ایک ہے، ایک میں تین۔ 

۳۔جہاں سوال پیدا ہوں کہ ’نیچر‘ سے کیا مُراد ہے اور ’اقنوم‘ کی کیا تعریف ہے وہاں تاریخی حوالوں سے مدد لینی چاہیے، خاص طور پر اِس سیاق وسباق میں کہ اُس وقت شخصیت سے جو مُراد لی جاتی تھی اور جو کلاسیکل، فلسفیانہ اور دینی روایات کے مطابق کِسی ہستی کی تعریف آج ماڈرن ڈکشن میں کی جا رہی ہے دونوں میں نُمایاں فرق اور اِن کی امتیازی حیثیت کیا ہے۔ 

۴۔تین واضح اُسلُوب ہیں جن میں خُدا کی موجودگی ثابت ہے۔ وہ ہم میں موجود ہے جو اُس کا ہمارے ساتھ رشتہ اورناتا قائم ہے، اِس حوالے سے۔ یعنی بندے اور آقا کے تعلُّق کی بُنیاد پر.... وہ اپنی الٰہیاتی شخصیتوں کے بیچ موجود ہے، اُن سے اُس کے اپنے خاص تعلُّق اور واسطے کی وجہ، سے.... کِسی نہ کِسی روپ میں وہ ہر جگہ موجود ہے۔ 

۵۔عربی زُبان میں لکھنے والے بعض آٹھویں اور پندرھویں صدی عیسوی کے درمیانی عہد میں موجود مسیحی علماے دِین میں بعض استعاروں کو استعمال کرنے کا رُجحان بہُت عام تھا جن کی مدد سے تثلیث کے عقیدہ کی وضاحت میں اُنھوں نے لکھا، مثال کے طور پر آگ، آگ ایک ہی ہے حال آںکہ اِس میں شعلہ ہے، حرارت ہے اور روشنی ہے، اُنھوں نے برف کی بھی تین شکلوں کی مثال دی۔ برف، پانی، بھاپ۔ تینوں عناصر ایک میں سمائے ہوئے ہیں۔ 

۶۔روحانیت کے اعتبار سے دِینِ اِسلام میں خُداوند قدوس کے ننانوے خُوب صُورت اسماے ربّانی کی بڑی اہمیت ہے، مثلاً قادرِ مُطلق، ذوالجلال، الرحمن، الرحیم، العلیم، الخبیر، الفتاح، المنتقم.... اِن ربّانی ناموں کی تقدیس اور اسلامی کلچر میں اِن خُوب صُورت صفاتی ناموں کے اظہار سے خُداوند کریم کی ذات وصفات کی بھرپور عکاسی کرنا مقصود ہوتا ہے اور اِتنے ڈھیر سارے مختلف ناموں سے مسلم فہم وادراک ایسا تاثر ہرگز نہ لینا چاہتا ہے نہ دینا جو خُدا کی واحدانیت کے عقیدے کو ہی خطرے میں ڈال دے۔ پاک تثلیث کہ ایک خُدا میں تین اقانیم ہیں اور مسلمانوں کے ہاں 99اسماءالحسنیٰ کی روایت ان دونوں پر غور وخوض اور موازنہ کرنا ہو تو دو نکات پر توجُّہ ضروری ہے۔ اوّل یہ کہ تثلیث کے مُقدّس اقانیم کے سامنے سیدھی سی بات ہے کہ مُسلمانوں میں رائج خُدا کے یہ خُوب صُورت نام مسیحی تعلیمات سے لگاہی نہِیں کھاتے۔ کیوںکہ تثلیث کی مُقدّس ہستیاں اِس زُمرے میں آتیں ہی نہِیں، کیوںکہ اسلامی تاویلات میں یہ 99اسماے ربّانی اور صفاتِ الٰہی دراصل فطرتِ ربّانی کے مظہر ہیں، خُدا کی ذات پر موقوف ہیں، جب کہ مُقدّس تثلیث کی تینوں ہستیوں میں سے ہر ایک دِینِ مسیحی کی بصیرت کی رُو سے اپنے طور پر کامل خُدا ہے اور ہر اقنوم تمام اسماے ربّانی سے موسوم ہے۔ ماسواے اُن چند ناموں کے جنھیں مسیحی پسند نہ کریں گے، خُدا سے منسوب کریں۔ ان تینوں مُقدّس ہستیوں میں کِسی قسم کی تمیز روا رکھنے کے لیے ظاہر ہے کہ اِن اسماے ربّانی سے استفادہ نہِیں کِیا جا سکتا۔ 

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مُسلم دُنیا سوال کر سکتی ہے کہ وہ کیا وجہ ہے کہ مسیحی لوگ خُدا کے لیے فقط تین ہی ناموں کو اہمیت دیتے ہیں جب کہ خُدا کے تو بے شُمار پیارے پیارے نام ہیں جن سے اُسے پکارا جا سکتا ہے۔ تو جناب یہ وہ مقام ہے کہ نکتہ اوّل پر دوبارہ غور کر لیا جائے۔ بے شک یہ بات صحیح ہے کہ مسیحیوں کے سامنے بھی خُدا کی لاتعداد صفات نُمایاں ہیں جن سے اُسے مُتَّصِف کِیا جائے۔ مسلمانوں کے منتخب کیے گئے اسمائُ الحسنیٰ یعنی خُدا کے 99 خُوب صُورت ناموں کی فہرست کے سوا بھی ایسی صفات ہیں جن کو مسیحی اِس میں مزید شامل کر سکتے ہیں لیکن جہاں تک مُقدّس تثلیث کے ثلاثہ یعنی مُقدّس اقانیم کا تعلُّق ہے وہ یہ ہے کہ جب خُدا نے اپنے آپ کو ظاہر کرنا تھا تو وہ باپ تھا، بیٹا تھا اور رُوح تھا۔ اِسی لیے تو مسیحی ”تھری اِن وَن“ پر ایمان رکھتے ہیں، یہی مُقدّس تثلیث ہے۔ 

 

 

 

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?